ہیئتت کی تبدیلی The Metamorphosis) Franz Kafka - (1883 - 1924) Czechoslovakia

 






  ہیئت کی تبدیلی

 

  • The Metamorphosis
  • Franz Kafka - (1883 -   1924)
  • Czechoslovakia

پیشکار:  غلام محی الدین   

 

 

سامسا (Samsa) کا خاندان ایک دس منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں سالہا سال سے مقیم تھا۔  اس کے ساتھ اس کی بیوی فرینکلن(Franklin) جو ان بیٹا گریگر  (Gregor)  اور سترہ سالہ بیٹی گریٹس  (Grates)  رہتی تھیں۔  سامسا اور فرینکلن کئی سال پہلے ریٹائر ہو چکے تھے۔  بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے کوئی با قاعدہ نوکری اور گھر کا عام کام کرنے سے قاصر تھے اس لئے ان کو مجبوراً ایک جز وقتی ملازمہ ر کھنا  پڑی۔  سامسا  (Samsa)  نے ماضی میں چند سال فوج کی نوکری کی تھی۔  ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی وردی ابھی تک اس کے پاس تھی۔  گھر کے حالات کے باعث اسے بنک میں جز وقتی ڈاک تقسیم کرنے کے لئے بلا لیا جاتا تھا۔   اس کی ڈیوٹی ہو یا نہ ہو، وہ دن کو ہمیشہ اُس وردی میں جس پرجگہ جگہ چکنائی کے دھبے پڑے ہوئے تھے،پہنے رہتا۔ 

 

گریگرا س کا جوان بیٹا گریگر ایک دراز قد اور فربہ شخص تھا جو گھر کے تمام اخراجات برداشت کرتا تھا۔  اُسے اپنے بوڑھے والدین کی فکر رہتی تھی۔  اُسے اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے کتنی محنت سے اسے پالا تھا اس لئے وہ اسکے بڑھاپے میں ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔  اُس کو اپنی بہن گریٹس  (Grates) سے بڑا لگاؤ تھا   جسے  وائلن اور پیانو بجانا آتا تھا اور وہ ان میں مزید  مہارت حاصل کرنا چاہتی تھی۔  گریگر کا ارادہ تھا کہ وہ اسے وائلن اور پیانو کالج میں داخل کروائے گا لیکن اس نے اُس سے اِس بات کا ذکر نہیں کیا تھا۔

           

گریگر نے جو نوکری چنی تھی وہ گردشی تھی جس میں وہ ہر روز ایک نئے شہر یا قصبے جا کر اپنی کمپنی کی اشیاء بیچتا تھا۔  اس نے یہ نوکری جو کہ کافی مشکل تھی،کے لئے اسے صبح چار بجے اٹھنا پڑتا تھا کیونکہ دوسرے شہر پہنچتے پہنچتے اسے دو تین گھنٹے لگ جاتے تھے۔  وہ پہلی ٹرین پکڑتا تھا جو پانچ بجے نکلتی تھی پھر ہر گھنٹے بعد جاتی تھی۔  اس کو اِس نوکری سے جو کہ ایک جگہ بیٹھ کر کرنا پڑتی تھی، سے دوگنی آمدن ہوتی تھی۔  تنخواہ کے ساتھ کمیشن بھی ملتا تھا۔  ڈیوٹی کے دوران تمام اخراجات کمپنی کے ذمہ تھے۔  وہ ایک فرض شناس بیٹے کی طرح اپنے خاندان کو خوش دیکھنا چاہتا تھا اِس لئے وہ اُن کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنی طرف سے سخت محنت کر رہا تھا۔   اسے اُس کمپنی میں کام کرتے  پانچ سال ہو چکے تھے لیکن مالک کے نزدیک اُس کی کارکردگی معیاری نہیں تھیں کیونکہ خریدار اُس کی اکثر شکایات کیا کرتے تھے۔

           

ہر روز ڈیوٹی پر جانے سے پہلے کمپنی میں ڈیوٹی پر موجود ڈسپیچ کو اُسے اُس روز کا جدول بتانا پڑتا تھاکہ اُس نے کن علاقوں میں جانا ہے،  کون کون سے سامپل لے کر جانے ہیں،  کن دکانداروں سے ملنا ہے،  کن سے آرڈر لینے ہیں، کن سے وصولی کرنی ہے، کن کو سپلائی پہنچانی ہے اور دیگر تفصیلات  جو اُس کے دن کے دورے کے لئیاہم تھیں۔  واپسی پر اسے مطلع کرنا ہوتا تھا کہ کون سے نئے آرڈر ملے ہیں، کن کو سپلائی پہنچ گئی ہے،کتنی وصولی ہوئی ہے اور کس اکاوئنٹ میں رقم جمع کروائی گئی ہے وغیر ہ۔  ہر مہینے اسے زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہنا پڑتھا تھا لیکن پوری کوشش کرتا تھا کہ عموماً ہفتے میں دو دن وہ گھر پر ہی گزارے۔

           

وہ جب کام سے واپس آتا تو اس کا والد، والدہ اور بہن اسے دیکھ کر خوش ہوتے اور خوش آمدید کہا کرتے۔  وہ اسے اہتمام سے کھانا کھلاتے  اور سونے سے پہلے اُسکے ساتھ رات گئے  تک باتیں کرتے رہتے۔  پھر اگلے دن وہ علی الصبح اٹھتا اور  اپنی ڈیوٹی پرنکل جاتا۔  ہر دو ہفتوں بعد جو چیک اسے ملتا وہ اپنے باپ کے حوالے کر دیتا۔  صبح جاگتے وقت کبھی کبھار اُسے تھکاوٹ کا احساس ہونے لگتا اور پھر کچھ وقت کے بعد اس کے ساتھ درد بھی محسوس ہونے لگالیکن جب وہ نہا دھو کر ناشتہ کرتا تو وہ علامات ختم ہو جاتی تھیں۔  اس کے کمرے کی کھڑکی سے گھر کے باہر کا منظر صاف نظر آتابشمول ہسپتا ل جوگلی کی نکڑ پر تھا، بازار اور رہائشی بلڈنگ جنکی آمد و رفت وہ دیکھ سکتا تھا۔ 

           

چند ہفتوں بعد اسے پھر وہی علامات ظاہر ہوئیں تو اُس نے آرام کے لئے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی۔  بیماری کے سبب اسے کمپنی کا حساب کتاب دینا بھی یاد نہیں رہا۔    چھٹی ختم ہونے پراُس روز اسے ہر صورت کام پر جانا تھا۔  کمپنی کا مالک گا ہے بگا ہے اسے اور اس کے باپ کو اسکی   ناقص کارکردگی کے بارے میں آگاہ کر تا رہتا تھاجبکہ گریگر خود کو ایک بہترین ملازم سمجھتا تھا۔اس کے اپنے انداز ے کے مطابق وہ کمپنی کے لئے قیمتی اثاثہ  تھا۔  جب بھی اسے اس کی  کوتاہی  کے بارے میں بتایا جاتا تو وہ سمجھتا کہ دیگر لوگ اس سے جلتے ہیں۔  روز بروز کے سفر سے وہ اکتا بھی جاتا لیکن خانگی ذمہ داریوں کی خاطر اسے کام کرنا پڑتا۔  نوکری سے اسے جو بھی رقم حاصل ہوتی وہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی کہ اس کے خاندان کا مکمل گزارہ ہو سکے۔  اس کے والد نے بھی ریٹائرمنٹ سے قبل کچھ رقم بچا کر بچت سکیموں میں لگائی ہوئی تھی جس سے اسے معمولی سا ماہانہ سود ملتا تھا اور جب کبھی گریگر کو بونس ملتا تو وہ بھی بچت سکیموں میں لگا دیتا تھا۔ اس طرح مل جل کر خرچہ پورا ہو ہی جاتا تھا۔ 

           

گاڑی پکڑنے کے لئے اُس روز وہ صبح اٹھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک حقیر کیڑے کی مانند ہو گیا تھا۔  اس کی کمر اکڑ چکی تھی، پیٹ میں جیسے فولاد بھر دیا گیا تھا، سر اٹھایا تو اس نےمحسوس کیا کہ اس کی محراب نما توند بے حد سخت ہو چکی تھی جو کئی حصوں میں بٹ چکی تھی۔  رضائی جو اس نے سردی سے بچاؤکے لئے لی ہوئی تھی وہ اس کے پیٹ پر ٹک نہیں رہی تھی کیونکہ وہ اس کی توند کے لحاظ سے چھوٹی تھی۔  اُسے کیا ہو گیا ہے؟  اس نے سوچا۔  وہ یقینا خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔  وہ اپنے بیڈ روم میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔  کمرہ اند ر سے بند تھا۔  اسکے کام کے کچھ سامپل میز بکھرے ہوئے تھے۔  اس نے باہر دیکھا تو بارش ہو رہی تھی اوراسکے قطرے کھڑکی پر پڑ رہے تھے۔  اس پر اسے خیال آیا کیوں نہ و ہ اُ س موسم سے لطف اندوز ہو کر کچھ دیر مزید سو جائے۔  دائیں سمت کروٹ لینے کی کوشش کی تو وہ ہل نہ پایا۔  جب کبھی کروٹ لینے کی کوشش کرتا تو اس کی کمر میں شدید درد ہوتی۔  اس تگ و دو میں ساڑھے چھ بج گئے یعنی وہ ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہو چکا تھا۔  اگلی ٹرین نے سات بجے جانا تھا۔  وہ اگر تیزی سے تیار ہو جائے تو وہ اب بھی ٹرین پکڑ سکتا تھالیکن اس کے سامنے میز، کرسی پر پڑے کمپنی کے سامپلوں کو ترتیب وار کرکیپیک کرنا تھا۔   نہا کر ناشتہ کرنا تھا جو وقت طلب تھااور اتنے کم عرصے میں وہ یہ سب نہیں کر سکتا تھا۔  اگروہ یہ کر بھی   لیتا تو بھی مالک نے مطمئن نہیں ہونا تھا اور اسکی سرزنش تو کرنی ہی تھی۔  اس نے سوچا کہ اسکا ساتھی پورے پانچ بجے سٹیشن پر پہنچ چکا ہو گا اور اسکی غیر حاضری کی اطلاع دفتر کو دے دی ہو گی۔  ڈسپیچ نے منیجر کو اور مینیجر کے مالک کو شکایت کر دی ہو گیجواسکے والد کو بڑھا چڑھا کراسکی برائی کرے گااور کہے گا کہ بارہا تنبیہ کے باوجود اُس نے اپنا رویہ صحیح نہیں کیا اس لئے تادیبی کاروائی کر کے اسے نوکری سے نکال دیاتاکہ کمپنی کو اُسے بینیفٹ نہ دینے پڑیں۔  اتنے میں دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔  آواز جیسی کوئی چیز سنائی دی۔ 

           

کیا آج ٹرین نہیں پکڑنی؟  اس نے سنا۔

           

ہا ں!  ہاں!  شکریہ۔۔ میں اٹھ ہی رہا تھا،  اس نے جواب دیا۔ 

           

باہر کھڑے شخص نے اس کی آواز سن لی ہو گی۔  یہ بات تو طے تھی کہ اس آواز کے بعد تمام لوگوں کو پتہ چل گیا ہو گا کہ وہ آج ابھی تک کام پر نہیں گیا۔  اس دوران اس کے باپ نے اونچی آواز میں پکارا، گریگر باہر نکلو۔۔ساتھ ہی بہن بولی،  بھائی تمہاری طبیعت ٹھیک تو ہے؟  تالا اتارو اوراب درواز ہ کھول بھی دو۔  اس نے فوراً  ایسا نہیں کیا کیونکہ اسکا  دل نہیں چاہ رہا تھا کہ کوئی اس کے کمرے میں تیزی سے آئے۔  اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اس کی آواز بھی معمول سے ہٹ کر تھیجسکا اس نے یہ جواز پیش کیا کہ یہ شدیدموسم میں فرائض کی ادائیگی کے سبب گھنٹوں کھڑے رہنا ہو سکتا تھا۔  پھر اچانک اسے سوجھا کہ بھلا رضائی چھوڑنا اور بستر سے اٹھنا بھی کوئی کام ہے؟  اسے اب اٹھ جانا چاہئے۔  اُس نے گہرے سانس لئے، اوپری دھڑ اٹھا کر نچلے دھڑ کو گھسیٹنے کی ضرورت تھی جو کسی وجہ سے اس سے ہلایا نہیں جا رہا تھا۔  بار بار کوشش کے باوجود وہ اپنے جسم کو ہلا نہیں پا رہا تھا۔  اس کی ٹانگیں حرکت نہیں کر رہی تھیں۔  رضائی ڈھلک تو چکی تھی لیکن اس کے جسم سے مکمل طور پر اتر نہیں رہی تھی۔  اُس کو جھنجھلاہٹ پیدا ہونے لگی لیکن اس نے اپنے ان خیالات پر قابو پا لیا۔

           

اس عمل میں ناکامی کے بعد اس نے سوچا کہ اسے بستر سے اٹھنے کی تدبیر تبدیل کرنی چاہئے۔  سب سے پہلے اسے نچلا دھڑ اٹھانا چاہئے لیکن اس کا ایک حصہ رضائی میں چھپا ہوا تھا اس لئے واضح نہیں تھا کہ اس کی پوزیشن کیا ہے اور وہ اسے کیسے ہلائے گا؟   اس نے زور لگا کر اسے ہلانے کی کوشش کی تو وہ اس میں ناکام رہا۔  مزید کوشش کی تو اس کا نچلا دھڑ بستر کے اوپری حصے کی بجائے بستر کے نچلے حصے کی طرف سر ک گیا۔  اس عمل میں اسے شدید درد ہونے لگا۔  وہ سمجھا کہ شاید اس کا نچلا حصہ بہت حساس ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اسے معمولی سی تکلیف بھی بہت زیادہ لگ رہی تھی۔

           

اب اُس نے پہلے اپنے جسم کا بالائی حصہ رضائی سے باہر کھنچنے کی کوشش کی لیکن اس کا سانس اکھڑ گیا۔  اس کا بھاری بھر کم جسم ااسکے اٹھنے میں مداخلت کر رہا تھا پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور آہستہ آہستہ اپنے سر اور جسم کو ہلانے میں کامیاب ہو گیا۔  آخر کار جب وہ اپنے سر کو بستر کے کنارے سے اوپر ا ٹھانے میں کامیاب ہو گیا تو اس کو ایسا لگا کہ اس سے مزید زور لگانا اس کی تکلیف میں اضافے کا سبب بنے گا اس لئے اس نے مزید کوشش تر ک کر دی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ کہیں اس کا سر کسی سخت چیز سے ٹکرا نہ جائے اور وہ زخمی ہو کر بے ہوش نہ ہو جائے۔   اِسی شش و پنج میں وہ کچھ دیر مزید لیٹارہا اور اُس صورت حال سے نپٹنے کے لئے وہ یہ سوچنیلگا کہ اسے اپنا دماغ ٹھنڈا رکھنا چاہئیاور ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔  کچھ دیر کے بعد اُس نے پھر سے اٹھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔  اسے باقاعدہ انداز میں جھولے کی طرح آ گے پیچھے ہلنے کی تدبیر سوجھی۔   اس کو یقین تھا کہ اس طرح سے وہ بستر سے نکل پائے گا۔  یہ طریقہ اسے دلچسپ لگا کیونکہ یہ کھیل کا کھیل تھا اور تدبیر کی تدبیر۔  اِس کوشش سے جسم اوپر کی طرف ہو جاتا لیکن پھر نیچے کھسک جاتا۔  اس دوران اُس نے سوچا کہ اگر اسے تھوڑی سی بیرونی مدد مل جاتیتو وہ اس پوزیشن سے چھٹکارا حاصل کر سکتا تھا۔  اس کا باپ، بہن یا نوکرانی اِس سلسلے میں اس کی مدد کر سکتے تھے۔  اگر وہ کندھوں میں ہاتھ ڈال کر اسے قالین پر کھڑا دیتے تو وہ خود سے چل سکتا تھا لیکن اسے یاد آیا کہ وہ مدد کو نہیں آ سکتے کیونکہ دروازہ تو اندر سے مقفل تھا۔

           

اس کے کانوں میں گھنٹی کی آوازآئی۔  لو جی!  ایسا لگتا تھا کہ اسکی غیر حاضری جان کر  اسکے بارے میں شد بد لینے کے لئے کوئی شخص ہیڈ آفس سے انکوائری کے لئے آ گیا تھا۔  اُس وقت اُس نے گھڑی دیکھی تو سات بج چکے تھے۔  اِس سے اُس میں پھر جوش پیدا ہوا اور اس کی ٹانگیں تیزی سے حرکت کرنے لگیں۔  اس لمحے اس نے نوکرانی کی چاپ سنی جو مین دروازہ کھولنے کے لئے جا رہی تھی۔  دروازہ کھلنے پر اس نے صبح بخیر کی آواز سنیجو کمپنی کے مالک کی لگی۔  یہ سن کر وہ پریشان ہو گیا۔  اس کمپنی کے مالک کو کسی ملازم کی بات پر یقین نہیں آتا تھا اس لئے حقیقت جاننے کے لئے وہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے خود آ گیا تھا۔  اِس بار اُس نے کوشش کی تو وہ قالین پر دھڑام سے گرا لیکن اس کے سر میں کسی چیز کی چوٹ سے اس کے سر میں ٹیس اٹھی۔  اس نے جائزہ لیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنا سر اونچا کرنا بھو ل گیا تھا س لئے چوکھاٹ کی ٹکر سے اسے چوٹ آ گئی تھی۔

           

کمرے میں کوئی چیز گری ہے،   اس نے کمپنی مالک کو کہتے ہوئے سنا۔

           

اس کی بہن کمپنی کے مالک سے آج کے واقعہ کا ذکر تفصیل سے بیان کر رہی تھی۔  گریگر نے آواز سنیکہ اسکی کمپنی کا مالک گھر پر آیا ہے۔  گریگر بڑبڑایاکہ وہ یہ جان چکا تھا۔  اُس نے یہ بات اونچی آواز میں کرنا چاہی لیکن اس کا گلا اس کا ساتھ نہ دے پایا اوراُس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔


اب اس کے باپ کے بولنے کی باری تھی جس  نے مطلع کیا کہ ا س کی کمپنی کا مالک جاننا چاہتا تھا کہ اس نے صبح کی گاڑی کیوں نہیں پکڑی؟  چونکہ ہمیں وجہ معلوم  نہیں ، اسے باہر آ کر بتا دو۔ اگر تمہارے کمرے میں اشیاء بے ترتیب ہیں یا ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں تو بھی فکر نہ کرو۔ اُس نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہ پوچھے گا۔ 

           

 گریگر بیمار ہے،رات اس کی طبیعت کافی ڈھیلی تھی،اس کی ماں نے توجیہ پیش کی۔

           

کمپنی کا مالک بولا،   اس کو علاج کرانا چاہئے تھا۔  وہ اپنی بیماری کی وجہ سے پچھلے ایک ہفتے سے غیر حاضر  تھا اور ویسے بھی اسکی کارکردگی پچھلے کئی مہینوں سے روز بروز خراب سے خراب تر ہو رہی تھی۔ 

           

تاہم گریگر اس کی بات سے متفق نہیں تھاکیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ تین مہینے پہلے اسے بہترین کارکنوں کے ساتھ بونس دیا گیا تھا اور اس کی تصویر کمپنی کے اخبار میں بھی چھپی تھی جو اس نے فریم میں لگا کر دیوار پر لٹکا دی تھی۔  وہ بڑی مشکل سے اٹھا اور اس تصویر کو دیکھنا شروع کیا۔  کھڑا نہ رہ سکا اور قالین پر لیٹ گیا۔

           

دروازہ کھولو!   ہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ دروازہ اندر سے بند ہے اس لئے ہم باہر سے نہیں کھول نہیں سکتے۔  اگر تم نے دروازہ نہ کھولا تو ہمیں دروازے کو توڑنا پڑے گا۔  ا س دوران گریگرنے اپنی بہن کی سسکیوں کی آواز سنی۔  ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کمپنی کا مالک اور گھر کے دوسرے لوگ کمرے کے دائیں طرف اوراسکی بہن بائیں طرف تھی۔  وہ ان سے الگ کیوں دوسری طرف کھڑی تھی؟  اسے خیال آیا کہ شاید وہ ابھی سو کر ہی اٹھی ہو۔  رات والے کپڑے نہ بدلے ہوں اس لئے ان کے ساتھ نہیں تھی۔ پر وہ رو کیوں رہیتھی؟  شاید اس لئے کہ وہ وقت پر نہیں جاگا تھا۔

           

چونکہ کمپنی کا مالک گھر تک آن پہنچا تھا جو ایک خطرناک کی علامت تھی  اس لئے اب اسے اپنی نوکری سے نکالے جانے کا ڈرمحسوس ہوا۔  اسے یہ بھی خدشہ تھا کہ مالک اس سے اُس قرضکی واپسی کا تقاضا بھی کرے گا جو اُس نے وقتاً فوقتاً کمپنی سیگھر چلانے کے لئے لیا تھااور اپنی تنخواہ سے قسط وار ادا کر رہا تھا۔  وہ بہت فکر مند ہو گیا۔ وہ بات اپنی جگہ لیکن اس وقت گریگر پر جو بیت رہی تھی اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔   وہ قالین پر بے بس پڑا تھا اور اس بے بسی کو کسی کے سامنے پیش نہیں کر سکتا تھا۔ 

           

اس بار مالک بذات خود دروازے پر آیا اور زور سے بولا،   گریگر تم ہاں یا نہ میں جواب دے رہے ہو۔ اصل بات کیوں نہیں بتاتے؟  ہفتہ بھر چھٹیوں کے بعد بھی تم کام پر نہیں آئے۔  آج کی تمہاری غیر حاضری بھی نظر انداز کر دوں گا اگر تم مجھے اس کی کوئی معقول وجہ دے سکے۔  میں تمہیں ذمہ دار، قابل بھروسہ اور سنجیدہ شخص سمجھتا تھا لیکن اس نامعقول اور بیہودہ رویے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔  میں یہاں اس نیت سے آیا تھا کہ میں چپکے سے تمہیں اس بات کی تنبیہ کر دوں گا کہ اس قسم کا غیر ذمہ دار رویہ پھر کبھی نہ کرنا اور نوکری سے  نہیں نکالوں گا لیکن تمہارے رویے سے لگتا ہے کہ تم نوکری کرنا ہی نہیں چاہتے۔

 

لیکن سر!  گریگر نے کمپنی کے مالک کی بات سن کر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ وہ اسی لمحے دروازے کھولنے لگا تھا لیکنسر چکرانے کی وجہ سے میں دروازہ کھول نہیں پا رہا تھا۔  تاہم وہ اب کچھ بہتر محسوس کر رہا تھا۔  اُس نے ڈاکٹر سے دوا لی تھی، آرام کیا تھا اور پچھلی رات تک وہ بالکل ٹھیک محسوس کر رہا تھا۔ رات نیند بھی خوب آئی لیکن صبح کے وقت نجانے کیا ہو گیا تھا؟   اسکی یہ حالت ابھی ٹھیک ہو جائے گی اور وہ کام پر چلا جائے گا۔  وہ جو بول رہا تھا،اُس کو خودبھی پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھااور نا ہی اُس کی باتیں باہر والوں کی سمجھ آ رہی تھیں۔  اس نے جھولنے والی جو آزمائش کی تھی، اس کی بدولت کمرے کی الماری کی دراز تک رسائی ہو گئی تھی۔  اب وہ دروازے کے قریب جا کر اس کی کنڈی کھولنا چاہتا تھا جو اُس نے اندر سے لگائی ہوئی تھی۔  کوشش کرکے وہ صحیح کھڑا ہو گیا لیکن پھر اپنا وزن نہ سنبھال سکا اور قالین پر گر پڑا۔   کچھ دیر بعد اس نے کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی کرسی کا سہارا لیا، اٹھا، آہستہ آہستہ چلتا ہوا دروازے کے پاس گیا اور پھر گر پڑا۔  اس میں اب اٹھنے کی مزید ہمت نہ رہی۔ 

           

اس نے باہر ہونے والی گفتگوسنی تو مالک کہہ رہا تھا کہ اسے سو فیصد یقین تھاکہ گریگر کو کوئی سنگین مسئلہ تھا اور وہ ہم سب کو بے وقوف نہیں بنا رہا۔   اس کی  دروازہ نا کھولنے کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔

شاید وہ بیمار ہے،  اس کی ماں نے دوبارہ کہا۔

ہاں ماں یقیناً،  بہن نے دوسری سمت سے کہا۔ 

ایسا لگتا تھا کہ ماں اور بہن دروازے کے دونوں طرف کھڑی تھیں۔  اس دوران مالک نے انہیں آہستہ سے کہا کہ گریگر کی آواز جو وہ سن رہے تھے،وہ کوئی انسانی آواز نہیں لگتی تھی اور انہیں لاک سمتھ اور ڈاکٹر کو بلا لینا چاہئے۔


اس کاباپ تالیاں بجا بجا کر اسکیماں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔  وہ اسے بتا رہا تھا کہ باہر کے دروازے کو چوپٹ کھول دے۔  ایسا کام صرف اسی وقت ہوتا تھا جب گھر پر ایمر جنسی ہو۔  اس وقت باہر کا دروازہ کھول کر کھلاہی رہنے دیا جاتا تھا۔

           

گریگر کو یکدم محسوس ہوا کہ اس کی طبیعت سنبھلنے اور آواز میں بہتری آ نے لگی تھی۔  اسے لگا کہ وہ اب ٹھہر ٹھہر کر صاف آواز میں بول سکتا تھا۔  نہ جانے باہر کے لوگ اس کی باتیں کیوں نہیں سمجھ پا رہے تھے؟  تاہم یہ جان کر اسے تسلی ہوئی کہ سب لوگ اس کی صحت کے بارے میں پریشان تھے۔   ان کی پریشانی سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اسے بے حد پیار کرتے تھے۔  اسے مزید فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر اورلاک سمتھ کو بیک وقت بلا لیاتھاجس سے وہ باہر نکل پائے گا۔  اس کے چاہنے والے اب سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے جو وہ سن نہیں پایا۔


اُس نے کرسی کو اپنے کمرے کے دروازے کے ساتھ لگا دیا اور اسے پکڑ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔  اس کے پاؤں قالین سے چپک رہے تھے۔  اس نے کرسی کو پکڑ کر توازن قائم کیا پھر اس نے کمرے کی چاپی کو اپنے منہ میں پکڑا اور اسے تالے کے سوراخ میں ڈالا اور اسے کھولنے کے لئے گھمایا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے دانت کا سائز ایک تو چھوٹا تھا اور دوسرا اس کے منہ میں دانتوں کی تعداد کم بھی تھی۔  اس کوشش سے اس کے ہونٹ اور دانت زخمی ہو گئے اور ان سے خون رسنے لگا۔  اس کی اس کوشش کا باہر والوں کو بھی کچھ اندازہ ہوا۔  تالہ میں چابی ڈالنے اور اسے کھولنے کی آواز انہوں نے پہچان لی اور چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں کہ ایسا لگتا تھا کہ اب اس نے چابی تالے میں ڈال کر گھمائی تھی۔  گریگر یہ بات سن کر خوش ہوا کہ لوگ اس کی طرف پوری طرح متوجہ تھے اور اس کی معمولی سے معمولی حرکت کو بھی محسوس کرکے تبصرہ کر رہے تھے۔  اس نے مالک کو یہ کہتے سنا کہ چونکہ وہ کوشش کر رہا تھااس لئے وہ تالے کو کھول پائے گا۔  یہ بات گریگرکے لئے خوش کن تھی۔  انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی شروع کر دی۔   صحیح۔۔بالکل صحیح کوشش کرو۔  تم دروازہ کھول سکتے ہو۔  چابی کو پکڑو۔  اس پر اس نے اپنے جبڑے کو زور سے چابی کے ساتھ لگا کر تالے میں گھمایا۔ اس سے اس کا جبڑہ زخمی ہو گیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور جبڑے، منہ اور چہرے کے دباؤ سے چابی تالے میں گھمانے میں کامیاب ہو گیا اورتالہ کھل گیا۔  وہ اس سے خوش ہوا اور دل میں کہا کہ اب تالہ کھولنے والے کو بلانے کی ضرورت نہیں رہی۔  اس نے اپنے سر کی مدد سے ہینڈل کھول دیا۔  دراوزے کے دوپٹ تھے۔  ایک پٹ کی اوٹ میں ہو کر دوسرا پٹ آہستہ آہستہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا تا کہ وہ گر نہ جائے۔  جوں ہی دروزہ کھلا تو باہر کھڑے مالک نے زور سے ’اوہ‘ کہہ کر ہاتھ اپنی رانوں پر مارے اور پھر پریشانی میں انہیں اپنے منہ پر رکھ لیا۔  ماں نے دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور فرش پر گر پڑی۔  بہن نے چیخ ماری اور والد نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ لیں اور اس کے چہرے پر درد ناک تاثرات ابھرے۔  ایسا لگتا تھا کہ وہ گریگر کو دوبارہ کمرے میں دھکیلنا چاہ رہا ہو۔  اپنے ہاتھ سے اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ادھر ادھر دوڑنے لگا۔

           

گریگر نے گردن باہر نکالی، دیکھا کہ میز پراس کے لئے پر تکلف ناشتہ چنا ہواتھاکیونکہ گھر والے اسے اہم شمار کرتے تھے۔  اس نے سوچا کہ نہا دھو کر ناشتہ کرکے ابھی ڈیوٹی پر چلا جائے گا کیونکہ اس نے اپنی خانگی ذمہ داریاں بھی تو پوری کرناتھیں، ان کے نان نفقہ کا بندوبست بھی کرنا تھا۔  اسے یقین تھا کہ اس کی  مصیبتیں عارضی تھیں اور وہ اس سے جلد ہی چھٹکارا حاصل کر لے گا۔  جبکہ مالک کی سوچ اسسے مختلف تھی کیونکہ کہ اس کا ہاتھ دینے والا تھااور اس کا لینے والا۔  مالک  اس پر بلا شبہ شک کرتا تھا۔  اس کی کارکردگی کو سراہتا نہیں تھا۔  جب اسکی شکایت آتی اور مالک اُس سے باز پرسی کرتا تو اسے تو یاد بھی نہیں ہوتا تھا کہ کس بات کی جواب طلبی کی جا رہی ہوتی تھی۔  اُس نے تو ہر روز نئی جگہ جانا ہوتا تھا سو جس واقعے کی جواب دہی کی جاتی تو وہ مہینہ بھر پہلے کا ہوتااور وہ اسے  بھول بھی چکا ہوتا تھا۔  اندازوں سے بات ہی کر سکتا تھا جسے مالک رد کر دیتا۔  بہر حال اُس نے سوچا  کہ اب اِس طرح سے کام نہیں چلے گااور اسیکھل کر اپنے معاملات کو اپنے مالک کے سامنے بیان کرنا ہو گا۔

           

گریگر نے جوں ہی گفتگو کا آغاز کیا،  اُس کے بے معنی اور بے ہنگم طور پر ادا کئے گئے پہلے ہی لفظ پر مالک کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔  وہ اُس کی طرف ایسے گھور رہا تھا جیسے کہ گریگر بھوت ہو۔   وہ آہستہ آہستہ اس سے پیچھے ہٹنے لگا اور ہال کے دروازے کی طرف سرکنے لگا۔  اُس نے اپنی نظریں گریگر سے نہ ہٹائیں اور ہال کے دروزے پر جا کر بھاگ کر باہر نکل گیا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔  گریگر نے سوچا کہ اسے ہر صورت اپنی مشکلات کو مالک کے سامنے بیان کردینا چاہئے ورنہ اس پر پڑا ہوا برا اثر زائل نہیں کر پائے گا اس لئے وہ کمرے سے باہر آیااور احمقانہ انداز میں تیزی سے مالک کی طرف بڑھا اور بولنے کی کوشش کی۔  جوں ہی اس نے قدم اٹھایا وہ فرش پر اس طرح گرا کہ اس کی ٹانگیں ہوا میں معلق تھیں۔  اسے بے حد درد محسوس ہوا۔  اس کی ماں نے ’یا خدا رحم‘ کرکہا۔  تکلیف سے وہ اپنی ٹانگیں ہوا میں سائیکل چلانے کی طرح تیز تیز ہلا رہا تھا۔  ان لمحات میں اس کے ذہن سے مالک کا خیال نکل گیا۔  مالک جو سیڑھیوں میں تھا،نے مڑ کر دیکھا اور نیچے اتر گیا۔

           

اس دوران باپ تمام واقعہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔  اس نے کوئی مداخلت نہ کی۔  مالک اوور کوٹ، ہیٹ اور اپنی چھتری وہیں بھول گیا تھا۔  اس نے اپنے دائیں ہاتھ میں چھڑی پکڑی اور اسے لہرا کر گریگر کو کمرے میں جانے کو کہا۔  گریگر نے جس خلوص کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرکے دوسروں کی رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی تھی، وہ کار گر نہ ہوئی۔  اس کے باپ نے چھڑی سے اسے جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے اُس کے کمرے میں دھکیل دیا۔  باہر سے کمرہ بند کر دیا اورا ب وہ تن تنہا کمرے میں رہ گیا۔  رفتہ رفتہ اسے نیند آ گئی۔  جب وہ جاگا تو اس نے اخذ کر لیا کہ وہ اب پہلے کی طرح صحیح ہو گیا ہے لیکن جب اس نے بیٹھنے کی کوشش کی تو اس کی ٹانگ کے زخم اور دیگر جسم میں شدید درد کی لہر اٹھی۔  اسے میز پر کھانے کی خوشبو نے مست کر دیا۔  دودھ اور ڈبل روٹی اس کا مرغوب ناشتہ تھا۔  اس نے اِس بات پر فخر محسوس کیا کہ وہ کتنا ذمہ دار بیٹا ہے کہ اس کی بدولت اس کا خاندان ایک بہترین اپارٹمنٹ میں آرام دہ زندگی گزار رہا ہے۔  اسے شدید بھوک تھی لیکن وہ بے بس تھااور خود سے اسے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔  وہ دروزے کھلنے اور بند ہونے اور قدموں کی چاپ سن رہا تھا لیکن کوئی اس کے کمرے میں نہیں آ رہا تھا۔  خیر کوئی بات نہیں، اس کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ اپنے معاملات کے بارے میں سوچ سکے۔   وہ نیم بے ہوش تھا۔  اس نے سوچا کہ اگر وہ صوفے کے نیچے جا کر آرام کرے تو وہ زیادہ بہتر انداز میں سوچ سکتا تھا۔  وہ اپنی تکلیف کی پرواہ کئے بغیر صوفے کے نیچے گھس گیا لیکن موٹا ہونے کی وجہ سے پورے کا پورا صوفے کے نیچے نہیں جا سکا اور  رات بھر وہیں پڑا رہا۔

           

صبح کے وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کی بہن نے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔  پہلے پہل تو گریگر اسے نظر نہ آیا۔  ادھر ادھر نظریں گھمانے پر اس نے صوفے کے نیچے گھسے ہوئے دھڑ کو دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وہ دراوزہ بند کرکے واپس چلی گئی۔  گریگر نے سوچا کہ کیا اسے پتہ نہیں تھا کہ وہ بھوکا تھا۔   وہ اس کے کھانے کے لئے کچھ نہیں لائی تھی۔  اس کا یہ خدشہ دور ہو گیا جب تھوڑی دیر بعد وہ اخبار کے اوپر رکھ کر اس کی پسندیدہ خوراک لے آئی۔  وہ بچی ہوئی سبزیاں، ران پر چٹنی، کچھ بادام، کشمش، پنیر اور ڈبل روٹی پر مکھن لگا ہوا لائی تھی۔  اس کی بہن نے اسے کھانا دکھایا، کہا کہ وہ اسے میزپر رکھ رہی ہے، آ کر کھا لے اور وہ چلی گئی۔  اس نے سوچا ہو گا کہ وہ ان کی موجودگی میں کھانا نہیں کھائے گا۔  وہ تکلیف کے باوجود آہستہ آہستہ اپنا جسم گھسیٹتا ہوا کھانے کے پاس لے گیا۔  سب سے پہلے وہ پنیر پھر سبزیوں، چٹنی اور پھر دوسری چیزوں پرٹوٹ پڑا۔  وہ چیزیں جو اس کی بہن نے تازہ بنائی تھیں اسے اچھی نہیں لگیں۔  کھانے کے بعد وہ واپس پھر سے صوفے کے نیچے گھس گیا لیکن اب اسے راحت محسوس نہیں ہو رہی تھی کیونکہ کھانے سے اس کا پیٹ پھول گیا تھا۔  اتنے میں اس نے قدموں کی چاپ سنی، دروازہ کھلا، اس کی بہن جھاڑو لے کر آئی، اس کی طرف بغیر دیکھے کمرے کی صفائی شروع کر دی اور گندگی سمیٹ کر چلی گئی۔

 بہن خاندان کے دیگر اراکین کی طرح اسے ناشتہ اور دیگر خوراک مہیا کرتی تھی۔  فرق یہ تھا کہ پہلے دیگر افراد کھاتے  اوربعد میں کھانا اسے دیا جاتا۔  وہ دوسروں کے سامنے کھانا نہیں کھا سکتا تھا شاید اس لئے ایسا کیا جاتا تھا۔  روزانہ اس کی بہن صبح کے وقت کمرہ کھولتی۔  اسے دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتی۔  اس کے لئے دعا کرتی اور صفائی کرکے چلی جاتی۔  باہر جا کر تبصرہ کرتی کہ وہ کس حالت میں تھا۔  کیا اس نے پورا کھانا ختم کر لیا تھا یا کھانا کم کر دیا تھا۔  وہ دروازے سے کان لگا کر خاندان کی گفتگو سنتا۔   پہلے کچھ دن تو اس کی بگڑی ہوئی حالت کے بارے میں کوئی گفتگو نہ کی گئی پھر اس کی بیماری سے متعلق باتیں ہونے لگیں کہ اُس کا کیا کیا جائے؟   اس حالت میں گھر میں اسے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔  کم از کم اس کے علاوہ ایک شخص ضرور گھر میں رہنے لگا۔  اس کی بہن خادمہ کے ساتھ مل کر کھانا پکاتی تھی۔  رفتہ رفتہ گریگر نے محسوس کیا کہ کھانے کی مقدار اور لوازمات روز بروز کم ہوتے جا رہے تھے۔  اسے گورنمنٹ کی طرف سے کھانے کے لئے چند دنوں کے لیے جو ووچر فراہم کئے گئے تھے، وہ ختم ہو گئے تھے اور ان کے پاس وسائل نہیں تھے کہ خوراک حاصل کرسکیں۔  ان کو روٹی کے لالے پڑ گئے تھے۔

           

دوسری طرف گریگر کو یہ یقین تھا کہ اس کی بیماری عارضی ہے۔  وہ جلد ہی تند رست  ہو کر اپنی بہن کو اس کی موسیقی کا شوق پورا کرنے میں پوری طرح مدد دے گا۔  مہنگائی کے باوجود اسے پرفارمنگ آرٹس کے سکول میں ضرور پیشہ ورانہ تعلیم دلوائے گا جو کہ حقیقت کے بر عکس تھا۔  وہ دروازے سے کان لگا کر تمام باتیں سنتا۔   بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ دیر تک کان لگانے سے اس کا سر دروازے سے ٹکرا جاتا تو اس کا باپ کہتا کہ اب یہ کیا کر رہا تھا؟  اس کا باپ حالات سے شدید پریشان ہو چکا تھاکیونکہ اسکی مالی حالتنہایت مخدوش ہو گئی تھی جو  گھر کا خرچہ چلانے کے لئے قطعی نا کافی تھی۔  اس کی ماں بھی کام کرنے سے قاصر تھی۔  ایک تو ریٹائرڈ اور دوسرا اسے دمے کی شکایت تھی ا ورچند قدم چلنے کے بعد اس کا سانس پھول جاتا تھا۔  والد نے بھی پچھلے پانچ سال سے کوئی باقاعدہ کام نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے  اس کی سترہ سالہ بہن نے مجبوراً گھریلو ذمہ داری سنبھال لی تھی۔

           

گریگر کم و بیش رات بھر لیٹا رہتا۔  نیند اس کی آنکھوں سے غائب ہو گئی تھی۔  وہ صوفے کیچمڑے  کو انگلیوں سے کھرچتا رہتا یا پھر کرسی گھسیٹ کر کھڑکی کے قریب لاتا اور باہر دیکھنے لگتا۔  اس کی بصارت روز برو ز کمزور ہونا شروع ہو گئی تھی۔  اب وہ باہر دیکھتا تھا تو اس کو اشیاء دھندلی نظر آتی تھیں۔  اس کی بہن دن میں دوبار اس کا جائزہ لیتی تھی۔  ایک صبح صفائی کے وقت ناشتہ رکھ کر جاتی اور دوسرا رات کو کمرے کی چیزیں درست کرتی اور کھانا رکھ کے چلی جاتی۔  کرسی کھڑکی کے پاس نہ دیکھتی تو وہ اسے دوبارہ کھڑکی کے پاس رکھ دیتی اور کھڑکی کے پٹ کھلے رہنے دیتی۔  جب بھی وہ کمرے میں آتی تو ایسا لگتا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہولیکن وہ اس سے کوئی بات نہ کرتی تھی۔


اس کیفیت کے ایک ماہ بعد اسکی بیماری مزید بگڑ گئی۔  اس کی بہن نے جب اسے دیکھا تو اس کی دگرگوں حالت دیکھ کر چیخ مار کر واپس بھاگ گئی۔  گریگر کو اس کا خوف پسند نہ آیا تو اس نے سوچا کہ وہ اپنی بظاہری حالت تبدیل کر لے تو وہ ڈرنا چھوڑ دے گی۔  اس لئے گریگر نے کوشش سے صوفے کی چادر کو اتارا اور اپنے اوپر اوڑھ لی تا کہ اس کا جسم اور گندے کپڑے اس کی بہن کو نظر نہ آئیں اور اس کی بہن اس سے کراہت محسوس نہ کرے۔  اس کی بہن رات کو جب کمرے میں آئی تو اس کو چادر اوڑھے دیکھا۔  اس نے آہستہ سے اس کے چہرے سے چادر ہٹائی اور جب اسے محسوس ہوا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں تو پھر سے چادر اس کے منہ پر ڈال دی اور واپس چلی گئی۔         

           

اب خاندان کا رویہ یہ ہو گیا تھا کہ وہ گریگر کے بارے میں یہ باتیں کرتے کہ اس نے کیا کھایا پیا، کیا چھوڑا،وہ کمرے میں کہا ں تھا، پہلے سے بہتر یا خراب تھا اور اس روزاس کی ہیئت میں کوئی خاص تبدیلی رونما ہوئی ہے۔  ماں چاہتی تھی کہ وہ کمرے میں آ کراسکی حالت دیکھے لیکن ناگفتہ بہ حالت کے تحت باپ اور بہن اسے منع کر دیتے۔  وہ اسکے بارے میں سوچ کر روتی رہتی تھی۔  ڈیڑھ ماہ کے بعد انہوں نے والدہ کو اسے دیکھنے کی اجازت دے دی۔ گریگر کی بھوک کم ہو گئی تھی اور وہ ہر وقت چھت پر لگے جالوں کو دیکھتا رہتا تھا۔  اس کو کمرے میں حرکت کرنے میں دشواری ہونے لگی۔  اس کی بہن نے سوچا کہ اس کے کمرے سے ایسی تمام چیزیں ہٹا دیں جو رکاوٹ پیدا کرتی تھیں تو اسکے لئے سہولت ہو جائے۔اسکی بہن ماں کا ہاتھ پکڑ کر اس کے کمرے میں لائی۔  اس کی ماں جوش و ولولہ اور خوشی سے اس کے کمرے میں آئی لیکن گریگر کی حالت دیکھ کر اس کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔  گریگر نے اپنی ماں کو دیکھ کر کوئی ردِ عمل پیش نہ کیا لیکن وہ اندر سے اس بات پر خوش تھا کہ بالآخر اس کی ماں اسے دیکھنے کے لئے آ گئی تھی۔  میز رستے میں حائل تھا اس لئے اس کی بہن، ان کی نوکرانی اور ماں نے مل کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کی۔  اس نے میز گھسیٹتے ہوئے سنا اور اس کی بہن اس میں زیادہ زور لگا رہی تھی۔  وہ اپنی ماں کے کڑھنے وغیرہ پر دھیان نہیں دے رہی تھی کیونکہ وہ اس بات سے خائف تھی کہ کہیں اسے کھینچنے سے اس کے پٹھے اکڑ نہ جائیں۔  وہ کہہ رہی تھی کہ میز بہت بھاری ہے، اس کو وہیں پڑا رہنے دیا جائے جہاں پہلے تھا اور ہلایا نہ جائے ورنہ یہگریگر کا راستہ روکے گا۔  یہمیز ایسے ہی رہنا دیا جائے اور والد کے آنے پر اس کی مدد سے ہی کمرے سے باہر نکالا جا ئے۔  وہ یہ دلیل  دے رہی تھی کہ اگر کمرہ بالکل خالی ہو جائے گا تو دیواریں گریگر کو کاٹ کھائیں گی۔  وہ اس کمرے میں مدت سے رہ رہا تھا اور اس میں موجود ہر شئے سے مانوس تھا۔  کمرے کی ہیئت میں تبدیلی سے وہ مطابقت نہیں کر پائے گا اور اس کی طبیعت مزیدبگڑ جائے گی۔  اگرچہ وہ یہ تمام باتیں سرگوشی میں کر رہی تھیں تا کہ گریگر کو معلوم نہ ہو کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں  لیکن وہ یہ باتیں سن سکتا تھا۔  ماں کہہ رہی تھی کہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ گریگر یہ دیکھ کر مایوس ہو کہ اس کے عزیز و اقارب اس کی صحت کی بازیابی سے مایوس ہوچکے تھے اور اس کی بیماری کو لاعلاج سمجھ رہے تھے اس لئے کمرے کی ترتیب نہ بدلی جائے اس لئے میز کو وہیں پڑے رہنے دیا جائے جہاں وہ پہلے تھا تو وہ اسے اصلی حالت میں دیکھ کر مطمئن رہے گا۔         

 

گریگر اس حالت میں پچھلے دو مہینوں سے تھا۔  اس کی زندگی یکسانیت کا شکار ہو گئی تھی۔  اس کا خاندان کے ساتھ بہت کم تعلق رہا تھا۔  کسی کے ساتھ کوئی گفتگو نہیں تھی اورکسی سے کوئی ملاقات نہیں تھی۔  دراصل اس وقت وہ یہ چاہ رہا تھا کہ اگر کمرے کو خالی کر دیا جائے تو اسے زیادہ خوشی ملے گی کیونکہ وہ اسطرح  زیادہ  آسانی سے حرکت کر سکتا تھا اور جس سمت میں بھی چاہے، وہ آزادانہ رینگ سکتا تھا۔  اس کے علاوہ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ سامان نکالنے سے اس کے ساتھ جو یادیں وابستہ تھیں وہ ختم ہو جائینگی اور وہ ماضی بالکل بھول جائے گا۔  اگرچہوہ کافی کچھ بھول چکا تھا لیکن آج جب اس نے اپنی ماں کی آواز سنی تو اسے اپنی ماں پر بڑا پیار آیا جسکی آوازاس نے  دو ماہ بعد سنی تھی۔ 

 

اس کی بہن کا خیال اپنی ماں سے مختلف تھا چونکہ پچھلے دو ماہ سے گریگر کی خوراک وغیرہ کا خیال صرف وہی رکھ رہی تھی، وہ اس بات کو تمام خاندان سے بہتر طریقے سے جانتی تھی اور گریگر کی مشکلات سمجھنے میں ماہر تھی اس لئے وہ چاہتی تھی کہ اس کے مشورے کو دیگر لوگوں پر فوقیت دینی چاہئے۔  اِس پر اُس نے فیصلہ کیا کہصوفہ اورکرسی کے علاوہ باقی تمام فرنیچر اس کے کمرے سے نکال دیا جائے تاکہ اس کے رینگنے کے لئے زیادہ جگہ مل سکے۔  وہ دیوار کے ساتھ پڑے ہوئے چسٹرکو گھسیٹ کر باہر نکالنے لگیں تو انہوں نے گریگر کو  صوفے کے نیچے پڑے ہوئے دیکھا۔  کئی مہینوں کی غلاظت اور بیماری سے اس کی شکل کافی بگڑی گئی تھی جس کو دیکھ کر وحشت طاری ہو جاتی تھی۔  اس کی ماں نے بیماری سے لے کر اب تک جب  اس نے گریگر کی بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو وہ ڈر گئیلیکن پھر بھی اسے دیکھتی رہی۔  اس کے چہرے پر رحم کے آثار پیدا ہو گئے اور وہ اپنی بیٹی کی طرف چلی گئی اور کمرے کا باقی سامان باہر نکال دیا۔

 

گریگر خالی کمرے کو دیکھ کر خوش بھی ہوا اور غمگین بھی۔  خوش اس لئے کہ اسے احساس ہو ا کہ ماں اور بہن اس سے محبت کرتے تھے  اور انہوں نے گریگر کی بہتری کی خاطر کمرہ خالی کرکے اس کے لئے وافر جگہ مہیا کر دی تا کہ وہ ہر طرف آسانی سے آجا سکے۔  غمگین اس لئے کہ اسکا اپنے خاندان سے اس طرح فاصلہ مزید بڑھ جائے گا اور وہ اس سے اب کبھی کبھار ہی رابطہ کریں گے۔  اسے اس بات کا غم بھی ہوا کہ اس کی تمام اشیاء دھیرے دھیرے اس سے چھینی جا رہی تھیں۔  اب اس کے کمرے میں صوفہ رہ گیا تھا یا دیوار پر تصاویر لٹکی ہوئی تھیں جن میں ایک تصویر وہ بھی تھی جو اسکی بہترین کاکردگی پر کھینچی گئی تھی۔  وہ صوفے پر کھڑے ہو کر اس تصویر کو دیکھ رہا تھا۔  اس کی ماں اور بہن جب کمرے میں آئیں اور اسے صوفے پر کھڑے دیکھا تو ڈر گئیں کہ کہیں وہ ان پر چھلانگ نہ لگا دے  اس لئے وہ باہر بھاگ گئیں۔  تیزی سے بھاگنے کی وجہ سے اس کی ماں کو کہیں دمے کا دورہ نہ پڑ جائے تو اس کی بہن میز پر پڑی ہوئی شیشیوں میں سے موزوں دوا ڈھونڈنے لگی تا کہ اسے فوری طور پردے کر اس کی سانسک کواکھڑ نے سے بچاسکے۔  گریگر دھیرے دھیرے رینگتا ہوا اس کی طرف بڑھنے لگا تا کہ اس کو مشورہ دے سکے کہ کون سی دوائی مؤثر ہو سکتی تھی لیکن جب اس کی بہن نے اسے اپنی طرف تیزی سے آتے ہوئے دیکھا تو ڈر کر بھاگ گئی۔  اس دوران دوائی کی شیشیاں زمین پر گر گئیں اور ایک ٹوٹ گئی جسکے چھینٹے گریگر کے چہر ے پر پڑے۔

 

اس کی بہن نے تمام شیشیاں فرش سے اٹھائیں اور اپنی ماں کے پاس لے گئی۔  اپنے پاؤں سے گریگر کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا جس سے اس کا اور اس کی ماں کا رابطہ منقطع ہو گیالیکن اس کی بہن ایسی سراسیمگی میں بھاگی تھی کہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں وہ خوف سے مر نہ جائے۔  اپنی بہن کے اِس رویہ سے اسے اپنی بہن پر افسوس ہوا کہ اس نے ضرورت سے زیادہ رد عمل دکھایا تھا۔  وہ اتنا برا تو نہیں تھا جتنا اس کی بہن نے سمجھا تھا۔  اسکی اس بات نے اس میں پریشانی پیدا کر دی اور وہ اضطرابی حالت کم کرنے کے لئے تمام کمرے میں ہرطرف رینگنے لگا۔  اسے ایسا لگا کہ دیوار،صوفہہ، کرسی اور کمرے کا قالین تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔  جب وہ تھک گیا تو وہ صوفے کے پاس جا کر گر پڑا اور بے سکت ہو گیا۔                 

           

چند لمحے گزر گئے۔  وہ اپنی نقاہت میں لیٹا رہا۔  اس میں اٹھنے اور حرکت کرنے کی بھی سکت باقی نہ رہی تھی کہ گھر کی گھنٹی بجی۔  اس کی بہن نے دروازہ کھولا تو باہر اس کا باپ تھا۔  بہن نے باپ سے دھیمے اور خوفزدہ لہجے میں بتایا کہ گریگر اس پر اور ماں پر حملہ کرکے انہیں زخمی کرنیلگا تھااور انہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔  ماں تقریباً بے ہوش تھی لیکن رفتہ رفتہ صحیح ہو رہی تھی۔ 

باپ بولا،   وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ 

           

اپنے والد اور بہن کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے گریگربے تاب ہو گیا اور چاہاکہ وہ باپ کو حقیقت سے آگاہ کرے کہ ایسا کچھ نہیں تھااس لئے اُس نے تمام تر توجہ اپنے کمرے کے دروازے کی طرف کر دی تا کہ جوں ہی اس کا باپ اس کے کمرے میں آئے، وہ فوراً اپنی بے گناہی ثابت کرے۔  اسے یقین تھا کہ اس کا باپ اس کے پاس ضرور آ کر اس سے وضاحت طلب کرے گالیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ بیٹی کی شکایت سن کر وہ شدید طیش میں آ گیا اور گریگر کو چھڑی سے مارنے کے لئے لپکا۔  اپنے باپ کے تیور دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔  اس نے سوچا کہ یہ وہ باپ نہیں ہے جو اسے پیار کیا کرتا تھا اوراسے دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔  شام کو واپس آنے پر لمبا ڈریسنگ گاؤن پہنے آرام دہ کر سی پر بیٹھ کر خوش آمدید کہا کرتا اور دیر تک اُس سے باتیں کیا کرتا تھا۔  یہ وہ باپ نہیں تھا جو تفریح میں اس کے ساتھ جایا کرتا تھا تو اپنی چلنے والی چھڑی کے ساتھ آہستہ آہستہ گریگر، بہن اور اس کی والدہ کے درمیان چلا یا کرتا تھا۔  اوور کوٹ پر اپنی گردن کے ارد گرد سردی سے بچنے کے لئے مفلر لپیٹا ہوتا تھا۔  جب کوئی بات کرنا ہوتی تو بالکل ساکن ہو کر بات کرتا تھااور بات ختم ہونے کے بعد پھر چل پڑتا تھا۔

           

آج وہ بہن کی باتیں سن کر شدید غصے میں آ گیا تھااس لئے اس نے گریگر کو اپنی چھڑی سے مارنے کی کوشش کی تووہ اٹھا اور بھاگ کر وار بچا گیا۔  اس کے بعد والد نے میز پر پڑے ہوئے سیب اٹھائے اوور کوٹ کی جیبیں اس سے بھر لیں اور ایک ایک کرکے اسے مارنے لگا۔  وہ ان کے وار سے بچنے کے لئے آگے کی طرف بھاگنے لگا۔  جب والد بھاگتا تو گریگر بھی بھاگتا، جب والد رکتا تو وہ بھی رک جاتا اور خوفزدہ ہو کر باپ کی طرف دیکھتا۔  نہ تو والد میں بھاگنے کی ہمت تھی اور نہ ہی گریگر میں۔  دونوں تھک کر چور ہو چکے تھے۔  گریگر تیز تیز سانسیں لینے لگا اور لڑکھڑا کر چلنے لگا۔  اس کی آنکھیں نقاہت سے تقریباً بند ہو گئیں تھیں لیکن مار سے بچنے کے لئے اسے ہر صورت حرکت کرنی تھی۔  وہ یہ بھول چکا تھا کہ اس کے کمرے کی دیواریں جو تکونی تھیں، میں چھپ کر اس کی بچت ہو سکتی تھی۔  ایک گول گول سی چیز اس کے پاس آ کر گری۔  اس کا باپ اب نشانہ باندھ کر کھڑا ہی اس پر سیب پھینک رہا تھا۔  اس نے دیکھا  کہ اس کے فوراً بعد دوسرا سیب بھی آیا۔  گریگر کو اب زیادہ خطرہ محسوس ہوا اور وہ رک گیا۔  اب بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اس کے باپ نے اب ضد پکڑلی تھی کہ اسے سزا دینا ہی تھی۔  اس کا باپ ایک ایک کرکے سیب پھینک رہا تھا۔  اس کا نشانہ اچھا نہیں تھا اس لئے سیب ادھر ادھر گر رہے تھے۔  گریگر پیچھے مڑ کر بلا مقصد دیکھتا۔  ایک بار اس کے باپ نے سیب پھینکا تو وہ عین اس جگہ پر لگا جو پہلے ہی بہت زیادہ زخمی تھی۔  ایک اور سیب دوسرے زخم پر لگا۔  اس سے وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا اور زمین پر پیٹ کے بل گر پڑا۔  عین اسی وقت اس کی ماں چیختی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔  بھاگ کر اپنے خاوند کے گلے لگ گئی اور اسے کہا کہ یہ تشدد بند کر دے۔  اس کے بیٹے پر مزید ظلم نہ کرے۔

 

گریگر کے زخم جو کہ اس کے باپ نے سیب مار مار کر زیادہ گہرے کر دیئے تھے، نے اس کی بیماری میں اضافہ کر دیا اور اس کی حالت مزید خراب ہو گئی۔  اب وہ کھڑکی تک بھی نہیں جا سکتا تھا۔  لیکن اس کے والدین نے اتنا رحم کیا کہ اس کے کمرے کا دروزہ کھول دیا گیا۔  وہ اپنے تاریک کمرے میں میز پر بیٹھے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا۔

 

یہ حقیقت تھی کہ ان کے مابین گفتگو میں ماضی والا جوش نہیں تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ براہ راست رابطہ تھا۔  وہ اس نئے دور کو بڑے صدمے سے یا د کیا کرتا تھا۔  اسے ماضی کی تمام باتیں اچھی طرح یاد تھیں کہ ماضی میں اس گھر میں اس کی کس قدر اہمیت تھی لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔  پہلے کی طرح اس کا والد اب بھی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اونگھتا تھا۔  ماں اور بہن اس کے پاس بیٹھی کروشیے سے کام کر رہی ہوتی تھی۔  بہن کمپیوٹر اور فرانسیسی زبان میں عبور حاصل کر رہی تھی تا کہ اسے معقول ملازمت مل سکے۔  آج کل وہ سیلز پرسن کی نوکری کرتی تھی۔  اونگھتے اونگھتے اس کا والد بیدار ہوتا اور خواتین کو کہتا کہ وہ کیا کر رہی ہیں؟  وقت ضائع کر رہی ہیں لیکن ان کا جواب سنے بغیر پھر اونگھنے لگتا۔  وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر پھیکی مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتیں اور پھر ہنسنے لگتیں۔  والد اب بھی یونیفارم میں ہوتا تھا۔  اس کا ڈریسنگ گاؤن کھونٹی پر لٹکا رہتا تھا۔  اس کے یونیفارم پر جگہ جگہ چکنائی کے نشانات پڑے ہوئے تھے لیکن جیکٹ کے سنہرے بٹن ہمیشہ چمک رہے ہوتے تھے۔  جب رات کے دس بجتے تو وہ اسے زبردستی اٹھا کر سونے کے لئے اس کے کمرے میں لے جاتی تھیں۔  وہ اٹھتے ہوئے ہمیشہ یہ فقرہ کہتا کہ یہ کیا زندگی ہے؟   وہ کمرے میں جا کر سو جاتا۔  خواتین کام بند کرکے اپنے اپنے کمرے میں چلی جاتی تھیں۔  مصیبت کے اِس دور میں گریگر پر اتنی ہی توجہ دی جاسکتی تھی جتنی اس کے لئے بہت ضروری ہوتی تھی۔  مالی حالات دگر گوں ہونے کی وجہ سے جزوی نوکرانی کا خرچہ برداشت سے باہر تھاچنانچہ اسے نکال دیا گیا اور اس کی جگہ ایک بوڑھی عورت کو رکھ لیا گیا جو پہلی سے آدھی تنخواہ پر کام کرنے کوتیار تھی۔  اس نوکرانی کی تنخواہ ادا کرنے کے لئے ماں اور بہن نے وہ زیورات بیچ دیئے جو انہوں نے مختلف تقریبات پر پہننے کے لئے خریدے ہوئے تھے۔  اِس بات کا اندازہ گریگر کو اس وقت ہوا جب ڈائننگ روم میں وہ زیورات خریدنے کی قیمت اور بیچنے کی قیمت کا موازنہ کر رہی تھیں۔  وہ اپارٹمنٹ کو خالی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ گریگر کی بیماری کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے تھے۔  گریگر کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جانا ان کے لئے ناممکن تھا۔  اس معاملے پر خاندان نے بحث بھی کی تھی لیکن اس کی بہن اس بات سے ڈر رہی تھی کہ منتقلی میں اس کی موت بھی واقع ہو سکتی تھی جبکہ گریگر ایسا نہیں سمجھتا تھا۔  وہ اپنی بہن کو رائے دینا چاہتا تھا جیسے وہ اپنی بیماری سے پہلے دیا کرتا تھا کہ ایک بڑے سے صندوق میں اسے بند کرکے، صندوق میں سانس لینے کے لئے دائیں بائیں سوراخ کردیئے جائیں اور اس کو لے جایا جائے تو وہ آسانی سے منتقل کیا جا سکتا تھا۔


اب اس کے باپ نے بنک کے جزو وقتی ڈاکئے کی نوکری کے ساتھ شام کو بوڑھوں کو کھانا تقسیم کرنے کی نوکری بھی کر لی تھی۔  ماں نے سویٹر اور انڈروئیر بننے شروع کر دیے تھے۔  اس سے بھی آمدن میں معمولی سا اضافہ ہو گیا تھا جبکہ اس کی بہن سیلز گرل بن گئی تھی جو گھر گھر جا کر گاہکوں کو اشیاء بیچتی تھی۔  ماں باپ بے حد لاغر تھے، ان میں اتنی توانائی نہیں تھی کہوہ زیادہ کام کر سکیں۔ گریگر کے زخم مندمل نہیں ہو پارہے تھے بلکہ وہ بگڑ رہے تھے۔  باپ کو سلانے کے بعد ماں اور بہن ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے لگ جاتی تھیں۔ 

           

گریگر کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔  وہ دن رات پریشانی سے سو نہیں پاتا تھا۔  یہ الگ بات ہے کہ اسے اب بھی یہ امید تھی کہ اگلی صبح وہ اٹھے گا تووہ پہلے کی طرح چاک و چوبندہو گا اور خاندان کے تمام مالی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔  اسے اپنی کمپنی کے ملازم، گاہک اور کمرشل مسافر یاد آتے تھے۔  اس دوران اس کو اپنے دفتر میں کام کرنے والی لڑکیاں بھی یاد آنے لگیں۔  خاس طور پر وہ خوبصورت لڑکی جو کمپنی کے سٹور میں خزانچی تھی۔  وہ اسے دیکھ کر مسکراتی تھی اور وہ اسے بے حد پسند کرتا تھا لیکن وہ کبھی ہمت نہ کر پایا کہ اپنے جذبات اس کے سامنے بیان کرسے۔  وہ لوگ بھی اسے یاد آنے لگے جو کہ اجنبی تھے۔  ان سے نہ کبھی زیادہ باتیں کی تھیں اور نہ ہی انہیں اہمیت دی تھی۔  عام واقعات اسے یاد آنے لگے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا، یہ صرف خیالات تک ہی محدود رہ سکتے تھے۔  وہ انہیں بے حد قیمتی یادوں کے روپ میں لے رہا تھا جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ اب اس کے خاندان نے اسے یکسر نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھااور اس کی خوراک پر توجہ دینا بند کر دیا تھا۔  جو کچھ بچا کھچا ہوتا بہن سرعت سے کام پر جانے سے پہلے اس کے سامنے پھینک دیتی۔  شام کو واپس آنے کے بعد بچے ہوئے کھانے کو اٹھا کر جھاڑو سے صفائی کرکے چلی جاتی تھی۔  بچی ہوئی خوراک کو اگلی صبح پھر اس کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔  دیواریں رو ز بروز گندی ہو رہی تھیں اور چھتوں پر جالے بننے لگے تھے۔  پہلے پہل کمرے کی گندگی کا احساس دلانے کے لئے گریگر اس جگہ بیٹھ جاتا جہاں زیادہ گندگی ہوتی، وہ ہفتوں تک اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتا رہتا کہ اس گندگی کو صاف کیا جائے لیکن اس کی تمام کاوشیں بے کار جاتیں۔

           

اس کے گھر والوں کو اب یہ احساس ہونے لگا تھا کہ گریگر کی بیماری اور گندگی کی وجہ سے تمام گھر میں جراثیم پھیل گئے تھے اور تمام گھر بیمار ہو رہا تھا۔  اس کی بہن کا خیال تھا کہ اس گھر میں صرف وہی ہے جو گریگر کا خیال رکھتی تھی۔  اس کے کمرے کی گندگی سے تنگ آ کر اس کی والدہ نے سوچا کہ اس کے کمرے کی اچھی طرح صفائی کی جائے۔  اس نے کمرہ دھویا۔  اس کے کمرے میں کئی بالٹیاں پانی کی پھینکیں لیکن گندگی اتنی زیادہ تھی کہ اس کے کمرے میں سیلن بہت ہو گئی جو گھر والوں کے لئے عموماً لیکن گریگر کے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ تھی۔  وہ احتجاجاً بے حس و حرکت، بے جان لیٹ گیا اور اپنی ٹانگیں ہوا میں پھیلا دیں۔  اس کی بہن نے اپنی ماں اور گریگر پر شدید غصہ دکھایااور کہا کہ ماں نے اس کا کام اور بڑھا دیا ہے۔  وہ غصے میں بولی کہ وہ سارا دن کام کرکے تھک جاتی تھی اور گریگر کا خیال رکھنے کی تمام تر ذمہ داری صرف اس پر تھی اور کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اس کی مدد کرے بلکہ وہ اسکا کام بڑھا دیتے تھے۔  اس کی ماں اپنی بیٹی کا رونا دھونا سن کر پریشان ہو گئی اور اسے دلاسے دینے لگی۔  اس کے باپ کو پتہ چلا کہ گریگر کے کمرے میں پانی ڈال کر اس کی بیوی نے مزید ابتری پیدا کر دی تھی تو اس نے اپنی بیوی کو ڈانٹا اور کہا کہ بیٹی ہی کیوں گریگر کی خدمت کرتی رہے۔  دوسروں کو بھی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔  اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ بوڑھی نوکرانی صبح شام اس کے کمرے میں جا کر اس کا خیال رکھے گی۔  جب یہ واقعہ ہوا تو اس کے کمرے کا دروازہ کھلا ہو ا تھا اس لئے اس نے تمام باتیں سن لیں۔ وہ سمجھا کہ یہ باتیں اسے جان بوجھ کر سنائی گئی تھیں اور یہ باتیں اسے بے عزت کرنے کے لئے کہی گئی تھیں۔

 

اب بڑھیا روز صبح شام اس کے کمرے کا چکر لگاتی۔  پہلے پہل اس نے گفتگو کرنے کی کوشش کی۔  جب گریگر کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو اس نے اس سے باتیں کرنا بند کر دیا۔  ایک دفعہ اس نے گریگر سے دوستانہ رویہ اپنایا تو وہ جوش سے اس کی طرف رینگنے لگاجسے دیکھ کر نوکرانی نے سمجھا کہ وہ اس پر حملہ کرنے آ رہا تھا۔  وہ تن کر کھڑی ہو  گئی،  پاس پڑی کرسی اٹھائی اور بولی کہ اگر اس نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو وہ کرسی اس کے سر پر مار دے گی۔  یہ سن کر گریگر ایک طرف مڑ گیا اور اس نے کرسی واپس رکھ دی۔

 

ایک دن اس نے محسوس کیا کہ نوکرانی نے اس کے کمرے میں تمام گھر کا ٹوٹا پھوٹا سامان رکھنا شروع کر دیا۔  اس کا کمرہ تمام بے کار اشیاء سے بھر دیا۔  اس نے سنا کہ  گھر کا ایک کمرہ تین آدمیوں کو کرایے پر دے دیا گیا تھا۔  وہ لوگ اپنا فرنیچر لے کر آئے تھے اس لئے فالتو فرنیچر اس کے کمرے میں ڈال دیا گیا تھا۔  اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لے کھانا پینا تقریباً بند کر دیا۔  منہ میں ایک نوالہ ڈالتا تقریباً ایک گھنٹہ تک منہ میں رکھتا اور پھر تھوک دیتا۔

 

اپنا گزارہ چلانے کے لئے والد نے تین کرایہ دار رکھ لئے تھے۔  اس نے ایک دن اتفاقیہ تین اجنبی اپنے گھر میں دیکھے۔  نوکرانی کا یہ معمول تھا کہ وہ اس کا کمرہ صبح بند کر دیتی اور رات کو کھول دیتی۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ نئے کرایہ دار ناشتہ اور دوپہر کا کھانا گھر آ کر کھاتے تھے۔  ڈائننگ روم اس کے کمرے سے ملحق تھا اس لئے اسے بند رکھنا پڑتا تھا۔  ایک دن نوکرانی اس کا کمرہ بند کرنا بھول گئی۔  دوپہر کے وقت تینوں کرایہ دار جنہوں نے داڑھیاں رکھی ہوئی تھیں، چاک و چوبند اور مضبوط جسم کے مالک تھے، کھانا کھانے کے لئے ڈائننگ روم میں آئے اور تینوں نے اپنے اپنے ٹفن کھولے۔  ماں تازہ بھنا ہوا گوشت اور بہن گرم آلو لے آئی۔  ان کی ڈشوں سے اشتہا انگیز خوشبو اس کے نتھنوں میں گھس کر اس کی بھوک لگا رہی تھی۔  ان میں اسے ایک شخص جو اُن کا باس لگتا تھا، ماں کی ڈش سے گوشت کو فورک سے کاٹ کر دیکھا کہ کیا وہ واقعی کھانے کے قابل تھا، جب اسے تسلی ہوئی تو اس نے دوسروں کو کہا کہ کھانا شروع کر دیں۔  انہوں نے جی بھر کر کھانا کھایا اور باتیں کرنے لگے۔  ا س نے دیکھا کہ وہ تینوں ان کرسیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے جن میں کبھی اس کا والد، والدہ اور وہ بیٹھ کر کھایا کرتے تھے۔  وقت وقت کی بات ہے اس نے سوچا۔

           

گریگر کا کمرہ سامان سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔  اس کے رینگنے کے لئے ذرا سی بھی جگہ نہیں بچی تھی۔  جب کبھی اس نے حرکت کرنا ہوتی وہ راستے میں آنے والی شے کو دھکیل دیتا لیکن اس مشق میں اس میں اتنی نقاہت ہو جاتی کہ بعد میں اسکو گھنٹوں آرام کرنا پڑتا۔


اس کی بیماری کی تمام مدت اس نے کبھی اپنی بہن کو وائلن اور پیانوپر پریکٹس کرتے ہوئے نہ دیکھا اور نہ ہی سنا تھا۔  اس دن جب کمرہ کھلا رہ گیا تھا اور کرایہ دار کھانا کھا کر باتیں کر رہے تھے تو انہوں نے وائلن کی آواز سنی۔  وہ فوراً اس طرف متوجہ ہو گئے۔  باپ نے سمجھا شاید وہ آواز ان کی آزادی میں خلل ڈال رہی تھی اس لئے اس نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کیاوہ اسے بند کروا دے تو انہوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ نہیں۔  وہ موسیقی سننا چاہتے تھے۔  کیا وہ اس موسیقار کو درخواست کر سکتے تھے کہ وہ  ڈائننگ روم میں آ کر وائلن بجائے۔  سامسا نے کہا یقینا۔  وہ کچن میں گیا اور اپنی بیٹی کو کہا کہ ڈائننگ روم میں جا کر وائلن بجائے۔  اس نے وائلن کا سٹینڈ تھاما۔  اس کی بیوی نے میوزک چارٹ پکڑا اور بیٹی وائلن لے کر ڈائننگ روم میں آ گئی۔  اُس نے موسیقی سیٹ کی اور خاموشی سے بجانے لگی۔  اس دوران اس کا والد دروازے کی اوٹ میں اپنے کوٹ کا چمکتا بٹن پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔  تینوں کرایہ داروں نے اسکی ماں کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ کرسی کھینچ کر ڈائننگ روم کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔

 

اس کی بہن وائلن بجانے لگی  اور  اُس کے والدین اس کی وائلن پر حرکت کرتی ہوئی انگلیوں کو غور سے دیکھنے لگے۔  گریگر بھی اس کے وائلن بجانے سے بہت متاثر ہور ہا تھا۔  وہ دروازے کی اوٹ میں تھا۔  اس نے داد دینے کے لئے اپنا سر باہر نکال لیا ا ور توقع کرنے لگا کہ جب بھی وہ اس کی طرف دیکھے گی وہ اس کی حوصلہ افزائی کریگا۔  اس کے کمرے میں بدبو کا تعفن پھیلا ہوا تھا کیونکہ  اسکی بیماری کے بعد نہ تو وہ کبھی نہایا تھا اور نہ ہی کپڑے تبدیل کئے تھے۔  کمرہ بھی جالوں اور گندگی سے بھرا تھا۔  یہ بات یقینی تھی کہ ڈائننگ روم میں موجود تمام لوگ اس کی موجودگی سے لاعلم تھے۔  تینوں کرایہ دار اس کی بہن کی موسیقی غور سے سن رہے تھے۔  ایسا لگا کہ ان لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ غلط دھنیں بجا رہی تھی۔  موسیقی کے چارٹ کے مطابق دھنیں نہیں نکل رہی تھیں اس لئے وہ تینوں اٹھے، سگار سلگائے اور میوزک چارٹ کو پڑھنے لگے۔  اس کا والد یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا لیکن اس کی بہن دھن بجاتی رہی۔  گریگر نے اپنا منہ مزید باہر نکالا تا کہ اس سے نظریں ملا کر اس کے گانے کی تعریف کر ے۔  وہ اس دھن کو بہت پسند کر رہا تھا۔  اس کی خواہش تھی کہ ہر کوئی اس کی دھن پسند کرے، اسے وہ بے حد دلکش لگ رہی تھی۔  اس کی تمنا تھی کہ وہ وائلن اس کے کمرے میں آ کر بجائے اور اس وقت تک بجاتی رہے جب تک اس کا دل چاہے۔  اگر کوئی اس میں مداخلت کرے گا تو وہ ایسے شخص کی بے عزتی کر دے گا۔  درمیانی کرایہ دار نے یکدم اونچی آواز میں اس کے باپ کو گریگر کی طرف اشارہ کیاجو اس وقت رینگ رینگ کر ڈائننگ روم میں داخل ہو رہا تھا۔  اس کی بہن نے گریگر کو دیکھ کر وائلن بجانا بند کر دیا۔  اس درمیانی کرایہ دارنے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا، سر ہلا کر مسکرا دیا اور پھر گریگر کی طرف دیکھنے لگا۔  اس کے والد نے گریگر کو اندر دھکیلنے کی بجائے کرایہ داروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جبکہ کرایہ دار گریگر کی موجودگی پر نہ تو غصے میں تھے اور نہ ہی نفرت ظاہر کر رہے تھے بلکہ وہ اس کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی  عجوبہ ہو جو وائلن سننے سے زیادہ دلچسپ اور لطف انگیز ہو۔  اس کا باپ ہاتھ پھیلائے ان کی طرف بڑھا اور انہیں واپس اپنی اپنی جگہ پر جانے کا اشارہ کرنے لگا اور گریگر کو ڈھانپ لیا تا کہ وہ اسے نہ دیکھ سکیں۔  اس پر تینوں   نے  غصہ کیا اوروہ اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔   ان کا غصہ اس کے والد کے تحقیر آمیز رویہ سے بے عزتی محسوس کرنے کی وجہ سے بھی ہو سکتا تھااور اس وجہ سے بھی کہ ان کو اس عجیب و غریب اجنبی شخص کی موجودگی سے بے خبر رکھا گیا تھا۔  انہوں نے والد کی طرف دیکھ کر اس کی طرح ہاتھ ہلاتے ہوئے اور اپنی داڑھیوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے گریگرکی موجودگی کی وضاحت چاہی۔  اس کی بہن نے جب اپنی پرفارمنس میں خلل پڑتے دیکھا تو وہ حیران ہو کر کھڑی ہوئی اورپھر تعظیم کے انداز میں جھکی اور پروگرام ختم کر دیا۔   اپنا وائلن ماں کی گود میں پھینکا جو اس وقت اپنے دمہ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔   کرایہ داروں کے کمرے کی طرف چل دی جو  اب اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔  وہ ان کے کمرے میں پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچی،وہاں ان کے بستر اور کپڑے جو اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے،کو سلیقے سے تہہ کیا اور ان کے کمرے میں پہنچنے سے پہلے واپس آ گئی۔    

 

 بوڑھے باپ کو ایک باز مزید اس بات پر اپنی بے توقیری کا احساس ہونے لگا جو اس پر کرایہ دار ظاہر کر رہے تھے۔  وہ ان کے پیچھے چلتا رہا۔  وہ تینوں کرایہ دار انتہائی اونچی آواز میں میرے باپ کے جواب کو رد کر رہے تھے۔  درمیانی کرایہ دار نے زور سے اپنے پاؤں فرش پر پٹخے اور اسکے والدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ قابل نفرت ماحول، گندگی  اورغیرمناسب لوگوں کے گھر میں موجودگی کی وجہ سے اس گھر کو چھوڑنے کا نوٹس دیتا ہے۔۔ وہ جتنا عرصہ بھی اس گھر میں رہا ہے، ایک پائی بھی ادا نہیں کرے گا۔  اس کے علاوہ وہ وعدہ خلافی، بے عزتی کی تلافی کے لئے مقدمہ بھی کرے گا اور اسے یہ بات ثابت کرنا مشکل نہیں ہو گا۔  اس کے بعد اس کے دونوں دوستوں نے بھی یہی نوٹس دے دیا اور دھڑاک سے دروازہ بند کرکے اپنے کمرے میں چلے گئے۔  یہ باتیں سن کر اس کا باپ دھڑام سے آرام دہ کرسی پر گر گیا۔  بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ معمول کی طرح اس پر سو رہا تھا لیکن اس بار وہ اپنا سر زور زور سے جھٹک رہا تھا جو اس کے قابو سے باہر تھا۔  اسکا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنی بے عزتی کو بری طرح محسوس کیا تھا۔  گریگر تمام وقت یہ تماشا بالکل خاموشی سے دیکھتا رہا۔  اس کے منصوبے کی ناکامی اور شدید بھوک کی وجہ سے اس میں اتنی نقاہت طاری ہو گئی تھی کہ وہ حرکت نہیں کر سکتا تھا۔  اسے اس وقت یہ اندیشہ ہوا کہ اس صورت حال میں اس پر شدید اضطرابی کیفیت کا حملہ ہو جائے گا اور وہ اس حملے کا انتظار کرتا رہا۔  اس نے اس آواز پر بھی توجہ نہ دی جو اس کی ماں کی گود سے وائلن فرش پر گرنے سے پیدا ہوئی تھی۔

 

 بہن کھڑی ہو گئی اور میز پر زور سے مکہ مارتے ہوئے ماں باپ سے کہا،  اب ایسا نہیں چلے گا۔  شاید تمہیں اس کی شدت کا احساس تک نہیں لیکن مجھے ہے۔  میں اس مخلوق کی موجودگی میں اس کا نام تک نہیں لوں گی۔  ہمیں اس سے ہر حال میں چھٹکارا حاصل کرنا ہی ہو گا۔  ہم نے اس کی مقدور بھر دیکھ بھال اور جتنی خدمت ایک انسان کے بس میں ہوسکتی تھی،کر لی ہے۔  اب اگر اسے ہم نکال بھی دیں تو کوئی بھی ہمیں قصور وار نہیں ٹھہرائے گا۔

 

اس کے باپ نے اپنی بیٹی کی ہاں میں ہاں ملائی۔  اس کی والدہ جو ابھی تک دمہ کی بدولت آکسیجن میں کمی کی وجہ سے کھانس رہی تھی، مزید اونچی آواز میں کھانسنے لگی اور اس کی آنکھوں میں ایک وحشیانہ چمک پیدا ہو گئی۔

 

اس کی بہن جلدی سے اپنی ماں کی طرف گئی اور اس کا ماتھا پکڑ لیا۔  اس کا والد اونگھ سے بیدار ہو کر آرام دہ کرسی پر سیدھا بیٹھ گیا اور اپنے ہیٹ پر انگلیاں پھیرنے لگا۔  اس کے سامنے بچا ہوا کھانا اور وہ پلیٹیں پڑی تھیں جو کرایہ داروں نے کھانا کھانے کے بعد چھوڑی تھیں۔  وہ کبھی کبھار خاموشی سے گریگر کو بھی دیکھتا تھا۔

 

ہمیں اب اس مخلوق کو کسی بھی صورت میں علیحدہ کر دینا چاہئے،   بیٹی نے باپ سے کہا۔  لیکن اس کی یہ بات ماں کی شدید کھانسی کی وجہ سے اسے سنائی نہ دی۔  یہہم سب  کی موت کا باعث بنے گا۔  ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کتنی مشکل سے ہم نے خود کو زندہ رکھا ہوا ہے، مزید اذیت اور حزیمت برداشت نہیں کر سکتے۔  کم از کم میں یہ سب اور برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔  یہ کہتے کہتے وہ رونے لگی اور اس کے آنسو اس کی ماں کے ہاتھوں پر پڑے جسے اس نے میکانکی طور پر پونچھ دیا۔

 

باپ نے متفق ہوتے ہوئے ہمدردانہ آواز میں کہا کہ ہم کیا کر سکتے تھے؟  اس کی بیٹی نے اپنے کندھے جھٹک کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔  اس کے رونے سے اس کا من کچھ ہلکا ہوگیا تھا اور اس کا وہ رویہ کہ اس سے فوری نجات حاصل کی جائے، ذرا کم جارحانہ ہو گیا۔  اس کے باپ نے کہا کہ یہ بہت اچھا ہو جائے گا اگر وہ ہماری بات سمجھ سکے۔   ماں،جو ابھی تک ہچکیاں لے رہی تھی، نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ان کے مشورے سے انحراف کا اظہارکیا۔


اس کے والد نے اس کی والدہ کی مخالفت کے باوجود ایک بار پھر کہا کہ ہمیں اس کے ساتھ بات چیت کرنا چاہئے تو باہمی رضا مندی سے کسی نتیجے پر پہنچپائیں گے۔   اگر وہ ہماری بات مان لے تو اسے جانا ہو گا۔  اس کی بیٹی نے پر عزم ہو کر جواب دیاکہ اسے اب ہر صورت پہنجنا ہی ہو گا۔ اس تصور کو ذہن سے نکال پھینکو کہ یہ مخلوق اس گھر میں رہے گی۔  یہ درست ہے کہ ہماری تمام تر مصیبتوں کی جڑ ہی وہ ہے۔  اگر وہ بیمار ہونے سے پہلے والا گریگر ہوتا تو بہت پہلے وہ خود سے سوچ لیتا کہ اسے ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہئے اور وہ خود سے ہی ہمیں چھوڑ کر جا چکا ہوتا۔  وہ یہ سمجھ لیتی کہ  اسکا  کوئی بھائی ہی نہیں ہے اوروہ اس کی اچھی یادوں میں مگن رہتی۔  وہ ہمیں ہر وقت اذیت میں مبتلا نہ کرتا ا ور ہمارے کرایہ داروں کو نہ بھگاتا۔  وہ تمام اپارٹمنٹ پر خود ہی قبضہ جمانا چاہتاہے اور ہم سب کو گٹر میں پھینکنا چاہتا ہے۔  ابو دیکھو۔۔ ۔ وہ اب پھر آ گیا ہے۔ گریگر کو دیکھتے ہی وہ گھبراہٹ میں اپنی ماں کو دھکیلتی ہوئی بھاگی۔  گریگر کو اس بات کی سمجھ نہ آئی کہ اس پر گھبراہٹ کیوں طاری ہوئی تھی؟  اس کا باپ اپنی بیٹی کے احتجاج کی وجہ سے کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنی بیٹی کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے تا کہ وہ اس کو اپنی حفاظت میں لے سکے۔

           

گریگر کے من میں دور دور تک کبھی بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کو یا اپنی بہن کو خوف زدہ کرے۔  اس نے اپنے خاندان کی نفرت بھانپتے ہوئے اپنے کمرے میں واپس جانا چاہا۔  وہ نحیف تھا اور تیزی سے کمرے میں نہیں جا سکتا تھا اس لئے وہ بڑی آہستگی اورمشکل سے گرد ن کو  تھوڑا سا گھماتا اور تھوڑا سا موڑ لیتا، پھر گردن کو آہستہ سے موڑتا اور تھوڑا اور گھوم جاتا۔  یہ منظر بڑا دل خراش تھا، اُس نے ایک بار مڑکے اپنے خاندان کی طرف دیکھا۔  اسے محسوس ہوا کہ شاید اب ان کے دل میں اس کے بارے میں کوئی رحم پیدا ہو گیا ہو اور وہ اس پر ترس کھالیں۔  اس کی اچھی نیت کا انہیں شاید اب پتہ چل چکا ہو اور اس کے بارے میں جوخوف پیدا ہوا تھا،  وہ وقتی ہو اور اب ٹل گیا ہو۔ 

           

دوسر ی طرف اب تمام خاندان غمزدہ ہو کر خاموشی سے اسے دیکھ رہاتھا۔  اس کی ماں پر تھکان طاری تھی۔  اس کی ٹانگیں سخت ہو کر ایک دوسرے پر چڑھی ہوئی تھیں۔  اس کی آنکھیں نقاہت سے بند ہو رہی تھیں جب کہ اس کا باپ اور بہن دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔  اس کی بہن کا ہاتھ اس کے باپ کی گردن میں تھا۔  اپنی ہیئت کی تنزلی پر وہ اس سے اس حد تک متنفر ہو جائیں گے، یہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔  وہ اپنی نظروں میں گرگیا۔

 

اب اسے اپنے کمرے کے اندر جانا چاہئے اس لئے اس نے پھر حرکت کرنے کی کوشش شروع کر دی۔  یہ اس کے لئے بہت مشقت تھی۔  وہ تھوڑا سا حرکت کرتا، تھک جاتا اور تھوڑی دیر سستا نے کے بعد پھر رینگنا شروع کر دیتا۔  اسے کوئی بھی ہراساں نہیں کر رہا تھا۔  وہ تن تنہا اکیلا ہی اپنے حالات کا سامنا کر رہا تھا۔  جب وہ اس قابل ہو گیا کہ پوری طرح مڑ کر اس کا رخ کمرے کی طرف ہو ا تو اس نے آہستہ آہستہ کمرے کی سمت رینگنا شروع کر دیا۔  وہ اپنی اس ہمت پر حیران تھا کہ انتہائی نقاہت کے باوجود وہ کس طرح اتنا فاصلہ طے کر کے رینگتا ہوا اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔  اس دوران اس کے خاندان کے کسی فرد نے ایک لفظ یا طنز یا نفرت کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی سے اس کی حرکات کو دیکھتا رہا۔  جب وہ کمرے میں داخل ہو رہا تھا تو اس نے گردن موڑ کر اپنے خاندان کی طرف آخری بار دیکھا، گردن زخمی ہونے اور کمردرد کی وجہ سے وہ اپنی گردن پوری تو نہ گھما سکا لیکن ان کو دیکھ سکا۔  اس کے خاندان کا رویہ جوں کا توں تھا،سوائے اس کے کہ اس کی بہن باپ کی گردن سے بازو نکال کر اب کھڑی ہو گئی تھی۔  اس نے نگاہ اپنی ماں پر ڈالی تو وہ ابھی بھی کھانسی سے آزاد نہیں ہو ئی تھی۔

 

گریگر بمشکل اپنے کمرے میں گھسا ہی ہو گا جب دروازہ زور سے بند کر دیا گیا، اس کی کنڈی لگا کر باہر سے تالا لگا دیا گیا۔  اس زور دار آواز سے وہ اتنا زیادہ خوفزدہ ہو گیا کہ اس کی ٹانگیں اس کے دھڑ کے نیچے دب گئیں۔  یہ اس کی بہن تھی جس نے یہ جلد ی دکھائی تھی۔  وہ اسی انتظار میں تھی کہ گریگر جوں ہی اپنے کمرے میں داخل ہو وہ اپنی سرگرمی دکھائے۔  اس نے اپنی بہن کو اپنی طرف آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔  جب اس نے دروازہ بند کرکے تالہ لگاتے ہوئے والدین کو کہا،  بالآخر! 

 

گریگر حیران تھا کہ صحت کی خرابی یا بے روزگاری کے ساتھ رشتے کیسے بدل جاتے ہیں۔

 

اب کیا ہوگا؟  گریگر نے اندھیرے میں دیکھتے ہوئے خود کلامی کی۔  جلد ہی اسے اس بات کا احساس ہوگیا کہ وہ اپنی ٹانگ نہیں ہلا سکتا۔   اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کی ٹانگیں بے حد نحیف ہیں، ان میں اتنی قوت نہیں کہ وہ چل سکیں یا حرکت کر سکیں۔  یہ بات سچ تھی کہ اس کا تمام انگ انگ درد سے ٹوٹ رہا تھا لیکن اس کی شدت آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی جو اسے امید تھی کہ بالآخر ختم ہو جائے گی۔  اس کی گردن کے زخم اور کمرکے دردجس پر سیب سے ضرب لگی تھی والا حصہ اور دوسرا حصہ جہاں جلن تھی، دھوڑ سے اٹا پڑا تھا۔  اسے اس وقت پہلے سے کم تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔  وہ ان دردوں کا عادی ہو چکا تھا۔  وہ اپنے خاندان کو بڑے پیار عقیدت اور خلوص سے یاد کر رہا تھا۔  اس نے خود کلامی کی کہ انکی خواہش کے مطابق اسے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان سے دور ہو جانا چاہیے۔  اسکے مرجانے کا ارادہ اپنی بہن سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا۔  اگر ایسا ہو جائے تو کتنا اچھا ہو۔  اس کے ذہن میں یہ خیال چھایا رہا۔  یہ بات سوچتے سوچتے گھڑی نے صبح کے تین بجا دئیے۔  اس نے اندھیرا چھٹکتا دیکھا۔  اس نے بے بسی سے اجالا ہوتے ہوئے دیکھا اور اپنی گردن فرش پر ٹکا کرلمبی ٹھنڈی سانس لی اور سو گیا۔

 

بوڑھی بیوہ نوکرانی صبح کے وقت اپنے کام پر آئی اور حسب معمول گھر کے دروازے دھڑاک سے کھولنے اور بند کرنے لگی۔  خاندان کے تمام اراکین نے اس سے کئی بار تنبیہ کی تھی کہ دروازے آہستہ کھولا اور بند کیا کرے لیکن اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔  اس کے آنے کے بعد کوئی شخص بلند آوازوں کی وجہ سے سو نہیں سکتا تھا۔  وہ آئی تو اس گھر میں اسے سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا۔  جب گریگر کے کمرے کا دروازہ کھول کر اس نے اندر اچٹتی نگاہ ڈالی تو اسے سویا ہوا پایا۔  اس نے سمجھا کہ وہ جان بوجھ کر بے سدھ ہو کر پڑا تھا یا اسے خاندان پر غصہ تھا اور وہ غصے کے اظہار کے لئے ایکٹنگ کر رہا تھا۔  اس نے اپنے ذہن میں یہ سوچا کہ گریگر کتنا ذہین تھاجو غیر محسوس طریقے سے اپنی خفگی بیان کر رہا تھا۔  وہ اس کے کمرے کی صفائی کے لئے آئی تھی۔  اس کے ہاتھ میں جھاڑو تھا۔  اس نے لمبے ہینڈ ل والے جھاڑو سے اسے ہلکا سا ٹھوکا دیا تا کہ وہ ایک طرف ہو کر  دروازے سے ذرا سا ہٹ جائے۔  جب اس پر اس کا ہلکا دباؤ کام نہ کیا تو اس نے جھاڑو سے زور کا ٹھوکا لگایا۔  اس پر بھی جب اس نے کوئی رد عمل نہ دکھایا اور کوئی مزاحمت نہ کی تو وہ چونکی۔  وہ فوراًگھرکے مالک سامسا کے کمرے کی طرف دوڑی اور اندھیرے کمرے میں چلائی۔

 

 یہاں دیکھو!  وہ مر گیا ہے۔  وہ وہاں مرا پڑا ہے۔  قصہ تمام ہوا۔

میاں بیوی اپنے ڈبل بیڈ پر سوئے ہوئے تھے۔  انہوں نے جب نوکرانی کی آواز سنی تو وہ اٹھ بیٹھے اور ان پر صدمے کی کیفیت طاری ہو گئی۔  دونوں اپنی اپنی طرف کے بستر سے نیچے اترے۔  باپ نے اپنے کندھوں پر کمبل اوڑھا جبکہ ماں سونے کے لباس میں تھی۔  وہ جلد ی سے گریگر کے کمرے کی طرف چل پڑے۔  اس دوران اس کے کمرے سے ملحقہ کمرہ بھی کھول دیا گیا۔  بیٹی گریٹس عام لباس میں ڈائننگ روم میں سوئی تھی۔   جب سے کرایہ دار آئے تھے،  اسے ڈائننگ روم میں سونا پڑتا تھا۔  نوکرانی اس کے زرد چہرہ کو دیکھتے ہوئے بولی کہ ہاں وہ مر چکا ہے۔  اس کی ماں نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔  باپ مسٹر سامسا نے بالآخر کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ وہ اب نہیں رہا۔  اس نے چھاتی پر کراس کا نشان بنایا اور دیگر خواتین نے بھی اس کی تائید کی۔   اس کی بیٹی نے لاش کو دیکھنا بند نہ کیا اور غور سے دیکھتے ہوئے بولی کہ دیکھو وہ کتنا کمزور ہو گیا تھا۔  طویل عرصے سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔  وہ جو چیز منہ میں ڈالتا،گھنٹوں رکھ کر باہر پھینک دیتا تھا۔  یقینا گریگر کا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔  اس کا پیٹ بالکل ساتھ لگا ہوا تھا۔  اس کا جسم بالکل خشک تھا جس میں گوشت اور پانی نہیں رہ گیا تھا۔  اس کی ٹانگیں سو کھ چکی تھیں جس سے اسے ہلکی سی جنبش کرنے میں بھی مشکلات در پیش آتی تھیں۔

 

اس کی ماں نے اپنی بیٹی گریٹس سے کہا کہ آؤ چلیں۔  وہ اس کے پیچھے ہولی۔  انہوں نے اپنے گھر کی تمام کھڑکیاں کھول دیں تاکہ تازہ ہوا کے جھونکے اندر آنے لگیں۔  آخرکار موسم بدل چکا تھا۔  مارچ کے آخری دن تھے اور بہار کی آمد آمد تھی، صبح ہو چکی تھی۔  کام پر جانے سے پہلے تینوں کرایہ دار ڈائننگ روم میں آ ئے اور یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ میز پر کوئی ناشتہ نہ تھا۔  انہوں نے پوچھا ناشتہ کہاں ہے؟  ناشتہ کیوں نہیں بنایا گیا؟  نوکرانی نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ان کو خاموش رہنے کو کہا اور گریگر کے کمرے کی طرف اشارہ کرکے انہیں اس طرف چلنے کو کہا۔  وہ ادھر گئے،انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے بڑے بڑے کوٹوں کی جیبوں میں ٹھونس رکھے تھے۔  لاش کے پاس وہ چپ چاپ کھڑے ہو گئے۔  گریگر کا کمرہ اب پورا روشن کر دیا گیا تھا۔  اتنے میں اس کا باپ اپنی پوری یونیفارم زیب تن کئے باہر آیا۔  اس کے ایک طرف ماں اور دوسری طرف بہن اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر باہر نکلیں۔  بہن نے اپنا منہ اپنے باپ کے بازو میں چھپایا ہوا تھا۔  ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کمرے میں رو رہے تھے۔      

 

والد نے تینوں کرایہ داروں کو مخاطب ہو کر کہا میرا گھر فوری طور پر خالی کر دو۔۔۔۔۔درمیان والا کرایہ دار حیران ہو کر بولا، کیوں؟  یہ کیا کہہ رہے ہو؟  اس کے چہرے پر خفت آمیز مسکراہٹ تھی۔  باقی دونوں کرایہ داروں نے اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے جو انہیں گرم کرنے کے لئے آپس میں مل رہے تھے۔  وہ سوچ رہے تھے کہ انہیں یقین تھا کہ ان کی ہی جیت ہو گی اور وہ اس گھر میں ہی رہیں گے۔        

 

مسٹر سامسا پھر بولا،   میرے گھر سے فوراً نکل جاؤ۔  میں اس بارے میں سنجیدہ ہوں۔۔ اور انہیں گھر سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔  ان تینوں نے فرش پر نظر جما دیں اور کچھ دیر سوچتے رہے۔  پھر انہیں یقین ہو گیا کہ انہیں وہ گھر چھوڑنا ہی پڑے گا۔  انہوں نے مسٹر سامساکی طرف ایک بار التجا آمیز نظروں سے دیکھا کہ شاید وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرے لیکن وہ  اسی طرح سنجیدہ کھڑا رہا۔  اس نے دو تین بار اشاروں سے انہیں باہر جانے کو کہا۔  درمیانی شخص بادل نخواستہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہال سے نکل گیا۔  اس کے دوسرے ساتھی جو اپنے ہاتھ پیچھے باندھے کھڑے تھے، نے اس کی پیروی کی۔  انہوں نے ہینگرز سے اپنے اپنے ہیٹ، چھتریوں کے سٹینڈ سے اپنی چھتریاں لیں۔  تعظیم کے لئے جھکے اور چلے گئے۔  اس کا باپ، ماں اور بہن ان تینوں کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔  وہ ایک منزل کے بعد دوسری منزل کی سیڑھیاں اترنے لگے، کبھی نظر آتے، کبھی غائب ہو جاتے اور وہ گلی میں داخل ہو گئے۔  رستے میں انہیں محلے کا قصاب ملا۔  انہوں نے اس سے کچھ باتیں کیں اور اپنی راہ لی۔  خاندان یہ دیکھ کر کہ وہ چلے گئے تھے، واپس اپنے اپارٹمنٹ میں آ گئے۔

 

وہ ایک طویل اذیت سے گزرے تھے۔  انہوں نے فیصلہ کیا کہ غم غلط کرنے کے لئے انہیں آرام کی ضرورت تھی۔  سکون ان کے نزدیک اس وقت صرف سیر و تفریح سے ہی حاصل کیا جا سکتا تھا۔  ان تینوں نے الگ الگ خط لکھے۔  مسز سامسا نے بلڈنگ کے سپرنٹنڈ نٹ کو خط لکھا جس میں اس نے اپنا اپارٹمنٹ خالی کرنے کا نوٹس دیا۔  اُسنے اپنے بنک اورخوراک مہیا کرنے والی کمپنی کو جس میں وہ خوراک ڈھوتا تھا، خطوط لکھے اورنوکری چھوڑنے کا نوٹس دیا تھا جبکہ گریٹس نے بھی سٹور کے منیجر کو اپنا استعفیٰ بھجوایا دیا۔

 

گریگر کو دفنانے کے بعد وہ سب آزاد تھے۔  انہوں نے لمبی لمبی سانسیں لیں۔  تینوں اپنے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھر سے نکلے۔  ٹرین پکڑی اور دور دراز کے ایک چھوٹے سے گمنا م گاؤں کی طرف چل دیئے جہاں ہر وقت تازہ ہوا رہتی تھی۔  پرندے چہچہاتے رہتے تھے۔  گھر کا کرایہ نہ ہونے کے برابر تھا۔  نوکریاں دستیاب تھیں اور وہ کم پیسوں میں معیاری زندگی گزار سکتے تھے۔  عمدہ آب و ہوا اور بہترین خوراک گریٹس کی صحت پر بھی اچھا اثر ڈالے گی۔  اس کے مرجھائے ہوئے پیلے گال سرخ سیب اور گلاب کی طرح کھل اٹھیں گے اوروہ کوئی اچھا بر تلاش کر کے باقی زندگی آرام سے گزار لے گی۔  گریگر کی ہیئت کا زوال اس کی موت پر منتج ہوا جس نے ثابت کر دیا کہ بدلتے حالات کس طرح رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔  اگر کوئی کامیاب ہے تو تمام لوگوں کے تعلقات کی نوعیت اور ہوتی ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ معذوری، بے روز گاری اور مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو عزیز ترین اور قریبی رشتے دار بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔

 

 

 

Franz Kafka (1883 - 1924)

(Czechoslovakia)



حالات زندگی

 

 

فرانز کافکا    پراگ  Prague)  )چیکو سلواکیہ میں  1883میں پیدا ہوا۔  وہ اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی ملاقات والدسے صرف رات کے کھانے پر ہی ہوتی تھی اس لئے کھانے کے آداب کے علاوہ اس نے اپنے والد سے اور کچھ نہ سیکھا۔  اس کا والد بہت بارعب شخص تھا وہ اپنے اصولوں کا پکا اور سخت گیر تھا اس لئے وہ سہما سہما سا رہتا تھا۔  اپنے والد کی ہر معاملے میں روک ٹوک، کن لوگوں سے ملا جائے، کن سے نہ ملا جائے، کی وجہ سے وہ لوگوں سے کٹ کر رہ گیا تھا۔  وہ خود محودی کا شکار ہو گیا اور اکیلا رہنا پسند کرنے لگا۔  اسے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کو اپنے والد کی مداخلت برداشت نہ کرنا پڑتی۔  اس نے اپنے نزدیکی رشتہ داروں سے بھی ملنا  جلنابہت کم کر دیا تھا تاکہ اسے اصول و ضوابط کی پابندی نہ کرنا پڑے۔  اس وجہ سے کسی کے ساتھ بھی جذباتی مراسم قائم نہ ہو پائے۔  مالی استحکام کی وجہ سے اس کے والد نے اسے اشرافیہ سکول میں داخل کرا دیا جہاں اس نے گوئٹے   ( Goethe )، شیلر    (Schiller )  ، نطشے   ( (Nietzsche   اور  ہیکل   (Hackel)  کو پڑھا۔  اس سے اس میں ترقی پسند ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔  اس ترقی پسند ادب نے اسے اپنے مذہب سے لاتعلق کر دیا۔  اس نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی۔  اس کی پریکٹس بہت کامیاب رہی۔  وہ دس برس تک ایک معقول نوکری بھی کرتا رہا۔  اس کے نزدیک وہ ایک باعزت پیشہ تھا لیکن اس کا دل اس پیشے سے اکتا گیا۔  اسے سوشلزم کا فلسفہ پسند آیا۔  عظیم ترین ادیبوں کے مطالعہ سے اس کو ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔  طبع آزمائی کے لئے اس نے ادب میں قدم رکھا۔  وہ شوقیہ لکھتا تھا اور اس کو یہ پسند نہیں تھا کہ اس کی کہانیاں یا ناول چھاپے جائیں۔  اس کی زندگی میں صرف ایک مجموعہ مختصر کہانیوں پر طبع ہوا۔  اس کے مرنے کے بعد اس کے ایک دوست نے مختصر کہانیوں کا دوسرا مجموعہ اور تین ناول ہیں جو اس کی موت کے بعد اس کے دوست نے چھپوائے۔


 

٭       The Trial (1925)              ٭       The Castle (1926)          

٭       Amerika (1927)


 اس نے اپنے دور کی گھٹی ہوئی معاشرتی زندگی، بیماری، عدم تحفظ، محبت میں ناکامی جیسے موضوعات چنے۔  اس کی تحریرں میں تحلیل نفسی، مارکسزم، انسانیت پسند انہ تصورات پائے جاتے ہیں جسے ناقدین مستند مانتے ہیں۔  اس کہانی میں اس نے اس بات کا نقشہ کھینچا ہے کہ نارمل شخص سے غیر معمولی شخصیت میں تبدیلی کس طرح سے ہو سکتی ہے اور اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔

 

Popular posts from this blog