Abu Nasr Alfarabi


 



ابو نصرالفارابی ( معلم ثانی )

…..950(  Kazakhstan)



ْمرتب   :   غلام محی الدین 


حالات ِ زندگی

 

ابو نصر الفارابی ( معّلم ِ  ثانی)

)Alpharabius )

فاراب ( فزاقستان)  950۔۔۔۔870

 

حالا تِ زندگی

ابو نصر فارابی قزاقستان کے شہر فاراب میں پیدا ہوئے۔مقامِ پیدائش کی نسبت سے انہیں الفارابی کہا جاتا ہے۔انگریزی میں ان کا نام  افریڈیس ) تھا۔Alpharabius )

  ان کا پورا نام مختلف  تصانیف میں  ردوبدل کے ساتھ لکھا ہے۔دائرہ المعروف میں ان کا نام ابو نصر محمد بن اوریغ بن ترخان  (طرکھان ) لکھا ہے ۔ان کا خاندان صاحب  حیثیت نہیں تھا۔ ان کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔وہ رات کو چراغ تلے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔بسا اوقات تو ان کی حالت اتنی پتلی ہوتی تھی کہ ان کے پاس  دیئے میں   تیل کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو وہ پہریدار کی مشعل  تلے پڑھا کرتے تھے۔ وہ جہاں جہاں جاتا ، روشنی کے نیچے چل کر پڑھا کرتے تھے۔ذرا بڑے ہوئے تو جہاں کہیں  انہیں موقعہ ملتا کسی عالم سےمستفید ہوتے تھے۔ان دنوں بغدا د عروس البلاد تھا۔ علم و فن ، تجارت اور ثقافت کا مرکز تھا۔علمی مجالس کا مرکز تھا۔ ٹولیوں میں  علماء   فکری  مسائل  پر مناظرے کرتے تھے۔آپ ان میں شرکت کرنے لگے۔آپ نے سائنس ، نجوم ، علمِ ریاضیات ۔فلسفہ ،علم الافلاک، منطق  ، موسیقی        سیکھی۔ انہیں یونانی فلسفہ  ُلبھا گیا اور وہ ارسطو کی تعلیمات کے گرویدہ ہوگئے۔انہوں نے  منطق، طب،نجوم ، فللکیات ۔ موسیقی   ،ریاضیات ،فلسفہ، طب ،، عمرانیات اور نوافلاطونیت وغیرہ میں  تعلیم حاصل کی۔

942ء تک وہ بغداد رہے اس کے بعد وہ شام چلے گئے جہاں انہوں نے 943ء می مبادیات  ِ موسیقی پر کتاب لکھی۔948ء میں  وہ واپس نغداد آگئے ۔948 ء میں  امیر سیف الدولہ نے انہیں اپنا مشیر بنالیا۔وہاں وہ پانچ سال رہے اور تعلیم وتدریس کرتے اور کتب لکھتے رہے۔انہوں نے وہاں  مابعد از طبیعیات پر  کتاب 'تنبیہ' لکھی۔  ابنِ سینا نے ان کی شاگردی اختیار کی ۔ اس وقت ابنِ سینا تیرہ سال کے تھے۔انہوں  انہیں ارسطوریات ، یونانی فلسفےمیں ماہر کردیا ۔انہوں نے یوحنا بن حیلان اور ابو بشریتے جو پہلے ہم جماعت تھے پھر ان کے دوست بن گئے کے ساتھ منطق اور دیگر علوم سیکھے۔ انہوں نے ابنِ سینا کو بھی ان سےمنطق اور طب کی  تعلیم دلوائی۔وہ  مسیحی تھے لیکن ان کا عقیدہ باقی مسیحیوں سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ ؐ کو دو الگ   انسانوں کے ُروپ میں دیکھتے تھے۔ ایک شخص  عام انسانوں جیسی خوبیاں رکھنے والا اور دوسرا ماورائی اور الوہی وصائف کا مالک جن  کو غیبی امداد حاصل تھی۔اس فرقے کو نسطوری فرقہ کہا جاتا تھا۔ 

جہاں  انہوں نے اپنی  کتاب ستمبر 943ء میں لکھی۔پھر وہ حلب چلے گئے جہاں انہوں نے کچھ عرصہ پڑھایا۔اسکے بعد وہ مصر چلے گئے  جہاں انہوں نے جولائی  948   ءمیں مبادیا ت لکھی۔اس کے بعد وہ پھر واپس  شام آگئے  جہاں اس وقت کے حکمران سیف الدولہ نے انہیں  اپنا  درباری بنا لیا۔وہاں وہ پانچ سال تک رہے اور  لکھتے لکھاتے  رہے۔ 956۔55 9ء میں انہوں نے 'تنبیہ ' لکھی۔ انہوں ۔اس دوران  کیا تو  ابنِ سینا  نے ان کی شاگردی اختیار کی۔آپ نے ان  کو  مابعد از طبیعیات ،منطق، فلسفہ   سکندرِ اعظمور ان کے بعد کا دور تھا۔ اسکندیہ دارالخلافہ تھا ۔ ان دنوں   ثقافت عروج پر تھی ۔ وہ  پڑھایا ۔وہ  تعلیم  دی۔  جب چودیں تخت نشینی ہوئی  تو سب بدل گیا۔ ۔اسکندریہ میں سکندراعظم کی موت کے بعدحکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد صدیوں بعد نصرانی حکومت قائم ہوگئی اور چودھویں نصرانی ملکہ نے مروجہ نظام کوپلٹ دیا۔وہ بنیاد پرست مسیحی تھی اور جدید سات صحیفوں   پر پختہ یقین رکھتی تھی ۔اس کا ماننا تھا کہ یونانی فلسفہ        اور          علوم و فنون  ان کے دین کو بگاڑ رہے تھے اس لیے ان  پر پابندی عائد کر دی ۔ اب  فلسفے کو نجی اساتذہ سے پڑھا جانے لگا تھا۔فلسفے پر سرکاری ہاتھ اٹھ جانے سے  فلسفے پر گرہن لگ گیا۔اب صرف وہ ہی ممنوعہ علوم  پڑھ سکتا تھا جن کو اس علم کے حصول کا جنون ہوتا کیونکہ اب اسے نجی سطح پر علماء سے  نجی   سطح  پڑھنا پڑتاتھا۔ملکہ نے دارالخلافہ اسکندریہ سے  منتقل   کردیا۔   وہ جگہ چھوڑ کر  دمشق چلے گئے اور تعلیم و تدریس میں مصروف ہو گئے۔

الفارابی یونانی فیلسوف ارسطو ، انوافلاطونیت ،ریاضیات ،عمرانیات ،سیاسیات ،طبیعیات  اور موسیقی میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔انہوں

 

یکتا تھے ۔انہوں نے اپنے پیش رو الکندی اور الرازی  جو اسلام اور یونانی فلسفے میں روابط قائم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے البتہ ابنِ سینا اورابنِ  ُرشدنے ان کی تقلید میں ان کے مشن کو آگے بڑھایا اور یونانی فلسفے کو اسلامی مذہب کے دائرے میں لائے۔انہ کا ساتھ بطلیموس اور المحبطی  نے ان کا ساتھ دیا۔

الفارابی نےارسطو کے فلسفے کی شرحیں   اور تفسیریں  لکھیں اور ان پر پرمغز مقالے لکھے۔ ان کی ان تفسیروں اور ارسطو کی منطق، اخلاقیات،اور مابعد الطبیعیات کے موضوعات  کو ا خلوص کے ساتھ اپنایااور اسلام کا حصہ بنایا۔اس لیے انہیں 'معلم ثانی' بھی کہاجاتاہے۔باقی تمام  فلسفہ ارسطو سے لیا لیکن سیاست  کا فلسفہ انہوں نے افلاطون  کی  کتاب ری پبلک سے لیا۔وہ  ارسطو کے طریقہ تدریس کواستدلا ل سے کلام کا طریقہ اپناتے تھے۔ان  کے لیکچر  کا مقصد یہ تھا کہ وہ  شرکاء  میں تجسس اور  غوروفکر پیدا ہو۔ارسطو کے طریقوں کو استعمال کرنے والوں کو ارسطوری  طریقہ (پیری پے ٹینک) کہتے ہیں۔

 ارسطو کے طریقے  کلام کے برعکس سقراط کا  طریقہ تدریس سوالات  کے حل کے لیے  شرکاء  وہ زیربحث موضوعا ت پر اپنی سوجھ بوجھ کے حساب سے منطق پیش کرناتھا۔  علمی تنازعات میں  جب کوئی مسئلہ سامنے آتا تو ہر شریک اپنے اپنے انداز میں اسے سوچنے لگتااور اس کا حل ن  وجوہات کی بناپر وہ فیصلہ کیاہے۔ شرکاء   کرکے حل کو تمام پہلوؤں سے دیکھتے اور اس میں خامیاں تلاش کرکے اسے دور کرنے کی کوشش رتے ۔ اس طرح سے متفقہ نیاحل تجویز کیا جاتا۔ یہ طریقہ ہر شریک کلاس میں تجسس پیدا کرتا۔

لفارابی کے فلسفے کا جائزہ لیتے ہیں۔اب ہم ان کے فلسفے کاذکرکرتے ہیں ۔

 الفارابی کا فلسفہPhilosophy of Alpharabius٭

قاری  کےلیے الفارابی  کے فلسفے کے مطالعے کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اسے کہاں سے شروع کیا جائے۔انہوں نے ایک موضوع پر تکرار کی ہے اور باربار اسے مختلف  زاویوں سے  بحث کی ہے۔ان کا فلسفہ پیچیدہ ہے ۔ان کی منطق گہری ہے۔ان کے فلسفے کا آغاز ان کی اہم تصانیف  'پاکیزہ  شہر ( دا   ورچؤس  سٹیاور  سیاسی حکومت  ( پولیٹیکل رجیم )  میں کیا ہے ۔ان کتب میں  ایسے شہر جس طرزِ حکومت   ہوتی ہے  اور سیاسی حکومت  کے وصائف پر تبصرہ کرتے ہیں ۔دونوں طرزِ حکومت  کا نظام ، مسائل  اور معاملات کی نوعیت ایک جیسی ہوتی ہے ۔اپنی ریاست  مستحکم کرنے، ترقی دینے اور عوام کی فلاح و بہبود  کے مقاصد بھی یکساں ہوتے  ہیں لیکن ان کے حل کرنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں۔ان دونوں حکومتوں  کی سوچ  اور طرزِ عمل میں فرق پایا جاتاہے۔اوّل الذکر طرز حکومت  جسے  پاک طرز حکومت ( ورچؤسس سٹی )  میں   دیگرممالک  اور کائنات کے ساتھ مراسم  اور نظام مراتب  کی درجہ بندی  اور ان کی تشریح  ٹھوس  ، غیر لچکدار اور مستقل ہوتی ہے۔اس نظام میں  انداز  ت کے ذاتی مفادات پر ہوتاہے۔  کےاپنی تمام پالیسیاں ان  کو مدِّ نظر رکھ کر کی جاتی ہیں ۔

سیاسی طرزِ حکومت  ( پولیٹیکل رجیم ) میں   حکمرانوں کی ترجیح عوام الناس کی فلاح وبہبود ہوتی ہے۔ ان کی سوچ لچکدار ہوتی ہے۔ کائنات اور اقوامِ عالم کی درجہ بندی  اور نظام ِ مراتب  بھی    ٹھوس نہیں ہوتا اور پالیسیاں آسانی سے تبدیل کی جا سکتی ہیں ۔ اس میں تبدیلی کی ہمیشہ گنجائش موجود ہوتی ہے۔اس طرزِ حکومت    کے رہنما اصول بیان کیے۔  طے کرکے ان پر عمل کیا جاتاہے۔الفارابی  نے ان حکومتوں   کا تصور  قدیم یونانیوں کے نظریات سے لیا۔ انہوں نے ان  ان کے فلسفے سے اہم نقاط اٹھائے، اپنے علم، فہم و فراست  اور ذاتی تجربات سے ان  میں اپنی منطق شامل کی اور اپنا فلسفہ متعارف کروادیا۔اس سے یونانی فلسفہ  الفارابی کی بصیرت  میں مدغم ہوکر ایک نئے فلسفے کا    رُوپ دھار لیا۔ انہوں ن اپنے نظریے میں  ارسطو سے'اخلاقیات ' اور افلاطون سے ' جمہوریت ' کے خدوخال مستعار لیے۔الفارابی کے فلسفے میں  کائنات ، موت کے بعد کی زندگی ،وراثت ، جانشینی اور   غیر ممالک سے لڑائیوں  کی منطق قدیم یو ناینوں سے مختلف ہے۔وہ اس بات  کا پرچار کرتے ہیں کہ  سیاست ایک اہم  علم ہے اور اسے لازماً  نظریات میں امل کیا جانا چاہیئے اور اقوام عالم کے ساتھ معاملات  طے کرنے کو لازماً علوم میں شامل کیا جانا چاہیئے۔ان کے  کی مبادیات قدیم یونانی فلسفہ ہے  اس لیے ان کے فلسفے کامطالعہ ان کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔الفاربی کے نزدیک  تخلیق  سے متعلق دو تصورات  پائے جاتے ہیں۔ کائنات کا وجود    اور امکانی   تخلیل  الفارابی  نے   مذہب اور دین  کے تصور کی وضاحت میں کہا کہ مذہب ایک مسئلک اور مکتبہ فکر ہے ۔وہ ای رائے ہے جس میں وہ علماء جو متفق ہوتے ہیں اپنے نظریے کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ جبکہ دین ایک طرزِ حیات ہے یہ حق کاراستہ بتاتاہے۔یہ عقیدہ ہے اور عمل کا منبع ہے اس میں اطاعت گزاری کی جاتی ہے۔

 انہوں نے اصول اوّل کا تصور پیش کیا جس کا بانی ارسطو تھا ۔ان کے مطابق  اوّلین  محرک کے طور پر کدا نے ماضی ، حال اور مستقبل کا  ابدی علم اپنے پاس رکھاہے  کیا۔ 

تمام موجودہ مخلوقات اپنے وجود اوربقاکی محتاجی                                        نہیں    ۔ قائم بالذات ہے  اور وہ ہستی جس نے اسے تخلیق کیا ہے وہ  خدا کی ذات  ہے جولازم ہے اوراس نے کائنات کو  ممکن ہستیوں میں تقسیم کیا ہے۔ اسے انہوں    نے اصولِ اوّل کہا۔جبکہ دوسری صورت امکانی کائنات                                     ہے کی وضاحت کی کہ ہر فرد میں  جو  تخلیق تو ہو سکتی ہے لیکن  پائیدار نہیں ہوتی۔ اسے اصول ثانی  ا ہوتے ہیں ۔ جبلی خواص اور اکتسابی اوصاف  ۔ ان کے مطابق ہرشخص جو پیدائش کے وقت  خصوصیات   ہوتی ہیں   ۔انہیں استعداد یا لیاقت کہتے ہیں ۔  ذہانت کی سطح ، ریاضی ،  علوم و فنون ،سائنسی علوم  کی تفہیم ، ابعاد ثلاثہ کے روابط   آسانی سے سمجھ میں آنا، موسیقی ، خوش الہانی ، شاعری،   وغیرہ  فطری حلاحیتیں ہیں  جو کسی میں زیادہ اور کسی میں کم        جیسے کوئی   جیسے کسی کی آواز اچھی ہوتی ہے، کسی کاذہن ریاضی اور طبعی علوم کی تفہیم میں زیادہ ہوتا ہے   وغیرہ

فطین لوگوں میں کسی خاص  معاملے میں خصوصی قابلیت پائی جاتی ہے   کسی خاص   چیز میں کمال پن پایا جاتا ہے لیکن باقی تمام صلاحیتیں نارمل ہوتی ہیں ۔فرق  بیان کے ذخیرہ الفاظ اور تکنیک  کے اظہار میں ہو سکتا ہے کیونکہ خواندہ کے پاس بیان کرنے کے الفاظ کی تعداد اور طرز تکنیک  ناخواندہ لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے کہونکہ وہ تعلیم و تربیت کے عمل سے صرف و نحو وغیرہ زیادہ سیکھ لیتے ہیں اور ان پڑھوں کو وہ مواقع نصیب نہیں ہوتے۔۔لیکن دونوں قسم کے انسانوں کے سوچنے کی گہرائی میں کوئی فر ق نہیں پایاجاتا۔ جان پڑھ اور خواندہ   اپنے خیالات کا خوبصورتی سے اظہار کر سکتے ہیں ۔

  فیلسوف   سیاسیات، نفسیات ، طبیعیات، نباتیات،جیسے  موضوعات پر یونانی   فیلسوف بقراط ، سقراط، ارسطو، افلاطون  ، فلاطینوس وغیرہ  کے نظریات  کی  صداقت کو پرکھنے  پر تحقیقات کررہے تھے۔کائنات کی  تخلیق  میں   مستشرقین   دیومالاؤں کے قصے گھڑے گئے اورمذہب  کی تشریح ان تخیلاتی دیویوں اور دیوتاؤں پر کی گئی۔اسی طرح کائنات   کی تفہیم میں  انہوں نے    تمام علوم پر  کچھ نہ کچھ لکھاتھا۔ انہوں  نجوم، علم الاعد، جنتر منتر  ، حیاتیات، نباتیات   وغیرہ پر اپنی  اعلیٰ بصیرت کی بناپر تحقیقات کیں تو نئے نئے موضوعات سامنے آتے گئے اور ہر علم کی شاخیں بنتی گئیں۔فارابی نے اپنے فلسفے   میں نو افلاطونیت کے اس   نظریے کو اپناتے ہوئے کہا کہ  ہر  ذی روح میں  تین  قسموں کی روحیں پائی جاتی ہیں۔ ٭ عقلی روح  ( ریشنل سول ) ٭حیواناتی روح  ( اینیمل  سول) اور نباتاتی روح  (ویجی ٹیٹو سول) پائی جاتی ہیں ۔)

عقلی روح  انسانی بصیرت ہے ۔ ہر انسان کی ودیعت میں ہے کہ اچھے برے ،  مفید نقصان دہ اشیاء میں تمیز کرسکتاہے۔حیوانی روح کا تعلق جبلی تقاضوں سے ہے اور نباتاتی کا  پودوں سے۔موضوات کو مختلف عقلی روایات کے تحت  اپنے علم و عقل  اور تجربے سے لیاقت  سے            مختلف عقلی روایات کو ترتیب دے کر کوئی کلیہ بناتے تھے ۔ بل بوتے پر  حاصل مواد کو  وہ اپنے علم ،عقل بصیرت کی بناپر اپنے بارے میں سوچ سمجھ سکتاہے، تمیزکر سکتاہے غلط اور درست  کام میں تمیز کرسکتاہے   کو مدّنظر رکھ کر ترتیب دے کر کو کلیہ بناتی ہے۔  ہے۔ عقلی  روح   جتنی زیادہ مضبوط ہوگی اس شخص میں  غورو فکر ، سچائی اوراخلاقی   جائےانہوں نے  غورو فکر کی اہمیت اجاگر کی ۔ میں یو پلیٹو نیز)  جوایک فلسفیانہ نظام ہے  جس میں  انہوں نے مشہور فلسفی فلوطینوس ، زینوفون وغیرہ   کے فلسفے کی تشریح کی۔    

  الفارابی مطالعہ باطن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں  ۔جو عام استعمال میں ہیں، پاکستان میں بھی ۔انہیں وہ استعمال کرتے ہیں جو صوفیائے کرام   ۔اسی طرح  نوافلاطونیت والے  اپنی دنیاوی مواد کو  فلسفے ،غوروفکر،،صوفی  میسٹکس  جن کا مقصد ہوتاہے کہ وہ اپنی وفاداری  اور ا ندرونی انعکاس سے۔اور روحانیت  )۔ا  یعنی سیدھا کرنا؛ قطار بندی ؛ صف بندی )کی ِجلا ( اینلائٹمنٹ  )  بنارہے ہوں گے طبعی اور روحانی وجود کی سمتوں کاتعین کیا جاسکے۔

الفارابی نے ارسطو کی پیروی میں سائنس  کے اعداد و شمار، نمبر اورگنتی سے متعلق                               اپنا نظریہ اپنی کتاب      'ا  حساء   العلوم '' پر اصرار کیا کہ     قارئین   کو موضوع  کے متن   پر توجہ دینی چاہیئے۔وہ فلسفے  پر گہری نظر رکھتے تھے اور فلسفے کی   تمام شاخوں کا مطالعہ کیااور انہیں مربوط انداز میں پیش کیا ۔ انہوں نے  کلام میں زباندانی کی اہمیت اجاگر کی ۔

ان میں ان کے فلسفے کے مختلف پہلو سامنے آئے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔

سائنسی اعداد و شمار i)  Enumeration of the Science,٭  ii)   Language   کلام  ٭  iii)      Logicمنطق

٭iv)       Mathematic   and Music ریاضی اور موسیقی

٭  v)  Physics        طبیعیات

  ٭vi) Metaphysicsمابعد ا طبیعیات                                                                                                                                                    از 

٭   vii)       Ethics and Politics                                                         اخلاقیات اور سیاست                       ہ

اب ہم ان کا مطالعہ کرتےہیں۔

i)       Enumeration of the Sciences سائنس کے اعداد و شماریا ت

                                                ii)       Language     زبان  دانی 

الفارابی                                    نے سائنسی علوم کے اعداد و شمار کا جائزہ  لیتے وقت      انہوں    تحریر ی زبان ، صرف و نحو  اورپیمائش  وغیرہ  کو بھی مِّد نظر رکھا۔ان کی  لسانیات پر عبوران کی تصنیف  ' کتاب الحروف '(سائنس آف لیٹرز) یا  ذرہ ( پارٹیکلز)میں  کی جا سکتی ہے ۔

جہاں تک الفارابی کی  موسیقی سے دلچسپی کا تعلق ہے ،تو موسیقی  پر اعلیٰ کتاب کے آخری باب میں علم ہوتاہے  کہاکہ وہ کس  قدر موسیقی  میں دلچسپی لیتے تھے۔ وہ نہ صرف   موسیقار تھے بلکہ  شاعراور  کی قدرومنزلت بڑھانے کے لیے    بہترین  دھنیں   تیار کرکے    متن ، معروضات اور تبصرے کرتے تھے،  خوبصورت طریقے سے  ادا کرتے تھے جو موجودہ دور میں  ناپید ہیں ۔وہ  اپنا نقطہ نظر مدلل طریقے سے ادا کرتے تھے۔

iii)  ( Logic)  منطق  

الفارابی کے دور میں  دنیا بھر کے  ُزعماء کے خیالات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے مقامی زبان میں تراجم کیے جاتے تھے لیکن وہ جزوی اور ایک خاص   موضوع پر ہوتے تھے ۔اسی طرح  ارسطوکے فلسفے  کے  ساتھ بھی تھا لیکن  ذمرمین نے1981 میں ارسطوکے ایک طویل   مقالے کا ترجمہ ایک مجموعے کی شکل میں پیش کیا ۔اس  سے پہلے اس کے نظریات  ٹکڑوں میں  مقالوں ، تبصروں اور  مجموعے  کی صورت میں یا حوالہ دینے کےلیے مختلف رسالوں  میں  پڑی تھیں ۔قدیم ہونے کی وجہ سے ان کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ان میں کئی مقالوں کا جائزہ تنقیدی انداز میں  1985 ء اور 1987 ء میں  کیاگیا  ۔ا س کے بعد ان کئی اور منطق  کی کتب  کے تراجم بھی  شائع ہوئے جو تاحال جا ری ہے۔ ُ  شکری بی،عبد  نے 1991 میں' الفارابی کی  کئی  کتب عربی زبان میں ترجمہ کیں ۔

 ارسطوریات کے ترجمے میں   ' جس میں  ارسطو کےقیاس ( سیلو جزم )  جس کے ذریعے وہ  استدلال  سے فوری نتیجے پر ۔  مواد کی صحت، جواز  اور اعتباریت   دیکھی  جا سکتی ہے  جو معقول ہے بھی اور نہیں  بھی۔ جیسے کیا کتے جانور ہیں؟ ایک مسئلہ پیش کیا گیا تو اس کو جانور ثابت کرنے کے لیے جو منطق پیش کی گئی کچھ یوں  بیان کی گئی:تمام جانوروں کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں ۔کتوں کی بھی چار ٹانگیں ہیں اس لئے وہ جانور ہیں۔ منطق کی تکنیک کے لحاط سے تو نتیجہ درست ہے لیکن مفروضہ غلط ہے۔

ان کی کچھ  تصانیف  میں موضوعات کا تعلق منطق سے ہے ،وہ اخلاقیات اور مابعد از طبیعیات  میں بھی اتنے ہی اہم شمار ہوتے ہیں۔الفارابی  کی منطق کو خوشی حاصل کرنے کا راستہ کہاجاتاہےانہوں نے کہا کہ کوئی واقعہ رونما ہونے سے پہلے اگر  اس واقعے کے مستقبل کی امکانی ضروریات کی پہلے سے جانچ کرکے حفاظتی اقدامات کر نے کی کوشش کی جائے تو وہ کوشش بیکار ثابت ہوگی اور وہ التباس ہوگا۔  ارسطو اس معمے کا ْتشریح ' کے حوالے  سے بیان کرتاہے جبکہ  الفارابی کسی بھی  علمی تنازعے کو پیچیدہ  بنا دیتےتھے۔وہ ہر موضوع میں  خدا ،مذہب  ، انا اور  نیت کے موضوعات بھی  بغیر ضرورت کے شامل کردیتے تھے۔الفارابی  کاایمان تھا کہ  خدا کو ہر شے کا پہلے سے ہی علم ہوتاہےاور وہ جانتا ہے کہ   مشیت کیاہے    لیکن  اس کے باوجود   انسان آزادانہ فیصلہ کرنے کی قدرت  رکھتا ہے اور اپنے طور پر  اس میں  تبدیلی لاسکتاہےجس کو کئی علماء نہیں مانتے۔(پیٹر ایڈمسن2006  ) ۔

                                                                                                                                                                        iv)  M athematics and Music ریاضی اور موسیقی

   الفارابی کے نزدیک    علوم ریاضی  اور موسیقی ہیں ۔الفاربی کے نزدیک ریاضی میں چھ علوم  شامل ہیں۔ جو حساب، جیومیٹری ، مناظریات ( بصاریات)  ،علم ِ نجوم،،موسیقی  پیمائش کے پیمانےاور میکانکی علوم ہیں۔الفارانی  کے اس سیکشن  کا حالیہ دور میں زیادہ  گہرائی سے مطالعہ کیا جارہا ہے۔

گیڈ فرائی ڈینتھل نے 1988 میں  الفارابی کے نظریہ جیومیٹری  کا مطالعہ کیا۔الفارابی کے 'مسترد کردینے کے نظریے کے سوا جو الکندی کے نظریے کے برعکس تھا  کے علاوہ علم ِ نجوم کے بارے میں انہوں نے اور کائنات  کے علوم کو علماء نے نظرانداز کر دیاہواتھا کیونکہ ان کے مواد کی نہ تو صحت تھی اور نہ ہی وہ معتبر تھے۔

ڈیمی ین  جینوس  کا طریقہ الفارابی  کے ، ڈھانچے ہ، اورنشوونما کے خلا کو  ُپر کردیا ہے۔اس کی کتاب ان عنوانات  میں نیا مواد اکٹھا کیاہے۔اس نے علم نجوم ، علم کائنات اور فطرت کے فلسفہ نئے زاویے سے مطالعہ کیاہے۔ جونس تھومان  نے 2010۔۔۔11 میں  علم کائنات اور ما بعد از  طبیعیات میں ایک لنک پیدا کردیاہے۔

 ریاضی کے اعداد و شمار  کو بیان کرتے وقت الفارابی موسیقی کی روایتی  درجہ بندی ریاضی کے اصولوں کے تحت کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنی عظیم موسیقی کی کتاب   'الموسیقیہ   میں واضح کیا ہے کہ موسیقی کے کچھ اصول ریاضی سے لیے گئے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ ، ان  اصولوں  کی مقدار پیمائش میں  موسیقار کی  نجی کارکردگی بھی اتنی ہی اہم ہے ۔کانوں کے کچھ حصوں میں  انعکاس کی بجائے   ایک خاص مقام  حتمی فیصلہ کرنے والا  ،اگرچہ بعض اوقات ،کان  ریاضی کے مقداری  اصول کی نفی کرتا ہے مثال کے طور پر سامع  کو اس بات کی پوری خبر ہوتی ہے  کہ   کسی نیم ُسر  حقیقت میں آدھی ُسر نہیں ہوتی۔

موسیقی کی عظیم کتاب میں اس میں صرف ایک مکمل ترجمہ ہے  جو کہ روڈو لفی ڈی ارلانگر نے فرانسیسی زبان میں کی ہے۔ جو سب سے پہلے 1930۔۔۔۔35 میں شائع ہوئی تھی۔اس وقت اس کا عربی ترجمہ نہیں ہواتھا جو 2001 میں آیا۔اس وقت اس  کے کچھ حصوں کا انگریزی میں ترجمہ ہواتھا۔میں زباندانی کے سیکشن میں دو کو پیش کیا،ان میں ایک منطق کے سیکشن اور دوسرا شاعری کے سیکشن میں ہے۔جارج ڈیمتری  ساوا نے 2009 میں  اس کے دو باب  تال میں  ترجمہ کیے ۔الیسن لے وائین   اور ڈیمتری دونوں  جن میں ایک فلسفی تھا جس کو یونانی موسیقی  کے نظریات کا پورا پورا علم تھا اور ایل   عود  (آؤڈ پلیئر) تھا نے اس طویل اور پیچیدہ متن کا ترجمہ کیااس کے باوجود وہ عظیم موسیقی کی کتاب واحد  کتاب نہیں  ہے جس میں  الفارابی نےموسیقی پر لکھا۔اسے لکھنے کے بعد ،وہ ان تعریفات کو جو الفارابی نے تال اور  ُسروں پر کی تھی دھن  کا   ترجمہ ساوا نے 2009 میں کیا ۔ الفارابی نےاس کے بعد طبیعیات پر نظریہ پیش کیا۔

٭V) Physics                   طبیعیات                                    

ریاضی  اور موسیقی کے بعد طبیعیات آتی ہے۔ہمیں الفارانی کی تحریروں میں سے چند ایک میں طبیعیات  کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہےاور وہ بھی تھوڑا تھوڑا اور ٹکڑوں میں بکھرا ہواہے جو فطری فلسفے کے دائرے میں آتاہے۔

الفارابی نے ایک مختصر مقالہ لکھا جس میں اس نے خلا کے وجود کو  تجربے سے غائب کردیا۔نیکاٹی لوگل اور ایڈین  سیئیلی نے 1951 میں  اسے عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی کے ترجمے کے ساتھ چھاپا۔

  ارسطو کے نظریات پت گالِن  کی اصل  پختہ  تنقید  ہو انسانی اعضا پر کی گئی تھی بڑی سنجیدہ مطالعہ تھا۔ عبدالرحمان بڈاوی  نے اس کا ذکر فیلسوف کے مقالے کی کتابت کی۔اس میں الفارابی کو چڑیا گھر میں دلچسپی بیان کی گئی ہے۔وہ اس میں جانوروں کے عضلات  ایک خاص ترتیب سے  انسانی جسم کے  متوازی قرار دیتا ہے جس کا تعلق علم ِ کائنات  سے ہے،جو اس میں  روح القدس  کےتصور  کے ساتھ ایک مثالی حالت بھی بیان کرتے ہیں ۔طبیعیات کے  الفارابی  مابعد از طبیعیات کے موضوع پر بات کی۔

٭vi) Metaphysics   ما بعد از طبیعیات

نو افلاطونی  مابعد از طبیعیات ،کا بنیادی مفہو م  یہ ہے کہ  وہ تجلی ہے اور اوپر سے نازل ہوئی  تھی عوام  الناس کے لیے  ظاہری (ایکسوٹیرک) نقطہ  نظر پیش کیا جو  ان کے لیے اچھا ہے۔،لیکن اس نے پوشیدہ ( ایسو ٹیرک ) تخلیقات   کو عام لوگوں کو پیش کرنے سے منع کیا کیونکہ وہ انہیں سمجھنے سے قاصر ہوں گےاور  ذہین و فطین لوگوں کے لیے ہوں گے۔ چیم میئر نیریا نے2013 میں  مقولوں پر تبصروں سے (عبرانی  زبان میں جن کاانگریزی میں ترجمہ کیاگیا) دو مقولے پیش کیے جنہیں اب دریافت کیاگیا ہے  اور اس فکری تنازعے پر خلاصہ  ہے۔الفارابی نے اخلاقیات پر باقاعدہ تحقیق نہیں کی اور اپنا نظریہ ارسطو کی اخلاقیات کے فلسفے پررکھا۔ماروان ساشد نے 2019 میں  الفارابی  کے خیالات کی تشریح کی کہ خوشی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے،

الفارابی  کہتے ہیں  کہ مابعداز طبیعیات  ، طبیعیات    کی پیروی کرتی ہے۔یہ بات  صحیح نہیں کہ اگر کہا جائے کہ الفارابی نے مابعد از طبیعیات پر سرد مہری برتتا ہے۔ان کا مختصر ترین مقالہ  'ارسطو  کا مابعد از طبیعیات کا مقصد'  کا نظریہ اس  دور کے مقبول ترین مفروضے  کہ مابعد از طبیعیات   مذہبی علم نہیں  بلکہ یہ  وجود اور اتحاد سے متعلق علم ہے ،کی اس نے نفی کی۔

دیگر معنوں میں'پاک شہر کے لوگوں کی آرا' اور سیاسی حکومت  یا 'وجودیت کے اصول ْمابعد از طبیعیات کا ایک سیکشن   نوافلاطونی  طرز میں  اور دوسرا سیکشن  سلطنت کو کس طرح منظم کیا جائے اور اور وہ وہاں وجودیت اور اتحاد کے موضوعات کو بین الاقوامی  خیالات   کے طور پر نہیں لیا۔ایک مثالی ریاست کا ڈھانچہ نظام مراتب کا ڈھانچہ  درجہ بندی  کے ڈھانچے سے ہی قائم کی جاسکتی ہے جو انہوں نے پہلے حصے میں بیان کیے۔

 فلسفے میں کوئی مرکزی  تصور پیدا کرکے اس کی وضاحت نہیں کرتے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اسے اس کے پیروکا ر اس پر تحقیق کریں اور ان کی وضاحت کریں۔ غورو فکر کرکے نئے نئے نقاط سامنے لاسکیں۔ اس نے اپنا نقطہ نظر  ؛تحریر کا فن ' مقالے میں بیان کیا۔

لیو سٹراس نے واضح کیا  کہ  فیلسوف  بعض دفعہ نقطے کی مزید وضاحت کے لیے اپنی تخلیق  کو پہلی پر  ترجیح بھی دیتے ہیں۔پہلے کوئی نظریہ قائم کرتے ہیں اور اس پر بالادستی (اوور رائٹ) کرکے نئی شے متعارف کرواتے ہیں تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں فلسفہ اپنی اصلیت میں جو سقراط کیاکرتاتھا، کی صورت میں لائیں۔وہ یہاں یہ بیان کرنا چاہتا ہے  کہ موجودہ حالت میں سقراط کا انداز تکل اپنایا جاسکتاہے۔اگر ہم اس بات  پر موتقل مزاجی سے ان مسائل  کی پوری تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم  سقراط کا طریقہ اپنا سکتے ہیں۔ان بنیادی مسائل میں موزوں ترین  انسانی زندگی  میں انصاف کے تقاضوں  کے مطابق ادا کرسے کا مسئلہ ہے۔انہوں نے اخلاقیات اور سیاست پر بھی لکھا۔

٭vii) Ethics and Politicsاخلاقیات اور   سیاست                  

الفارابی نے  اخلاقیات  کی ترتیب اور وضع  پر ایک مقالہ لکھاہے جس کا عربی ترجمہ موجود ہے جس کا  انگریزی میں ترجمہ ڈی۔ ایم۔ڈنلپ  نے2005 میں کیا۔اس میں اس نے  الفارابی  کے اخلاقیات  پر  خیالات  بتائے۔اس مقالے میں شامل  نقاط کا ذکر تین اندلسی فیلسوف ابنِ باجا، ابنِ طفیل اور ابن ِ  ُر شد  نے اپنے فلسفے میں بھی  کیاہے۔الفارابی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انسانی روح لافانی  ہے  اور   جسم  میں  روح  ذہانت بن جاتی ہے  اور اختلاط کرلیتی ہے کو  صرف  قصے کہانیاں ہی   ہیں۔اس کے باوجود ، ان کی کئی تخلیقات میں  جیسے کہ 'عقل و دانش '  اور 'سیاسی حکومت'  سمجھتے ہیں  لیکن انہوں نے کئی تصانیف  میں  یہ لکھا ہے کہ روح  کا جسم سے نکلنا اور پھر ملاپ  کرنا ممکن ہے         جو  میں حتمی خوشی  حاصل ہوجاتی ہے۔ گونج صدیوں تک قائم رہی۔ جس کی افادیت کی   موضوع تھا۔وہ مو ضوع طلباکے سامنے رکھتا  اور اس سے متعلق ان  کے خیالات  سنتا ۔کے و جواب  کا طریقہ  تدریس  میں سقراط بحث و مباحثہ اور سوال و جواب  کا طریقہ اپناتا۔طلباء کی منطق کو ان کے نقطہ نظر سے تولتا  اور شریکین کو اس رائے پر تبصرے کے لیے کہتا  ۔اپنی  سوچ بھی بتاتا ۔ اس طرح سے دانشمندانہ تحقیق   ( انٹلیکچو ئل   انکوائری ) ہوتی تھی۔وہ ہر ایک کی نطق کو سچ سمجھتااور یہ جاننے کےلیے کہ کیا وہ سائنسی معیار پر پورااترتی ہے یا نہیں ، کو مختلف  سے  دیکھتا۔  یقین  کرنے میں۔

سقراط نے واضح ہوجاتی تھی۔ علم و دانش   سے آرا ءکے ذریعے تفتیش ( انٹلیکچوئل انکوائری ) اور ذہنی   نشو و نما  کاتھا جس میں  ( پرسنل گروتھ)   ذاتی  نمو یہ طریقہ استعمال کیا۔ موجودہ پاکستان میں ،جہاں متنوع  اور مختلف تناظر پائے جاتے ہیں  جو شدید تنازعات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، سقراط اس بات پر زور دیتا ہے  ڈائیلاگ  اور افہام و تفہیم  پیدس کی جائے اور فریقین کے درمیان کے تحت ہم ر جائزہ       باہمی عزت  تمام گروہوں میں  رکھ کر کلام کے ذریعے حل نکالا جائے۔وہ  منطق و استدلال اور علمی بحث سے معاملات از خود کسی نتیجے پر پہنچیں ۔تحقیق و تفتیش   طریقہ تدریس میں  مناظرہ  علم و طریقہ تدریس مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔اس طریقے میں سوالات اور جوابات ذاتی   ڈائیلاگ  ۔اپنے رویے اور سوچ کا بھی جائزہ لیتے رہیں اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔اپنے اور ان کے مفروضوں پر مسئلے کی شناخت اور حل پر کیے گئے ہیں استدلال کی بناپر بات چیت کے زریعے۔سقراط نے اس چیز پر توجہ مرکوز کیے رکھی  ۔اس نے اخلاقی  اور مورل تفتیش  مرتکز رکھی اور اپنے طلبا کو کہا عمدہ اور اچھی زندگی  کے بنیادہ سوالات  کریں اور اخلاقیات سیکھیں اس کے برعکس ارسطو ،کے طریقے کو  ۔اسکے طریقے کی بنیاد ایسا مشاہدہ ہے جو مقداری ہو منظم طور پر تحقیق کر کے(امپیریکل) نتائج نکالے۔اس نے طلباکو کہا کہ وہ    کلاس میں چپ چاپ نہ بیٹھیں بلکہ گفتگو میں بھرپور حصہ لیں۔و معاملات واضح نہیں انہیں سلجھانے کے لیے سوالات کریں مسئلے کو ہر زاویے سے دیکھیں۔اپنی غوروفکر کا دورانیہ بڑھائیں۔منظم انداز میں تحقیق کریں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بحث تو ایک موضوع پر ہورہی تھی لیکن گفتگو  سے نئے نئے موضوعات  سامنے آئے اور نئے نئے  علوم ظاہر ہوئے جن میں فلسفہ، فطری علوم ،اخلاقیات،سیاسیات  خطابت ، جو اپنی جامع اپروچ )علم میں لاتے ہیں۔حکمتِ عملی   جبکہ  سقراط اور ارسطو  دونوں ہی  تحقیق او*ر دانشمندانہ طریقے سے  سیکھیں  اور معاملے کی تہہ تک پہنچیں۔لیکن ان کا طریقہ تدریس  مختلف تھا۔اسی طرح ان کے موضوعات  بھی مختلف تھے۔ سقراط نے  کی تحقیقات کا مرکز مورل اور اخلاقیات پر تحقیق کی۔  گفتگو  اور ڈائیلاگ سے کرنا تھا جو ارسطو کے طریقہ تدریس میں نہیں تھا۔

سقراط ایک مجسمہ ساز تھا، جس نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور دادِ شجاعت پائی۔ تاہم اپنے علمی مساعی کی بدولت اُسے گھر بار اور خاندان سے تعلق نہ تھا۔ احباب میں اس کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔ فطرتاً سقراط، نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتاووں کے حقیقی وجود سے انکار کر دیا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے 399 ق۔م  میں اسے موت کی سزا سنائی۔ اور سقراط نے حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا۔  کے طرزکی اپروچ ( حکمت ِ عملی (وسیع تھی۔جب بھی کوئی موضوع  بھی الفارابی کے سامنے ہوتے تھے   کے نزدیک نفسیات کی جڑیں فلسفے میں ہیں۔ انہوں نے نفسیاتی موضوعات کو اپنے نظریات میں بیان کیا۔ ان  تصانیف میں ٹکڑوں میں بیان کیا لیکن  ان میں مشہور ترین وہ  مضامین  انہوں   

 

٭ مابعد ارسطوریاتی نظریات Hellenistic 

ارسطو کے مقلدین نے اس کی تعلیمات کو بنیاد بناکر  ان کی وضاحت میں اپنے خیالات پیش کیے جن میں اہم  نظریات نامورفلسفی

                 کہتے ہیں۔    کرینییم  ایپی کا نظریہ   اور سٹییم کا  انقلاب ا   نظریہ  ہے۔

٭ ایپی کرینییم کا نظریہEpicureanism

یہ نظریہ فلسفی  ایپیکرینیم  نے پیش کیا۔ اس کا بنیادی فلسفہ   درد سے بچاؤہے۔ یہ انتہاپسندی کے خلاف ہے ۔ وہ اس بات کی مخالف ہے  نہ تو بہت زیادہ  خوشی  اور نہ ہی بہزینوت زیادہ غم زندگی میں ہونا چاہیئے۔ان کے نزدیک    طویل خوشی   اس وقت ملتی ہے جب  انسان انتہاپر نہ جائے ۔اس کے نزدیک  بنیادی بات درد سے بچناتھا نہ کہ لازماً خوشی حاصل کرنا۔ایپکیوریین کہتاہے  کہ کسی شخص نے    معاشرے کی انتہا لذت لینی ہو تو اسے دوستی سے حاصل کرسکتاہے۔اس نے کہا کہ  عمدہ چیز آزادی اور خود مختار  ہے۔ وہ سادہ  زندگی پسند کرتے ہیں۔ ہر شئے میں اعتدال پسند کرتے ہیں ۔ بہت زیادہ  کھا نا پینا ، بہت زیادہ ، آرام ، پر تعیش زندگی  اس کے نزدیک  عارضی ہے جو  کچھ دیر تک ہی رہ سکتی ہے ۔اس کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔لیکن اس سے بعد میں تکلیف ہوتی ہے۔بہترین زندگی وہ ہے جس میں  تکلیف اور درد نہ ہو۔ یہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ۔ موت  کے بعد کوئی زندگی نہیں ۔ جو کچھ بھی کرناہے وہ اپنی زندگی میں ہی کرلینا چاہیئے لیکن   تکلیف سے بچنے کے لیے اعتدال میں کیا جائے۔یہ فطرت کو مانتے ہیں۔ان کے نزدیک ہر شخص کی ایک زندگی ہے جووہ گزار رہاہے۔ان کے نزدیک فطرت                 کائنات  کےمعرض وجود جن میں کائنات کے میں آئے۔ یہ وہ مکتبہ فکر ہیں جو ارسطو  کے بعد آئے ۔۔ان میں سٹوائزم  نروان پسند )( ، ایپکرین ازم اور سکیپٹزم خوشی کے حصول کے لیے قدیم یونان میں سکنداعظم کی موت کے بعد ۔ایسے مکاتیب فکر ، میں  مختلف  طریقے اپناتے ہیں۔سٹائیزم ،مثال کے طور پر نے پاکدامنی اور قسمت پر شاکر  تھے جو افراد کے ساتھ  ریزونیٹ ) مطابقت کرسکتے تھے جو  ایڈوریٹی جدید پاکستان  کان کاسامنا کرناپڑتا۔

ایپی کیوریینزم ، دوسرے معنوں میں ، جدید معاملات کو استعمال میں لاکر  زندگی میں خوشی اور غمی حاصل کرنے کے لیےکرسکتی تھی۔اس دوران  شکوک و شبہات ( سکیپٹزم ) کے طرفے میں یہ فرق ہے دوسری طرف سےEpicreanism , on the other

٭ سٹاؤیئسزم Stoicism)       Zeno of Citium(

سیٹی ایم کا فلسفی   زینو        سٹاؤئیسزم انظریے کا بانی ہے جس کے خیالات  فلسفی  ایپیکرییین  کے نظریے کے برعکس ہیں ۔اس نظریے کے نزدی   انسان جب پیدا ہوتاہے تو وہ خالی الذہن ہو تاہے۔ اپنے حواس خمسہ' سے وہ دنیا کو دیکھ ، سن ، ُچھو  اور سونگھ کر معلومات حاصل کرتا ہے ۔ یہ ایک اہم فلسفہ ہے اس کے چار اصول ہیں  ٭  اخلاقیات  ٭   طبیعیات  ٭عقل و دانش اور ٭ ا انصاف   اہم اصول ہیں ۔

ا) خوبی کے علاوہ  ہرشئے بشمول دولت،شہرت ،صحت  کے نزدیک انسانیت ہی واحد اعلیٰ ترین نیکی ہے جس میں حکمت ،تحمل ،ہمت اور انصاف  کی بنیادی خوبیاں شامل  ہیں۔ خوبی کے علاوہ ہرشئے بشمول دولت ،شہرت ،صحت  کاہونا اچھاہوسکتاہے لیکن وہ براہ راست انسان کی ترقی میں حصہ نہیں ڈالتے۔

ب)لوگوں کو فطرت یا عقل کے مطابق زندگی گزارنی چاہیئے ۔یہ عقیدے کی عکاسی کرتاہے کہ کائنات ایک عقلی ترتیب کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے ہمیں اپنے عقائد اور اعمال  کوابدی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوناچاہیئے۔فطرت کے مطابق زندگی گزارنے سے ہی پتہ چلتاہے کہ تمام چیزوں  کاباہمی  ربط یہ دکھارہا ہے کہ انسان کس طرح ایک بڑے پودے کا حصہ ہیں۔ اس مکتبہ فکر کا بانی   ۔ سٹاؤ ئسزم یہ فلسفہ رومی  سلطنت کے ممالک میں رائج تھا۔ اس فلسفے کے  تین نیادی اصول ہیں ۔ منطق ؛ طبیعیات ؛ اخلاقیات  ۔ ان کے ننردیک گوبتا ہے نے پاکزگی ،پاکدامنی اور خوبیوں پر زور دیا۔ اور قسمت پر شاکر رہا ۔ج) ایک شخص صرف اپنے اعمال  کو ہی کنٹرول کرسکتاہے۔بیرونی  واقعات  نہیں ۔ایپکٹس نے کہا   ہمارے اختیار میں  چیزیں ،رائے، تعاقب ، خواہش، نفرت اور 'ایک لفظ'میں ،جو کچھ بھی ہمارے اعمال ہیں ہیں جوچیزیں ہمارے اختیار میں نہیں۔وہ جائیداد ،قدرت اور خدائی  حکم ۔

د) بیرونی واقعات کے بارے میں خیالات اکثر بے اطمینانی یا پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔ اسے علاج کا منتر کہا گیا ہے۔وہ چیزوں سے نہیں بلکہ ان اصولوں اور تصورات سے پریشان ہوتا ہے ۔ایک ساتھ مل کر،یہ اصول جدید سٹوئزن  کاایک مربوط  کی بنیاد بناہے۔   جس کامقصد زندگی کا ایک مضبوط فلسفہ فراہم کرناہے۔اس کی  امید یہ ہے کہ ایک بار جب معالج قبول کرلیتاہے کہ وہ عملی طور پر قابو میں نہیں ہیں،تووہ لچک پیدا کرتا ہے اور اضطراب کوکم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ہر فرد نہ صرف اپنی جذباتی زندگی  کا معمار ہے ،بلکہ لوگ اپنے فیصلوں کو ان  طریقوں  سے تشکیل دے سکتے ہیں جو زیادہ اندرونی سکون کے لیے سازگار ہوںپیکریانزم  دوسری طعف ، نے خوشی کاحصول  جیددیت  کے طریقے استعمال کرتے ہوئے  کیااور جس میں دکھ درد اور خوشی  کے حصول  میں توازن  کا رستہ اپنایا۔ اسی دوران  سکیپٹیسزم  نے فیصلے کو  سعطل کرنے  اور ٹرین کوئی لی ٹی    جو غیر یقینی صورت حال میں  پائی جاتی تھی  ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی تھی معاشرتی میں  جہاں لوگ   بے شمار مسائل کے ساتھ گریپل   کر رہے تھے ،اس وقت ہیلی نس ٹک  فلسفہ  وہاں قابل قدر بصیرت دے سکتا تھااور لاشعوری سطح وہ  اور موزوں دفاعی رد عمل پیش کرسکتاتھا۔اور پیچیدگیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کرسلجھایا۔

     ٭    الفارابی  اور نفسیات 

  الفارابی'    نصر  الفارابی ' کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ابو       وہ    کثیرعلوم    کے عالم  تھے۔ انہیں   فلسفے، نفسیات، سیاسیات، اور موسیقی   پر عبور تھا۔  اسلامی سنہری دور  جو نویں  سے بارہویں  صدی ء تک  تھا،میں  انہوں   نے   نفسیات، فلسفے  اور موسیقی میں                  نمایاں  خدمات سر انجام دیں۔نفسیات میں ان کی خدمات  درج ہیںالفارابی    کے نزدیک نفسیات کی جڑیں فلسفے میں ہیں۔ انہوں نے نفسیاتی موضوعات کو اپنی  تصانیف میں ٹکڑوں میں بیان کیا لیکن  ان میں مشہور ترین وہ  مضامین  ہیں جوانہوں نے  اپنی کتاب    'حروف  ' ( د ا      ُ  الفا بیٹک  آف 'بک  لیٹرز ) میں لکھے۔اس میں وہ  تفصیلاً  انسانی روح  اور اسکی استعداد  پر روشنی ڈالتے ہیں۔ انہوں  نے استعدااس کے وظائف  کی وضاحت کی ۔ ان کے مطابق استعداد وہ خوبیاں  ہیں جو ہر شخص میں پیدائش کے وقت  کے وقت آتی ہیں۔ یہ جبلی ہیں۔انہیں   عرفِ عام    میں 'فطری '،' صلاحیتیں ' '،قابلیت 'اور' اہلیت  ش  'بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کسی میں کم   اور کسی میں زیادہ ہوتی  ہیں۔کچھ  لوگوں  میں خصوصی  صلاحیتیں بھی  پائی  جاتی ہیں۔جیسے کوئی فنون لطیفہ میں  زیادہ قابل ہوتاہے، کسی کی آواز اچھی ہوتی ہے، کسی کاذہن ریاضی اور طبعی علوم کی تفہیم میں زیادہ ہوتا ہے اور کسی میں کم۔اگر ارثی خوبیوں پرمزید   علم حاصل کیا جائے تو ان میں  اس  کی لیاقت میں خاطر خواہ  اضافہ ہوجاتاہے۔فطین لوگوں میں کسی فن میں بہت  زیادہ   خوبی پائی جاتی  ہے لیکن باقی تمام صلا حیتیں نامل ہوتی ہیں۔مثلاً جس  میں شاعری کی خصوصیت پائی جائے وہ  اس میں تو باقی لوگوں سے اعلی ٰہوتا ہے لیکن باقی صلاحیتوں میں نارمل۔ وہ  ان پڑھ بھی ہو  تو وہ  حروف کی  خوبصورت ترتیب سے فکری موضوعات پر لکھ سکتا ہے ۔  اگر وہ  ان پڑھ  رہے گا توبھی اس کی تخلیق برقرار رہے گی لیکن فرق اس کی شاعری میں استعمال ہونے والے حروف پر پڑے گا۔ صرف ونحو پر پڑے گا۔اس  میں مزید  تکنیکی مہارت سیکھنے سے ہی آتی ہے۔

تاہم    الفارابی کے دور میں  نفسیات فلسفے  کے گرد ہی  گھو متی تھی۔  اس زمانے کے اہم ترین موضوعات  جسم اور روح  کے علم اور فکری  تنازعات تھے لیکن الفارابی نے استعداد کا تصور  بھی اس میں متعارف کروایا۔ روح  و بدن  پر علمی تحقیقات ہو رہی تھیں فیلسوف  بقراط ، سقراط، ارسطو اور افلاطون  نمایاں ترین تھے ۔ وہ سب  کے سب کثیر العلوم کے ماہر تھے۔ ان کی تعلیمات  عہد حاضر کے تمام علوم پر تھیں۔فرق یہ ہے کہ انہوں نے   حیاتیات، نباتات، سیا سیات، نفسیات، طبیعیات، نجوم، علم الاعداد ،صوفی ازم،  مذاہب، دیوی دیوتاؤں  وغیرہ تمام موضوعات پر کچھ نہ کچھ لکھاتھا جنہیں   بعد کے آنے والے علما نے ان  پر تحقیقات کیں، کچھ حق میں اور کچھ نے ان کی تعلیمات میں مزید نکات نکالے جس سے ہر موضوع پر بہت سےپہلو نکل آئے جس سےہر علممیں نئی  نئی شاخیں  وجود میں آگئیں۔

 '  حروف   '    (ُ بک آف لیٹرز )   ایک  مقالہ ہے جس میں انہوں  نےانسانی روح  کی تفصیل بیان کی ہے۔ انہوں نے  روح کی تین اقسام بیان کی ہیں۔1)  نباتاتی (ویجیٹیٹیو)؛ 2)   حیواناتی ( اینیمل ) اور 3)  عقلی ( ریشنل )۔ انہوں نے  یہ سہ فریقی تقسیم ارسطو  کے فلسفے   نو افلا طو نیت (   نیو  پلیٹو نزم ) سے مستعار لی۔ وہ جب روح، علم ،وقوف،  تعلیم  اور خوبیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں توکی   میں ان کی نفسیات ت  کی شاخوں  میں مابعد از طبیعیا فلسفے    ( میٹا  فزکس )  اور اخلاقیات  سے  مکمل طور پرُجڑی   ہوئی ہوئی ہے۔اس میں                                الفارابی  کی نفسیات میں  ہر  انسان   میں ایک   کلیدی    صفت پائی جاتی ہے جسے انہوں نے 'بصیرت ' کہا۔ اس میں عقل اور فہم وفراست کی خوبی  باقی تمام خلقت   س  بہت زیادہ ۔وہ دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ    روح کی وہ شاخ  جو عقلی ہے  اس میں غورو فکر کی صلاحیت پائی جاتی ہے ۔انسان  اپنے بارے میں سوچ سمجھ سکتاہے، وہ اپنی  غلط اور درست  کام میں تمیز کرسکتاہے ۔روح کی یہ شاخ  استدلال   اور اخلاقی  معیار کے لحاظ   سے ممیز ہے۔اس کی باقی شاخوں کاذکر بھی آگے آئے گا۔

علاوہ ازیں الفارابی   کی نفسیات  میں انسانی خوشی  کا احساس  اور عقل کے ذریعے اس کا حصول ہے۔ اس کے مطابق  کہ حقیقی خوشی الوہی   سچائی  پر غورو فکر  اور اس کی  عقلی صلاحیت سے  حاصل  ایسے موضوعات  یونانی فلسفے  خصؤصاً ارسطو اوراسلامی               صوفی ازم میں ملتی ہے۔  

الفارابی  کی  یہ لیاقت  کا کام یہ ہے  کہ وہ اپنے علم ،عقل  اور بصیرت کی بناپر  کسی  موضوع کو مختلف عقلی روایات کے تحت دے کر کوئی کلیہ بناتی ہے۔

نفسیات کی خدمات کے علاوہ  الفارابی کا فلسفے پر اثر بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے ارسطو کے فلسفے کو بڑے شد و مد سے اسلامی فلسفے میں اپنایا۔ اس لیے انہیں   ( ارسطو ) کے  بعد اسلامی فلسفے  کی روایات  کے فروغ  میں دوسرا معلم' کہا جاتاہے اور ان کی  یونانی فلسفے کو اسلامی دنیا  میں  منتقل کرنے  اور تشریح کرنے میں بہت اہم شمار کی جاتی ہیں۔الفارابی کے تبصرے  جو انہوں نے ارسطو کی تعلیمات پر کیے اور  اپنا ذاتی   مقالہ جات  میں  کیا۔اس کی موت کے بعد آنے والے اسلامی فلسفے کو مخصوص اسلامی شکل  دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ان میں بوعلی سینا اور ابن ُرشد  اس میں فلسفہ بھی شامل ہے۔الفارابی کی سیاست پر فلسفہ  ایک اور  مضم ہے  جس پر وہ نمایاں اثرانداز ہوئے ہیں۔ان کی کتاب 'سیاسی حکومت ' ( پولیٹیکل رجیم) اور   ' پاک   اورمقدس شہر '               ورچوئس  سٹی میں تحقیق   سے بتاتے ہیں  کہ   مثالی ریاست کون سی  ہے اور اس میں ایک فلسفی کا کردار کیا ہوتا ہے۔۔ ایک  محکوم معاشرے میں بادشاہ کا کردار۔ان کے مذہب، فلسفے،اور سیاسیات  کے تصورات  اور روایات اور تشریحات کیا ہیں ؟ وغیرہ  موضوعات کی  دنیا بھرکی ثقافتوں   میں صدیوں سے  مباحثوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔۔

اس کے علاوہ ، الفارابی   نے موسیقی  کی دنیا میں بھی بڑا نام کمایا۔ انہوں  نے' موسیقی کا نظریہ پیش کیا  جس میں انہوں نے موسیقی کی سائنس پر جامع انداز میں لکھا۔انہوں نے م وسیقی کے  ریاضی اور مابعد از طبیعیات  کے پہلو شامل کیے اور اپنے نظریے میں اخلاقی تعلیم اور روحانی نمو کو شامل کیا۔

مختصر طور پر الفارابی  کی   میراث  کثرالجہتی ہے  جس میں ان کی خدمات  نفسیات ،فلسفہ ' سیاسی علوم ، اور موسیقی کے نظریے میں ہےان کی انسانی روح  کی قسمیں، خوشی کا حصول ، اور مثالی ریاست  اور دیگر موضوعات پر دنیا بھر کے علماء اور مشائخ آج بھی متاثر  ہیں جو انہیں فلسفے کی تاریخ  اور عقلی   تحقیقات میں مرکزی حیثیت دے رہے ہیں جو  روحانی  تفہیم میں معاون ہیں۔

 

الفارابی  ا٭الکندی اورابو نصر

دونوں اسلامی  سنہری دور میں   نامور  علماء تھے۔ دونوں ہی بہت سی زبانیں جانتے اور کئی علوم کے ماہر تھے دونوں نے  فلسفے ،ریاضی ،اور سائنس  کے شعبوں میں  نمایاں کام کیا۔ دونوں نے یونانی فیلسوف کی یونانی  تعلیمات کو  عربی میں ڈھال کر محفوظ کرکے اسلامی دنیا میں منتقل کیا۔ دونوں علماء ارسطو سے بہت متاثر تھے  اور ارسطو کے فلسفے کو  اسلامی افکار  سے ہم اہنگی  کرتے رہے۔تاہم ،الفارابی   کی دلجسپی  سیاسیات  اور مثالی ریاست قائم کرنے پر زیادہ تھی جبکی الکندی  نے ریاضی  اور فطری   لسفے کی طرف تھی  خصوصاً آنکھ اور روشنی  کے عمل کا سائنسی مطالعہ پر تھا

۔۔۔۔۔۔۔الفارابی  ٭ ابن طفیل اور

 دونوں  فلسفے  میں تحقیق   اور عقلیت  پسند تھے۔ دلائل اور دانشمندانہ طریقے  سے  علمی گتھیاں سلجھاتے تھے۔دونوں علماء ارسطو کے فلسفے کے پیروکار تھے۔ اور فلسفے کو اسلامی افکار کے ساتھ   یکجا اور ضم  کرنے میں کام کرتے تھے۔ ان دونوں نے فلسفے کی  تمثیل ( الیے گوریز ) لکھیں۔:  ٌدا پولیٹیکل ریجیم ' سیاسی طرز حکومت  اور ابن طفیل  کی حیئی  ابن یزدان '۔ یہ تما ثیل  ان موضوعات کو   وضاحت سے بیان کرتی تھیں  ،ثلاًانسانی علم کی فطرت، سچائی   کی تلاش ، اور مثالی ریاست کا قیام ۔اس کے علاوہ ، دونوں فیلسوف نے  دنیا کو سمجھنے کے لیے استدلال  اور عقل و دانش  کی اہمیت پر زور دیا۔ تاہم، الفارابی  نے زیادہ سیاسیاتی  فلسفہ اور مثالی ریاست پر زور دیا جب کی ابن طفیل نے  مابعد از طبیعیات  اور وجودیت کے موضوعات پر  حئی ابن یزدان کے ذریعےلکھا۔

٭الفارابی اور بوعلی سینا

اسلامی فلسفے کی دونوں ہی اہم شخصیات تھے۔ان کا اثرو رسوخ اسلامی فلسفے میں بہت زیادہ تھا۔انہوں نے مابعد از طبیعیات ، منطق ،اور طب پر بہت کام کیا۔دونوں علماارسطو کے فلسفے  سے متاثر تھےاور اس کے فلسفے کو   مسلم دنیا میں اسلام میں ملاپ  کرتے رہے۔ان دونوں نے  وجودیت   کی ہیئت ، روح ،اور مابعد از طبیعیات  کے نظریات  پر بہت لکھا ۔ اس کے علاوہ ان دونوں نے یونانی فلسفے کو عربی زبان میں ترجمہ اور تبصرے  کرکے ان افکار کو ضائع ہونے سے بچایا۔تاہم، جب الفارابی نے زیادہ سیا سیات کے فلسفے  اور مثالی ریاست پر زیادہ لکھا لیکن بوعلی سینا نے  طب  کے شعبے میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور صدیوں تک یورپ ان کے  نایاب اور منفرد  معلومات سے فیضیاب ہوتا رہا۔

٭لفارانی اور ابن ُرشد

یہ دونوں ایسے علماء ہیں ج داخل کیا۔وہ دونوں ارسطو  سے بے حد متاثر تھے اور انہوں نے اس کے مقالوں پر  طویل  تبصرے  کیے۔انہوں نے یونانی فلسفے کو زندہ  رکھا اور اس کا  مذہب اسلام میں  داخل کیا۔ اس کے علاوہ ، دونوں علماء  نے یونانی فلسفے کا ترجمہ کیا اور نہ صرف ان کے فلسفے کو زندہ رکھا بلکہ ان تعلیمات کو مذہب اسلام  میں ڈھالنے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ انہوں  نے دیگر یونانی فیلسوف   کے افکار کی وضاحت کی۔تاہم۔ الفارابی سیاسیات اور مثالی ریاست اور اس  کے خدو خال پر لکھا ، جبکہ ابن ِ  ُرشد  نے مابعد از طبیعیات ، منطق،اور مذہب پر تفصیل سے لکھا ۔ ابنِ ُ رشد، خصوصی طور پر  اس لیے  مشہور ہے اس نے فلسفے  پر مذہبی علماء اور مشائخ نے جو تابڑ توڑ حملے کیے تھے  ،کو استدلال اور مذہب پر ایمان رکھتے ہوئے جوابات دیئے۔

 الفارابی اور الرازی٭

یہ دونوں اسلامی فلسفے اور سائنس میں بہت اثرورسوخ رکھتے تھے، انہوں نے فلسفے ، طب، اور طبعی علوم  میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔وہ استدلال ا،عقل و دانش ک اور تحقیقات  کے ذریعے  اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ، دونوں ہی  یونانی فیلسوف  سے بہت متاثر تھےاور یونانی فلسفے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کرتے تھے۔تاہم، الفارابی نے سیاسیات  کا فلسفہ اور مثالی ریاست پر لکھا جب کہ الرازی  نے کیمیا اور  طب پی گرانقدر خدمات سرانجام دیں جو اس کی وفات کے بعد بھی   صدیوں تک استعمال ہوتی رہیں ۔الرازی کو  ' ماہرِ امراض ِ اطفال  '  بھی کہاجاتا ہے۔اور قرون وسطیٰ کا عظیم  ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔

تصانیف  

کی کتاب 'ری پبلک' سے بہت متأثر تھے ۔فارابی  نے سیاست پر کتاب لکھی   جس کا عنوان سیاسی فارابی افلاطون  طرز حکومت  پولیٹیکل  رجیم ) ہے۔اس میں انہوں نے پاک شہر ( ورچوئس  سٹی )کا تصور پیش کیا اور کہا کہ  کسی ریاست   میں کئی  بنیادی  خوبیاں   پائی جانی چاہیئں ۔ان کے مطابق  ایسے شہر میں  فلسفے کو فروغ ملتاہے۔وہ مذہب ، فلسفے اور سیاست کے فروغ میں  اہم کردار ادا کرتے ہیں۔علمی محافل سجتی ہیں۔دنیا بھر کی ثقافتوں  ، روایات  اور تشریحات  پر مباحثے ہوتے ہیں اورتصورات   سامنے آتے ہیں ۔ان کی  تصانیف سینکڑوں  میں ہیں  لیکن بہت کم دریافت کی جا سکی ہیں  جن کی فہرست درج ہے۔

 

٭Kitab al-Huruf کتاب الحروف    

کتاب الحروف کا تعلق  عربی زبان کے حروف تہجی سے ہے۔الفارابی کی تصنیف 'خطوط کی کتاب ( دا    ُبک آف لیٹرز)میں     فنونِ علوم  کے متعلق بات کی گئی ہے  اور اس کی  بھی درجہندی کی گئی ہے۔جس میں اعلیٰ ترین ہستی فلسفی  قرا ر   دی   گئی ہے۔درمیان میں قانون اور شریعہ کو درمیان میں اور فنون کو سب سے نچلی سطح پررکھا گیا ہے۔اس کے بعد انہوں نے  مختلف قوموں کے مابین ہر قوم  کی زبان دانی  کے خظ کی کثرت پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں شاعری ، بیان بازی اور لسانی  کثرت  پر بحث  کی گئی ہے۔اس بحث میں   الفارابی  نے فلسفیانہ موضوعات ا ور مشق  کو سب سے اوپرقرار دیتا ہے   اور مذہب ان کے ماتحت شمار کیا جاتا ہے لیکن اس سے ا س بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ    فلسفے اور مذہب کے متعلق لکھا گیا ہے  میں  ایسے نظریات  مختلف ممالک میں کشیدگیاں پیدا کر دیتے ہیں ۔

٭Kitab Tashil as,Saadah   کتاب ٹحصیل السسد  

کتاب 'تحصیل  السسداہ   ؛خوشی کے حصول  سے ہے۔ کس طرح ناگوار حالات اور درد سے بچاجاسکتا ہے۔الفارابی نے اپنے فلسفے   میں  ٭ خوشی کے حصول اور مابعد از طبیعیات   کی اہمیت بیان کی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ ہر انسان  کی جبلت میں ہے کہ وہ درد سے چھٹکارا پائے اور مسرت حاصل کرے۔اگر کسی کو پریشانی ہوگی  تو وہ بے آرام ہوگا ۔ اسے تکلیف ہوگی اور وہ آرام دہ حالت میں نہیں ہوگا۔ایسے حالات میں اسے خوشی حاصل نہیں ہو سکے گی۔وہ کہتے ہیں کہ خوشی کی مقدار بہت زیادہ نہیں ہو نی چاہیئے   اور مستقل ہونی چاہیئے۔یہ فلسفہ افلاطون   سے لیاگیاتھا۔آخری حصے میں وہ مابعد از طبیعیات  کا ذکر کرتے ہیں ۔یہ نظریہ انہوں نے ارسطو سے لیا۔جس کی حیثیت   ماورائی  حیثیت  ماورائی بیان کی ۔افلاطون  اور ارسطو دونوں کے نظریات  کے متن اور مفہوم بظاہر مختلف لگتے ہیں لیکن الفارابی کے نزدیک  وہ ایک ہی ہیں ۔ ان کا مفہوم  aوہی ہےکیونکہ   ان فیلسوف کی نیت اور  مقصد  یکساں تھا اور وہ دونوں ہی  خوشی کے طلب گار تھے ۔ الفارابی  کے اس نظریہ   سے یونانیوں  اور الفارابی کے  نظریات میں توافق اور ہم آہنگی  پائی جاتی ہے۔ کائنات  کی تخلیق     الفارابی  کے مطابق  اصول اوّل  یعنی خدا کی ذات  سے ہوئی جبکہ   یونانی مستشرکین دیومالاؤں   کو اہم قرار دیتے رہے جن میں طاقتور ترین دیوتا زیوس  جو آسمانی بجلی ، رعد و کڑک کا دیوتا تھا ، خالق قرار پایا۔ لیکن فارابی   مسلمانوں کے آخری رسول ؐ ، خلفاء اور ان کے جانشینوں کی تشریح نہ کر پائے۔ان کا زور فقہ ، نبوت ، وراثت اورشریعہ پر رہا۔انہوں نے پاکدامن شہر ، کمیونٹی، ایک شہر ،  قوم اور اقوام  کے نظریات کو تبدیل نہیں کیااور اس دور کے اسلام  کی قبولیت  اور  شہنشاہی   شرائط کی اہمیت اور توانائی کی شدت کو برقرار رکھا۔تاہم ان کا فلسفہ طبیعیات اور مابعد از طبیعیات پر پورا اترتا ہے۔انہوں نے  ارسطو کے نظریات کو من وعن قبول نہیں کیا بلکہ اس  کے نظریات کو مسخ کرکے اس طرح تبدیل کیا کہ وہ   اسلامی سانچے میں ڈھل سکیں ۔ان کاایمان ہے کہ خدا واحد ہے۔ اسے کسی نے نہیں جنا اور نہ ہی اس نے کسی کو جنا ہے۔ وہ ہر جگہ موجود ہے ۔پوری کائنات کا خالق ہے اور اسے مکمل طور  کنٹرول کرتا ہے۔اس کی شکست وریخت  اور نئی تخلیقات کرتاہے۔الفارابی نے ہر اعتراض کا مّدلل جواب دیا جس سےفلسفے اور  مذہب ِ اسلام میں یگانگت پیدا ہوگئی۔لیکن مسلمان ُز عماء ان  کے نظریے کے خلاف تھے کیونکہ الفارابی عربی عقائد، ثقافت   اور اسلام جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے کی خدمت نہیں کررہے تھے بلکہ انہیں نقصان پہنچارہے تھے۔

 

٭Kitab 'Ihsa' al-Uloom  کتاب احساء  العلوم

کتاب احساء العلوم علوم کی اقسام بیان کرتی ہے،

٭Kitab as-Siysah al-Madinyah کتاب السیاح المدینہ

کتاب السیاح المدینہ   عوامی انتظامیہ سے متعلق ہے۔

٭al .Tahseel کتاب التحصیل

 کتاب  التحصیل   عربی زبان کی  طباعت سےمنتعلق ہے۔

٭The Philosophy of Plato and Aristotleافلاطون اور فلسفے پر کتاب

٭Fusul al-Madani: الفارابی بطور مدبر  از ڈی۔ ایم ڈنلپ    فصوص المدانی

 

٭Alfarabi: The Political writings   کی سیاسی تصانیف الفارابی  

٭All-Farabi’s Short Commentary on Aristotle’s “ الافارابی کی ارسطو پر مختصر تبصرہ

 ٭Prior analytics.” Rescher, ریسشر کی تصنیف  سابقہ  علمِ بیان  

اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف میں الموسیقی الکبیرہ ؛ معانی العقل اور اراء اہل المدینہ الفاضلہ اور اکسیرۃ الفاضلہ  اہم  ہیں  بہت

۔  تلاش کی جاسکیں لیکن جو میسر ہیں وہ علمی ورثہ ہیں؛لیکن وہ بہت کم

 موسیقی الکبیرہ Music Alkabirah ٭

انہوں نے اپنی کتاب 'الموسیقی  الکبیرہ  میں  موسیقی  کی دنیا میں نئی معلومات فراہم  الفارابی نے موسیقی پر کتاب لکھی اور بہت سے نئے

موسیقی کی سائنس پر جامع انداز میں لکھا۔انہوں نے م وسیقی کو  ریاضی اور مابعد از طبیعیات  پہلو شامل کیے اور اپنے نظریے میں اخلاقی تعلیم اور روحانی نمو کو شامل کیا۔

مختصر طور پر الفارابی  کی   میراث  کثرالجہتی ہے  جس میں ان کی خدمات  نفسیات ،فلسفہ ' سیاسی علوم ، اور موسیقی کے نظریے میں ہے۔ یہ ان کی انسانی روح کو  کی قسمیں، خوشی کا حصول ، اور مثالی ریاست  اور دیگر موضوعات پر دنیا بھر کے علماء اور مشائخ آج بھی متأثر کرنے والی شاخ ہے۔  

یاد رہے کہ  محدود ابلاغِ عامہ اور  کتب کی کم دستیابی کی وجہ سے قدیم فلسفہ  کی رسائی یا تو ٹکڑوں میں دستیاب تھی  یا بہت کم  معلومات تھیں۔ منطق      کم معقول اور روئتی تھی  جس  کا اظہار لسانیاتی   انداز میں مقفع مسجع الفاظ سے کیا جاتاتھا۔ مابعد از طبیعیات کو طبیعی علوم کا درجہ حاصل تھا جبکہ وہ حقیقت میں  ماورائی علم تھا جس میں روحانی واردات ، وحی، الٰہیات، چھٹی حس  اور کشف وغیرہ  کے موضوعات آتے تھے۔ مذہب  کی اجارہ داری تھی اور قوانین اس کے تابع تھے۔  مذہبی علماء  حکمران  بھی تھے اور منصف بھی۔وہ الزام بھی خود لگاتے، مقدمات بھی خود قائم کرتے اور سزا بھی خود ہی دیتے تھے۔فلسفے کی مذہب میں کوئی جگہ نہیں تھی۔الفارابی نے اس بت کو توڑا اور مسلم  مذہب  میں مستشرقین کے فلسفے کو جگہ دی۔انہوں نے اس بات پر زور دیاکہ مختلف علوم   میں  تعلق قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر علم کے مشترکہ عنوانات کو یکجاکیاجائے اور ان میں اگر کسی معاملے پر عدم مطابقت ہے تو اسے دور کیا جائے تاکہ اس   اختلاط پر تمام فلسفی  اتفاق کریں ۔اسے عملی طور پر انہوں نے اپنی تصنیف ْبک  آف ریلیجن ' میں پیش کیا۔انہوں نے اس میں ثابت کیا ہے کہ مذہب نے طبیعی علوم کے ساتھ جگہ جگہ زیادتی کی تھی۔انہوں نے اس پر مزید کہا کہ مذہب کے بیان میں مذہب کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا گیا  بلکہ اس کی تاریخ بیان کی گئی ہے جبکہ  فلسفے ،مذہب اور قانون کو علمِ سیاسیات کے ماتحت کردیا گیا ہے۔کائنات  کی تشریح وہ  سیاسیات کے حوالے سے کرتے ہیں ۔وہ  اس بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ  پاکیزہ شہر کی طرز حکومت  میں حکمرانوں  ،افسرانِ بالا اور فلسفہ دانوں  میں درجہ بندی پائی جاتی ہے۔اس لیے پاکدامن دیانتدار   حکمران اور فلسفیوں  کی درجہ بندی کے لیے بھی یہی طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔

حالیہ دور میں ان کی کچھ تصانیف  اور ان کے عربی ، لاطینی اور انگریزی میں مزید  تراجم سامنے آئے ہیں جن میں ا  (  فلپ  وائٹ 2017 )، ڈیوڈ۔سی۔ریزمین (2007 ) اورابو نصر الفارابی  جیسے  جان میکگی ( 2004 )قابل ِ ذکر ہیں ۔عظیم مسلمان فلسفی اور سائنسدان کی وفات کو کئی سو برس گزر چکے ہیں مگر اس کی عزت و عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔اس کا نام سب بڑے احترام سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔جس کے اپنے دیے کی روشنی ختم ہو گئی لیکن علم کا جو دیا اس نے جلایا،اس کی روشنی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ وہ 950 ء میں دمشق سے حلب آتے ہوئے اللد کو پیارے ہوگئے   انتقال کر گئے۔

Popular posts from this blog