نیلامی (The Bid) By: Edna Alford (1947 --) Canada

 







نیلامی

(The Bid)

By: Edna Alford

(1947 --) Canada



پیش کار:    غلام محی  الدین

 


قیسی  (Cassi)  کینیڈا میں تعلیم و تدریس اور تحقیقی شعبے سے منسلک تھی۔ اسے لسانی علوم 

( Linguistics ) سے  جنون کی حد تک دلچسپی تھی۔ کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ علم لسانیات

 کے فروغ کے لئے شہر شہر کوچے کوچے کانفرنسوں میں جاتی رہتی تھی۔ اہم قومی اور بین الاقوامی

 کانفرنسوں میں حصہ لیتی، لسانی ارتقاء کے مراحل اور اثرات وغیرہ  اس کے پسندیدہ موضوعات

 تھے۔تین سال پہلے مشرقی ممالک میں، پچھلے سال سان فرانسیسکو (San Francisco)کی

 کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ امسال وہ یہاں روس کے دارالخلافہ ماسکو ( Moscow ) میں اپنا

 فکری مکالمہ پڑھنے آئی تھی۔ وہ لسانیات میں ایک معتبر نام تھا۔ اس کی اہمیت اس کانفرنس میں اس

 لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اس کا آبائی وطن روس تھا۔۔ قیسی کا بچپن اور جوانی کا کچھ حصہ ماسکو میں ہی

 گزرا تھا۔ یونیورسٹی کی پہلی ڈگری بھی وہیں حاصل کی پھر انگریزی ادب میں مزید تعلیم کے لئے

 امریکہچلی گئی۔ وہاں سے کینیڈا کی شہریت حاصل کر لی۔ خصوصی مندوب کی حیثیت سے اس کی ذمہ

 واری میرے سپرد کر دی گئی۔

 

ماسکو میں یوں تو مقالہ پڑھنے کے لئے آئی تھی لیکن اپنے آبائی وطن کی مٹی کو چومنا اور اپنی والدہ سے

 ملنا  بھی مقصدتھا۔علاوہ ازیں میں ماضی کی یادیں تازہ کرنا ا چاہتی تھی۔ کانفرنس میں جو تحقیقی مقالے

 پڑھے جا رہے تھے ان کے موضوعات زبان دانی،لب و لہجہ، بولیاں، تلفظ، ہجے، کمیونسٹ ممالک

 میں زباندانی، جمہوریت میں زباندانی، حالتِ امن اور حا لتِ جنگ کے زبان دانی پر اثرات،زباندانی 

 اور تجارت، سول ڈیفنس اور نیوکلیئر وار  کے زباندانی سے تعلقات  پر مقالے پڑھے جانے تھے۔

 

ایک عالم جوہری توانائی، ایٹم بم، تابکاری کے گفتگو پر اثرات سے متعلق مقالہ پڑھ رہا تھا۔وہ  ایٹم بم

 کے جسمانی اور  زباندانی  پر مہلکات بیان کر رہاتھا۔وہ مثالوں  اور تحقیقی مواد سے واضح کر رہا تھاکہ

 متاثرہ مقام سے ہزاروں میل رہنے والے کس طرح سے جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔

 تابکاری لوگوں کو مارتی ہے، زمینوں کو راکھ کر دیتی ہے جہاں صدیوں تک کوئی فصل نہیں اگائی جا

 سکتی۔ر بچ جانے والوں میں طرح طرح کی بیماری کی علامات پیدا کر دیتی ہے۔ سر چکرانا، قے، بد

 ہضمی، پیچش، سر کے بال اترنے اور کینسر، حاملہ عورتوں کے بچوں کاگرنا، مردہ یا معذور پیدا ہونا، ذہنی

 پسماندی  اور گفتگو میں لکنت  عام اثرات ہیں۔یادداشت یا تو ختم ہو جاتی ہے یا اس میں کمی واقع ہو جاتی

 ہے اور یہ اثرات نئی نسلوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس کی سفارشات تھیں کہٓ یسی مہلک ایجادات

 پر نہ صرف کنٹرول کرنا چاہیے بلکہ جو اسلحہ اور او زار بنائے جا چکے ہیں ان کو زائل کر دینا چاہیے تاکہ

 انسانیت کو بچایا جا سکے۔

 

یہ موضوعات غمکین کر دینے والے تھے۔ ان کے بارے میں سوچ کر، پڑھ کر اور سُن کر دماغ ماؤف

 ہو جاتا تھا۔ ایک جگہ اس نے یہ بھی پڑھا تھا کہ ایٹم بم کے ٹیسٹ کے دوران تابکاری اثرات سے بچنے

 کے لئے جو سرنگ بنائی جاتی ہے۔ بعض ریاستیں تو وہ بھی نہیں بناتیں اور ایٹمی تجربہ کر دیا جاتا ہے

 جس سے عام زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ امن پسند خاتون تھی۔ جنگوں کے ہولناک نتائج

 اسے غمزدہ کردیتے تھے۔ وہ اسے سفاکانہ اور جارحانہ اقدامات تصور کرتی تھی۔ مہلک ہتھیار اور

 جواہری اسلحہ کے تابکاری اثرات اورلامحدود تباہی و بربادی کی جانکاری سے اس پر شدید افسردگی

 طاری ہو جاتی تھی۔مقررکی ہولناکیوں کی تفصیل سن کر  وہ بے حد مضطرب ہوگئی۔ اپنی حالت

 سنبھالنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور گھومنے پھرنے  اور اپنی ماں سے ملنے کا پروگرام بنا لیا                 ۔

 

قیسی کی ماسکو سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔یونیورسٹی ڈگری یہاں سے ہی حاصل کی تھی۔ تمام اہم

 مقامات  سے مکمل طور پر واقف تھی۔  دوستیاں دشمنیاں پالی تھیں۔ تلخ و ترش اور شیریں واقعات و

 احساسات بھی جڑے تھے۔ طبیعت کی خرابی سے وہ ہال سے باہر آگئی۔اس کا یہ عمل بے اختیاری تھا۔

 اس کااندازہ تھا کہ گھومنے پھرنے سے وہ خود کوسنبھال پائے گی۔ بے خودی میں ہال سے نکلی اور  اپنی

 کرائے کی کار تک پہنچی۔ پارکنگ کے بائیں طرف  ایک ہوٹل (Bess   Borough Hotel )

تھا جس کے بارے میں اس نے بچپن میں پریوں سے متعلق جو داستانیں سنی تھیں، یاد آگئیں۔ اس

 کے آگے ایک پل آتا تھا جہاں سے وہ بس پکڑ کر اپنے گھر جایا کرتی تھی جو نواحی علاقے میں تھا۔پل

 کے ساتھ جو کثیر منزلہ عمارت تھی۔ اس کاتمام بچپن اس عمارت کے بادامی رنگ کے گنبد میں بند

 تھا۔وہ آج تک اس میں لگائی گئی بندوقوں کو نہیں بھلاسکی تھی۔

 

اسے پرانے دور کی سہانی باتیں یاد آنے لگیں۔ ہیلوئین (Halloween) کے تہوار پر وہ بچوں کے

 لئے تحائف اور چاکلیٹ لے کر ایک بلاک سے دوسرے بلاک جایا کرتی تھی اور بچوں میں نقدی اور

 تحائف بانٹتی تھی او ررسم و روائت کے مطابق گھر گھر جا کر تحائف سے تھیلا بھر کر لاتی تھی۔اس

 جگہ ایک تالاب بھی تھا جس میں سنہری مچھلیاں پانی میں مستیاں کرتی نظر آتی تھیں۔ سکول بس

 پکڑنے سے پہلے وہاں کچھ دیر ضرور رکتی تھی اور ان کا نظارہ کیا کرتی تھی۔ وہ مچھلیاں اب بھی موجود

 تھیں۔ ان کو دیکھ کر ان سے متعلق اسے وہ کہانیاں بھی یاد آگئیں جو اس کی دادی ماں نے ان سے

 متعلق سنائی تھیں۔ 

 

اس نے گاڑی ماسکو کے سب سے حساس علاقے ریڈ سکوائر (Red Square) کی طرف گھمائی

 جہاں کریملن دیوار کے اندر ایک بلند و بالا شان و شوکت والا بہت بڑا قلعہ تھا۔ اس میں ایسے حفاظتی

 اقدامات کئے گئے تھے جس سے ایمرجنسی میں چاروں طرف سے گولیاں برسائی جا سکتی تھیں۔ اس

 کے دور میں تو وہاں بہت سخت پہرہ ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کی نگرانی ذرا نرم کر دی گئی تھی۔ اس

 علاقے میں مذہبی مجسمے بھی تھے جو ابھی بھی موجود تھے۔وہ ماسکو سے پوری طرح واقف تھی اسلئے  بلا

 روک ٹوک آگے بڑھتی گئی۔ جب وہ اولڈ شی اون (Old Sion) اور ایڈل ویلڈ(l(ٰIdylewyے درمیان پہنچی تو اسے گرمی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی جیکٹ اتار دیَ۔ گاڑی سڑک کے

 کنارے کھڑی کی۔ کھلی ہوا میں کچھ دیر آرام کیا اور پھر چل پڑی۔  چلتے چلتے اس بیکری کے پاس پہنچ

 گئی جہاں اپنی ماں کے لئے بیگل (Bagel)  خریدا کرتی تھی۔ اپنی ماں کے لئے وہاں سے بیگل اور کچھ چیزیں خریدیں۔

 

 گاڑی چلاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں پانی آیا تو اسے ایک  واقعہ یاد آیا جب ایک بار بچپن میں اس

 کی آنکھیں خراب ہو گئی تھیں۔ اس کی علامات عجیب سی تھیں جس میں چیزوں کو دیکھ تو سکتی تھی لیکن

 ان کا ادراک غلط ہوتا تھا۔سیاہ چیزیں سفید اور سفید چیزیں چمکدار نظر آتی تھیں۔ تتلی کی شکل جوؤں

 جیسی یا بھوت جیسی، لائبریری کے فانوس جن لگتے تھے۔ اس بیماری سے وہ بے حد خوفزدہ ہو گئی تھی

 ۔    خوش قسمتی سے   اس کی یہ بیماری تین ماہ میں خود بخودختم ہوگئی۔

 

اس کے بعد وہ ہائی وے پر آگئی۔ آگے بڑھتی گئی۔ سڑک کے ارد گرد کے تمام گاؤں، قصبے، شہر اس

 کی انگلیوں پر تھے۔ ایک قصبے میں ایک کلاک نظر آیا تو اسے یاد آیا کہ اس مقام پر پہلے بھی گھڑیال تھا

 لیکن ڈیجیٹل نہیں تھا۔ اُس وقت کلاک پر صبح کے گیارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے۔اس نے گاڑی آگے

 بڑھائی تو آگے ایک پیٹرول پمپ آگیا۔ وہ اتوار کی دوپہر سنسان پڑا تھا۔ ٹینکی بھروا کر آگے چلدی۔

سورج کی روشنی آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی۔ یکدم  اس کی آنکھیں دھندلانے لگی تھیں خدشہ چھانے

 لگا کہ بچپن کی آنکھ کی بیماری کہیں پھر نہ لوٹ آئی ہو۔وہ یہ محسوس کر رہی تھی کہ آنکھوں کی حالت

 اگرچہ اس بیماری جیسی نہیں تھی لیکن کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور تھی۔ آس پاس کی اشیاء دیکھ تو سکتی تھی

 لیکن وہ سب راکھ کی شکل کی طرح نظر آرہی تھیں۔

 

اس کی خواہش تھی کہ  ُ کوچین مقبرے  ُ (Cochine Tomb) جلد از جلد پہنچے، دو اڑھائی گھنٹوں

 کی مسافت پر تھا،کا نظارہ کرے ا اس لئے وہ وہاں پہنچ گئی۔ اس مقبرے میں ایک عظیم الشان گرجا

 گھربھی تھا۔ بجری کے ڈرائیو وے سے ہوتی ہوئی وہ وہاں تک پہنچی۔ کار سے اتری تو شام ڈھلنے کو تھی۔

مسیحی عبادت گاہ کے چار سو خاموشی تھی لیکن اس سے ملحق قریبی جھیل والی خوبصورت عمارت میں

 اس نے بھیڑدیکھی۔ ایک خاتون حضرت مریم کے مجسمے کے سامنے عقیدت سے جھک کر دعا مانگ

 رہی تھی۔ یہ مجسمہ تراشی گئی لکڑی سے بنی تھی جس پرتازہ تازہ پالش کی گئی تھی۔ اِس پالش کا عکس

 تالاب کے پانی میں پڑ رہا تھا۔ اُن میں ایسی خواتین بھی دکھائی دیں جنہوں نے مزدوروں والے لباس

 پہنے  تھے۔ اُن کی جوتیاں ربر کی تھیں اور وہ تنکوں کے ہیٹ پہنے ہوئے تھیں۔سکول کی لڑکیاں بھی

 تھیں جنہوں نے ہاکی کے کھلاڑیوں والییونیفارم پہن رکھی تھی او رپیلے سرخ رنگ کے ربن باندھے

 ہوئے تھے۔ اِن میں لڑکے بھی تھے جنہوں نے لڑکیوں کو تھاما ہوا تھا۔ قیسی نے کوچین کے مقبرے

 کو دیکھا اور پھر چل نکلی۔ رستے میں بہت سے مقامات آئے۔ کار ڈرائیو کرتے ہوئے نظاروں کواپنی

 روح میں اتارتی گئی۔ اس سے اس کی طبیعت میں ہلکا پن محسوس ہوا۔ آگے بڑھتی گئی۔ کافی فاصلہ طے

 کرنے کے بعد اسے غلے کے گودام نظر آنے لگے۔ اُس کے دائیں طرف فیکٹری تھی۔ وہاں ایک

 تختی لگی تھی جس پر میڈو لیک شمال کی طرف  ( North to Meadow Lake ) کا اشارہ  تھا۔

 اسے دیکھ کر اسے یاد آیا کہ وہاں ایک بہت بڑا نیلام گھر تھا۔ سورج ڈھل رہا تھاجِس کی سنہری کرنیں

 دائیں بائیں لمبے درختوں پر پڑرہی تھیں۔ ان کا عکس ایسا  تاثر دے رہا تھا کہ وہ خونخوار کھا جانے والے

 سرخ سرخ دانت ہوں۔ وہ دہکتی ہوئی گندھک کی طرح چمک رہے تھے۔اس نے کار نیلام گھر اور

 سٹور کے درمیان گلی میں پارک کر دی۔ اُس کے بالمقابل امدادِ باہمی اور عقب میں پوسٹ آفس تھا۔

نیلام گھر ایکڑوں پر محیط تھا۔حسب معمول وہاں پرسینکڑوں گاڑیاں پارک تھیں۔

 

جب وہ نیلام گھر داخل ہوئی تو سیاہی پھوٹ رہی تھی۔ لوگوں نے زیادہ تر خریداری کر لی تھی لیکن

 ابھی بھی درجنوں ایسے بلاک تھے جہاں نیلامی ہونا باقی تھی۔ ان بلاکوں (Aisles) کے آڑھتی نے

 کاؤ بوائے ہیٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ دراز قد، درمیانے جسم، داڑھی اور مونچھوں والا تھا۔ اُس نے کالے

 رنگ کی ریشمی قمیض پہنی تھی جس کے نارنجی بٹن تھے۔ قمیض پر پھول کڑھے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ

 لمبا تھا۔ وہ بڑی  مستعدی سے ایک بلاک (Aisle)سے دوسرے بلاک  جا رہا تھا۔ اس نیلام گھر میں

 چھوٹی، بڑی، نئی پرانی اشیاء کی بے پناہ ورائٹی تھی۔  کھلونوں والے بلاک کی نیلامی کی گئی۔ چقندر،

 گاجریں، سیب اور مالٹوں کے کریٹوں کے بعد پیپر ٹاول اور ٹشو پیپر اگلے تین بلاکوں میں بیچے گئے

۔ منڈی کی سیکر ٹری ہاتھ میں کاغذ پنسل لئے سٹاک لکھ رہی تھی اور جو جو چیزیں بک رہی تھیں ان کو

 ریکارڈ کر رہی تھی۔ اِس نیلام گھر میں سینکڑوں بلاک تھے جہاں ایک ایک کرکے نیلامی کی جاتی تھی۔

 بچے کھچے بلاکوں میں بھری اشیاء کو بیچا جا رہا تھا۔ان بلاکوں کے آڑھتی نے اونچی اور تیزی سے کہا.


 خواتین و حضرات!  نیلامی میں حصہ لیتے وقت ہر ایک کو تین چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔یہ میں تمہیں بار بار بتا چکا ہوں۔پہلی یہ کہ عمدہ چیز دیکھ کر فوراً خرید لو اورذرا سا بھی پس و پیش نہ کرو ورنہ کوئی دوسرا شخص خرید لے گا۔  دوسری یہ کہ بلند اور صاف آواز میں بولی لگاؤ اور تیسری یہ کہ دنیا میں کوئی ایسی شئے نہیں جسے بیچا نہ جا سکے۔  اِس کے بعد وہ بولا۔۔ دس کلو پیاز کی بوریوں کی کیا بولی دو گے؟ 

میری بولی کیا ہے؟  ُ  Whatamibit   ُ ِ ُ Whatamibit   ُ  ِ  ُ  Whatamibit  

 ُ َ  ُ  Whatamibit   ُ  ُ  Whatamibit   ُ  یعنیWhat is my bid)۔ وہ ہر فروخت کرنے والی

 شئے پر پانچ با ر یہ نعرہ دہرایا کرتا تھا۔وہ پیشہ ورانہ انداز میں اسی طرح بولی لگایا کرتا تھا۔ 


 میں نے  محسوس ہوا کہ کسی وجہ سے  اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ

 سٹور کے چاروں طرف اسے  ہر شئے دھندلی  نظر آ ر ہی تھی    جب کہ آڑھتی کی آواز  اسےصاف

 سنائی دے رہی تھی۔ وہ اتنی اُونچی تھی کہ ہر سُو پہنچ رہی تھی۔ اُس نے اٹھانوے بھوسے کی گانٹھوں،

 ٹماٹر کی چٹنی کے بنڈل، انڈوں کے کریٹ، گندم کی پچھتر بوریوں، چالیس گیلن انٹی فریز  (Anti-

Freeze) اور بھیڑ بکریاں جو کہ نیلام گھر کے باہر تھیں،بیچ دیں۔ پھر اُس نے سلاد کے ڈبے،

 تصاویر، آرٹ اور سنہری آلات وغیرہ بیچے۔اگلے بلاک میں اس نے انگوروں کے گچھے اٹھالئے۔ وہ

 کالے اور نارنجی رنگ کے تھے جو کیلیفورنیا سے آئے تھے۔ اُس نے ان کے کئی کریٹ نیلام گھر کی

 طرف سے گاہکوں کی سمت بطور تحفہ اچھالنے شروع کر د یئے۔ 


شام ہونے کی وجہ سے تمام کمرہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ سگریٹوں اور سگریٹ لائٹر کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔

آڑھتی تمام اشیاء فروخت کرنے کے بعد آخری بلاک کی طرف آیا جہاں جنگِ عظیم اوّل اور دوئم

 سے متعلق نودرات تھے۔ان میں جنگ عظیم دوئم کی فوجی وردیاں تھیں، بڑے بڑے کوٹ سرمئی،

 نیلے اور بھورے رنگ والے تھے جو کہ جگہ جگہ پھٹے ہوئے تھے۔ مختلف ٹکڑوں سےسلی یونیفارم پہن

 رکھی تھی او رپیلے سرخ رنگ کے ربن باندھے ہوئے تھے۔ اِن میں لڑکے بھی تھے جنہوں نے

 لڑکیوں کو تھاما ہوا تھا۔ 


قیسی نے کوچین کے مقبرے کو دیکھا اور پھر چل نکلی۔ رستے میں بہت سے مقامات آئے۔ کارچلاتے  ہوئے نظاروں کواپنی روح میں اتارتی گئی۔ اس سے اس کی طبیعت میں ہلکا پن محسوس ہوا۔ آگے بڑھتی گئی۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد اسے غلے کے گودام نظر آنے لگے۔ اُس کے دائیں طرف فیکٹری تھی۔ وہاں ایک تختی لگی تھی جس پر میڈو لیک شمال کی طرف  ( North to Meadow Lake ) کا اشارہ  تھا۔ اسے دیکھ کر اسے یاد آیا کہ وہاں ایک بہت بڑا نیلام گھر تھا۔ سورج ڈھل رہا تھاجِس کی سنہری کرنیں دائیں بائیں لمبے درختوں پر پڑرہی تھیں۔ ان کا عکس ایسا  تاثر دے رہا تھا کہ وہ خونخوار کھا جانے والے سرخ سرخ دانت ہوں۔ وہ دہکتی ہوئی گندھک کی طرح چمک رہے تھے۔اس نے کار نیلام گھر اور سٹور کے درمیان گلی میں پارک کر دی۔ اُس کے بالمقابل امدادِ باہمی اور عقب  میں پوسٹ آفس تھا۔نیلام گھر ایکڑوں پر محیط تھا۔ حسب معمول وہاں پرسینکڑوں گاڑیاں پارک تھیں۔

 

جب وہ نیلام گھر داخل ہوئی تو سیاہی پھوٹ رہی تھی۔ لوگوں نے زیادہ تر خریداری کر لی تھی لیکن

 ابھی بھی درجنوں ایسے بلاک تھے جہاں نیلامی ہونا باقی تھی۔ ان بلاکوں (Aisles) کے آڑھتی نے

 کاؤ بوائے ہیٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ دراز قد، درمیانے جسم، داڑھی اور مونچھوں والا تھا۔ اُس نے کالے

 رنگ کی ریشمی قمیض پہنی تھی جس کے نارنجی بٹن تھے۔ قمیض پر پھول کڑھے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ

 لمبا تھا۔ وہ بڑی  مستعدی سے ایک بلاک (Aisle)سے دوسرے بلاک  جا رہا تھا۔ اس نیلام گھر میں

 چھوٹی، بڑی، نئی پرانی اشیاء کی بے پناہ ورائٹی تھی۔  کھلونوں والے بلاک کی نیلامی کی گئی۔ چقندر،

 گاجریں، سیب اور مالٹوں کے کریٹوں کے بعد پیپر ٹاول اور ٹشو پیپر اگلے تین بلاکوں میں بیچے گئے۔

 منڈی کی سیکر ٹری ہاتھ میں کاغذ پنسل لئے سٹاک لکھ رہی تھی اور جو جو چیزیں بک رہی تھیں ان کو

 ریکارڈ کر رہی تھی۔ اِس نیلام گھر میں سینکڑوں بلاک تھے جہاں ایک ایک کرکے نیلامی کی جاتی تھی۔

 بچے کھچے بلاکوں میں بھری اشیاء کو بیچا جا رہا تھا۔

 

ان بلاکوں کے آڑھتی نے اونچی اور تیزی سے کہا، خواتین و حضرات! نیلامی میں حصہ لیتے وقت ہر

 ایک کو تین چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔یہ میں تمہیں بار بار بتا چکا ہوں۔پہلی یہ کہ عمدہ چیز دیکھ کر

 فوراً خرید لو اورذرا سا بھی پس و پیش نہ کرو ورنہ کوئی دوسرا شخص خرید لے گا۔  دوسری یہ کہ بلند اور

 صاف آواز میں بولی لگاؤ اور تیسری یہ کہ دنیا میں کوئی ایسی شئے نہیں جسے بیچا نہ جا سکے۔  اِس کے بعد وہ

 بولا۔۔ دس کلو پیاز کی بوریوں کی کیا بولی دو گے؟  میری بولی کیا ہے؟  ُ  Whatamibit   ُ ِ ُ

  Whatamibit   ُ  ِ  ُ  Whatamibit   ُ َ  ُ  Whatamibit   ُ  ُ  Whatamibit   ُ  یعنی 

(What is my bid)۔ وہ ہر فروخت کرنے والی شئے پر پانچ با ر یہ نعرہ دہرایا کرتا تھا۔

 

 میں نے دیکھا کہ قیسی کو محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس نے سٹور

 کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو محسوس ہوا کہ ہر شئے دھندلی تھی لیکن اسے آڑھتی کی آواز صاف

 سنائی دے رہی تھی۔ وہ اتنی اُونچی تھی کہ ہر سُو پہنچ رہی تھی۔ اُس نے اٹھانوے بھوسے کی گانٹھوں،

 ٹماٹر کی چٹنی کے بنڈل، انڈوں کے کریٹ، گندم کی پچھتر بوریوں، چالیس گیلن انٹی فریز 

(Anti-Freeze) اور بھیڑ بکریاں جو کہ نیلام گھر کے باہر تھیں،بیچ دیں۔ پھر اُس نے سلاد کے

 ڈبے، تصاویر، آرٹ اور سنہری آلات وغیرہ بیچے۔اگلے بلاک میں اس نے انگوروں کے گچھے اٹھا

 لئے۔ وہ کالے اور نارنجی رنگ کے تھے جو کیلیفورنیا سے آئے تھے۔ اُس نے ان کے کئی کریٹ نیلام

 گھر کی طرف سے گاہکوں کی سمت بطور تحفہ اچھالنے شروع کر د یئے پھر وہ جوتوں کے بلاک کی طرف

 آیا۔ اُس نے ایک شخص کو جس نے سبز اوورآل پہنا تھا اور ہال کے درمیان کھڑا تھا،  پکار کر کہا۔ لوؤ!

 ؤ   (Lou)تمہیں جوتوں کی ضرورت ہے؟ تم جوتوں کا تاجر ہو اورمیں جانتا ہوں کہ تمہیں یہ چاہئیں، 

بولی لگاؤ۔ میرے دوست دیر نہ کرو۔۔ بولی لگانے کا تمہیں ایک موقع دے رہا ہوں۔ وقت کسی کا

 انتظار نہیں کرتا۔ وقت کم ہے جلدی جلدی بولی لگاؤ۔ اِس سے کوئی فر ق نہیں پڑتا کہ تم کہاں کے

 رہائشی ہو۔ میرے لئے سب علاقے ایک جیسے ہیں۔یکدم وہ گھوما اور اپنی پیٹھ گاہکوں کی طرف کرکے

 گھمائی۔ سب حاضرین نے قہقہے لگائے اور لو  ؤ (Lou)نے وہ جوتے خرید لیئے۔

 

شام ہونے کی وجہ سے تمام کمرہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ سگریٹوں اور سگریٹ لائٹر کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔

آڑھتی تمام اشیاء فروخت کرنے کے بعد آخری بلاک کی طرف آیا جہاں جنگِ عظیم اوّل اور دوئم

 سے متعلق نودرات تھے۔ان میں جنگ عظیم دوئم کی فوجی وردیاں تھیں، بڑے بڑے کوٹ سرمئی،

 نیلے اور بھورے رنگ والے تھے جو کہ جگہ جگہ پھٹے ہوئے تھے۔ مختلف ٹکڑوں سے اُن کو سی دیاگیا

 تھا۔ یہ کوٹ کینیڈا سے آئےتھا۔  اِس بلاک کے ایک کونے میں 1931کی فوجی قمیص اورپینٹ بھی تھی۔ وردی کے تمام کپڑے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے سی کر بنائے گئے تھے۔ فوجی کمبل بھی ٹکڑوں میں تھے۔ ان کو ملا کر  سلائ کر دی تھی ۔ اس دور میں کساد بازاری تھی اور نوکریاں بالکل نہیں تھیں۔ روپے پیسے کی کمی تھی اور خوراک کا  قحط تھا۔ گرم کپڑے میسر نہیں تھے اِس لیئے پھٹی ہوئی وردیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سی دیئے جاتے تھے تاکہ وہ پہن سکیں یا اوڑھ سکیں۔ ایسا کرنا فوجیوں کے خاندان کی ضرورت تھی جو انہیں کسی حد تک سخت سردی سے محفوظ رکھ سکتی تھی۔ اس بلاک میں ایک ایسا کمبل بھی تھا جو فوجیوں کے کوٹ پینٹ، قمیضوں اور سویٹروں کے

 ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔ایک جگہ  پر جنگ عظیم دوئم میں استعمال شدہ ایک لالٹین نیلامی کے لئے رکھی گئی تھی۔ جنگ عظیم اول اور دوم ختم ہوئے عرصہ بیت چکا تھا اور اس زمانے کے نوادرات نیلامی کے لئے اس لئے پیش کی جاتے تھے تاکہ عوام الناس میں ایک تو ماضی کے لوگوں کی قربانی کا احساس اور  جذبہ ہمدردی پیدا کرنا تھا۔

 

 آڑھتی بولا، یہ برف میں جلنے والی لالٹین ہے۔ بولی لگاؤ۔ یہ لالٹین چین سے براہِ راست آئی ہے۔

 ایک نادر تحفہ ہے جو بالکل اصلی حالت میں ہے۔ ہمیں اب اِس کو بیچنا ہے اور ہر شے نے بک جانا ہے۔

 اس لالٹین کے پلیٹ فارم پر برف کی قوس اور رنگدار روشنی پڑی جس نے اس کو قوس و قزح کے

 رنگوں سے سجا دیا۔ اِس وقت ماحول اس طرح کا بنا دیا گیا تھا کہ سبز، نارنجی، پیلی، اور نیلی روشنیاں جنگی

 سماں پیش کرنے لگی تھیں۔ ہجوم نے اس لالٹین کو دیکھ کر یک دم  ’اوہ‘ کی آواز نکالی۔ ان میں میں بھی

 شامل تھی۔

 

خواتین و حضرات! یہ اصلی ہے، مصنوعی نہیں۔۔۔بولی لگاؤ۔۔۔ بولی لگاؤ۔۔۔یہ بک گئی ہے۔  اس کا

 خریدار کیفے کا مالک ہے۔ میرے خیال میں یہ صحیح خریدار ہے۔ لوگو! تمہارا کیا خیال ہے؟پھر وہ ایسے

 مجسموں اور تصاویر کی طرف بڑھا جو لکڑی اور دھات سے کھود کر بنائی گئی تھیں۔ تصاویر پلیٹ فارم پر

 رکھی گئی تھیں اورمتعدد رنگوں سے بنائی گئی تھیں۔

 

اس کے بعد اس بلاک کی طرف گئے جہاں خمدار برف پر رنگ برنگی روشنیاں پڑ رہی تھیں۔ اس پر

 قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے جو تاریک آسمان کے نیچے سبز، بنفشی، پیلے اور نیلے رنگ کی روشنیاں بکھری ہوئی تھیں َ۔ وہ چینی  آرٹ تھا۔ خواتین و حضرات! یہ خالص شئے ہے۔ کیا بولی لگاؤ گے ۔کیا بولی ہے، کیا بولی ہے؟۔۔۔ یہ بک گیا ہے۔ بلیو بوائے کیفے کے مالک نے کامیاب بولی دی ہے۔ وہ اس کا صحیح حقدار ہے۔تم لوگ کیا ایسا سمجھتے ہو؟ اس پر ہجوم نے پرجوش ہو کر   ُہائے  ُ کہا۔

 

اس وقت کمرہ گھومنے لگا اور قیسی کو میں نے اس  پہیے کے رم کے جوڑے کو  جو کہ بید کی لکڑی سے

 جس پر نیلا رنگ کیا گیا تھا، پر نظریں جمائے دیکھا جو ڈزنی لینڈسے آیا تھا۔ اس وقت محل سے گھنٹیاں

 بجنا شروع ہو گئیں جو تخیلاتی دنیا کی نشان دہی کر رہی تھیں۔ میں ان بنچوں سے جو قیسی کو پھر سے  ُ بیس

 برو   ُ کے بنچوں پر جو کہ موسم خزاں میں ہوتی تھی اور اس کے گھر کے قریبی دریا کی طرف جو روسی

 کانگریس ہال  کے موسم میں تیز سرد ہوائیں چمکتے دمکتے بالشوائی ناچنے والے لباس میں جذباتی گیت پر

  ُ  ڈان قوویکزوٹ  ُ کی لے پر ڈانس کرتا تھا۔ اب اس نیلام گھر میں سب کچھ بک چکا تھا لیکن قیسی کے گھ

ر جو کہ  ُ  ٹریسٹل  ُکے نزدیک تھا اور اس کی چینی الماری  پر کندہ کی ہوئی پریاں، سانڈسے لڑنے والے

 سفید برف  اورسات بونے تھے۔ یہ بات طے ہے کہ میں ایک رومانی شخص ہوں۔ نظاروں اور

 نوادرات کو اصل مقامات پر جا کر دیکھا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ میرا من چاہا کہاس ماحول سے دور قیسی

 کے ساتھ بندرگاہ کے کسی ایسے سہانے ٹھکانے پرجو چاہت کو رومانی رنگ دینے والے  ُ اوریگون ساحل

   ُ پرریت کے ٹیلے،  رائے تھامپسن ہال، ویج لینڈ، ماؤنٹ ہوڈونا ، گرینڈکینین اور میڈیسن سکوئر کے علاوہ 

بہاما  کے اعلیٰ دو کمروں والے سویٹ جو کہ حقیقت میں یورپی لحاظ سے بہت کمتر، آبی بخارات سے

 بھرے ہوئے مقامات تھے، پر جاؤں۔میں کچھ خریداری بھی کرنا چاہتا تھا لیکن کوئی شئے نہ خریدی۔

 مجھے یہ علم نہیں تھا کہ نیلامی میں بیان کی گئی خصوصیات صحیح تھیں یا افسانہ۔یہ بات  مشکل تھی۔ وہ

 نجانے کیوں یہ سرگوشی کرتے ہوئے ہال میں ادھر ادھر بھاگ رہی تھی۔


 ُ  آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا ُ  ُآسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔

 ُ اس کی باتیں بے تکی تھیں نہ میرے تناظرسے مطابقت رکھتی تھیں۔میری ذمہ داریاں موقع کی

 مناسبت سے صحیح تھیں۔ میں یہاں قیسی کی وجہ سے تھا۔ مخبوط الحوا س آڑھتی  بڑھا چڑھا کر اشیاء  نیلام

 کر رہا تھا۔ 

 

اس کے بعدپھٹے ہوئے یونیفارم کے ٹکڑوں سے پھٹا ہوا  لحاف جو نیلامی کے لئے پیش کیا گیا وہ ہجوم کے

 ہمدردی کے جذبات ابھارنے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا تھا۔وہ جنگی تکالیف ومصائب اور دکھ درد

 کی صحیح عکاسی کر رہاتھا۔ اسے دیکھ کر موجود خواتین سسکیاں لے رہی تھیں یا آنسو پی رہی تھیں۔ وہ

 ایسے درد ناک تاثرات پیش کر رہی تھیں جیسے ان کے جسم کا کوئی جزو کاٹ دیا گیا ہواور انہیں اس کے

 اذیت محسوس ہو رہی ہو۔


لوگوں  کا ماننا  ہے  کہ میں ایک رومانوی  ہوں۔ نظاروں اور نوادرات کو اصل مقامات پر جا کر دیکھا

 میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ میرا من چاہا کہاس ماحول سے دور قیسی کے ساتھ بندرگاہ کے کسی ایسے سہانے

 ٹھکانے پرجو چاہت کو رومانی رنگ دینے والے  ُ اوریگون ساحل   ُ پرریت کے ٹیلے،  رائے تھامپسن ہال،

اور میڈیسن سکوئر کے علاوہ  بہاما  کے اعلیٰ  سویٹ پر جاؤں۔میں کچھ خریداری بھی کرنا چاہتا تھا لیکن  ان کی باتوں کا جواز اور صحت پر یقین نہیں تھا۔میں نے کوئی شئے نہ خریدی   ۔ ممیر ا فیصلہ اٹل رہا۔ یہاں تک کہ میں نے دو بار پورے دل کے ساتھ پوری کوشش کی کہ اپنا فریضہ

 انجام دوں  اور حرف بہ حرف کاروائی لکھوں۔ ہجوم میں ایک تماشائی کی طرح دیکھتا رہاحالانکہ کوئی

 شئے اندر سے مجھے مجبور کر رہی تھی کہ میں کچھ تو خریدوں لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح اس خواہش 

 کو دبا دیا۔میں اپنی ذمہ داری میں کوتاہی نہیں برتنا چاہتا تھا۔

 

یہ الگ بات ہے کہ میں   آڑھتی کے ساتھ ساتھ تھا۔ اب آڑھتی لوک ورثہ کے بلاک کی طرف گیا۔ میں نے ایسی بہت سی روسی تقریبات کی رپورٹنگ کی ذمہ داری بخوبی نبھائی تھی۔ میں نے روس کے سردیوں کے محل میں صدیوں پرانے نوادرات اور ثقافتی ورثے، ملکہ کیتھرائین کے نوادرات کے ذخیرے، ماٹسی کی شاہکار تصاویر و آزادی نسواں سے متعلق تھیں کو تفصیل سے بیان کیا  تھا۔ مجھ پر اس وقت شدید نکتہ چینی کی گئی جب میں نے  ُ  مور کے تخت   ُ کی عکاسی کے لئے پرفیوم لگا کر گیا جس 

 کی اجازت نہ تھی ، کے بارے میں رپورٹ کی تھی۔ اس وقت سراہنے کی بجائے  نا پسند کیا گیا تھا۔ میں

 اس تجربے کو دہرانا نہیں چاہتا تھا اور اس دورے کو حقیقی انداز میں بیان کرنا چاہتا تھا۔ 


  روسیوں نے جنگ عظیم دوئم کے بے شمار نوادرات جمع کر رہے تھے جو انہوں نے اورل پہاڑ پر چھپا

 رکھے تھے۔ وہ جانے کیوں اس وقت میں لکھنے والی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر رہا۔ کوئی شئے موجودہ دور میں اتنی زیادہ مقدار میں نہیں ہوتی جتنا کہ الہام یا بصیرت ہوتی ہے۔ وہ ایک اکیلی بھی ہو سکتی ہے اور ایک درجن بھی۔ اس میں خیال کرنا آسان نہیں اور سرسری طور پر کسی لحاظ سے ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

 

مجھے کینیڈا کے بحیرہ قلزم کے مغربی ساحل کا سفر یاد آیا جس کابعد میں ذکر کروں گا۔ میں و ہ شخص

 ہوں جس میں ایسی اندھیری رات میں جس کے پیچھے دور کہیں روشنی ہو،  ریت کے نشانات پر چل

 سکتا ہے۔اس میں ایک عضو کی بڑھتی ہوئی روشنی بڑھتی ہے۔ جسے تیرتا ہوا آبی عضو کہتے ہیں۔

سمندر اور ریت دونوں میں پایا جاتا ہے۔ اس میں قدیم تہذیب و تمدن کی جدید روحوں میں موجودگی 

پائی جاتی ہے۔ اں تمام باتوں کے باوجود مجھ میں کبھی بھی یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ میں نیلامی میں

 حصہ لوں۔ جب آڑھتی   ُ   whatamibid  ُ  کا اعلان کر رہا تھا تو قیسی وہاں موجود تھی وہ اس کے بعد

 والے بلاکوں پر بھی گئی اور ہر ایک شئے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔میں نے کسی ایسی شئے کی بولی میں

 حصہ نہیں لیا تھا تا کہ میں رپورٹنگ کے وقت کوئی اہم شئے نظر انداز نہ کر دوں۔

 

سب سے آخر میں اُس نے ایک خوبصورت لڑکی کا مجسمہ بیچنے کے لئے رکھا۔ یہ لکڑی سے بنایا گیا تھا۔

 ایسا لگتا تھا کہ اُس نے ہاتھ میں جال پکڑا ہوا ہے۔ اُسے سنگِ مر مر کے ایک اونچے پلیٹ فارم پر رکھا

 گیا تھا جس سے وہ کافی اونچا ہو گیا تھا۔ میں نے اس مجسمے کوپہچا ن لیا۔یہ  مجسمہ اس خوبصورت لڑکی کا

 تھا جس کے آس پاس، ادھر ادھر پانچ لاکھ فوجی جنگ عظیم دوئم میں اجتماعی قبروں میں دفن تھے۔ یہ

 فوجی لینن گراڈ کے محاصرے میں کام آئے تھے۔ اس مجسمے کے عقب میں نیلام گھر کی ایک نو حہ

 خواں ایک غمناک موسیقی کی دھن پر گا رہی تھی۔ وہ جس موسیقی پر گا رہی تھی جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد بنائی گئی تھی۔ اس کے بول کچھ اِس طرح تھے۔

        ہمارے  مرد  واپس  کرو     ……    ہمارے  مر د  واپس  کرو

        ہمارے  مرد  واپس  کرو     ……    ہمارے  مرد  واپس  کرو

 

جنگ عظیم  دوم کے خاتمے پر سات عورتوں کے لئے صرف ایک مرد بچا تھا جو یا تو بوڑھا تھا یا بچہ۔وہ

 اسے دیکھ کر بے حد غمزدہ ہوگئی۔کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ وہ اتنی قیمتی

 ہوتی ہیں کہ جان دے کر بھی خرید ی نہیں جا سکتیں۔ لڑکی کے اس مجسمے نے دل چیر کے رکھ دیا۔

 

قیسی نے پوری نیلامی کا پوسٹ مارٹم کیاتھا۔ اس کے طرز عمل سے ایسا لگتا تھا کہ جہاں کہیں جنگ و

 جدل اورانسانیت کی عظمت پر حرف آتا ہو۔  وہ وہاں دلبرداشتہ  ہوجاتی تھی۔ اس کے چہرے پر کرب

 کے نشان پیدا ہو جاتے تھے۔ ایسا محسوس کرتی تھی ہ ان کی دی گئی قربانیوں کو کرنسی میں بیچ کر ان کی

 عظمت میں کمی کی جا رہی ہے۔۔ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا دل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے

 اوران کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ان کی خرید وٖفروخت گناہ ہے۔ چیتھڑوں سے بنے ہوئے کمبل،

 کوٹ، ْقمیصیں،لالٹین، گلوگارہ کا بلک بلک کر گانا کہ ہمارے مرد واپس کر دو  اندوہناک واقعات تھے۔

 ایسی اشیاء  انمول تھیں۔ ان کی نیلامی انسانیت کی توہین تھی۔ ان کی عظمت دوام تھی۔ ان سے منسلک

 تاریخی واقعات ورثہ تھے۔ ان کی خوشی، غمی، ترشی،مٹھاس کو روپے پیسے میں تولنا اس کے نزدیک

 قطعاً غیر مناسب تھا۔ انہیں کسی ایک فرد کی بجائے عجائب گھروں کی زینت بننا چاہئیے۔ ایسے رتن

 پاسبان عقل سے نہیں پرکھے جا سکتے۔کسی ایک گھر میں جانے سے ان کے اثرات محدود ہو جاتے ہیں

 اور ثمرات عوام الناس تک نہیں پہنچتے۔ 

 

میں نے دیکھا کہ نیلامی کے اختتام پر وہ خریداری سے لدی پھندی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی والدہ اور

اپنے بچوں کے لئے ڈھیروں تحائف خریدے ہوئے تھے لیکن ان میں ایسی کوئی چیز ایسی نہ تھی جو

 تاریخی واقعات سے متعلق ہو۔ میں نے  سرکاری سطح پراہم سے اہم تقریبات کی رپورٹنگ کی ہے

 لیکن جو ہمدردی اور شدید اذیت کے جذبات جنگی تباہیوں، مرے ہوئے فوجیوں کے ملبوسات اور

 اس لڑکی کے مجسمے جس میں لاکھوں مردہ فوجیوں کے درمیان بلک رہی تھی،  قیسی میں دیکھے اس نے

 مجھے بہت متاثر کیا۔


 وہ واپس چلی گئی لیکن یاد باقی ہے۔

 

 

 

Edna Alford (Canada)

(1947 -) 



حالات زندگی 

 

ایڈنا الفورڈ (Edna Alford) کینیڈا کے صوبے سیس کچوان  (Saskatchewan)  کے شہر

 ٹرٹل فورڈ(Turtle   Ford) میں 1947میں پیدا ہوئی۔ اس کو بچپن ہی سے ادبی سرگرمیوں

 سے دلچسپی تھی۔ مقبول معیاری رسالوں میں اس کی کہانیاں چھپیں۔ اس کی کہانیاں CBCریڈیو پر

 بھی پڑھی جاتی رہیں۔ اس نے بہت سی کتابیں لکھیں۔

 

A sleep full of Dreams (1981)  اس کی مقبول ترین  تصانیف میں سے ایک ہے جس

 میں اس نے البرٹا کے سینئر شہریوں کے بارے میں لکھا ہے۔ اس نے متنوع موضوعات پر لکھا ہے۔

 اس کی تحریر میں شائستگی پائی جاتی ہے۔ اسے ہر فن مولا کہا جاتا ہے۔ بولی /نیلامی (The Bid) 

ایک دل لبھانے والی کہانی ہے جو اس کے مختصر کہانیوں کے مجموعے  

The Garden of Eloise Loon (1986)  سے لی گئی ہے۔  اُسے  

Mariam Enzel Award   اور Award Gerala    Lampest   سے نوازا گیا۔


Popular posts from this blog