امام الغزالی کا نظریہ اقتصادیات ( چوتھی قسط)
امام الغزالی کا نظریہ اقتصاد یات(چوتھی قسط)
تحقیق ومرتب: غلام محی الدین
الغزالی کے نزدیک نظام اس لئے قائم کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے ایک مکمل ڈھانچہ پیش کیا جاسکے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اکر کسی ایک جزو میں خلل ہے تو اسے دور کیا جا سکے اور اگر اس سے ترقی ہو رہی ہے تو اس کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔ اس میں عمل انگیز عناصر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔اس سے نظام کے کسی ایک حصے میں تبدیلی کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات ایک حصے میں تبدیلی دوسرے حصے میں منفی اثر پیدا کردیتی ہے جیسے ذخیرہ اندوزی نظام کو الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔اس سے بچنے کے لئے نظام اگر ہر حصے کے مابین تنظیمی ابلاغ رکھے تو اس سے طبعی، حیاتیاتی، سماجی، سائنسی فنی، انسانی، انسانی اور دیگرکمزوریاں فوری طور پرمعلوم کرکے دور کی جا سکتی ہیں۔ اس سے َ لوگ اس پر اعتماد کر سکتے ہیں۔انہوں نے اقتصادی نظام کے سیٹ بنا کر ان کی ترتیب دی۔انہوں نے اپنے نظام کو حرکیاتی بنایا۔
الغزالی کے اقتصادی نظام کی حرکیات
الغزالی نے اپنے اقتصادی نظریے کو مثالی نمونے کے طور پر پیش کیاجس میں شرعی اصولوں کے تحت ترغیبات پیش کی گئیں جس کے استعمال سے پوری انسانیت میں معاشی اور اخلاقی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اس کی بنیاد کیفیتی اوکمیتی دونوں ہیں جو آجر اور اجیر کے ساتھ صارفین کو بھی متحرک کرتی ہیں کہ وہ ترقی میں ساجھے دار بنیں۔
الغزالی نے کہا کہ حرکیاتی کردار کی حدود کا تعلق کارگزاری کے ساتھ ہو، وقت کے ساتھ ساتھ براہ راست اس مواد سے قائم ہو جاتا ہے جو اسے نتائج اور محصولات کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ ان میں روابط پیدا کرتا ہے اور عمل اور اقتصدی ڈھانچے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح یہ نظریات کا ایک رسمی ماڈل بنا لیا جاتا ہے جو کیفیتی اور کمیتی موجود مواد کے تحت اسباب میں قیاس آرائیاں کرتا ہے پھر وہ مفروضوں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور مزید چھان بین کے بعد صحیح ثابت ہونے پرقانون بن جاتا ہے۔ اس طرح سے رسمی نمونہ جو کسی ایک بیان سے منسلک نہ ہو، حسابی شکل اختیار کر نظریاتی اور کمیتی مشاہدات میں تعلق قائم کر لیتا ہے۔ معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ موجود مواد کے تحت چونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اس لئے حرکیاتی کیفیت کی بدولت نئی نئی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ نئے نظریات بننے لگتے ہیں اور یہ حرکیاتی عمل جاری رہتا ہے۔
الغزالی نے اس بات کی نشان دہی کی کہ زمانہ قدیم کی نسبت حالیہ دور میں جملہ سہولیات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک دوسرے پر انحصار میں بھی اضافہ ہو گیاہے۔پیشے، صنعتیں مخصوص ہو گئی ہیں۔ من مانیاں بڑھ گئی ہیں۔ ہر شعبہ ناجائز منافع خوری میں لگا ہے۔ اسلامی نظام اختیار کرکے انہیں قابو میں لایا جا سکتا ہے۔
الغزالی کے مطابق معاشی اقدار حاصل کرنے میں جوبات اہم ہے وہ یہ کہ اسلامی اصولوں اور قوانین سے انحراف اسلامی اقتصادی نظام کو تباہ کر دیتی ہیں اسلئے ماہر اقتصادیات اور حکمرانوں کو اسلامی اقتصادیات پر عبور ہونا چاہئیے۔ انہیں تجارت کے جائز شعبہ جات اور کاروباری اسلامی لین دین کا علم ہونا چاہئیے اور غیر اسلامی کاروبار اور لین دین کی ممانعت ہو۔ سود کا نظام، اجارہ داری، مداربہ،اور مشارکہ ہیں۔ ہر ایک اقتصادی لین دین کاروبار کے ستون ہیں اور ایسے شرائط ہیں جو کہ ضروری جانی چاہئیں۔ تاجر برادری پرہیز کرنے اور برائیاں اور نقصانات جو بعد میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے نزد یک اقتصادیات کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا۔ اسے ُ اسلامی معاشرتی فلا ح و بہبود کا نظام، عدم افادیت کہتے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے جو اصلاح استعمال کی۔ اسے انہوں نے مصالحت کے فوائد، عدم مفاداور عدم افادیت جیسی اصطلاحات استعمال کیں جو اصطلاحات سماجی فلاح و بہبود کے تصورات کو مضبوط کرتی ہیں۔ ان کے مطابق سماجی فلاح پانچ اسلامی مقاصد کے تحت قائم کئے جائیں تو زیادہ استحکام آسکتا ہے۔ جو مذہب، طرز حیات، عقل و دانش، مال و جائیداداور وراثت و نسل اہم ہیں۔ ہر ایک مقصد کی انفرادی اور گروہی افادیت کی تین سطحات جو ضروریات (درونت)، خوشی (حاجت)اور عیش و عشرت (تحسینہ)ہیں۔
ان وصائف اور اصولوں کو اقتصادیات کے بنیادی اصول لازمی قائم کرکے الغزالی کے انسانی اور سماجی فلاح و بہبود کی بنیاد رکھ دی۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص ان پر اس طرح عمل کرتا ہے کہ وہ دوسرے کو نقصان پہنچائے جس میں وہ تخریب کاری بھی کرتا ہے۔ ان افعال کی مثالیں جس کے عوام الناس کو نقصان ہوتا ہے اور ان کی دلچسپیوں کو زک پہنچتا ہے وہ الغزالی کے نظریے کے مطابق ذخیرہ اندوزی اور دولت کو غلططریقے کمانا ہے۔ یہ ایک منفی عمل ہے۔ کیونکہ اس سے منڈی میں توازن قائم نہیں کی جا سکتی۔ جس سے اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
الغزالی نے اس بات کو بھی تفصیلاًاس بات کو بھی بیان کیا کہ فطری منڈی کی تنظیم کیسے کی جائے۔ اس کے لئے انہوں نے ایسے پیشے متعارف کروائے جو ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ خدمات کی ادلیٰ بدلی سے ایک دوسرے کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ لوہار، ترکھان۔ کسان۔ بافتبان وغیرہ اپنی مصنوعات کا منڈی میں تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اس سے انفرادی اور اجتماعی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں َ۔ اس طرح سے اشیاء کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی ہوگی۔ منڈی جامد نہیں رہے گی۔ بلکہ اجناس اور دیگر اشیاء کی نقل و حمل ہوتی رہے گی۔ اور عوام کو دستیاب ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ آجر نفع بھی حاصل کرتے رہیں گے۔
آدم سمتھ 1723-90) (جو امام الغزالی سے 7ooسال بعد پیدا ہوا، نے بھی الغزالی کا ادلیٰ بدلی والا ماڈل استعمال کیا لیکن قصاب (بوچر)، کشیدکار (بریوئر)اور نانبائی (بیکرز)استعمال کیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان سے توقع کرتے ہیں کہ مسائل انکی ضروریات اور دلچسپی کے مطابق ہی حل ہوں اور ان کی اپنی ذات سے محبت شامل ہو۔ الغزالی نے کہا کہ ادلیٰ بدلے کی بجائے اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے کرنسی (دینار، درہم وغیرہ) استعمال کئے جائیں تو اس کی باطنی قدر و قیمت سادہ اور موئثر ہوگی۔ اس میں انہوں اپنی بات پر زور دینے کے لئے کہا کہ کرنسی صرف اس وقت ہی عوامی فلاح و بہبود کرے گی اگر اس کے ساتھ سود منسلک نہ ہو۔ کرنسی کو صرف تبادلے کا ذریعہ کے طور پر ہی استعمال کیا جانا چاہیئے اور اس میں سودی نظام شامل کردیا جائے تو وہ انسانیت کے خلاف ہے اور جرم ہے۔ کرنسی کو اشیاء کی خرید و فروخت کا وسیلہ ہی بنایا جائے۔
الغزالی کے مطابق معاشی سرگرمیوں کو منظم کرنے کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہے۔ وہ اس میں باقاعدگی، انصاف، امن، خوشحالی اور توازن لانے کی ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ وہ عوامی آمدن اور خرچ کی بھی بات کرتے ہیں۔ حکومتی آمدن زکوٰۃ،مال غنیمت، جزیہ، اور ٹیکس سے حاصل ہوتی ہے۔ جو وہ اپنے انتظامی اخراجات، عوام کے جان و مال کے تحفظ، سیکو ریٹی، سکولوں، صنعت و حرفت، بنیادی ڈھانچے اور دیگر فلاحی منصوبوں پر خرچ کرتی ہے۔
الغزالی نے احیائے علوم میں کرنسی کی قدر و قیمت کے بارے میں کہا کہ یہ بذات خود اہمیت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک آئینہ کی مانند ہے۔ اصل چیز تو وہ وجود ہے جس کا وہ عکس ہے۔ کرنسی بھی ایسی ہی شئے ہے۔ اسے کھایا، پیا،پہنا نہیں جا سکتا بلکہ اس سے اشیاء خریدی جا سکتی ہیں۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اگرچہ کرنسی کی حیثیت ثانوی ہے لیکن یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے بغیر روزمرہ زندگی بسر نہیں کی جا سکتی۔ اسے سود میں نہیں استعمال نہیں کرنا چاہئیے۔
الغزالی نے کہا کرنسی انفرادی، قومی اور بینالاقوامی تعلقات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ افراط زر نہ ہونے دے۔ اگر اشیا منڈی میں ضرورت سے زیادہ ہوں گی تو آجر کو اصل سے کم قیمت ملے لگی اور تفریط (ڈ یفلیشن) پیدا ہو جائے گی۔ اور اگر منڈی میں اشیا ء کم ہوں اور خریدار زیادہ ہوں تو اشیا اصل قیمت سے زیادہ کی بکیں گی۔ اور افراط زر ہو جائے گا (انفلیشن) ۔ مہنگائی ہو جائے گی۔
روپے کی قدر میں کمی واقع ہو جائے گی۔ ان کے نزدیک اگر کرنسی کو منڈی میں نہ پھینکا جائے تو ذخیرہ اندوزی پیدا ہوتی ہے، بے روزگاری، مہنگائی ا ور افراط پیدا ہو جاتا ہے۔ وسائل پر چند لوگوں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔
الغزالی نے سود کو لعنت قرار دیا۔ اس کوختم کرنے پر زور دیا۔اس کو قرآن پاک میں حرام قرار دیا ہے۔اسے مذہب نے منع کیا ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے اور ضرورت مندوں کا استحصال کرتی ہے۔ عوام پر ا ن کی زندگی تنگ کرتی ہے۔
اقتصادیات میں انہوں نے کرنسی کی خریدو فروخت کے نظام کا بھی ذکر کیا۔ کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کو منع کیا۔ البتہ اسے غیر ملکی اشیاء کی خرید وٖ فروخت میں ایک واسطے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی تجارت میں اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ در آمد اور برآمد میں اس کی افادیت ہے۔ اس کا ڈھیر لگاکے اس پر سود نہیں حاصل کرنا چاہئیے۔اپنی بنیادی اور ثانوی ضروریات کی تسکین اسلامی تعلیمات، روح (نفس) علم و دانش، نسل اور مالی فوائد حاصل کئے جائیں۔منڈی میں تاجر اپنے ذاتی مفاد میں ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ دلال اور آڑھتی اشیا ء کو اصلی قیمت سے بہت زیادہ قیمت پر بیچ کر عوام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ عوامی سہولت کیلئے ضروری ہے کہ تجارت میں لازماً باقاعدگی پیدا کی جائے۔ ایسا کرنے سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تجارت میں تحفظ فراہم کرنا چاہئیے۔آمدورفت کے ذرائع آسان اور محفوظ بنائے جائیں۔
الغزالی کے نزدیک منڈی فطری نظام کا حصہ ہے اور بتایا کہ کہ منڈی کی تخلیق کیسے کی جائے۔ پیداوار ان علاقوں میں کی جائے جو اس جنس یا تجارتی مصنوعات کے لئے ضروری ہو۔ مچھلی کی افزائش، دریا، سمندر، زرخیز زمین جہاں پانی میسر ہو خوراک کے لئے، ان کے آلات بنانے اور مرمت کے لئے فیکٹریاں لگائی جائیں جہاں خام مال دستیاب ہو اور اس کی ترسیل کے لئے ڈھانچہ موجود ہو اور موزوں مقام اور منڈی تک لے جایا جائے۔ا نہوں نے علاقائی تجارت کی اہمیت بھی بیان کی۔ یہ تجارتی حجم میں اضافہ کرتے ہیں۔ (احیا ء III: 277)۔
وہ بارٹر نظام کی مشکلات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ آجر کا منڈی تک پیداوار لانا، مقامی آبادی کی ضروریات، ذرائع، مقام، وقت، دن، موسم، مقدار، ٹرانسپورٹ، کس مقام سے اٹھانا، کس مقام پر پہنچانا، قیمت کا تعین، گاہک کی دستیابی، طلب وغیرہ کی مشکلات سے آگاہ تھے اورحکومت کو اسکی ذمہ داری سونپتے تھے کہ ان میں باقاعدگی پیدا کرے۔ تجارت کی تحریک نفع کا حصول ہے لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہونا چاہیئے۔
(احیاء IV 110, II 4,6,8 75)۔
الغزالی کے نزدیک ریاست کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں کو محفوظ بنائے۔ فوج، پولیس، دشمنوں سے مقابلے۔ سرحدوں کی حفاظت، عوامی فلاح و بہبود کرے۔ جو روپے پیسے سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ ا س لئے اسے ٹیکس لگانے پڑتے ہیں لیکن وہ اتنے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں کہ عوام کی برداشت سے باہر ہوں۔ اوقاف، زکواۃ،۔۔۔۔ وغیرہ شریعہ کے مطابق حاصل کئے جائیں انہوں نے ریاست کی طرف سے عوام کو قرضہ فراہم کرنے کی پالیسی پر بھی لکھا۔ اس سے عوام کی حالت بہتر ہوتی ہے۔ نظام عدل، قومی سلامتی، کمیونٹی کی بہتری، عوامی بہتری کے لئے پراجیکٹ اورطر جیہات قائم کرے کی اہمیت بیان کی۔
الغزالی نے کہا کہ تجارت میں نفع، نقصان کے تصور کو ادلی بدلی (بارٹر سسٹم) کے ذریعے کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر سخت اصول و ضوابط لاگو ہوتے ہیں َ۔اس سے قیمتوں کا تعین میں مسخ ہو جاتا ہے۔ نہ تواشیا کی صحیح مقدارورنہ ہی قیمت کا صحیح تعین کیا جا سکتاہے۔ آجر نے کن ذرائع سے پیداوار کی، کیا جائز طریقے استعمال کئے یا ناجائز، معلوم نہیں ہو پاتا۔ علاوہ ازیں صحیح وقت پرمقررہ مقام طے شدہ مقدار میں کن مخصوص ذرائع اور اقدامات سے جائز پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے اور اشیاء کی قدر و قیمت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے وغیرہ کے امور پر توجہ دی جاتی ہے۔