نفرت،دوستی،معاشقہ،محبت،شادی کے مراحل ( پہلی قسط) Hateship, Friendship, Courtship, Loveship, Marriage(1st Episode) By Alice Munro

  





نفرت،دوستی،معاشقہ،محبت،شادی کے مراحل ( پہلی قسط)

Hateship, Friendship, Courtship, Loveship, Marriage(1st Episode)

By

Alice Munro

مترجم: غلام محی الدین

اس بات کوایک عرصہ بیت گیاہےجب ریل گاڑی چھک چھک کرتی مختلف ریلوے سٹیشنوں پررکتی ،چلتی،ٹھہرتی ایک منزل سے دوسری منزل تک سواریاں اتارتی چڑھاتی

 سفر   پررواں دواں رہتی تھی۔سرخ بالوں والی  درازقد جھریوں بھرے چہرے کےساتھ ایک  خاتون ایک ریلوے سٹیشن آئی اور سٹیشن ماسٹر سے دریافت کیاکہ سامان ایک جگہ سے دوسری      جگہ بھیجناہوتواس کاطریقہ کارکیاہے اورکرایہ کتناہوگا۔سٹیشن ماسٹرمزاحیہ شخص تھااورہرایک سے ہلکے پھلکے مذاق کے موڈ میں ہوتاتھا۔

تم نے کون سی کوئی انوکھی شئے بھجوانی ہےجومیرے پاس آئی ہو؟َ اس نے چھیڑنے کےاندازمیں  پوچھا۔

فرنیچر۔ خاتون نے جواب دیا۔

فرنیچر! اوہ ۔اس نے ایسے دہرایاجیسے کہ یہ ایسالفظ ہوجو اس نے پہلے کبھی نہ سناہو۔  تم کس قسم کے فرنیچرکی بات کررہی ہو۔کون ساسامان بک کراناچاہتی ہو؟

کھانے کی ایک میز،چھ کرسیاں،بیڈروم کاپوراسیٹ،ایک صوفہ،کافی کاٹیبل،بڑا ٹیبل لیمپ اور چینی طرزکی الماری اور ایک سستاسا مےخانے کافرنیچر۔

اوہ!یہ توپورےگھرکاسامان ہے۔سٹیشن ماسٹر نے کہا۔

کہنے میں یہ زیادہ ہےلیکن حقیقت میں ایسانہیں۔ان میں باورچی خانے والی اشیاشامل نہیں۔باقی سامان توایک کمرے میں ہی آسکتاہے۔خاتون نے دانت پیستے ہوئے ایسے کہاجیسے وہ لڑنے کے لئے تیارہورہی ہو۔

اس کے لئے تو تمہیں  لانے لے جانے کے لئے ایک بڑے ٹرک کی ضرورت پڑےگی۔تم اسے اس سے لے جاناچاہیئے۔

لیکن میں اسے ٹرک سے نہیں لے جاناچاہتی۔اس نےیہ بات  اتنی اونچی آواز میں کہاجیسے کہ وہ بہرہ تھا۔میں اسے مال گاڑی سے سیسکیچوان بھیجناچاہتی ہوںاس نے مقامی دلندیزی لہجے میں کہا۔ان دنوں ولندیزی اس علاقے میں کثرت سے رہتے تھےلیکن اس کاحلیہ ان جیسانہیں تھا۔لیکن کینیڈا میں ان کی آواجاوا جاری تھی۔اس  خاتون کی چمڑی اور جسمانی ساخت ولندیزی تھی لیکن انداز تکلم  کینیڈین تھا۔وہ چالیس کے پیٹے میں تھی لیکن اس سےکیافرق پڑتاتھا۔سامان بک کرانے کے لئے ملکہ حسن ہوناضروری نہیں  تھا۔

سٹیشن ماسٹر نے دوبارہ  ریلوے کی تجارت پرگفتگوکرناشروع کردی۔مال گاڑی  سامان کو ریلوے سٹیشن تک پہنچانے کی ذمہ دارہے۔اس سے آگے  وقت پر وہاں سے سامان اٹھانے کی ذمہ داری سامان بکنگ کرانے والا کی ہوتی ہے۔ دیری کی صورت میں اسے یومیہ کے حساب سے جرمانہ اداکرناپڑتاہے۔تم نے  یہ سامان کہاں لے جاناہے؟

ریجنٹ۔خاتون نے جواب دیا۔

وہاں کس قومیت کے لوگ بستےہیں؟

میں نہیں جانتی۔

سٹیشن ماسٹر نے ایک چکنائی زدہ  ضخیم ڈائری  جودیوار پرٹنگی تھیاوراس کے ساتھ پنسل بندھی ہوئی تھی اتاری۔اس میں ریلوے  سٹیشن ،لائنیں،کہاں رکتی تھیں اور اوقات لکھے تھے۔ پنسل   سیسکیچوان  جو کینیڈاکا دوسرا صوبہ تھاکے سٹیشنوں کی ایک ایک سطر پر پھیرنے لگا۔اس قسم کے بہت سے نام ہیں جوچیکوسلواکیہ،ہنگری اور یوکرینی قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ہوسکتاہے کہ یہ  سٹیشن ان میں سے کوئی ہو۔سٹیشن ماسٹر نے کہا۔

تلاش کرتے کرتے اسے مطلوبہ نام نظر آگیااور مطلع کیاکہ یہ مقام ریلوے لائن  سے ہٹ کرہے۔تمہیں اسے گڈینا کے لئے بک کرواناپڑے گاجوریجنٹ کے نزدیک ترین ہے۔  ریجنٹ گاڑی  نہیں جاتی ۔اس لائن میں گڈیناآتاہے اسلئے وہاں سے سامان اٹھاناپڑے گا۔

مسافرگاڑیاں تو ریجنٹ رکتی ہیں خاتون نے کہا۔

مال گاڑیوں کاروٹ مختلف ہوتاہے۔ سٹیشن ماسٹر نے کہا۔

میں نےاسے جمعہ کو بک کراناچاہ رہی تھی۔کیاتم ایسا کرسکتے ہو؟

ہاں۔میں اسے بک کرسکتاہوں لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہاں کب پہنچے گا۔اس کادارومدار بکنگ کئے گئے سامان کی ترجیحات پر ہے۔جب یہ فرنیچروہاں اتاراجائے گاتواسے ایک دن کےاندراندراٹھاناہوگا۔

ٹھیک ہے۔خاتون نے کہا۔

ریل گاڑی جمعے کودوپہر دوبج کراٹھارہ منٹ  پرروانہ ہوگی۔اس میں مختلف سامان ہوگا۔ کوئلہ،تانبہ ،اشیائے خوردنی ، اسلحہ اور ہر طرح کاسامان ہوگا۔تمہارافرنیچراترےگاتواس سے آگے اسے ٹرک سےلےجاناپڑے گا۔

خاتون نے سر ہلایااورکہاکہ سامان وقت پرہی اٹھالیاجائے گا۔

یہ ولندیزی خاتون جووینا تھی جو مسٹر میکالی کی شیف تھی۔اس گھر کے تین رہائشی تھے۔مسٹر میکالی جو پراپرٹی کاکام کرتاتھا۔ اس کی نواسی سبیتاجو ہائی سکول میں پڑھتی تھی اور جووینا میکالی کی شیف اورسبینا کی  گرو۔ مسٹر میکالی کی ایک بیٹی تھی جس کانام مارسیلی تھا۔اس نے اپنابر مسٹرباؤڈری کوچناتھاجوٹھگناتھا۔وہ ائرفورس میں اہلکارتھا۔جنگ کے بعداسےنوکری سے نکال دیاگیاتھااوروہ روزی روٹی کی تلاش میں ماراماراپھررہاتھا۔ آج کل وہ کینیڈاکے صوبہ سیسکیچوان میں تھا۔مارسیلی اورمسٹر باؤڈری  نےشادی کے بعد دوسرے صوبے میں رہناشروع کردیاتھا۔ان کی ایک بیٹی تھی جس کانام سبیناتھا۔ وہ نٹ کھٹ تھی ۔جب وہ بلوغت کی حدوں کوچھونے لگی توماں باپ کے کنٹرول سے باہر ہوگئی اورمجرمانہ سرگرمیوں میں پڑگئی۔ مارسیلی  نے اپنے باپ مسٹر  میکالی سے کہاکہ وہ اسے اپنے پاس رکھ لے اوراسے برائیوں سے بچالے۔جووینا کامنت ترلاکیاگیاکہ وہ اس کی پرورش کرے۔اس نے حامی بھر لی  کہ وہ اس کی تربیت کرے گی اور خطوط کے ذریعےاس کے والدین کواس کی پراگریس رپورٹ بھیجاکرےگی۔اس دوران مارسیلی اپنے باپ کے گھرآئی توقضائے الہیٰ سے فوت ہوگئی تو اس نےسبینا کی رپورٹ مسٹر باؤڈری کو بھیجنا شروع کردی۔

یہ محض اتفاق تھاکہ جنگ کے بعد وہاں مکانوںپر نئے نمبر لگادئیے گئے تھےاسلئے اسےوہ جگہ تلاش کرنے میں دقت نہ ہوئی۔اس پر ایگزیبیشن روڈ لکھاتھاجو غیرمانوس  جگہ تھی۔اگروہ میکالی روڈ لکھ دیتی جو پران نام تھاتو اس کی تلاش میں دشواری پیش نہ آتی۔یہ محلہ جنگ عظیم دوم میں تعمیر کیا گیاتھااسلئے سٹیشن ماسٹرنے سوچاکہ ایڈریس وہاں کا ہی ہوگا۔

جب سامان وہاں اترے توتم وصول کرلینا۔

میں اسی گاڑی میں اپنے لئے بھی ایک ٹکٹ لیناچاہوں گی۔

اسی جگہ کے لئے؟

ہاں۔

تم وہاں سے ٹورنٹو بھی جاسکتی ہولیکن وہاں سے وییا ٹرین پکڑنا ہوگی جوایک صوبے سے دوسرے صوبے جاتی ہے۔وہ رات ساڑھے دس بجے جاتی ہے۔تم کس چیز کو بک کراؤ گی۔سلیپر،برتھ یا سیٹ ۔

 سیٹ لوں گی۔

سڈبری  سٹیشن پر تمہیں انتظار کرناپڑے گا۔وہ مونٹریال  جائے گی۔اس گاڑی سے اترنانہیں۔وہاں وہ ایک ڈبہ پورٹ آرتھر کا اور پھر کینورا کالگادیاجائے گاجوتمہیں ریجینا پہنچادے گا۔ وہاں تم اتر جانااور وہاں سے برانچ ٹرین پکڑ کرگڈینااتر جانا۔

خاتون نے ہاں میں سر ہلایا۔سٹیشن ماسٹرنےاسے ٹکٹ  تھمادی۔

لیکن میں اس کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ جب تم وہاں پہنچو گی تو تمہارافرنیچر بھی اسی وقت وہاں پہنچے گاکیونکہ  ترجیحات اورقومی اہمیت کے مطابق  سامان لادااور اتارا جاتاہے ۔ میراخیال ہے کہ چونکہ وہ ایک چھوٹاسا سٹیشن ہے اس لئے تمہارافرنیچرایک  دودن بعد پہنچے گا۔اس سٹیشن سے آبادی دور ہے۔

خاتون نے تمام کاروائیوں کے بعدپرس سے ایک ایسی پوٹلی نکالی جوبوڑھی خواتین رکھتی ہیں۔اس میں ایک ایک پیسے کوگنا اور کرایہ سٹیشن ماسٹر کے حوالے کیااور ٹکٹ حاصل کرلی اور چل دی۔کچھ سوچ کراچانک  مڑی اور سٹیشن ماسٹر کے پاس واپس آئی جواس وقت تھرمس سے کافی نکال کرپی رہاتھا۔

میں جوفرنیچر بک کر رہی ہوں وہ بہت عمدہ ہے۔بالکل نئے جیساہےمیں نہیں چاہتی کہ اس پر کوئی رگڑلگے یازور زور سے پھینکاجائےیاکسی قسم کی توڑ پھوڑہو۔میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ اس میں جانوروں کے پیشاب اور پاخانے کی بوآئے۔

ایسی بوگیاں جن میں جانور لے جائے جاتے ہیں ان میں فرنیچر نہیں رکھاجاتا۔سٹیشن ماسٹر نے جواب دیا۔

میرابنیادی مقصد یہ ہےکہ فرنیچر اسی حالت میں وہاں پہنچ جائےجیسے کہ بک کرایاگیاہے۔

تم جب کسی  فرنیچرسٹور پرجاکر فرنیچر دیکھتی ہوجواس میں پڑاہوتاہے۔کیاتمہیں  علم ہے کہ وہ وہاں کیسے پہنچتاہے۔یقیناًوہ اس دکان میں تونہیں بنتا۔اسے کسی فیکٹری میں بنایاگیاہوتا ہے جو سٹور سے سینکڑوں کوسوں دور ہوتاہے اور وہاں سے اسے  لادکر دکان میں لایاگیاہوتاہےجوزیادہ تر ریل گاڑی سےسٹور تک بے داغ آتاہے۔اس سے تم بخوبی اندازہ لگاسکتی ہوکہ ریلوے کس احتیاط سے فرنیچر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتاہے۔سٹیشن ماسٹر نے کہاَ۔وہ اس کی طرف خالی نظروں سے بغیر مسکراہٹ  دیکھتی رہی اور کہا کہ میں امیدکرسکتی ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔

سٹیشن ماسٹر نےبغیر سوچے سمجھے یہ کہاتھاکہ گڈانا کاسٹیشن ماسٹر وہاں  کی آدھی آبادی کوجانتاتھا۔اصل میں وہ ان میں سے بھی وہ صرف اہم ترین لوگوں سے واقف ہوگا۔وہ بھی ان کو جوحقیقی طورپروہ رہ رہے ہوں گے۔وہ اس کی رہنمائی کردے گااور ریجنٹ پہنچانے میں مدد کرے گا۔اس صورت میں اگر وہ مقررہ وقت پرمسٹر باؤڈری کے پاس نہ پہنچ پائی توبھی  اسے خود پراعتمادتھاکہ وہ بھوکی نہیں مرے گی۔عمربھروہ گھروں میں ملازمت کرتی آئی تھی۔اسے یقین تھاکہ اسےروزگارجائے گاکیونکہ وہ ہنرمندتھی۔اچھی شیف تھی یا بچوں کو پڑھالے گی یادایہ بن کربچوں کوسنبھلے گی یاکسی سٹور  میں نوکری کرلےگی اور کسی نہ کسی بھی ایسے شخص سے جو آس پاس کےعلاقوں میں رہنے والےکسی شخص سے شادی نہیں کی تھی کاگھر بسالے گی۔بہرحال   ایک صوبے سے دوسرے صوبےنقل مکانی بڑارسک تھااور وہ یہ لے چکی تھی۔ ان جوتوں کےساتھ اور گھٹنوں تک جرابوں کے بغیر اور سہ پہربغیر ہیٹ اور دستانے پہنےوہ ایک ایسی خاتون لگ رہی تھی  جو کھیتوں میں کام کرتی ہو۔اس کو اس لباس پہننے پر ذرابھر بھی ہچکچاہٹ  نہیں تھی اورنہ ہی کسی قسم کی الجھن اور حیرانی تھی۔اسے آداب نہیں آتے تھے۔جس طرح کی وہ زندگی بسر کررہی تھی وہ ہرقسم کے آداب  سےناواقف تھی۔

جووینا    کے عام لوگوں سے روانط نہ ہونے کے برابر تھے۔نئے ماحول میں بسنے کے لئے اسے سیسکیچوان کے بارے میں معلومات درکار تھیں ۔وہ جانناچاہتی تھی کہ وہاں  اسے نوکری کہاں سے مل سکتی تھی۔وہ پیٹ  کی آگ  بجھانے کے لئےایندھن کےبارےمعلوم کرناچا  ہ رہی تھی۔ کام کرناچاہ رہی تھی ۔اس مقصد کے لئے وہ اپنے نزدیکی گرجاگھر گئی اور معلومات حاصل کیں۔

جووینا نے سوچاکہ وہ نئی جگہ جارہی تھی ہوسکتاتھا کہ اسے کسی سے پیارہوجائے۔اس لئے اسے عمدہ لباس خریدنا چاہیئے۔اس کے لئےوہ گاؤں کے مشہورومعروف ڈیزائینر  دکان میلادی سٹورچلی گئی۔وہ دکان بہت مہنگی تھی وہ  ڈیزائینرسٹورمیں  کبھی نہیں گئی تھی۔جب کبھی  اسے لباس  خریدناہوتا تووہ گاؤں کے' کالیگن   سٹور'چلی جاتی جہاں بچوں اور بڑوں کی اشیاسستے داموں مل جاتی تھیں۔مسز میکالی کی رحلت کے بعد اسے بہت سے ملبوسات ورثے میں ملےتھےجس میں اس کاکوٹ  جوکبھی بھی پرانانہیں لگتاتھا بھی تحفے میں ملاتھا۔وہ اسے سبت کے دن ہی پہناکرتی تھی۔یہ بہت قیمتی تھا۔اس کے ساتھ اس نے پرفیوم بھی دیاتھاجس کی خوشبومسحورکردینےوالی تھی۔نہانے کےبعدوہ  خوشبولگاتی تھی ۔ میلادی           سٹور            کی کھڑکی   کے شو روم میں لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے دوعدد مومی خواتین سجائی گئی تھیں۔ان کوبہت  چھوٹے چھوٹےسکرٹ اور تنگ جیکٹیں پہنائی گئی تھیں ۔ایک کےکپڑوں کارنگ  زنگ کی طرح کااور دوسری کا ہلکا سبزتھا۔شوخ وشنگ سبزپتوں والاتھاجو سکرٹ پرادھر ادھرٹانکے گئے  تھے ۔موسم خزاں میں میلادی سٹور میں  ان ڈھانچوں کےقدموں  اورکھڑکی میں جھڑے ہوئے پتوں کوجمع کیاگیااورآڑے  ٹیڑھے  کرکے کھڑکی کے شیشے پرلگادیاگیاتھاجس پرکالے رنگ میں لکھاتھا:'خزاں کی سادہ متانت ۔'یہ سجاوٹ سب کوبھارہی تھی۔

جوویناچالیس کے پیٹے میں تھی۔ابھی تک کنواری تھی۔

 اس نے میلادی سٹور کا دروازہ کھولااورہچکچاتے ہوئےاندرداخل ہوگئی۔اس کے بالکل سامنے ایک قدآدم آئینے میں لمبےکوٹ میں خاتون کے مومی ڈھانچے پرایک ننگے بازواور گھٹنوں سے چند انچ اونچی جرابوں  والی حسینہ  تھی۔  انہوں نے یقیناًاس مومی حسینہ کوبےمقصد نہیں کھڑا کیاتھا۔انہوں نے وہاں ایک قدآدم آئینہ اس لئے لگایا تھا تاکہ داخل ہونے والوں کواپنے پہنے ہوئے لباس  کو تنقیدی نگاہوں سے جائزہ لینے کاموقع مل سکے اوران کے پہنے ہوئےلباس میں خامیاں نظرآئیں   اور جدید ترین فیشن کے مطابق خریداری کریں۔سٹور   میں شام کی تقریبات کےلباس الماریوں کے خانوں میں سجائے گئے تھے۔اس  سے آگےسجاوٹی شیشے کے اندر خواتین کے نمائشی ڈھانچوں   میں ملبوسات تھےتاکہ اس پرانگلیوں کے نشانات نہ پڑیں۔ان میں آدھی درجن کے قریب  دلکش  ڈیزائنوں میں دلہن کے سفید شفاف لباس  لٹکائے گئے تھے۔ان پرہاتھی کے دانتوں  کےرنگ کی جھالر لگی ہوئی تھی اور ان سے سوندھی سوندھی خوشبوآرہی تھی۔اس پر چاندی رنگ کے موتی اور ہیرے جڑدئیے تھے۔اجسام،گردن میں نیکلس کی سیدھ میں مچھلی کی شکل  کالاکٹ اور بیش قیمت سکرٹ تھیں۔جب وہ جوان تھی تواس نے اس قسم کے فیشن کے مطابق جو کہ بہت مہنگے تھے کے بارےمیں اس لئے نہیں سوچاتھاکیونکہ اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔آج وہ اس مہنگی ترین دکان میں اس لئے داخل ہونچاہ رہی تھی کیونکہ اسکی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ اس کی زندگی میں بڑابدلاؤآنے والاتھا۔  خصوصی دن آنے والاتھا۔دکان میں داخل ہوتے ہی  سٹور کی میلادی مسکراتی ہوئی اس کے پاس آئی ۔وہ سٹور کے اندر سے  اس کی حرکات و سکنات دیکھ رہی تھی۔وہ اس کے حلئے کودیکھ کربھانپ گئی تھی کہ وہ اس قسم کے سٹورکی اشیاکی خریدار نہیں تھی اور توقع کررہی تھی کہ وہ جلد ہی دکان سے نکل جائے گی۔

جووینانے دکان کے آئینے کےسامنےکھڑی ہوکراپناعکس دیکھا اور ریشمی قالین پرآگے بڑھی اور۔۔۔دکان کے کالے پردے کو کھولااورمیلادی   سٹورمیں داخل ہوگئی۔میلادی   نے ہلکامیک اپ کیاہوا تھا۔اس نے اس وقت جولباس پہناتھااس پر چمکدار بٹن لگے تھےاور اونچی ایڑی کی سینڈل پہنی تھی۔اس کی کمراورپیٹھ پرسکرٹ  بہت تنگ تھی ۔وہ اس سٹور کی مالکن تھی۔اس نے اپنے نام پر سٹورکانام رکھاتھا۔

میں چاہتی ہوںکہ وہ سبز سوٹ جوشوروم میں لٹگایاگیاہےپہن کر دیکھوں۔جووینا نے ٹھہری آوازمیں کہا۔

اوہ۔وہ بہت عمدہ سوٹ ہے ۔اس کاسائز دس ہےلیکن تمہاراسائزچودہ لگتاہے۔میلادی نے اس کے جسم کاجائزہ لیتےہوئےکہا۔وہ جووینا کے آگے سے گزرکروہاں گئی جہاں شام  کی تقریبات کے لباس  ٹنگےتھےاورکہاکہ تم خوش قسمت ہوکہ  اس کاسائزموجودہے۔

سب سے پہلی شئے جو جووینانے نوٹ کی وہ اس کی قیمت   تھی جو اس کی توقع سےبہت زیادہ تھی۔

یہ تو بہت مہنگی ہے۔جووینانے قیمت دیکھ کرکہا۔

یہ خالص اونی ہے۔اس نے لباس کے ساتھ سلاہوا لیبل نکالااورپڑھنے لگی۔جووینا عدم دلچسپی دکھارہی تھی۔میلادی نے اس لباس کوکنارے سے پکڑااور اس پر کی گئی دستکاری کو غورسےدیکھ کرکہاکہ یہ ریشم کی طرح  ہلکااورلوہے کی طرح مضبوط ہے۔ ا س کی خصوصیات  تم خود پڑھ سکتی ہو۔اس نے لیبل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔کپڑا بہترین ریشم اور رییان  کاحسین امتزاج ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ اس پر سلوٹیں نہیں پڑتیں۔کم دام والے کپڑوں میں اس کے برعکس ہوتاہے۔کپڑے کی اکڑ جاتی رہتی ہے۔اس کے مخملی کالراور آستینیں دیکھو جن پر مخمل کے بٹن لگے ہیں۔

میں دیکھ رہی ہوں۔جووینانے کہا۔

یہ وہ نفیس  چیزیں ہیں جوکسی لباس کی قیمت معین  کرتی ہیں۔اگر  کوالٹی میٹیریل نہ لگایاجائے تواس کی قیمت بہت کم ہوجاتی ہےلیکن وہ پائیدار نہیں ہوتے۔ایک آدھ دھلائی کے بعد بھٹ جاتے یا خراب ہوجاتے ہیں ۔ان کی چمک دمک ختم ہوجاتی ہے۔آپ عمدہ چیز کوایک بار خریدتی ہیں اورغیرمعیاری کوبار بار۔ میں جب اس مخمل کوچھوتی ہوں توہاتھوں کو سرورملتاہے۔ایسی خصوصیات صرف سبز رنگ میں ہی پائی جاتی ہے۔اس آڑورنگ کے لباس میں ایسا احساس نہیں پایاجاتاحالانکہ اس کی قیمت بھی اتنی ہی ہے۔

جوویناکی آنکھوں کےسامنے جوسوٹ  تھا اس کاکالر اور آستین بھی مخمل کی تھی جوآنکھوں کوراحت بخش  رہی تھی۔اسے وہ رنگ اور ڈیزائن اچھالگا۔اس کامن کیاکہ اسے خرید لے لیکن وہ اسے فوری طورپر ظاہرنہیں کرناچاہتی تھی۔اس نے اسے کوکہاکہ وہ اسے ٹرائی کرناچاہے گی۔اس کے لئے وہ تیارہوکرآئی تھی۔اس نے صاف ستھرادھلا ہوازیر جامہ پہنا ہواتھااور اپنی بغلوں اور کانوں پرخوشبولگائی ہوئی تھی۔میلادی نے اسے وہ لباس دیااوراسے ٹرائی روم میں بھیج دیا۔جووینانےقدآدم آئینے میں چورنظروں سے دیکھاپھر سکرٹ اور جیکٹ پہن لیں۔اس نے اپناجائزہ لیا۔اسے ٹھیک ٹھاک لگا۔سکرٹ  پوری طرح فٹ تھا۔اس کی لمبائی اس  سکرٹ سے چھوٹی تھی جووہ پہناکرتی تھی۔اس کاسٹائل بھی مختلف تھا ۔ سکرٹ میں  توخرابی نہیں تھی۔مسئلہ  اس کی جسامت کاتھا۔اس کےہاتھ اور پاؤں  بہت  بڑے بڑے تھے۔ اس کی گردن اور چہرہ نارمل تھا۔ بحثیت ،مجموعی وہ سکرٹ اورجیکٹ اس کو بری نہیں لگ رہی تھی۔

کیسی لگ رہی ہوں جووینانے پوچھا۔

اگربرانہ مناؤتومیں تم پرایک نظرڈال لوں۔میلادی نے پوچھا

لباس جتنابھی اچھاہو اسکے بڑے کانوں کااحساس  میلادی کوپھربھی ہوجائے گاجووینانے سوچا۔

میلادی نےجوویناکوتنقیدی نگاہوں سےدیکھناشروع کیا۔اس کی ایک سمت  کاجائزہ لیااورکہاکہ اس طرف سے تو بالکل ٹھیک ہے۔اس کی ا ٹھان تب ابھرےگی اگر تم اس سکرٹ کےساتھ ایڑیوں والاجوتااورنائلن کی جرابیں پہنو۔ویسے کیایہ آرام دہ  نہیں ؟میلادی نے پوچھا۔

جووینا نے آئینے میں دیکھا ۔اس سکرٹ میں وہ پرکشش تو لگ رہی تھی لیکن ذرا سی فربہ لگ رہی تھی اور  عمر کےآثار اس کے چہرے سے ظاہرہورہےتھے۔اس کی خوشی ماندپڑگئی۔وہ تھکن محسوس کرنے لگی۔

تمہیں کسی لباس کے صحیح یاغلط ہونے کاعلم اس وقت ہو تاہےجب  تک تم اسے پہن کر کسی پارٹی میں  جاؤمیلادی نے کہا۔یہ لباس جوتم ٹرائی کررہی ہواس میں تمہارے جسم کے نشیب وفرازصاف نظررہےہیں۔تمہاری ہڈیاں چوڑی ہیں۔تمہیں اپنی خوراک میں احتیاط کرنی چاہیئے۔میری رائے کےمطابق یہ مخملی بٹن تمہارے جسم کے لئے موزوں نہیں۔تم کچھ اور ٹرائی کرو۔

جب جووینانے ٹرائی روم میں سکرٹ اتارا  تواس وقت  دستک ہوئی ۔اس نے دروازہ نیم واکیاتو  ایک ہاتھ اندرآیااورکہاکہ اسے پہن کردیکھو۔یہ ایک بھورااونی سکرٹ تھاجس میں باریک لائینیں تھیں اور اس کی  گردن پر پھول بوٹے نہیں بنے تھے۔وہ سادہ تھا۔اس کی آستینوں کی لمبائی تین چوتھائی تھی۔یہ باوقار لباس تھا۔اگرکوئی اضافی شئے تھی تو وہ گردن پر سنہری کڑھائی تھی۔اس کی قیمت پہلے  سے کم تھی لیکن اب بھی وہ اس کی توقع سےزیادہ   تھی۔اس کی لمبائی مناسب تھی۔اسکی ٹانگوں کےگرد کپڑا گول         دائرے میں تھا۔اس نے حوصلہ کرکے اپنی شکل آئینے میں دیکھی  اور اسے لگاکہ اس لباس میں وہ جچ رہی تھی اور پہلے سے زیادہ باوقار لگ رہی تھی۔

میلادی اس کےپاس آکر کھڑی ہوگئی۔شوخی سے قہقہہ لگایالیکن اس آواز میں اطمینان تھا۔اس نے کہاکہ یہ سکرٹ تمہاری آنکھوں کی رنگت سے ملتی ہے۔تمہیں مخمل پہننے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمہاری آنکھیں ہی  مخملی ہیں۔

اس سکرٹ کاکپڑاخاکی رنگ کالگ رہاتھاجب کہ اس کی اصلی رنگت  گہری خاکی تھی۔بے حد ملائم  اور چمکدارتھااور نرم صابن کی طرح لگ رہاتھا۔اس کے ساتھ ایک ربن لگاتھا جو گردن میں لپیٹاجاسکتاتھا۔ایسا نہیں تھاکہ اس نے اسے پہناتوخود کو حسینہ عالم سمجھناشروع کردیاتھالیکن خوبصورت لگ رہی تھی۔

میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ تم روزمرہ زندگی میں گھر میں  جوتے نہیں پہنتی ہوگی۔تم نیلون  کاجامہ بھی نہیں پہنتی ہوگی۔علاوہ ازیں یہ بھی یقین ہے کہ تم جیولری بھی نہیں پہنتی ہوگی۔جس طرح تمہاری کمر کی شکل بنی ہوئی ہے تم بیلٹ بھی نہیں باندھتی ہوگی۔میلادی نے کہا۔

جووینانے ہاں میں سرہلایااورکہاکہ اسے وہ سکرٹ اچھالگاہے۔ اسے پیک کردے۔جوویناکواس بات کا احساس ہورہاتھاکہ اس نے اس قسم کالباس زندگی بھر نہیں پہناتھا۔

میراخیال ہے کہ یہ سکرٹ تم کسی خاص تقریب کے لئے خریدرہی ہو۔میلادی نے کہا۔اس وقت جووینا ٹرائی والا لباس اتارکراپنے سادےکپڑے پہن رہی تھی جوکسی راہبہ سے ملتے تھے۔

ہوسکتاہےکہ میری شادی ہوجائےتومیں یہ پہنوں ۔جوویناکےمنہ سے بےساختہ نکلا۔وہ اس جواب سے خود بھی حیران رہ گئی کیونکہ وہ اس  سٹور میں  اورمیلادی سےپہلی بارملی  تھی۔ سب کچھ اس کے لئے اجنبی تھااوراس کے سامنے خالصتاً نجی نوعیت کاجواب انوکھاتھا۔میلادی ایک سمارٹ تاجرتھی اوراس طرح کے سوالات کرنے میں ماہر تھی۔

اوہ! میلادی  جوش میں بولی۔یہ توخوشی کی بات ہے۔

اس کی  شادی ہوجائے ممکن تھابھی اورنہیں بھی۔جووینا نےاپنے طورپر سوچا۔ وہ   نئے مقام جوصوبہ سیسکیچوان  میں تھا  کسی ایسے شخص کی بیوی بن سکتی تھی جوکسان ہو اوراسے امور خانہ میں مدد کے لئے کسی خاتون کی ضرورت ہو۔اس کادولہاکوئی ا یسا احمق  بیماربوڑھابھی ہو سکتاتھاجسے  بیوی کی صورت میں بلامعاوضہ مستقل نرس کی ضرورت ہو۔اسے خبر نہیں تھی کہ وہ کبھی  بیاہی  بھی جائے گی  اور اگر اسکی شادی ہوئی بھی تو  کس سےہوگی۔میلادی اس کی کیفیت سے بےخبربولےجارہی  تھی۔

میں سوچ سکتی ہوں کہ یہ محبت کی شادی ہوگی۔میلادی نے کہا۔ تمہاری آنکھوں کی چمک  سے میں نے اندازہ لگایاہے۔

جووینا نے اس سوال کاجواب نہ دیا۔بھاؤتاؤ کے بعد اس نے کہاکہ سوٹ پیک کردے۔

یہ سوٹ تمہارے لئے بہترین رہے گا۔ زندگی میں شادی ایک بارہوتی ہے۔اسے کھول کر لٹکادیناورنہ اس پر سلوٹیں پڑجائیں گی۔

جہاں تک شادی کرنے کاتعلق ہےیہ میری حد تک صحیح ہے۔میں توتیارہوں ۔جووینانے شرم سے کہا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ  خط   جس میں  اونٹوریو کاگاؤں چھوڑ کر سیسکیچوان آنےکاکہاگیاتھا، میں شادی کاذکر نہیں تھالیکن میلادی کوتوحقیقت کاعلم نہیں تھا۔اس لئے سوال پرسوال داغ رہی تھی۔

تم اسے کہاں ملی؟میلادی نے پوچھا۔تمہارا معاشقہ کب شروع ہوا۔تم نے اس کے ساتھ گھومناپھرناکب شروع کیا؟ میلادی  اپنی دھن میں بولتی چلی گئی۔

خاندانی   روابط تھے۔جووینانےسچائی بیان کی ۔میں جس جگہ نوکری کرتی تھی وہاں  تو سرسری ملاقات ہوتی تھی لیکن  اس کے خاندان سے قربت ایک میلے پر ہوئی۔وہاں  اس کی مرحومہ بیوی مارسیلی ، اس کی بیٹی سبیتا اوراس کی کلاس فیلو ایڈیتھ سے دوستی  بڑھی۔

میں کہہ سکتی ہوں کہ آج کادن ضائع نہیں گیا۔میں  نے ایک دلہن کے لئے لباس فراہم کیاہے۔جس کودائمی خوشیاں ملیں گی۔اس بات سے ہی مجھےاپنےوجود کاجوازپیش کرسکتی ہوں میلادی نے لباس کو ڈبے میں بندکرکے اس پرگلابی ربن باندھتےہوئےکہا۔احتراماًجھکی اورفالتوربن قینچی سے کاٹ دیا۔

میں یہاں دن بھرہوتی ہوں۔بعض اوقات خود سےپوچھتی ہوں کہ میں یہاں کیوں ہوں،کیاکررہی ہوں؟کھڑکی میں مومی ڈھانچوں کو ہرروز نت نئے لباس پہناتی ہوں۔لوگوں کوخریداری کے لئےمائل کرتی رہتی  ہوں۔ادھر ادھرگھوم پھر کرسٹور کواس طرح سجاتی رہتی ہوں کہ خریدار اشیاکوزیادہ سے زیادہ خریدیں لیکن کوئی دن ایسابھی ہوتاہےجسے میں کہہ سکتی ہوں کہ اس دکان میں ایک شخص بھی داخل نہیں ہواکیونکہ لوگو ں کاخیال ہےکہ میں بہت مہنگی ہوں۔میری دکان کےپہناوے یقیناً بہت قیمتی  ہیں لیکن ان کی کوالٹی بہترین ہوتی ہے ۔اگرآپ کوعمدہ مال چاہیئے توپھررقم توخرچ کرنا پڑتی ہے۔

جب  خریداروں کو شام میں  پارٹی  کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہےتووہ دکان میں داخل ہوتے ہیں۔ان  ملبوسات کوجو رات کوپارٹی  میں پہننےوالے ہوتے ہیں ،کی طرف  اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اس ذخیرے سے چن لیتی ہیں ۔اس کوالٹی اور ڈیزائینوں کے لباس گاؤں کی اس دکان کے علاوہ انہیں کہیں سے بھی نہیں مل سکتے۔انہیں اس کے لئے سو سو میل دور لندن یا ٹچنر جاناپڑتا ہے ۔ اس کے لئے وقت اور پٹرول خرچ کرناپڑتا ہےاور پھر کہاجاتاہےکہ وہاں بھی  انہیں کوئی ڈھنگ کی شئے  نہیں ملی ۔دراصل  ان کی کوالٹی اورکپڑااتناعمدہ نہیں ہوتا ۔ میں ان سے پوچھتی ہوں کہ ایمانداری سےبتائیں  کہ میری دکان سے بہتر مال کسی کے پاس تھا؟لیکن وہ شرمندگی سے یہ تسلیم نہیں کرتیں۔ وہ اس بات پراتراتی ہیں کہ یہ انہوں نے شہر سے خریداتھا۔ان کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ لباس  ٹرائی کرنے کے بعد خریدلیں اورکہتی ہیں   کہ سوچ کربتائیں گی ۔میں انہیں کہتی ہوں ۔'ضرور'۔میں جانتی ہوں کہ ان کامقصد کیاہوتاہے۔وہ قریبی شہرکی کسی عام دکان سے سستالباس خریدناچاہتی ہیں ۔ جب وہ دن بھر دکانیں  بھوگ بھوگ کرتھک جاتی ہیں توخالی ہاتھ جانے کی خفت مٹانےکےلئے کچھ نہ کچھ خریدلیتی ہیں اور شیخی بگھارتی ہیں کہ یہ انہوں نے شہر کے فلاں ڈیزائینر سٹور سے خریداہےاور ڈینگیں مارتی ہیں کہ وہ  اپنے بچوں کوامرا کےسکول میں داخل کروارہی ہیں۔وہ تیزتیزچلنے لگی۔وہ اتنی  سرعت سے چل رہی تھی ۔لباس کاڈبہ لیتے وقت اسے شدت سےاحساس ہواکہ اسے  میلادی کے سامنے شادی کالفظ استعمال نہیں کرناچاہیئے تھا۔

وہ سوٹ ضرید کرباہر آئی اور سڑک پرپیدل چلنے لگی ۔ اس وقت اس نے مسٹر میکالی  کوسڑک کےدوسری طرف  دیکھا۔وہ نارمل تھااور اپنی دھن میں چلاجارہاتھا۔سب ٹھیک ہی تھا۔جووینا اس کی شیف تھی۔ اس کے ارادوں کا مسٹر میکالی کوعلم نہ تھا۔اگروہ  اس کےبالکل سامنےبھی ہوتاتووہ لباس کےڈبے کونظراندازکردیتا۔وہ احتراماًاپناپیٹ جھکاتا اور بغیر توجہ دئیے آگے نکل جاتا ۔۔۔اس وقت وہ اور سوچوں میں گم تھا۔وہ اپنے داماد کے بارے میں سوچ رہاتھاجواسے نت نئی اذیتیں دیتارہتاتھا۔ اس کے پاس اور بھی بہت کچھ تھاجس پر اس نے سوچناتھا۔ لوگ  چاہتے تھےکہ اس گاؤں  میں کوئی نئی شئے بھی دیکھیں۔وہ کولہو کے بیل کی طرح ہر روزکام کرتےتھے۔ بعض اوقات چھٹی کےدن یااتوار کو اس یکسانیت بھلانے کی کوشش کرتے ۔مسٹر میکالی  کاموڈ بھی کبھی کبھار بن جاتاکہ تھری پیس سوٹ اور ہلکےوزن کا  اوورکو ٹ پہنے،چمکتے جوتے پہنےاورایگزیبیشن روڈ سےاپنےدفترکی طرف جائےجواس نے ابھی تک اپنےپاس رکھاہواتھا۔اسے وہ انشورنس دفترکہتاتھاجالانکہ اس کااب وجود نہ تھاکیونکہ اس نے کافی عرصہ پہلے بیچ دیاتھا۔بعض  دفعہ لوگ اس کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ کر اس سے ملنے آتےتھےاور اس سے سیاسی معاملات،جائیدادکی خریدوفروخت یازراعت وغیرہ جیسے معاملات پررہنمائی لیتے تھے۔اس کے دفترمیں ہرقسم کے نقشے لگے ہوئے تھےجونئے اورپرانے تھے۔اس کے پاس جب کوئی آتاتووہ ان نقشوں کومیزپرپھیلادیتااوراس پرگفتگوکرناشروع کردیتاخواہ کوئی پوچھےیانہ پوچھےوہ ان پر باتیں شروع کردیاکرتاتھا۔وہ  جگہ عام طور پر ویران ہی رہتی تھی ۔ویسے بلاوجہ ان گلیوں سے  ہفتے میں تین یاچاردن  گزراکرتاتھا۔جنگ کے دنوں  میں اس نے اپنی بیوک کارایک گودام میں چھپادی تھی اور لوگوں کو یہ سبق پڑھانے کہ پیدل سفر کیاجائے کی  مثال قائم کرنے کے لئےہرجگہ گھومتارہتاتھا۔جنگ عظیم دوم ختم ہونے کےپندرہ سال بعدبھی وہ اپنی اس ڈگرپرقائم تھا۔اس نے اپنے ہاتھ پیچھے باندھے ہوتے تھے۔وہ ایک مشفق لینڈلارڈ کی طرح چلتاجیسےکہ وہ اپنی جائیدادکامعائنہ کررہاہویاایک مبلغ کی طرح  اپنے سامعین کےسامنے تقریر کرنے جارہاہو،یقیناًآدھے لوگوں  سے جن سے وہ ملتاتھاکواس بات کاعلم نہیں تھا کہ وہ اصل میں کیاشئے تھا۔

جووینا کے آنے کے بعد بھی گاؤں  کی سماجیت آہستہ آہستہ بدل  رہی تھی۔اس میں  اقتصادی ترقی دیکھی جاسکتی تھی۔تجارت اب پختہ سڑکوں پرہونے لگی تھی۔مال برداری اور سفر اب بڑی بڑی شاہراہوں پر ہونے لگاتھا۔جگہ جگہ ہائی وےبن گئے تھے۔نئے نئے سٹورکھل گئے تھے۔کینیڈین ٹائر، وال مارٹ، بے سٹوراور ڈسکاؤنٹ سٹور جیسے اداروں کاسلسلہ کھل گیاتھا۔وہاں ایک نائٹ کلب بھی کھل گیاتھا۔اندرون شہر کی دکانوں میں گلابی  یازیتونی رنگ کرلیاگیاتھا۔ان میں میلادی کی دکان بھی شامل تھی۔

جووینا اس علاقے میںہی پلی بڑھی تھی ۔ اس کے پاس  پارٹیوں پر پہننےوالےزیادہ لباس نہیں تھے۔وہ محنت کش تھی ۔اسے ایسے لباسوں کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔گاؤں کے باسی  سستےکپڑےپہنتے تواپناموازنہ  بھی سستےاوررعائتی سٹوروں سےکرتے تھے۔  خریداری کی متنوع اقسام نہیں ہوتی تھیں۔معدوے چنددولت مند بچوں،دادی،نانی، خالاؤں،پھوپھیوں کے لئے  ڈیزائینر سٹوروں سے خریداری کی سکت رکھتی تھیں۔عام ماؤں کاذکر چھوڑدوکیونکہ  ان کےپاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھےاور عقلمند تھیں۔وہ سستی اشیا ہی  خریدسکتی تھیں۔

 جووینا اپنے آپ میں رہتی تھی وہ کبھی بھی دوسروں کی باتوں میں ٹانگ نہ اڑاتی۔وہ خودہی فیصلہ کرتی کہ کیاکیاجائے۔اسےکیاکرنے کی ضرورت سےکس سے پرہیز کرنا چاہیئے اورکس طرح   کرناچاہیئےاورکس طرح کرناچاہیئے اوروہ گھوم پھرکرلوگوں کے کردار کا جائزہ لیتی اور امید کرتی تھی کہ وہ قانون قاعدے کے مطابق کام کریں لیکن اس نت کبھی بھی کسی کو نہیںورغلایاتھا۔اس کارویہ لےلےیاچھوڑدے کا ہوتاتھا۔وہ کسی بات  کو  نہیں چھپاتی  تھی۔

یہ ایک نایاب شخص تھاجس نےاسےآلیاتھااوروہ اس بات سے بہت پہلے ہی باخبرہوچکی تھی۔اس نے جب سبیتاکو الوداع کہاتواس کی آنکھوں میں ایک قطرہ بھی آنسوؤں کانہ نکلا حالانکہ جوویناسبیتاکےلئےسب سےقریب تھی ۔اس نے سبیتا کے ساتھ ایسا برتاؤ کیاتھاجو حقیقی ماں کاتھا۔سبیتا کی والدہ فوت ہوگئی تھی ۔قہ بے راہ روہوگئی تھی ۔ اس پرترس کھاکر اس کی تربیت کرنے لگی تھی۔ ۔جب وہ گھر چھوڑ جاتی تویقینا!مسٹر میکالی بھی پریشان ہوتاکیونکہ جووینا نے اس کی بڑی خدمت کی تھی اور اس کانعم البدل  تلاش کرنا بہت مشکل کام تھالیکن یہ سب  باتیں اب بیکار تھیں ۔جووینا نے اپنے تئیں  تہیہ کرلیاتھاکہ اس نے وہ گھر چھوڑ دیناہے اور سیسکیچوان چلے جانا ہے۔

میکالی اور اس کی نواسی دونوں خودمحوری کاشکارتھے۔جوویناکومیکالی کی جائیداد کے بٹوارے کی فکر تھی۔ اس کی مرحومہ بیٹی کا حصہ جواس کے داماد کوجانا تھا پر تشویش تھی۔  سیاہ چیری کادرخت تھاجومیکالی کی جائیداد میں تھالیکن اس کی شاخیں  دوسرے گھروں میں بھی پھیلی ہوئی تھیں اور فرنیچر جووہ سمجھتی تھی کہ مسٹر باؤڈری کی ملکیت تھا۔مسٹر میکالی کاایک کتاتھاجو دن بھر صحن کھودکر ہڈیاں ڈھونڈتارہتا۔وہ اسے ڈھونڈنے دیتا۔چیری کے درخت کی شاخیں پڑوسیوں کے گھروں تک پھیل گئی تھیں ۔ان پر لذت آمیز پھل لگتاتووہ انہیں چننے دیتا ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ  نئےلوگ تھےجونئے گھروں میں مقیم تھے۔وہ انہیں فائدہ اٹھانے دیتاتھا۔ایک وقت  ایسابھی تھاکہ ایگزیبیشن روڈپرصرف تین یاچاربڑے گھرتھے۔ ان کے پاس کھلے میدان میں اس وقت  میلے کاسماں پیداہوجاتاتھاجہاں  ادھر زرعی نمائش   لگاکرتی تھی۔وسیع میدانوں  کے درمیان  گھنے درخت اورچھوٹی  چھوٹی چراگاہیں تھیں ۔اب وہاں  رہائشی پلاٹ بناکرہاؤسنگ سوسائٹی بنادی گئی تھی اور  گھر بن گئے تھے۔یہ گھر چھوٹے تھےجن کی ترتیب ایسی کی گئی تھی کہ  ایک گھرسیڑھیوں والا اور دوسرابغیرسیڑھیوں کےہوتاتھا۔ اس علاقے کو کچی آبادی کہاجانے لگاتھا۔

نئی آبادی میں  مسٹر میکالی صرف چندلوگوں  کوجانتاتھااوران سےکئی ایک سےتوکسی حد تک دوستی ہوگئی تھی ۔  استانی مس ہڈ،اس کی ماں اور مسٹرشلز  موچی  سے  پکی دوستی ہوگئی تھی  اور وہ ان سے اکثر  ملتارہتاتھا۔شلز کی بیٹی ایڈیتھ اور اس کی نواسی سبیتا ہم جماعت تھیں ۔ان میں گہری چھنتی تھی ۔وہ ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھیں۔ددونوں بری صحبت میں پڑ گئی تھیں ۔ ان میں ایڈیتھ کاچال چلن نسبتاسبیتا سے اچھاتھا۔  وہ بالغ ہورہی تھیں۔ اگلے سال سبتا کو وہاں سے ٹورنٹوبھیج دیاجاناتھااور ایڈیتھ سے ہمیشہ  ہمیشہ کےلئےالگ ہوجاناتھا اوروہاں مختلف طرز کی زندگی گزارناتھی  اور ایڈتھ سے اس کی دوستی ٹوٹ جاناتھی ۔ ایڈیتھ  بالکل بھی مغرورنہیں تھی، نہ ہی اپنے اور سبینا کے گھروں میں کوئی مسئلہ کھڑاکیاتھا۔ وہ احمق نہیں تھی اور اس کے ساتھ یہ معاملہ تھاکہ وہ سمارٹ  تھی جبکہ سبیتاعام ذہن رکھنے والی تھی جو اس کے آگے کندلگتی تھی۔

مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب ایک دن سکول جاتے وقت  سبیتانے ایڈیتھ کو کہاکہ سکول جانے سے پہلے ایک خط ڈاک خانے پوسٹ کرنا ہے۔

 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

 

Popular posts from this blog