راہ فرار Walking Away By Philip ‘O’ Ceallaigh

 


 

راہ فرار

Walking Away

By

Philip ‘O’ Ceallaigh

   مترجم :  غلام  محی الدین ج

اس کاٹیلیفون نمبر پاجامے میں رہ گیاتھاجواس نےا س شام جنازے میں پہناتھا۔وہ اس خاتون کونہ جانے پچھلے دو ہفتوں سےکیوں نہ بھلا سکا تھاحالانکہ اس کی اس میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں تھی۔یہ موسم خزاں کےآخری ایام تھے۔دن روزبروز چھوٹے ہورہے تھے۔ درختوں کاسبزہ سوکھ رہاتھا۔شاخوں اور پتوں نےجھڑناشروع کردیاتھا۔ا س کے بعد سردیوں کا آغاز ہوجاناتھا ۔اور شہروں ،لوگوں ،درختوں ۔۔۔سب کی گرم جوشی کم ہورہی تھی۔ گرم کپڑے جو ایک عرصے سے کھونٹیوں پرلٹ تھے،نکال لئے گئے تھے اور پینٹ کوٹ پہنے جانے لگے تھے۔بسوں اور ٹراموں کی آمد ورفت کا شیڈول اس موسم میں بدل کر پہلے سےکم کر دیاگیاتھا ۔جب وہ انہیں سڑکوں پر دوڑتے دیکھتا اتو اسے کوفت ہوتی تھی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے لوگوں کو سہل بنا دیا ہے۔ا س سے ا ن کی صحت بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔بحالت مجبوری تو اسے اچھالگتا تھان پر سفر کرنا چاہیئے۔اس کولمبی سیر میں لطف آتاتھا۔جب وہ تاریک اور سرد گلیوں سے گزرکراپنے اپارٹمنٹ جایاکرتاتھا ۔وہ عمارت جس میں وہ رہتاتھاکے باہر سے ہی قبرستان تھا۔ ہرشام وہ یہ نوٹ کرتا کہ دروازے پرہاتھ سے لکھی ہوئی طویل فہرست ہوتی تھیں ۔ جب بھی وہ انہیں پڑھتاتوسوچتاکہ کتنی اچھی بات ہوگی اگر وہ ان پرعمل کرے ۔اپنی مصروفیات، دنیاداری یا کاہلی کی وجہ سے وہ نہ توان ہدایات پر اور نہ ہی اپنے گھر پرتوجہ دےسکاتھا۔اس وقت اس نے فیصلہ کیاکہ وہ گھر کی صفائی کرے گا۔اس نے اپنے پروگرام کے مطابق فرش صاف کیا ۔پلیٹیں دھوئیں ۔ایک سینڈوچ کھایا، ایک بوتل اور گلاس پکڑتے ہوئے شہر کی روشنیوں کو اپنی ایک کھڑکی کےپاس کھڑاہوکردیکھنے لگا۔ سٹریٹ لائٹس، حرکت کرتی ہوئی گاڑیاں اور جگ مگ کرتےقمقمے ٹمٹما رہےتھے۔اونچی عمارات اور کھمبوں پر اشتہارات تھے۔ایک عمارت پر اس نے جو اشتہار دیکھا،وہ میک بیئر کاتھا۔شہر کے دائرے کوتبدیل کیاجارہاتھا۔نئی بننے والی دفتری عمارت اوپر سے اوپر جاتی جارہی تھی ۔پرانے شہر میں نت نئی تبدیلیاں کرکے تنوع پیداکیاجارہاتھا۔زندگی اتنی ہی جوان ہوتی جارہی تھی۔

کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اسے یاد آیاکہ جنازے میں شرکت کےوقت قبرستان جاتے ہوئے وہ خاتون آہستہ آہستہ اس کے نزدیک آتی اور تیزی سے گفتگو کرنے لگتی ۔اسے ایسالگاکہ وہ جوبھی کہہ رہی تھی ،اس میں سنجیدہ نہیں تھی،لیکن اس نے محسوس کیا کہ جب بھی وہ اس کےپاس آتی غیر محسوس طریقے سےاس کیاس کی کہنی اس باربار چھو جاتی تھی۔ان سوچوں میں بوتل ختم ہوگئی تھی۔

وہ اب اتنی جوان نہیں رہی تھی لیکن وہ بھی تو نہیں رہا تھا۔ کسی عورت کےساتھ وقت گزارے اسے کچھ عرصہ ہوگیاتھا۔شائد اس لئے وہ بار بار ذہن میں آ جاتی تھی۔۔اس خاتون کی دعوت سیدھی سادھی اورواضح تھی ۔وہ اس کےہونٹوں کاتصور ذہن میں لایاجواب پہلےسےموٹےہوگئےتھےلیکن وہ سیکسی تھے۔جنازے میں چلتے چلتے اس کے ہاتھ کسی ابھری شئے سے ٹکرائے جو سخت تھی۔اس نے دیکھاتووہ اس کی چھاتی تھی۔اس نےاس پرکوئی اعتراض نہ کیا۔۔۔اس نے خودکو دوبارہ خیالوں سے آزاد کیااورحقیقت پسندانہ انداز میں سوچنےلگا۔اس شام جنازے سے دوہفتوں بعدایک دن اس نےاس خاتون کو فون لگایا۔اس کی آواز سن کروہ خوش ہوئی اوراسے فوری طورپر اپنےگھرمدعوکرلیا۔اگرچہ صبح ابھی زیادہ نہیں ہوئی تھی اس کے پاس پہنچنے کے لئے پورا دن تھا۔اس لئےوہ آہستہ آہستہ تیارہونےلگااورٹیکسی نہ بلائی۔اس نے ایک بس پکڑی جوٹرام کےسٹاپ کےپاس رکتی تھی جس کاروٹ اس خاتون کے گھرکے نزدیک تھا۔بس سےاترکر اس نےٹرام کاانتظارکیا۔پندرہ منٹ بعد اس کےگھرجانےوالی دو ٹرامیں بیک وقت آ کر رکیں لیکن اس کاموڈ ان پرسوارہونے کانہ بنا۔اس کےپاؤں سردی سے ٹھٹھررہےتھے ۔جب اسےلگاکہ اس کےروٹ کی مزید ٹرینیں اب نہیں آئیں گی تواس نےٹیکسی پکڑی اور اس کے علاقے میں جا پہنچا ۔ اس نے دروازوں پر لکھےنمبرپڑھنا شروع کئےاورجب وہ اس کے گھر کے نمبرپر پہنچا تووہ اس کےلان میں داخل ہوااورگھنٹی پرہاتھ رکھ دیا۔وہ ایک پراناگھرتھا اور وہ ایک منزلہ بڑی عمارت تھی۔،لیکن بڑی اچھی طرح سجایاگیاتھا۔خاتون نے ہنستے ہوئے دروازہ کھولا۔وہ اندرداخل ہوگی اپنا کوٹ اتارا اور کھونٹی پرلٹکایا۔ دیرسے پہنچنے کی معذرت کی۔اس پراس نے ایسے جوش و خروش سےقہقہہ لگایا جووہ سننےکوترس گیاتھااور کہاکوئی بات نہیں۔ جس روز وہ جنازے کےہجوم میں تھاتو وہ خودکوسن نہیں سکتی تھی کیونکہ زیادہ لوگوں کی موجودگی میں اس کی آوازدب جاتی تھی۔ان کےدرمیان فاصلہ تھا لیکن باتیں ہوتی رہیں۔کبھی وہ چل کراس کے پاس آجاتی۔اس نےمستقبل میں ملاقاتوں کامشورہ دیااوربتایاکہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔لیکن اس کاخیال تھاکہ وہ اس کے مزاج کے مطابق نہیں تھی ۔وہ اس کےساتھ دیرپا تعلقات قائم نہیں کرسکتاتھا۔۔۔لیکن شہوت سے مجبور ہوکر اب وہ اس کے گھر پہنچ گیاتھا۔

وہ ہال سے گزرکردیوان خانےمیں داخل ہوئےجہاں ایک صوفہ پڑاتھا۔اس کےسامنےٹی وی تھاجس کی آواز خاتون نے بہت آہستہ کردی تھی ۔کمرے میں رومانیت پیدا کرنے کے لئےاسے نیم تاریک بنادیاگیاتھا۔ یہ کمرہ ایک دوسرے کمرےسےجڑاتھاجہاں عمدہ فرنیچرپڑا تھا جوقدیم طرز کاسدابہارمقبول اورمہنگاتھا۔ اس نے اس گھر میں حال میں سکونت اختیار کی تھی۔ ایسالگتاتھاکہ اس کمرےمیں اب کوئی نہیں رہتاتھا۔ اسے کرائےپرلینے سےپہلے ایک بزرگ وہاں رہاکرتاتھا۔

انہوں نےچھوٹے کمرے میں جواس نے خصوصی طورپرتیارکیاتھا ،میں قیام کیااوراس نے اسےاس کرسی پرجو عجیب طریقے سے ٹیڑھےزاویےمیں رکھی گئی تھی ،پربیٹھنے کوکہا۔اس کرسی کی نشست بہت اونچی تھی جیسے کہ عجائب گھرمیں نمائشی کرسیاں یاکسی تقریب میں صدارتی کرسی ہوتی ہے۔اس پروہ بیٹھا تووہ غیرآرام دہ تھی ۔وہ وہاں سے صوفےپراسکےپاس آکر بیٹھ گیا۔شراب کی بوتل کھول لی جووہ اپنےساتھ لایاتھااورخاموشی سے ٹی وی پر چل رہی فلم تکنےلگا۔اس میں نظارے اتنی کاریگری سے پیش کئے گئے تھےکہ وہ مصنوعی لگ رہے تھے۔اس دوران وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔

خاتون امیرتھی ۔اسے پیسہ کھینچنےکے گرآتے تھے۔اوریہ بھی صحیح تھاکہ وہ سونےکاچمچہ لےکرپیداہوئی تھی اورکرنسی کی قدروقیمت بڑھانا جانتی تھی۔اسے اپنی اعلیٰ حیثیت کابرملا اظہار بھی کرتی تھی۔وہ نفیس قیمتی پوشاکیں پہنتی،ہمیشہ بہترین ہوٹلوں میں ٹھہرتی تھی اور مہنگی ترین کلبوں میں جاتی تھی۔ایک جام نوش کرنے کے بعد اس نےبتایاکہ جوانی میں اس نےایک ناول بھی لکھاتھا۔وہ اٹھی اور الماری سےایک صندوق نکالا اورکھولا۔اس میں اس کاناول کامسودہ تھا لیکن وہ چھپانہیں تھا۔اس کےکاغذات بے ترتیب تھے اوربکھرے ہوئے تھے۔اس نے اوراق پلٹے اور ان پرنظردوڑانے لگی۔اس نےکئی ہزارالفاظ دیکھے،اوراپناسر ہلایالیکن بولنےکے لئے اسےموزوں الفاظ نہ ملےاور ان اوراق کودوبارہ بندکرکے ڈھکن پرتالہ لگادیا۔پھراس نے اسے ایک پرانااخباردکھایاجس میں اس کی کسی زمانے میں دونظمیں چھپی تھیں۔ایسالگتاتھاکہ وہ عمدہ تھیں لیکن وہ اس کی تشریح نہیں کرسکتاتھاکیونکہ ان میں استعمال کئےگئے کچھ الفاظ اور تصورات وضاحت طلب تھےیاوہ اس میں اس طرح کےجذبات واحساسات پیش کئے گئےتھےجن میں اسے دلچسپی نہیں تھی۔وہ لہک لہک کر اپنی مہم جوئی بیان کررہی تھی ۔ اس نے اپنی ایک مہم کےبارے میں بتایا کہ اس نے خانہ بدوشوں کےایک گروہ کےساتھ ننگےپاؤں گلی کوچوں میں کوچہ کوچہ بھکارنوں کےساتھ اجنبیوں کے ساتھ جسم فروش کی تھی۔۔وہ اس فن میں یکتاتھی۔وہ خوشحال تھی ۔اسےروپیہ پیسہ کی ضرورت نہ تھی لیکن اس نے زندگی کےاس رخ کا تجربہ کرنے کےلئے یہ کیاتھا۔اس نےشوقیہ اداکاری بھی کی اورسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لیا ۔ایک باراس نے بازارمیں سبزیوں کاٹھیلابھی لگایاتھااوراس کی تصاویر دکھائی ئیں جس میں وہ سبزیاں بیچ رہی تھی۔اس نےاپنی زندگی کے دیگر واقعات بھی مرچیں لگا لگاکرسنائے۔ملاقات میں زیادہ تروہ ہی بولتی رہی اوروہ صرف اس کی باتوں پرسر ہلاتارہا۔اس نے اس کے سامنےخودکوہرطرح سےپورا کھول کے رکھ دیاتھا۔وہ اس کےساتھ اس کی گفتگو میں حصہ لے کراپنی زندگی بھی تفصیلاًبیان کرنا چاہتاتھا لیکن اس خاتون کے مقابلے میں اس کی مہم جوئی نہ ہونے کے برابر تھی۔اس لئے اس نے خود کواس قابل نہ پایاکہ وہ اپنی رودادبیان کرسکے۔اسے احساس ہواکہ اس کےپاس بتانے کوکچھ نہیں تھا۔وہ سمجھتاتھا کہ اس نے اپنی زندگی جس طرح گزاری تھی اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جوقابل ذکرتھی۔

لےدے کے جوبات مشترکہ دلچسپی کاباعث تھی وہ ان کی ملاقات اور بڑھتے تعلقات کی کہانی تھی ۔اس نے وہ موضوع چن لیا ۔وہ حالات بیان کرناشروع کردئیے جن میں وہ اس سےپہلی بارملی تھی لیکن اس نےسوچا کہ وہ اس واقعے پرزیادہ بات نہیں کرسکتاتھاکیونکہ اس کےپاس موزوں الفاظ نہیں تھے۔اس لئے وہ قصہ اس نے جلد ہی ختم کرلیا۔ لیکن بعد میں ایک لمحہ ایساآیا جس میں اس نے سوچاکہ وہ اس قابل تھاکہ اس موضوع پر بول سکے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب وہ گلی میں کھڑے تھے۔وہاں انہیں ایک گیند اور دو بلیاں نظرآئیں ۔وہ جھاڑیوں میں کھیل رہی تھی ،لڑرہی تھیں،اور مکمل طورپر وہاں رہائش اختیارکی ہوئی تھی ۔۔ایساہی چلتاہےاس نے سوچا۔ سب کچھ ایسے ہی رہناچاہیئے۔ایسی زندگی گزارنے کامزہ ہی کچھ اورتھا: اس نے خواہش کی کہ وہ ایسی زندگی گزارے۔وہ واقعی ایسا چاہتاتھا۔اس کےنزدیک زندگی کے یہی معانی تھے۔اس کواس وقت اپنی ڈھلتی عمر یاد آگئی جس کی شیرینی روز بروز کم ہورہی تھی۔تکالیف اور مشکلات مسلسل بڑھ رہی تھیں۔یہ سوچ کر اس کی اداسی میں اضافہ ہوگیا۔وہ ان بلیوں کےبارے میں سوچتاتھااور یہ اس کی خواہش کےعین مطابق زندگی گزار رہی تھی ۔ان کی طرز حیات سے اس کی زندگی کامقصد واضح ہوگیاتھا۔

بوتل ختم ہوگئی۔۔۔خاتون نے صرف ایک گلاس پیاتھا۔اس نے ایک عجیب حرکت کی۔یہ باہمی رضامندی سے تھی اوروہ دونوں خواب گاہ میں چلےگئے۔تاریکی میں وہ بغیرکپڑوں کےکئے،اس کی اس وقت عمرکیاتھی یاوہ کیسی دکھائی دےرہی تھی وغیرہ کی باتوں اور وہ اپنے آپ کوبھی بھلابیٹھا،یہ وہ جذبات تھے جواس پر حاوی تھے اور وہ اس وقت یہی چاہتاتھا۔وہ گزرے کل کوبھول گیاتھا اور آنےوالے کل کی فکرنہ تھی۔ان کےسائے حرکت میں تھے ایک عجیب وغریب کمرے میں اور وہ ایک دوسرے کی فوری ضرورت بن گئےتھے۔اور پھر کھیل ختم ہوگیااور سوگئے۔صبح اس وقت جاگے جب پوری روشنی نہ ہوئی تھی،وہ بڑی خاموشی سےاٹھااورکپڑے پہننےلگاتووہ اٹھ بیٹھی اوراصرارکیاکہ وہ کافی بنائےگی۔اس نے نیم تاریکی میں جلدی سے اس کےساتھ بیٹھ کر کافی پی ،اورغیر ضروری گفتگونہ کی۔وہ وہاں سےجلد واپس جاناچاہتاتھااورواپس نہیں آناچاہتاتھ۔اسے پچھتاواتھاکہ وہ وہاں کیوں آیا۔۔

اس نے خالی کپ پرچ پررکھ دیا۔اس نےاسے کہا کہ وہ مزید کچھ دیرکےلئےرک جائے لیکن اس کا ذہن ماؤف تھاچند لمحوں بعد وہ خود میں کچھ طاقت محسوس کرنے لگاوراس کا سویاہوا دماغ مستعد ہونے لگاتھا۔اس نےسوچاجب اس نےاپناکوٹ پہنااوراس کابوجھ اس کے کندھوں پرمحسوس ہوااوروہ اس کے ایک طرف کھڑی تھی جیسےوہ مزید کچھ دیر اپنی بانہوں میں بھرناچاہ رہی ہو۔اس نےاپنی جیب سے اپنے بٹوے کوتھپکی دی،اسے الوداع لہا،اسے چوما اوردروازے سے باہرنکل گیا۔اس کےپیچھے دروازہ زوردارطریقےسےبندکیا ۔وہ مطمئن کرنےوالی آواز تھی ۔ وہ پیدل چلنے لگا ۔صبح کےا س پہر بیرونی فضا سرد تھی ۔اس نے گہراسانس لیاتو اسےاچھالگا۔رات کہر اور برف جمی ہونے کی وجہ سے زمین اکڑی ہوئی تھی اوربرف سے پھسلنے کاشدید خطرہ تھا۔مکمل برفانی موسم شروع ہونے میں ابھی چندہفتے باقی تھے۔اس کےدروازے کےباہر ایسالگ رہاتھاکہ شہرجاگناشر ہوگیاتھا۔آمدورفت شروع ہوگئی تھی۔اس نےایک قدم آگےبڑھادیاتھا او اٹھک بیٹھک کرنے لگا ۔ٹھٹھرنے سے ابچنے کے لئے حرکت کرتے رہناچاہیئے ۔

اس نے اپنی جوانی میں بہت سے ممالک کی سیرکی تھی۔اس خاتون نے ا س سے زیادہ ممالک کی سیرکی تھی۔سیروسیاحت کےدوران اس نے ہرجگہ کے قصے ،تاریخی مقامات دیکھے تھے ،وہ ان کا ایک مشترکہ موضوع تھا ۔ اس پر باتیں کرتے رہے۔جو اسے یہ سوچنےپرمجبورکرتے تھے کہ ایسے مقامات،جس کےبارے میں متفقہ رائے پر مغالطے پیدا نہیں کرنے چاہیئں ۔بلکہ وہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتارہا ۔اور یہ فقرہ کہتا رہا کیا کہ اس سے آگے کیاتھا؟اس سےآگے آسماں اور بھی تھا۔لیکن وہ دراصل یہ سوچ رہاتھا۔یہ کتنی بیوقوفی کی بات تھی،کہ وہ اس کے پاس بیٹھا تھا۔ اپنی ہوس پوری کرنے اس کے پا س آیاتھا جو کسی لحاظ سے بھی اس کی طبیعت کے مطابق نہیں تھی۔

ہم اس وقت کس مرحلے پرکیوں تھے ؟ ا س نے اپنی نفسانی خواہشات کی خاطر اپنے اصولوں سے کیوں مفاہمت کرلی ۔ وہ بھی ایک غمزدہ ماحول میں جنازے کے دوران۔۔۔۔ہم سب کو مرنا تھا ۔بدی سے لوٹ آنا چاہیئے ، وہ اپنی نظریں فرش پر ٹکائے سوچ رہاتھا۔اس کےمن میں یہی آیا،جب وہ قبرستان کی طرف کئے گئے اپنےدوست کی تدوین کےلئے جوکہ ایک انمول شخص تھا،عمدہ اور سخی تھا۔اور مستقبل کےلئےپرامیدتھااوراس پرکھلےوچاررکھتاتھایااس نے مستقبل میں اپنی زندگی کےبارے میں خودکوکس مقام پرپایاتھا۔اس کےپاس کوئی الفاظ نہیں تھےجوالفاظ میں بیان کرسکےکہ اس کےساتھ کیاکیاواقعات پیش آئےتھے جوکہ کسی لحاظ سےبھی کھوکھلے ہوسکتے تھے۔وہ جذبات کی رومیں بہہ گیا تھا لیکن مباشرت کے مواقع حاصل کرکے اپنا ضمیر سلادیاتھا۔خصوصی طور پر اسے اپنے عزیز دوست کے جنازے پر نہیں سوچنا چاہیئے تھا۔ ۔و ہ بھٹک گیاتھا۔اس نے عہد کیاکہ وہ قبرستان پر لکھی ہدایاتپر عمل پیراہوگااور بدی سےراہ نجات حاصل کرے گا۔

اس پیچیدہ مسئلے کاسادہ حل ا س نے ا س وقت جب وہ باغ سے گزرتاہواپنی گلی میں قبرستان کی دیوار کے سامنے پہنچا تو تو کے ضمیر نے فیصلہ کیا کہ گناہوں سے راہ فرار

اختیار کیا جائے،

 


Popular posts from this blog