Draft..........ملوکانہ درگت Royal Beatings By Alice Munro (Governor General Laureate Canada)

 


Drat

 

ملوکانہ   درگت 

Royal  Beatings

By

Alice Munro (Governor General Laureate Canada)

پیشکار:  غلام  محی  الدین  

: غلام محی الدین                                                       پیشکش:غلام محی الدینمیرانام روز ہے۔ میرے والدسپینوزا نے میری والدہ کی رحلت کے بعد فلو سے شادی رچالی جس میں سے ان کا ایک بیٹا ہے جس کا نام برائن ہے۔فلوسے میری بنتی نہ تھی۔ میں حتی الوسع کوشش کرتی کہ اس سے نہ الجھوں لیکن وہ مجھے  طعنے دے کراتنا زچ کردیتی کہ مجھے سرد مہر بننا پڑتایا اس کی بات کا ایساجواب دیناپڑتاکہ اسے غصہ آجاتااور وہ آپے سے باہر ہوجاتی اور کہتی کہ وہ مجھے ملوکانہ سزا دلوائے گی۔میں اس کی دھمکی کوایک کان سے سنتی اوردوسرے سے نکال دیتی لیکن کبھی کبھی سوچتی کہ  ملوکانہ سزاکیا شئے تھی؟میری سرشت میں تھاکہ میں نچلی نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ تصاویر بناتی رہتی۔گھر کے ہر حصے پر میں نے رنگ برنگی سینریاں بنائی ہوئی تھیں۔میں لگ بھگ  دس گیارہ سال کی تھی۔وہ کام جو فلو کے نزدیک اہم ہوتے تھے  ، میں ان سے لاپرواہی برتتی تھی ۔اس پر وہ بگڑجاتی تھی۔ہمارے تعلقات میں اوپر نیچ ہوتی رہتی تھی۔ تاہم میری کوشش ہوتی تھی  کہ خواہ مخواہ کی مصیبت سے  دوررہوںاور اسکی اس دھمکی سے فرار حاصل کروں۔

 ہم ایک دن ایوینیو مال گئے۔وہ ایک مصروف کاروباری مرکز تھا۔وہاں ہر وقت ہجوم رہتاتھا۔گھوڑوں  اور سیاہ فام غلاموں کی بھی نیلامی ہوتی تھی۔وہاں ہم نے ایک ظالمانہ  کاروائی دیکھی جس میں سفید فام  حاکم  اپنےسیاہ فام غلاموں کو بڑی بے دردی سے پیٹ رہے تھے۔ایسے وحشیانہ مناظر بہت کم دیکھنے میں آتے تھے۔اسے دیکھ کر تو ہمیں اس جگہ کوفوراً ہی چھوڑدیناچاہیئے تھالیکن فلو کی کوئی مجبوری تھی  کہ اس منظر کونہ چاہتے ہوئے بھی ندامت سے دیکھناپڑالیکن بابا اور میں  اس مکروہ اور بھیانک  صورت حال کی تاب نہ لاسکے اورہم وہاں سے نکل لئے۔بابا کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ سخت گیرتھا۔جب فلو   اس کی بات نہ سنتی یا اس کی توجہ کہیں اور ہوتی تو وہ اس کو   ہتھکڑی لگاکر پر ہاتھ جڑ دیاکرتا تھالیکن شدید مارپیٹ اس نے کبھی نہ کی تھی۔فلواپنی حزیمت کاغصہ مجھ پر نکالاکرتی تھی ۔میں کچھ کہتی تو وہ  مجھے   ڈانٹتی اور کہتی کہ اپنے کام سے کام رکھاکرو۔اگرمجھے  اس کی کوئی بات ناگوارگزرتی تو بیزاری اور ناپسندیدگی میرے چہرے پر آجایا کرتی تھی۔اس پروہ کہتی کہ میں اپنے چہرے کے تاثرات کو   ختم کروں ورنہ میرے لئے اچھانہیں ہوگا۔

ہم  اونٹاریو میں ایک   قصبے ہین ہرتھی  میں رہتے تھے جو دوحصوں مشرقی اور مغربی میں بٹاہواتھا۔ ہم ایک سٹور کے پیچھے رہتے تھے ۔ میرے خاندان میں  میراوالد، میری سوتیلی والدہ فلو، چھوٹا سوتیلا بھائی برائن اور میں(روز) رہتے تھے۔وہ سٹور کیاتھاایک  پوراگھر ہی تھاجو والد نے میری  حقیقی والدہ  کے ساتھ شادی پرخریدا تھا۔والد بڑھئی تھا اوروالدہ پارچہ جات  اورسلائی کڑھائی کی ماہر تھیں۔ بدقسمتی یہ کہ ان دونوں پیشوں سے نہ تومجھے دلچسپی تھی اور نہ ہی  مجھ میں انہیں سیکھنے کی صلاحیت تھی۔ جب بھی کوئی کام کرتی نقصان کر دیتی تھی  اور حوصلہ ہار دیتی تھی۔اس سٹور  کا ایک حصہ  تجارت  کے لئے بھی  استعمال کیاجاتا تھااور اس کی تقسیم کرکے رہائش بھی بنادی گئی تھی۔

میری والدہ جس رات فوت ہوئی  وہ بڑی بے چین تھی ۔شائد اسے اپنی رحلت کااندازہ ہوگیاتھا۔اس نے والدکوکہاکہ اسےایسالگاکہ  ابلتاہو اانڈا چھلکے سمیت اس کے ہاتھ پر آگیاتھا اور وہ شدید جلن محسوس کررہی تھی۔وہ بہت تکلیف میں تھی اور اسی  دن فوت ہوگئی۔ میں اس وقت کمسن تھی اور مجھے  اس کی کوئی بات یاد نہیں تھی۔مجھے میری والدہ کے قصے سوتیلی ماں فلو سنایا کرتی تھی جو شائد اسے میرے والد نے بتائی ہوں گی۔ والد نے اس سے شادی کرلی۔میں اپنے گھر کو ایک گودام  سمجھاکرتی تھی کیونکہ ہر جگہ بابا کاسامان بکھراپڑاہوتاتھا۔ان میں مرحومہ والدہ کے  انڈے رکھنے والے خوبصورت کپ تھے جن کے پھول بوٹےماند پڑگئے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی  قابل ذکر شئے نہ تھی۔فلو نے یقیناً بغض اور حسد میں اس کی چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرلیاہوگا۔اس نے مرحومہ والدہ کے جو قصے مجھے سنائے تھے۔اس کے بارے میں لوگ کیا کہتے تھے، وہ اس کی کن باتوں پر خفاہوتے تھے،  محلے کے لوگ کس طرح  فضولیات بکاکرتے تھے، ذکرکیاکرتی تھی۔

سٹور کے پیچھے  ایک چھپر ڈال کر  بابا   ہینڈی مین کے ادھر ُادھر کے کام کیاکرتاتھا۔وہ ہر فن مولاتھا ۔اس کے پاس  گاہکوں کی کمی نہ تھی کیونکہ  کساد بازاری کے دور میں بھی وہ  بہت کم اجرت  لیا کرتا تھا اور سرعت سے کام نپٹاتاتھا۔اس کے گاہک غریب اور نادار تھے  اس لئے وہ  واجبی مزدوری لیاکرتا تھاحالانکہ اس کی اپنی مالی حالت پتلی تھی۔اس کی طبیعت بھی خراب رہتی تھی۔وہ کھانستا رہتا تھا۔ گھر والوں کی موجودگی میں تووہ کھانسی دبا دیاکرتاتھا لیکن جب کوئی اس  کے قریب نہ ہوتاتووہ جی بھر کھانستا تھا۔اس نے فلو سے کبھی اس بات کاذکر نہ کیا کہ اس کی آمدن کتنی تھی۔اس نے کس سے کیالینادیناتھا۔  کبھی ذکر نہ کیا۔کوئی حساب کتاب نہ رکھاتھا۔اس نے دیوار پر بڑے بڑے کاغذ کے ٹکڑے لٹکائے ہوئے تھے جس پر آڑی ترچھی لائنوں میں  مبہم الفاظ لکھےہوتے تھے جن کی اہمیت وہ خود ہی جانتاتھا جیسے نئے آلو25 جون کو آرہے ہیں۔ ۔۔ایک تاریک دن۔۔۔1938 کو خوفناک  طوفان آئے گا۔۔۔جنگل میں اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی ۔۔ ۔   کلیسا ۔ ۔ ۔سٹرابیری  کو پانی میں ابال کر اس کی تیزابیت دور کی جاسکے گی۔۔۔ تمام اشیازندہ ہیں وغیرہ میرے والد سپینوزا نے لکھا تھا۔سرکاری اور نجی زمینوں پر گھاس اور تختے  کھولنے کے حق کی جگہ 'خداکی مرضی' کا تختہ لگاہواتھا۔محدود وسائل کی بدولت آمدن میں اضافے کے لئے فلو نے  اگلے حصے میں  گراسری سٹور اورجنرل سٹور بنادیا۔اس نے سوچاکہ سپینوزا نے جس نئی  سبزی    کو بوناچاہاتھا وہ گوبھی  اور براکلی  نسل کی کوئی چیزتھی جس کے بیج اس نے آسٹریلیا سے منگوائے تھے۔ اس نے وہ مجھے دکھائے اورپوچھاکیا میں اپنے والد کی شخصیت کومزید جاننا چاہتی ہوں ۔ میں اس وقت بلوغت کی حدیں چھورہی تھی۔ مجھے علم تھاکہ وہ  اس کی مزید بدخواہیاں کرے گی اسلئے میں نے اسے اس کے بارے میں مزید باتیں کرنے سے منع کردیا۔

چھجے میں مراہواایک چوہاپڑاتھا۔وہاں کوڑاکرکٹ،رنگ و روغن ،  وارنش، تارپین کاتیل، ڈبے،تیل میں تربرش اور لیسدار   چپکنے والی ادویات اور کھانسی کی بوتلیں پڑی تھیں۔لکڑی کے ُبورے اور جنگ عظیم اول کے بارود زدہ آلودفضا سے اسے دمہ اور تپ دق ہوگیاتھا۔ان دنوں سائنس اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ایسی موذی بیماریوں کاعلاج دریافت نہیں ہواتھا۔وہ مہلک بیماری سے  بغیر کسی بات کو جانے بوجھے اور افسوس کےآہستہ آہستہ مررہاتھا۔ اس کا چہرہ زرد پڑچکاتھا۔اس نے اپنی زندگی خواتین کی بے حیائی  پر تبصرہ کرتے ہوئے گزاردی تھی جو سائیکل چلایا کرتی تھیں۔جب سپینوزا کوئی اہم کام کررہاہوتا تووہ  بڑبڑایا کرتاتھا۔وہ اتناآہستہ بولتاتھا کہ سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیاکہہ رہاتھاپھراس پرکھانسی کے دورے پڑتے اور طویل خاموشی چھا جاتی  ۔ایک دفعہ اس کے منہ سے میں نے 'اڑتے ہوئے  مینار' کے الفاظ سنے ۔اس کی یہ باتیں میرے سینے کوچیرتی ہوئی نکل  گئیں۔میں وہاں سے ہٹ جاتی۔اس کے منہ سے الفاظ ایسے نکلتے تھے جیسے غسل خانے سے آیاکرتی ہے۔ میں اپناسانس روک لیتی۔میں حیران رہ جاتی۔میں سمجھتی کہ بہت ہوگیا۔مزید اول فول نہیں سن سکتی تھی۔مجھے یہ بھی ڈرتھاکہ اگر میں اس کی جاسوسی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی توکیاہوگا؟

یہ سٹور  ایساتھاکہ اس کادروازہ صحیح طورپر بند نہیں ہوتاتھا۔دیواریں لکڑی کے ریشوں سے بنی ہوئی تھیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  اگر غسل خانے  میں ٹائلٹ پیپر بھی توڑاجاتاتو اس کی آواز  باورچی خانے  اور تمام گھر میں صاف سنائی دی جاسکتی تھی۔مکین ایک دوسرے کی آوازوں سے  آشناتھے۔نرم گرم آوازوں کے تبادلے ہوتے رہتے تھے۔بسترپرہونے والی سرگوشیاں، بحث اور ڈائیلاگ  صاف سنے جاسکتے تھے۔ہم سب خودپسند تھے اور ان تمام باتوں کو نظرانداز کردیتے تھے۔یہاں تک کہ ان کا ذکربھی زبان تک نہیں لاتے تھے۔ہمارا علاقہ غریب لوگوں کی بستی  شمارہوتاتھا۔اس میں  مزدور،  نشئی، منشیات فروش، منشیات بنانے والے اور جرائم پیشہ لوگ رہتے تھے۔ابا کی یہ دکان لوہار کی دکان  جو جنگ عظیم اول سے پہلے کی تھی عبورکرکے سڑک پارتھی ۔اس پر چائے کااشتہار لگاہواتھا اسے اتارا نہیں گیاتھاحالانکہ وہاں چائے نہیں ِبکتی تھی لیکن اسے اتارا نہیں گیاتھا۔شائد اس لئے کہ وہ اسے سجاوٹ کے طورپراستعمال کررہاتھا۔اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی پگڈنڈی تھی جو بہت زیادہ ٹوٹی پھوٹی تھی۔اس محلے میں صرف ایک ہی  لیمپ  لائٹ تھی۔سڑکیں دلدلی اورکیچڑآلود تھیں۔جابجاکوڑے کے ڈھیر تھے۔بے ہنگم انداز میں  جھگیاں بنی ہوئی تھیں۔باسیوں نے اپنے تئیں کوششیں کی تھیں کہ اس جگہ کو مکمل تباہ ہونے سے بچایاجائے۔ چھپڑ، گڑھے،مینڈکوں کے تالاب،بچھو، خاردار جھاڑیوں والے درخت  اور آس پاس  کے مناظر خوفزدہ کردینے والے تھے۔مکانوں پر کاغذ تارکول، ٹینوں کے پتروں، چولہے کے پائیپوں اور گتوں سے کھڑکیاں اور روشن دان بند کئے گئے تھے۔ جنگ کے بعدتو صورت حال مزید اندوہناک ہوگئی تھی۔غربت چارسو ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی۔

فلواور  مجھ میں شروع سے ہی  ایک خاموش معاہدہ تھاجوفخر اور شکوک وشبہات کا امتزاج تھاکہ ایک دوسرے سے کم سے کم تعلق  رکھاجائے لیکن  جوں جوں وقت گزررہاتھازور میری عمر میں اضافہ ہورہاتھا غیرمحسوس طریقے سے خاردارانناس کی طرح   اختلافات بڑھ رہے تھے۔میں ان دنوں سکول  جانے والی تھی اور سوتیلابھائی برائن پنگھوڑے میں  فلوراکے ساتھ سٹور میں ہوتے تھے۔عام طورپر فلورا  اونچےسٹول پر  کاؤنٹر کے پیچھےبیٹھی ہوتی تھی ۔برائن کھڑکی کے پیچھے سو رہاہوتاتھا۔میں فرش پر  یاتوجھکی  ہوتی یاچوںچوں کرتے فرش پر لیٹ کر کرےاون  سے خاکی کاغذکو جو لکڑی کے تختوں پر چپکے ہوتےیا تو جوڑا کرتی یا اتارا کرتی  تھی۔ان کے خریدار پڑوسی تھے۔ یہ محلے کاسٹور تھا۔کچھ تو گاؤں کے دوسرے سرےسے پل عبورکرکے بھی آجایاکرتے تھے۔کئی باشندے ایسے بھی تھے جو ہمیشہ سڑک پر ہی پائے جاتے تھے یا سٹورکےباہر اتنی باقاعدگی سے بیٹھے ہوتے تھے جیسے کہ وہ ڈیوٹی پر آئے ہوں۔کئی آوارہ گرد ی کرتے رہتےاوران کو توقع ہوتی تھی کہ انہیں ہمیشہ خوش آمدیدکہاجاناچاہیئے۔ان میں ایسی ہستی بیکی ٹیڈ کی بھی تھی۔

بیکی ٹیڈکہیں سے نمودارہوئی اور بے دھڑک کاؤنٹر پر چڑھی۔ بسکت اور ٹافیوں کےجارادھرادھرکئے،اپنے لئے جگہ بنائی اور بیٹھ گئی۔

کیاان میں کچھ اچھے بسکٹ بھی ہیں؟ اس نے فلورا کوکہااورجواب کاانتظارکئے بغیر جارسے ایک بسکٹ نکال  کر منہ میں ڈالا اور پوچھا 'تم مجھے کب نوکری دوگی؟'

جاؤ اور  اپنے قصاب بھائی  کی دکان پرجاکرکام کرو۔ فلورانے جواب دیا۔

روبرٹا؟ بیکی نے حقارت سے اپنے نتھنے سکیڑتے ہوئے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔کیاتم سمجھتی ہوکہ میں اس ٹٹ پونجے کےساتھ کام کروں گی؟ اس نے ایسی آواز میں چیخ کر کہا جیسے کوئی انجن  شور مچاتا بغیر بریک لگائے تمہاری طرف سرپٹ بھاگتاآرہاہو۔

 اس کے بھائی کااصل نام رابرٹ تھالیکن رابرٹاکے نام سے جاناجاتاتھا۔         بیکی کی ُمنڈی  بہت بڑی تھی۔وہ اونچی آواز میں بولتی تھی۔وہ پستہ قامت تھی۔اس کا سینہ ہموار تھا۔نسوانی کشش اس سے کوسوں دور تھی۔اس کی گردن سرخی مائل  اور ایک طرف مڑی ہوئی تھی۔ ایسا لگتاتھاکہ اس  کی نازک گردن اس کے سر کابھاری بوجھ نہ اٹھاسکتی ہواور ایک طرف ڈھلک  کر ٹیڑھی ہوگئی ہو۔وہ اس مڑی ہوئی گردن سے آنکھیں گھماکر اوپر اورہرطرف   تیزی سے دیکھتی رہتی تھی۔وہ ہمیشہ بڑی  ایڑی والاجوتاپہنتی تھی۔ان  کووہ تھوڑابہت پالش بھی کیاکرتی تھی۔میری نظر اس  پر پڑی  تو مجھ پر دہشت طاری ہوگئی۔مجھے اس کے وجود سے خوف محسوس ہونے لگا۔اس کے قہقہوں اور اسکی  گردن سے  ڈر لگنے لگا۔اسے بچپن میں پولیو ہوگیاتھا  جس سے اس کی گردن ٹیڑھی ہوگئی  اور قد نہ بڑھ سکا۔اس کی ہیئت دیکھ کر ایسا نہیں لگتاتھا کہ وہ کبھی صحت مند بھی رہی ہوگی۔وہ مافوق الذہن تھی ۔وہ عام لوگوں کی طرح ذہین تھی لیکن وہ خود کو جان بوجھ کر کم عقل پیش کرتی تھی تاکہ لوگ اسے برداشت کرسکیں۔ اس کا والد بہت ظالم اور فاسق تھا۔ اس نے اسے منحوس قرار دے کر سکول سے اٹھوالیاتھا۔اس کے باپ نے ہر ایک سے دشمنیاں پال رکھی تھیں۔

کیا تم نہیں جانتی کہ میں  بھی کبھی اس جگہ رہاکرتی تھی۔بیکی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔'اے لڑکی۔ تمہارا کیانام ہے؟ پھر اس نے فلو سے پوچھا'کیامیں یہاں نہیں رہتی رہی۔؟

اگر تم یہاں کبھی رہی بھی ہوگی تو وہ میرے یہاں آنے سے پہلے کی بات ہوگی۔فلونےایسے کہاجیسے وہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتی ہو۔ یہ وہ عرصہ تھا جب  وہ جگہ جہاں وہ رہاکرتے تھے ، کا مقام زمین بوس ہوگیاتھا۔ باغات، پارک ،دکانیں اور مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے۔  اس سے پہلے اس کے والد کے مخالفین  نے ان کے مکان پر دھاوا بولاتھا  اور اس کے والد پر جان لیوا حملہ کرکے اسے ادھ موا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

یہ کہہ کر بیکی ٹیڈ نے پورابسکٹ منہ میں ڈال لیااور مزے لے کرکھانے لگی جس سے اس کامنہ مینڈک کی طرح پھول گیا۔اس نے اس سے زیادہ بات نہ کی۔فلواس واقعے سے پوری طرح آگاہ تھی کہ گھر سرخ اینٹیں جس میں ایک برآمدہ    تھا وہ گرگیاتھا۔اس جگہ ایک باغ بھی تھاوہ بھی بہہ گیاتھااور جو کچھ وہاں بچ گیاتھاوہ ناکارہ اور ناقابل استعمال تھا۔کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے تھے جو نحوست کاتاثر پیش کرتے تھے۔ارد گرد جو تباہی وبربادی دکائی دے رہی تھی اسکے مقابلے میں تو بیکی کے گھر کی  ابتری  ہیچ تھی۔

فلواس دور کی کہانی سنارہی تھی جب بیکی کاوالد زندہ تھا۔ اس پراس کے دشمنوں نے جان لیواحملہ نہیں کیاتھااوران کا مکان نیست و نابود نہیں ہوا تھا۔یہ کہانی نہیں تھی  یا صرف  بھیانک  ہی نہیں تھی بلکہ ہولناک تھی۔'مجھے تمہیں یہ باتیں نہیں بتانی چاہیئں تھیں۔اور میں ایک بات میں بھول گئی۔ تین بےکار آدمی جو وردی میں منڈلاتے رہتے، اکٹھے زیادہ نوجوان اکٹھے مل کر،اس قصبے کے زیادہ بااثر اورمعزز لوگ ۔۔۔ نے مل کر اس بوڑھے قصاب ٹائیڈکو کوڑوں کی سزادی گئی۔اسے  گھوڑے کے ساتھ باندھ کر گھسیٹاگیا۔وہ  اس کے بدترین مخالف  جیلی سمتھ جوکہ گھوڑسوارتھا اور بیٹ نکلٹن جو شہر کا گاڑی بان تھاجسے باؤلر کے نام سے پکاراجاتاتھانے   فخریہ انداز میں ہیٹ بناہواتھاکوئلے کی بوریوں کی باربرداری کیاکرتاتھاجس وجہ سے اس کاچہرہ اور بازو سیاہ ہوگئے تھے۔ وہ ٹیڈ کے بارے میں بغض اور کینہ رکھتاتھا۔

 ایک رات  ٹیڈڈریس پہنے سورہاتھاکہ اس کے گھر کے باہرتین لوگ بپھرے ہوئے آئے۔فلو نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور کوڑے تھے۔انہوں نے ہوائی فائرنگ کی۔وہ ٹیڈ کی تلاش میں انتقام لینے آئے تھے۔انہوں نے اس کے دروازے کوزورزور سے پیٹااور دروازہ توڑکراندر آگئے۔اس اچانک حملے سے ٹیڈ نے یہ سمجھاکہ اس کے گھرڈاکوگھس آئے  تھے۔اس نے بیکی کورومال میں رقم ڈال کردی کہ وہ ان کے حوالے کردے تاکہ وہ واپس چلے جائیں ۔اس کاخیال تھاکہ بیکی کابدصورت چہرہ دیکھ کروہ ڈرجائیں گے اوررقم لے کر چلتے بنیں گے جو حملہ آوروں نے مسترد کردی اور ٹیڈ کے کمرے میں گئےاوراسے گھسیٹ کر  گھر سےباہرلائے اور فراخدلی سے  اس کی ُدھنائی کی۔اس رات شدید سردی تھی اور ٹمپریچر منفی چار تھا۔اس پر کوڑے برسائے گھوڑے سے باندھ کے گھسیٹااور اپنی طرف سے مار کر یہ جاوہ جا۔ٹیڈ کی خوش قسمتی کہ وہ بچ گیا۔اس نے رابرٹ کو کہا کہ گھوڑے پر زین کسے ۔بیکی کو کہاکہ پانی گرم کرے تاکہ وہ اپنے زخموں کو دھولے۔ اس نے گرم کپڑے پہنے اور بضیر کچھ بتائے بیگراڈ چلاگیا۔گھوڑا وہیں چھوڑا اور ٹرین سے  ٹورونٹو چلا گیا جہاں اس نے عجیب وغریب رویہ اپنایا۔تمام راستہ بڑبڑاتااور گالی گلوچ کرتا شراب پیتا رہا ۔وہ ٹورنٹو کی سڑکوں پر لڑکھڑاتا ہوانظر آیا اور بےہوش ہوگیا۔ راہ چلتوں نے اسے ہسپتال داخل کروایا تو اس وقت وہ شدید بخار میں مبتلاتھا۔انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دی   ۔انہوں نے حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیااور انہیں گرفتار کرلیا۔ ان پر مقدمہ چلا۔ اس دوران ٹیڈ مرگیا۔رابرٹ اور بیکی جوواقعے کے وقت گھر میں موجود تھے کی گواہی لی گئی۔ رابرٹ نے تو یہ کہاکہ وہ ڈرگیاتھااور اس نے واقعہ نہیں دیکھا جبکہ بیکی نے کہاکہ  رابرٹ پہلے تو ٹیڈ کی مارپیٹ کو دیکھتارہاپھر وہاں سے بھاگ  کر کہیں چھپ گیالیکن اس نے تمام کاروائی آخر تک دیکھی۔ملزموں کی شناخت پریڈ ہوئی اور انہیں لمبی سزاہوئی۔ مجرم بااثر اور امیر تھے۔ایک سال کے اندر ہی وہ جیل سے باہر آگئے۔ علاوہ ازیں رابرٹ اور بیکی نے بھی مقدمے میں  دلچسپی نہ دکھائی کیونکہ انہیں  معقول رقم مل گئی تھی۔

ٹیڈ کے ساتھ حادثے کے بعد بیکی کے خاندان پر یہ آفت نازل ہوئی کہ وہ تمام علاقہ ہی زلزلے کی وجہ سے زمین بوس ہوگیا۔وہ کافی عرصہ در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے پھر  مقدمہ جیتنے پر رابرٹ کورقم ملی تواس نے  ہین ہرٹی میں ایک مکان اور دکان خرید لی۔وہاں قصاب کی دکان کھول لی۔بیکی اس کے ساتھ رہنے لگی۔محلے دار اس سے بیکی کے رویے کے بارے میں پوچھ پوچھ کر زچ کرتے رہے۔وہ اب کیا کرتی ہے۔ کیا وہ اس کے لئے کھانا بناتی ہے۔ اس کا پولیو سے متاثر جسم اب کیسا ہے وغیرہ وغیرہ۔بیکی کی یہ سوانعمری تھی۔ فلو نے ٹھنڈاسانس لئتے ہوئے کہا۔یہ کہانی غمزدہ کر دینے والی تھی۔اس لئے اسے سن کر فلو کے ساتھ ساتھ میں بھی افسردہ ہوگئی۔

فلو اس وقت تیس کے پیٹے میں تھی لیکن  وہ ایسے کپڑے پہنتی تھی جو تارک الدنیا لوگ پہنتے ہیں۔ پھولداراور  ڈھیلے ڈھالے جو خواتین گھروں پیں پہنتی ہیں ۔وہ جین، پتلون اور پاجاموں  سے نفرت کرتی تھی۔فیشن ایبل کپڑوں سے اسے کراہت آتی تھی۔وہ اپنے بالوں کو کانوں سے نیچے نہیں آنے دیتی تھی اور ان کی خود ہی تراش خراش کرتی تھی۔وہ  دبلی پتلی، زرد ، چھوٹی کلائیاں، ، چہرے پر چھائیاں،چھوٹا سر اور  چھوٹی چھاتی والی تھی۔وہ اگر خود کو ڈھنگ سے رکھتی تو وہ خوبصورت تھی لیکن جس حلئے میں وہ رہتی تھی اس میں وہ عجیب و غریب لگتی تھی۔وہ بیک وقت نرم بھی تھی اور سخت فطرت بھی۔وہ ُسر میں تھی۔اکثر یہ گانا گنگنایاکرتی تھی۔

سگریٹ کے درختوں میںمکھیوں کی بھنبھناہٹ

اور سوڈے سے بھرے فوارے۔۔۔

میں نے فلوراکی پرانی زندگی دیکھی تھی۔وہ اسے اس وقت سے جانتی تھی جب وہ کنواری تھی۔وہ  ٹورنٹو  میں ایک کافی پر ایک ویٹرس تھی۔وہ  اپنی سہیلیوں میویس اور آئرین  کے ساتھ سنٹرل آئی لینڈ پر تفریح کیاکرتی تھیں۔ان کاپیچھاتاریک اور سنسان مقامات پر اوباش کیاکرتے تھے۔میں نے فلوکی زبانی شہروں کی  اخلاقی ،  سماجی گراوٹ  اور آپادھاپی کے بارے میں سناتھا۔وہ لوگ گم چباتے ہوئے باتیں کیاکرتے تھے۔وہ آہستہ آہستہ اٹھی اور گنگناناشروع کردیا۔

اور اس نے صرف یہی کہااور جووہ ہمیشہ کئے گی

ایک نوجوان تھا،میں سوچتی ہوں کہ تم مررہے ہو!

میں نے فلوکی زندگی کے بارے میں سوچاکہ اس نے جوبتایا  ، اس سے پہلے بھی اس کی  زندگی ایسی تھی جواس نے کسی کو بیان نہیں کی تھی جواس نے کسی کوبیان نہیں کی تھی جو کھچاکھچ اور افسانوی  تھی جو باربراایلن اور بیکی ٹیڈکے باپ کے ساتھ تھی۔ان کے ساتھ ہرقسم کے غیروغضب ، سزااور افسوس ناک واقعات رونماہوتے رہتے تھے۔

ملوکانہ زدن   سے  تم کیامراد لیتی ہو؟

ایک ہفتے کو ہی فرض کرلیں۔پتے ابھی کھلے نہیں لیکن سورج کی روشنی  پھیل رہی ہے۔گڑھے پانی سے بھرے ہوئے  ہیں ۔سورج کی روشنی پھیل رہی ہے۔ فلورا اتوار کو مجھے گھر اکیلاچھوڑکر چلی جایاکرتی تھی۔اس کی غیرموجودگی میں سٹور میں چلاتی تھی۔یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری تھا۔ یہ ٖفریضہ  میں اس وقت سے کررہی ہوں جب میں بارہ سال کی تھی۔فلو اس دن پل عبورکرکے  شہر جاتی تھی۔ سٹور کے لئے خریداری کرتی، لوگوں سے میل ملاقاتیں کرتی اور  علاقے کی تازہ ترین صورت حال  معلوم کرتی۔اس کے ملاقاتیوں میں  اطالوی کلیسا کے پادری    کی بیوی مسزلائر                         ڈیویز ، ریکٹر مسٹر سمتھ اور جانوروں کی ڈاکٹر   میکی  تھی۔ وہ گھر آئی اور ان کی آوازوں کی نقل اتارنا شروع کردی۔ ان کی حرکات و سکنات  احمقانہ حد تک شوخیانہ   تھیں جن کی بدولت وہ  جن اور وحشی   لگتے تھے۔

جب اس نے خریداری مکمل کی توکافی پینے کوین ہوٹل چلی گئی۔وہاں اسے سگریٹ پینے کی خواہش پیداہوئی ۔اس نے سگریٹ ہونٹوں میں پکڑااور  سلگانے کے  لئے پرس سے ماچس نکالنے لگی تو کسی نے فوراً جلتی ہوئی دیاسلائی  اس کی سگریٹ کے آگے کر دی ۔ فلو نے سگریٹ سلگا کر دیکھا تو وہ  دوسرے مسئلک کاپادری تھا۔فلو نے اس کاشکریہ ادا کیااور بات آگے نہ بڑھائی کہ کہیں وہ اپنے مکتبے کی طرف مائل کرنے کے لئے تبلیغ شروع نہ کردے۔

ایک اور روز جب وہ اپنے گھر آرہی  تھی تواس نے پل کے ایک کمرے میںایک لڑکے کو دیکھاجس نے نیلی جیکٹ پہنی ہوئی تھی اوربظاہر وہ  بہتے ہوئے پانی کو گھوررہاتھا۔اس   کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔وہ لاغرتھااور نقاہت سے اس کی گالوں کے ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں۔وہ کسی پریشانی میں مبتلاتھا۔کیاوہ دریا میں کود کر خود کشی کرنے جارہاتھا۔وہ اسے روکنے کے لئے جوں ہی آگے بڑھی   لڑکا سیدھاہوااور فلو کی طرف دیکھا۔اپنی جیکٹ اور پتلون اتاری ۔سردی شدید تھی۔فلو نے بچنے کے لئے اپنے گرم کوٹ کے کالر بند کئے ہوئے تھے۔لڑکے کے ایسا کرنے سے فلوکو خدشہ ہوا کہ وہ لڑکاٹھٹھر جائے گا۔فلو نے دیکھاکہ لڑکے کے ہاتھ میں ٹماٹر کی چٹنی کی بوتل تھی جسے اس نے فلو کے آگے کردیااور مغلظ گفتگوکرنے لگا۔اس نے دھمکی دی کہ اگر وہ اپنی خیر چاہتی ہے تو وہاں سے نہ ہلے۔اس کے سٹور کے آگے بیٹھے ناکارہ بوڑھے اور اوباش جوانوں سے تووہ اس قسم کی توقع کرسکتی تھی لیکن اس نوجوان سے نہیں۔ فلو نے اس کی بات پر غصہ کرتے ہوئے اسے کہاکہ اپنی بکواس بند کرے۔

اگلی اتوار فلو کی طبیعت خراب تھی  اور اس نے  خریداری پر نہ جانے کاسوچا۔اس روز اس کا مزاج بگڑاہواتھا۔ اس کا موڈ اس وجہ سے نہیں بگڑاتھا کہ لوگ اس  کاقرض واپس نہیں کررہے تھے یا اس  نے کسی کاادھار دیناتھا اور اس کے پاس اتارنے کا بندوبست نہیں تھا۔ اس نے میرے ساتھ  الجھنا شروع کردیا ۔ اس کی چیرہ دستیوں میں روز بروز اضافہ ہورہاتھا ۔اس کارویہ میری طرف روزبروز تلخ ہوتاجارہاتھا۔اس کے اعتراضات میں اس طرح تسلسل پیداہوتاجارہاتھا جیسے خواب ایک لڑی میں  آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرااور دوسرے سے تیسرا علیٰ ہٰذالقیاس۔فلو باورچی خانہ صاف کر رہی تھی۔اس نے تمام کرسیوں کی جھاڑپونچھ کی، کاؤنٹر صاف کیا اور رگڑرگڑ کر فرش صاف کرنے لگی۔ وہ اس میں پڑی اشیاکو اسطرح ترتیب دے رہی تھی کہ اس میں گنجائش پیدا کرکے سٹور کی مزید اشیاکاذخیرہ اس میں کیاجاسکے۔وہاں اس نے شربت کے ڈبے،کوئلہ جلانے والا تیل، سرکے کے ٹین وغیرہ رکھنے تھے۔برائن اس وقت چھسال کاتھااور وہ سامان کی ترتیب میں اس کی مدد کررہاتھا۔

فلو  نےفرش صاف کرتے ہوئے  اپنی کہانی اس جگہ سے شروع کی جہاں  سے اس نے روکی تھی۔ فلو نے مجھ پراعتراض لگاتے ہوئے کہاکہ میں  برائن کو بری باتیں سکھارہی ہوں۔

میں نے اسے کون سی غلط باتیں سکھائی ہیں؟میں نے اسے جوجوسکھایا ہے اس سے زیادہ وہ نہیں سیکھ سکتا۔

باورچی خانے سے چھجے   تک داخل ہونے میں ایک سیڑھی چڑھناپڑتاتھا۔اس پر قالین طرز کی کوئی شئے پڑی تھی جواتنی پرانی ہوچکی تھی کہ اس کے نقوش  تقریباًمٹ چکے تھے۔باورچی خانے کا تھوڑا سا حصہ چھجے میں بھی تھا۔برائن نے وہ ٹکڑا اٹھایااور گھسیٹا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے 'وینکوور دے دو'  ۔برائن  نےمیری طرف دیکھا۔میں نے اس سے دوبارہ کہا' وینکوور مجھے پکڑادو'

وہ ابھی کچے ہیں۔وہ ابھی تک فرائی نہیں ہوئے۔

اچار دے دو۔

وہ سیل بند ہیں۔

کیایہ ہے گندی بات!

 میں  ان باتوں کو  اس وقت سے جانتی تھی جب پہلے دن سکول گئی تھی ۔ واپسی پر اس نے فلوسے پوچھاتھاکہ وینکوور کیاہے۔

یہ ایک شہر ہے جواسمقام سے ہزاروں میل دور ہے۔

اس شہرکے اطراف میں کیاہے؟

یہ بات کرنے کا مقصد کیاہے؟

تمہاری دلچسپی کے لئے اتناہی کافی ہے کہ وہاں  کی خوردونوش اشیا مشہور ہیں اور میں تمہیں وہ کھانے میں دوں گی۔اگراس پر مزیداستفسارکیاتومیں تمہیں تھپڑ ماروں گی،اس نے ناک میں کہا۔

یہ بات  اس نے برائن کوبھی کہی۔میں تو سٹ پٹاکررہ گئی لیکن برائن چونکہ لڑکاتھا اس پر میری طرح کوئی قدغن نہیں تھا ۔اسے گھریلوکام  کاج م نہیں کرنے پڑتے تھےاس لئے وہ اس کی بات پردھیان دئے بغیر بھاگ گیااور کھیلنے لگا۔میں وہاں بیٹھی کڑھتی رہی۔فلو نے برش  اور صاف پانی کی بالٹی اٹھائی اورمیلے کپڑےاور پیڈ سے فرش کو زورزور سے رگڑکرصاف کرنے لگی۔میں اس وقت کھانے کی میز پربیٹھی ہوئی تھی۔سامان پورے باورچی خانے میں ادھر ادھر بکھرنے کی وجہ سے وہی جگہ تھی جہاں  میں بیٹھ سکتی تھی۔میں نے  نیکر پہن رکھی تھی جو فلونے مجھے پچھلے سال خرید کردی تھی جوبوسیدہ حالت میں تھی۔فلونے میز کے نیچے رینگ کرفرش صاف کیا ۔فلوکی ٹانگیں لمبی  اور سفید تھیں جس سے نیلی نیلی وریدیں  ایسا منظر پیش کررہی تھیں جیسا کہ نقشے پر دریا ظاہرکرنے کے لئے نیلےرنگ  کی لائینیں لگادی گئی ہوں۔اس کے چہرے سے غصہ اور نفرت ظاہرہورہی تھی۔

ہم دونوں کو چاروناچار  ایک دوسرے کوبرداشت کر ناپڑرہاتھا۔فلو اپنے بیٹے برائن کی تربیت کے بارے فکرمندتھی جوروزبروز سرکش ہوتاجارہاتھا۔مجھ سے وہ ہروقت اس لئے نالاں رہتی تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ وہ مجھے پال رہی تھی اور میں اس بات پر اس کی احسان مند نہیں تھی۔وہ مجھے اس بات کااحساس دلاتی کہ میں بےوقعت ہوں۔میری کوئی حیثیت نہیں۔فلو کے مطابق اس نے  میرے رنڈوے والدسپینوزا سے  ننھی سی بچی   کی (یعنی میری) بے بسی پر ترس کھاکرشادی کی تھی اور آج میں اسے اس کے گھٹنوں پرجھکارہی تھی۔میں اس کے طعنوں کی عادی ہوگئی تھی اس لئے کوئی ردعمل نہیں دیتی تھی۔

اس قت گھنٹی بجی جس کامطلب یہ تھاکہ کوئی گاہک آیا تھا۔اس وقت فلواور مجھ میں رسہ کشی جاری تھی  اس لئے میں باہرنہ گئی تاکہ اس گاہک کو خریداری میں مدد کروں۔میری بے حسی دیکھ کر فلو اٹھی،اپنا ایپرن اتارااور بڑبڑاتی ہوئی سٹور میں چلی گئی اور گاہک سے بالکل نارمل انداز میں باتیں کرنے لگی۔ فارغ ہونے کے بعدوہ واپس آئی اور تن تناتی ہوئی  مجھ سے دوبارہ محاذ آرائی پر آمادہ ہوگئی۔

تم خود غرض ہو۔اپنے مفاد کے سوا تمہیں کچھ نظر نہیں آتا۔صرف اپنے بارے میں سوچتی رہتی ہو۔کبھی کسی دوسرے کا نہیں سوچا۔تمہیں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ میں تمہارے لئے کیاکیا کیا ہے۔فلو نے کہا۔

میں نے توتمہیں کبھی نہیں کہاکہ تم میرے لئے کچھ کرو۔ میری دلی خواہش ہے کہ تم میراکام کبھی نہ کیاہوتا۔میں تمہارے بغیر ہی اچھی رہتی۔ میں نے مسکراتے ہوئے  یہ بات آہستہ سے  اس وقت کہی جب وہ  دوبارہ سے جھک کر میز کے نیچے رگڑائی کے لئے جانے والی تھی۔ فلو نے میری طنزیہ مسکراہٹ  اور فقرہ سن لیا اس نے وہ میلا کپڑا جس سے وہ فرش صاف کرنے جارہی تھی زور سے مجھ پر دے مارا جومیرے ٹخنے پر لگا۔میں  نےوہ اٹھایااور اپنے گھٹنے پر رکھ کر گھمانے لگی۔

تم نے یہ بات ٹھیک لمحے میں کی ہے  اس نے پھنپھناتے ہوئے کہااوریہ کہہ کر وہ اس چھجے کی طرف  گئی جہاں اس کے والد کی دکان تھی۔اس نے سپینوزاکوآواز دی۔اس نے اسے تحکمانہ انداز میں بلایا۔اس کا بلاوااحمقانہ تھا۔اس کاانداز کچھ ایساتھاجیسے وہ اسے کوئی بری خبر بتانے جارہی تھی۔باورچی خانے کے فرش پرپانچ چھ نمونے بنے ہوئے تھے جن کی شوخی ماند پڑگئی تھی۔اسے فلو نے بے ڈھنگے پن سے جوڑاتھا۔ان کے حاشیے پر ٹین کی پتریاں  لگادی گئی تھیں۔میں اس وقت غورسے اس کی ایک ایک حرکت کا جائزہ لے رہی تھی۔میں  نےاسے لکڑی کے چھوٹے کمرے سے واپس آتا دیکھا۔اس کے قدموں سے  ڈھیلےفرش کے چوں چوں کرنے کی آواز سنائی دی۔فرش مٹی سے بھراتھا۔وہ ادھر ادھر چکر لگاکر کسی شئے کاانتظارکررہی تھی۔فلواور میں اس بات کاانتظارکر رہی تھیں کہ آگے کیاہونے والا تھا۔ میں نے اپنے والد کو اپنی طرف آتا دیکھا۔سخت غصے میں اس کا چہرہ بگڑاہواتھا۔اس کا طیش دیکھ کر مجھ پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے لیکن میں نے اپنے چہرے کو پرسکون بنانے کی کوشش کی۔میرے ذہن میں اپنے والد کی وہ گالیاں اور فقرات گونجنے لگے جو وہ ماضی میں بولاکرتاتھا۔میرے کان میں باپ کی آواز آئی۔

یہاں کیا گڑبڑ ہے؟َمعاملہ کیاتھااور اسے کیوں بلایاگیا؟میں نے فلو کی آواز سنی۔وہ ڈوبتے ہوئے زخمی لہجے میں ایسےبولی جیسے اس پر بہت بڑاظلم کیاگیاہو۔اس نے کہا کہ میں تمہیں یہاں بلانے پر بہت معذرت خواہ ہوں لیکن تمہیں بلائے بغیر نہ رہ سکی کیونکہ تمہاری بیٹی کا رویہ میرے  ساتھ بہت ہتک آمیز تھا۔اس کی زبان گزبھر کی ہے۔اس نےمجھ سے ایسے بات کی ہے جس سے میرا کلیجہ اپنی بے عزتی پر پھٹ گیا ہے۔اس نے مجھ سے زبان درازی کی ہے۔فلو نے روزپر جس طرح کے سنگین الزامات لگائے ایسے الزامات اگر والد کی ماں پربھی لگائے ہوتے تو وہ  بے عقل اپنی ماں کوبھی زمین پردے مارتا۔

میں نے اپنے دفاع میں کہناچاہاکہ فلو صحیح نہیں کہہ رہی تھی لیکن والد نے ہاتھ اٹھاکر مجھے منع کردیا۔میری طرف دیکھے بغیر کہا۔'تم خاموش رہو۔'اس کے باوجود میں نے کہاکہ فلوصحیح نہیں کہہ رہی تھی تواس وقت میرامقصد یہ تھاکہ جھگڑامیں نے شروع نہیں کیاتھابلکہ اس کی باتوں کے جوابات دئیے تھےاور فلو مبالغہ آمیز حد تک دروغ گوئی کی مرتکب ہوئی تھی جو باتوں کوتوڑموڑ کر اس انداز میں بیان کررہی تھی جیسے وہ دودھ کی دھلی ہواور میں تمام برائیوں کی جڑ تھی۔میرا والد بڑے غور سے بہتان سن رہاتھااور اس کاپارہ چڑھ رہاتھا۔فلو جس طرح کا نتیجہ حاصل کرناچاہتی تھی ایسالگ رہاتھاکہ وہ اس میں کامیاب ہونے جارہی تھی۔میری کوئی وقعت نہیں رہ گئی تھی۔فلو کے گھٹنے اس پر پیڈ چڑھانے کے باوجود گندے تھےاوررگڑنے والا میلاکپڑا جواس نے مجھ پر کھینچ کر ماراتھاابھی بھی میرے پاؤں پر لٹکا ہواتھا۔

میراوالد فلوکی شکائت کو  بڑے تحمل سے سنتا ہےاورسنتے وقت اپنے ہاتھ صاف کرتا ہے۔وہ ذہین نہیں۔باتوں کودیر سے سمجھتا تھا۔وہ مزدوری کرکے تھکاہوابھی تھا۔اسے شائد اس وقت اس بات کااحساس بھی ہواتھاکہ وہ سربراہ خانہ تھااور اسے اپنی مردانگی ضرور ثابت کرنا چاہیئے تھی۔فلو نے اسے شہہ دیتے ہوئے کہاکہ اس کی بے عزتی اور میری حکم عدولی اور ہٹ دھرمی کا فیصلہ کرنے کے لئے کسی باہر والے شخص کی مداخلت کی ضرورت نہیں اور وہ خود ہی اس کا فیصلہ کرے۔یہ کہہ کر فلو سٹور کا اور وہ دروازہ بند کردیا اور گتہ کھڑکی میں رکھ دیا جس پر لکھا تھا ' جلد ہی واپس آجائے گی'۔ یہ لکھائی میری تھی جس پر میں نے بڑے ڈیزائن اور خوبصورت رنگوں میں لکھا تھا۔اس کے بعدوہ سیڑھیوں اور لکڑی کے چھوٹے چھجے کے دروازے کو سختی سے بھیڑ دیتی ہےاہر جاتاتھااور میں باورچی خانے تک ہی محدود ہوگئی۔اس کے بعد فلونےبےبسی کی کمال اداکاری کی اورانتہائی غمناک آواز میں ایسے کہاجیسے اس کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہوں۔اس نے جھک کر اپنے گندے گھٹنوں کودیکھااور کہا۔اوہ!میں نہیں جانتی اس لڑکی کا کیاکروں۔اس نے مجھے دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ زورزور سے مل کر اپنے ہاتھوں پرجمی ہوئی مٹی کواتارا۔وہ میری بے عزتی کی ہے۔اس نے بارباراورہمیشہ ایساکیا ہے ۔اس کے نزدیک میری کوئی اہمیت نہیں۔

اس کی یاوہ گوئی سن کر میں نےسٹپٹاکرکہاکہ فلوصحیح نہیں کہہ رہی۔

تم چپ رہو بدتمیز۔والد نے کہا۔

اگر میں اس وقت تمہارے باپ کونہ بلاتی تونہ جانے تم میرے ساتھ کیاکرتی؟تمہاراعلاج ملوکانہ سزا ہے۔اس کے علاوہ تم سدھر نہیں سکتی۔ فلونے فیصلہ صادرکردیا۔

میں  نےاس کے مسلسل جھوٹ پر احتجاج کیالیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔حقیقت اس کے برعکس تھی۔اس نے مکاری سے مجھے قصوروار قراردےدیاتھا۔والدنے اس کی باتوں پر یقین کرلیااور میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھنے لگا۔اس کی آنکھیں شعلے برسارہی تھیں۔میری چھٹی حس نے خبردارکردیاکہ اس نے میرے بارے میں کوئی خطرناک فیصلہ کرلیاتھا۔والد کی آنکھوں میں میں نے نفرت دیکھی۔فلو اپنی شکایات  کااثر دیکھ کر راحت محسوس کررہی تھی۔اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آرہے تھے۔

والد نے فلوکوچپ کرادیااور کہا'ٹھیک ہے۔لاتوں کےبھوت باتوں سے نہیں مانتے۔'

کیاتم اس کو بیلٹ سے ماروگے؟میرے خیال میں یہ کچھ زیادہ سزانہیں ہوگی؟فلو نے کہا۔وہ اس کی بات کاجواب نہیں دیتا۔اس نےاپنی بیلٹ کاکنڈاکھولااور بیلٹ آہستہ آہستہ پینٹ سے باہر نکالی۔اس کاایک سرااپنے ہاتھ کے گرد لپیٹا۔اس کاچہرہ سفاک ہوجاتاہے۔وہ میری طرف ایک باؤلے کتے کی طرح بڑھتاہے۔اسے اس حالت میں دیکھ کر میں میں میز کے نیچے دبک گئی۔سچ کیا تھا، جھوٹ کیا تھاتک پہنچنے کی اس نے کوئی کوشش نہ کی۔فلو نے جو بتایااس پر تہہ دل سے یقین کرلیاتھا ۔وہ اداکاری نہیں کررہاتھا۔اس نے مجھے  بازو سے پکڑکر میز کی نیچے سے نکالا۔ اس کی وحشت دیکھ کر مجھ احساس ہوا کہ لوگ قتل      کیوں اور کیسے کرتے ہیں۔وہ اس وقت ہذیانی کیفیت میں مبتلاتھا اور مجھے شدیدسزا دینااس کوواجب لگ رہاتھا۔ وہ میری ملوکانہ سرزنش کرناچاہتاتھا۔        مجھے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوگیاتھا ۔میں بے بسی کی حالت میں سہم کر کھڑی رہی اوراپنے باپ کی طرف نہ دیکھاجواسوقت چمڑے کی بیلٹ پتلون سے نکال کر اس کاایک کونا اپنے ہاتھ پر لپیٹ رہاتھا۔اس کارویہ دہشت پیداکرنے والاتھا۔

اپناہاتھ باہرنکالو!

اب  دعابھی میری مدد نہیں کرسکتی تھی۔اسے کوئی بھی بچانہیں سکتاتھا۔آس پاس مخالف ہوگیاتھا۔کمرے کی ہر شئے میں مخاصمت ،عداوت،کینہ پروری  اور عیاری نظر آرہی تھی ۔ایک زناٹے دار  وار ہواتومیں نے اپناہاتھ پیچھے کھینچ لیااور کمرے میں ادھر ادھر بھاگناشروع کردیا۔میں دروازے کی طرف بھاگتی ہوں لیکن وہ تو فلو نے پہلے ہی بند کردیاہواتھا۔میرے والد نےمیرارستہ روک  لیا۔اس کے دل میں میرے لئے رحم کاشائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا اور وہ شاہانہ  اور فراخدلانہ سزادینے کے درپے تھا۔میں  نے معافی مانگی۔اس نے سنی ان سنی کردی۔اس نے بیلٹ سے ضربیں لگاناشروع کردیں۔میرا سر چکرایا ۔میں نے دیوار کاسہارالیاتواس نے تھپڑوں ،گھونسے اورمکوں کی برسات شروع کردی۔میرے پاؤں اور ٹانگوں پر زوردار دولتیاں ماریں۔میں درد  سے بری طرح چیخی اور گڑگڑاکر معافی مانگی اور کہاکہ  اس بار مجھے معاف کردو۔۔۔پلیزمجھے معاف کردو۔آئندہ فلو کی ہربات مانوں گی لیکن میری التجاکااس پرکوئی اثرنہ ہوا۔اس پر ہیجان طاری تھااور

وحشیانہ انداز میں میری جان لیناچاہتاتھا۔ اس کی یہ وخشت اور دیوانگی دیکھ کر فلوبھی پریشان ہوگئی۔وہ یہ تو چاہتی تھی کہ  میراوالدسزادے لیکن ملوکانہ سزاکے حق میں نہیں تھی کہ میں اس سے مرہی جاؤں ۔فلو چیخی اور کہا 'رک جاؤ۔اب مارنابندکرو۔!

ابھی نہیں۔اس نےمجھے زمین پر پٹخ دیایامیں نے خود کوبچانے کے لئے زمین پر لٹاادیا۔اس نے مجھے ٹھوکریں لگاناشروع کردیا۔ میں  پھیپھڑوں سے زورلگاکر چیخنے لگی۔اس نے مارناجاری رکھا۔یہ دیکھ کر فلورونے لگی اور سختی سے کہاکہ مارنابندکرو۔اگر کسی نے اس کی چیخیں سن لیں  توہم سب مشکل میں پڑجائیں گے۔فلوکی آواز درخواست والی اور ملتجانہ تھی۔

میں نےوہی کیاہےجوتم چاہتی تھیں۔والد نے جواب دیا۔

اب اس نےمجھے مارنابندکردیاتھا۔وہ ہانپ رہاتھا۔اس نے مجھے فرش سے اٹھایااورمجھے فلو کی طرف  دھکادے کرکہاکہ اسے کہو کہ اب جلدی سے اپنے کمرے میں  چلی جائے۔فلو دروازہ کھول

دیتی ہے۔میں ڈگمگاتے قدموں سےسیڑھیاں چڑھنے لگی توکمرے پر جانے سے پہلے  سیڑھیوں پرہی گرگئی ۔میں درد سے بے حال تھی لیکن چیخ نہیں رہی تھی کیونکہ مجھے خدشہ تھاکہ آواز سن کر مجھے مزید مارے گااور سختی سے خاموش رہنے کاکہے گا۔

میں نے ان کی آوازیں سنیں۔سپینوزا فلوکوکہہ رہاتھاکہ روز کی آواز نہیں نکلنی چاہیئے۔اسے خاموش رہناہوگا۔میں نے تمہارے کہنے پر اس کی جان لیواپٹائی کرکے اسے سبق سکھایا ہے۔اب وہ تمہاری ہربات مانے گی۔اگر تم اس کی شکائت نہ لگاتی اورزورنہ دیتی تومیں یہ سب نہ کرتا۔اس پرفلورانےکہاکہ اس کایہ بالکل مقصد نہیں تھا۔وہ دونوں میرے بارے میں مسلسل باتیں کرتے رہے۔فلورا کی خوفزدہ آوازآتی رہی جو آہستہ سے بلند سے بلند ہوتی گئی۔وہ مسلسل بولتی رہی اور سپینوزاخاموشی سے سنتارہا۔میری ہچکیاں  رکنے کانام ہی نہیں لےرہی تھیں۔جوں جوں وقت گزرتاجارہاتھافلورا کی آوازمیں تندی آتی جارہی تھی۔میں نے زبردستی اپنی ہچکیوں کوآہستہ کیاتاکہ ان کی گفتگوسن سکوں۔میں اس بات پر حیران ہوئی اور سکتے میں آگئی جب فلومیری حمائت میں بولنے لگی۔

اگروہ اس وقت مرجاتی؟فرض کرووہ خودکشی کرلے ۔فرض کرووہ گھر سے بھاگ جائے۔فرض کروکسی نے اس کی چیخیں سن لی ہوں ۔فرض کرووہ پولیس کورپورٹ کردےتوکیاہو؟َاس صورت حال میں سب کچھ ممکن تھا۔اب اس کی مرضی وہ کون سا راستہ اپنائے۔اسے ان میں کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے روکناہوگا۔اگر اس وقت اس سے محبت اور شفقت سے پیش آیاجائے تو بات بن سکتی تھی۔اس کے بعد ایک خاموشی چھاگئی۔

تم نے نشے میں اپنے ہوش و حواس کھودئیے۔خودکومحفوظ سمجھااوراپنی بیٹی کےساتھ بہیمانہ سلوک کرتے وقت خودکوراہ راست پرسمجھا۔اس ملوکانہ گوشمالی پرتمہاری زندگی عذاب میں بھی مبتلاہوسکتی ہے۔ میں نے فلوکویہ کہتے ہوئے سنا۔میں نے اس کے ساتھ فلوکوسیڑھیاں چڑھتے ہوئے سنا۔وہ میرے پاس آتی ہے۔میں اس وقت سیڑھیوں پر ڈھیرتھی۔اس نے مجھے پیار سے اٹھایااوربسترپرلٹادیا۔وہ مرہم لائی اور میرے زخموں پر لگایااور مجھے پچکارنے لگی۔فلو نے سوچاکہ ایسی اذیت اسے دی گئی ہوتی تواس کاکیاحال ہوتا۔میں اس کے رحمدلانہ رویے کوطول دیناچاہتی تھی تاکہ اس  کواس کے ظلم کااحساس دلاسکے اور اوندھے منہ لیٹی رہی۔

اوہ!تمہاری اتنی بری حالت نہیں۔فلونے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔فکر نہ کرواس  دل لبھانے والی خوشبودار مرہم سے  جلد ہی ٹھیک ہوجاؤگی۔وہ چالاکی سے مجھے رام کررہی تھی۔میں مزاحمت کررہی تھی۔اس نے ہار مانتے ہوئے کہا۔تم جیت گئیں۔میں نے یہ ڈبیایہیں چھوڑدی ہے۔جب تمہاراجی چاہیے اسے اپنے جسم پر مل لینا۔تھوڑی دیربعد ایک ٹرے لےکردوبارہ آئی اور میرے پاس آکربیٹھ گئی۔اس میں ایک گلاس میں چاکلیٹ دودھ تھاجومیرامرغوب مشروب تھا۔ ایک  عمدہ سینڈوچ  اور بہترین قسم سالمن مچھلی اور سرخ رنگ کی مایونی تھی جومیری اشتہا میں اضافہ کررہی تھی۔ اس کے ساتھ   میرا پسندیدہ مکھن اور بیکری کے پیکیج  کے بسکٹوں کاڈھیرتھا۔اتنی زیادہ اشیااوروہ بھی میری پسندیدہ ترین  ایک وقت میں اتنی ساتھ دیکھ کرمیں دکھ درد بھول گئی۔کچھ دیر بعد فلوآئی اور خالی برتن اٹھاتے ہوئے کہا کہ تم  نےآج جی بھر کراپنی مرغوب اشیاسے اپنی پیاس بجھالی ہے ،اچھاکیا۔یہ خوراک  توانائی بخشنے والی تھی۔تم بہت جلد صحت یاب ہوجاؤ گی اور ہم میزپربیٹھ کر اکٹھے کھاناکھایاکریں گے۔

ایک  رات ہم سب ایک ہی میزپرکھاناکھارہے تھے۔بوڑھے جوسارادن سٹور کے باہر بیٹھا کرتے تھےواپس چلے گئے تھے۔وہ لوگ سفید سروالی مرغابی کی طرح معصوم تھے جبکہ میرے والد نے تبصرہ کیاکہ وہ سب نشہ کرتے تھے اوراپنی دنیامیں مگن رہتے تھے۔وہ احمقانہ دنیامیں رہتے تھے فلو نے تبصرہ کیا۔وہ ان بزرگوں سے متعلق موضوع کو بدلناچاہتی تھی اور اس نے چائے پیش کرتے ہوئے موسم کی بات شروع کردی۔اتنے میں برائن روتے ہوئے کسی شئے کی فرمائش کی تووہ اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔فلو کے ہڈپیر مضبوط تھے۔ہر تقریب میں وہ بھرپور توانائی سے حصہ لیتی تھی۔حالات اس طرح سے گزر رہے تھے۔

کئی سال بیت گئے۔ میں ٹورونٹو رہ رہی تھی۔ اس زمانے میں ٹورونٹو میں تانگےاور بگھیاں چلتی تھیں۔اس رات مین سٹریٹ پر وہ ادھر ادھر دوڑیں لگارہی تھیں۔ میں نے ریڈیوآن کیاتو ایک خاتون کسی کا انٹرویو کررہی تھی۔

 میں نے آج تک ایسی رتھ نہیں دیکھی جو ریس لگاتی ہو۔خاتون نے تبصرہ کیا۔نہیں جناب!بگھیوں کی وہ دوڑیں  قدیم اہم کھیل تھا۔یہاں تک کہ رومی شہنشاہیت  کے دور میں بھی  گھوڑوں اور رتھوں کی دوڑوں کے مقابلے ہواکرتے تھے۔ معمر شخص بولا۔۔یہ تمہارے وقت سے بہت عرصہ پہلے واقع ہواتھا۔

میرے وقت سے  پہلے؟یہ اس وقت کی بات ہے جب  میری عمردوسال تھی۔اس وقت میں 102سال کاہوں۔ یعنی سوسال پہلے۔

میں نے ریڈیوچلتارہنے دیا۔جب میں باورچی خانے کافی بنانے پہنچی تو مجھے ایسالگاکہ اس انٹرویو میں کوئی خاص بات تھی۔یہ انٹرویو کسی ڈرامے کا حصہ لگتاتھا ۔ مجھے تجسس ہواکہ اس کی تہہ تک پہنچوں۔میزبان خاتون تھی۔ اس  میں نرمی، شستگی پائی جاتی تھی ۔انٹرویودہندہ ایک مرد تھاجس کی آواز سے لگتاتھاکہ وہ لاغراور بزرگ تھا۔اس کی آواز نقاہت زدہ اور مایوس کن تھی۔ ۔اس کی آواز سے ایسالگ رہاتھاکہ اس کے منہ میں دانت نہیں تھے۔

یہ دوڑیں اس وقت بہت خطرناک تھیں۔مرد نے جواب دیا۔

ان میں کیاچیزخطرناک تھی؟

گھوڑے سرپٹ بھاگتے تھے۔حادثات  بہت زیادہ ہوتے تھے۔گھوڑسوار بجری کی سڑک پرگرپڑتےتوگھوڑے ان کوگھسیٹتے  رہتے۔بعض اوقات توان کی موت بھی واقع ہوجاتی تھی لیکن زیادہ ترشدیدزخمی ہوتے تھے۔میں خود بھی ایک بہترین گھوڑسوار اور پہلوان تھا۔میں بھی ان میں اور لڑائی جھگڑوں میں پیش پیش ہوتاتھا۔

حادثات تو ہر دور میں ہوتے رہے ہیں اورہوتے رہیں گے۔کارخانوں، فاؤنڈریوں،سڑکوں اور ہر جگہ  یہ عام ہیں۔تم اچھی طرح جانتے ہو امیزبان خاتون نے سرسری آواز میں کہا۔

آج کل ہرشخص اس بات کومعمولی لے رہاہے۔ہم نے محنت کی اورشکر ہے کہ ہم کامیاب ہوئےتھے۔مرد نے کہا۔

کیا تمہارے پاس ٹی وی ہے؟

میرے پاس ٹی وی توکیاریڈیوبھی نہیں ہے۔ حضرت نے جواب دیا۔

 تمہاری مصروفیات کیاہیں۔تم اپناوقت کیسے گزارتے ہو؟

گھوڑسواری دیکھناہی میرامحبوب مشغلہ ہے۔

تم  عمررسیدہ ہو۔تم بہت تجربہ کار ہو۔کیاکسی واقعے کوبیان کرناچاہوگے؟

میں نے ایک بار ایک گراؤنڈ ہاک جانوردیکھاجوسردیوں میں اپنی غار میں گوشت جمع کرکے کھایاکرتاتھا۔جب تم شدید سردی میں بھوک سے مررہے ہوتے ہوتوتم کویہ پرواہ نہیں ہوتی کہ کس شئے سے پیٹ کی آگ بجھائی جائے۔ہاہاہا۔اس نے بتایا۔

ایسا لگ رہاتھاکہ میزبان نے اسے شو کے وقفے میں بتایاتھاکہ انٹرویو دہندہ ماضی میں صوبہ اونٹاریو کے گاؤں  ہیٹ نیلٹن کے پاس رہاکرتاتھا۔اس وقت اس کی عمر 102سال اتھا۔تھی۔اس کانام ولفریڈ نینٹلین تھا ۔ اس کے بارے میں معلومات کے بعد مجھے یاد آیا کہ وہ علاقے کا بدمعاش تھا۔وہ  گھوڑوں اور انسانوں کوکوڑے مارنے میں ماہرتھااور اپنے وقت کا شیطان تھا۔اس انٹرویو کے دو ہفتوں بعد وہ  ہیٹ  نیلٹن مرگیا۔

فلو ذہنی طورپر مفلوج ہوچکی تھی۔ میں نے اسے اسی  عمارت میں داخل کروادیاتھا۔یہ بے آسرااور سینئر افراد کی رہائش گاہ تھی جس کے اخراجات حکومت برداشت کرتی تھی۔ اس کی  ضد، مکاری ،ناپسندیدگی، مخالفت ،بے ایمانی اور عیاری  اب ختم ہوچکی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ کیا فلو اس انٹرویوسن رہی ہوگی۔اگر اس نے سناہوگاتو اس سے لطف اندوز ہوئی ہوگی۔وہ  ایک جگہ بیٹھی رہتی تھی۔کبھی کبھارجب  اسے غصہ آتاتو اس وقت وہ نرس کودانتوں سے کاٹ دیاکرتی تھی۔

 

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           


 

Popular posts from this blog