ایک دفعہ کا ذکر ہے Once upon a time By Nadine Gordimer

 




 

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے

Once upon a time

By

Nadine Gordimer

مترجم:  غلام  محی الدین

میرے ایک عزیز نے پرزورفرمائش کی کہ میں بچوں پربھی لکھوں۔میں نے اسے کہاکہ میں بچوں پر نہیں لکھتی   لیکن  اس نے دلیل دی کہ اسمبلی میں ایک قرارداد پاس ہوئی ہے کہ ہرادیب کو کم ازکم ایک کہانی بچوں پر ضرور لکھنی چاہیئے۔میں نے سوچاکہ اسے خط لکھ کر معذرت کرلوں اور بے باکی سے کہوں کہ میں اس قرارداد کو نہیں مانتی لیکن پھر رات کوایک خواب آیااور مجھے تاکید کی گئی کہ میں بچوں پرلکھوں۔ اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔شائد میرے لاشعور کے کسی کونے میں یہ خواہش پنہاں تھی کہ میں اپنی دوست  کی بات مان لوں۔اسی لمحےمجھے اپنی خوابگاہ کے  ساتھ والے فرش سے آواز سنائی دی یہ  لکڑی کے ڈھیلےفرش سےپیداہورہی تھی جومخصوص انداز میں  آہستہ آہستہ قریب آتی گئی۔ میرے کانوں  کے اندرونی حصے میں اگرچہ سوجن تھی لیکن میں پھر بھی واضح طور پر ان قدموں کوکمرے کے ایک سرے سے  دوسرے سرے تک  آتی سن سکتی تھی۔میں نے اپنے گھر میں چورچکاری   ،نقب زنی اور بےجاخلل اندازی روکنے کے لئے الارم نہیں لگوایاتھااور نہ ہی اپنی حفاظت کے  لئے اپنے تکئے کے نیچے پستول رکھا کرتی تھی۔ میرے گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بھی نازک تھیں جوایک ہی دھکے سے تڑاخ ہوسکتی تھیں ۔انہی دنوں ایک پریشان کن خبر سرزدعام تھی   کہ ایک  خاتون    جو میرے گھر سے دوبلاک دور رہتی تھی   کوبےدردی سےقتل کردیاگیاتھا۔ اس کے کتے کا گلا گھونٹ کرہلاک کردیاگیاتھا۔ جیولری ، نوادرات اورکرنسی  جواس نے دیواروالے کلاک میں چھپائی تھی لوٹ لیاتھا۔  شک اس کے ملازم پرکیاجارہاتھاجسے مقتولہ چند مہینے پہلےنوکری سےنکال دیاتھااوروہ اسکی تنخواہ پی گئی تھی۔اس قتل نے  علاقے میں سراسیمگی    پھیلادی تھی ۔میں تاریکی میں  آنکھیں پھاڑے دروازے کی اور ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ آواز والافرد  میرے ساتھ آگے جاکر کیاکرے گا  اور مجھے اس پر کس طرح  کا                             ردعمل ظاہر کرنا چاہیئے۔میں اپنے بسترپر     چت پڑی تھی۔میرادل زورزور سے دھڑک رہاتھااور جسم کے پنجرے سے باہر آنے کوتڑپ رہا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ میں  نہ  تو خوفزدہ  تھی اور نہ ہی راحت محسوس کررہی تھی بلکہ ان دونوں کیفیات کے درمیان تھی۔تاہم چوں چوں کی وہ آواز    مجھے  کسی حد تک بےآرام کررہی تھی۔ ایسا لگ رہاتھا کہ ایک ہاتھ کمرے کی دیوار کودھکیل رہاتھا۔وہ کسی دیوکاہاتھ لگتاتھا۔میرے پڑوسی  کاگھر گہرائی میں تھااور میرے کمرے کے بہت نیچے تھا۔اردگرد کے پہاڑ سونے کی کانوں کی کھدائی  کی وجہ سے کھوکھلے ہوگئے تھے۔جب ان  کی دیواروںپر ضرب پڑتی  تووہ لرزتی ہوئی تین ہزار فٹ  نیچےڈھیر ہوجاتی تھیں۔ان کی دھمک سےپورا گھر لرزاٹھتااور دیر تک ڈولتارہتاتھا اور کافی دیر بعد دوبارہ توازن قائم  کر لیتاتھا۔اس دوران مجھے خدشہ ہوتاکہ شائد میراآخری وقت آن پہنچاتھا۔ویسے بھی اس جگہ ان دھماکوں کی وجہ سے کئی تارکین وطن آبشار کے پاس  یہیں کہیں ہزاروں من مٹی کے نیچے جاچکے تھے۔

میں دل سے چاہ رہی تھی کہ اس  کیفیت سے نجات حاصل کرنے کے لئے پھر سے سوجاؤں۔اس وقت مجھے اپنے دوست کی بات یاد آئی  جس نے مجھے بچوں پرکہانی لکھنے کے لئے کہاتھا۔میں نے  بچوں کے لئے ایسی کہانی لکھنے کا سوچاجوانہیں ان کی والدہ رات کو سناسکیں۔میں نے کہانی لکھناشروع کی۔

ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے دور میں  ایک شہر کے  مضافات میں رہتاتھا۔وہ متمول شخص تھا اور سیاہ فاموں سے خوفزدہ تھا۔ اس کے خاندان میں اس کی والدہ، بیوی اور ایک پیارا سالہ بیٹا تھے۔ جوان کی آنکھوں کاتارا تھا۔انہوں نے کتااوربلی پال رکھے تھے جن کاانہوں نے حکومت سے پرمٹ لے رکھاتھا ۔گھر میں ہر قسم کی سہولت تھی ۔ یہاں تک کہ ان کے پاس  وہ بس بھی تھی جس میں  ہر قسم کی سہولت موجود تھی۔ باورچی خانہ، غسل خانہ اور سونے کے کمرے بھی تھے۔اس گشتی بس  پر وہ تفریح منانے  جایا کرتے تھےلیکن  ملکی حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہ  کہیں جا نہ پائے تھے۔ وہ سیاہ فام لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے ذہن میں تھاکہ وہ جرائم پیشہ تھے اور معمولی فائدے کے لئے جان سے بھی مار سکتے تھے۔ کسی ناگہانی صورت حال سے بچنے کے لئے انہوں نے گھر میں احتیاطی تدابیر اختیار کرناشروع کردی تھیں اور جو جو کوئی انہیں مشورہ دیتا  اوے اپناتے۔

ان کے گھر میں ایک نہانے کا تالاب  تھاجس کے کناروں پرانہوں نے  جنگلہ لگوادیا۔تاکہ بچہ تالاب میں گرنہ جائے۔ننھا معصوم بچہ اس جنگلے کو پکڑ کرادھرادھر چلاکرتاتھا۔ میاں سر براہ خانہ تھا۔اس کی ہی چلتی تھی۔وہ اپنی بیوی اور ماں کے مشورے لیتاتو تھالیکن اپنی من مرضی کرتاتھا۔ اس نے اپنا اور گھرکےتمام نقصانات  کی تلافی کا بیمہ کروالیاتھا۔ان کی کالونی میں پولیس رات کو گشت کرتی رہتی تھی۔قومی پالیسی تھی کہ خطرناک لوگوں سے متعلق   نشاندہی  کچھ اس طرح سے کی جائے کہ کسی بھی خطرے کے خدشے میں یا مشتبہ فرد  کی موجودگی کا کسی  مخصوص مذہب،نسل اور زبان کے بارے میں پوری تفصیل نہ دی جائے۔ اس کامقصد لوگوں کو کسی مخصوص فرقے سے متنفرکرنانہیں تھابلکہ خطرے سے ہوشیارکرنا تھا لیکن انہیں سیاہ فام لوگوں پر اعتبار نہیں تھا۔ان کے ہاں ایک خادمہ بھی تھی۔ انہوں  نے اپنے گھر کے باغیچے اور سبزہ زار کی دکھ بھال کے جزوی ملازم رکھاہواتھا۔ اس کی والدہ اور بچے کی دادی نے یہ افواہ اٹھائی ہوئی تھی کہ باہر ایک چڑیل پائی جاتیہے جو رات کواس علاقے میں گھومتی ہےاور راہگیروں کو ماردیتی ہے۔ اس لئے اس نے  سختی سے تنبیہہ کی تھی کہ رات کو گھر سے باہر نہ نکلا جائے۔

ان دنوں یوں ہر طرف بد امنی تھی لیکن مضافات میں فسادات کچھ زیادہ تھے۔حکومت نے اپنی طرف سے ایسے اقدامات کررکھے تھے کہ صرف رہائشی جو مختلف رنگ و نسل اور مذاہب کے تھےاور ان کے ملازمین کے  علاوہ کوئی اور اس علاقے میں داخل نہ ہوسکے۔بظاہر تو امن وعامہ کے فول پروف  انتظامات تھے لیکن ہردم خطرہ منڈلاتارہتا تھاکہ سیاہ فام  تخریب کار  حفاظتی اقدامات توڑ کر اندرگھس آئیں گےاور سیاہ  دہشت گردسب کچھ تہس نہس کردیں گے۔ انہیں سب سے زیادہ فکر اپنے اکلوتے بچے کی تھی  اور وہ اپنے بچے کو  ہرقسم کے خطرے سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔اگرچہ وہ ان خدشات کوردکرتاتھا لیکن اپنے خاندان   کوعموماًاور اپنےبچے کوعموماً کسی ناگہانی واقعہ سے  بچنے کے لئے مزید حفاظتی اقدامات کی خاطر  ریموٹ کنٹرول  کے ذریعے ہر آنے جانے والوں  پر نظر رکھنے لگے تاکہ کوئی انہوناواقعہ پیش نہ آئے ۔گھر میں داخل ہونے والے کی چھان بین کرنے کے بعد اندر آنے دیا جاتا تھا۔ننھا بچہ ان حفاظتی آلات کودیکھ کرپرجوش ہوجاتاتھا اور تجسس کی خاطر ان تنصیبات سے کھیلنے لگتا۔ریموٹ کنٹرول کو واکی ٹاکی کے طور پر استعمال کرکےپولیس اور ڈاکوکاکھیل کھیلنے لگتا۔

حکومت نے کسی نہ کسی طرح  دنگے فسادپر کنٹرول توکرلیالیکن چوری چکاری کی وارداتیں بدستور جاری رہیں۔اسے معلوم ہوا کہ ایک دوست کے گھر کی وفادارنوکرانی کورسیوں سے باندھ کر گھرکاصفایاکر دیا گیاتواس پر اس نے گھرکے بیرونی دروازوں  اور خارجی دیواروں پر برقی تاریں لگوادیں۔اس کے علاوہ مزید حفاظت کے لئے کھڑکیوں پرالارم  نصب کر وادئیے ۔ان تاروں کو کوئی چھوتاتوالارم بج اٹھتا تھا۔ وہ اپنے اس  اضافی حفاظتی قدم پر مطمئن ہوگیا۔ انہوں نے اپنے بچے گھر سے باہر  نکلنابندکردیااوراسے گھریلو سرگرمیوں تک محدود کردیا۔ خود بھی  بیرونی ماحول کو کھڑکیوں سے دیکھتے رہتے ۔اس نے  اس دوران گھرکوصاف ستھرا رکھنے  کے لئے رنگ وروغن کروا لیا۔

بچہ پالتو جانوروں کے ساتھ کھیلتارہتا۔ایک بار ملحقہ درخت  سے بلی بجلی کی تاروں کو چھوئے بغیر چھلانگ لگا کرگھرمیں داخل ہوئی تاکہ   بچے کے ساتھ کھیل سکے۔اس کے پنجے جب حفاظتی تاروں پرپڑےتوالارم بج گیا۔عام طور پر یہ چوہوں،بلیوں اور پرندوں وغیرہ   بیٹھنے پر بول اٹھتے تھے۔آئے روز ایسا ہوتا رہتاتھا ۔انہیں  ایسے الارم سننے کی عادت ہوگئی تھی۔الارم کی آواز بہت تیزتھی جوہر ایک کو خطرے سے چوکنا کردیتی تھی۔پہلے پہل تواسے خطرے کی علامت سمجھاجاتاتھااوروجہ جانی جاتی تھی  لیکن بعدازاں اسے مینڈک کی آوازوں کی طرح  لیاجانے لگا۔

ایک افواہ نے زورپکڑاکہ ایک خلائی مخلوق وہاں گھس آئی تھی جولوہے کے دروازوں  کو توڑ دیتی تھی اور تاریں کاٹ دیتی تھی اور جوکچھ بھی ان کے رستےمیں آیاانہیں چباڈالتی تھیں۔حفاظتی آلات ضائع کر دیتیں  ۔ فریج ،کمرے،ٹی۔ وی ، ٹیپ ریکارڈر منہ میں ڈال کر توڑدیتیں ۔اناج اور دیگر چیزیں  کھا لیتیں اور مشروب پی لیتیں۔ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔پے در پے حادثات پر بیمہ کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں اور مالکان کے ہر قسم کے نقصانات  کی تلافی نہ کی اور دیوالیہ ہوگئیں۔

اس کے بعد سے ایساہوناشروع ہوگیاکہ مضافاتی آبادی کے آوارہ گردبچے نقص عامہ کاباعث بننے لگےوہ بےروز  گار  تھے۔بھکاری تھے،نوکرانیوں کی ملی بھگت  سےچورچکاری کرتے اورکرواتےتھےاس لئے      مالکوں نے ملازمین پربھی  بھروسہ کرنابندکردیاتھا ۔راہ چلتوں کونوکری نہیں دی جاتی تھی ۔گھر کی جھاڑ پونچھ، باغ ، گھاس پھوس  اورروغن  و مرمت کے وقت ان پرکڑی نگاہ رکھی جاتی تھی۔

زیادہ تر سیاہ فام غربت کی نچلی سطح پر رہ رہےتھے۔گندی نالیوں میں ننگے پاؤں بیٹھے رہتے۔ اس کی بیوی کسی کوبھوکا نہیں دیکھ سکتی تھی اور نوکرانی کوکھانادےکر بھیجنا  چاہتی تو وہ اطلاع دیتی کہ وہ غنڈے ہیں  جو دروازہ کھلتے ہی گھر میں گھس آئیں گے اورجان ومال  محفوظ نہیں رہے گی۔مناظر کے لحاظ سےوہ ایک خوبصورت علاقہ تھا لیکن موالی دن بھروہاں بیٹھے رہتے اور واردات کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے۔

وہ اپنے خاندان اور اپنے اکلوتے بچے  کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دیتےتھے۔ نوکرانی روز رات کوبچے کی ٹرائی سائیکل  چوری کے ڈرسےباغیچے سے  گھر کے اندر رکھ دیتی تھی  تاکہ چوری نہ کی جاسکے۔مزید احتیاط کے لئے دیواریں مزید اونچی کروالی تھیں۔اس کی والدہ جسے اس کی بیوی  چڑیل کہاکرتی تھی نے اس کاخرچہ یہ کہہ کر برداشت کیاکہ  اس نے یہ اپنے بیٹے  اور بہوکو کرسمس کا تحفہ دیاتھا۔اپنے ننھے پوتے کواس نے خلائی مخلوق خلائی مخلوق کالباس  اور پریوں کی کتاب تحفے میں دی ۔

تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجودانہیں خبریں ملتی رہیں کہ جرائم روزبروزبڑھ رہے تھے۔وہ وارداتیں جو پہلے راتوں کوہواکرتی تھیں اب کھلے عام سورج کی روشنی میں بھی ہونے لگی تھیں۔ایک دفعہ رات کو وہ کھلے آسمان  تلے  ستاروں کے جھرمٹ میں  سہانے موسم میں  اچھے موڈ میں کھاناکھارہے تھے۔ان کا ننھا بچہ پالتو بلی سے کھیل رہاتھاجوبڑی آسانی سےسات فٹ دیوار پر عمودی انداز میں چڑھ اور پھر بڑی پھرتی سے اگلے پنجوں پر دیوار سے مہارت کے ساتھ اترآتی تھی ۔اس نے پورے گھر کو صفائی کے لئے تازہ تازہ رنگ و روغن کروادیاتھا جس سے روغن اتر گیاتھااور اس کے نشانات بھاگنے والے کے ٹوٹے ہوئے جوتوں کے نشانات کی طرح لگ رہے تھے۔وہ اتنی زیرک تھی کہ بغیر کسی دقت سے خود کوان حفاظتی اشیا سے بچ بچاکر صحیح سلامت زمین پرآجاتی تھی۔

 کے  کچھ دنوں بعد وہ  بیوی ،بیٹا اورپالتوکتے کو سیرکرانے کے لئے نکلاتوانہیں پڑوس کی دیواروں پر حفاظت

   لئے شیشوں کےٹکڑے پسند آئے۔ان گھروں میں قیدیوں کا سپینی طرزکابنایا  ہوافرنیچرتھاجومکینوں کوسستے داموں مل گیاتھا ،سے اپنے گھروں کوآراستہ کیاتھااور عمارات  سپین طرزکی تعمیرکی گئی تھی اور اگلے حصے میں  پلاسٹک کی ڈوری  اور دیواروں پر شیشہ لگادیا گیا،جو مکانات کی رعنائی میں  اضافہ کررہے تھے۔کمپنیوں کی مشہوری کے لئے اشتہارات چپکائے گئے تھے۔میاں بیوی ان پر رائے زنی کر رہے تھے اور ایک کمپنی پراتفاق کرلیاتھاجس سے وہ  اپنے گھر کی مزید حفاظت کے لئے اقدامات کادعویٰ کیاتھا۔ اگرکوئی دیوار یا مین گیٹ پھلانگنے کی کوشش کرتاتو دیوار پر لگے شیشے کے ٹکڑوں سے ان کا جسم زخمی ہو جاتا۔ ننھابچہ اپنے کتے کےساتھ ان کے آگے آگے بھاگ رہاتھا۔آگے چلتے ہوئے ایک چھوٹا سا اشتہار نظرآیا جس پر اژدہے  کاخون  خوار جبڑا کھلاہواتھااور اس بات کادعویٰ کررہا  تھاکہ وہ سب سے قابل اعتماد کمپنی تھی جو ہرقسم کی دخل در معقولات کوروکتی تھی۔انہوں نے ایک بارپھراپنے فیصلے پر نظرثانی کاسوچاکیونکہ یہ تکنیک   جرائم پیشہ لوگوں کے لئے زیادہ خطرناک  تھی کیونکہ اگر کوئی مین دروازہ یا دیواریں ٹاپتے تو اس کی چمڑی ادھڑجانی تھی اور یہ مکمل حفاظت کی ضمانت دیتی تھی۔انہوں نے باہمی یہ فیصلہ کیا کہ دیواروں پر نیزے لگوائے جائیں۔

اگلے روز مزدوروں کے ایک گروہ   کو بلاکر تمام دیواروں  کوکھرچاگیااور آلات نصب کردئے  جن کی چمک   سے پوراگھر نیزوں سے بھرگیا۔ کمپنی نے اس کی گارنٹی دی تھی کہ وہ مضبوطی سے لگے رہیں گے اور زنگ نہیں لگے گا۔وہ  اس بات پر مطمئن ہوگئے کیونکہ اس طرح وہ،ان کاننھابچہ،پالتوکتااوربلی سکون سے رہ سکیں گے۔ان کی نظراپنے بیٹے پر پڑی تو وہ اور بلی بھاگ رہے تھے۔بچہ اس کاپیچھاکررہاتھااور بلی دوڑ میں اس سے جیت رہی تھی۔بیوی کو ڈرتھاکہ  بلی  کہیں  دیوار پر چھلانگ لگاکرخود کو  کہیں زخمی نہ  کرلے ۔خاوند بولا گھبراؤنہیں ۔

ایک شام ماں بیٹا سونے لگے توماں نے اسے  اس کتاب سے پریوں کی ایک  کہانی سناناشروع کی جواس کی دادی نے کرسمس پر اسے تحفے میں دی تھی۔وہ اس کہانی سے اتنامتاثرہواکہ اگلے دن سے اس نے خود کو  اس کتاب کی طرح                  شہزادہ سمجھناشروع کردیاجو بہت مصائب کاسامناکرتے ہوئے  تمام رکاوٹیں دور کرکےبہادری سے  محل میں 

داخل ہوکر  سوئی ہوئی شہزادی کا منہ اس لئےچومناچاہتاتھاتاکہ وہ دوبارہ زندہ  ہوجائے:  بچے نے خود کوشہزادے  کی طرح  ارد گرد تیکھی حفاظتی تاروں میں سے گزرنے کی کوشش کی ۔اس نےاپنے چاقو، ،نوکیلے تیز دانتوں  سے اس دوران رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جس پر اسے بہت درد ہوا۔  وہ چلایا۔ہار نہ مانی اورآخری رکاوٹ  بھی عبور کرلی۔اور اپنے سرپرچوٹ سے وہ چلایااور زور لگایا توایک پتھر اس کے سر لگا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔والدین  اپنے بچے کوفوری طورپر ہسپتال لےگئے جہاں اس نے اپنی زندگی کاآخری سانس لیا۔والدین   اس بات پر پچھتائے کہ ضرورت سے زیادہ خطرناک اقدامات کیوں کئے؟ان کی ضرورت سے زیادہ احتیاط ان کے بچے کو لے ڈوبیاور سیاہ فاموں کے قصے باطل ثابت ہوئے۔     

  تجزیہ

 اس   کہانی میں گورڈیمر نے جنوبی افریقہ کے نسلی تفاوت پر چوٹ کی ہے۔ اس نے اشاروں کنائیوں میں  اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ  سیاہ فام لوگوں کی بدولت ہرایک کی جان و مال خطرے میں ہے۔وہ معاشرے کے لئے نقصان دہ ہیں۔ وہ مفلس ہیں  اور اپنے مقاصد کے حصول میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔اسکے مطابق تمام سیاہ فام ناقابل اعتبار ہیں۔ وہ موالی ہیں۔  متمول لوگوں کے گھروں میں ان کاداخلہ منع ہے۔اس وقت داخل نہیں ہو سکتے جب تک کوئی ان کی شرافت کی ذمہ داری نہ دے۔

اس میں یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ بیوی جا بجا اپنے میاں کو افواہوں کی بناپر اپنے گھر کو محفوظ بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ اقدامات پر اکساتی رہتی ہے۔ان کا ایک ہی بیٹا ہے  ۔ وہ اسے فول پروف تحفظ دینا چاہتے ہے۔ میاں  بظاہر اس کی بات مانتا ہے لیکن در حقیقت وہ خود بھی اتنا ہی غیر معقول ہے۔ اس کی والدہ بھی کسی سے کم نہیں وہ آگ پر مٹی کا تیل ڈال کر مزید خوفزدہ کرتی  رہتی ہے جس سے مزید خوف وہراس کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔

اس کہانی میں ایک اور نکتہ جو بیان کیا ہے وہ مردوں کی خواتین پر برتری ہے۔ مرد کا تمام معاملات میں مکمل عبور حاصل ہے۔اگرچہ پدر سری بین الاقوامی مظہر ہے لیکن  گورڈیمرکے مطابق جنوبی افریقہ میں یہ زیادہ ہے۔

ایک اور اہم بات جس کا اس کہانی میں ذکر ہے وہ یہ ہے کہ میاں  بیوی نے اپنے گھر کو غیر معمولی محفوظ بنانے  اور اپنے بچے کو کسی بھی خطرے سے بچانے کے لئے اسے قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔ جسے مکین اور پالتو تک تو جانتے ہیں۔ بلی ان خطرناک آلات سے بچ کر بچے سے کھیلتی ہے لیکن معصوم بچہ ان کی سنگینی کا احساس نہیں کر سکتااور  حفاظتی تاروں سے الجھ جاتا ہے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔اس طرح والدین اور اپنی دادی کی کم عقلی سے وہ پناہ گاہ محفوظ ہونے کی بجائے موت کا باعث بنتی ہے۔ 

 


Popular posts from this blog