The Birth Mark ....... Hawthorne Nathaniel پیدائشی قرمزی نشان

 











پیدائشی قرمزی نشان

The Birthmark
By
  (1804-1864)     Hawthorne Nathaniel

USA

تلخیص و بیان:  پروفیسرغلام محی الدین (کینیڈا)


          
انیسویں صدی کے اواخر میں ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق تھا۔  جس کا نام ’ا  یلمر‘ تھا۔  وہ قدرتی مظاہر کے راز جاننے کے لئے تحقیقات کرتا رہتا تھا۔  فطری علوم میں جو اہم معلومات اس نے دنیا کو دیں، وہ نئی اور معتبر تھیں۔  وہ ہر فن مولا تھا۔  ماہرنباتات، طبیعیات، کیمیا گری اور ماورائی علوم میں ماہر تھا۔  اسکے اقوال، تعلیمات اور مطالعات کے نتائج کوتسلیم کیاجاتا تھا۔  اس نے ایک تجربہ گاہ قائم کر رکھی تھی جو کافی وسیع اور سائنسی آلات سے لیس تھی۔  ا سکے مطالعات میں استعمال ہونے والے آلات،کیمیائی محلول، جڑی بوٹیاں اور تحقیقات سے متعلق تمام اشیاء اس میں موجود تھیں۔  اس نے ایک بہت بڑی لائبریری بھی قائم کی ہوئی تھی جس میں علما، مشائخ اور فیلسوف کے نادرنسخے اور اس کی اپنی تصنیف کردہ کتب تھیں۔  اس کی بیوی کا نام ’جولیانا‘تھا جو گاہے بگاہے کتب کا مطالعہ کیا کرتی تھی۔  اس کی سب سے مرغوب کتاب اس کے خاوندکا وہ ضخیم روزنامچہ تھا جس میں اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ہر تحقیق کے ایک ایک مرحلے کولکھا تھا۔  اس کتاب میں ایلمرنے اپنی کامیابیوں، مشکلات اور کس طرح ان کو حل کیا گیا، تفصیلاً بیان کیا تھا۔  اس کو پڑھ کر وہ اپنے خاوند کی انسانیت کے لئے کی گئی خدمات کو سراہتی اور فخرکیا کرتی تھی۔
           
ا  یلمر نے اپنی معاونت کے لئے ایک نائب رکھا ہوا تھا جس کا نام’امینابا‘ تھا۔  وہ مدتوں سے اس کے ساتھ تھا اور اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔  اس کے ابرو کی جنبش اور اشاروں کنایوں کو خوب سمجھتا تھا۔ باہمی تال میل سے اس کو تجربات میں آسانی رہتی اور غیر ضروری جھنجھٹ سے نجات مل جاتی تھی۔
           
ا  یلمر کی ازدواجی زندگی بڑی خوشگوار تھی۔  وہ خوش قسمت تھا کہ اسے پیار کرنے والی بیوی ملی تھی۔  وہ بھی اسے بہت چاہتا تھا اور اس کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش کو مقدم رکھتا تھا۔  اس کی بیوی جولیانا دنیا کی حسین ترین خواتین میں سے تھی۔  وہ خلوص کی پیکر تھی اور اپنے خاوند پر جان چھڑکتی تھی۔  اسکا رنگ سرخ و سپید تھا۔  ایلمر بھی اپنی بیوی کو ٹوٹ کر چاہتا تھا۔  صرف ایک یہ عجیب بات تھی کہ جولیانا کی بائیں گال پر ایک پیدائشی نشان تھا جو جلد کے اند ر پیوند تھا۔  کھڈی کے کپڑے کی بنائی کی طرح وہ اس کی بافتوں میں کڑھا ہو ا تھا۔  نشان گہرے سرخ رنگ کا تھا۔  اس کی شبیہ تقریباً  انسانی بچے کے پنجے کی سی تھی جس کی جسامت بمشکل دو انگلیوں کے برابر تھی۔  اس کی چمک سے ایسا لگتا تھا کہ برف باری کے بعد قرمزی رنگ کا ہیرا پڑا ہو۔  ا  یلمر اسے دیکھتا تو اسے افسوس ہوتا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نشان نے اس کی بیوی کے حسن کو گہنا دیا تھا۔
           
کئی لوگ اس نشان کو حسن میں اضافہ سمجھتے تھے۔  من چلے بے خودی میں اس نشان کو چومنے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔  یہ نشان اگرچہ مدھم تھا لیکن واضح تھا۔  تاہم یہ پراسرار پیدائشی نشان کی رنگت جارجیانا کے جذبات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی تھی۔  خوشی، غمی، غصے، رنج و غم وغیرہ میں وہ سفید، تاباں، گلا بی، قرمزی اور سرخ ہو جاتاتھا۔  مگر ا  یلمر کا خیال برعکس تھا۔  اس کی نظر میں اس گرہن نے جولیانا کی خوبصورتی کو ماند کر دیا تھا۔  کبھی کبھار تو پیدائشی نشان اسے خونی پنجہ لگتا تھا جو کسی دل جلے جاد وگر نے حسد کی بنا پر اس کے چہرے میں گاڑ دیا تھا۔  اس کے ذہن میں آیا کہ اگر وہ کسی طرح اسے مٹا دے تو وہ کوہ قاف کی پریوں سے بھی  سندرہو جائے گی۔  اس نے اس خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کئی بار کوشش کی لیکن وہ پھر سے پوری قوت کے ساتھ ابھر آتا۔ 

ایک بار میاں بیوی ساتھ بیٹھے تھے کہ ا  یلمر بولا،کیا کبھی تمہیں خیال آیا کہ تمہارے چہرے پر جو پیدائشی نشان ہے، دور کیا جائے؟
           
یقیناً نہیں، جولیانا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

نہیں! کیا تم یہ نہیں جانتی کہ یہ تمہاری خوبصورتی کا دشمن ہے؟  اگر یہ یہاں نہ ہو تو دنیا کی کوئی خاتون تمہارے حسن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی، ایلمر نے جواباً کہا۔

 یہ تو میری خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے، جولیانا نے کہا۔  لوگ اس پیدائشی نشان کو پسند کرتے ہیں۔
           
کسی اور کے چہرے پر ہوتا تو جچتا لیکن تمہارے لئے یہ قطعی غیر موزوں ہے، ا  یلمر نے رائے دی۔  قدرت نے تمہیں حسین پیدا کیا ہے لیکن  یہ نشان تمہاری کاملیت اور تکمیل میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔  اسے دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ قدرت نے تمہارے حسن میں معمولی سی کمی کیوں کر دی؟
           
کیا اسے دیکھ کرتمہیں صدمہ پہنچتا ہے؟ جولیانا نے حیرانی سے پوچھا۔  کیا یہ نشان اتنا برا ہے کہ وہ تجھے مجھ سے دور کر رہا ہے اور محبت سے باز ر کھ رہا ہے؟ 
           
نہیں، ہرگز نہیں۔  تم بہترین بیوی ہو۔  میں تم کو بے حد چاہتا ہوں۔  تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن میں تمہیں ایسا دیکھنا چاہتا ہوں کہ حوریں بھی تمہیں دیکھ کر شرما جائیں، ا  یلمر بولا۔  اگر تم خوبصورت نہ ہوتی تو اس نشان کا کوئی مذائقہ نہیں تھا لیکن تمہارے حسن سے وہ مطابقت نہیں کر رہا۔  وہ اچھا نہیں لگ رہا۔
           
وہ محسوس کرنے لگا کہ قدرت نے ذرا سا نقص ڈال کرجولیاناکے ساتھ زیادتی کر دی تھی۔  جس سے ان میں نہ چاہتے ہوئے بھی فاصلے بڑھ رہے تھے۔   روز بروز تلخی پیدا ہو رہی تھی۔  خوشگوار عائلی زندگی میں وہ نشان رخنہ ڈال رہا تھا۔  رفتہ رفتہ ایسا لگنے لگا کہ ا  یلمر کے ہر سانس کے ساتھ اس کے اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔  اس کی بیوی اگرچہ ہر لحاظ سے خوبصورت تھی۔  وہ اس سے خوش تھا لیکن اس قرمزی نشان کو جب بھی دیکھتا تو قدرت پر غصہ کھانے لگتا کہ اس نے خالص اور اعلیٰ اور حسین ترین خاتون کونا مکمل کر  کے رکھ دیا تھا۔  وہ پیدائشی نشان اس کی شخصیت کومسخ کر رہا تھا۔  یا پھر شاید اس کے کردہ ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر اس کے چہرے پربن دیا تھا۔ یا یہ بھی سوچا جا سکتا تھا کہ اس کی تضحیک اور اس میں احساس کمتری پیدا کرنے اوراس کو روحانی تکلیف پہنچانے کے لئے یہ نقش نگاری کر دی گئی تھی۔
           
ان کی شامیں جو کبھی پر لطف ہوا کرتی تھیں، ا ب وہاں اس پیدائشی نشان کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔  جب وہ صبح سو کر اٹھتا تو سب سے پہلے اس کی نظر اس نشان پر پڑتی اور اس کے بارے میں سوچیں ابھرنے لگتیں، جس سے جولیانا کے نامکمل ہونے کا احساس بھی اجاگر ہوجاتا۔  جب وہ شام کو آتشدان کے پاس بیٹھے ہوتے تو وہ چور نظروں سے اس نشان کو دیکھتارہتا۔  لکڑیوں کی روشنی میں وہ اسے آسیب لگتا۔  جولیانا گرہن کے نشانات کے بارے میں کچھ سنتی تو کندھے جھٹک دیتی اوران باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی۔  یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ پریشان ہو جاتی یا شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ نشان مزید واضح ہو جاتا۔  اس سمے وہ زمر د ا اور یاقوت کی طرح لگتا لیکن ا  یلمر کے لئے وہ  نظارہ فرسان روح بن جاتا تھا۔  وہ اسے کسی نہ کسی طرح برداشت کر رہا تھا۔  جولیانا اسکے جذبا ت و احساسات بھانپ لیتی اور افسردہ ہو جاتی۔

ایک دفعہ اس حالت میں اس سے رہا نہ گیا اور اس سے پوچھ ہی لیا،ا  یلمر! پیدائشی نشان دیکھنے کے بعد جو بے چینی تم میں پیدا ہوتی ہے، اس سے میں خود کو مورد الزام ٹھہرانے لگتی ہوں۔  میں خوفزدہ ہو جاتی ہوں حالانکہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔
           
 ایسی کوئی بات نہیں۔  میں یہ جانتا ہوں۔  میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن میرے ذہن میں خواہ مخواہ اس کے متعلق بیہودہ خیالات آتے رہتے ہیں۔  جب بھی میں اسے دیکھتا ہوں توبے ساختہ منفی سوچ پیدا ہو جاتی ہے۔

 مجھے معاف کر دو، جولیانا نے کہا۔  میں التجا کرتی ہوں کہ اس نشان کی طرف نہ دیکھا کرو ورنہ میں صدمے سے مر جاؤں گی۔

کاش کہ ایسا ممکن ہوتا، ا  یلمر نے جواب دیا۔

 تو کیا تم اس کے بارے میں مسلسل سوچتے رہتے ہو؟

ہاں۔
             
یہ سن کر جولیانا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔  اور کیا تمہیں اس کے بارے میں خواب بھی خوفزدہ کر دیتے ہیں؟  روتے ہوئے بات جاری رکھی اور بولی، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم ان خیالات کو ترک کر دو؟
           
 ا  یلمر نے نفی میں سر ہلایا۔

میں جانتی ہوں کہ تم اس نشان کو بھول نہیں سکتے۔  لیکن کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس کے ساتھ مطابقت پیدا کر لو؟
           
یہ وسوسے کی شکل اختیار کر چکا ہے، ا  یلمر نے کہا۔

تمہارا دماغ سن رہتا ہے۔  ہر وقت پیدائشی نشان چھایا رہتا ہے۔  تم روزمرہ فرا ئض بھی ڈھنگ سے ادا نہیں کرپا  سکتے۔  کیا یہ سچ ہے؟
           
ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔
           
 تم اس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہے ہو۔ کیا اس کا کوئی حل ہے؟ 

 اس کا حل ماورائی علوم اور کیمیا ئی ادویات کے اختلاط سے ممکن ہے۔  آسیب، جادو گری اور قدرتی مظاہر پر تحقیقات کرنااگرچہ خطرناک عمل ہے لیکن ان کے امتزاج سے بہتری کی امید ضرور کی جا سکتی ہے، ا یلمر نے بظاہر ہنستے ہوئے کہا لیکن اس کے چہرے اور لہجے سے پریشانی اور ناخوشی جھلک رہی تھی۔  ان اعمال کو سوچنے سے میں حواس باختہ ہو جاتا ہوں کیونکہ وہ خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔  مجھے خدشہ ہے کہ کہیں وہ تمہارے لئے نقصان دہ ثابت نہ ہوں۔

 ایسے علوم سے متعلق تمہاری یکتائی کی وجہ سے میں تمہار ی معترف ہوں، جولیانا نے کہا۔
           
ایک دفعہ آدھی رات جب مشعلیں گل ہو رہی تھیں اور اس کی گال کا نشان نظر آنا بند ہوگیا تھا،جولیانا نے از خود اس نشان کا ذکر چھیڑدیا۔
           
پیارے ایلمر۔  تم نے پچھلی رات میری گال کے پیدائشی نشان کے بارے میں جو خواب دیکھا تھا،کیا وہ یاد ہے؟  جولیانا نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا۔
           
کون سے خواب کی بات کر رہی ہو؟  اس نشان کے بارے میں سوچنے کے لئے خوابوں کی ضرورت نہیں۔  ایسے خیال تو مجھے سوتے جاگتے آتے رہتے ہیں، ایلمر نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔  پھر اس کے ذہن میں کوئی بات آئی اوربولا، ہاں یاد آیا۔  میں نے دیکھا کہ خواب میں میں تمہارا اپریشن کر رہا تھا۔  اس میں سابقہ مطالعات کی طرح امینابا میرا معاون تھا۔  میں اس پیدائشی نشان کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لئے نشتر چلا رہا تھا۔  جوں جوں اس نشتر کی دھار اس نشان کی تہہ میں جاتی جا رہی تھی، وہ پیدائشی نشان کو چیرنے تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ وہ گال سے نچلے حصے کا ماس ادھیڑتی ہوئی سینے تک پہنچ گئی تھی حتی کہ دل کو پھاڑکے رکھ دیتی۔  میں اس ڈراؤنے خواب کو دیکھ کر د ہشت زدہ ہوکر اٹھ بیٹھا۔  جاگنے پر مجھے احساس جرم ہوا۔  ایسی سفاکانہ باتیں صرف خواب میں ہی دیکھی جاتی ہیں کیونکہ اس سمے لاشعور کا غلبہ  ہوتا ہے۔  ایسے ظلم کا تصور شعوری حالت میں کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا۔

 ا  یلمر مجھے اس بات کا اندازہ نہیں کہ اس پیدائشی نشان کے خاتمے کے لئے مجھے کیا قیمت چکانا پڑے گی۔  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمل الٹ پڑ جائے اور نشان مزید بگڑ جائے، جولیانانے تشویش ظاہر کرتے ہوئے  کہا۔  و ہ اس سے سچی محبت کرتی تھی اور اسے ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتی تھی۔  اس نے دل و جان سے پیشکش کر دی کہ وہ اس نشان کو مٹانے کے لئے جو تدبیر بھی اپنائے گا، وہ اس کا ساتھ دے گی۔
           
 دنیا بھر سے پیاری جولیانا۔  ڈرو مت۔  میں نے اس معاملے پر بہت سوچ بچار کی ہے۔  اس نشان کو جو تمہاری پیدائش کے وقت تمہاری بائیں گال پر بن دیا گیا تھا، کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے خواہ اس کے لئے جتنا بھی خطرہ مول لینا پڑے۔  یہ نشان تیری خوبصورتی پر سانپ کی طرح  پہرہ دے کر ناپسندیدگی پیدا کر رہا ہے اس لئے اس کو چھٹکارا حاصل کرنے اور تمہارے حسن کی تکمیل کے لئے موزوں اقدامات کی ضرورت ہے۔

جولیانا نے اصرار کیا،مجھے علاج میں ممکنہ خدشات کے بارے میں صحیح صحیح بتا ؤ۔  میں بہادری سے ہر بات سننے کو تیار ہوں۔  ایسا لگتا ہے کہ تم مجھ پر بھروسہ نہیں کر رہے۔  

جانِ عزیز جولیانا۔  مجھے تمہاری عظمت اور قربانی کا احساس ہے۔  اب جان لو کہ میں ہرفن مولا ہوں اور ہر کام کامیابی سے کر گزرتا ہوں لیکن میری بد قسمتی ہے کہ میں نے ایسا تجربہ پہلے کبھی نہیں کیا۔  چنانچہ مجھے نہیں معلوم کہ ا گر کسی وجہ سے ناکام رہا تو کیا ہو گا؟

 تم مجھے اس کی تفصیل کیوں نہیں بتا رہے؟ کیونکہ جان ا  یلمر کیااس کام میں بہت خطرہ ہے؟ جولیانا نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے پوچھا۔

 خطرہ؟  ہاں بہت زیادہ خطرہ ہے۔۔۔عین ممکن ہے کہ پیدائشی پنجہ ختم ہو تو جائے لیکن کوئی ضمنی بیماری پیدا ہو جائے۔  میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو ورنہ تمام کاوشیں بیکار چلی جائیں گی۔
 
آزماؤ، آزما ڈالو ا  یلمر، کر گزرو۔  جو بھی ہو سو ہو۔  سب دیکھا جائے گا، جولیانا نے کہا۔  اس کا نتیجہ خواہ کتنا ہی ہولناک کیوں نہ ہو۔  اگر تم نے نہ آزمایا تو ہم عمر بھر کے لئے دکھی رہیں گے۔  ویسے ا  یلمر،کیا تم اپنے اس علاج کیلئے پرجوش ہو؟  دیکھنے میں آیا ہے کہ اس طرح کے عمل میں مریض کو بہت تکلیف ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس عمل کے درمیان اتنی اذیت اٹھانی پڑ سکتی ہے کہ سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ 

میں مخصمے میں مبتلا ہوں جولیانا۔۔اور کو ئی فیصلہ نہیں کر پا رہا،ا  یلمر نے جواب دیا۔

تم عظیم سائنسدان ہو۔  دنیا تمہاری مداح ہے۔  تم نے نت نئے تجربات سے اپنا نام کمایا ہے۔  مجھے تم پر اندھا اعتماد ہے۔  کیا تم اس داغ کو جسے میں دو انگلیوں میں چھپا سکتی ہوں، اپنے ذہنی سکون کے لئے مٹا نہیں سکتے ہو؟کیا یہ تمہارے علم و دانش، تجربے اور بصیرت سے باہر ہے؟  جولیانا نے جوش دلایا۔  اب یہ فیصلہ حتمی ہے کہ تم میرا علاج کرو گے۔  ہاں!  تم اسے مٹا کر اپنا اور میرا سکون بحال کرو گے۔ 
            
ماضی میں ایلمرنے اپنے کام میں معجزے دکھائے تھے۔  پہاڑوں کے بہت سے پراسرار رازوں سے پردہ اٹھایا تھا۔  علم طب میں جڑی بوٹیوں اور آپریشن سے مہلک امراض میں مبتلا نباتات اور حیوانات  پرکامیاب تجربات کئے تھے۔  اس کا تجسس اسے نئی نئی تحقیقات پر اکساتا رہتاتھا۔  اس کے اندر ہر وقت آتش فشاں کی سی آگ تھی جو اسے نئے مطالعات کرنے کا حوصلہ دیتی رہتی تھی۔  یہاں مشکل یہ تھی کہ اس نے جو تخلیقات کی تھیں، وہ بے جان اشیاء یا حیوانوں پر تھیں۔  اسے اس بات کا علم تھا کہ کائنات لامحدود تھی۔  مطالعات سے کائنات کے رازوں کو سمجھا جا رہا تھا لیکن اس کھوج کی وسعت صحرا میں ذرے کے کھربوں حصے سے بھی کم نوعیت کی تھی۔  اگرچہ روز بروز نئی نئی دریافتیں ہو رہی تھیں لیکن وہ جغرافیائی، زمینی اور طبیعیاتی حقائق سے متعلق تھیں۔  وہ ستاروں تک کی معلومات حاصل کر چکا تھالیکن پہلی بار وہ اپنا تجربہ کسی انسان پر کررہا تھا۔  سابقہ نتائج کی روشنی میں وہ پر امید تھا کہ سابقہ معلومات اور تجربات یہاں مدد کریں گے اور اس بار بھی وہ کامیاب رہے گا، اس کے اختیار سے باہر تھے۔
           
ا  یلمر نے جولیانا کے اس گال کا بوسہ لیا جس پر پیدائشی نشان نہیں تھا اور کہا کہ اس کے لئے ایک طویل مرحلے سے گزرنا ہو گا۔  جس کے بعد امید واثق ہے کہ وہ لازوال ہوجائے گی۔  یہ عمل اسے تجربہ گاہ میں ہی کرنا ہو گا۔  اس دوران اسے آرام دہ کمرے میں کا فی وقت گزارنا ہو گا تاکہ ہر وقت اس کی حالت کا ریکارڈ رکھا جا سکے اورکیمیائی عوامل کے اثرات کے مطابق علاج معالجے میں موزوں تبدیلیاں لائی جا سکیں۔

 اگلے دن ایلمر جولیانا کو اپنی تجربہ گاہ لے گیا۔  وہ اس وقت سرد مہرتھی۔  نامعلوم خوف سے اس پر لرزش طاری تھی۔  اس کی ہسٹری نوٹ کی گئی۔  ایلمر نے پوری توجہ سے اس کے چہرے کا معائنہ کیا اور اسے تسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔  اس کے باوجودبھی جولیانا کوانجانا سا ڈر لگ رہا تھا۔

 میری جان۔  اب ڈرنا بند کر دو، ایلمر نے تاکید کی۔  میں نے نہایت سوچ سمجھ کر وہ ادویات منتخب کی ہیں جو تمہارے لئے بہترین ہوں۔۔تم خود ہی سوچو کہ اگر یہ پیدائشی نشان یونہی تمہارے چہرے پر عمر بھر موجود رہا تو ہر لمحہ تمہارے لئے پریشان کن ہو گا۔  پیدائشی نشان کے ذکر پر وہ ایسے سہم گئی جیسے کسی نے اس پر ابلتا ہوا پانی ڈال دیا ہو۔  ایلمر نے تجربہ گاہ کی ہیئت بدل دی۔  کھڑکیوں کے آگے پردے کر دئیے تاکہ سورج کی روشنی براہ راست جولیانا پر نہ پڑے۔  پھر ایلمر نے جولیانا کو دوائی کی ایک خوراک دی اور وہاں سے چلا گیا جس سے اسے نیند آگئی۔  تھوی دیر بعد جب جولیانا کی آنکھ کھلی توس نے دیکھا کہ کمرہ دھوئیں سے بھرا ہو ا تھا۔  اس میں عجیب سی خوشبو آ رہی تھی جو اس کے اعصاب کو سکون دے رہی تھی۔

 پھر جولیاناکے کانوں میں ا  یلمر کی مدھم آواز سنائی دی۔  وہ امینابا کو دوائی کے بارے میں ہدایات دے رہا تھا۔  اس وقت اس کا لہجہ کرخت تھا۔  ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ غرا رہا تھا۔ اس کی وہ آواز انسانی نہیں لگتی تھی۔  وہ گھنٹوں جولیانا سے دور رہنے کے بعد اس کے کمرے میں آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی شیشی بھی تھی جس میں سنہری رنگ کا سیال موجود تھا۔  اس سے بہت زیادہ خوشبو نکل رہی تھی۔  وہ  مہک دنیا بھر کے تمام عطر ماند کر رہی تھی۔  یہ اتنی تیز تھی کہ وہ جولیانا کونہ صرف مسحور کر رہی تھی بلکہ اس سے راحت بھی محسوس ہو رہی تھی۔

 یہ کیا ہے؟  جولیانا نے شیشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  پوچھا۔  اس کی شکل دلکش ہے اور اس سے اٹھنے والی خوشبو راحت بخش ہے۔  اس کے محلول سے صحت یابی کا تصورابھررہاہے۔

ا  یلمرنے کہا کہ اس شیشی میں جو دوائی ہے وہ جب مخصوص اشیا میں ڈالی جائے گی تو اس میں دھوئیں کے بادل نکلیں گے۔  اس دھوئیں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ مریض کے جسم پر جب اثر انداز ہوتی ہے تو تبدیلی پیدا ہوتی ہے جو لازوال ہوتی ہے۔  ایلمر نے  جولیانا کے سامنے ایک قد آدم آئینہ رکھ دیا جو شاید اس کے علاج کا حصہ تھا۔  جولیانا نے دیکھا تو اس کے چہرے کا پیدائشی نشان چمک رہا تھا۔

ا  یلمرایک دھات کی کٹھالی اٹھا لایاجس میں مٹی تھی۔  اس میں اس نے بھورے رنگ کے بیج ڈالے، پھر گاڑھا تیزاب انڈیل دیا اور رد عمل دیکھنے لگا۔  کچھ دیر بعد ہی اس برتن سے ایک نازک سا تنا نمودار ہوا۔ اس پرمڑے ہوئے پتے نکلنا شروع ہوئے۔  پھر ان کی تہیں کھلنے لگیں۔  ان پر ایک کونپل پھوٹی جو پھول بن کر کھل اٹھی۔ 

تمہیں اس پھول کو توڑنا ہو گا، ا  یلمر نے زور دار انداز میں کہا۔  اس کو ناک سے لگا کر گہرے سانس لے کر اس کی خوشبو سونگھنا ہوگی۔  اس کی زندگی چند منٹ ہے۔  اس کے بعد یہ مرجھا جائے گا۔  بھورے بیجوں سے اگنے والے اس پودے کی حیثیت غیر معمولی ہے۔  اسکا اثر دائمی ہے۔  یہ پھول سونگھنے سے رہا سہا داغ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا۔

 میں اسے نہیں چھوؤں گی، جولیانا نے سہمی آواز میں کہا۔

 نہیں جولیانا!  تمہیں اسے توڑنا ہو گا۔  اسے سونگھنا ہو گا۔  اس کی زندگی چند منٹ ہی ہوگی، ا  یلمرکچھ پڑھ کر مسلسل پھونکیں مار رہاتھا۔

جولیانانے جھجکتے ہوئے پھول توڑ لیا۔ جوں ہی اس نے وہ پھول توڑا تو اس کے پتے اسی وقت سوکھ گئے اور ان کی رنگت راکھ جیسی ہو گئی۔۔وہ اس کے گہرے گہرے سانس لے کر خوشبو سونگھنے لگی۔  اے ایسا لگا کہ اس کے چہرے کا داغ حساس ہو گیا۔  وہی داغ جو ازل سے اس کے چہرے پر موجود تھا لیکن اس کا احساس اسے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔

ا  یلمرپھر بولا، جولیانا!  آئینے میں دیکھو۔

جولیانانے آئینے  یں دیکھا تو ششدر رہ گئی۔  وہ قرمزی پیدائشی نشان بہت مدھم پڑچکا تھا۔  اس کی جڑیں جو اس کی جلد کی بافتوں میں چنی ہوئی تھی، اکھڑ گئی تھیں۔  اس نے مشکور ہوکر ستائشی نظروں سے ا یلمر کی طرف دیکھا۔

 یہ سب یونہی نہیں ہوا۔  یہ سب ایسے ہی ہونا تھا۔  میں نے علاج اسی طرح تجویز کیا تھا۔  اس کا یہی ردعمل ہونا تھا، ا  یلمر نے خوشی سے کہا۔ 

اس نے کیمیا کی ایک طویل تاریخ بیان کی۔۔ اگر فلاں اقسام کے بیجوں پرفلاں قسم کی شعائیں ڈالی جائیں اور فلاں فلاں کیمیا اس میں شامل کئے جائیں تو اس کا ردعمل یہ ہوگا اور اس پر مزید مخصو ص مناجات اورمنتر پھوکے جائیں تو ان کا یہ اثر ہوگا۔  جارجیانا کے پلے کچھ نہ پڑا۔  ایلمر اپنی کسی حد تک کامیاب حکمت عملی پر اترا رہا تھا۔  اس نے کھڑکیوں کے آگے پردوں کو چیک کیا تاکہ سورج کی براہ راست شعائیں اندر نہ آ سکیں اور جولیانا کے چہرے پر نہ پڑیں کیونکہ وہ کیمیا پر اثر انداز ہوکر اس کی محنت اکارت کر سکتی تھیں۔  ایلمر نے اس کی جگہ ایسے لیمپ جلادئیے جن سے رنگ برنگی روشنیوں کے ساتھ خوشبو نکل رہی تھی۔ وہ سکون سے اپنی بیوی کو تکنے لگا۔  وہ مطمئن تھاکیونکہ معاملات درست سمت جا رہے تھے۔  وہ پر عزم تھا کہ وہ  جولیانا کوکامل بنا کر دنیا کے سامنے پیش کردے گا اور اس کے حسن پر شیطانی قوتیں اثر انداز نہ ہو سکیں گی۔  اس کے بعدایلمر نے جولیانا کودوا کی ایک اور خوراک پلائی جس سے وہ سو گئی۔
           
تھعڑی دیا میں جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے ا  یلمرکو دور سے چلاتے ہوئے سنا۔  جولیانا اٹھ کر اس طرف چل دی۔

امینابا۔  امینابا۔۔ ایلمر پاؤں فرش پر پٹخ کر زور زور سے بول رہا تھا۔۔اس کی آواز سن کر پاس والے کمرے سے ایک پستہ قد شخص نمودار ہوا۔  اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرہ  پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔

کیا ہوا؟
           
دروازہ کھول دو، ا  یلمر نے حکم دیا۔

جی اچھا۔ا مینابا بولا۔
           
اس نے دیکھا کہ ا  یلمر کا رنگ زرد تھا۔  وہ مضطرب اور کھویا بھٹی کے اوپر جھکا ہوا تھا اور اس  کے اندر ہوتے کیمیائی عمل کو بڑے غور سے دیکھ کر تجزیہ کر رہا تھا، کہ وہ کشیدہ ہونے والا محلول جولیانا کے لئے تریاق ثابت ہو گا کہ نہیں۔  وہ سخت گرمی میں کام کر رہا تھا۔  اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔  اسکے ارد گرد سلنڈر، کٹھالی او ر کیمیائی تحقیق میں استعمال ہونے والا دیگر مادہ تھا۔  ایک برقی مشین فوری استعمال کے لئے نصب کی گئی تھی۔  عمل کی وجہ سے ہوا میں مختلف قسم کی گیسیں خارج ہو رہی تھیں۔  ا س نے امینابا کو تاکید کی کہ علاج کا ایک اوراہم مرحلہ آگیا ہے۔  نہایت دھیان سے اجزا کو طے کردہ تناسب سے ملائے ورنہ ساری محنت اکارت جائے گی۔  اس محلول سے جولیاناکا باقی ماندہ پیدائشی نشان ایسے مٹ جائے گا جیسے وہ کبھی وہاں تھا ہی نہیں۔

ہو، ہو!  امیناباد نے جوشیلے انداز میں کہا۔  دیکھو! یہا ں کیا ہو رہا ہے جناب؟

ا  یلمر نے تیزی سے اپنی آنکھیں ادھر کیں۔  پہلے اس کا چہرہ سرخ ہوا، پھر پیلا  پڑ گیا پھر تیز قدموں سے جولیانا کے پا س جاکر اس کے بازو کو مضبوطی سے پکڑا جس سے اس کے بازو پر نشان پڑگئے۔

 تمہارے خلل سے اجزا کے تناسب میں گڑبڑ ہو سکتی ہے اس لئے واپس جاؤ۔  تھوڑی دیر بعد میں آرہا ہوں،ا  یلمر نے سختی سے کہا جس پر جولیانا پلٹی اور کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔

چند لمحوں بعد ا  یلمر اس کمرے میں آیا۔  اسکے ہاتھ میں ایک جار تھاجس میں شفاف سیال مادہ تھا۔  اس نے جولیانا کووہ پینے کے لئے دیا جو اس نے غٹاغٹ چڑھا لیا۔  وہ مادہ پینے کے بعد جولیانامیں اضطراری کیفیت پیدا ہو گئی، طاقت کمزور پڑنے لگی اور روحانی قوتوں میں لرزش سی پیدا ہو ئی۔  اس کی نظروں میں ایسا نظارہ پیش آیا جو غروب آفتاب کے وقت آتاہے۔  اس  کے ساتھ ہی اس پر غنودگی طاری ہو گئی۔  ایلمر اس کے قریب بیٹھ گیا اور مشاہدہ کرنے لگا۔  اس نے دیکھا کہ جولیانا کا چہرہ ایک دم تاباں ہو گیا تھا۔  پھر اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔  پپوٹے پھڑپھڑائے اورپورے جسم میں لرزش پیدا ہوگئی۔۔۔  ایلمر نے اپنا عمل جاری رکھا اور منہ میں کچھ پڑھتا رہا۔  جوں جوں وقت گزرا، دوا نے اثر دکھانا شروع کر دیا۔  وہ ہر تبدیلی نوٹ کرتا گیا۔   ایلمر بڑی شدت سے اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کی تپسیا کا انجام کیا ہو گا۔  جولیانا گہری نیند میں بے چینی سے حرکت کرنے لگی اور منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی۔  ا  یلمر نے دیکھا کی اس کے بائیں گال پر پنجے کا ہلکا پھلکا رہ جانے والا پیدائشی قرمزی نشان یکدم چمک کرسنگ مرمر کی طرح سفید گیا اور پھر پوری طرح مٹ گیا۔۔اب وہاں اس کی جگہ ہلکا سا خاکہ رہ گیا تھا۔  وہ اس بات پرنہایت خوش ہوا جیسے اس نے کائنات تسخیر کر لی تھی۔  پیدائشی قرمزی نشان غائب تھا۔

ا  یلمر نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا، داغ ختم ہو گیا ہے۔  اس کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔  میں نے ایک بار پھر قدرت کو شکست دے دی ہے۔  کامیابی۔۔۔کامیابی۔۔۔میں کامیاب ہو گیا!

اوہ!۔۔۔ یہ کیا ہے؟  

داغ کی جگہ معمولی سا گلابی خاکہ بن گیا تھا۔  اس کی تشریح اس طرح سے کی جا سکتی تھی جیسے آسمان پر قوس و قزح چھانے کے بعد جب غائب ہو جاتی ہے تو اس کی ہلکی سی پرچھائیں رہ جاتی ہے۔  وہ  اسے برا لگنے لگا حالانکہ اس کے گلابی عارض میں اس کا پتہ بھی نہ چلتا۔  اس وقت چونکہ جولیانا ادویات کے زیر اثر تھی اوراس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا اس لئے وہ خاکہ نظر آرہا تھا۔  وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس گیا اور پردہ ہٹایا تاکہ سورج کی روشنی اندر آئے اور براہ راست جولیانا کے چہرے پر پڑے۔  اسی دوران اس نے ایک کھردرا سا قہقہہ سنا جو امینابا اس وقت نکالتا تھا جب عمل کامیاب ہو جایا کرتا تھا۔

تم نے میرا پوری طرح ساتھ نبھایا ہے، میری بہت خدمت کی ہے امینابا۔  اس علاج میں تم نے بھرپور انداز میں میری معاونت کی ہے۔  قہقہے لگاؤ۔  تم نے قہقہے لگانے کا حق حاصل کر لیا ہے!  ا  یلمرمسرت سے جھومتے ہوئے بولا۔

ان کی اس گفتگو سے جولیانا جاگ اٹھی۔  اس نے اپنی آنکھیں دھیرے دھیرے کھولیں او ر سامنے پڑے قد آدم آئینے کی طرف دیکھا۔  اس کے چہرہ  بوجھل تھا۔  ہلکا ساپیدائشی قرمزی نشان اب مکمل طور پرغائب ہو چکا تھا لیکن اس جگہ پرچھائیں سی نظر آرہی تھی۔ 

جولیانا نے ا  یلمر کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا اور بڑبڑایا، اے دنیا کے سب سے پیارے شخص!  دنیا کے عظیم ترین، معروف، مخلص اور جی بھر کر پیار کرنے والے شوہر۔۔۔تم نے پوری دیانتداری سے میرا ساتھ نبھایا ہے۔ 

جا ن جا ناں!  میرا علاج کامیاب رہا ہے۔  اب تم کامل ہو گئی ہو اور تم نے پیدائشی قرمزی نشان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پا لیا ہے!  ا  یلمر خوشی سے تقریباچلاتے ہوئے بولا۔  بس اب یہ آخری دوا پی لو جس سے یہ پرچھائیں بھی ختم ہو جائے گی۔  پھردنیاوی خواتین تو کیا، حوریں بھی تمہارے حسن کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔  تم اب کامل ہو جاؤ گی۔ 

جولیانا نے دوائی پی لی۔

پیارے ا  یلمر!  جولیانا نے بوجھل من سے انتہائی محبت اور نرمی سے کہا، شکر ہے تمہار ارادہ پایہ ء تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔  تم نے اپنا مقصد حاصل کر لیاہے۔  یہ ایک خالص، پاکیزہ اور عظیم مقصد تھا۔  تم نے قدرت کو شکست دے دی۔  ا  یلمر! پیارے ا  یلمر!  لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ میرا جسم بے جان ہو رہا ہے۔  ایسا لگ رہا ہے کہ روح میرا ساتھ چھوڑرہی ہے۔

 کیا؟! کہو یہ سچ نہیں۔  اب تو اصل زندگی گزارنے کا مزا آئے گا۔  اب تم ہر لحاظ سے مکمل ہو گئی ہو۔  اب تم میں دنیا کی کوئی طاقت تمہاری خوبصورتی میں ہلکی سی خامی بھی نہیں نکال سکتی۔  حوریں بھی تمہاے سامنے ہیچ ہیں۔

ماں کے پیٹ میں میری روح اور جسم میں قدرت نے پیوند کاری کر دی تھی جو پائیدار تھی اور کبھی نہ جدا ہونے والی تھی۔  اس پیدائشی نشان کی بدولت روح اورجسم کا  اٹو ٹ ربط قائم کر دیا گیا تھا۔  اب چونکہ اس پیدائشی نشان کا سانچہ جڑسے اکھڑ گیا ہے تو اس سے جسم اور روح کا رشتہ منقطع ہو گیا ہے۔  وہ تعلق جو قدرت نے قائم کیا تھا، ٹوٹ گیا ہے۔  جسم اور روح میں یگانگت نہیں لگ رہی۔  ایسا لگ رہا ہے کہ روح میرا جسم چھوڑ رہی ہے۔  جسم اور روح کا تعلق ختم ہو رہا ہے۔ 
           
 تمام تر علاج معالجے اور منتروں کے باوجود جولیانا کی روح قبض کر لی گئی۔  جو کامیابیاں ا  یلمر نے کائنات کو توڑنے میں حاصل کی تھیں، وہ کرچی کرچی ہو گئیں۔  وہ ایسے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا جو بالکل ناممکن تھا لیکن قدرت کے 
ا پنے ہی فیصلے ہو تے ہیں۔  ا  یلمر کامیاب ہونے کے بعد بھی بازی ہار گیا تھا۔

سوانعمری

 ’نیتھینیل ہاتھارن‘ 1804 میں ’سیلم میساچوسٹس،نیو انگلینڈ‘  میں پیدا ہوا۔  اس کے والد کا نا م ’نیتھینیل ہے تھارن‘  اور والدہ کا نام’الزبتھ کلارک میننگ‘ تھا۔  میساچوسٹس نیو انگلینڈ امریکہ کی ان چھ ریاستوں پر  مشتمل ہے جہاں سترہویں صدی میں شہنشاہ چارلس کی متعارف کردہ کیتھولک عقیدے(لندن کلیسا) سے بغاوت کرکے ہالینڈ، نیو ہا لینڈ،آسٹریلیا، آئر لینڈ اور انگلینڈ سے ہجرت کرکے شمال مشرقی امریکہ کی چھ ریاستوں ورماؤنٹ، مین،نیو ہیمپشائر، میساچوسٹس، رہوڈ اور کنیٹی کٹ آکر آباد ہو گئے۔  اس کے علاوہ بہت سے لوگ شمالی اور جنوبی کیرولینا کی طرف بھی بس گئے۔  ان دنوں امریکہ پربھی برطانیہ کا راج تھا۔
           
ہاتھارن کے آباؤ اجداد اور پروٹسٹنٹ شہنشاہ چارلس، ہنری ہشتم اور ملکہ الزبتھ اول کے ادوار میں مذہبی آزادی کی خاطر ہالینڈاور آئرلینڈ سے نقل مکانی کرکے میساچو سٹس سے ہزاروں کی تعداد میں آ باد ہوئے۔  1604سے21-1620 تک اور بستیاں قائم ہونے کے ساتھ آہستہ آہستہ منتقل ہوتے رہے۔  ان کو یورپی ادب میں حاجی(پلگرم) کہا جاتا ہے جبکہ دراصل وہ مہاجر تھے۔  اسکے آباؤ اجداد اپنے علاقے میں ممتازمقام رکھتے تھے۔  ان کے نزیک طرزحیات مکمل طور پر انجیل مقدس کے صحیفوں میں دیئے گئے طریقوں کے مطابق اپنانا ہی صحیح تھاجبکہ برطانیہ میں شہنشاہ چارلس نے رسوم و رواج میں جو تبدیلیاں کر دی تھیں،وہ ان کے نزدیک بنیادی عقیدے کے برعکس تھیں جسے پروٹسٹنٹ نے قبول نہ کیا اور مذہبی آزادی، عبادات کے آداب، تقریبات میں رسوم و رواج صحیفوں میں بیان کردہ طریقوں سے انجام دینے کی خاطر نیو انگلینڈ آباد ہو گئے جہاں ا ن کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزاد ی تھی۔  بعد از مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ روزگار کی تلاش میں بھی لوگ آنے لگے۔  ملکہ الزبتھ اول نے طنزیہ طور پر ان مہاجرین کو پیورییٹن یا پیوریٹینزم کا نام دیا جو بعد میں مستقل نام پڑگیا۔  آباد کاری کے بعدانہوں نے فصل کاٹنے کے دوران شکرانے کے طور پر ایک رسم متعارف کروائی  جسے’تھینکس گیوونگ‘ کہا جاتا ہے جوموجودہ دور میں کاشتکاری کے دوران بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔  یہ علاقے سیاہ فام لوگوں کو غلام رکھنے کے حق میں تھے اور انہوں نے خانہ جنگی میں غلاموں کی آزادی  کے خلاف جنگ میں بھی حصہ لیا۔  عصر حاضر میں  نیو انگلینڈکنزرویٹوو سیاسی جماعت کا گڑھ ہیں۔
           
ہاتھارن کا والد ’ہے تھار ن‘ بحری جہا ز کا کپتان تھاجو اس وقت فوت ہو گیا جب وہ چار سال کا تھا۔  اس کی والدہ’الزبتھ میننگ‘  ایک متمول تاجر خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔  باپ کی وفات کے بعد اس کی والدہ اسے اپنے والدین کے ہاں لے گئی۔  اس کے نانا ’رچرڈ میننگ‘ نے اپنے مینشن میں اس کے آٹھ بہن بھائیوں کی بہترین انداز میں پرورش کی۔ 1853  میں نانا کی وفات کے بعد اس کے ماموں ’رابرٹ میننگ‘ نے اپنے والد کا کاروبار سنبھالا اور ان کا کفیل بن گیا۔  اس کے مطابق میننگ مینشن میں اس نے جو وقت گزارا وہ اس کی زندگی کا بہترین دورتھا۔  اس کے بر عکس وہ اپنے والد کے خاندان سے ان کی بدنامی کے باعث اجتناب برتتا تھا کیونکہ اس کا دادا جو پادری تھا، بدکردار تھا۔  اس نے ان سے قطع تعلق کر لیا، یہاں تک کہ اس نے اپنا خاندانی نام بھی تبدیل کر دیا تھا اور ہے تھارن کی جگہ ہاتھارن لکھنے لگا۔

ہاتھارن نے 1825میں باؤڈن کالج سے ڈگری لی۔  وہ اشرافیہ کی یونیورسٹی تھی۔  اس کے کئی دوست حکو مت  کے اعلی درجوں پر فائز ہوئے جن میں ایک کلاس فیلوجب امریکی صدر منتخب ہوا تو اسے لیور پول میں حکومت امریکہ کا کونسلر بنا دیا گیا۔  اس کا دور چودہویں پندرہویں صدی کے ادبی دور (گوتھیک دور) کی طرح سیاہ رومانیت اور رومانیت کا دور تھا۔  (سیاہ رومانیت بھی دراصل رومانیت ہی تھی لیکن اس میں محبت میں منفی عوامل، جادو، آسیب اور جنتر منتر پیش کئے جاتے تھے۔)  اس نے ایڈگر ایلن پو اور ڈی ایچ لارنس کی طرح کا ادب لکھا۔  وہ فطرت کو اپنے علم کے زور سے تبدیل کرنے کی خواہشات کا اظہار کرتا تھا۔  اس کی اہم تصانیف میں ’سکارلٹ لیٹر (1850)‘ بہترین خیال کی جاتی ہے۔  اس کی دیگر تصانیف میں ’ینگ گڈ مین، دی ہاؤس آف دا سن، دی برتھ مارک، دی منسٹرز بلیک وش، دی گڈمین براؤن،  ٹوائس اولڈ ٹیلز اور ریپی ڈاٹر‘ ہیں۔  وہ 1864   میں ٹی۔ بی کی بیماری سے ’پلے ماؤتھ نیو ہیمپ شائر،نیو انگلینڈ‘میں فوت ہوا اور وہیں دفن ہے۔
            

Popular posts from this blog