ا بن سینا مقا لہ (مکمل)

 





Avicenna

980-1037

Bokhara

ابن سینا (بو علی سینا)ایک   ماہر نفسیات

 

                                                                                                                                                                            

 

تحقیق :  غلام محی الدین

 

 

 

   ان کا عربی نام بوعلی سینا تھا۔ اصلی نام ابو علی الحسین ابن عبداللد ابن سینا تھا لیکن ابن سینا کے نام سے مشہور تھے َ۔وہ ازبکستان کےشہر بخارا کے نواحی گاؤں 'افشانا  ' میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے  اور  بلخ سے تھے جو آج کل افغانستان میں شامل ہے۔ان کی والدہ کام  'ستارہ 'تھا ۔ وہ افشانا میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ابن سینا کو مطالعے  کا شوق تھا۔ان کا حافظہ تیز تھا جو بھی پڑھتے تھے یاد ہو جاتا تھا۔ وہ ہر موضوع پر پڑھتے تھے۔  ان کی عمر اس وقت سات سال کےقریب تھی تو وہ ایک بلی اپنی والدہ کے پاس لے کر آئے اور بتایا کہ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہےاور وہ اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ والدہ نے پوچھا کہ وہ کیسے اس کا علاج کر سکتا ہے۔یہ تو خالص تکنیکی کام ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پچھلے سال ایک ہمسائے کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی تو بابا اسے ایک جراح کے پاس لے گئے تھےجس نے ٹوٹی ہڈی سیدھی کرکے لکڑیاں اوپر رکھ کر پٹی باندھ دی تھی اور اس کی ٹانگ جڑ گئی تھی۔ انہوں نے اس بلی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اور وہ ٹھیک ہو گئی۔ اس کی ذہانت اور شوق کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے فیصلہ کیا کہ وہ بخارا منتقل ہو جائیں جوتہذیب و تمدن، تقافت، تعلیمی سرگرمیوں، سماجیات۔ معاشریات اور صنعت و حرفت میں اقوام عالم سے بہت آگے تھا ۔ انہوں نے فقہ، شریعہ، ریاضی فلسفہ اور منطق کی  ابتدائی تعلیم ایک حنفی عالم ' النائلی 'سے حاصل کی اور چند سالوں میں ان کے پائے کے عالم بن گئے۔دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کیااور حنفی فقہ کے عالم بن گئے۔ فطری صلاحیت کی بدولت جزوی رہنمائی سے انہوں نے نوعمری میں ہی ارسطو، افلاطون، یورپی طبی ماہرین کی  اوریورپی مفکر ' گیلنٌ  کی  تعلیمات جو اس دورمیں طبی علوم کامصنف اورمستند معالج تھا ، کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کر لیا۔اس کے بعد وہ حصول علم کی خاطر بغداد چلے آئے جہاں وہ الفارابی کے شاگرد بن گئے۔ ان سے انہوں نے مابعد از طبیعیات  ، فلسفہ ، منطق کی تعلیم حاصل کی۔اس وقت ان کی عمر تقریباً تیرہ سال تھی۔انہوں نے  طب میں دلچسپی ظاہر کی تو الفارابی نے انہیں اپنے ایک  دوست یوحنا بن حیان کے پاس بھیج دیا جو ایک نامور طبیب تھے۔ان سے انہوں نے باقاعدگی سے طب کی تعلیم حاصل کر لی۔ ذاتی دلچسپی اور خدا داد ذہانت کی وجہ سے وہ تین سال میں ہی طبیب بن گئے۔ سولہ سال کی عمر میں حکیم حاذق کی ' سندفضیلت 'حاصل کر لی۔ انہوں نے اپنے طور پر دنیائے عالم کے فیلسوف کو پڑھ کراور متعلقہ شعبوں کے اساتذہ سے بحث مباحثہ میں فزکس، ریاضی اور دیگر فطری علوم ، فلکیات ،کیمیا، انسان الحیات ، اجزا کی نفسیات ،فلسفہ، منطق اور غیر مادی، سماوی اور ما بعد از طبیعیات علوم ( میٹا فزکس) میں ٰیکتائی حاصل کر لی۔انہوں نے شاعری بھی کی۔ اپنی فطانت کی بدولت انہوں نے اپنے طب کا لوہا منوا لیا۔ انہوں نے شہرہ آفاق معالج گیلن کے طریقہ علاج میں ترامیم کر کے علاج معالجہ میں اپنے طریقے متعارف کروائے جوبہت کامیاب رہے۔انہوں  نے طب کی پریکٹس شروع کر دی ۔ ان کے ہاتھ میں شفا تھی۔ وہ روز بروز مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے گئے۔ان کی مشہوری کو بہ کوبہ پھیلنے لگی۔

 بخارا کا شاہی کتب خانہ اس دور میں دنیا کا عظیم کتب خانہ تھا جہاں دنیا بھر کی نادر کتب بادشاہ نے جمع کی ہوئی تھیں۔ہر علم کے پیاسے کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ان سے استفادہ حاصل کرے۔ اس زمانے میں  کتب خانوں سے کتب کوئی قاری کتب خانے میں بیٹھ کر ہی پڑھ سکتا تھا۔ صرف سرکاری پرستی والے علما اور فقہا کوہی کتب خانے کے مالک جوصاحب ثروت یا بادشاہ  ہوا کرتے تھے ، کی اجازت  سے لائبریری استعمال کرنے کی اجازت  ہوا کرتی تھی۔  کتاب کو  ہو بہو نقل کرنے کی  اجازت نہیں تھی۔ کتب قلمی ہوتی تھیں اور وزنی ہو تی تھیں۔ ہر کتاب کا ایک ایک نسخہ ہی کتب خانے میں پایا جاتا تھا اس لئے ان کی حفاظت کی جاتی تھی ۔ 1500عیسوی سے پہلے  پرنٹنگ پریس نہیں ہو اکرتی تھیں ۔ کتاب کسی ایک ہی  کی ملکیت ہوتی تھیں۔صاحب ثروت اورعلم کے شوقین امرا اور بادشاہ علما سے کتب لکھوا کر اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیتے تھے  یا جب کوئی بادشاہ فتح حاصل کرتا تو زیورات، ہیرے جواہرات اور مال غنیمت کے ساتھ کتب خانے سے کتب بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ان کی خواہش تھی کہ وہ بخارا کی شاہی  کتب خانے سے استفادہ حاصل کرے لیکن کوئی بن نہیں پا رہی تھی۔ان کے پاس بادشاہ تک رسائی کا وسیلہ نہیں تھا۔

اتفاق کی بات ہے کہ بخارا کابادشاہ پیٹ کے درد میں مبتلا تھا۔ شاہی اطبا کے علاج معالجے سے وہ وقتی طور پر صحت یاب ہو جاتا لیکن چند دنوں بعد مرض لوٹ آیا تھا۔ ایک دفعہ اس کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو شاہ نے اعلان کیا کہ جو ا س کو صحت یاب کر دے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ان دنوں ابن سینا نے طب خانہ کھول رکھا تھا۔ خدا ترس تھے۔ غریبوں کا مفت علاج کرتے تھے۔یہاں تک رہائش، طعام اورادویات بھی اپنی طرف سےایسے لوگوںکوفراہم کرتے تھے۔  ان کی طب میں جنون کی حد تک دلچسپی اور کامیاب علاج کے قصے جب بخارا کے بادشاہ نوح ابن منصور پہنچے تو اس نے انہیں اپنے علاج کے لئے بلو ا بھیجا۔ ابن سینانے بادشاہ کا علاج کامیابی سے کیا تو اس نےان سے پوچھا کہ انعام میں کیا چاہتا ہےتو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ انہیں شاہی کتب خانہ استعمال کرنے کی اجا زت دی جائے۔انعام کے طور پر بادشاہ نے انہیں ایک سال کے لئےشاہی کتب خانے کا مہتمم بنا دیا۔ ابن سینا نے اس لائبریری کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔  کتب خانے کے اوقات کار کے بعد کچھ کتب گھر لے جاتے اور رات بھر میں پڑھ کر ان کے نوٹس بنا لیتے۔ صرف ضروری نیند،کھانے یا  ضروری حاجت کے لئے ہی  وقفہ کرتے تھے۔ ایک سال میں انہوں ماسوائے ریاضی کی کچھ کتب کے باقی سب کتابیں پڑھ کرتمام کتب حفظ کر لیں۔ وہ مکمل عالم بن گئے۔ اس دوران انہوں نےاپنی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے لکھنا بھی شروع کر دیا ۔ انہوں نے علما ومشائخ اور شاہی اکابرین سے بھی جان پہچان بنا ڈالی ۔شاہی دربار اور امور سے متعلق واقفیت حاصل کر لی۔ براہ راست مشاہدے اوربحث و مباحثے سے اپنی معلومات میں اضافہ کر لیا۔

   ایک سال بعد وہ بادشاہ نوح ابن منصور کے پاس گئے اور اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ حیران ہوا اور کہا کہ وہ اسے  اور بڑے عہدے پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ ابن سینا نے بتایا کہ اس نے کتب خانے کی تقریباً تمام کتب حفظ کر لی ہیں  اور اب وہ  مزید علم حاصل کرنے اور اپنے علم کو دوسروں تک پہنچانے کےمقامات   تک پہنچانا   چاہتے ہیں ۔بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی۔آئے ۔وہ بغداد چلے آئےاورمختلف ممالک کے علما  کی تعلیمات سے اپنے علوم میں اضافہ کیا۔اسلام کے ابتدائی دور میں

مسلمانوں کی سلطنت روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہی تھی ۔ اختیار کئے گئے۔اس عرصے میں ان کی طب اور علاج معالجے کے طریقے د وسرے ممالک  میں بھی             اختیار  کئے ۔  ان دنوں فلسفے میں اہم موضوعات نفسیا ت ، خدا، انسانی وجود، کائنات کی تخلیق تھے۔ انہوں نے  ماورائی موضوعات کوروح اور جسم کے علمی تنازعے میں شامل کیا۔اس دورمیں    یونانی فلسفہ مذہب اسلام کےبر عکس تھا۔ ابن سینانے یورپی اور اسلامی ریاستوں میں مذہب کو   سیاسیات  میں شامل کیا۔  

ان کی فلسفے اور منطقی گرفت نے یونانی فلسفے کواسلامی قالب میں ڈھالنے کی کو شش کی۔ دوسری طرف ابن رشد بھی ارسطو کے فلسفے کی شقوں کو دین اسلام میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے۔ابن سینا ارسطو کواپنا استاد اول سمجھتے تھے۔ وہ اس کے ملحدانہ پہلوؤں پر نکتہ چینی کرنے اور مسلم فقہ کی ترویج میں سرگرم رہے۔یوں تووہ بہت سے علما سے فیضیاب ہوئےلیکن منطق اور ما بعد از طبیعیات میں وہ دوسرا استاد وہ الفارابی کو مانتے تھے۔

 ابن سیناجید عالم تھے۔ان کی طب اور فلسفےپر تخلیقات نے نئے موضوعات متعارف کروائے۔ ان کی مادری زبان اگرچہ فارسی تھی لیکن انہوں نے زیادہ تر عربی زبان میں لکھا کیونکہ قرون وسطیٰ کی علمی،ادبی اور سائنسی زبان عربی تھی۔ علما کےمطابق ان کی تصانیف کی تعداد 270 سے 500 کے قریب تھی۔جن میں زیادہ تر حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ سے میں طب پر لکھی کتب میں صرف چالیس کا سراغ مل سکا۔ان کی طب پر کتاب                      کینن آف میڈیسن کو طب کی انجیل بھی کہا  جاتا ہے یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں 1715 تک  درسی کتاب کے طورپر پڑھائی جاتی رہی۔         تھوڑےعرصے میں کم از کم 60  ایڈیشن چھپے۔انہون نے طب پر سینکڑوں کتب لکھیں لیکن صرف چالیس کتب  دستیاب  ہیں،

ا بن سینا نے آیو ویدک، عربی اور فارسی کی طب اور فلسفے کو ناقدانہ انداز میں پڑھا اور نئی تراکیب متعارف کروائیں۔ اس طرح وہ نظام جو صدیوں سے رائج تھا اور اس میں ترقی نہیں ہو پارہی تھی، کو اپنی علم و دانش، تجربے اور بصیرت سے تر امیم و اضافہ کر کے اپنا نظام متعارف کروایا جو صحیح ثابت ہوا اور معالج اس سے استفادہ حاصل کرتے رہے  جوان کی وفات کے بعد بھی صدیوں جاری رہا۔ ان کے طبعی اور طبی علوم میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید پختگی آتی گئی۔

ابن سینا  کوکائنات کے مطالعےسے بھی دلچسپی تھی۔دنیا کیسے وجود پذیر ہوئی۔ روح اور جسم کا تعلق کیا ہے، انسانی نفسیات کیا ہے،وغیرہ جیسے مو ضوعات پر لکھا۔ وہ ماہر نجوم بھی تھے۔ستاروں سیاروں کی چال سے خوب واقف تھے۔ ہر وہ شئے جسے ہم چھو،محسوس، پیمائش ہر شئے جو کائنات کے دائرے میں آتی تھیں ،پر تحقیقات کرتے رہتے تھے ۔ انہوں نے سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں ، صحراؤں ، پہاڑوں ، طوفانوں، موسموں ،روشنی اور کائنات پر تحقیق کرکے نتائج سے دنیاکوآگاہ کیا۔

ابن سینا نے اپنی سوانعمری 1012 کے قریب لکھی۔ اس زمانے میں عربی زبان علم و ادب کا محور تھی۔ 950 عیسویں میں سلطنت فارس (پرشین) نےمسلسل فتوحات سے ثقافتی تہذیب ان سے چھین لی لیکن   ادبی زبان عربی ہی رہی۔فارسی سربراہی ترکوں کے پاس چلی گئی۔ انہوں نے مروج مقبول زبان عربی میں ہی  لکھا۔ ان کے تراجم ہر زبان میں کئے گئے۔ اپنی زندگی میں وہ فارس میں ہی کہیں نہ کہیں پناہ  ڈھونڈتے رہتے تھے ۔ اس کےدوران ان کی صحبتیں البیرونی، العراقی اور ابوالخیر سےرہیں۔ ان کے مابین بحث مباحثے ہوتے رہے۔ بغداد کی کئی درسگاہوں سے منسلک رہے اور کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔ 1012 بعد   میں وہ ُجرجنخراساں  چلے آئے۔ اس کے بعد وہ ہمدان چلے آئے۔   

ان کی بعد میں ملاقات البیرونی، العراقی اور ابوالخیر سے ہوئی۔ ان کے مابین بحث مباحثے ہوتے رہے۔ بغداد کی کئی درسگاہوں سے منسلک رہے اور کتابیں لکھنا شروع کیں ۔           1013میں ان کی ملاقات ایک پیروکار جس کانام ُ رائےُ         تھا سے ہوئی جس نےنے1015  میں آپ  کی سوانعمری           لکھی۔

بادشاہ سیف الدولہ تھا جو علم دوست تھا۔ اس نے انہیں بلا بھیجاجو انہیں بہت پسند کرتے تھے  اس کی فرمائش پر انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نامُ اعلیٰ دانش نامہ' اعلیٰ     تھا۔  وہ حلب میں تھے۔ بادشاہ انتقال کرگیا تو اس کا بیٹا ' کا کا بدولہ ُ  امیر بن گیا  ۔وہ  انہیں  پسند نہیں کرتاتھا۔اس کے علاوہ وہ دیگر اکا برین کو کھٹکتے تھے  ۔ابن سینا کی مقبولیت اشرافیہ کو پسند نہ آئی اور اس کے خلاف سازشیں کرکے اسے غدار ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ بادشاہ کو پتہ تھا کہ وہ بے قصور ہے لیکن  اپنے اکابرین  کومطمئن نے  بادشاہ نے انہیں ملک بدر کر دیا ۔ وہ محل سے نکل کر خفیہ طور پر اپنے ایک دوست ابی سعد کے گھر چھپ کر تصانیف میں مشغول ہو گئے۔بادشاہ کو علم  توتھا کہ انہوں  نے ہمدان نہیں   چھوڑاتھا لیکن اس نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور ان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائ نہ کی۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ سخت بیمار پڑ گیا تو انہیں بلوا بھیجا اور اس سے معافی مانگی اور اپنے پاس دوبارہ رکھ لیا۔ ان دنوں وہ ایک جنگی محاذ پر جانا چاہتا تھا ، ابن سینا نے روکاتو اس نے یہ مشورہ نظرانداز کر دیا اور محاذ پر چلا گیا۔ ابن سینا کو ساتھ لے جانا چاہا لیکن وہ نہ مانے ۔ محاذ پر بادشاہ بیمار پڑ گیا اور واپس ہمدان کا رخ کیا لیکن راستے میں ہی فوت ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا' اعلیٰ الدولہ 'بادشاہ بناوہ بھی انہیں پسند نہیں کرتا تھا ۔انہوں نے اصفحان    کے امیر کو اپنی خدمات پیش کیں ۔وہ خط اعلیٰ الدولہ  کے ہاتھ لگ گیا۔اس نے ان پرغداری کامقدمہ بناکرزندان میں ڈال دیا۔کئی ماہ  قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعدوہ

فرار ہوئےاور        اصفہان پہنچ گئے جس کے امیرنے انہیں رئیس  بنادیا 

کائنات کا آغاز کب ہوا کے بارے میں اس دور کےسائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سالوں سے موجود تھی لیکن ان کی وسعت سوئی کے سوراخ کے ہزارویں حصے کے برابر تھی لیکن اس میں موجود ہائیڈروجن گیس گرم ہو تی گئی اور پھر ایک زبردست دھماکے سے پھٹ گئی۔یہ دھماکہ لا تعداد ایٹم بم کے دھماکوں سے بھی بڑا تھا اور پھر کائنات پھیلتی چلی گئی۔اس دھماکے کوعظیم نو ستارہ ( سپر نووا ) کہا گیا۔ اس کے تابکاری اثرات زمین ابھی تک  اس لئے نہ پہنچے کیونکہ یہاں تک پہنچنے میں اسے کھربوں سال درکار تھے۔اس کے بعد ستارے، بروج، سیارے  ، کہکشائیں، سورج، چاند ظاہر ہونے شروع ہو ئے اور یہ  بہت بڑا دھماکہ ( بگ بینگ )  اغلباً تیرہ اعشاریہ چار ارب  سال   پہلے ہواتھا۔اس کی پیمائش وقت سے نہیں بلکہ فاصلے سے کی جاتی ہے۔یہ کلومیٹر اور میلوں میں ماپا جاتا ہے۔ یہ پیمائش نوری سال کہلاتی ہے۔اس طرح سے قدیم ترین کہکشاں کا   نوری فاصلہ زمین سے 10  کھرب کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔  کائنات میں سفید سوراخ(  وائٹ ہولز) اور کالے سوراخ( بلیک ہولز) ہوتے ہیں۔سفید سوراخ  میں دوسرے سے  اجسام کو اندر سے باہر پھینکا جاتا ہے جبکہ کالے سوراخ وہ سوراخ ہوتے ہیں جن میں مادہ داخل ہو سکتا ہے لیکن باہر نہیں نکل سکتا۔

ابن سینا نے اس وقت اس کا تصور پیش کیا جب دنیا میں معدوے چند لوگوں کو بصیرت تھی۔ کائنات کے بارے میں ان کا ایک کارنامہ قابل ذکر ہے۔

کی چمک  دیوی کہلاتی ہے) 1006 کی ایک رات وہ   قاہرہ سے ایک سو میل دور  البیرونی کے مقام پروہ آسمان  کا مطالعہ کر رہے تھے۔ آسمان صاف تھا۔ انہیں ایک ستارہ نظر آیا جو آسمان میں سب سے بڑھ کر  چمک رہا تھا۔ وہ زہرہ یا وینس ستارے  کی چمک دمک  سب سے زیادہ ہوتی ہے ، سے بھی بڑھ کر تھی۔ انہوں نے اس کا مطالعہ شروع کردیا ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کوئی معمولی ستارہ نہیں تھا۔ اس کی روشنی کہکشاں سے چار گنا تھی۔ اس رات یہ مشاہدہ قاہرہ میں ایک نامور نجومی علی ابن رضوان نے بھی کیا۔ وہ  اس نئے ستارے کا مسلسل مشاہدہ کرتے رہے۔ دونوں عالم  اپنی الگ الگ  مشاہدے،عقل، علم اور بصیرت  کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے  کہ اس ستارے کی چمک آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوگئی تھی اور تین ماہ میں وہ نظر آنا بند ہو گیا۔ ان دونوں نے اخذ کیا  کہ یہ نیا ستارہ وہ تھا جو اپنی توانائی  دوسرے ستارے میں منتقل کر رہا تھا اور جوں جوں توانائی  کا بہاؤ دوسرے میں شامل ہو رہا تھا ، اس کی چمک کم ہو رہی تھی  تو انہوں نے یہ اخذ کیا  کہ ایک سیارے سے توانائی  دوسرے سیارے میں منتقل ہو رہی تھی۔ جب اس میں پوری توانائی تھی تو چمک اپنے عروج پر تھی اور جوں جوں وہ دوسرے سیار ے میں منتقل ہوگئی  تو روشنی ختم ہو گئی اورتقویت حاصل کرنے والا ستارہ وسیع ہو گیا  کو انہوں  نےعظیم نے  ستارہ (سپر نووا ) کہا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سپر نووا کی کئی اقسام ہیں۔ اگر کوئی ستارہ سورج کے حجم سے دس گنا بڑا ہواور اختتام پذیر ہو رہا ہوتو اس کی گیس  زبردست کو1983         میں نوبل انعام دیا۔ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔        دھماکے سے پھٹتا ہے اس پر مزید تحقیقات  کی گئیں                    اور اس پر ایک امریکن   انڈین سائنسدان چندرشیکھر

             

(1The Canon of  Medicine.

2) The Book of Healing.

3)  Remarks and Admonitions   : Physics and  Metaphysics.

4)  A Compedium on the  Soul, 

5)   Najat

6)  Avicenna Psychology.

7)  On the Science of the Pulse.

8)  Avicenna Medicine.

9)  Philosophical Aims

10) Logic  and  Empircism.

11)  Mataphysics. (Sophists the Rational Soul Practical Philosophy)

 

 

ابن سینا نے نفسیات کے بارے میں بھی  نفسیاتی بیماریوں کی وجوہات اور علاج کے بارے میں لکھا ۔

 

ابن سینا کا  فلسفہ  نفسیات

Ibn Sina on Psychology

 

ابن سینا نے روح اور جسم کے مطالعے میں بیان کیا کہ یہ دونوں الگ  جسم مادی ہے ۔ فانی ہے۔ حواس خمسہ کی مدد سے پرکھا جا سکتا ہے۔ روح غیر فانی ہے۔ غیر مرئی ہے۔ چھوئی نہیں جاسکتی۔ اس کا تعلق ذہن کے ساتھ ہے۔ذہن جسم پر اور جسم ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔روح اور جسم دو الگ الگ  اشیا ہیں۔ تمام انسانی افعال کے پیچھے روح کا فرما ہے۔ روح اور جسم کے باہمی اختلاط کو نفس کہتے ہیں۔  ابن سینا نے نفس کی تین اقسام بیان کیں۔

نفس نباتی :  س کا تعلق نباتات کے ساتھ ہے۔ یہ ہمیں خوراک مہیا کرتی ہیں۔ کوئی سا پودا بیکار نہیں، وہ جسم اور روح کی صحت مندانہ نمو کے لئے ضروری  ہے۔ ان سے تمام امراض انسانی و حیوانی   کی ادویات ان سے تیار کی جاتی ہیں۔ روح اور جسم کو تندرست رکھنے کاتعلق     نفس حیوانی سے بھی ہے : حیوانیات  کے ساتھ ہے۔ یہ ہمیں وٹامن یہ  انسانی روح اور جسم کو صحت  مند بناتی ہے۔

یہ انسان میں قوت مدرکہ پیدا کرتی ہیں۔ اشیا کو معانی پہنانے میں مدد دیتی ہے۔اس کے علاوہ قوت محرکہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔  

نفس انسانی بہترہو    :   گا  کا تعلق انسانی روح اور جسم کے ساتھ ہے۔  تینوں  آپس میں مربوط ہیں۔ جتنا جسم مضبوط ہو گا اتنا ہی اس میں ا   عتماد ہو گا۔ اتنا ہی وہ بیماریوں سے بچا رہے گا۔اتنا  ہی اس کی عزت نفس میں اضافہ ہو گا۔ اتنا ہی وہ  ذہنی سطح پر صحت مند ہو گا۔

 یہ تینوں معروف ہیں اور شخصیت کی تشکیل اور بناؤ سنگھار میں معروف اور مصروف کار رہتی ہیں۔   یہ تغیرات ، تولید اور نمو میں ہمیشہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

 صلاحیتیں نفس نباتی اور نفس حیوانی کی تمام قوتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر قوتیں بھی حاصل ہوتی ہیں جو قوت مدرکہ، قوت مخیلہ ،قوت واہمہ اور حافظہ  کی وغیرہ پائی جاتی ہیں جو انسانی دماغ اور اس کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتی ہیں۔مقدار میں لی جائیں تو شخصیت  بھی نکھرتی ہے۔انہوں نے ادراکی عمل کی وضاحت کی اور اسے دو حصوں کی  ادراک کہلاتا ہے۔ خارجی ادراک  حواس خمسہ   سے حال کیا جاتا ہے۔داخلی ادراک باطنہ ادراک ہے جو انسان اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہے اور مشاہدہ باطن سے ہی  سمجھے جا سکتے ہیں۔کہا ذاتی خیالات مطالعہ حسیات کو معانی پہنا دئے جائیں تو وہ ادراک کہلاتا ہے۔ اگر اشیا  بے معنی رہ جائے تو اسے غلط ادراک یا التباس کہتے ہیں ۔  

 انہوں نے  اپنی کتاب  القانون ۔۔الشفا ' '  کیا کہ روحانی کمزوری جسمانی اور ذہنی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔اختناق الرحم (ہسٹریا)،مرگی، مالیخولیا، مراق  اور  ذہنی امراض کی وجوہات اور علاج تجویز کیا۔

 ان کو   جدید طب کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دنیا کو پہلی بار تپ دق  بیماری کے بارے میں روشاس کروایا۔ اس کی علامات اور علاج تجویز کیا۔ اس کے علاوہ اعصابی اور دل کی بیماریوں کے بارے میں معتبر معلومات فرہم کیں اوران کا علاج کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے جراحی سے پہلے جسم کو سن کرنے والی ادویات ایجاد کیں اور جراحی کے بعد تکلیف کا احساس کم کرنے کی ادویات ایجاد کیں۔نبض شناسی    میں انہیں کمال حاصل تھا۔ وہ نبض محسوس کرکے بیماری معلوم کر لیتے اور علاج تجویز کرتے تھے جس سے    مریض صحت یاب ہو جاتا تھا۔     وہ ذہنی بیماریوں کا کھوج بھی نبض محسوس کر کے لگا لیتےتھے۔ انہوں نے اختناق الرحم اور افسردگی( ڈیپریشن )     کی علامات نبض دیکھ کر معلوم کیں کیونکہ ان کی علامات نبض کی تیزی یا آہستہ   چلنے سے لگائی جا سکتی تھی۔ محبوب کا نام آنے پر دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، مایوسی میں نبض آہستہ چلنا علامات تھیں مطاق وہ علاج تجویز کرکے ان  کی ادویات   تیار کرتےجس سے مریضوں کو افاقہ ہو جاتا تھا ۔ انہوں نے نفسیاتی امراض   کی تشخیص اور  علاج بھی تجویز کیا۔انہوں نے کئی اصول وضع کئےاور کہاکہ ان پرجو جتنا زیادہ عمل کرےگا  وہ  اتنا ہی ذہنی طور پر صحت مند ہو گا۔ 

   

٭ خوشحالی اور بدحالی دونوں ہی برائی کی طرف جاتی ہیں۔

٭شیریں غذا بدن کوگرم  کرتی ہے اور نمکین غذا بدن کو خشک اور دبلا کرتی ہے۔

٭اتنا کھاؤ جتنا ہضم کر سکو ۔

 ٭اتنا پڑھو جتنا یاد رکھ سکو۔  

 ٭زندگی میں تین چیزیں انتہائی سخت ہیں شدت مرض ، ذلت قرض اور خوف مرگ۔

                    ٭نظر اس وقت تک پاک ہے جب تک یہ اٹھائی نہ جائے۔             

                     ٭بیماریوں میں سب سے بڑی بیمی دل کی ہے اور بیماریوں میں سب سے بڑی دل آزاری ہے۔                                       

               ٭حقیقی خوبصورتی کا چشمہ دل ہے۔ اگر یہ سیاہ ہو تو چمکتی آنکھیں کچھ کام نہیں کرتیں۔                        

                 ٭محبت کے لحاظ سے ہر باپ یعقوب اور حسن کے لحاظ سے ہر بیٹا یوسف ہے۔

                  ٭جو شخص انتقام کے طریقوں پر غور کرتا ہے اس کے زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔

                 ٭جب آئے دن تمہاری رائے بدلتی رہتی ہے  تو پھر اپنی رائے پر بھروسہ کیوں کرتے ہو۔

               ٭قلت عقل کا اندازہ کثرت کلام سے ہوتا ہے۔                   

                  ٭اپنی زندگی میں محبت کی اعلیٰ ترین مثال  وہ ہے جب سیب چار ہوں پانچ  کھانے والے۔ تب  ماں کہے  کہ اسے  سیب پسند ہی نہیں۔                                             

بہترین عمل ہے  ٭ 'ذکر'   

                     ٭تلوار، توپ اور بندوق سے لوگ اس قدر نہیں مرتے جتنے کہ زیادہ کھانے سے۔

               ٭دو تمنائیں  رکھنی چاہئیں ۔ پہلی یہ کہ خدا کا کلام سننا چاہیئے   اور  اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے جواس شخص پر برستی رہتی ہیں ۔  اپنے گناہوں کی پردہ پوشی پرکثرت سے توبہ کی جائے۔ دوسرا یہ کہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کئے جائیں۔

ابن سینا نے فلسفے  کی مختلف شاخوں کے بارے میں لکھا اور ملحدانہ نظریات کو  اسلامی نقطہ نظر سے بیان کیا جن کا مختصر جائزہ مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت کیا جائے گا۔جس میں پہلا نمبر مابعداز طبیعیات کا مطالعہ ہے۔

 

ما بعد از طبیعیات

Metaphysics

 

آدم تجسس لئے پیدا ہوا ہے۔ اس کے ذہن میں پیدائشی طور پر کھوج کی جستجو رہی ہے۔وہ ظاہر ا ور ان دیکھے مظاہرات  سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہے،  کررہا ہے اور کرتا  رہے گا۔ زمین اور کائنات کیسے تخلیق ہوئی۔ کیا اس کا کوئی خالق ہے یا موسموں کے تغیر و تبدل سے معرض وجود میں آئی۔مادی اشیا کے  جائزےسےرفتہ رفتہ  علم ہوا کہ ارد گرد ایسی اشیا بھی ہیں جو نظر نہیں آتیں مگر موجود ہوتی ہیں جیسے وہ نیند کی حالت میں ایسے واقعات و حالات سے گزرتا ہے جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن میں یکدم کوئی سوچ آتی ہے جو سچ ثابت ہوتی ہے۔ ایسی اشیاء موجود تو ہیں لیکن نظروں سے اوجھل ہیں۔ ایسی اشیا جو ظاہری حالت میں دیکھی نہیں جا سکتیں لیکن موجود ہیں، انہیں ماورائی کہا جاتا ہے۔ ایسے مظاہر ما بعد از نفسیات کے مطالعے کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسکے ذرائع  میں آگاہی انسان اپنی فطری صلاحیتوں، چھٹی حس،خوابوں، علم، عقل، تجربے اور ذاتی بصیرت سے لگا سکتاہے۔صوفی، اولیا، نبیوں اور رسولوں میں یہ وصف عام لوگوں سے بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان پر تجلی، وحی اور کشف سےعالم ارواح تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔اس جستجو میں ابن سینا دوسرے علماومشائخ  کے ساتھ یہ کھوج لگانے میں کامیاب ہو گئے کہ کائنات تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سال سے موجود ہے۔ اس کی وسعت تیرہ اعشاریہ چار سال سے اس وقت ہونا شروع ہوئی جب سوئی کے ہزارویں حصےمیں موجود ہائیڈروجن گیس گرم ہو کر زبردست دھماکے ( بگ بینگ) کے ساتھ پھٹی اور پھیل گئی۔ اس کے بعد سیارے، ستارے ، چاند سورج وغیرہ پیدا ہوئے جو روشنی کی رفتار سے زمین پر دس کھرب نوری سالوں  کی مسافت پر ہیں۔

ابن سینا  دیگرعلوم میں دلچپی کے باوجود غیر مادی  اور سما وی  اشیاء  یعنی  ما بعد از طبیعیات  ( میٹا فزکس )کے مطالعے  کی اہمیت بھی سمجھتےتھے۔انکے نزدیک منطق اور علم و دانش سے کائنات میں وجود (کاسمالوجی)اور انسان کی باطنی دنیا کے بارے میں معتبر اور صحیح معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ یہ موضوعات مابعد از طبیعیات کے دائرے میں آتے ہیں۔اسکےتحت منطق کے ذریعے منظم طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وجودکس اصول کے تحت تشکیل پایا ،وہ کون سی چیز ہے جو وجود میں زندگی بھرتی ہے۔زندگی اور موت کے پیچھے کون سے عوامل شامل ہیں۔ وجود اور عدم وجودلازمی طور پر  کسی اصول کے تحت واقع ہوتے ہیں جسے انہوں نےاہم ترین اور بنیادی اصول یعنی 'اول  ا صو ل '    کا نام  دیا۔اس اصول کو استعمال کر کے مظاہر کے  ہونے یا نہ ہونے  کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ما بعد از طبیعیات موضوعات  کے بارے میں  مختلف  ذرا ئع سے  معلوم کر سکتا ہے کہ وجود کیا ہے، کیسے بناور اس سے متعلقہ امور کون کون سےہیں۔ اس سے آگے بڑھ کریہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلسفہ کیا ہے،فلسفے کا کیا کردار ہے اور مذہب اس کی تشریح کسطرح کرتا ہے۔ طبعی اور روحانیت کیا حلیف ہیں یا حریف،جنت، د وزخ، سزا جزا، فرشتوں (اینجیالوجی )اور دیگر ماورائی خلقت،پیش بینی تجلی (پروفیسی)، خوابوں کی تشریح، موت اور حیات بعد از موت ( ایس چیٹالو جی) اور الٰہیات ( تھیالوجی) ،روح النفس اور تجلی کے مظاہر (ایمینیشن) وغیرہ کا کیا کوئی کردار ہے۔ ان ذرائع سے مواد اکٹھا کر کے حاضر وغائب،موجودوعدم کامعروضی اور موضوعی علوم   کا مطالعہ ما بعد از طبیعیات سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ' اصول اول' کے تحت  ان میں اسباب و علل (علت و معلول یا سبب وجہ یا مسبب اور اثر)  میں تعلق معلوم کرتی ہے۔ ان وصائف  کی بنا پر ما بعد از طبیعیات  کو تمام علوم کا منبع  اور مقدم سمجھا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس علم میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس کا سلسلہ جاری رہا اور مستقبل میں بھی  اتنے ہی انہماک سے جاری رہے گاجب تک کہ معروضی حقائق تک رسائی حاصل نہیں ہو جاتی۔یہ سب موضوعات مابعد اس

طبیعیات کے مطالعے میں شامل ہیں۔اب ہم علم الٰہیات اور علم وجودیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

 

(2.0علم الٰہیات اور علم وجودیات کے مابین مابعد از طبیعیات

Metaphysic  and , Theology Ontology

 ابن سینا نے اپنے فلسفے کی بنیاد ارسطو کے فلسفہ ما بعد از طبیعیات (میٹا فزکس) سے لی ۔ ان میں ایک فلسفہ تو ارسطو سے براہ راست بھی لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ الفارابی، الکندی، یحییٰ بن عدل اور دیگر یورپی  فیلسوف ( الگزینڈر آف ایفروڈی عس ،تھا مس ٹی عس،ہر نیز کا  امونی عس اور نو افلاطونی) عظیم ترین فلسفی اہم نام) ہیں جن کے مطالعات سے وہ فیض یاب ہوئے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے نظریات میں بہتری کی گنجائش تھی۔ان میں ترمیم و اضافہ کیا جا سکتا تھا  ۔

انہوں نےما بعد از  طبییعات پراپنا نظریہ پیش کیا۔ ان کے فلسفے میں علم الٰہیات اور علم موجودات مقبول موضوعات تھے۔ انہوں نے اپنے فلسفے میں خدا کی ذات، اس کی آفاقی حیثیت، خدا اور دنیا کے تعلقات، نیکی بدی کے مسائل کے مطالعات کا تاریخ میں پہلی بار مادی اور غیر مادی علوم  کے تحت کیا۔

ابن سینا نے اس میں سب سے پہلے جو موضوع چنا وہ علم الٰہیات ( تھیالوجی) بمقابلہ علم وجودیات یاعلم یاموجودات (اونٹالوجی) تھا۔ 

 

(2.1 علم الٰہیات اورعلم موجودات

Theology and Ontology

ابن سینا نے مابعد از طبیعیات کی بنیاد الفارابی کے فلسفہ ما بعد از طبیعیات پر رکھی۔اس کی رو سےجب بھی کسی موضوع پر بحث کرنی ہو تو لازم ہے کہ اس موضوع سے متعلق موزوں موادوافر مقدار میں پہلے سے مو جود ہونا چاہئیےتاکہ اسکو بنیادبنا کر گفتگو کا آغاز کیا جا سکےچونکہ اس وقت علم الٰہیات اور علم وجودیات پر طبعی علوم اور فلسفے نےاپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیاہوا تھا اس لئے ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر تبصرہ کیا جا سکتا تھا۔ 

ابن سینا نے کہا کہ مابعد از طبیعیات کا تعلق وجود(بی اینگ)کے ساتھ ہے جسکا مطالعہ علم موجودات (اونٹالوجی) کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک وجود کا قیام جس اصول کے تحت ہوتا ہے اسے 'اصول اول'(فرسٹ پرنسپل)کہتے ہیں۔الٰہیات (تھیالوجی) کی تفہیم اس اصول کے تحت کی جاتی ہے۔ انہوں نے علم بحث کا آغاز وجود کے تصور سے کیا۔ اس نکتے کو بنیاد بنا کر ابن سینا نے اپنی رائے قائم کی۔ ابن سینا نے کہا کہ ما بعد از طبیعیات میں وجود کی تعریف دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ اسے انہوں نے'دوہری تعریف'  کہا جسے ذیل میں بیان کی گئی ہے۔ 

 

(2.2 دوہری تعریف کا مفہوم

Meaning of Double Definition  The

 اس سے مراد ہے کہ کسی بھی صورت حال یا  مظہر کو دوذرائع سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ایک ذریعہ تو علم الٰہیات (تھیالوجی) اور دوسرا ذریعہ علم وجودیات ( اونٹالوجی) ہے۔ یعنی ایک شئے کو دوپہلوؤں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ان دونوں پہلوؤں کا الگ الگ دائرہ کار ہو  نا چاہئیے۔ اگر واقعے  کی روحانی طور پراور طبعی علوم کے تحت بھی تعریف کی جائے تو مختلف تناظر سامنے آئیں گے۔ مذہبی پہلو اپنے انداز میں اور طبعی علوم اپنے حساب سے وضاحت کرے گا۔ان پر بحث و مباحثے کے بعددرمیانی  راستے پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ ان میں مکمل یا کسی حد تک ربط قائم ہو  سکے گا۔ ان کے مابین خلیج پاٹی جا سکے گی۔ دوسرے معنوں میں دونوں علوم ایک دوسرے کو راستہ دیں گے اور اختلافات کم سے کم ہو سکتے ہیں۔ ان تعریفوں سے مذہب اور فلسفے میں تفاوت کم سے کم  کی جا سکتی ہے۔  

دوہری تعریف یعنی دو پہلوؤں اور الگ الگ نقطہ نظر کا طریقہ اس لئےبھی معقول ہے کہ یہ معروضی بھی ہے اور موضوعی بھی۔اگر خدا کے وجود کی ما بعد از طبیعیات کےتعقل کی دوہری تعریف کی جائے تو مطالعے کی غرض سےالٰہیات( تھیالوجی)کے ذریعےوجودکی تعریف کی وضاحت کرتے وقت  اسے کسی بھی شرط سے مبرا کر دیا جاتا ہے اور وہ ذات مطلق ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے اسے کسی اور چیز سے  نہ تو منسلک کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوسرےعلم کی تعریف کے لئے لازم قرار دیا جا سکتا ہےجبکہ علم وجودیات ( اونٹولوجی ) کے تحت تعریف کرتے وقت ہمیں خدا کے وجود کی شناخت کرنا پڑے گی اس کے لئے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس کے وجود کو ثابت کرنا پڑے گا۔ 

خدا کے وجود (ایگزسٹینس آف گاڈ)کو وجودی علم  ( اونٹالوجی ) کے ذریعے پرکھنے کے لئے فلسفی سب سے پہلے ان مشاہدات کو سامنے رکھتا ہے جو میسر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ تحقیق سے مزید ایسے حقائق اکٹھے کرتا ہے جو موضوع سے متعلق ہوتے ہیں پھر اپنے علم،عقل ،ذاتی تجربےاور اپنی بصیرت سے حقائق کو سامنے رکھ کراس مظہر کی وضاحت کرتا ہے جو ماسوائے تجزیے کے اور کچھ نہیں ہو تا۔شئے موجود تو ہوتی ہے لیکن براہ راست نظر نہیں آتی بلواسطہ اور بلاواسطہ طریقوں سے اسکا علم ہوتا ہے۔ ہوا،باطنی خیالات ،خواب ،وقوف، خواہشات ، طلب،تاثرات وغیرہ ظاہری طورپر نظر نہیں آتے لیکن حقیقت میں موجود ہیں۔علم وجودیات کی منطق سے خدا کے وجود کا  مطالعہ کیا جاتا ہے۔  

خدا کی ہستی ثابت کرنے کے لئے دنیاوی مشاہدات اور دیگر مواد کے بعدایسے دلائل دئیے جاتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ خدا موجود ہے لیکن یہ تجزیہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا نتیجہ مؤخر حالت ( پوسٹی ریئؤ ری) کی بنا پر نکالا جاتا ہے۔ کائنات، چرند پرند اور اشرف المخلوقات کی تخلیق کس نے کی  ہے ؟   نظام ہستی کون چلا رہا ہے؟سے اخذکیا جاتا ہے کہ کوئی مطلق ہستی موجود ہے اور وہ وجود خدا کا ہے۔ 

 کینٹ بری کے فلسفی 'اینیسلم' کے نزدیک خدا کے وجود کا مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا کوئی ایسی شئے ہے جس کی عظمت کا زیادہ سے زیادہ تصور کیا جا  سکے اور وہ سب سے بڑی شئے ہو۔ اس کے وجود سے بڑھ کر کوئی اور ہستی نہیں کا تصور ذہن میں لایا جائے۔اس  بلند و بالا ہستی کو وہ خدا کہتا ہے جو مطلق ہے۔ 

 مذہب اور طبعی علوم میں مطلق کامل وجود کی تعریفوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں انتہائی کامل وجود میں بھی کسی نہ کسی جگہ عدم موجودگی پائی جاتی ہے۔ وہاں بھی تکونی زاویے کا  زیادہ سے زیادہ اس بات کا تصور پایا جاتا ہے کہ جس کے اندرونی زاویے 180 درجے کے نہیں ہوتے۔ ڈیکارٹ یہ کہتا ہے کہ چونکہ ہما رے ذہن میں کامل اور اعلیٰ شئے کا تصور پایا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عظیم کامل ہستی کا وجود ہے۔ 

اٹھارویں صدی میں لیبزگ نے خدا کے وجود (ایگزسٹنس آف گاڈُ) میں ڈیکارٹ میں کمی کو دور کرنے کے لئے کہا کہ جب تک اس بات کو ثابت نہ کیا جائے کہ عظیم کامل وجود اس سے مربوط ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ وہاں ہونے کے لئے کہ ایک  بر تر کامل ہستی موجود ہے۔ لیبنز نے کہا چونکہ کاملیت ایک غیر تجزیاتی عمل ہے اس لئے مکمل پن کے اظہار اور تضادات دور کرنے کے لئے الٰہیاتی ( تھیالوجی ) اور وجود ی علوم ( اونٹالوجی )کو ملا کر مطالعہ کیا جائے  تو وہ واحد یت پیدا کر دے گی۔ لیبزگ نے اینسیلم  اور ڈیکارٹ کی خدائی وجود کے نظریے میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے کہا کہ علم وجودکے دلائل معقو ل نہیں َان کی مخفی اورمضمر ات کے فرضیوں پر جو وہ خدائی ہستی کے بیان میں استعمال کرتے ہیں ، وہ صحیح نہیں  اور ٹھیک طرح پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تا ہم مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کے مطابق یہ بات آسان ہے کہ اگر اس بات کا پتہ چل جائے کہ وجودی دلائل درست نہیں اور اس کے مکمل طور پر صحیح ہونے کا بھی علم نہیں  تو فلسفی اس موضوع پر زور شور سے  مزید ایسی معلامات حاصل کرنے لگتا ہے جو اس موضوع سے متعلق ہوں۔ اس کے لئے مزید مطالعات کرنا پڑتے ہیں۔  یہ عمل ہمیشہ سے جاری ہے اور پر بحث  آئندہ بھی جاری رہے گی۔ 

ٰ  ابن سینا کے نزدیک' خدا کاوجود' مابعد از طبیعیات میں علم الٰہیات (تھیا لوجی) او علم وجودیات  ( اونٹالوجی ) کا  ایک اہم موضوع ہے۔ خدا کا وجود ہونا بذات خود وجود د کا جزو ہے  :   ما بعد از طبیعیات   میں یہ خود  ہی ا پنے آپ میں دوہری تعریف پیش کرتا ہے۔ اس کی  خاصیت کی  دوہری تقسیم کی وضاحت کرتے وقت اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے جس سے وہ کسی بھی شرط سے مبرا ہو جاتا ہے۔ اسی بنا پر اسے مطلق کہا جاتا ہے۔ جب وجود یا ذاتی ہستی ( بی انگ سیلف)  کی دوہری تعریف(دو پہلوؤں کا تناظر ) کرکے کسی اور شئے کے ساتھ منسلک  نہ کر کے کیا جائے غیر طبعی مواد موضوع تک بغیر کسی سبب کے وجود تک ہی محدود رکھا جائے تو وہ مطلق ہی رہے گا۔ لیکن اگر اسے مابعد از طبیعیات سے الگ کرکے وجود کی  شناخت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ اس قت اسے منطق کے دائرے میں لا کر  غالب ( ڈومی نینس) اور اس میں منطقی پیشگوئی عزم کے تحت امتیاز کیا جائے گا ۔ اس وقت  وجود نہ تو کسی شرط (من  شرط) کے اصول پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی بلا شرط پر۔ ( من  غیر شرط)  کے جو عام لوگوں کے لئے مشترک وجود کے حصول میں اہم ہیں۔الٰہیات میں عزم کو شرط کے طور پرلیا جاتا ہے۔( لا بی شرط الزیادہ)  اور یہ بغیر کسی شرط کے جس کی پیش گوئی نہ کی جاسکے یا کسی اصول کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو ترتیب موٗخر الذکر میں وجود تشکیل ہو تی ہے۔ اس وقت وہ بغیر کسی پیش گوئی اور شرط کے بغیر وجود کی حیثیت تسلیم کر لے گا۔ اس وقت ایسا محسوس ہو گا کہ جیسے ان میں کبھی تعلق ہی نہ رہا ہو۔ اس سے اس نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ یا تو اس  سے عمومی وجود کی  اہمیت کم ہو جاتی ہے یا  اس سے اس کے عزم میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی ربط، تعلق  اور تشریحات کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس سے عمومی وجود کی حیثیت  اور اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ تکنیکی زبان میں یکساں خاصیت والے جواہر الٰہیات میں بیان کرتے ہیں کہ وجود  یا تو ہے یا  پھر نہیں۔کسی بھی مظہر کی تفہیم میں ابن سینا نے تصور مطلق کے اصول اول کی اہمیت بیان کی جو درج ذیل ہے۔

 

(2.3   ما  بعدا  ز طبیعیات کی الٰہیات  کا اصول اول  بطور مطلق سبب

Theological Vocation of Metaphysics : The First Principle is Absolute Cause

 ابن سینا  کے نزدیک کسی شئے کے مطالعے  کے لئے کسوٹی بنانا ضروری ہے  اس کے لئے انہوں نے کہا کہ حقیقت تک رسائی کے لئے  کوئی  ایک بنیادی نکتہ ضرور ہونا چاہیئے  جس پر وہ مظہر پورا اترے۔ خدا  کا وجود، کائنات اور مطلق العنائیت مقبول موضوعات تھے جن پراہل دانش اپنے اپنے رنگ میں وضاحت کر رہے تھے۔

 ابن سینا نے  ان علمی تنازعات کا  موازنہ  ارسطو کےُ  تصور وجودیت' سے کیا۔  اپنے فلسفے  میں کائنات کی تخلیق اور مستقل و جود کا مط لعہ کرتے وقت انہوں نے اس ماد ے کی بات کی جس پر وہ  بنی تھی۔ اس کی صورت و شکل کا جائزہ لیا اورقوت اور اعمال کو اپنے فلسفے میں شامل کیا۔ اس کے استقلال ( مستقل  پن)  اور حرکت کے بارے میں وضاحت کی۔ انہوں نے کہاکہ ان تمام موضوعات کو  مابعد از طبیعیات اور طبعی علوم کے ذ ریعے ' اصول مطلق ' کے تحت ثابت کرنا چاہئیے۔ فزکس جو کہ اجسام اور ان کی حرکات پر بحث کرتی ہے، اس بات کو معروضی طور پر واضح کرسکتی ہے لیکن اس کی وضاحت صرف اس عنوان کی باریکیوں تک ہی محدود رہتی ہے  اور اس موضوع  سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس سے متعلقہ دیگر موضوعات کو اپنے دائرے میں شامل نہیں کرتی۔ اگر مادہ پر تحقیق ہورہی ہو تو اس کی بناوٹ، اس میں شامل کیمیائی عناصر یا  اگر حرکیات پر مطالعہ ہو رہا ہو تو اس کی مبادیات اور حرکت کی وضاحت  توکر سکتی ہےلیکن بڑے موضوع بنیادی وجودیات   کے سوال  کا جواب دینے میں ناکام رہی ہے کہ دنیا کے وجود کی ابتدا  کیسے ہوئی،   ایسے موضوعات  ما بعد از طبیعیات  اور فلسفے سے ہی سلجھائے جا سکتے ہیں۔  ( الٰہیات  1, 6, 12-14, 17) 

ابن سینا  دنیا کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کے سوال  کے جواب میں  نظریہ مستقل وجود کو اپنے فلسفے میں تسلیم کیا جو ارسطو نے اپنے نظریہ حرکت میں بیان کیا تھا۔ مادہ ، صورت ، قوت اور افعال میں ابن سینا یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کی تخلیق مستقل حیثیت میں ہوئی ہے۔ حرکت پائیدار اورمستقل ہے۔ اس موضوع کے پیش نظر ارسطو نے مابعد از طبیعیات میں فزکس کا مضمون شامل کیا  تھا۔  اس لئے وہ اس بات کو  فرض کرتے ہیں کہ دنیا کی وجودیت (موجود) میں بغیر حرکت والی شئے کی بجائے متحرک شئے ہی وجود بنانے کی  اصلی  وجہ ہے ۔ ( الٰہیات    VI  1, 13-16, 257) اس طرح سے وہ ما بعد از طبیعیات اصول کو  ایک نما ئندہ طور پر لیتے ہیں۔ ( اعتقاد   14-19, 62)۔یہ اول اور کامل اصول  وجود کی تشکیل کی بدولت ہے اس لئے اس بنا پر وہ اور ان کے مقلد اس اصول کو اس کے نمائندہ کے طور پر لیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کئی پہلوؤں سے دیکھا جائے تو وجود کی حیثیت کامل  لگتی ہے۔ اصول اول ہمیشہ وجود کے تعین میں حتمی سبب ہونا چاہئیے۔ چونکہ خالق کے تصور سے ہی وجود جنم لیتاہے اور اس نکتے کو کہ حرکات سے وجودیت کو حتمی شکل دینی چاہیئے موزوں لگتی ہے۔اصول اول ہر پہلوسے بنیادی بغیر حرکت کرنے والے حرکات کا جواز نہیں بنتا بلکہ وجہ بن جاتا ہے۔ اس لئے  اپنی باری پر   لازماً بنیا دی اصول اپنایا جانا چاہئیے  تاکہ معتبر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔   ابن سینا نے اس کے بعد دوہری تعریف میں وجود میں آہنگی اور امتیاز پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ 

4. 2 دوہری تعریف میں وجود  میں ہم آہنگی اور امتیاز

Univocacy of Being and Ontological Distinction

الگ الگ  مضامین اور پہلوؤں سے کسی شئے کا جائزہ  لینے سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سی خصوصیات یکساں ہیں اور کہاں فرق پیا جاتا ہے۔  اختلاف  دور کرنے کے لئے ان خیالات کے علاوہ جہاں اعتقادات کا ٹکراؤ ہو  افہام و تفہیم  کرنا پڑتی ہے۔ مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کے مطابق یہ بات آسان ہے کہ اگر اس بات کا پتہ چل جائے کہ وجودی دلائل درست نہیں اور اس کے مکمل طور پر صحیح ہونے کا بھی علم نہ ہو تو فلسفی اس موضوع پر زور شور سے مطالعات کرنے لگتا ہے۔ تضادات کو سلجھانے کا  یہ سلسہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔  

وجود کی علم الٰہیا ت  اور علم وجودیات میں تفریق کرتے وقت معلوم ہوا کہ ان کے معانی میں معمولی فرق ہے۔ الٰہیات میں وجود کی تخلیق بلا سبب ہے۔ اصول بذات خود وجود کا حصہ ہوتا ہے۔ جو وجود کے قائم ہونے تک رہتا ہے۔ وجود ختم ہونے کے بعد وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ جبکہ علم وجودیات میں پہلے  اصول کا اطلاق لازماً کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو پیش کرنے کے بعد انہوں نے روح اور وجود کا فلسفہ پیش کیا۔جسے آگے پیش کیا جائے گا۔

 

 

1)            Metaphysics  ---Sources   and  Importance

مابعد از طبیعیات :  ذرائع اور اہمیت

   (2  Metaphysics Between Theology and  Ontology.

مابعد از طبیعیات ، الٰہیات اور علم وجودیات

    3)        Theological Vocation                             الٰہیاتی تقسیم 

   (4  Modality  and  Existence.                                                                                                                                                                                                                                                                                         وضع    اوروجودیات    

5)      Causality and Cosmology ابن سینا اور کائنات کی وجوہات

                                6)            Conclusion                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               نتیجہ    

روحانی شعور اور وجود

Essence and Existence

ابن سینا  ( بو علی سینا)

(Avicenna)

 

ابن سینا  کے حالت زندگی،                ماہر طب، ماہاہر نفسیات                 (پہلی  قسط) ؛  نظریہ مابعد از  طبیعیات  اور علم الہٰیات  اور علم موجودات  (      دوسری قسط )             کے بعد اب ہم                          اس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ کائنات میں روحانی   شعور (    ایسینس ) ا  ور موجودات(       ایگزیسٹینس)  کیا ہیں اور ان کا کیا  کردار                ہے۔  ابن سینا نے کائنات کی تخلیقی عمل روح اور وجودکو بنیادی اہمیت دی۔انہوں نے ان موضوعات کو مندرجہ عنوانات کے تحت بیان کیا۔   

3.0            Essence and Existence

3.1            Composition Essence and Existence

3.2            The Distinction between Essence and Existence

3.3            The Composition of Essence and Existence

3.4            Quiddity and Mental Existence

3.5            Oneness Ontology and Henology

 

3.0 )   Essence and Existence      

(3.0 روحانی  حصور ( روحانی شعور)    اور وجود  

ابن سینا  نے اپنے فلسفے میں   روحانی  شعور  اور وجود ؛ ماہیت بطور اساس؛  ماہیت اور وجود میں امتیاز؛  ماہیئت aور وجود میں امتزاج؛  ذہنی وجود اور خاصہ (کیو ڈیٹی) اور علم موجودات اور علم المظاہر موضوعات کے تحت بیان کئے۔          

3.1) Essence and Primary Principle          

3.1)  روحانی حصول بطور بنیادی (اساسی) اصول  

 ماورائی اور غیر ماورائی   تصورات کی فلسفیانہ بحث میں      مقرون اور غیر مقرون اشیا  پر بحث کی گئی۔ مقرون اشیا    ایسا وجود رکھتی ہیں جو براہ راست ثابت کیا جا سکے۔  وجود کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ وہ مادی ہو۔ چھوا جا سکتا ہو۔ حواس خمسہ کی مدد سے ماپا جا سکتا ہو۔   ابن سینا کے تحت وجود کی دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ شئے موجود تو ہوتی ہے لیکن دوسروں کے سامنے ظاہری طور پر پیش نہیں کی جا سکتی۔ بھوک ،پیاس ، جذبات و  احساسات  بظاہر چھپا بھی لئے جائیں تو بھی ہر فرد میں مو جو د ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی  شئے کو وجود کہتے وقت  یہ بات نظر انداز نہیں کی  جا سکتی کہ درحقیقت   وجود کا تصور  ایسا ہی ہے کہ جیسا بیان کیا گیا ہے۔اس  میں اشیاء کے ہر چھوٹے سے چھوٹے عنصر   کو  شامل کیا جاتا ہے۔ وجود کے تجزیے کے لئے بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کی حیثیت کو مطلق تسلیم کیا جانا چاہئیے۔ کوئی بھی شئے اس کے دائرے سے باہر نہیں۔ اس کے دائرے میں اس کا خا صہ (کیو ڈیٹی) آتا ہے جو اس کی وضاحت کرتا ہے جو بیان کرتا ہے کہ اس کی حقیقت       کیا ہے، یہ کیسے معرض وجود میں آیا؟  وجودخواہ وہ قابل مشاہدہ ،  تخیلاتی ہو یا قابل فہم ہوں عقل و دانش کی کسوٹی پر  اس کاپورا اترنا ضروری ہو تا ہے۔ ۔ابن سینا  کے فارمولے کے تحت جس کا اثر اس عمل میں بہت زیادہ ہے قرون وسطیٰ  کے یورپی فلسفے پر عموماً  کے نزدیک  وجود ایک  شئے  کے  لئے  اس وقت بھی  تسلیم کیا جاتا ہے اگر  اس وجود کی  نیت  ( روح)بھی شامل ہو تو وہ استدلال سے بالواسطہ طور پر ثابت کی جا سکتی ہیں۔

 ابن سینا           کے نزدیک وجود کی بنیاد یا اول، یا اصل یا پہل (ہر وہ شئے  جو کہ تصور کی جاتی ہے) کا           پہلے پہل عموماً غیر متوقع نتیجہ نکلتا ہے۔ ایسے نتیجے کے بارے میں سوچا گیا نہیں ہوتا ۔ ہر وہ شئے  جو ذہن میں  موجود ہویا تصور کی گئی ہو یا ذہنی طور پر اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہو۔ ایسی اشیاء جن کا کوئی وجود نہ ہو، بھی  اہم ہوتی ہیں لیکن انہیں وجود نہیں کہا جا سکتا۔اس سے یہ مراد  تخلیق،عقلی یا قیاسی نہ لی جانی چاہیئے۔   

  ایسی اشیاء جن کا کوئی وجود نہیں در اصل احیا ء ہوتی ہیں جیسے یہ ممکن ہے کہ وہ تخیلاتی اشیا ء کی صورت میں وجود ہوں جو صرف ذہن میں ہی پائی جاتی ہوں۔ ( الًہیات  1, 5, 12-34).۔ ناممکن اشیاء غیر موجود محسوس ہوتی ہیں کیونکہ ذہن میں ان کا باقاعدہ تصور موجود نہیں ہوتا ۔وہ تخیلاتی  ہوتی  ہیں۔وجودیت میں وجود کا عقلی جواز ہوتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے۔ 

ابن سینا نے یہ  وجود ، روح اور   حقائق تک منطق کے ذریعے رسائی           کےیونانی  اصول خطابت کے نظریے سے لئے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ہم کسی بھی شئے کی حقیقت تک رسائی کے لئے تین طریقے اپناتے ہیں ۔  اس نے         اس کے لئے  اسلوب خطابت      کے اصول  (     Principles  of Rhetoric Mode )  کی اصطلاح استعمال کی۔ اس کے نزدیک  کسی بھی شخص  کو قائل کرنے میں تین  عوامل اہم شمار   ہوتے ہیں ۔ اس سے ہم کسی بھی معاملے کی سچائی تک پہنچ سکتے ہیں جو   قومی مزاج (Ethos) ،  جوش         و ولولہ                              (  Pathos   ) اور             منطق اور استدلال(Logos)     اہم ہیں۔   مزاج  (  ایتھوس ) کا تعلق مقرر  اور سامعین کے کردار سے ہوتا ہے۔ ان کی اہلیت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ وہ کسی منطق کو سمجھ سکتے ہیں یا نہیں۔ مقرر اپنی بات کو صحیح طریقے سے سامعین تک پہنچا  پا رہا ہے یا نہیں ۔مقرر کا  انداز انہیں قابل قبول ہے یا نہیں۔  دوسرا عنصر  جوش و ولولہ ( پیتھوس ) ہے  جس  میں عوام کے ان معاملات پر اہمیت دینا ہے  جو ان کے لئے ناگزیر ہوں۔ ان کے لئے حساس ہوں۔ ان کے لئے لازم یا بہت ضروری ہوں ۔ ان پر زور دے کرعوام کے  جذبات ابھار کر ترغیب دی جا سکتی ہے ۔ ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا اہم ہے۔  تیسرا عنصر اس نے منطق اور دلائل ( لو گوس )   کہا۔ استدلال  سے اپنے نقطہ نظر کو اجاگر کرنا   منطق سے قائل کرنا             ہے۔  یہ تینوں عناصر کسی بھی مظہر میں  اہم ہیں۔

ابن سینا  نے روح کا تصور بھی ارسطو اور دیگر فیلسوف سے لیا۔  عبرانی زبان میں  ہر وہ مخلوق جو سانس لیتی ہے  اس   کے بدن میں ایسی شئے ہے جو اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشتی ہے۔ وہ   براہ راست نظر نہیں آتی لیکن اس وقت تک جسم میں موجود رہتی ہے جب تک سانس کی ڈوری چلتی رہتی ہے۔        اس  کو کئی سو سال بعد  انجیل مقدس میں بیان کیا گیا۔  مسیحی  روح کو خدا کا کلام کہتے ہیں۔ یہ وہ شئے ہے جو استدلال مہیا کرتی ہے۔ ان کا اہم ترین عقیدہتثلیث                                        )(Trinityہے۔ انجیل مقدس میں یہ خدا، خدا کا بیٹا اور خدائی ر وح ہے جو مسائل کا مداوا کرتی ہیں۔  ماہر نفسیات کارل یونگ  کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے  استدلال  کے استعمال کو روح کہتا ہے ہے۔  ابن سینا نے اسے روحانی شعور(Essence)    کہا۔

ابن سینا نے ملحدانہ تصورات کو اسلامی نقطہ میں ڈھالا۔کائنات  کی تشریح کو قرآنی تعلیمات کے زیر اثر لایا۔ن کے ذہین میں یہ تصور جوانی میں ہی پیدا ہو گیا تھا۔  انہوں نے دلائل سے خدا کی حقیقت  ثابت کی۔ انہوں نے ابتدا ارسطو کے ملحدانہ فلسفے سے لی جو مادہ اور روح  کو دو  مختلف اشیا سمجھتا تھا    اور کہتا تھا                  کہ  وہ  باہمی طور پرکبھی بھی  مل نہیں سکتیں۔دنیا اس کے اس تصور کو تسلیم کرتی تھی۔ابن سینا  نے اس  کے اس فلسفے کو تسلیم نہ کیا اور کہا کہ روح اور جسم مل سکتے ہیں۔ انہوں  نے کائنات کےتشکیل کے عمل کی تفہیم کے  لئے  وجود ( ایگزسٹنس) اور  روحانی حصول  یا روحانی شعور  (  ایسینس)  کی اصطلاحات سے ابتدا کی۔ 

وہ ہر اس شئے کو جو ننگی آنکھ کی مدد سے دیکھی جا سکے اور اس کا احاطہ کیا جا سکے وہ  تکنیکی لحاظ سے وجود (ایگزسٹنس  ) کہلاتی ہے۔ انسان، حیوان، چرند پرند،  نباتات ، آسمان، سورج، چاند ستارے  سب وجود کے دائرے میں آتی ہیں۔ یہ سب اشیا فانی ہیں۔ ان کے فنا ہونے کی مدت ہر وجود کی خاصیت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ چند لمحات سے اربوں سال ان کی عمر ہو سکتی ہے۔ اول الذکر میں حشرات الارض اور مؤخر الذکر میں آسمان، ستارے, سیارے ، زمین  اور فلکیات ,(سپر نووا ) وغیرہ آتے ہیں۔ عمر خواہ جتنی بھی ہو اس نے فنا ہو جانا ہے۔ یہ حادثاتی اور امکانی دنیا ہے جس میں چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ پیدا ہوتی ہیں، نمو پاتی ہیں، تبدیل ہوتی ہیں ، ایک دوسرے میں مدغم ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں۔ 

ابن سینا                     کے نزدیک وہ شئے جو وجود رکھتی ہو لیکن براہ راست پرکھی نہ جا سکے  لیکن فرد میں موجود ہو اور صورت حال کے مطابق    مطابقت کے لئے وقوف حاصل کرنے            کا عمل           اگرچہ    مادی  وجود                سے مختلف ہے لیکن وجود کے دائرے میں آتا ہے           اسے اس نے ایسینس کہا  ۔              اس کے لئے دیگر اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں          جو روحانی     حصول  ۔قاموس،                   روحانی شعور ،            الجوہر  ، روح کو حقیقی بنانے کا عمل یا روحانی حقیقت پسندی  وغیرہ   کی اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں روحانی شعور ایک  سانچہ ہے ۔ یہ مومی تختی (            Tabularasa)ہےجس  میں چیزیں بنتی  بگڑتی  ہیں۔ اگر اشیا تباہ  ہو جائیں تو بھی ان کی چھاپ موجود رہتی ہے۔   روح لافانی ہے۔یہ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ممکن ہے دوبارہ اس میں کوئی اور  شئے  میں ظاہر ہو۔ اس سانچے میں ایک طرف تو روح ہوتی ہے  اور دوسری طرف مادہ ہے۔ ایک طرف سانچہ  میں  مرئی شئے ہے اور  دوسری طرف          غیر مرئی۔ جب  وہ باہمی ملاپ کرتی ہیں  تو اس وقت مادہ اور روح  کے اختلاط سے نئی شئے  ظاہر ہوتی ہے۔  جو ایک تخلیقی عمل ہے جس کی بدولت پہلی سے موجود اشیا میں اصلاح، ندرت  ، انوکھا پن  یا نئی چیز  جنم لیتی ہے۔

  یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب دو اشیا  (  روح اور مادہ) ہر لحاظ سے مختلف ہیں تو ان میں ادغام کیسے ہو تا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کو آپس میں ملانے والی کوئی اور شئے ہے جس  کو یہ دونوں قبول کرتے ہیں اور اس کے اثر کی بدولت گھل مل جاتے ہیں۔ وہ تیسری شئے جو ان دو مختلف اشیا  پر عمل کر کے کوئی نئی شئے تخلیق کرتی ہے اس کو تکنیکی زبان میں  تبدیلی پیدا کرنے والا رکن یا عامل (  ایجنٹ کاز )  کہا جاتا ہے۔ روح اور مادہ       کے بعد       یہ تیسرا رکن  باہر کا کارکن ہے جس نے نئی شئے بنائی ہے۔ اس تیسرے رکن کی ایک الگ حیثیت  ہے اس کا  براہ راست   روح اور  مادہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ تیسری ہستی               جو  وجود (  ایگزسٹنس ) اور  روحانی شعور ( ایسینس  ) کو آپس میں جوڑتی ہے۔ ان میں ملاپ کر کے نئی شئے اس انداز میں تخلیق کرتی ہے  کہ اس کی  حیثیت  روحانی شعور  اور مادہ سے الگ رہے   اور اپنا وجود مکمل طور پر الگ سے برقرار رکھے  تبدیل کا باعث بننے والا رکن یا عامل (ایجنٹ کاز  )    کہلاتا ہے۔ابن سینا کے نزدیک یہ  عامل اور کوئی نہیں بلکہ  خدا ہے۔یہ خدا کی ذات ہی ہے جس نے الگ الگ وصائف رکھنے والی اشیا  مادہ یعنی ظاہر آنے والی شئے  وجود                   کوروح  میں جوڑکر کائنات تشکیل دی ہے۔            ابن سینا        کے مطابق            روح اور ، وجودکے باہمی اختلاط کی تفہیم کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ان کو فلسفے کی جو شاخ تشریح کرتی ہے ا سے وجودیاتی  ۔وضع   اسلوب(Ontological Modality )  کہتے ہیں ۔ یہ شاخ  وجود یاتی تصور کو تین طریقوں سے ثابت کرتی ہے جو ناممکن ( Impossible )؛ امکانی ( Contigent ) اور واجب الوجودیا  لازمی یا احتیاجی (Necessary

ناممکن        ( امپوسیبل )وہ شئے ہے جس میں ایسی خصوصیت پائی جائے جو وجود میں آنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ اس شئے کی پیدائش نہیں ہو سکتی ۔ اس کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا ۔ اس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دوسرے سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ وہ عدم ہے۔ اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ کسی درجے میں شمار نہیں ہوتی۔

امکانی یا ممکن ( کنٹنجنٹ)  وجود وہ ہے جو ظاہر ہو بھی سکتا ہے اور غائب بھی۔  وہ شئے بن بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ آ بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ وجود میں آ بھی چکی ہوتی ہے ، آنے والی بھی ہو سکتی ہے اور اس کا ادراک نہیں بھی ہو سکتا۔  ابن سینا  بتاتے ہیں کہ ممکن وجود کی درمیانی حیثیت ہے جسے وجود کی شکل میں لانے کے لئے تیسرے رکن کی مداخلت درکار ہوتی ہے جو ہمیشہ بیرونی طاقت ہی ہوتی ہے۔ جو مادہ اور صورت کو باہمی طور پر ملا کر وجود قائم کرتی ہے۔ امکانات کو حقیقی بناتی ہے۔

کسی شئے، عمل، صورت حال اور مظہر کو پوری طرح جاننے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کو پوری طرح جانا جائے۔ اس کے تمام پہلوؤں سے مطالعہ کیا جائے اس کے خواص کا احاطہ کیا جائے۔   مرئی اور غیر مرئی پہلوؤں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔  معلومات       کی روشنی میں   ایک سانچہ قائم کیا جاتا ہے  جو اس مظہر کے لئے اصول وضع کرتا ہے۔ یہ مثالی نمونہ کہلاتا ہے۔ کسی مظہر کی صحت اور جواز  ان طے شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔اگر  وہ سانچے کے مطابق ہوں تو بغیر کسی حیل و حجت اس وضاحت کو تسلیم کر لیا جاتا ہے ورنہ اس تشریح کو رد کر دیا جاتا ہے یا واقعات کے مطابق                اصولوں میں ترمیم و اضافہ کیا جاتا ہے۔  ڈھانچہ جتنا صحیح  بنے گا ، نقل بھی اتنی  کامل ہو گی۔ انسان کتنا ہی احتیاط کیوں نہ کرے شئے کی  شبیہ  بننے میں کچھ نہ کچھ کسر رہ جاتی ہے۔اس لئے  ماہیت  ہو بہو اصل کے مطابق نہیں ہو سکتی اس کی روح تک نہیں پہنچا  جا سکتا۔  ہو سکتا  ہے  کہ شکل اصل کے مطابق ہو لیکن وہ خواص نہ ہوں۔ جیسے پھول تو ہو بہو بن سکتے ہیں لیکن ان کی خوشبو   تصویر میں نہیں لائی جا سکتی۔  اصل وجود کی صاف تفتیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ کسی کے بارے میں نہیں پو چھ سکتی کہ یہ کیا ہے۔

خارجی وجود اور باطنی ذہنی وجود میں امتیاز  (یا وجود مقرون  حالت  میں  انسانوں کی شکل  میں ۔۔۔  ) کے بارے میں  ابن سینا یہ فرض کرتے  ہیں  کہ کوئی شئے کیا ہے اور اس کی  اصلیت کیا ہے۔  ان میں تمیز کرتے ہیں۔ اصول اول کے ذریعے اس وقت واضح طور پر اس بات کا ادراک آسانی  سے نہیں کیا جا سکتا کہ کیا  ہستی کا کوئی وجود ہے۔ کیا ایسی شئے  جو دنیا میں پہلی بار پیش کی گئی ہو، اس لئے  لازماً  وجودیت  کے دائرے میں لائی جائے کیونکہ وہ وجود میں آچکی ہے۔ حقیقت اور تصورمیں تمیز کی جانی چاہئیے ۔ 

الٰہیات  میں ابن سینا  اس نکتے پر بحث کرتے ہیں کہ وجود اور وہ مقام جس کا تعلق اشیاء سے ہے ،کے بارے میں کہا کہ کیا  اول اصول کے تحت اس میں احساس پایا جاتا ہے کہ وہاں ہستی موجود ہے (المحاصل) اور کیا اس کے قائم ہونے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ (المعتبر)۔ دونوں ہی اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ وجود کو اسوقت تک شئے نہیں کہہ سکتے جب تک وہ حقیقی نہ ہوں۔ اور اس بات کی تشریح نہ کر سکیں کہ ہر شئے جو امر شمار ہوتی ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ کیا یہ  موجودہے؟ وغیرہ۔ اس  کے بعد انہوں روح اور وجود میں تفریق  بیان کی۔ انہوں نے  روح  اور وجود میں اس کا اظہار کیا۔

                                                      ( 3.2 رو ح  اور وجود میں امتیاز  

                                                                                           3.2 ) TheDistinction Between Essence and Existence   

 ابن سینا نے  بیان کیا کہ وجودکے تجزیہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وجودیت کے دو معانی  ہیں۔  پہلا یہ کہ وہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کیا شئے  واقعی  مادہ شکل میں پائی جاتی  ہے۔ (الوقد الا عتبار)  جبکہ دوسرا معنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وجود موجود تو ہے لیکن اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔  حقیقت یہ ہے کہ اس خوبی کی بنا پر کوئی شئے ہمارے ذہن میں  موجود ہے۔اس کا تصور پایا جاتا ہے۔ کہ  یہ  کیاہے۔؟   کیا اس کو   ُ روح   ُ کہا جا سکتا ہے؟  اول الذکر معنی میں ابن سینا ا سے حقیقت سے جڑا ہوا دیکھتے ہیںجبکہ مؤخر الذکر (روح)  میں کوئی شخص یا تو اس بات کی ضرورت نہیں محسوس نہیں کرتا کہ وہ یہ معلوم کرے کہ کسی شئے کا وجود ہے بھی یاکہ نہیں۔ یا پھر وہ  اس سوال کو سرے سے  ہی نظر انداز کر دیتاہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ غیر اہم ہے۔ اسے انہوں نے ابو قدالحسن                    کہا۔ پہلے معنوں میں جس میں شئے موجود ہے اور اس کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس کو  انہوں ں نے  ُ   ا لمعتبر ُ کہا۔ اس میں دوسری حس کے ذریعے جوکہ موزوں حس رکھتی ہے وجود کی تصدیق کی جاسکتی ہے اور چیز کا حوالہ دیا جاسکتا ہے  وہ حقییقی ( الحقیقہ)،  فطری ( الطبیعیہ)، روحانی (الدت) کہاجسے ابن سینا  تکنیکی زبان میں خاصہ ( ماہیا  یعنی کیوئی ڈیٹی)کہتے ہیں۔ یہ اس شئے کی حقیقی ہو نے کی علامت  وجودیت ( سعیہ) ہے۔ یہاں وجودسے متعلق  فیصلہ سازی نہیں کی جاتی(کوئی شخص نہیں جانتا کہ کیا کسی شئے کا وجود ہے؟  ُ:  جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے اس پر کوئی  آفاقی علامت نہیں ہے۔اس میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ کسی شئے کا وجود ہے بھی کہ نہیں) جو کچھ  دوسروں کے سامنے ہے اس کی حیثیت وجود سے آزاد  ہوتی ہے اور اس کا وجود سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔(الٰہیات   1, 5, 1-9)۔  اس امتیاز کا پس منظر ارسطو کا فلسفہ ما بعد از طبیعیات ہے جس کے تحت  وسیع معنوں میں موخر الذکر  کے تجزیے (پوسٹیریریٹی  انیلسز) سے اس کی جزئیات کا  مطالعہ کیا جا سکتا ہے جہاں ضروری سوال  پوچھا جاتا ہے کہ اگر کوئی  شئے موجود ہے  اور اسکی حیثیت وجود سے الگ ہے تو اسے مابعد از طبعیات کی زبان میں پوچھا جائے گا کہ وہ شئے کیا ہےا ور یہ کہ اس کے اور کون کون سے معانی ہیں۔ ابن سینا ایسی اصطلاحات اور تعقلات استعمال کرتے ہیں جنہیں فلسفے اور اور اسلامی روایات (دونوں) میں استعمال کیا جا سکے۔اس مسئلے پر انہیں احساس ہو ا کہ یہ وضاحت   روح اور وجود کی ترکیب  سے کی جا سکتی ہے۔

 3.3)  The Composition of Essence and Existence

( 3.3 روح اور وجود کا امتزاج  کے اصول

 وجود کا دائرہ کار معلوم کرنے کے لئے ذہنی اور حقیقی خواص دیکھے جاتے ہیں۔ مثلاً روح کا خاصہیا ماہیا  ( کیوڈیٹی)ِ َ  یہ ہے کہ اسے معروضی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے بارے میں شعور اور احساس پایا جاتا ہے اور اسے منطقی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ علم وجودیات میں اس کی قدراس کے خواص کی ترکیب کے لحاظ سےمعلوم کی  جا سکتی ہے۔ان اشیا ء کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جو تعلق پایا جائے گا  وہ  لازماً صرف تعقلاتی  ہی نہیں بلکہ شئے کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ساخت اور ڈھانچے  کے بارے میں بھی بیان کرتا ہے۔ ان میں امتیاز معلوم کرتا ہے   اور تصدیق  بھی کرتا ہے۔ اس سے عرفان حاصل ہوتا ہے۔ 

یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کسی شئے کی بنیادی روحانی شعور (  ایسینس )  کا مطالعہ سماوی اور غیر مادیت کی بنا پر لیا جانا چاہیئے۔ اسے وجود کی طرح  معروضی نہ لیا جائے۔ روح  علم وجودیات کی وجودیت پر پورا نہیں اترتی۔ ابن سینا نے کہا کہ  روح کی سچائ معیار،   واقعیت اور حقیقت کیا ہے اہم ہیں ان خواص   کی بنا پر دیکھا جانا چاہئیے۔یہ جان کر کہ  شئے کیا ہے۔ اگر تجزیہ کرتے وقت اسکےخاصہ (کیو ڈیٹی) سے اس کے وجود کے بارے میں پتہ  نہیں چلتا۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایسا لگے کہ کوئی شئے بذات خود اندرموجود ہے لیکن در حقیقت ایسا نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اندر کوئی شئے موجود نہ ہو لیکن ایسا معلوم ہو کہ وہ موجود ہے۔ یہ تمام معاملات اس شئے کے خاصے ( ایکو ڈیٹی)  اور جزویات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی حاصل ہو گی۔ اس کے بارے میں جو شئے ظاہر ہو یا نہ نظر آئے، وہ اصول واجب الوجود  (نیسیسری پرنسپل) کے تحت ہی رونما ہو گی۔ صرف خالصتاً  وجود  جو اندر اور باہر دونوں سے لازما ثابت ہو اس کو وجود اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے، عدم وجود کہا جائے گا۔ تکنیکی زبان میں اگر تجزیہ کرتے وقت ا س کے اجزا  اور خاصے  کے با رے میں مثبت اشارات موصول ہوں اور یہ جان لیا جائے کہ وہ شئے کیا ہے اور ہر کوئی یہ جان لے کہ وہ کیا شئے ہے، سے ہو سکتا ہے کہ ایک شئے اندر لازماًر مو جود ہو اور اپنے آپ میں ذات رکھتی ہو  تو اس وقت کے وجود کے آگے اور پیچھے کوئی خا صہ نہیں ہوگا  اور موزوں انداز میں اس کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے اسے شئے کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں یہ  شئے  ُضروری اصول  ُ  کے تحت ظاہر ہوئی ہے۔ وہ کسی شرط کے تحت نہیں  اور اس کا وجود نہیں اس لئے اسے روح  تصور کرنا شئے سے ماورا سمجھا جاسکتا ہے۔ اس امتیاز کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لازماًکس شئے کو موجود کہا جائے  جو خالصتا ً موجودہو اور عدم وجود کی تصدیق نہ ہوئی ہو یا  اس کے بارے میں فیصلہ نہ کیا جا سکا ہو،  اس وقت اس شرط پر کہ وہ موجود نہیں ہے اور اس لئے اسے اس کی روح کو تصوراتی شئے سے ماورا سمجھا جاسکتا ہےتو  اس وقت یقیناً ؒ  لازماً وجودی اصول بن جاتا ہے۔

 اس امتیاز کی بنیادی وجہ ہی ہےجب کسی شئے کو اس وقت لازماً  وجود کہا جائے جب  وہ حقیقی طورپر موجود ہوتو اس وقت یہ لازما ً  وجودی اصل بن جاتا ہے۔ ہر اس شئے کا جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا  لازماً (ضروری ہے) اس کا وجود کے ساتھ تعلق ہونا چاہئیے۔ سبب جو کہ اس کو وجود میں تبدیل کرتا ہے ایک سبب جو اس بات کا جواز پیش کرتا ہے کہ وہ درست ہے جس سے وہ پہلے وجود کے ساتھ جہاں پہلے یہ ذمہ داری نہ لگائی گئی ہو ، وہ  شئے   اور ا س کے وجود  کے عزم میں کمی  کی بدولت اسے غیر موجود سے  غیر وجودی قرار دے دیتی ہے۔ یہ کسی  اور شئے کے ساتھ اس طرح متعلق ہو جاتی ہے۔ اس بات کو ٹھیک  انداز میں کہا  جا سکتا ہے کہ جس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ کوئی اور چیز ہے۔  اس لحاظ سے وجود کی عدم دلچسپی کے دوران اتفاقیہ اگر کوئی ربط پیدا ہو تو ممکن ہے کہ ضرورت کے تحت امکانی تعلق پیدا ہو جائے۔

وجودیات میں کسی شئے کے امکانات  یا ضروری ہونے کے منطقی خیالات باہمی مخلوط ہو کر ایک جوڑی بن جاتے ہیں لیکن یہاں ابن سینا کے نزدیک یہ فعل نمائشی اسلوب (موڈل) اس شئے کو برقرار رکھتی ہے جو ان میں ہو بہو خاصے (کویڈیٹی) کی ممکنات  کے بارے میں ہے،  جب کہ وجود لازم  اور ضروری ہے اورجہاں وجود کی تصدیق نہ کی جاسکے اور قیاس آرائیوں پر وجود فرض کر لیا جائے تو وہ خاصہ ہے۔ اگر مسئلے میں  خاص طور پر ڈہنی  وجود کی بنا پر پریشانی پیدا ہو تو اس صورت میں نام نہاد دو صورتیں پائی  جاتی  ہیں۔ َ  جن میں ایک  تو ایسا اصول ہے جس میں ایک شئے کی تخلیق بے سبب ہے اور دوسری میں دنیا کی تخلیق کا سبب ہے۔ اس میں  ُ اصول اول  ُ لازم ہے  اور مطلق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان کو ملاتا بھی ہے اور اسکی اپنی وجودیت میں مثبت یا منفی تعلق بھی قائم کرتا ہے۔ جہاں تک دوسرے تمام معاملات میں دوہرے پن کا تعلق ہے  :  ہر شئے میں  اس بات  میں تمیزکی جاتی ہے کہ کسی شئے کی حقیقت کیا ہے؟ روح  کی خارجی حیثیت کیا ہے۔ اس سے موجود حقیقی شئے یا ذہنی طور پر قیاس کیا گیا وجودروح یا اس کی خا صیت (کویڈیٹی)  کا پایا جاناممکن ہے۔ روح اور وجود کو ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔ اس کے بر عکس وہ شئے جو کہ بذات خود اندر سے ضروری ہے،  اس کے لئے ایسی ترتیب دینے کی ضرورت نہیں َ (کیونکہ اس میں روح نہیں پائی جاتی )              :  نہ ہی کوئی وجود جیسی شئے پائی جاتی ہےSomething Not Being )) کہا جاتا ہے لیکن صرف وجود  واضح ہے، ضرورت ایک وجود کی تصدیق ہے  (تا اخذالوجود) ۔ امتیاز کا  تصور کی ترتیب اس لئے ایک عین مطابق  الٰہیات کا وظیفہ ہےجو نہ صرف اس بات میں تمیز کرتا ہے ضرورت کے اصول کی ہر شئے سے امتیاز کرتا ہے  (سب سے اختلاف کرتا ہے ماسوائے دوہرے اصول کے۔  الٰہیات(17, 47-49اس  کی وضاحت   ابن سینا نے ذہنی وجود اور خاصہ یا ماہیا  (کیوئی ڈیٹی)  میں کی۔

 

 3.4 ) Quiddity and Mental Existence

(3.4  ذہنی وجود اور خاصہ  

 ا بن سینا نے  بیان کیا کہ وجودکے تجزیہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وجودیت کے دو معانی  ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ کسی شئے کا  واقعی وجود  پایا جاتا ہے۔ (الوقد الا عتبار)  جبکہ دوسرا معنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وجود موجود تو ہے لیکن اس کی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔پہلے معنوں میں جس میں شئے موجود ہے اور اس کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس کو  انہوں ں نے  ُ   ا لمعتبر ُ کہا۔ اس میں دوسری حس کے ذریعے جو کہ موزوں  حسب قاعدہ طور پر ظاہر کیا جا سکتا ہے۔  یہاں جس چیز کا حوالہ دیا جاتا ہے  وہ حقییقی  ( الحقیقہ)،  فطری  ( الطبیعیہ)  اور روحانی  ( الدت )  ہے جسے ابن سینا  تکنیکی زبان میں  خاصہ  یا ماہیا (  کیو  ڈیٹی ) کہتے ہیں۔ یہ اس شئے کی حقیقی ہو نے کی علامت  وجودیت ( سعیہ)  ہے۔یہاں وجودسےمتعلق  فیصلہ سازی نہیں کی جاتی( کوئی شخص نہیں جانتا کہ کیا کسی شئے کا وجود ہے؟ :  جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے اس پر کوئی   آفاقی علامت نہیں ہے(اس میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ کسی شئے کا وجود ہے بھی کہ نہیں) جو کچھ دوسروں کے سامنے ہے اس کی حیثیت وجود سے آزاد  ہوتا ہے اور اس کا وجود سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ (الٰہیات   1, 5, 1-9)رکھتی ہے  وجود کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔  

تاہم ترتیب جمع کرنے کی  وجہ سے نہیں ہوتی۔ کسی شئے کی اصلیت اور روح کی  اشیاء کا خاصہ جمع کرنا نتیجہ نہیں ۔ ابن سینا نے  بیان کیا کہ وجودکے تجزیہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وجودیت کے دو معانی  ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ کسی شئے کا  واقعی وجود  پایا جاتا ہے۔ ( الوقد الا  عتبار)  جبکہ دوسرا معنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وجود موجود تو ہے لیکن اس کی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ایک شئے اپنی ذہنی موجودگی کی بنا پر ہوتا کہ(حقیقی ) وجود میں اگر ایک بار اس میں اضافہ کیا جائےتو وہ اصلی اور حقیقی شئے بن جائے۔اگر ایسا ہو جائے تو بلا محالہ خاصہ میں بہت زیادہ تقسیم ہو جائے گی جس کی بنا پر کوئی شخص خاصہ کے وجود سے امتیاز کر سکے گا۔ لیکن یہَ بھی وجود سے خاصے کا انتخاب کر سکے گا۔ابن سینا  جیسے کہ وہ بیان کرتے ہیں افلاطونیت کی طرف چلا جائے گا  (الٰہیات  , 4-5,  204)  لیکن یہاں پر ایک مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے: روح  اور وجود کے مابین فرق ظاہری طور پر اس بات کو آگے نہیں بڑھاتا۔ اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ روح سادہ انداز میں روح کا ایک وجود نہیں (جس کا مطلق ہونے کوئی تصدیقی بیان نہیں ہے۔

 ابن سینا  خاصہ یا ماہیا  کو شئے اور وجود سے فرق کرتے ہیں (وجود ظاہر ہے  اور قابل مشاہدہ ہے۔ اس کے علاوہ ایسا وجود بھی ہے جسے منطق اور مفروضوں سے ثابت کیا جاتا ہے)اور وجود  نہ تو اپنے ذہنی وجود سے جو کہ اس سے تعلق  رکھتا ہے لیکن نہ تو اپنے ذہنی وجود سے جو کہ اس سے تعلق تو رکھتا ہے  لیکن نہ تو آفاقی ہے اور نہ ہی مقرون حیثیت کا  ( فی العیان) ۔ اس  نقطے پر جس میں انفرادیت کی تقلید ہوتی ہے۔ وہاں دو بنیادی چیزیں ہیں۔ اگر الٰہیات کے مسائل جزویات (VI.-2 )۔ پریشانی والے حصے جس میں ابن سینا  اس بات کا خاکہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے نام نہاد نظریے کا جس کا نام روح کی سرد مہری ہے۔ جس میں خلاصہ وجود سے  اور نہ ہی اس کے ذہنی وجود سے مطابقت رکھتاہے جو اس کے ساتھ تعلق کے ساتھ تو ہے  لیکن اس میں آفاقی پن نہیں  (فی العیان )  جو کہ انفرادی پن بیان کرتی ہے۔ 

 خاصہ یا ماہیا  (کیوئی ڈیٹی )  بذات خود صرف لب لباب ہوتا ہے۔ یہ ایسی فکرہے جو ابن سینا  خدا کے وجود (قیاس)اور عوام الناس کے وجود  (ثابت کئے جانے ولے وجود)کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہا ں اس شئے کو بیان کیا گیا ہے کہ خاصے کے وجود سے الگ ہو کراپنی  علیحدگی ظاہر کر سکے: ایک ایسا جانوجس پر کوئی دوسری شرط عائد نہیں کی گئی ہوتی ، وہ جانور اپنے خاصےمیں حقیقت ہے جس کاجسم  بھی ہے اور ذہنی وجود بھی۔ اسی طرح سے منطقی سوچ (اعتبار) جو خدا کے وجود اور عمومی وجود کی علیحدگی کا خیال یا تو ذہن میں ( غیرمرئی  یعنی جو نظر نہ آئے ) پیدا ہوتا ہے یا پھر مقرون ( مرئی) دنیا  میں ہوتا ہے۔ان شرائط سے حقائق تک رسائی ہوتی ہے۔ اگر یہ کسی شرط کو تسلیم کرتا ہے تو جانور کسی شرط یا  بغیرشرط کے ( ایسی شرط جو پوری نہ کی جا سکی ہو)  ذہنی سوچ بچار سے مبہم تخیل پیدا ہو جاتاہے۔ ( الٰہیات  (V 1, 203, 15-204)۔ اس خیال کے بعد دانشور یا پھر خاصہ دوبارہ سے اس وقت اس وجود میں پیدا ہوجاتا ہے اور پھر سےمقداری حقیقی) اور امکانی  امور کو فیصلہ کن انداز میں اس کے ساتھ منسلک کردیتا ہے حالانکہ اس وقت اپنے اندر خود میں نہ تو یہ آفاقی ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی شئے ہوتی ہے بلکہ صرف خاصہ ہوتی ہے جس میں ایک حصہ لازماً صحیح ہوتا ہے۔ اس وقت جب اسے مقدار ی لحاظ سے دیکھا جاتا ہے تو اس وقت یہ اپنی ذات کے اندر تصور نہیں کی جاتی۔ 

کسی بھی مظہر کو سمجھنے میں فرد کی نیت کو بھی عمل دخل حاصل ہوتا ہے۔ یہ وصف آفاقی ہوتا ہے۔ ذاتی اورپیدائشی ہوتاہے ا سکی بدولت ممکنات کی کسی کثیر پیش بینی کی اور ان مخصوص اشیاء کی  الگ الگ یا ملاپ (حقیقی  یا ذہنی) میں پرکھتا ہے۔ ابن سینا اسے تکنیکی طور پر خاصے کے اس عمل کو جو اس سے مماثلت رکھتا ہے  ُ وصائف   ُ یا  ضروری ( لوازم)کا نام دیتے ہیں۔ خاصے کی حیثیت یہاں آفاقی نہیں بلکہ آفاقی کی طرح کی ہے۔ یہ وصف کچھ ہے، کوئی چیز ہے جس کا الگ شئے سے آفاقی پن جڑا ہوا ہے۔ اس طرح انہوں نے اس تصور میں ترمیم کر دی اور خاصے میں مصالحت پیدا کی۔ 

خاصے میں سرد مہری کسی بھی قسم کے عزم  میں حقیقی معنوں میں اس بات پر زور دیتی ہے کہ حقیقت اور علم میں رابطہ پایا جائے :  یہ بالکل اسی طرح  سے ہے کیونکہ خاصہ بذات خود نہ تو حقیقی( مرئی) ہے اور  نہ ہی ذہنی (غیر مرئی )۔۔۔ بلکہ اضافی ذہنی ہے جو حقیقت میں اور ذہن دونوں میں پایا جاتا ہے تا کہ اس کا انفرادیت اور آفاقیت سے امتیاز کیا جا سکے   : مقرون  حالت میں وہاں ایک مخصوص وجود میں ایک ایکس (X )  ہوتا ہے جبکہ ذہن میں بھی ایک ایکس ( X)  شئے کا تصور پایا جاتا ہے لیکن اس میں ممکنات  کے بارے میں پیش بینی بھی پائی جاتی ہے۔اس صورت حال میں خاصہ اپنی ذات میں غیر مرئی  اشیاء میں غور و فکر کرکے اپنے آپ میں اس شئے سے مطابقت کرلیتا ہے۔ اس طرح ماورائی وجود کی ارضی اور باطنی (دونوں) سطحات ایک سطح پر آکر مساوی ہو جاتی ہیں۔  خاصہ اور حقیقت  اپنی ذات سے  ہمیشہ مماثلت رکھتی ہیں ۔ 

عصری دور میں علماء و مشائخ نے خاصے کی حقیقت  اور وجود کو منطقی طور پر اور علم وجودیاتی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نکتے کو نمایاں کیا  کہ ابن سینا نے خاصے کے عقدے کا حل نکالنے پر خصوصیت کے جوہر کے بارے میں جس طرح کی منطق کہ نیت میں  ُ  ذہنی وجود  ُپایا جاتا ہے۔ واضح طور پر غور وفکر (اعتبار) کے وجود کی کسی قسم کو تسلیم کرکے اسے آفاقی بناتی ہے اور یہ کہ وجود کی ترتیب کو روح کی ترتیب دینے کے عمل کے طور پر نہیں لینا چاہئیے۔اس کے بعد انہوں نے علم موجودات اور علم المظاہر کے ایک طرح سے ایک ہونے کے بارے میں اپنا فلسفہ پیش کیا۔ 

3.5) علم موجودات اور علم المظاہر میں یکتائی

Oneness Ontology and Henology  :  Being and Oneness

 علم موجودات (اونٹالوجی )                   ؒ لاطینی زبان کے دو الفاظ  ُ  اونٹو   ُ اور  ُ لو جیا   ُ سے لیا گیا ہے جس کے معنی وجودیت یا حقیقت کا علم ہے۔اسے طبعی علوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے او ر فلسفے میں بھی۔ طبعی علوم میں یہ معروضی طریقوں سے وجود کی شناخت کرتا ہے جبکہ فلسفے میں یہ کسی شئے کے وجود یا عدم وجودکی شناخت منطق کی رو سے کرتا ہے۔ابن سینا نے کہا  کہ کسی شخص کے چلنے اور      اس کے جوتے  کا آپس میں تعلق پایا جاتا ہے۔ جوتوں کا حقیقی وجود ہے لیکن اس کی چلنے کے ساتھ منطق  کے ذریعے تعلق قائم کیا جائے تو یہ تصور   واضح   ہو جاتا ہے۔اس طرح سے وجودیات  کا علم  فلسفے سے منطق کے ذریعے الحاق پیدا کرتا ہے۔ 

علم مظاہر (ہنالوجی ) کسی عمل میں وجود کے ہونے یا نہ ہونے کے امکانات کے مطالعہ سے ہے۔ اس میں دلائل سے اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ کسی ہستی کے ہونے کے امکانات کتنے ہیں۔ علم المظاہر  میں فلسفیانہ طرز یا  وحدت پر گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد پرست سماوی اور آفاقی تصور ہے۔ ماورائی ہے۔ ما بعد از طبیعیات  کا دائرہ کار وجود سے آگے عقل سے آگے ہے۔علم المظاہر کا تعقل اور اصطلاح  تضاد کئی علوم کی ہے جس کا مرکز وحدت کے ارد گرد گھومتا ہے اس میں وجود کا نقطہ آغازکیا جاتا ہے جیسے کہ ارسطو اور  ابن سینا نے کہا ہے اور کانٹ اور ڈیکارٹ جیسے مفکرین بھی جو عظیم اور سچائی سمجھتے ہیں۔ اس کے مطالعے میں حقیقی، ذہنی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے غوروفکر سے خاصے میں امکانات کے عمل کو بھی کسی مظہر میں منسلک کیا جاتا ہے تاکہ صورت حال کو سمجھنے میں یک سوئی پیدا ہو سکے۔ 

 ابن سینا  اپنے فلسفے میں علم موجودات اور علم امکانات کو مربوط کرکے وجود کے ہونے یا نہ ہونے اور ممکنات کا مطالعہ کیا۔ جس سے موضوع کو بیک وقت کئی  پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ علم موجودات کے وجود اور شئے کی وحدت کے تناظر میں سمجھنےکے لئے اس کی مستقبل میں رو پذیر ہونے یا نہ ہونے کے امکانات کا بھی جائزہ لینا چاہئیے۔ عصری اور سابقہ تصورات میں ہم آہنگی سے مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس سے کسی شئے کے وجود اور مستقبل میں اور امکانات کا صحیح طریقے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں الحاق پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ان میں وحدت قائم کی جا سکتی ہے۔ 

ابن سینا نے کہا کہ وجود ایسی شئے ہے جو وجودیت اور واحدیت سے مختلف ہے۔ وجود خاصہ کے وصف کی بدولت وہ لازمی طور پر ایک حصےکے طور پر اس شئے میں موجود ہوتا ہے۔ وحدانیت کا تعلق سماوی اور آفاقی ہے۔ ارسطو کے لئے  ُ وجود  ُ اور  ُ واحد  ُ (ایک ) دونوں ہم زباں اور ہمہ گیر ہیں جس میں وجود کی خصوصیت اپنے آپ میں خلقی ہے۔ ارسطو نے انہیں امکانی کہا تھا لیکن یہ دونوں معانی میں مشابہہ نہیں ہیں۔ جبکہ ابن سینا کے مطابق وجود اور احد بنیادی طور پر اپنے آپ میں ایک شئے کے مختلف پہلو ہیں اس لئے         وجود اور واحد کے تعقلات ہم زبان ہیں۔اگرچہ ان کے لغوی  معانی مختلف ہیں لیکن موضوع کے لحاظ سے ان میں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ اس لئے ہے جب کبھی ہم کسی معاملے کے حل کے لئے کوشش کرتے ہیں تو اس وقت موقف میں لچک پیدا کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے اس وقت ہمیشہ اصول کو  استثنیٰ  دینا پڑتی ہے ورنہ جمود طاری ہو جاتا ہے۔وجود اور احد کے موضوع ابن سینا نے پر بحث کے دوران اگر ان کے معانی کو سختی سے لیا جائے تو  ان کے ہم معنی اور سماوی ہونے میں تشویش اور فکرلاحق ہو جاتی ہے۔ ایک واحد وجود جو کہ صرف اسوقت اتفاقیہ طور پر واقع ہو تو یہ ایک حادثہ ہے جو مقداری شکل میں پایا جاتا ہے وہ ناقابل تقسیم ہے۔یہ کہا گیا ہے ترجیح میں خصوصی ابہام اور اتار چڑھاؤ نہیں پایا جاتا اور یہاں وجود کے ساتھ ایک ہی وقت دیگر بہت سی اشیاء سے ایک ساتھ موجودگی نہیں پائی جا سکتی ورنہ اتحاد کا تنوع، کثرت سے منفی نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ابن سینانے جہت(وضع) اور وجودیت کے بارے میں اپنا نظریہ  پیش کیا ۔ ۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 4 )جہت(وضع)   اوروجود                                    

Modality  and  Existence

  

ابن سینا نے کائنات کے مظاہر میں جہت (وضع  )اور وجود میں نسبت کا مطالعہ کیا جس کی تفصیل انہوں نے  جہت (وضعیت)اور وجود ؛امکانات اور احتیاج (ضرورت) ؛ وجود میں واجب الوجود کا اصول؛ تجزیے کے نتائج اور وجود کی حیثیت اور مقام کی اقسام کے عنوانات کے تحت بیان کیا۔ 

 اپنے افکار اور خیالات کو مختلف طریقوں سےدوسروں تک منتقل کرنے کےعمل کو وضع یا جہت ( مو ڈیلٹی )  کہتے ہیں۔ کسی شئے کے ہونے یا نہ ہونے، امکانات،  ارادہ، خواہش، مرضی، فرائض،ضرورت (احتیاج) اور قابلیت وغیرہ  کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کا اظہار سمعی۔ بصری ، حرکی، جلدی اور تحریر و تقریر وغیرہ سے کی جا سکتی ہےجبکہ وجود کا تعلق کسی عمل میں شئےکے ہونے کے ساتھ ہے۔اس موضوع میں ابن سینا نے امکانات اور احتیاج (ضرورت)پر اپنا فلسفہ پیش کیا۔

4.1)        Possibility and Necessity

4.2)       The Existence of Necessity Principle 

4.3)         The Results of the Analysis.

4.4)         The kinds of Status of Existence.

 

امکانات اور واجب الوجود

4.1)   Possibility and Necessity

 یہ خدا کی ذات  (  ایجنٹ کاز ) ہے جس نے الگ الگ وصائف رکھنے والی اشیا   مادہ، صورت ، وجود، ماہیئت  کو جوڑکر کائنات تشکیل دی ہے۔مادے کا تصور ، مادہ- صورت، وجود اور ماہیات  کے باہمی اختلاط کی تفہیم کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ان کو   فلسفے کی جو شاخ تشریح کرتی ہے ا سے  وجودیاتی ۔وضع   ( اونٹولوجیکل  موڈیلیٹی )  کہتے ہیں ۔ یہ شاخ  وجود یاتی تصور کو تین طریقوں سے ثابت کرتی ہے جو درج ذیل ہیں۔

ناممکن ( Impossible)؛ امکانی ( Contingent) اور واجب الوجود  یا  لازمی یا احتیاجی (Necessary

 کسی شئے میں ایسی خصوصیت  جو وجود میں آنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ اس شئے کی پیدائش نہیں ہو سکتی ۔ اس کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا ۔ اس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دوسرے سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ وہ عدم ہے۔ اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ کسی درجے میں شمار نہیں ہوتی۔

امکانی یا ممکن ( Contingent)  وجود وہ ہے جو ظاہر ہو بھی سکتا ہے اور غائب بھی۔  وہ شئے بن بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ آ بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ وجود میں آ بھی چکی ہوتی ہے ، آنے والی بھی ہو سکتی ہے اور اس کا ادراک نہیں بھی ہو سکتا۔ ابن سینا  بتاتے ہیں کہ ممکن وجود کی درمیانی حیثیت ہے جسے وجود کی شکل میں لانے کے لئے تیسرے رکن کی مداخلت درکار ہوتی ہے جو ہمیشہ بیرونی طاقت ہی ہوتی ہے۔ جو مادہ اور صورت کو باہمی طور پر ملا کر وجود قائم کرتی ہے۔ امکانات کو حقیقی بناتی ہے۔

   ابن سینا نے وجو د اور سماوی تخلیق میں ممکنات اور ضرورت کے بارے میں اپنا بقطہ نظر پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ وجود اور روح دونوں کا وجود ہے، ان دونوں کو مؤثر طور پر بیان کرنے کیلئے منفرد طریقے استعمال کئے جانے چاہئیں۔نام نہادوجود اور روح کے تصورات ہم معنی نہیں۔ ان میں تفریق اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ایک ناگزیر وجود کوبیان کرتے وقت کردار سازی کا طریقہ اپنایا جائے۔ ما بعد از طبیعیات میں ابن  سینا نے اپنے فلسفے کے آغاز  کے بیان  میں اپنے طریقے کی حد بیان کی۔انہوں نے اپنے تجزیے میں کہا کہ انہیں اس بات کی پریشانی نہیں کہ روح کس طرح  ظاہر ہوتی ہے  کیونکہ ان کے نزدیک وجود کی شناخت ناقابل بیان ہے لیکن اس کے علاوہ وہ اس طریقے سے متفکر ہیں جس کا تعلق اس ہستی کی اپنے وجودکے ہونے سے ہےجو کہ اپنے آپ اپنی ذات اور خود میں ضروری ہے۔ (دار الواجب) اسلئے ماسوائے اصول اول کےتحت اپنی ہستی اور وجود کے لئےاپنے اندر ہونا ضروری ہے۔یہ امتیازات ظاہر کرتے ہیں کہ باطنی پیچیدہ روابط جو کہ ہستی کی وضاحت کرتے ہیں: نہ صرف ہستی اور شئے کے بنیادی طور پر تصورات میں لیکن وہ بھی جن کا تعلق الحاق کی ضرورت اور۔۔۔ کسی حد تک امکانات پر بھی ہو پر بھی خٰیال کرتے ہیں۔۔۔ اگر ایک طرف ان کا اولین اصول بنیادی خیالات بالآخر اس بات کی طرف جاتا ہے کہ وہ ماورائی اشیاء کی طرف جائےاور اسے ظاہر کرے دوسری طرف وہ دنیا میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وجود ہمیشہ کسی شئے کی ہستی اور پایا جاتا ہے،اس لئے وجودیت کے بارے میں تصورات جو کہ الحاق اور ضرورت ہےاگرچہ اس شئے سےعلیحدہ ہیں تو کبھی بھی اس تعلق سے جس کا وہ وجود ہے ،سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن سینا کہتے ہیں کہ در حقیقت ضروری وجود لازماً ضروری ہستی کے بارے میں جاننا کہ وہ کیا ہےیا  وجود کے لئے کیا یہ ضروری ہے َ؟  (الوجہ الوجود)۔جس شئے کا خیال کیا جاتا ہے وہ باریک بیں خاصہ ہے (ماہیا)  یا روح  ( دت )  کا وجود ہے۔ اس کا دارو مدار وجود کی جہت اور وضع ( موڈیلٹی آف ایگزسٹنس) کا انحصار ہے،  جو در حقیقت وجود پر نہیں ہے۔ (جو کہ ناممکن ہے)لیکن روح کے بارے میں ( اگرچہ اصول کے بارے میں وہاں ایسی کوئی روح نہیں ہے جو کہ اپنے ہی وجود سے مختلف ہو)۔ 

ضرورت ( احتیاج) دوسروں کی بدولت یا اپنے آپ خود میں ہی ایسے طریقے وضع کرتی ہے جن میں ہستی اور وجود واقع ہو۔ اگر کوئی ہستی دوسرے کی وجہ سے ضروری ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ میں ممکن ہے ، میں یہ تعلق ثابت کرتی ہے کہ وجود جس وجہ سے بنا ہے وہ اپنے علاوہ کوئی دوسری شئے ہے۔ یہ تعلق در حقیقت جو ان تعلقات کے ذریعے وجود واضح کرتا ہے۔ اگر کوئی وجود اپنی ہستی میں ضروری ہے تو اس تصور کو واضح کیا جانا چاہئیے، منحصر ہے یا اس کامؤ خر الذکر کے انکار اور نفی کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ بھی ممکن ہے ہمیشہ اول الذکر اور ناگزیر طور پر علل یعنی تاثر ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہیں کیوں، جب کہ کس شئے  کا پایا جانا ضروری ہے، میں کسی وجہ کو بیان نہیں کرتا اور اس کے  پاسُ  کیوں ُ  کا  سوال نہیں ہوتا۔ ضروری وجود کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ ان کے مابین تعلقات اس وقت تک ہوتے ہیں جب تک کہ اس کاوجود ہے۔ 

اس کے بعد انہوں نے وجود میں ضرورت کے اصول پربات کی۔

 وجود میں واجب الوجود کا اصول

4.2)       The Existence of Necessity Principle

 

وہ اشیاء  جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اپنے اندر کوئی ہستی رکھتی ہیں، کے بارے میں یہ قیافہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میںُ ضروری وجود '   نہ ہویا عین ممکن ہے کہ ضروری وجود رکھتی ہو ۔ اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکے (کیونکہ باطنی طور پر ان اشیاء کے ظاہری وجود کا علم ہونا ناممکن ہے اور تجزیے سے باہر ہے۔ اس بنیاد پر ابن سینا  اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی شخص کی استعداد ہی دراصل اسکا ُ ضروری وجود '  ہیں کیونکہ وہ نظر نہیں آتیں اس لئے ان میں  اولین وجود بغیر کسی سبب کے واقع ہوتا ہے اور '              ضروری ' اس وجود کے ادراک کے لئے کوئی وجہ نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ فرد کی ذاتی خصوصیات کی بنا پر اپنے اندر کوئی سبب اور وجود نہ ہو لیکن د وسری شئے جوکہ اس جیسی  نہ ہو لیکن اس کی انفرادیت ور منفردپن کے ساتھ ہو اور اس کی تعریف پر پورا اترتا ہوتو اس کے ساتھ یہ موجود ہو گا اور اسی طرح سے وہ اس بات کا خیا ل کئے بغیر کہ کوئی سبب  یا علل ہے ، پر قبضہ کرکے اس کی جگہ لے لے گا۔ اس وقت وہ ضروری وجود دراصل یا تو دونوں ہی سبب سمجھ لیا جائے گا جو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ ایک ہی شئے موجود ہےلیکن دوسری صورت میں اسے مساوی اور ہم مقام نہیں کہا جائے گا۔ایک چیز ممکن ہے اور سبب کا باعث بن سکتی ہے۔ جبکہ دوسری شئے  غیر موجودگی میں بھی  یقینااس کی وجہ بن سکتی ہے۔اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان تعلقات میں جو شکل و صورت اور مادے  میں پائے جاتے ہیں وصائف میں بھی ہوتے ہیں۔ اسلئے ایسے عمل میں سبب اس مشترک وجود کا باعث بنتا ہے۔دراصل دوسرے خواص کا تعلق وجود کی ضرورت سے ہے جو اس کی اپنی ذات میں پائی جاتی ہے             : الحاد اور اتحاد، سادہ انداز میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ  اپنی ذات میں ایسا استقلال پایا جاتا ہے جس میں کسی قسم کا اضافہ نہ کیا جا سکے اور نہ ان میں کوئی تعلق قائم کیا جا سکے بلکہ ان میں منفی صفت پائی جائے۔ مختلف اشیاء جو پیچیدہ ہوں میں بیک وقت بہت سے عوامل کام کر رہے ہو۔  اس لئے جب وہ پہلی شئے سے ملتے ہیں تو ملاپ نہیں ہو پاتا اس بنا پر واحد عمومی دلیل کے ذریعےفرضی ضروری وجود میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ان میں اختلاف صرف اس وقت ہی محسوس کیا جاسکے گا اگر ان میں انوکھی اور منفرد وصف موجود ہو۔ اگر اتفاقی یا حادثاتی خواص کے تحت ان میں تمیز کر بھی لی جائے تو بھی یہ ضروری نہیں کہ ان کا اپنے آپ میں کوئی وجود بھی ہو۔ لیکن اس کو خارجی طور پر مساوی قرار دے کر اشارتا مان لیا جائے گا ۔یہاں یہ ضروری نہیں کہ اس کا وجود حقیقت میں بھی ہو۔ 

  وجود ایک مطلق شئے ہے جو منفرد اور ناقابل تقسیم ہوتی ہے اس لئے اس کے ممکنہ وصائف ا پنی ذات میں ان کے برعکس نتیجہ نکالتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں  اپنا وجود نہیں پایا جاتا بلکہ کسی دوسری شئے کے وجود سے حاصل کرتا ہے۔ کسی ایسے وجود جس میں ایک طرح سے وجود پایا بھی جائے اور نہیں بھی، کی تشریح کے لئے مفروضہ بنانا پڑتا ہے۔ جو ایک سبب کا کردار ادا کرتا ہے جواس مسبب کی وجہ سے د وسرے کے لئے ضروری بن جاتی ہے۔ اس لئے ایسے امکانی سبب کو اتنی اہمیت نہ دینی چاہیئے اور اسے اتنا ضروری  نہ سمجھا جائے بلکہ تعلقات کی نوعیت کسی اور انداز سے معلوم کی جائے تواس وقت یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ سبب لازمی بن جائے۔ اگر ایسی حالت جس میں مسبب لازمی ہو اور تسلسل پایا جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ ضرورت پڑنے اور اپنی باری آنے پر وہ اہم ہو کر وجود کی شکل اختیا کر لے ۔اگر ایسی صورت بن جائے تواس وقت سبب دیگر اسباب کو بھی نمایاں کر دے گا۔ اس دوران کسی اور وجہ  کی تشریح بھی کرنا پڑے تو وہ  نہ صرف اس تیسری شئے کے لئے بلکہ مزید اشیا ء کے لئے بھی کار آمد ہو سکتا ہے۔ اب ہم تجزئیے کے نتائج کا مطالعہ کرتے ہیں َ۔

 

تجزیے کے نتائج

4.3)         The Results of the Analysis.

 خلاصے کے طور پر کہ وجود کے بارے میں تصورات کیا ہیں  پر بحث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ :

 1) وجود اور ضرورت کا یک دوسرے سے تعلق پایا جاتا ہے ہر ایک وجودخواہ وہ تنہائی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سےضروری ہووہ آپس میں اتفاقیہ طور پر واقع ہوتے کر ملاپ کرتے ہیں۔ 

2) اگر اسی شرح لزوم کی وجہ سے ' وجودی ' ۔ ا س کی عموماً دو طرح سے درجہ بندی کرکے واضح کیا جاسکتاہے کہ یا تو اسے اپنے انداز میں اپنے تعلقات کے علاوہ کسی دوسری شئے کے ساتھ تعلق رکھتا  ہے۔اس میں اس کی اپنی ذات اہم ہےاو ریا پھر دوسروں سے تعلق قائم کرنےکے لئے وسرے  پر انحصار کرے۔ اس صورت میں دوسروں کی زیادہ ہو جائے گی۔ 

3) اگر اپنی خود مختاری، آزادی ختم کر کے دوسروںپر انحصا ر کیا جائے تو اس سے ضرورت اور وجودمیں تعلق قائم  توہو جاتا ہے لیکن ایسے ربط میں غیر ضرور ی پن ہوتا ہے۔

   اس عمل میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہر وہ شئے جو کہ بذات خود ضروری ہو، کو عین ممکن ہے کہ وجود اور غیر موجود دونوں کو (کسی اور شئے )سے لازم نہ سمجھا جائے اور وجود بغیر کسی وجہ کے پیدا ہو جائے۔ ایسے امکانات جو شئے کو با لآخر اسباب و علل کے حساب سے ثابت کرتی ہے۔ اس بات پر قائم رہتی ہیں کہ ضرورت کے بغیر وجہ کے واقع نہیں ہوتی۔ اس طرح بالآخر ہمیں ضرورت اور مطلق کی طرف لے جاتی ہیں۔

 

وجود کی حیثیت اور مقام کی اقسام

4.4)   The kinds of Status of Existence

ابن سینا نے ہستی اور وجود کی اہمیت بیان کرنے کے لئے اس کی اقسام بیان کیں۔انہیں وجودی حادثات ، ترجیحی ، کمزوراور، امکانی درجات میں شامل کیا۔ کسی مظہر میں ہستی معلوم کرنے کے عمل میں وجو د کی صورتحا ل اور حیثیت کا مطالعہ کیا  جاتا ہے۔ ابن سینا نے وجود کو ضرورت اور امکانات کے    علاوہ اضافی طور پر      باقاعدہ  وجودی ' حادثات' شما رکیا۔ایک طرف تو ترجیحی اور مؤخرالذکراور گہری اور دوسری طرف کمزور عزا ئم  اپنی باری آنے پر واسطہ بناتے ہیں۔  

 علم وجودیات (انٹالوجی) اور علم محوریات (ایگزیالوجی) ہستی کو بہتر طور پر سمجھنے میں اہم ہیں۔ یہ دونوں علوم آزاد و خود مختار ہیں۔ اس بات کا جاننا اہم ہے کہ کون سی شئے ضروری ہے۔ وجودیا ت  کا تعلق ہستی کے ہونے کے ساتھ جبکہ علم محوریات  میں امکانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ممکن کا انحصار'  سبب  ُپرہے کیونکہ یہ اس کی خود مختاری میں نہیں پائی جاتی۔ وجود میں  ضرورت پہلے آتی ہے اور' ممکن ' بعد میں آتا ہے اور ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔اس درجے میں ضرورت مند، کمزو اور ناقص ہے۔ اگر کس وجود میں سبب پایا جائے تو ضرورت  '   کثیر' نہیں ہوتی کیونکہ وہ ہر شئے سے الگ اور آزاد ہے، جبکہ ُ ممکن  ' کمزورہے۔ وہ کسی سبب کے بغیرہے۔ نظری نکتے سے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ 

 وجود کی حیثیت  کے تعین میں عزائم  اور محرک کی نوعیت کو دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ فوری طور پر ایسے اسباب و علل کے تعلق کو بیان کرتی ہیں جس کی یا تو پہلے نفی کی گئی ہو (کمزور یا مضبوط اور کثیر ضرورت کی بدولت)  یا اس کی تصدیق کی گئی ہو(کہ بعد میں کیا آتا ہے)۔ دوسرے معنوں میں ابن سینا ان محرکات کوُ وجود کی حیثیت کی اقسام میں اہم شمار کرتے ہیں۔ 

 ابن سینا 'وجود کی قسم 'وہ وجود جس میں ضرورت لازماً پائی جاتی ہے(مثلاً جس کا وجود ہے) یا  لازماً بغیر سبب اور وجود کی قسم کے (جس سے مراد ایسی اشیاء جن کا وجود امکانی ہے) لازماً وجہ بنتی ہیں۔ در حقیقت ' اولین اصول '  کے تحت اور اس جگہ یا دنیا میں  جہاں وہ حقیقی اہمیت ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے پاس یا تو مطلق یا اضافی نسبت اہم ہے جس کے نتیجے میں ثانوی وجہ کا تعلق بن جاتا ہے۔ ایسے محرکات اضافی ہیں تا کہ سبب کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اثر کی بدولت یہ ضروری ہوئے ہیں۔ اس دوران اگر ان  کا تعلق ' مطلق ' ہو جاتا ہے  ( اس صورت میں اگر وہ اول اصول کا حوالہ دیں تو اس صورت میں وہ  'مطلق'  ہو جائے گا  اوراس صورت میں بذات خود کی کثرت َ سے۔سبب لازم شمار کیا جائے گا ۔ ابن سینا اس کے بعد علت و معلول اور کائنات کا ذکر کرتے ہیں۔اب ہم ابن سینا کے فلسفہ کائنات اور اسباب و علل  کے بارے میں جانیں گے۔

 

 

                    علت و معلول  اور تکوینیات کا نظریہ

Causality and Cosmology)

 

 

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                             اب ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ ابن سینا نے ملحدانہ تصورات کو اسلامی نقطہ میں ڈھالا۔ابن سینا نے کائنات کی تفسیر قرآنی تعلیمات سے کی۔انہوں نے کائنات کےتشکیل کے عمل کی تفہیم کے لئےوجود ( ایگزسٹنس) اور  روحانی شعور یا روحانی حصول ( ایسنس) کی اصطلاحات کی وضاحت کی۔

ایسی شئےجو ننگی آنکھ سے دیکھی جا سکے ، اس کا احاطہ کیا جا سکے وہ تکنیکی لحاظ سے وجود (ایگزسٹنس ) کہلاتی ہے۔ انسان، حیوان، چرند پرند،نباتات ، آسمان، سورج، چاند ستارے، حشرات الارض ،آسمان، ستارے, سیارے ، زمین اورفلکیات(سپر نووا )                 وغیرہ سب وجود ( ایگزسٹنس )کے دائرے میں آتی ہیں۔ یہ سب مادہ ہیں         اور فانی ہیں۔ ان کے فنا ہونے کی مدت ہر وجود کی خاصیت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ ان کا وجود چند لمحات سے اربوں کھربوں سال تک  موجود رہ سکتا ہے۔  عمر خواہ جتنی بھی ہو اس نے فنا ہو جانا ہے۔ یہ حادثاتی اور امکانی  دنیا ہے جس میں چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ پیدا ہوتی ہیں، نمو پاتی ہیں، تبدیل ہوتی ہیں ، ایک دوسرے میں مدغم ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں۔

دوسرا تصور روحانی شعور یا روحانی حصول (ایسینس )  کا دیا جسے انہوں نے کہا  کہ جس کے اندر کوئی شئے جنم لیتی ہے۔ اس کا تصور ذہن اور روح کے ساتھ ہے۔  یہ ایک سانچہ ہے جس میں مرئی اور غیر مرئی اشیا    کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ یہ ماڈل ہے۔ اس کے مطابق  نئی   معلومات حاصل ہوتی ہیں، سابقہ معلومات کی اصلاح کر کے نیا تصور      ابھرتا ہے یا پھر  اس سانچے میں موجود علم تو رد کر دیا جاتا ہے۔ یہ   لازوال اور ابدی حیثیت رکھتی ہیں۔  اگر  مادہ تباہ  ہو جائے تو بھی اس کی چھاپ موجود رہتی ہے۔یہ لافانی ہے۔ہمیشہ قائم            دائم رہتی ہے۔ممکن ہے دوبارہ اس میں کوئی اور شئے جنم لے۔ اس ماڈل میں ایک طرف تو صورت ہوتی ہے  اور دوسری طرف مادہ ہوتا  ہے۔جو اس کا حقیقی وجود   ہے ۔ یہ دونوں الگ الگ  حیثیت رکھتے ہیں۔   اس وقت تک  علیحدہ وجود برقرار  رہتا ہے  جب تک تیسرا عنصر     نہیں مل جاتا              اور اسے انہوں نے             خدا کی ذات کہا۔   اگر  اس مخلوط  شئے سے خدا کی ذات ہاتھ کھینچ لے تو وجود الگ ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور روح الگ ہو کر  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دائمی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ انہوں نے         وضع اسلوب           ( اونٹلوجیکل موڈیلٹی )     اور خاصے   (کیوڈیٹی             ) کے عمل کو ممکن        (پاسیبل )          ، ناممکن (             امپوسیبل )اورامکانی (کنٹنجنٹ)  کے ذریعے واضح کیا جس کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔

اس  کے بعد ابن سینا نےعلت و معلول ( مسبب الا سباب )   اور علم تکوینیات  کی  بحث  کے بعدحتمی نتیجہ   اخذ کیا۔

5( Causality and Cosmology 

  علت و معلول    (مسبب الاسباب ) اور علم        تکوینیات

          6) Conclusion  

 نتیجہ

 

  Causality and Cosmology(5 

علت و معلول اورعلم تکوینیات                                                                                              

      

 ابن سینا کے نزدیک کوئی بھی شئے بلاوجہ پیدا نہیں ہو سکتی۔اشیا کے ظہور ، وجود اور عدم ہونے کے پیچھے  کوئی نہ کوئی  علت یا سبب   ہوتا ہے۔  انہوں نے اس کی وضاحت ذیلی عنوانات سے کی۔

5.1)       Causal  Relationship         علت و معلول( اسباب و علل،              مسبب الا سباب کا تعلق)

5.2)          The Causal Chains      اسباب و علل کی لڑی

5,3)            Absolute Creativity  مطلق  تخلیق

5.4) Emanation Celestial Intelligence Soul and Bodies                                                                                               ظہور             : آفاقی ذہانت،ارواح اور اجسام

5.5)             Celestial Movement سماوی تحریک

اب ہم ان کا تفصیل سے ذکر کریں گے۔

  Causal  Relationship      5.1)

 مسبب اور تاثر(اسباب و علل یا علت و معلول)

 

اگر کسی عمل کے نتیجے میں کوئی رد عمل پیدا ہوتو ان میں تعلق پایا جاتا ہے۔ جیسے حلق خشک        ہو تو حلق خشک  ہو جاتا                ہے۔ اگر حلق تر کر لیا جائے       تو         امتناعیت کا احساس جاتا رہتا ہے۔پیاس اور  سیال مادہ میں تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ حلق کا خشک ہونا پیاس کی علامت ہےاور پانی سے حلق تر ہونا رد عمل ہے۔یہاں پیاس  فرد کو اس بات کی آگہی دیتی ہے کہ جسم میں پانی کی مقدار کم ہوگئی ہے        اور خواہش پیدا کرتی ہے کہ یہ کمی پوری کی جائے۔ کمی  کا احساس ہونا سبب ہے ۔ ہر سبب کا رد عمل ہوتا ہے۔اس مثال میں رد عمل مشروب کا استعمال ہے۔  اگر بار بار سبب اور رد عمل میں ہمیشہ ایک ہی جیساجوابی فعل ہو تو وہ عمل میکانکی ہو جاتا ہے اوران کے مابین تعلق (دا کازل ریلیشن  شپ )اسباب کی زنجیر بن جاتی ہے۔ ابن سینا نےاس لڑی کوالٰہیات میں بیان  کیا ۔  ابن سینا نے الٰہیات اور  تکوینیات میں عمل اور رد عمل ( اسباب و علل یا علت و معلول) میں نسبت  بیان کی- کئی فلسفیوں کے نزدیک یقیناً یہ ایسا مظہر ہے جہاں سے اول اصول کا اطلاق کیا جا سکتاہے۔

    ابن سینا علت و معلول کو رسمی ، موئثر اور حتمی  عمل کا نام دیتے ہیں۔ سبب اور مسبب  کے تعلق کے بیان  میں اولین مطلق کی وضا حت کرنے  کی ضرورت ہوتی ہے۔  اسے نہ صرف یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ایک سبب کی ترتیب  میں            '            اصول  اول '     شامل ہوتا ہے  بلکہ  یہ بھی ثابت       کرنے کی ضرورت ہوتی ہے  کہ  یہ بار بار         اصول اول کے ذریعے ایک زنجیر کی  صورت میں رونما ہوتے ہیں ۔ اس کے اسباب کی  حیثیت ظاہر کرنے کے لئے بے شمار انداز میں رونما ہوتی ہے   یہ معلوم کرتی ہے کہ وہ  اس ربط کی مستحق  ہے یا نہیں    ۔ اگر  سبب اور مسبب میں تعلق ثابت ہو جاے تو مثال قائم  ہو جاتی ہے اور اسے عمومی ثبوت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس سےابن سینا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سلسلے کی لامحدود کثرت جو کہ سبب کا سلسلہ قائم کرنے میں ناکافی اور غیر موزوں ہوتی ہےمیں دونوں ایک ایجنٹ کے طورپر لئے جاتے ہیں اور حتمی طور پر غور و فکر کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس دلیل میں کہ کسی شئے کے وجودمیں اس کا ڈھانچہ براہ راست پایا جاتا ہے اور زبانی لفظ بہ لفظ ہے، کی ایک عمومی بنیاد ہے۔ ارسطو نے اسباب کی لڑی کے تین عناصر بیان کئے۔

 (1 سبب یا مسبب کسی مظہر کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ ہے۔( العیلا)          

 ( 2 علل یا اثر رد عمل ہے جو سبب پیدا ہونے کے بعد دیا جاتا ہے۔(المعلول )  

 3) ثانوی (المتوسط) جو سبب او ر اثر میں رابطے کا کام کرے جو وجود کا باعث بنتا ہے۔ (انشا  ما للیا) 

یہ دلیل سادہ اور آسان ہے        :  کسی وجود کے اثر (جو کسی وجود کے بنانے بگاڑنےکی وجہ نہ ہو ) کی وضاحت نہیں کی جاسکتی جب کہ اولین سبب کی اہمیت کو تازہ کرتی ہے۔  یہ وہ سبب ہے جو کہ ایک ہی وقت میں علت و معلول پیدا کرتا ہے اسلئے وہ وسطانیہ کہلاتا ہے جو اپنی باری پر سبب کا باعث بنتا ہے، اسلئے  جتنےبھی ثانوی طریقے شامل ہوں، سلسلے کی     اگر  ہمیشہ مطلق اولین سبب میں تقلید کی جائے جو ہر ایک عنصر میں علت ہے اورہر کڑی میں پائی جاتی ہے تو اس مظہر کی تفہیم  مئوثر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔

کسی عنصر کی وضاحت کی جائے  تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کی خصوصیت جدا گانہ  ہے (حسسییا) ۔ ابن سینا   کہتے ہیں یہ ممکن ہے کہ ثانوی حد یا ثانوی میعاد (انٹرمیڈیٹ ٹرم) کو اپنی اپنی باری اضافہ  دے تو مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں۔  کسی سلسلے کے اندر،درحقیقت باری        کی پہلی شرط جو کہ ُ                مطلق وجہ ' والی اپنے آپ (خود) میں و  جود کی خصوصیت کی بدولت پائی جاتی ہے۔ یہ وجہ اس کے اپنے اندر نہیں پائی جاتی ۔تاہم متوسط عرصےمیں وسطی باری میں جو کہ کسی سلسلے کے اثر کا جزو ہوتی ہے اس تعلق کو دہرا بھی سکتی ہے تاکہ اس اثر میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے جو بے شمار نہ ہوں تو بھی کافی ہو ۔(اس کے اسباب کے مابین تعلقات کی دائمی موروثی جانشینی کی بدولت جس میں اثر جو کہ اس وقت سادگی سے پیدا ہوتا ہے۔ بالآخر اس کے خواص کی وجہ سے وہ کسی بھی شئے کا سبب نہیں بنتا)۔ اس طرح اپنے طور پراسباب کے سلسلے کی زنجیر  قائم ہو جاتی ہے اور یہ صرف اس وجہ سے نہیں بنتی کہ کسی بھی سلسلے کا اپنا اپنا اول اصول ہے لیکن چونکہ ہر ایک سبب کا سلسلہ اور اس کے بعد ہر ایک تعلق حتمی طور پر اس اصول کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ بنیاد بھی ماورائی صورت اختیار کر کے، ہر علت و معلول والے سلسلے کا اولین مطلق سبب بیان کرتا ہے جس کی بدولت اس کا ہر ایک عنصر کوئی وجہ بنتا ہے۔ سبب کی زنجیر بغیر کسی انعام کا مفروضہ  ناقص  تصور ہے  (جو  صرف گفتگو کے ذریعے ہی  پایا جا سکتاہے) حقیقی اسباب کا سلسلہ علت ہمیشہ معلول کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے علت کی زنجیر کا ذکر کیا۔                                                                                                                            

 

5.2(                                       The Causal Chains  

علت کی زنجیریں                                                                                             

 ابن سینا کے دلائل کی کلید اسباب یا  علت  کی زنجیر ہے جس میں وہ اولین اصول کو کم از کم جزوی طور پر کائناتی نظام کی کڑی قرار دیتے ہیں۔ چند فلسفیوں کے نزدیک ما بعد از طبیعیات  میں یقیناً صرف یہی صحیح طریقہ ہے جس سے وجود کے اصول کامظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔ ارسطو کے نزدیک کئی رسمی، مادی، موٗثراور حتمی اسباب اہم ہیں جو ان کے فلسفے کو صحیح ثابت کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں اولین اصول مطلق اصول کے وجود کو سچ ماننے کے لئے اسے یہ دیکھنا چاہئیے اس شئے کو صرف یہ ہر مسبب کی تنظیم و ترتیب کے لئے وہاں اصول اول ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسباب کی زنجیر لاتعداد ثابت ہونے کے لئے جس میں اسباب کے نمائندے، جس میں سے ہر ایک سلسلہ نکلتا ہے، اس کی ایک مثال ہے اور عمومی ثبوت کی بنا پرابن سینا یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ تمام سلسلوں کی کثیر اور مکمل ور لامحدوداسباب کی وجہ سے آتی ہے          :  اس لئے تمام سلسلے اصول اول کے حوالے سے  کئے جاتے ہیں جو کہ دونوں ہی نمائندہ ہوتے ہیں اور ایک حتمی اور مکمل وجہ نکلتی ہے۔

وجودمیں اسباب اس طرح سےپیش ہوتے ہیں کہ وہ ایک لڑی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسباب کے سلاسل عمومی شکل کے نمونے، اندرونی اور بیرونی اسباب اور ماورائی اصول (ٹراسنڈینٹ پرنسپل)  کے     تحت   جو فرد کے خیالات اور تصورات میں پائے جاتے ہیں، کو انہوں نے اپنی کتاب                               ُ اللشارات                                      ُ میں بیان کیا ۔ جس میں انہوں نے علم وجودیا ت کے اصول اول کی مبادیات بیان کی۔ کہا کہ اس کی ابتدا ایک عمومی فکر و تدبر سے ہوتی ہے۔ ایسی سوچ ہر وجود میں پائی جاتی ہے۔ ایسا وجود جس کا  وجود تو ہے لیکن ثابت نہیں کیا جا سکتا ،  کا مطالعہ کیا جاے تو ایسا غیر مرئی وجودروح میں پایا جاتا ہے جس میں تفرد( اکیلے پن) میں بغیر کسی شئے کے(ماسوائے) اپنے وجود کے تمام وجود ہمیشہ کسی شئے سے رابطے میں ضرورت مند رہتے ہیں۔ ان میں تمام اقسام کے وجود شامل ہیں۔ خواہ وہ اپنے اندر وجود رکھے اور معروضٰی نہ ہو یا ظاہری لازماً وجود رکھے یا  پھر عدم وجود ہو یا اپنے تئیں حقیقی یا سچا اور زندہ ہو لیکن اس کا وجود نہ ہو سب میں رابطے کی شرط پائی جاتی ہے۔جس سے مراد یہ ہے کہ جس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا، ہمیشہ کسی شئے سے رابطے کے در میان ضرورت میں ہوتا ہے جس کی ایک شرط ہے جو اس کے ساتھ پائی جاتی ہے، دونوںجب وہ وجود کے طور پر تصور قائم ہوتا ہے اورغیر وجودعدم وجود کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح سے اسباب کی زنجیر بن جاتی ہے۔     

ابن سینا  نےکائنات کی تشریح کو قرآنی تعلیمات کے  تحت بیان کیا۔ انہوں نے دلائل سے خدا کی حقیقت ثابت کی۔ انہوں نے ابتدا ارسطو کے ملحدانہ فلسفے سے لی جو مادہ اور صورت کو دومختلف اشیا سمجھتا تھا جو باہمی طور پرکبھی بھی مل نہیں سکتیں۔دنیا اس کے اس تصور کو تسلیم کرتی تھی۔انہوں نے اس موضوع کو لیا۔  کسی شئے میں ایسی خصوصیت  جو وجود میں آنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ اس شئے کی پیدائش نہیں ہو سکتی ۔ اس کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا ۔ اس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دوسرے سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ وہ عدم ہے۔ اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ کسی درجے میں شمار نہیں ہوتی۔

اس کی بدولت کسی شئے کی موجودگی کا مفروضہ ( پوزیٹ)جو کہ پہلے قائم کیا جاتاہے  اس کے لئے خارجی ہے۔ اگر' ممکن '  اپنی بجائے کسی دوسرے کے ساتھ تعلق ممکن کرتاہے تو اس وقت وہ بار بار دہرایا جاتا رہے گا اور ہر ایک یونٹ بذات خود اپنےتئیں ممکن ہو گا جو اس سلسلے کی لڑی میں ہوتا ہے اور مجموعہ (گملہ) وہ یونٹ جو کہ بناتا ہے ' بھی ' اپنے آپ میں ضروری ہوگا۔ایک مجموعہ کی تشکیل کے لئے مجموعے کے یونٹس کے ساتھ لازماً  پیش کرے اور اس لئے اس مجموعے میں بذات خود، کسی دوسری شئے سے  ماورائی ہو۔                           

 ابن سینا اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ' مطلق سبب ' جس سے تمام اشیاء بنی ہیں، سلسلے، اس کے یونٹ اور وہ تعلقات جو ان کو آپس میں مربوط کرکے ایک دوسرے کا بندھن بناتی ہیں۔ ہر شخص اس بات کا کسی شئے کے وجود کو فرض (پوزیٹ) کر لے گا۔۔۔ جو کسی طرح سے بھی اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ کچھ یونٹ میں اور کچھ میں نہیں لیکن یہ یقینامطلق وجہ نہیں کہلائے گی بلکہ یہ وہ وجہ ہوئی جو کسی طرح سےبھی۔۔ ۔ یہ انتہائی  ( طرف)بات ہے اس لئے نہ تو وہ ثانوی عنصرہے اور نہ ہی معلول ہے اس لئے ہر ایک سلسلے کو سبب کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے اندر نہ ہو بلکہ اس کا منبع خارجی ہو، ایک انتہا۔۔۔ جسےاصول                                ُ وجود کی ضرورت کا                                                               ُ ( نیسیسری ایگزسٹنس پرنسپل) کہتے ہیں۔ جو کہ سبب نہیں ہوتااسکے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسباب کی زنجیر کی بغیر کسی وجود کے جو کہ اس کا جزو ہ اس دلیل میں ایک عمومی مقام ہے (کسی شئے کے وجود کی حیثیت اس کے ڈھانچے میں پائی جاتی ہےاور زنجیر کی ساخت براہ راست گفتگو کے ذریعے تین عناصر کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کے اثرا ت یا کسی طرح کے سبب یعنی المعلول پیدا ہوتا ہےاور ُ ثانوی متوسط راستہ جو سب کے لئے ایک درمیانی ربط ہے،وجود میں وہ سبب بنا ہے جس میں سبب کا ان دونوں سے تعلق ہے۔ ( جس میں سبب پیدا ہوتاہے اور اس کی تشریح اصول اول کے بغیر نہیں کی جا سکتی             ،     ایک          ، سبب جو کہ علت و معلول  اپنی باری پر علت بن جاتی ہے۔اس لئے کچھ بھی ہو، خواہ شئےاپنی باری پر کتنی ہی متوسط کیوں نہ ہووہ ہمیشہ ایک علت یعنی سبب کا ذکر کریں گی  جو کہ اول سبب کے طور پرمطلق ہو۔ اس میں اسباب کے سلسلے میں ہر عنصرآپس میں جڑا ہوتا ہے۔ 

سلاسل کے یہ تینوں عناصر جن میں ہر ایک کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے، کی تعریف کرتے وقت ابن سینا  کہتے ہیں کہ ثانوی باری میں، مطلق سبب میں وہ  وجودکے ایک حصے کاوصف یا خواص ہے اور ایک سلسلہ کا دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔عمل میں، درحقیقت، اولین باری کثرت کے امکانات پائے جاتے ہیں ۔ ایک حصے کا دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔یہ عمل دہرایا جاتا ہے اور اگر تعداد کثیر نہ بھی ہو تو مسبب کے تعلقات کی بنا پر ہمیشہ دائمی جانشینی یکے بعد دیگرے وہ اثر جو سادگی سے واقع ہوتا ہے ، بالآخر حتمی طور ہر اس میں وجود کے ایسے خواص پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ کسی شئے کا سبب بغیر کسی وجہ کے نہیں بنتے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسباب کے سلسلے کے نمونے جیسا کہ اس طرح سے، اور صرف یہ نہیں کیونکہ کسی بھی سلسلے کا اپنا ہی اول اصول ہوتا ہے جو سماوی اور آفاقی طور پرہر ایک سبب کے تعلق کی بنا پر جس میں ہر ایک عنصر اسباب کی زنجیر میں بغیر کسی صلہ کے مطلق سبب کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ اگرُ  زبان کی بدولت           ' کسی مفروضے کے تحت اثرات کی وجہ سے یہ واقع ہوتا ہے تو اس وقت اپنے آپ میں محدود طور پر غیرمطابقت رکھتے ہیں.اس کے بعدابن سینا نے اپنے فلسفے کی           '     مطلق تخلیق           'کی حقیقت بیان کی۔

  Absolute Creativity 5.3) 

مطلق تخلیق  

                                 

ابن سینا کے نزدیک تخلیق کو عقلی سطح پر  سمجھنے کے لئے وجودیاتی انحراف ( اونٹلوجیکل ڈیوی ایشن) کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ انحراف وقت کی حدود و قیود سے باہر ہوتا ہے۔تخلیق میں تسلسل پایاجاتاہے اور ابدی  ہوتا ہے۔اسے وہ خدائی عمل کہتے ہیں۔ اس عمل کو  انوں نے اصطلاحی زبان میں  '    تخلیق مطلق  ' کہا۔ 

ابن سینا  کے مطابق تخلیق وجود کی صورت میں لائی گئی ہے۔ اسے فرض کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی  کیونکہ اس  کا وجود ہے۔  وہدنیا جو کہ عدم وجود سے پہلے  کی ہے، کے ( جس سے مراد یہ ہے کہ تخلیق  ضرورت کے مطابق وقت پر ہی کی گئی) لیکن تاہم بہر حال تخلیق اس بات کو خارج کرتی ہے کہ اسی طرح کے امکانات غیر موجودگی    (عدم) میں پیدا ہوں۔ مطلق دراصل وجود سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے ساتھ روح ( ذہن) کی صورت میں پہلے سے ہی موجود ہو تی ہے اورمادی جسم کے علاوہ پائی جاتی ہے اس لئے یہاں ہر شئے کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ 

ممکنات اور عدم وجود کی شناخت  مسائل کی صحیح عکاسی کی بنیاد ہے۔ مشکل کہیں اور ہوتی ہے، کےعلاوہ ُآدم' کے بارے میں جس پر ابن سینا نے اپنا خیال بنایاکہ الٰہی بہاؤ  کا جو کہ خدا کی بروقت تخلیق کرنے سے مختلف ہے : اس کے لئے غیر وجود وہ ہےجو معلوم کرتا ہے کہ اپنے آپ میں ممکن کیا ہے اور مستحق کیا کرتا ہے۔ارسطو کے فلسفے پر دوبارہ غور کرتے ہوئے سابقہ (اینٹی ریو  ریٹی)اور کارندے کے تصورات پر تھے۔وہ تخلیق کو تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسےاسباب جو کہ اول اصول کی بدولت پیدا ہوتی ہیں ( غیر وجودی اسبا ب کے نتائج کے ساتھ) نہ کہ زمانی نہیں بلکہ اس کا تعلق لازماً مؤخر الذکر کے ساتھ ہے ( مارمورا   1984)

ایک عدم وجود جو وقت عدم وجود سے پہلے ہوتا ہے اس بات سے انکار کر دیتا ہے کہ تخلیق مطلق کی وجہ سے ہوئی کیونکہ یہ مفروضہ بنا لیا جاتا ہے( پوزٹ) کہ تضاد کی وجہ وجود کا نہ ہونا ہے لیکن مطلق عدم اطمینان نہیں ہے۔ وہ اصول جس کے تحت ابن سینا وقت کو اول اصول کےعدم اطمینان کے عمل سے خارج کرتے ہیں وہ بالکل وہی ہے جو انہیں اس بات کی طرف لے جاتا ہے کہ سچائی اورحقیقی پن پیدا کرنے کے لئےہر قسم کی مصالحت کوخارج کیا جائےجو اشیاء کو وجود میں تبدیل کرتی ہیں۔ اصول اول کو لازماًچاہئیے کہ وہ عمل کرے جس میں کسی مصالحت کی ضرورت نہ پڑے۔ تخلیق وقت کے لحاظ سے قابل فہم عمل نہیں ہے کیونکہ خدائی تخلیق سے پہلے ہی وقت ختم ہو جاتا ہے جو دنیا اور اصول اول کے مابین ثانوی حیثیت ختم کر دے گا۔عدم اطمینان (عبدہ) اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ کوئی شئے جو وجود رکھتی ہے لیکن یہ وجود اس شئے سے الگ ہوتا ہے جو بغیر کسی مصالحت کے یا وقت کو بطور آلہ استعمال کرنے کے یا ثانوی  شئے (کے، جیسے کہ مادہ صرف اس )پر ہی انحصار کرتا ہے ۔ اس کے برعکس وقت کے وجود نہ ہونے سے پہلے وقت سے مصالحت   پائی جاتی ہے۔جوعدم اطمینان دور کرنے کا اعلیٰ طریقہ کار ہے (عبدہ) جس میں نسل ( تقویٰ) سے اور اس کے بعد شئے کو وجود میں لائے گا  (ا حدت)۔ 

اول سبب کا عمل ثنویت سے خارج کیا جانا چاہئیے۔ اصول اول اور اس کے سبب میں کوئی شئے  ،نہ کوئی مادہ، نہ اپنی مرضی اور نہ ہی وقت کا عمل دخل ہے  میں  جوڑا  نہیں جانا چاہئیے۔ ایک تخیل اور تمثال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اصول اول کا سبب اس سے مشابہہ ہو جیسے جب ہاتھ سے تالے کی کنجی گھمائی جاتی ہےتو کنجی اور ہاتھ علت و معلول بن جاتے ہیں۔ جو ترتیب میں ہوتے ہیں جس میں ایک اول ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آخر۔ اول پن ترجیح ہے جبکہ زمانی ( وقت ) لازم ہیں۔ 

اس سے ابن سینا اس نظریے پر پہنچتے ہیں کہ مطلق سبب جو کہ تمام اشیاء کا سبب  سلاسل کے ان یو نٹس میں ان کے مابین تعلقات جو ان کو آپس میں مربوط اور یکجا کرتے ہیں ۔ ایک شخص کو کسی شئے کے وجود کو فرض کرلینا چاہئیے اپنے سبب کے کچھ یونٹوں کے بارے میں (دوسروں کے لئے )  بظاہر  سبب موجود تو      محسوس ہوتاہے لیکن تکنیکی لحاظ   سے اسے سبب نہیں کہا جاسکتا۔ یہ رویہ انتہائی سطح کا شمار کیا جاتا  ہے اسلئےنہ تو  وہ    ثانوی عنصر اور نہ ہی معلول شمار ہوتا ہے۔ اس لئے ہر ایک سلسلے کی زنجیر کو ایسے سبب کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ اس کے اندر نہ ہو۔ بالکل اس کے باہر ہو اور خارجی ہو : ایک انتہا۔۔۔ ضروری وجود کا اصول  ( دا   نیسیسری  ایگزسٹنٹ پرنسپل)۔۔۔ جو کہ سبب نہیں بنتا۔ اس لئے وہ بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سبب کے لئے سلسلہ قائم فراہم کرتا ہے  لیکن وہ خود اس میں  شامل نہیں ہوتا اوروجہ خارجی ہوتی ہے۔ یقیناًاس طرح وجود کا بہاؤ  امتیازی ( مبین)ہو جاتا ہے۔اس کے بعد ابن سینا نے ظہور، آفاقی ذہانت، ارواح اور اجسام کا موضوع لیا۔ 

 

5.4) Emanation Celestial Intelligence Soul and Bodies                       

                                                                                                                                                                                                                                                            آفاقی ذہانت، روحیں اور اجسام  

 ابن سینا نے دنیا کی تخلیق کا تصور نو افلاطونی کے نظریہ ظہور ( ایمے نیشن) سے لیا جس کے لئے انہوں نے ' فیض' کی اصطلاح استعمال کی جسے  لاطینی زبان میں  فصوص ( موتی یا جواہر)  کہا جاتا ہے۔ یونانیوں نے اس کو ایک ایسا ذخیرہ آب  کہتے ہیں جس  سےجھرنا نکلتاہے۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جو کہ وقت کی حدود اور پابندیوں سے باہر ہو تا ہےاور مکمل طور پر خود کار انعکاس( آٹو  ریفلیکٹ  یو ) ہوتاہے اور جزو ترکیبی کے طور پر انعکاس کرتا ہے۔ اول اصول بذات خود ذہانت کے علاوہ شئے اور عقل کی بنیاد ہے۔ یہ ایک سوچنے والی شئے ہے جو اول اصول میں سے نکالی جاتی ہے۔ اس میں عقل یا ذہانت کا بھرپور استعمال بھی شامل ہوتا ہے ۔ اس میں اس کو اپنی ذات کاتصوربھی پیدا ہو جاتا ہےجس طرح روح اور وجود(اس لئے) امکانات اور ضرورت ) میں فرق معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں وہ ذہانت جوعقل کی وجہ سے (کا زڈ  انٹیلی جینس)پہلےبنی ہوتی ہے ، پہلے اصول کے بارے میں سوچتی ہے اور اس کی خود کارذہانت (آٹو  انٹیلی  جینس) کی طرف جاتی ہے جو ایک مہذب انعکاس ہوتا ہے۔ہاں پر تمام اشیاء کا آئینہ منعکس ہوتا ہے اسلئے اس آئینے میں عکس الٹا نظر آتا ہے جو کہ علم وجودیات کے اسباب ظاہر کرتا ہے  :  اس وقت ذہانت ایسے تمام وجود ات کا سوچتی ہے یا پھر ضرورت کے مطابق کسی کے حوالے دوسری اشیا  اور بعد ازاںاس بات کی شناخت کرتی ہے کہ اس کی امکانی بنیاد جس میں اس کی روح جہاں تک ممکن ہو اور اس کے عقل سے حقیقت پسند ی کرتی ہے۔ ہر قسم کی ذہانت سے اس بیان کا اثر درج ذیل طریقوں سے تین طرح کے اثرات لاتا ہے۔ 

1)  اس عمل سے جس میں پہلی وجہ سے بنی ہوئی ذہانت(کازڈ انٹیلی جینس)جب اصول اول کا سوچتی اور اس کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھتی ہے تو ایک نئی ذہانت وجود میں آتی ہےجس سے ایک ایسی سوچ پیدا ہوتی ہے جس میں وہ اپنے بارے میں سوچتا ہےاورکوئی مقصد بنا لیتا ہے۔اس طرح سے دو مکمل اشیاء ظاہر ہوتی ہیں( اپنے بارے میں سوچ اور مقصد)۔ 

2)  ایک روح جو  ابن سینا کے اظہار کے نظام اولین       کے اثرات آسمانی اشیاء سے ہم آہنگ کر تے ہیں اور اگر سختی سے کہا جائے تو وہ اپنےاول کے ساتھ جو کہ یا تو بنا ہوتا ہے یا پھر غیر تسلی بخش ہوا ہوتا ہے اور مطلق طور پر تخلیق کی ہوئی ہے(المبد الرواح) جس میں ذیل میں عام الفاظ میں تما م اثرات ہوتے ہیں اور اگر اس میں یہ الفاظ میں کہا جائے تو وہ ارضی ہیں۔ 

یہ نمونہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ اسباب کے مختلف سلسلے کیسے بنتے ہیں جس طرح کہ نو افلاطونیت کی روائت میں ہے۔ ابن سینا نے افلاطون کی چار وجوہات کو باطنی اور خارجی میں بدل دیا کسی شئے سے متعلق جو کسی شئے کا سبب بنتی ہیں۔اس طرح سے اس نے ان کی ایک درجہ بندی کر دی ( علت ۔ ثانوی۔ کی وجہ سبب بنا) جس کی وجہ سے ثانوی اصطلاح آخری سبب سے اوپر ہو گئی لیکن مطلق وجہ سے نیچے رہی۔اس ارضی  دنیا میں ہے مثلاً صورت مادہ بننے کا ایک حصہ ہے اور یہ اس سے برتر ہے کیونکہ وہ علت و معلول میں ثانوی اور مصالحتی کردار کی وجہ سے جو کہ ذہانت کے لئے سب سے آخری وجہ ہوتی ہے۔ جس میں دونوں یعنی شکل و صورت اور مادہ ذہانت کا نتیجہ بنتے ہیں۔اس کےعلاوہ اسباب (علل)ثانوی شئےکے بغیر پیدا ہوتے ہیں اور حتمی طور پر مطلق وجود اختیار کر لیتے ہیں یا پھر غیر تسلی بخش اور غیر مادی ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے وجود کی روح اور ضرورت صرف علم وجودیات میں امکانات کی ترتیب ثانویت کی وجہ سے اس وقت اس طرح سے تعریف کی جاتی ہے۔ علم وجودیات کی ترتیب سے جو کہ ثانویت کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوئی۔ یہ سب مادی اشیاء ہوتی ہیں جو کہ مادہ اور شکل و صورت سے تشکیل پاتی ہیں۔اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انداز میں ذہانت ( العقل)سے کائنات کی تشریح کی جا سکتی ہے جو براہ راست ضرورت کے وجود کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔اول سوچ کی ذہانت کی وجہ                   : روح (النفس)اور ماورائی اجسام وجہ (الکرم اسماویہ) ہیں اور دونوں ہی کا معلول ارضی دنیا پر ہوتا ہے بالکل آفاقی ذہانت کی طرح جنہیں مذہبی اصطلاح میں ٖفرشتے کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے تعاقب میں ارضی دنیا میں سادہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آخر میں انہوں نے سماوی تحریک کا ذکر کیا۔  

5.5 Celestial Movement

سماوی تحریک 

 ابن سینا سماوی تحریک میں ارسطو اور الفارابی کےخیال اور ذہانت کے بارے میں فلسفے کے کچھ حصوں میں تبدیلی لا تے ہیں ۔دماغ کے دونوں نصف کرے دنیا کی ما بعد از طبیعیات میں تکوینیات (کوسماس) کے متعلق مواد کا ادراک کرکے وضاحت کرتے ہیں۔ اس لئے حرکت جو دائرے میں ہوتی ہے، کو ابن سینا نے فطرت کے طور پر براہ راست بیان کیا ہے۔ آسمانی مخلوق اپنے پیچھے ہمیشہ نشان چھوڑتی ہے جو اس لئے ہوتے ہیں کہ ایک بار وہاں قیام کے بعد دوبار فطری تحریک کی وجہ سےحاصل کئے  جائیں اور  اپنے فطری  مقامات پر آرام کریں۔۔۔لیکن اصول کے وسائل( جو  ذہنی اور روحانی دونوں ہیں) ان کروں کی حرکت محبت اور خواہش پیدا کرتی ہے جو ذہن اور روح کا عکس ہوتی اور اپنے اصول کے تحت ذہنوں اور روحوں دونوں میں مشترک ہے کہ اپنے اصول سے ملتا ہے۔ اس کے امتزاج ( تسبع) کو حقیقی بنا دیتا ہے ۔ اس اصول کو کہ آسمانی اجسام در حقائق بیان کرتے ہیں ِ۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اپنے تمام امکانات کی حالت اپنی باری پر، صرف وہی قوت جو وہ رکھتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں آسمانی روحیں اجسام کو مسلسل حرکت دیتی رہتی ہیں جس پر وہ کسی نظام کے پابند ہیں اور اسے حقیقی بناتے ہیں َ۔ان میں ہمیشہ مشابہت پائی جاتی ہے۔اس خوبی کی بنا پرنمائندگی ایک نکتے پر مرتکز ہو جاتی ہے۔اس وقت اس میں کمالیت نہیں پائی جائے گی۔  مختصر طور پرایک طریقے سے جو کہ جزوی طور پر غیر عقلی ہیں      کو ختم کیا جائے ۔ ہر بار ہر ایک نقطہ پر روح  جو شئے منتخب کرتی ہے، کوایسے طریقےسے جو جزوی طور پر غیر عقلی  ہوتی ہیں ِ ، ختم کرتی ہے اور روح ہر بار ایک نقطے کا انتخاب کرتی ہے۔ 

کروں کی حرکات کی وضاحت اس طرح واضح کی جا سکتی ہے جو فطرت، روح اور ذہانت کا ملا پ کریں۔ یقیناً روح فطرت کی پیروی کرتی ہے، اس صورت میں کیونکہ وہ جسم، آسمانی حرکت کی قوت کی مخالفت نہیں کرتی اور انہیں فطری قرار دیتی ہےلیکن اس کے ساتھ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا لیکن اس کے ساتھ سوچ اور ارادے ( خواہشات) کی حیثیت سے بھی بیان کیا جائے گا۔ صرف عقلی، فکری خواہش جو کہ مخصوص سوچ بچاررکھتا ہے،واضح کر سکتا ہے آسمانی تحریک کو جس میں جسم ہمیشہ خاص طور پرمخصوص حالت میں واقع ہوتی ہے! روح  تصور میں پیدا کرتی ہے اس لئے وہ منتخب کر کے خواہش کرتی ہے کہ ایک تحریک پیدا ہو جس میں جسم ہمیشہ واقع ہو۔ایک خصوصی پہلے سے متعین کردہ  مقام اور پوزیشن میں:  روح کا تصور کرتی ہے اور اس طرح سے وہ منتخب کرتی ہے اور خواہش کرتی  ہے کسی سیاق و سباق کے تحت کہ ذہانت کی طرف مائل ہوتی ہے تو یہاں ذہانت کا مقصد اسے اپنا کر ان کے مساوی بنے۔ 

3) آفاقی جسم ذہانت کے تابع ہوتا ہے۔ واضح طور پر خدا کا عمل فوری طور پر سلسلہ قائم کرنے کی طرف چلا جاتا ہےاس وقت اس میں فوری طور پر سلا سل کی ضرورت محسوس ہوتی ہےجس میں ایک سبب  والا عنصر شامل ہوتا ہےاس مطلق منفرد اصول میں ثانویت اور مصالحت کی وجہ سے کثرت پیدا ہوتی ہے۔ وقت  کے ساتھ ساتھ خدائی سبب کی وجہ سے منقسم ہو جاتی ہے کہ براہ راست کسی شئے کی تخلیق کی گئی ہے ( جس کی تخلیق بہت ضروری تھی اور مصالحت کے بعد کون سی تخلیق پیدا کی گئی ہے۔اس تجلی اور ظاہری اصول کی وجہ سے ابن سینا اپنے خیال پر قائم رہنا ہے کہ مطلق وجود کا تصور پایا جاتا ہے جس سے وجود میں آنے کا اور بیک وقت اس کے ساتھ یہ بھی یہ تصور بھی برقرار رکھتا ہے کہ واضح امتیازیاقسام میں معلول جو کہ ثانوی(متائسف) ان سے جوکہ مصالحت کے بغیر واقع ہوئے ہوتے ہیں، کے ہم آہنگ ہوتا ہےجو ایسی شئے جو آخری سبب پیدا کرتی ہے(معلول) جو کہ ثانویت اورصرف ایک اثر (معلول) کی خوبیوں سے بنی ہے۔

ابن سینا کا اظہار کا نظام اولین اثرات، آسمانی اشیاء سے ہم آہنگ کر تے ہیں اور اگر سختی سے کہا جائے تو وہ اپنے اول کے ساتھ جو کہ یا تو بنا ہوتا ہے یا پھر غیر تسلی بخش ہوا ہوتا ہے اور مطلق طور پر تخلیق کی ہوئی ہے(المبدا الرواح) جس میں ذیل میں عام الفاظ میں تما م اثرات ہوتے ہیں اور اگر اس میں یہ الفاظ میں کہا جائے تو وہ ارضی ہیں۔ 

یہ نمونہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ اسباب کے مختلف سلسلے کیسے بنتے ہیں جس طرح کہ نو افلاطونیت کی روائت میں ہے۔ ابن سینا نے افلاطون کی چار وجوہات کو باطنی اور خارجی میں بدل دیا کسی شئے سے متعلق جو کسی شئے کا سبب بنتی ہیں۔اس طرح سے اس نے ان کی ایک درجہ بندی کردی(علت۔ ثانوی۔ کی وجہ سبب بنا) جس کی وجہ سے ثانوی اصطلاح آخری سبب سے اوپر ہو گئی لیکن مطلق وجہ سے نیچے رہی۔اس ارضی دنیا میں ہے مثلاً صورت مادہ بننے کا ایک حصہ ہے اور یہ اس سے برتر ہے  کیونکہ علت و معلول میں ثانوی اور مصالحتی کردار کی وجہ سے جو کہ ذہانت کے لئے سب سے آخری وجہ ہوتی ہے۔ جس میں دونوں یعنی شکل و صورت اور مادہ ذہانت کا نتیجہ بنتے ہیں۔ 

 اس کے علاوہ جو اثرات (علل)ثانوی شئےکے بغیر پیدا ہوتے ہیں اور حتمی طور پر مطلق وجود اختیار کر لیتے ہیں یا پھر غیر تسلی بخش اور غیر مادی ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے وجود کی روح اور ضرورت صرف علم وجودیات میں امکانات کی ترتیب ثانویت کی وجہ سے اس وقت اس طرح سے تعریف کی جاتی ہے۔ علم وجودیات کی ترتیب سے جو کہ ثانویت کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوئی۔ یہ سب مادی اشیاء ہوتی ہیں جو کہ مادہ اور شکل و صورت سے تشکیل پاتی ہیں۔اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انداز میں ذہانت ( العقل) کائنات کی تشریح کی جا سکتی ہے جو براہ راست ضرورت کے وجود کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وجود کے بارے میں اگر صحیح انداز میں بیان کیا جائے، ان میں سے یہ صرف اول اشیاء جو کہ آغاز کرتی ہے۔اول سوچ کی ذہانت کی وجہ : روح (النفس)اور ماورائی اجسام وجہ (الکرم اسماویہ) سے۔ دونوں ہی کا معلول ارضی دنیا پر ہوتا ہے اور۔۔۔بالکل آفاقی ذہانت کی طرح جنہیں مذہبی اصطلاح میں ٖفرشتے کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے تعاقب میں ارضی دنیا میں سادہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ تمام بحث کے بعد ابن سینا نے منرجہ ذیل نتیجہ اخذ کیا                                                                                    

Conclusion (6

نتیجہ   

 ابن سینا نے    اس کو ذیل کے عنوانات میں بیان کیا۔

6.1)  The  Ethical  Dimension.

ا خلاقی  سمت

6.2 )The Sublunary World ،  Matter and Evil.

ارضی  دنیا،  مادہ اور برائی

6..3)   Concluding   Remarks.

        حرف آخر                                       

   تمام بحث سے جو نتائج اخذ کئے  ان میں انہوں نے اخلاقی سمت اور ارضی دنیا کے بارے میں نتائج اخذ کرنے کے بعد حرف آخر پر اپنے فلسفے کی بساط لپیٹی۔

6.1) The  Ethical  Dimension

اخلاقی سمت

 سوچ بچار میں خواص اور شئے کی لازماً موجودگی کا شعور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ خدائی فعل پرجو اشاراتی (کو نوٹ ) ہوتی ہیں پر انحصار کرے۔ابن سینا کے نزدیک یہ اخلاقی احساسات ہیں جو بہاؤ میں وجود کو اصول سے دور کر دیتے ہیں۔اصول روح نفس کی تخلیق کرتا ہے جسے خالص اور حقیقی خدا کہا جاتا ہے۔۔۔ دوسری قسم کی اصطلاح میں جن میں یہ فطری ضرورت استعمال کی گئی جو کہ ظاہری حالت میں واضح طور پر مخصوص تابانی، روشنائی کے خیال کے ساتھ مسترد کر دی گئی۔ اس و قت ایک ہی ضرب میں لازماً (ا  یٹمپورل) ایک ہی ضرب میں۔۔۔اس فارمولے کی رو سے اپنی عقل،سوچ بچار ،خواہش (ارادہ) اور محبت (عشق) کواستعمال کرتے ہوئے پہلا لازمی وجود دنیاکی '  تخلیق' کرناہے، خواہش ، ارادہ ، عزم ، سوجھ بوجھ ، محبت کرتا ہے۔ اس کی اپنی غور و فکراور نتائج جو کہ اس میں شام ہوتے ہیں۔۔۔ ارادہ اور محبت ۔۔۔ جسے ابن سینا نے ' اصول کی خوبیوں میں اس بہاؤ کو واضح  کرتے وقت اخلاقی سمتوں کوبیان کرتے ہیں ۔ وہ بہاؤ اچھا ہےاور سخی َشامل کئے ہیں جو دنیا کو دیتا ہے ۔اسے حاصل کرنے دیتا ہے کہ اچھا کام کرے ، یقیناً اس وقت دنیا کی طرف وہ بہاؤ اچھا ہو گا کیونکہ یہ سخاوت ہی ہے جو اپنی ذات میں پائی جاتی ہے(جسے غیروجودی یا نجی محرومی کہا جاتا ہے)۔ وہ خدائی ارادے سے متعلق ہے ۔ یہ حادثاتی طور پر ارادے کی شکل    اختیار کرتا ہے مثلاً جیسا کہ حتیٰ کہ یہ اچھے امکانات کا لازمی نتیجہ ہے۔ ارادہ کو'اصول  اول  ' کے تحت ہی متعلق بنا کر تعلق قائم کیا جاسکتا ہےجس میں منطقی امکانات:اصول ہمیشہ یہ ارادہ رکھتا ہے ۔ تب اس وقت میں وقفہ نہیں ہوتا ۔

 تاہم اس وقت اس کا ارادہ نہیں پایا جاتا کہ تخلیق کرے۔ زمانی سمت کا بنیادی طور پر مکمل استرداد جو خدائی رضا کی خواہش کا معتبر اور مستند تصور پیش کرتاہے ۔ حقیقی تعقل کی یہ بھی ایک شرط ہے۔ ایک خواہش جو وجودی اصول کے ساتھ بالکل اتفاقیہ طور پر مکمل طور پر مماثلت رکھتی ہے۔ اس کے باطنی اور اندرونی  حالات کے ساتھ۔یہ بہاؤ یقیناً وجود کے حصہ کا ابلاغ ہے جو اس بات کو واضح کرتاہے کہ ضرورت امکانی روحوں کا خدائی احکامات کے ساتھ اخلاقی لحاظ سے انحصار ہے۔ عین اسی وقت اچھے مطلق کی تعریف بطور ممکنات کی مکمل شناخت ایک بنیا د ہے جس کی بنا پر ابن سینا اصول اول کے اخلاقی پہلوؤں کو اہم قرار دیتے ہیں اور یہ مشکلات طے کرنے کے بعد حاصل ہوتاہے : یہ اس بات کو شامل کرتے ہیں کہ 'اصول اول '  کی تخلیق کی کیونکہ امکانات کی شناخت عمدہ ہو گی۔ اس کے بعد انہوں نے ارضی دینا، مادہ اور برائی  کے بارے میں ذکر کیا۔   

6.2 ) The Sublunary World World  Matter and Evil.                                            

                                               ارضی دنیا، مادہ اور برائی

 ابن سینا نے دلائل کے ذریعے  ثابت کیاکہ سب سے آخر والی ذہانت مزید ذہانت پیدا نہیں کر سکتی بلکہ وہ ارضی دنیا اور انسانوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ سب آخری ذہانت یقیناً  شکل وصورت (فارمز)  دنیا کے لئے ۔۔۔بغیر کسی تاثر کے جو کہ قرون وسطیٰ میں امام الغزالی کےبہت زیادہ حمائتی تھےاور طرف داری کر رہے تھے جو کہ تعظیم اور احترام سے جھکنے  والے ۔۔۔شکل و صورت والے تھے۔ لیکن ابن سینا کے نزدیک یہ اصطلاح ہر ایک ذہانت کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔۔۔سب سے آخر والی ذہانت یا ذہانت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی ذہانت کے بنیادی اصول (کم از کم سیاق و سباق سمجھنے میں ابن سینا نے مدد کی  اصطلاح استعمال کرنے میں مابعد از  طبیعیات کے اصول میں جو کہ ارسطو نے مادہ اور شکل وصورت کے کئے اپنے کام میں ممکنہ طور پر استعمال کئے ہیں۔وہ ڈھانچےکے مطالعہ میں ظاہری نمونوں  کے بارے میں خیالات پر قائم رہتا ہے جو دنیا کو صرف اس کے آغاز کے لحاظ سے بلکہ زندگی اور نسلوں کو فطری تبدیلی کو اس عمل کے ذریعے تصور کرتے ہیں جس سے مادہ کو صورت اور شکل کے اور شئے کو کامیابی سے وصول کرنے کے قابل بناتا ہےجس سے وہ شکل و صورت میں باقاعدہ طور پر سرگرم ہوکر ذہانت کے نمائندے کے ذریعے ابن سینا نے اس عمل میں کروں کا بھی عمل دخل          کا ذکر کیا۔ اس میں تال میل سے جو کہا ارضی عناصر مادہ کی وصولی اور وجوہات معلوم کرنے کے لئے کرتے ہیں آمادگی ظاہر تے ہیں۔قوت کے بارے میں حرکیاتی تخیل اور اس کے افعال کی تشریح کی گئی ہے جس سے طاقت کی اصطلاح اورتصور پیچیدہ ہو گیا ہے۔ ابن سینا اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اظہار کی صورت میں استعداد، آمادگی خصوصی باقاعدہ تیاری صورت اورظہو ر کی نسبت سے مادہ کی قوت کا تعلق وقت کی وصولی کے ساتھ سے جو دنیا کی زمانی سمت میں و ہ در حقیقت ارضی دنیا کی زمانی سمت قت  کے تعین کے بارے میں  فیصلہ کرتا ہے۔  امکانات  کی ضرورت   معلوم کرتا ہے  جو سطح زمین  کی تہہ میں مادہ کی قوت پیدا  کرتا ہے  اور ثابت کرتا ہے کہ  ایک ایسی شئے جو تہہ میں نہیں پائی جاتی جب عدم وجود کی شکل میں  ظاہر ہوتی ہے۔  

6.3) Concluding   Remarks.                            

         حرف آخر

اسلام کےظہور (ایمے نیشن)کے تعقل کوجو ابن سینااس طرح واضح کرتے ہیں کہ خدائی دنیا کے تعقلات اور زیادہ عمومی طور پر موئثر اسباب پائے جاتے ہیں ۔ حرکت کا سبب (تحریک)اور اس کا اثر و رسوخ (تائثر) دونوں ہی اضافی طور پر اس میں شامل کئے گئے ہیں اورظہورہونے کے اسباب میں قاعدے قائم کئے جو کہ ان خیالات میں برقرار رکھے گئے ہیں جس کے بعدانہوں نے انعام(ڈونیشن) کی اصطلاح استعمال کی۔ان کے مابعد طبیعیات کے فلسفےکے ہر مضمون فزکس ، نفسیات ، عرفان(  گنازیالوجی) علمیات( اپسٹمالوجی)پیش گوئی (پروفیسی) اور یہاں تک کہ موادیا ت(ایس چیٹالوجی) میں بھی لاگو کرتے ہیں جس میں بہاؤ کی اشکال اور صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔اس کے نتیجے میں حتمی  توضیح و تشریح کرتے ہیں ما بعد از طبیعیات کے حصوں کے علاوہ نجات میں بھی استعمال کرتے ہیں۔تصریحات( ریمارکس)، سائنس، رہنمائی و مشاورت    تمام مل کر اپنی کتاب 'الماہدہ  ولمعاد ' اور دیگر تحریروں میں جو کہ ما بعد از طبیعیات کے مطالعہ کے لئے ضروری ہیں۔

 

             

 

 

 

 

 


Popular posts from this blog