A You Are Not What We Expected By Sidura Ludwig

  




تم وہ  نہیں جس  کی ہمیں توقع تھی

You Are Not What We Expected

By

Sidura Ludwig

مترجم : غلام محی الدین

رینا کی چند سال پہلے شالم  سے  شادی ہوئی تھی جس  سے اس کی  ایک اٹھارہ ماہ کی بیٹی سارا تھی ۔ شالم کے پاس اتنے واسائل نہ تھے کہ  وہ  کرائے پر کوئی گھر  لےسکے  اسلئے اس کے والدین نے اسے اپنے  گھرکے تہہ خانے میں عارضی طورپر رہنے کے لئے جگہ دی ہوئی تھی۔ میاں بیو ی دونوں  کا م کرتے تھے ۔ ایک تنخواہ تو ساراکے ڈے کئیر میں  چلی جاتی تھی  اور بقایا رقم سے گھر کا خرچہ چلتاتھا۔۔شالم کی ماں جس کا نام 'بائرینا ' تھا  ،کا پورے خاندان پر حکم چلتاتھا۔وہ منہ پھٹ تھی اور اپنی بہو                     رینا کے خلاف تھی۔اس پر ہروقت طنز کے نشتر چلاتی رہتی تھی۔شادی کے بعد رینا اپنی  بہن سے ملنے  اپنی بہن کے پاس کینیڈاآئی ہوئی تھی کہ اس نے اس کی  بہن سیمی  جو کینیڈا کی شہری تھی نے اس کی شادہ شالم سے کروادی۔اب  وہ یہاں  کینیڈین  پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔اس کی بڑی بہن سیمی  کینیڈا میں خوشحال زندگی گزاررہی تھی۔

رینانے اپنے خاوند شالم کی طرف دیکھاجواس وقت صوفےپراپنی والدہ کےساتھ بیٹھاتھا۔وہ اس سے اس دن کے پروگرام کے بارے بات کرنا چاہ رہی تھی۔اس نےاپنی بیوی سے نظریں ملانے سے  اجتناب کیا۔ماں اس وقت اس کی ساس اپنا رات کالباس مرمت کرنے میں مصروف تھی۔اس نےاپنی شہادت کی انگلی  کی نوک پردھاگالپیٹاہواتھااورہاتھ سے سی رہی تھی ۔اس کاسوئیوں سے اونی سویٹربننا یاسلائی کرنامشغلہ تھا۔'شالم ' کےنام کامطلب 'امن'تھا۔اس کی جسمانی ساخت کچھ ایسی تھی کہ ریناکوپتہ نہیں چلتاتھاکہ اس کی سیدھی کل کون سی  ہے۔چلتےہوئے انسان دھوکہ کھاجاتاتھاکہ وہ            آرہاتھایا جارہاتھا۔

کچھ دیر بعد زالم نے اس پر توجہ دی تورینا  نے  کہا کہ' میرےپاس کوئی جگہ نہیں جہاں میں آجاسکوں۔'شالم کے پاس اس کاجواب نہیں تھا اور اسے رینا کی  آوازاجنبی سی لگی۔'ہمارے پاس  تہہ خانےکےعلاوہ کوئی   اور ٹھکانہ نہیں، رینانےاس بات پر  زور دے کرکہا۔لے دے کے یہاں ایک بہن ہے جس تک پہنچنا کامشکل ہے۔ 'جب وہ بولی اسے اپنی آواز اجنبی سی لگی۔اس نے اپنے میاں کودیکھاتووہ بھی اسے اسوقت غیر شناسا لگا۔اس میں اسے کوئی گرم جوشی نظر نہ آئی۔اس گھر میں منتقل ہونےسےپہلے شالم کے والدین  وہ مضافاتی علاقے میں رہتےتھے لیکن پچھلے  پانچ سال سے وہ تھارن ہل منتقل ہو گئے تھے۔ شالم اور رینا  اس گھر  کےتہہ خانے  میں چارسال  سے رہ رہے تھے۔رینا چونکہ اپنے میاں کےوالدین سے مراعات لےرہی تھی اس لئے اسےان کانارواسلوک بھی برداشت کرناپڑتاتھاایک  سہولت تو یہ تھی کہ اس نے اسے اپنے گھر رکھاہواتھااور دوسرا یہ کی وہ ضرورت پڑنے پر اس کی بیٹی سارا کو اپنے پاس رکھ لیتی تھی۔

شالم  کی چارنسلیں کینیڈا میں پیداہوئیں اور پلی بڑھی تھیں۔اس لئے ان کی عادات بھی  ان جیسی بن گئی تھیں۔ ہر کوئی اپنافائدہ سوچتاتھا۔اس کےلکڑدادا'  ناگرینا' اوراس کاخاندان آسٹریلیاکےشہرملبورن سے یہاں منتقل ہواتھا۔وہ ان دنوں اپنے ساتھ چاکلیٹ پاؤڈر کے کئی کنٹینر اور اشیاآسٹریلیاسےلایاتھا جس سےاس نے کینیڈامیں تجارت شروع کی۔اس وقت جب  لکڑدادا یہاں آیا تو اس کے چھ بچے تھے ۔اس کی بیوی اس سے دس برس بڑی تھی۔ان کے بچے بھی زرخیز تھے۔

آج بائرینا کے گھر کچھ بچے آئے ہوئے تھے اور  کھلونوں پرلڑرہے  تھے۔ڈرائنگ روم میں ایک پالتونے دروازہ بلاک کیاہواتھا ۔ ایک بچے نے کسی کودانت سے کاٹا جس نے اس کے  پلاسٹک  کی سائیکل کاڈنڈاچھین لیاتھاجس کی شکل پولیس کے بیدکے ڈنڈے سےمشابہ تھی دوسرا بچہ  اس زیادتی پرچیخ رہاتھا۔گھر میں  پھٹے ہوئے  کھٹے  دودھ اور انناس  کی  سڑاندبھی  پھیلی ہوئی تھی۔رینابھی اپنی بچی  ساراکے ساتھ وہاں موجودتھی۔سارا بچوں کودیکھ کرخوش ہورہی تھی۔ریناساراکوپکڑکرجانے لگی تو سارارونے لگی۔اس سےپہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی اس کی ساس 'بائرینا  'نے مین دروازہ  بندکردیا اور دانت کاٹنے والے بچےکوجھڑکنے لگی۔رینا  تہہ خانے گئی تووہ اپنی ساس  کو سن سکتی تھی۔ بائرینا یہ کہہ رہی تھی کہ لڑانہیں کرتے ۔ اس گھرمیں ہم سب ایک دوسرے کی مددکرناچاہیے جیسے کہ ہم نے رینا کویہاں رکھ کر کررہے ہیں۔

ریناکے ساتھ آج اس کی کام کی جگہ پر حادثہ پیش آیاتھا جس پروہ بوکھلائی ہوئی تھی۔اس کااثراب بھی اس پرتھا اوروہ اس وقت بھی کانپ رہی تھی ۔ وہ ایک  حلال خوراک   سٹورپرکام کرتی تھیاس کی ڈیوٹی کافی کاؤنٹر پرتھی۔  اور  اس دن اس کےہاتھوں پرگرم چاکلیٹ  گرپڑی تھی  جس سے اس کی چیخ  نکل گئی  تواس وقت اس کیفے کی کیشئر پریسلا تھی جو  اس کے پاس بھاگی آئی ااورجلدی سےکہاکہ اپنےہاتھ پرٹھنڈاپانی ڈالے،نہیں تو اس پرآبلے پڑجائیں گے۔رینا نے اپناہاتھ ٹھنڈے پانی میں ڈالا تواسے راحت ملی اور پریسلا کا ہاتھ ہلاکرشکریہ اداکیا۔وہ کیشیئر فلپائن سے تھی  جودن کونوکری اوررات کو کالج جاتی تھی۔فلپائن میں وہ نرس تھی۔اس نے کینیڈاکانرسنگ امتحان پاس کرنےکےلئے داخلہ لیاہواتھا۔وہ  بھی کسی گھر میں ایک تہہ خانےمیں رہ رہی تھی اور اس کی گزربسر سٹور کی جزوی  نوکری اورلوگوں کے مختلف قسم کے چھوٹے موٹے  کام کرنے سےہوتی تھی۔کپڑے دھوتی، صفائیاں کرتی، کھاناپکاتی، سبزیاں کاٹتی تھی۔ جب بھی وہ فارغ ہوتی تونرسنگ کی کتب لےکربیٹھ جاتی اور عملی امتحان  میں بیٹھنے  کی مشق کرتی تھی۔اس نے یہ بات ریناکوبتائی تھی۔اب وہ کہہ رہی تھی کہ اس کاخاونداوربچے اگلےماہ اس کےپاس کینیڈاآرہےتھے۔اور اس کی پوری فیملی ایک بارپھرسے اکٹھی ہونے والی  تھی۔

رینا  کے ہاتھ پرگرم پگھلی چاکلیٹ گرنے کاسبب ایک معمر شخص تھاجس کانام آسلرتھا۔اسےرعشہ تھااور وہ اس کیفے کاایک باقاعدہ خریدارتھا۔وہ آرڈردے کر مخملی کرسی پربیٹھا انتظارکررہاتھا۔رینا نے پریسلاکی بات سن کر سرہلایااور گرم چاکلیٹ کی مشین کےنیچے ایک کاغذکا کپ رکھ دیا۔کیشئر ایسےالفاظ بولتی تھی جونامکمل اورغلط ہوتے تھےلیکن اس سےاس کامطلب واضح ہوجاتاتھا۔ جیسے وہ کار کو'کاہ'،ویٹر کی بجائے 'ویہہ' کہتی تھی۔

 سارا جب گھر آئی تو سارا نے اپنی دادی کے پاس جانے کی ضد کی جس نےرینا کوکئی بار زوردےکرکہاتھاکہ ساراکےلئے کوئی آیارکھ لے۔ اس طرح سے وہ  پڑھائی کرسکتی ہے۔اگر وہ سرٹیفیکیٹ لے لے گی تو اسے اچھی نوکری مل جائے گی۔اس نے  سارا  اپنی ساس کو پکڑادی لیکن خاموش رہی۔بلرینا نے باے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ  جب سار رات سوجایاکرے  تواس عرصے میں ریناکو وقت مل جایاکرےگااور  زیادہ کام کرسکےگی جیسےپورے گھر کی صفائی، برتن دھونا ، کپڑے دھونا اوراستری کرنا وغیرہ۔ تم تہہ خانے کا کوئی کرایہ بھی ادانہیں کررہی ہو۔ تمہیں بہت سہولت دے رکھی ہے۔اس کے بدلے تمہارا فرض بنتاہے کہ تم ہمارابھی کچھ کام کرو۔۔ تم یہ کہہ سکتی ہو کہ ہم  تمہیں گھر سے نہیں نکالنا چاہتے۔ تم بھی توہماری  مدد کا کچھ توصلہ دو۔

رینا نے  موقع ملنے پر یہ بات شالم کو  کہی ۔پہلے ہی وہ بہت سخت کام کررہی تھی۔ سٹور کی نوکری تھکادینے والی تھی۔ ننھی بچی  کی ضروریات اور اس کا ہر وقت پوری توجہ چاہنا،، میاں کے نخرے اور اوپر سے سسرال کے طعنے اسے پریشان کئے دے رہے تھے۔ ہمیں اپنی باقی  زندگی کے لئے رقم پس اندازکرنی چاہیئے۔رینانےساس کی بات سن کر تنہائی میں شالم سےکہا۔۔۔اس نے اپنے میاں  کو مشورہ دیا کہاس صورت میں تمہیں مزید محنت کرناہوگی۔زیادہ پیسے کمانے ہوں گے۔تمہارے کام نہ کرنےاورتہہ خانے میں چھپ کربیٹھنے سے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔تم ساراکےپاس بھی نہیں ہوتےاوراس کی  پرورش میں بھی حصہ نہیں لیتے۔شالم نے اس کی باتیں سنی اور بغیر کچھ کہے اوپر اپنی والدہ کے پاس چلاگیا تو اس کی والدہ نے اسے کہا تم اس گھرمیں اسوقت تک رہ سکتے ہوجب تک کہ تم اپنے قدم نہ جمالو۔ ہماری بدقسمتی سے  کہ تمہاری بیوی رینا وہ نہیں نکلی جس کی ہم توقع  کررہےتھے۔وہ زیادہ تر اپنی ماں کے پاس ہی رہتا تھااور زیادہ تر اوپر ہی سوتاتھا۔ ۔

تمہیں   یہ تہہ خانہ چھوڑکرالگ رہناہے۔شالم نے اگلی صبح اپنی بیوی کوکہا۔میں خود کواپنے آپ سے بیگانہ نہیں کرناچاہتا۔خودکومٹانانہیں چاہتا۔میں پہلےہی بہت کام کررہاہوں۔

اس کی بات سن کر ریناچیخناچاہتی تھی لیکن چپ رہی۔سارا اپنی دادی کےپاس جانے کی ضد کرنے لگی۔

اس نے ساراکو بائرینا کےسپردکیا تواس وقت  رینا جھنجھلاہٹ میں اپنی انگلیاں چٹخارہی تھی۔ سارا پکڑتے  اس کے چہرےپرناگواری کے تاثرات آئے اور وہ ساراکی برائیاں کرنے لگی ۔ساراکیسی  فضول  اور ضدی بچی ہے ۔بالکل کہانہیں مانتی ۔بہت تنگ کرتی ہے ۔اس کی جگہ بیٹاہوتا تو بہت اچھاہوتا۔

سارااگرچہ بچی تھی لیکن اسے بھی اس بات کوسمجھنے میں  ذرا سی دیرنہ لگی کہ وہ اپنی  پیاری ماں کی آغوش سے نکل کر اپنی دادی کی مضبوط چاندی کی چوڑیوں ،لمبے موتیوں والے نیکلس  کی پناہ میں آگئی  تھی۔۔ بائرینا نے ریناسے بغیرمڑے یہ کہاکہ سب ٹھیک ہے۔تم ہمیں تنہاچھوڑدو۔اس  نے ساراکی انگلیوں ، پاؤں میں گدگدی  کی تووہ مچلنےلگی ۔اس سے ریناکویہ احساس  ہواکہ وہ  خراب طنزیہ رویہ سےاسے توڑناچاہ رہی تھی۔بائرینا  تو اپنی جگہ ہرلحاظ سے مطمئن تھی اور یقیناًوہ رینااورسارا کے بغیربھی خوش تھے لیکن رینا  کی حالت پتلی تھی۔وہ اس کی محتاج تھی۔وہ یہ جان چکی تھی کہ اگروہ ان کا گھر فوری چھوڑناچاہتی توکوئی بھی اسے نہ روکتابلکہ اس کی تویہ خواہش تھی کہ رینااورساراگھرچھوڑکر وہاں سے چلی جائیں لیکن وہ اپنےبیٹےشالم کےحق میں تھی اورچاہتی تھی کہ وہ  رینا اور اپنی بیٹی سارا کو چھوڑدے۔ بائرینا  ساراکوگودمیں اٹھائے دروازے پرکھڑی ہاتھ ہلاتی رہی اور کہا کہ اس دن وہ خود ہی سارا کو ڈے کئر چھوڑ دے گی۔۔دن بھر کے جھمبیلوں سے گزر کر، سارا کو ڈے کئر سے لے کر واپس آئی  اور  رات کو            ساراکواپنےساتھ سلالیا۔سارانے کیلاکھاتےہوئےاسےاپنے سرپرمل لیاتھا۔رینانےسوچاتھا کہ صبح جب سو کر اٹھے گی تو اسے نہلائےگی لیکن وہ سوچ اتنی ہی ناپائیدارتھی جیسے  کوئی ڈراؤنا خواب۔ ۔  ۔اسےخیال آیاکہ اس غیریقینی  صورت حال سے توبہترہے کہ ٹیکسی پکڑے اور اپنے آبائی وطن چلی جائے اور اس اذیت سے نجات پائے اور کینیڈا کی شہریت کے پیچھے نہ پڑے۔۔۔کہ  اس کےسرہانے رکھافون بجا۔

تم شالم کوبتادوکہ میراخاوند امیگریشن کےوکیل کوجانتاہے۔تمہارے کچھ قانونی حقوق ہیں۔جب تک تمہاری امیگریشن نہیں ہوجاتی  ،وہ توحاصل کرو۔یہ فون اس کی  بڑی بہن  کاتھا۔

ریناکی بہن کانام سیمی تھا۔اس کاخاونداسے پیاری'سیم' کہہ کرپکارتاتھا۔وہ ایک   شاندا ر اور خوبصورت تھی لیکن اس  کے پانچ بچےتھےاور اسی شہر کے  دوردراز میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتےتھے  لیکن  وہ تہواراکٹھے مناتےتھے۔وہ مزے میں تھے۔عمدہ زندگی گزاررہے تھے جبکہ ریناکی زندگی مشکل تھی۔سیمی نے اپنےبال سنوارکرسکارف سےکس کرباندھےہوئےتھے۔وہ لمبےکانٹے پہناکرتی تھی۔اس نے جینیات میں پی۔ایچ۔ڈی کی ہوئی تھی۔پانچ سال پہلےریناجب انیس برس کی تھی تووہ اپنی بہن سیمی جیسی زندگی کےخواب دیکھاکرتی تھی۔وہ اس سسے ملنے آئی تھی ۔اس وقت وہ شالم کو گولف کھیلتے ہوئے ریناسےملوانےلائی تھی۔اس وقت اس نےکوئی لطیفہ سنایاتوسب ہنس پڑے۔ ۔سیمی نے شالم کےبارے میں رائےدی کہ وہ تمہارے لئے ٹھیک رہےگا۔ اس کے بعد رینانے شالم سےشادی کےلئے رضامندی ظاہرکردی ۔اس کے ذہن میں جب یہ سوچ آئی تووہ اپنی ڈیڑھ سالہ بیٹی ساراکےساتھ لیٹی ہوئی تھی۔۔۔اوراسے اوپر قدموں کی چاپ سنائی دی۔اس کی ساس غصیلی  تھی ۔اس وقت وہ تندی سے بول رہی تھی۔اس کے بولنے کایہ انداز اس وقت ہوتاتھاجب اس نےکسی کوموردالزام ٹھہراناہوتاتھا۔وہ الزام دے رہی تھی کہ رینامجھے برابر جواب دیتی ہے۔اور تم خود ہی دیکھتے ہو کہ وہ مجھ سے اپنی بیٹی کوکیسے چھپاتی ہے۔شالم تمہاری بیٹی کی شکل تم پرنہیں گئی۔میری بہوایسی نہیں ہونی چاہیئےجومجھے بیوقوف بناسکے۔جب شالم اسے جواب دینےکی کوشش کرتاتووہ اسے راستے میں ہی ٹوک دیتی۔شالم کی گفتگوکاانداز اورلہجہ نرم ہوتاتھا۔وہ بڑی شائستگی سےبات کرتاتھالیکن وہ ماں کےآگے بےبس ہوتاتھا۔وہ اپنی ماں کےغیض وغضب  کاشکارہوتارہتا تھا۔

رینا اپنی ساس کی باتیں سن کرپریشان ہوگئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بندکرلیں اور سوتے وقت کی دعامانگی۔

 اے ہمارے خدا،تو ایک ہے ۔ اس تاریک جگہ پر بھی ہے۔۔۔اوروہ الفاظ استعمال کررہی تھی جنہیں کوئی دوسراشخص استعمال نہیں کرتاتھا۔یہ احکامات الٰہی نہیں تھےبلکہ اس کی دعا درخواست ہوتی تھی  جس کامقصد اس کی رحمت  مانگناتھا اورآخری  فقرہ یہ ہوتاتھا ۔اے خدابراہ کرم مجھے مت دھتکارو۔

اگلی صبح رینانے اپنے کام پردس بجےپہنچناتھا۔اس نےساراکے لئےدلیابنایا، تھوڑی سی سیب کی  چٹنی اور ڈھیرسارے  آلو چپس   بچوں والی اونچی کرسی پر پیالے میں رکھ دیئے۔یہ خوراک سارا کی پسندیدہ تھی۔۔۔اوپردروازے کھل اوربندہورہےتھے۔الارم بج رہاتھا۔کسی نےاپنے پاؤں پٹخے جیسے کہ اس نے بوٹ پہنےہوں ۔ بائرینا نےاپنے میاں کوآواز دی اوراسےکہاکہ دفترسے واپسی پرفلاں فلاں خریداری کرتے آنا۔گیراج کاآٹومیٹک دروازہ کھلااس کے بیرم اورچرخی گیراج کےدروازے کواوپراٹھارہی تھیں۔رینانےشالم کے قدموں کی دھیمی آواز سنی جواس کی طرف آرہی تھی۔وہ تہہ خانےکی سیڑھیاں اتررہاتھا۔وہ پنجوں کےبل ریناکی طرف آرہاتھا۔رینانےاپنے ذہن میں سوچاکہ وہ اپنےہونٹوں پرانگلی رکھ کے اسےچپ رہنے کااشارہ کرے گا۔اس کےہاتھ میں رینا کےآبائی وطن  جانے کی تین ٹکٹیں  ہوں گی ۔وہ کہےگا کہ تم  جانتی ہو،وہ کہےگاکہ میں ان ٹکٹوں کےلئے ہی پیسےبچارہاتھا۔۔۔ لیکن ایسانہ ہوااورشالم نیچے نہ آیا۔

ساراجواس وقت اپنادلیاکھارہی تھی،جوش میں آکر زورسےمیزپرمکہ مارا۔تواس کےپیالےسے  چپس ھینگروں کی طرح اڑکرباہرگرگئے۔یہ دیکھ کروہ ہنسی اورایک اورمکہ مارا۔رینانےساراکےہاتھ پکڑلئےتاکہ وہ مزیدایسانہ کرے۔اوراس کےہونٹوں پرانگلی رکھ دی اور'نہیں۔۔۔نہیں ایسانہ کرو' کہا۔اس وقت ریناکولگاکہ اوپروالےلوگ اپنےاپنےکاموں پرچلےگئےتھے۔شائدشالم بھی اپنےوالدکےساتھ ہی چلاگیاتھا جواسے سب وے پرچھوڑدیاکرتاتھاتاکہ اسے وہاں سے سیدھی سواری مل سکےاور اسے مزیدبسیں تبدیل نہ کرنی پڑیں اوراس کاوقت ضائع نہ ہو۔رینانےسوچاکہ کام پرجانےسےپہلےاسے اس کےپاس آناچاہیئے تھا اورساراکو گڈمارننگ توبولناچاہیئےتھایاکم ازکم اپنی صورت تودکھانی چاہیئے تھی اوردن بھرکےپروگرام کےبارےمیں توبتاناچاہیئےتھایایہ تواطلاع دینی چاہیئے تھی کہ ساراکوڈےکئیرسے کس نےلیناتھا،ڈنرکس وقت کھائےگا،کیاساراکووہ نہلائےگایاوہ اس اسے غسل کروائے گی۔ پچھلی رات وہ بہت تھکی ہوئی تھی اورساراکو بہلا نہیں سکی تھی۔رینانےسوچا کل کادن اس کےلئےبراتھا۔اس کی تمناتھی کہ آج کادن اس کےلئے  اچھاہواوراپنی فیملی کےساتھ  اکٹھاوقت گزارے۔ویسے توموجودہ حالات سے اس کے جذبات واحساسات مرچکےتھے۔

ریناجب ساراکو ڈے کیئرچھوڑنےجاتی تووہ یاد رکھتی کہ وہ  ذیلی دروازے سے واپس جائے تاکہ سارااسے نہ دیکھ سکےکیونکہ اگر وہ مین دروازےسے نکلتی  توساراڈے کیئر میں  نہیں ٹکتی  اورچیخنے  لگتی ۔جب اس نے ساراکوچھوڑاتو ڈے کیئر کی مالکہ نےملاقاتیوں اور والدین کےلئے ہدایات  جاری  کی ہوئی تھیں کہ نہ تو کوئی  دوسروں کےگھروں  کے سامنے گاڑی پارک کرے اور نہ ہی کوکوئی سامنے والے دروازے سےباہرجائے۔وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کےہمسائے اس کی میونسپل کمیٹی سے شکائت کریں اوراس پربرسیں۔رینا ڈے کیئر پہنچی توگیٹ بندتھا۔وہ اس کےکھلنے کا انتظارکرنےلگی تاکہ وہ سارا کوان کےحوالےکرے۔درواہ کھلاتواس نےدیکھا کہ سکول کے تہہ خانے میں بیس بچے پہلےہی کھیل رہےتھے۔لکڑیوں کےچھوٹے چھوٹے ڈبوں سےوہ  میناربنا رہےتھے ۔ ایک بچے کاٹاورگرگیاتو وہ   رونے لگا۔

ڈے کئیر مالکن کی چھوٹی بہن جو حال ہی میں سن بلوغت کوپہنچی تھی نےساراکوپکڑتے ہوئےا  کہاکہ 'کیاآج وہ اس  بات پرراضی ہےکہ رنگوں سےاشیابنائے  ،لنچ پرگانےگائے  ؟وہ بہت پیاری بچی ہے،جب ہم کھیلتےہیں تواسے بہت اچھالگتاہے۔کیااس نے تمہیں یہ بات نہیں بتائی رینا؟'

رینا  نےاندرجھانکاتودیکھاکہ  ڈے کئیر کی مالکن  فرش پربیٹھ کر ایک بچے کاڈائپر تبدیل کررہی تھی۔اس نےایک اوربالغ کی آواز سنی جوبچوں کوہدائت دے رہی تھی کہ کھلونوں سےپیارسےکھیلیں۔رینانےاپنے ذہن میں حساب لگاناچاہاکہ اس ڈے کئیر میں ٹیچراوربچوں کاتناسب کیاہے لیکن پھراپناڈہن جھٹک دیاکیونکہ اس نے دیکھاکہ اس میں بچوں کی دیکھ بھال اچھے طریقےسے کی جارہی تھی۔ماحول اہم ہوتاہےجویہاں اچھاتھا۔۔۔' آج اسے لینے میں ذرادیرہوجائے گی  ،تم برائیناکوبتادینا۔'

میں بتادوں گی۔اور کہاتمہارابولنے کااندازبہت پیاراہے۔

رینا اپنی غلطیوں سے سیکھ رہی تھی ۔کل کےحادثے کےباعث آج وہ گرم چاکلیٹ  بنانے اور گاہکوں تک پہنچانے میں  بہت زیادہ محتاط تھی۔وہ شخص جومستقل خریدارتھا  ،اور اس کی وجہ سے پچھلے دن اس کے چہرے پر گرم کافی گری تھی ،کانام آسکر تھا۔ وہ آج اپنی بیوی کےساتھ آیاہواتھا۔اس کی بیوی نے اس کےلئے گرم چاکلیٹ کاآرڈر دیااور اپنی خریداری کےلئے وہاں سےسوبیز سٹور چلی گئی  جبکہ آسکروہیں بیٹھ گیا۔اس  نے شیو بنائی ہوئی تھی اور بے ربط گفتگوکررہاتھا۔ریناکی تلی پر اس نے کچھ  بخشیش بھی رکھی۔یہ وہ تلی تھی جوایک دن پہلےوہ جلابیٹھی تھی۔اس نے بخشیش  دیتے وقت کہاکہ  تمہارا کام آسان نہیں،کل جوتمہارے ساتھ ہوااس کامجھے افسوس ہے۔ریناکامنہ خشک ہوگیا۔ وہ اس سے مانوس طریقے سے بات کررہاتھا۔ رینا نے سوچا کہ کیا اس  سے تعلقات اتنے گہرے تھے کہ وہ بے باکی سے اس سے باتیں کررہاتھا۔۔۔کیاوہ  اسے جانتی تھی؟کیاہرشخص وہ واقعہ جواسے پیش آیاجانتاتھا  کے بارے میں  اس طرح سے ذکرکرنا عجیب وغریب نہ تھی؟وہ حیران تھی کہ لوگ   چھوٹے موٹے واقعات کواتنی گہری نظرسےدیکھتے تھے۔

آسکر تمہارے جلنے کی وجہ سےبہت پریشان تھا۔لوگ اس بات کوتسلیم ہی نہیں کرتےکہ اس کام میں کتناخطرہ ہوتاہے۔کیاا یسا نہیں؟تاہم، تم صبرکرواور اس بخشیش سے مزےکرو۔ہم دونوں کی طرف سے یہ تمہاراانعام ہے۔اس خاتون نےکہا۔

ویسےتوکاؤنٹر پر بخشیش  کاایک برتن رکھاگیاتھا۔گاہک اپنی ٹپ اس میں ڈالتےتھے اورڈیوٹی ختم ہونے پر وہ رقم ملازموں میں  تقسیم کردی جاتی تھی۔ ۔۔ لیکن اس نے یہ رقم بطورخاص ریناکودی اور کہااسے تم رکھ لو۔یہ بیس ڈالرکانوٹ تھا۔اس وقت  پریسلاکادھیان دوسری طرف تھا۔اس کاسر جھکاہواتھااور اپنے   ایک ہاتھ سے اپنے بال ٹھیک کررہی تھی  جواس کی آنکھوں پرپڑرہے تھے۔اس لئے رینانے وہ  نوٹ    اپنی جیب میں رکھ لیا۔رینا نے سوچاکہ کل   اس کی ایک مذہبی تقریب منعقد ہوناتھی  پرجاکرخرچ کرےگی۔ وہ دیگر ماؤں ،آیاؤں کےساتھ جن کےبال زیادہ تر سنہری ہوتے تھےاوراپنی نوکری کمپیوٹر پربیٹھ کرکیا کرتی تھیں ، کے لب ولہجے کٹر علاقائی ہوتے تھےاور ان کی انگریزی میں عبرانی  شامل ہوتی تھی۔وہ کچھ اس طرح کی گلابی انگریزی  بولتی تھیں جیسےاوکے۔پیلادیم!می روچ ٹو سلیپنگ بلی وغیرہ ۔وہ ان کے مقابلے میں انہی کی طرح اس رقم کو اڑائے گی۔

رینانےکافی ٹیبل پرکافی اس کےسامنے رکھی۔آسکرنےکھڑا ہونےکےلئےاپناکانپتاہواہاتھ اس کےبازو پررکھ کردبادیا۔یہ بات غیرمتوقع تھی ۔وہ لڑکھڑا گئی اور توازن کھودیا۔آسکر نے اپنے دوسرے ہاتھ  کومیزپررکھااور اپنے کندھے کو سیدھاکرلیا۔ان کی پوزیشن کچھ ایسی ہوگئی جیسے وہ اس وقت  ایک دوسرے کوسہارا دے رہے ہوتے تھے۔باتھ روم۔آسکرنے سرگوشی کی ۔یہ الفاظ اس نے اداکئےتواس کےمنہ سے لعاب دہن کےچھینٹے بھی اڑے۔رینا نےپسپائی اختیارکی۔وہ  ہچکچائی کیونکہ وہ ایک مرد کوکیسے پکڑکربیت الخلا لےجاسکتی تھی۔رینانے اندازہ لگایاکہ اس  کویاتوپاخانہ،پیشاب  آیاہےیا اس نے  بیچ میں کردیاہے۔ بہرحال معاملے کوسنبھالنےکے لئے اس نے آسکرکو اشارے سے بتایاکہ بیت الخلاکونےمیں تھا۔اس  نےاپنےبازوایسےپھیلائےجیسے کہ وہ جڑےہوئے ہوں۔

کونے کی طرف؟ آسکربولا۔رینانےاپناسرہلاکرکونے کی طرف اشارہ کیا۔آسکرنے خودکوسنبھالااورکونے کی طرف دیکھا۔ ریناکولگاجیسےاس کامنہ خشک ہورہا تھا۔ آسکر کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور ایسالگ رہاتھاکہ وہ اردگردکی ہرشئے سے خائف تھا۔

میں تمہاری جگہ  سنبھال کررکھتی ہوں،تم باتھ روم سے ہوآؤ۔رینا نے اس سے جان چھڑانےکےلئےکہا۔ حالانکہ کیفے اس وقت تقریباًخالی تھا۔جتنی دیر چاہو،اطمینان سے اسےاستعمال کرو۔آسکر خودکوبڑی مشکل سے سنبھالتاہواغسل خانےکی طرف بڑھا۔

پریسلا نے ان کی طرف دیکھاتواس وقت آسکر کرسیوں کےپچھلے حصے کوچھوتےاور دیوار کاسہارالیتے ہوئےاپنی دائیں  ٹانگ گھسیٹ  رہاتھا۔پریسلاکھڑی ہوگئی ،اس کی طرف آئی اوراسے اپنی کہنی پیش کی تاکہ وہ  اسے پکڑ لےاور وہ اسے باتھ روم لےجائےلیکن آسکرنےشائد بےدھیانی میں  اسے پیچھے کیاتووہ ایک قدم پیچھے ہٹی اور اس نے ریناکی طرف مڑتے ہوئے اسے اشارہ کیاکہ وہ چاہتاتھاکہ رینااس کی مددکرے۔

تمہیں کچھ نہ کچھ کرناہوگا۔پریسلانے کہا۔تم اسے پکڑکرلے جاؤ۔ریناپریسلاکوکوئی سخت رجواب دینے ہی والی تھی کہ آسکر دیوار کےکونے کی طرف مڑا اوربطخ کی طرح ڈولتاہوا واش روم کی طرف بڑھنےلگا۔ وہ اپنابوجھ نہ سہارسکا اورآگے کی طرف گرگیا اورگرتے وقت اس کے منہ سے'ایلن؛نکلااس کاسر دروازے کی چوکھٹ سے ٹکراکر ساتھ والے  سنک کے برتن سے ٹکرایا جس سے ایک دھماکا پیداہواجس سے پورا کیفےلرز اٹھا۔

ریناجوپرسیلا کی تجویز پرسخت جواب دینے والی تھی اور برسنےوالامنہ بنا ہواتھا، یہ دیکھ  کربولی 'مدد کےلئے بلاؤ'

آسکرکےسرسے خون بہہ رہاتھا۔اس کامنہ مڑاہواتھااور اس کی ایک آنکھ دبی ہوئی تھی اورایسا  محسوس ہورہاتھاکہ وہ اپنی مدد خود سے نہیں کرسکتاتھا۔جب کہ دوسری آنکھ پوری کی پوری کھلی تھی۔ریناتذبذب  میں  تھی کہ کیاکرے ۔کسے دیکھے ۔اس کاسانس پھول رہاتھا ۔پیچھے سےپرسیلا کی اونچی اونچی آوازیں  آرہی تھیں جوفون پرچیخ چیخ کر باتیں کررہی تھی۔ہاں۔ایک ایمبولینس!کیاتمہیں معاملے کی نزاکت کااحساس نہیں۔

آسکرنےاپنی کھلی آنکھ سے ریناکودیکھا جواس سے کچھ کہناچاہ رہاتھا۔وہ اس کےہونٹوں کےپاس جھک گئی جوکہ اس وقت ہل رہےتھے۔رینا یہ سنناچاہتی تھی کہ وہ کیاکہہ رہاتھااس کی سانسیں  اتھلی ہوگئی تھیں  اورتیزتیز چل رہی تھیں۔اسے دیکھ کر اسے ماہی گیروں کی کشتیوں میں شکارکی ہوئی مچھلیاں یاد آئیں جودرخواست کررہی ہوتی تھیں کہ انہیں واپس پانی میں چھوڑ دیاجائے۔اسے آسکرنےکہاتھاکہ تم اکیلی نہیں جو اذیت میں مبتلاہواور تمہاری توقعات پوری نہیں  ہورہیں۔

 میڈیکل مدد آگئی  تواس نے چٹخنی لگادی ۔وہ آسکر کی فوری طبی مدد کرنے لگے۔آسکر کی بیوی کیفے کےدروازے پر کھڑی ہوگئی۔اس کے گراسری کے تھیلے فرش پربکھرے پڑے تھے اور مرغی جوسرخ چٹنی میں بنائی گئی تھی فرش پرگرگئی تھی۔

تم اکیلی ہی دکھی نہیں  ہو۔رینا نے سرگوشی کی۔اسے لگاکہ اس کےیہ الفاظ شائد ہی سنے جاسکتےہوں۔فوری طبی امداد دے کرایمبولینس آسکرکوہسپتال لےگئی۔ایمبولینس کےسائرن کی دور ہوتی ہوئی نوحہ کرتی آواز اس وقت سنتی رہی جب تک کہ وہ سنائی دینا بندنہ ہوگئی۔وہ چکراکرگری اور بیہوش ہوگئی ۔جب اس کی آنکھ کھلی  تووہ ہسپتال میں تھی۔شالم نے اس کاہاتھ دبایااوربتایا کہ وہ  بہت جلد یہ جگہ چھوڑنے کےقابل ہوجائے گی۔وہ صھت یاب ہوئی تواسے اس کے آبائی وطن کے دوٹکٹ تھمادئیے ،اسےاور سارا کوجہاز پریہ کہہ کر بٹھادیا۔'تم وہ نہیں جس کی ہمیں  توقع تھی۔'

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


Popular posts from this blog