امام الغزالی کا فلسفہ اورتہافت الفلسفہ (دوسری قسط)



الغزالی کا فلسفہ اور تہافت الفلسفہ  (دوسری قسط)

تحقیق ومرتب:  غلام محی الدین

 الغزالی کے فلسفے میں بنیادی موضوعات میں کائنات کیسے تخلیق ہوئی اور یہ کیسے تباہ ہو جائے گی، توحید اور آخرت اہم ترین موضوعات ہیں۔   انہوں نے ثابت کیا کہ فلسفہ بھی کائنات کی تخلیق میں ماورائی ہستیوں کا ذکر کرتا ہے جس میں دیوی دیوتا ؤں نے اپنی اپنی قوتوں کی بنا پر تعمیر و تخریب کرکے کائنات تشکیل کی۔اسلامی فیلسوف اس بات کی دلیل دیتے تھے کہ دنیا کی حیثیت اور حقیقت خارجی ہے۔ اگر فلسفہ بھی یہی سمجھتا ہے تو الغزالی یہ پوچھتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتا دنیا تخلیق کر نے کے بعداسے کیوں تباہ نہیں کر سکتے؟

 

اس بات کا جواب ابن رشد یہ دیتے ہیں کہ خدا نے تمام کائنات بنانے میں وقت لیا کیونکہ زمان (وقت)  اور مکان (مقام۔ جگہ) دو الگ عناصر ہیں اور علیحدہ علیحدہ اثرات رکھتے ہیں۔ ان کی قوتیں بھی مختلف ہیں۔خدا اپنے طور پر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے، اس اپنے مقصد سے کیا اورکیسے حاصل کرنا ہے۔ انسان تو مقصداپنانے کے بعد اس کے پورا ہونے کا مناسب وقت تک انتظار کر سکتاہے۔وہ اپنے مستقبل کے عمل کے بارے میں سوچ سکتاہے لیکن خدا کے ساتھ ایسا نہیں۔ وہ مطلق ہے۔ اس کے لئے خواہش اور عمل بیک وقت ادا کئے جاتے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی وقفہ نہیں ہوتا، خدائی عمل اور سرگرمیوں کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں لیکن پھر بھی  خدا نے کا ئنات ایک وقت میں تخلیق نہیں کی۔ خدا کے نزدیک ایک وقت دوسرے وقت سے کس حد تک مختلف ہے۔ ان میں امتیاز کیسے کرنا ہے اور کائنات کو ایک مخصوص وقت میں کسی دوسرے وقت کے علاوہ تخلیق کرنا اس کے نزیک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کون سی بات اسے متحرک کر سکتی ہے کہ کسی ایک و قت کو دوسرے پر ترجیح د ے۔ ایسااس لئے کیا گیا کیونکہ تخلیقات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تھیں اور سدا قائم رہنے والی تھیں۔

 

 الغزالی کو اس بات پر یقین تھا کہ خدا دنیائی امور کوبراہ راست کنٹرول کرتا ہے۔ ان کا فلسفہ صرف اسلام تک ہی محدود نہیں بلکہ عبرانی، مسیحی فلسفیوں میں بھی مقبول ہے۔الغزالی اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ کوئی خدا جو کہ اسلام میں قابل قبول، کو یہ جاننا چاہئے کہ دنیا میں روز مرہ کیا ہو رہا ہے۔ جبکہ ابن رشد کا خیال اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر تسلیم کرلیا جائے تو خدا کی ہستی عام انسانوں جیسی ہو جائے گی  اور اسے یہ علم مہیا کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی عظمت انحطاط کا شکار ہے۔ خدا ئی علم لا محدود ، ارفع و اعلیٰ اور منفرد ہے۔ اسے دنیاوی علم او ر کسی شئے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سب فانی ہیں۔ خدا خالق ہے اور و ہ کائنات کے بارے میں مکمل اور کامل معلومات رکھتا ہے۔ ایسے وصائف کسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ بین الاقوامی اور تجریدی اشیا کے بارے میں بہترین معلوما  ت خدا کے پا س ہی ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔

 

امام الغزالی نے فلسفے اور اسلام کی حدود متعین کیں۔ اپنی تصنیف ُ  فیصل المتفرقہ بین الاسلام زندقہ  ُ  میں انہوں نے ان اعتقادات کی نشان دہی کی جو ڈھکے چھپے الفاظ میں اسلام کے خلاف تھے۔ ان کے نزدیک فلسفے ی سچائی کی سوٹی تین بنیادی عقائدتھے جو.   ُوحدت  ُ،      ُ ُحضرت محمد صلعم کی پیغمبری  ُ اور احادیث  ُ پر شک اور قرآن میں موت کے بعد زندگی سے انکار۔ ان تینوں عقائد کی جو بھی نفی کرے گا وہ ملحد اور مشرک قرار پائے گا۔ (الغزالی  2002, 195, 196, 112)۔

 

لغزالی ابن سینا کے ُ  نظریہ روح النفس کی تخلیق  (تھیوری آف  ایمے نیشن) کے قائل تھے جو انہوں نے یونانی فلسفی فلاطونیس سے لیا تھا، کو تسلیم کرتے تھے۔یہ اصطلاح علم کائنات سے لی گئی تھی۔ ا س نظریے کے تحت  کائنات اصول اول کے تحت بنی ہے۔ اس کی تخلیق نزولی ہے۔ مطلق حیثیت خدا کی ہے اور وہ اپنی رضا سے اعلیٰ و ارفع سے نچلے درجے کی تمام تخلیقات کرتا ہے۔

 

 تعقیب (مشیت الٰہی)کی رو سے ابن سینا  اشیاء کو وجود اور روح میں تقسیم کرتے ہیں جو حقیقت میں ان اشیا ء کے جو دوسروں کی بدولت ضروری ہے۔ دنیا  ایک ماڈل ہے اور فطرت ایک شئے ہے جس میں انسانی تفہیم اور تحقیق و تفتیش میں ایسی مزاحمت نہیں جو ناقابل عمل ہو۔  ابن رشد یہ تجویز کرتے ہیں کہ اگرچہ کسی شئے کا وجود اور روح میں منطقی امتیاز معلوم کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود وجود اور روح میں ایک لازم تعلق پایا جاتا ہے۔ جس طرح ایک ایسا تعلق جو باقی تمام اشیاء میں جو  وجود اورروح کے ساتھ واقع ہو رہی ہوں کے متعلق مفروضے قائم کرکے نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح وجود اور روح کی اشراح کیسے ہوئی، کے بے رنگ تجزیے کے تحت واقع ہوتی ہیں  جس کو ابن رشد نے سنجیدگی سے فلسفی کی نوعیت اور ماہئیت کو غیر مناسب تشریح کہا۔ ان کے نزدیک ایک شئے کے نام کے معانی کی، اور فلسفی کی زبان کی یہ ایک بنیادی غلطی ہے کہ روح اور وجود کی مانوسیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس طرح اس سے منسلک ہے جس میں یہ بے رنگ اور غیر سود مند تجزیہ ہوتا ہے۔ (ایگزسٹینس میننگ ان اسلامک فلاسفی)۔

 

 اس عمل کو امام غزالی بھی تسلیم کرتے تھے وجود میں وجود اور روح میں تعلق ختم ہو نے کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ بھی قیافہ ہی ہے۔ اس عمل کو عام بول چال اور مقامی گفتگو میں فلسفے کی وضاحت کے لئے استعمال کیا جائے تو تمام لوگ ان کو ایک ہی طرح لیں گے اور صحیح  ابلاغ ہو گا۔ الغزالی اس بات کوجواز بنا کر کہتے ہیں اسلئے تمام علماء کو خدا اور اسلامی تعلیمات کی تفسیر کے وقت نہائت محتاط سے الفاظکا انتخاب کیا جانااس بات کا جواب ابن رشد یہ دیتے ہیں کہ خدا نے تمام کائنات بنانے میں وقت لیا کیونکہ زمان (وقت)  اور مکان (مقام۔ جگہ) دو الگ عناصر ہیں اور علیحدہ علیحدہ اثرات رکھتے ہیں۔ ان کی قوتیں بھی مختلف ہیں۔خدا اپنے طور پر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے، اس اپنے مقصد سے کیا اورکیسے حاصل کرنا ہے۔ انسان تو مقصداپنانے کے بعد اس کے پورا ہونے کا مناسب وقت تک انتظار کر سکتاہے۔وہ اپنے مستقبل کے عمل کے بارے میں سوچ سکتاہے لیکن خدا کے ساتھ ایسا نہیں۔ وہ مطلق ہے۔ اس کے لئے خواہش اور عمل بیک وقت ادا کئے جاتے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی وقفہ نہیں ہوتا، خدائی عمل اور سرگرمیوں کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں لیکن پھر بھی  خدا نے کا ئنات ایک وقت میں تخلیق نہیں کی۔ خدا کے نزدیک ایک وقت دوسرے وقت سے کس حد تک مختلف ہے۔ ان میں امتیاز کیسے کرنا ہے اور کائنات کو ایک مخصوص وقت میں کسی دوسرے وقت کے علاوہ تخلیق کرنا اس کے نزیک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کون سی بات اسے متحرک کر سکتی ہے کہ کسی ایک و قت کو دوسرے پر ترجیح د ے۔ ایسااس لئے کیا گیا کیونکہ تخلیقات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تھیں اور سدا قائم رہنے والی تھیں۔

 

 الغزالی کو اس بات پر یقین تھا کہ خدا دنیائی امور کوبراہ راست کنٹرول کرتا ہے۔ ان کا فلسفہ صرف اسلام تک ہی محدود نہیں بلکہ عبرانی، مسیحی فلسفیوں میں بھی مقبول ہے۔الغزالی اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ کوئی خدا جو کہ اسلام میں قابل قبول، کو یہ جاننا چاہئے کہ دنیا میں روز مرہ کیا ہو رہا ہے۔ جبکہ ابن رشد کا خیال اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر تسلیم کرلیا جائے تو خدا کی ہستی عام انسانوں جیسی ہو جائے گی  اور اسے یہ علم مہیا کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی عظمت انحطاط کا شکار ہے۔ خدا ئی علم لا محدود ، ارفع و اعلیٰ اور منفرد ہے۔ اسے دنیاوی علم او ر کسی شئے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سب فانی ہیں۔ خدا خالق ہے اور و ہ کائنات کے بارے میں مکمل اور کامل معلومات رکھتا ہے۔ ایسے وصائف کسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ بین الاقوامی اور تجریدی اشیا کے بارے میں بہترین معلوما  ت خدا کے پا س ہی ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔

 

امام الغزالی نے فلسفے اور اسلام کی حدود متعین کیں۔ اپنی تصنیف ُ  فیصل المتفرقہ بین الاسلام زندقہ  ُ  میں انہوں نے ان اعتقادات کی نشان دہی کی جو ڈھکے چھپے الفاظ میں اسلام کے خلاف تھے۔ ان کے نزدیک فلسفے ی سچائی کی سوٹی تین بنیادی عقائدتھے جو.   ُوحدت  ُ،      ُ ُحضرت محمد صلعم کی پیغمبری  ُ اور احادیث  ُ پر شک اور قرآن میں موت کے بعد زندگی سے انکار۔ ان تینوں عقائد کی جو بھی نفی کرے گا وہ ملحد اور مشرک قرار پائے گا۔ (الغزالی  2002, 195, 196, 112)۔

 

لغزالی ابن سینا کے ُ  نظریہ روح النفس کی تخلیق  (تھیوری آف  ایمے نیشن) کے قائل تھے جو انہوں نے یونانی فلسفی فلاطونیس سے لیا تھا، کو تسلیم کرتے تھے۔یہ اصطلاح علم کائنات سے لی گئی تھی۔ ا س نظریے کے تحت  کائنات اصول اول کے تحت بنی ہے۔ اس کی تخلیق نزولی ہے۔ مطلق حیثیت خدا کی ہے اور وہ اپنی رضا سے اعلیٰ و ارفع سے نچلے درجے کی تمام تخلیقات کرتا ہے۔

 

 تعقیب (مشیت الٰہی)کی رو سے ابن سینا  اشیاء کو وجود اور روح میں تقسیم کرتے ہیں جو حقیقت میں ان اشیا ء کے جو دوسروں کی بدولت ضروری ہے۔ دنیا  ایک ماڈل ہے اور فطرت ایک شئے ہے جس میں انسانی تفہیم اور تحقیق و تفتیش میں ایسی مزاحمت نہیں جو ناقابل عمل ہو۔  ابن رشد یہ تجویز کرتے ہیں کہ اگرچہ کسی شئے کا وجود اور روح میں منطقی امتیاز معلوم کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود وجود اور روح میں ایک لازم تعلق پایا جاتا ہے۔ جس طرح ایک ایسا تعلق جو باقی تمام اشیاء میں جو  وجود اورروح کے ساتھ واقع ہو رہی ہوں کے متعلق مفروضے قائم کرکے نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح وجود اور روح کی اشراح کیسے ہوئی، کے بے رنگ تجزیے کے تحت واقع ہوتی ہیں  جس کو ابن رشد نے سنجیدگی سے فلسفی کی نوعیت اور ماہئیت کو غیر مناسب تشریح کہا۔ ان کے نزدیک ایک شئے کے نام کے معانی کی، اور فلسفی کی زبان کی یہ ایک بنیادی غلطی ہے کہ روح اور وجود کی مانوسیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس طرح اس سے منسلک ہے جس میں یہ بے رنگ اور غیر سود مند تجزیہ ہوتا ہے۔ (ایگزسٹینس میننگ ان اسلامک فلاسفی)۔

 

 اس عمل کو امام غزالی بھی تسلیم کرتے تھے وجود میں وجود اور روح میں تعلق ختم ہو نے کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ بھی قیافہ ہی ہے۔ اس عمل کو عام بول چال اور مقامی گفتگو میں فلسفے کی وضاحت کے لئے استعمال کیا جائے تو تمام لوگ ان کو ایک ہی طرح لیں گے اور صحیح  ابلاغ ہو گا۔ الغزالی اس بات کوجواز بنا کر کہتے ہیں اسلئے تمام علماء کو خدا اور اسلامی تعلیمات کی تفسیر کے وقت نہائت محتاط سے الفاظکا انتخاب کیا جاناچاہئیے تاکہ وہ عام لوگوں کو صحیح سمجھ آئے۔ ایسے الفاظ کا چناؤ کیا جائے جن کے معانی مختلف تناظر میں بھی یکساں رہیں۔ امام غزالی کے نزدیک تجریدی اصطلاحات کا تعلق خارجی دنیا کے حوالے سے بالکل خود مختار اور آزاد ہوتے ہیں۔ ان کا  ایسی تصاویر  یا تمثالوں کے سلاسل کے ذریعے اظہار کیا جائے تو معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ خدا کو ماننا اور ان معجزوں کو جو بغیر ظاہری وجود تخلیق ہوتے ہیں، کو دلائل کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کو تخیل میں لانا اتنا مشکل نہیں۔ ابن رشد ان کے برعکس جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسا فریم ورک جس میں دنیا مختلف انداز میں رہتی ہے، تخیلات کے سلاسل کی نوعیت بے حد وسیع ہوی ہے اس لئے ان کو اپنے حواس میں لانابہت مشکل ہے۔

 

امام غزالی کے نزدیک ایسے عقائد جو شرک کے دائرے میں نہیں آتے تھے لیکن ان کی تشریح غلط رنگ میں کی گئی تھی۔ یہ  ُ بدعت ُ  تھی اور شرح کی غلط انداز میں تشریح کی گئی تھی۔ایسی باتوں کوبرداشت کرنا ہو گا کیونکہ اس کی تشریح اپنے انداز میں کی جا تی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ان کے ایسے خیالات سچ بھی ہوں َ ٖ۔اور َ ہر سوچ کا آزادانہ تجزیہ کیا جاناچاہئیے اور اگر دلائل الہام، وحی کے مطابق ہوں تو قبول کر لینا چاہیئے۔ (الغزالی  (25-27, 1959 a , 2000b, 67-70)۔ غزالی کا یہ رویہ اور سلوک اسلامی دینیات اور اخلاقیات میں ارسطو کی تعلیمات ان کی تحریروں میں نظر آتی ہیں۔

 

علم کائنات اور علم نجوم کے بارے میں الغزالی نے کہا کہ یہ صحیح علوم  ہیں اور وہ ان کو مانتے ہیں۔ان کی بنیاد سائنسی طریقیات کی حمائت کرتی ہے۔جس کی بنیاد مظاہرات اور ریاضی ہیں۔جب وہ سورج گرہن اور چاند گرہن کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی رائے میں  ُ  جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ علمی تنازعے میں  ایسے نظریے کو رد کرنا تو ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ان گمراہ کن توضیحات کو ریاضی، جیومیٹر ی کی طرح کی منطق استعمال کرکے مسترد کرنا چاہئیے۔

 

 مشہور یورپی فلسفی   ُ الفریڈ گوئلیا مے  ُ کے مطابق یورپ میں ارسطو کے فلسفے کو ابن سینا، الفارابی اور الغزالی نے فروغ دیا۔ یورپ نے ان کے فلسفے اور صوفیائی تعلیمات کو اہمیت دی اوران کی تصانیف لائبریریوں میں رکھیں۔وہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود روزانہ سولہ صفحات تصنیف کیا کرتے تھے۔ امام غزالی نے فلسفے میں منطق، فزکس، اخلاقیات اور ما بعد از طبیعیات کو بہت اہم قرار دیا۔ ان شاخوں کے ذریعے انہوں نے یورپی فلسفے کے ایسے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے جو اسلامی فلسفے میں موجود نہیں َ۔

 

 اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس پر یقین محکم ہونا چاہئیے۔ ہ کوئی شئے جب ایسے انداز میں ظاہر ہوکہ اس کی سچائی پر شک نہ کیا جائے اور بڑے اعتماد کے ساتھ اس بات پراسے صحیح کیاجائے اور آنکھیں بند کرکے اس پر عمل کیا جائے تو وہ یقین محکم ہے۔ الغزالی کے نزدیک اسلام وسیع معانی میں اسلامی معاشرہ قائم کرتا ہے۔ اس کی اپنی روایات ہیں۔ اس عقیدے ماننے والے میں یقین محکم پایا جاتا ہے کہ کائنات کی تخلیق اوراور ہر کام میں خدا کی رضا شامل ہوتی ہے۔

 

 الغزالی فلسفے کی اہمیت جانتے تھے۔ انہوں نے ایک پیچیدہ نظام بنایا جس میں کچھ چیزوں کو قبول کیا اور کچھ کو مسترد۔ انہوں نے علم الکلام میں عام بول چال کی زبان میں مفہوم واضح  کئے اور اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے ا پنے فلسفے میں لچک پیدا کی۔ اپنے فلسفے کو استدلا ل کی کسوٹی پر پرکھا۔ ارسطو اور ابن سینا کے فلسفے کا اسلامی الہٰیات کے دائرے میں جائزہ یاجس سے عرب اور مسلم دنیا کی یونانی فلسفے سے جو ملحدانہ تھا، سے نفرت کم ہو گئی اور اسلامی اور یونانی فلسفے میں الحاق کی صورتیں نکلنے لگیں۔

 

لغزالی کے نزدیک اتحاد، ملاپ، نزدیکی، قریبی تعلق (اقتران)کے بارے میں کہا کہ اس کے بارے میں جومقبول معانی لئے جاتے ہیں اور جن پر صاحب علم اور عوام مراد لیتے ہیں کہ ہر عمل بلا وجہ نہیں ہوتا بلکہ  ُ اگر۔۔۔تو  ُ کی ترتیب پائی جاتی ہے۔یہ تصور ان میں عادتاًیقین کا درجہ رکھتا ہے لیکن یہ بات بھی مکمل وثوق سے ثابت کی جا سکتی ہے کہ ہر عمل میں سبب کی ضرورت نہیں۔ کوئی سی دو اشیاء کے مابین جو نہ تو مماثلت رکھتی ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے پر اثر انداز ہورہی ہوں بغیر لزوم کے بھی وجود  یا عدم وجود ہو(من ضرورت) پایا جا سکتا ہے۔ یہ طے کرنا خدا کی مرضی سے منسلک ہے۔اس کی جو بھی رضا ہوگی، وہی ردعمل ہو گا (تقدیر)۔ فیصلہ جو خدا نے کے رکھا ہے، ویسا ہی ہوگا۔  وہ چاہے تو بیک وقت کئی وجودساتھ ساتھ بھی تخلیق کرسکتا ہے اور ایسا بھی کی وہ اپنی ذات میں ہی نہ ہوں اور اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کی صلاحیت نہ رکھیں۔ (اعلیٰ النصوق)۔

 

الغزالی نے کہا کہ خدا کی رضا کو سمجھنے میں مندرجہ ذیل شرائط کے جائزے سے طبعی چالوں کو سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ:

(1 اسباب اور علل کے مابین تعلق ضروری نہیں۔

(2  جب سبب کی وجہ سے اثر پیدا ہو جائے (علت و معلول) تو یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ عمل کیا لازم و ملزوم کے قاعدے کے تحت واقع ہواہے اور اس کے بغیر واقع نہیں ہوسکتا اور ان کے عناصر علیحدہ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

(3خدا نے جو دو دو اشیاء ساتھ ساتھ تخلیق کی ہیں، کیا ان کو اس کی رضا سے کو ثابت کیا جاسکتاہے۔

(4 خدا نے جو تخلیق کی ہے، اس کا فیصلہ وہ پہلے کر چکا تھا۔ (تقدیر)، کے بارے میں مطالعہ کرنا۔ 

 

کائنات کی تخلیق کے عمل پر الغزالی کی مندرجہ بالا شرائط اہل علم و دانش نے اہم شمار کیں۔ ان پر سوچ و بچار کر کے گتھی کو سلجھانے پر رضامندی  تسلیم کر لی گئی۔ تاہم الغزالی نے کہا کہ بالغ النظر میں خدا کی طرف سے کی گئی طبعی چالوں کی تفصیلات تعقیب (مشیت الٰہی۔ اوکیلزم)کےذریعے کی جا سکتی ہے۔ مشہور فلسفی روڈولف(2000, 75-77 )نے الغزالی کی تجویز کے جواب میں یہ نکتہ اٹھایا کہ صر ف تعقیب  مشیت الٰہی کے علاوہ بھی ان معملات پر علمی بحث کی جا نی چاہیئے کیونکہ ان نکات کو سلجھایا نہ گیا تو توحید کے عقیدے کو زک پہنچے گی اور ملحدانہ رواج پروان چڑھے گا۔  اس کے نزدیک خدا نے دو اشیاء بیک وقت تخلیق کی ہیں۔ اس کا جواب ہی ہمیں تعقیب(مشیت الٰہی)کے نظریے (اوکیلزم)میں مل سکتا ہے۔

 

 الغزالی کے نزد یک تخلیق ممکن ہے۔ اس کے ساتھ وہ سبب اور علل کی درمیان رابطہ کی مخالفت بھی نہیں کرتے لیکن وہ اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ثانوی کردار کی بدولت ہی تخلیق ہو سکتی ہے اور اس حالت میں توتخلیق طاقتور ہوتی ہے، میں تعلق ثابت کرنا مشکو ک ہوتا ہے کیونکہ مشاہدات صرف یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ سبب اور اثرلازم و ملزوم ہیں۔ (الحصو  العندہو)  لیکن تمام ملنے والے لازم و ملزوم نہیں ہوتے (الحصول بیہی) اور اس کے  لئے کوئی دوسری وجہ نہیں۔ اس طرح الغزالی نے اسباب و علل کے مابین تعلق کے نظریے پر اعتماد نہیں کیا کیونکہ یہ بات یقینی نہیں کہ ان کے مابین لازمی تعلق پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق تعلق کے لئے ایک موثر سبب اور اس کا اثر بظاہر عام طور پر لازم ہے۔ اور کم و بیش قریبی سبب بذات خود صرف اپنے ذریعے سے ہی مکمل طور پر اس کی ذمہ دار ہے کہ وہ اثر پیدا کرے۔اور موثر ہونے کے لئے کسی اور شئے کی ضرورت نہیں۔

 

الغزالی کی تکوینیات (کاسمالوجی) کے نظریے میں خدا کا اپنی تخلیقات کے بارے میں ارادہ اور فیصلہ اس کی مطلق العنانیت برحق ہے جو مادیت پرستوں اورمعتزلہ کے برعکس ہے لیکن بنی نوع انسان کے ہاتھ میں گر کوئی اختیار دیا گیا ہے تو وہ اس کی اپنی مرضی سے کسی شئے کا کرنا یا اس سے اجتناب برتنا ہے۔ اگر حقیقت کا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ اختیار بھی محدود ہے کیونکہ اسے اس شے کو چننا ہوتا ہے جو اس کے نزدیک ان میں بہتر ہوتی ہے۔(خیر)۔

 

بوعلی سینا اس عمل جس کا تعلق فیصلہ کرنے والی وجودیات کے ساتھ ہوتا ہے۔ کے بارے میں کہتے ہیں کہ دنیا کی تخلیق بذات خود ایک ہنگامی واقعہ ہے(ممکن الوجود بالذاتی)لیکن اس کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کے ساتھ کوئی شئے بھی منسلک ہو (واجب الوجود بغیریئ)َجو خدا کی پہلے سے متعین شدہ شئے کو موزوں طور پر بیان کرتا ہے۔ الغزالی اس کے باوجود وہ بوعلی سینا کے ناقد ہیں لیکن اس نکتے کوپنے فلسفے کاحصہ بنالیتے ہیں۔

 

بوعلی سینا کے نزدیک وجود اول  ذات خدا ہے، نے اپنی تخلیق اس انداز میں کی ہے جو اسے موزوں لگی ہے۔ خدا کی رضا اٹل ہے۔ وقت اور ضرورت کا نظام اور ترتیب اس کے ہاتھ میں ہے۔جبکہ الغزالی کے نزدیک خدائی رضا  اس کی صفات میں ایک جوہر ہے جو  اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کیا کسی تخلیق کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں َ۔ اس طرح انہوں نے ابن سینا کے تکوینیاتی نظریے کے ساتھ ان کی پیغمبر کے فلسفے کی بھی تائید کردی۔

 

الغزالی نے تعقیب (مشیت الٰہی۔اوکیلزم) اور ثانوی علت و معلول  (سیکنڈری کازیلٹی)ُکے موضوع پر بحث کے دوران  العشریوں کی تائید کی۔ کہا کہ باری تعالیٰ نے تمام مخلوق اسباب و علل کے تلازم سے نہیں بنائی۔وہ اس کا اہل بھی ہے اور قدرت بھی رکھتا ہے کہ ایسا کر سکے۔  انہوں نے نامور فلسفیوں کے اہم نکات کو شامل کرکے جو فلسفہ پیش کیا اسے مشیت ایزدی قبولیت  (اوکیلزم) کہتے ہیں۔ اس کے تحت تمام اشیاء کا وجود ایٹمی ذرات کی بدولت ہے جو ایسے باریک ذرات ہوتے ہیں جو طاقتورترین خورد بین سے نظر آتے ہیں۔ یہ ذرات اوصاف کے بارکش ہوتے ہیں جو اپنی حرکات کی وجہ سے پیغام اور وصف ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ یہ جمع ہو کر ایک جسم کی ساخت بناتے ہیں۔ ان کا وزن، کثافت، رنگ، خوشبو۔ سائز وغیرہ بنتے ہیں۔ چونکہ یہ ذرات مسلسل جنبش میں رہتے ہیں اس لئے جب یہ اتفاقاً جمع ہو کر کوئی شئے بناتے ہیں تو ایسی تخلیق ہوتی ہے، وہ حادثاتی ہوتی ہے۔ کسی شخص کے تخیلات بھی حادثاتی ہیں َجن میں اس سے متماثل ذرات جرثوموں کی شکل میں دماغ میں بھی پائے جاتے ہیں اور تخیلات کا باعث بنتے ہیں۔ سوچ وبچار سے عقیدہ بنتا ہے، نئے نئے تصورت ابھرتے ہیں۔ اس لئے تمام عقائد بھی حادثاتی ہیں۔ کسی مقام پر کسی ذرے کی ایک لمحے کی موجودگی بھی کسی تخلیق کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے تکوینیات جنم لیتی ہے۔ خدا ان حادثاتی تعقلات سے اجسام منتخب کرتا ہے اور ایک لمحے میں وہ وجود بن جاتاہے۔ اسی طرح وہ اگلے لمحے اس وجود کو ختم بھی کر سکتا ہے یا بدل سکتا ہے۔ ایسے حاثات نارمل انداز میں واقع ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ثانوی حرکات سے کوئی نئی چیز بھی جنم لے لیتی ہے۔ یہاں یاد رہے کہ ہر نیا حادثہ نئی تخلیق کرتا ہے۔ذرات کے ملاپ میں جو لمحاتی فرق پایا جاتا ہے  اس سے  الگ وجودکی تشکیل ہوتی ہے جہاں ہر ایک کی ترتیب مختلف ہو سکتی ہے۔

 

ذرات میں تبدیلی کی مثال یوں لی جا سکتی ہے جیسے ایک گیند کو جب حرکت دی جاتی ہے تو اس کی پوزیشن کے ساتھ اس کے اندر پائے جانے والے ذرات کی ترتیب ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ گیند کو زور کی ٹھوکر اس کو حرکت میں لاتی ہے جس کی رفتارمیں بتدریج فرق آتا چلا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس گیند کے اندر کے ذرات کی پوزیشن تبدیل ہو رہی ہے اور ہر بدلتے ذرات کے ساتھ نیا وجود تشکیل پا رہا ہوتا ہے۔ خدا کی ذات اپنی کائنات کے ہر ذرے کو ہر وقت نئی ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔ اس سے ہفتے کے ساتوں دن چوبیس چوبیس گھنٹے وہ ذرات کی تبدیلی سے حادثات پیدا کرکے نئی نئی تخلیقات کرتا رہتا ہے اور ہر آن نئی دنیا تخلیق ہو رہی ہوتی ہے۔ (پرلر رڈولف 2000, 28-62)۔ انہوں نے مشیت ایزدی کے اس نظریے (اوکیلزم)میں ہر لمحے نئی دنیا تخلیق کے عمل کو خدائی عمل قرار دیا اور کوئی دوسرا اس کی اہلیت نہیں رکھتا۔ تاہم انسان کو اس نے اتنی اجازت دی ہوئی ہے کہ اپنی مرضی سے کسی شئے کا انتخاب کر سکتاہے لیکن وہ انتخا ب ان اشیاء میں سے ہی کرنا ہوگا جواس کے سامنے پیش کی گئی ہوں. ٓؒالغزالی نے ابن سینا نے مشیت الٰہی کے ماڈل کو قبول کیا۔ ابن سینا کے حساب سے خدا اگراپنی کسی تخلیق میں ترمیم  واضافہ چاہتا ہے تو وہ دو جواہرکا ادغام بھی کر سکتا ہے جسے ابن سینا نے ثانوی اسباب کا نام دیا۔ خدا موثر وجوہات کا ایک سلسلہ قائم کر دیتا ہے جس میں کوئی بھی اعلیٰ و  ارفع عنصرکمزور پر غالب ہو کر کسی وجود کی تخلیق کا باعث بنتا ہے اور اپنی خصوصیات نسبتاً کمزور شئے میں منتقل کر دیتا ہے۔ابن سینا کے مطابق وجود کی تشکیل میں کم از کم تین عناصر (پہلا عنصر؛ درمیانی عنصر اور آخری عنصر)اسباب وعلل میں اہم ہوتے ہیں۔ اول عنصر ہی اس تخلیق کا ذمہ دار ہوتا ہے جو اسکاحقیقی مفہوم بناتا ہے اور باقی تماعناصر اس کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ آخری عنصرجو سلسلے کی آخری کڑی ہوتی ہے۔ ثانوی عنصراپنے خواص بنیادی وصائف میں شامل کر دیتا ہے جو مصلاحت کے بعد آخری عنصر میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ایسے مظاہر سے خدائی وجود کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ (ابن سینا  2005, 257-59, 270-73 ، ڈیوڈسن  1987, 339-40)

 

ارسطو نے اپنے نظریات میں جو نمونہ بندی کی اور مثالی اصطلاحات استعمال کیں وہ مادی دنیا کے بارے میں تھیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ آگ اور روئی کا جلنا ایک ایسا عمل ہے جو دیکھا اور دہرایا جا سکتا ہے۔ آگ لازماًروئی کو راکھ کا ڈھیر اسلئے بناتی ہے کیونکہ اس کا کام جلانا ہے  آگ نے روئی کو جلایا تھا،، جلایا ہے اور جلاتی رہے گی۔ الغزالی کے نزدیک نمونوں کے بارے میں طریق کار العشری والا موزوں ہے جس میں  ُکلام  ُکا طریقہ انہیں سمجھنے کے لئے موزوں ہے۔انہوں نے تسلیم کیا کہ خدا  خصوصی ہستی ہے جو دنیا کے بارے میں یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس وقت اشیاء کی شکل ا بنانا۔ تبدیل کرنا یا نئی تخلیق کرنا ہے۔ تخصیص کی یہ قدرت خدا کے پاس ہی ہے۔وہ متبادل حالات کو بیک وقت دو یا اس سے زیادہ واقعات سے جوڑسکتا ہے۔ اس کے مشاہدے سے اخذکیا جا سکتا ہے کہ متبادلات کے بعد نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔امکانات کا تصور اس بات کو معلوم کرتا ہے کہ کم از کم ایک متبادل میں کیا حاصل ہوتا ہے  اور یہ کہ جو شئے ناممکن ہے وہ کسی بھی قابل فہم طریقے سے حاصل ہوئی ہیں (کنوٹیلہ 1998, 145)۔ العشری کے  ُ کلام  ُ میں جو کہ تمام امکانی دنیاؤں کو جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں، میں مضمر ہے۔ تخصیص کا یہ عمل کئی حقیقی متبادل صورتوں میں سے ایک متبادل ہے۔الجوینی نے نظام الملک کے عقیدہ کے بارے میں یہ واضح کیا کہ العشری کے نزدیک کیا شئے ممکن ہے، کس لمحے کس شئے کی ضرورت پڑسکتی ہے اور ناممکنات میں کون سا عنصر ایسا ہے، بلا وجہ نہیں  اور اپنے اندر کوئی نہ کوئی معقول تصور رکھتا ہے (الجوینی 1948,8-9) ۔

 

 کسی قسم کی تخلیق  اور پیغامبری میں مصالحتی اور ثانوی اسباب بھی پئے جا سکتے ہیں۔۔ یہ ایسا تعلق ہے جو باپ اور بیٹے میں پایا جاتا ہے جہاں باپ یا ماں اکیلے اکیلے پیدائش کا ذریعہ نہیں۔اس کے علاوہ اس عمل میں کوئی دوسرا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے جو ظاہربھی ہوسکتا ہے اورمضمر بھی۔ موثرسبب وہ ہے جو نزدیک ترین پایا جائے ا ور کروں کی زنجیر کے آخری سرے پر جنت الفردوس ہو۔  وحی لانے کے تذکرے میں فرشتے  (جبرائیل) وسیلہ بنایا گیا جو درمیانی (ثانوی)کڑی ہوسکتی ہے۔ آغاز خدااور انجام نبی تک پیغام رسانی ہو۔ الغزالی ان کی اس دلیل کو رد کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کو مطلق سمجھنے کی بجائے انہوں نے واسطے پیدا کئے ہیں۔ جب کہ خدا تخلیق براہ راست کرتا ہے۔ البتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے درمیانی رستہ اختیار کیا ہو۔

 

اس مثال کو جس میں روئی آگ پکڑتی ہے تو راکھ بن جاتی ہے۔ اس طرح الغزالی اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آگ براہ راست پکڑی جا سکتی ہے۔ جو پہلے موقف کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ موقف اس شئے سے متعلق ہے کہ جب ہم اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ بجائے  ِ اسکے کہ ہم کہیں کہ فاعل (سبب) کی وجہ سے روئی جل کر خاکستر ہوگئی، اس کی وجہ یہ تھی کہ روئی کے ریشے علیحدہ علیحدہ ہوگئے تھے اس لئے جلد آگ نے پکڑلیا۔ یہ راکھ خدا کی مرضی سے ہی لگی ہے۔ آگ واسطہ ہے۔ مرضی خدا کی ہے۔ وہ واسطہ بھی بنا سکتا ہے  اور براہ راست بھی  پیدا کر سکتا ہے۔ (الغزالی  2000 a, 167)۔ ثانوی اسباب کے لئے ایک قائم دائم  با اختیار ہستی ہے۔

 

  الغزالی نے  العشری مکتبہ فکر موقع پرستی  (او کیلزم)  پر تنقید کی جنہوں نے سبب کو  روئی جلانے میں لازمی عنصر قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا   ُ اگرچہ آگ اور روئی پاس پڑے ہوں تو روئی آگ پکڑلیتی ہے اور روئی جل جاتی ہے۔جل جانے کی وجہ آگ نہیں۔ یہ آگ خود بخود نہیں لگتی بلکہ یہ خدا کے حکم سے لگتی ہے۔ جلنا اور راکھ آگ خود نہیں کرتی۔ وجہ خدا ہے نہ کہ آگ۔ خدا عقل سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے جو شئے ظاہر ہوتی ہیں ان کو عقل و دانش سے سمجھا جا سکتا ہے۔  صوابدیدی اختیار کی گنجائش نہیں۔ خدا کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ خداکسی بھی واقعے کو عمومی سطح پر اسی ترتیب سے رونما کرواتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے۔ بظاہرمتماثل اورمتشابہ اشیا، کو چننے کیلئے پوزیشن اور حالت کو مد نظر نہیں رکھتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بھوکے انسان کے سامنے خوراک ہے اور اس کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اسے دو  اوقات میں جس وقت چاہے کھا لے۔ بھوک بھی ہے، کھانا بھی سامنے ہے اور مقصد بھی بھوک مٹانا ہے۔ اصولاً وہ جب چاہے، کھا سکتا ہے۔ بظاہر اس کی صوابدید ہے کہ وہ کب کھائے لیکن وہ اس وقت ہی کھائے گا جب خدا اس کے ذہن میں ڈالے گا کہ اب کھالے تو ہی وہ اس وقت  اسے کھائے گا۔ اسی طرح کا معاملہ فلسفے کے ساتھ بھی ہے۔ نیتیں، مقاصد مشترک بھی ہوں لیکن خدا کی رضا بھی ساتھ ہو تو اس وقت ایسا عمل ممکن ہوتا ہے۔ فلسفی اپنی منطق کے مطابق  وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں قبول بھی کر سکتا ہے اور رد بھی۔ بظاہر یہ اس کی صوابدید ہے کہ جس طرح چاہے، جس وقت چاہے وہ دلائل دے سکتا ہے لیکن یہ خدا ہے جو اسے موقع کی نسبت سے اسکے ذہن میں جو بات ڈالتا ہے وہ وہی کرتا ہے۔ وقت کا تصورغیر اہم ہو جاتا ہے۔ ( واکر 1993اور  ڈی سمٹ 1995)

 

دوسرے موقف میں الغزالی نے ابن سینا کی ثانوی وجوہات کو اس لحاظ سے شامل کر دیا تھا کیونکہ فطری تقاضوں کے مطابق جب اشیاء  آگے بڑھتی ہیں اور اپنی مرضی سے ممکنہ اعمال میں سے کسی کو منتخب کرتا ہے اور کوئی موثر وجہ بھی نہیں ہوتی تو اسوقت اس کی ثانوی وجہ خدا ہے۔

ٓؓ ابن سینا جو ثانوی موقف کے خلاف تھے،کہتے ہیں کہ ثانوی وجوہ کے علاوہ مزید بھی یہ واضح ہے کہ اسباب و علل کے مابین تعلق  قدرتی

ضرورت کے ساتھ منسلک ہے جو کہ وجود اول میں پایا جاتا ہے۔ وہ خدا کی رضامندی اور انتخاب سے تخلیق نہیں کئے جاتے بلکہ خدا کے ا س فلسفے کی جس میں لزومی وجوہات (نیسیسری  ٹیریین  اونٹالوجی) وجود کی ضروریات کے نظریے پر تنقید کرتے ہیں نہ کہ اس نکتے کی جو ابن سینا نے ثانوی اسباب کی تشریح بیان کی ہے۔ ان کے درمیان علمی تنازعہ اس نکتے پر ہے جو وہ خدا کی تخلیق میں فطرت کے بارے میں ہے۔ کوکو نین (2000)  اور ڈیوٹن (2001) نے واضح کیا کہ یہ دونوں علماء تخلیق  میں ُ  ضرورت  ُ کے بارے میں قائم مفروضوں کو مبالغہ اندازمیں لیتے ہیں۔الغزالی نے یونانی اور مادیت پسند فلسفے کے عمیق مطالعے کے بعد بیان کیا کہ ان کے طریق کار اور منطق میں غیر مطابقت پائی جاتی تھی،ان کے فلسفے پر اعتراضات درج ذیل ہیں۔

 

 تہافت الفلسفہ ا ور فلسفے پر اعتراضات

 

الغزالی نے  اپنی کتاب تہافت الفلسفہ  میں فلسفے میں بییس ایسے نکات پیش کئے جن کے تصورات میں غیر مطا بقت پائی جاتی تھی جو درج ہیں۔

(iیہ تصور کہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے

(ii کائنات کی تخلیق کے بعد مستقل ہی رہے گی۔

(iii کیا خدا کائنات کا خالق ہے  یا کائنات نے خدا تخلیق کیا ہے۔

(ivفلسفے کی خدا کے وجود ثابت کرنے میں ناکامی۔

(v فلسفے کے مطابق اگر دو خدا موجود ہیں توا اس بات کو ثابت کرنے میں ناکامی۔

(vi فلسفے کے اس عقیدے کو کہ خدائی صفات مفروضے ہیں ِ، پر اختلاف۔

 (vii فلسفے کے  ُ ا صول اول  ُ  کے بارے میں یہ بیان کہ اس کی کوئی حیثیت اور وجود نہیں۔

(viiiفلسفے کے اس بیان سے اختلاف کہ پہلی تخلیق آسان اور سادہ ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا کہ کہ کسی خصوصی وجہ سے اس کی تخلیق کی گئی ہے  (کیوو ڈیٹی)۔

(ixاس بات کو ثابت کرنے میں ناکامی کہ  ُ کسی پہلی شئے یعنی  اول  ُ کا کوئی وجود نہیں۔

(xخالق کی مادی اشیاء کی تخلیق کے بارے میں یہ بیان کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی ضرورت ہی پیدا کی گئی ہوں۔

(xi فلسفے کے اس بیان کہ  اول وجود  اپنی ذات بارے میں پوری معلومات رکھتا ہے، ثابت کرنے میں ناکامی۔

(xiiفلسفے کے اس بیان کہ اول ہر ایک شئے کے بارے میں پوری معلومات رکھتا ہے،  ثابت کرنے میں ناکامی۔

(xiiiفلسفے کے اس بیان پر کہ اول  میں  یہ لیاقت نہیں پائی جاتی کہ خصوصی معلومات نہیں رکھتا،  ثابت کرنے میں ناکامی۔

(xivفلسفے کا یہ تصور کہ جنتیں خود مختار جانورو کی مانند ہیں جو اپنی مرضی سے حرکت پذیر ہوتی ہیں۔

(xvفلسفے کے وہ دلائل جو وہ جنتوں کی ارادی حرکات کے بارے میں دیتے ہیں ، کو ثابت کرنے میں ناکامی۔

(xviفلسفے کے اس دعوے کی نفی کہ جنتیں اصل میں روحیں ہیں جو خصوصی حقائق جانتی ہیں۔

(xviiفلسفے کے اس عقیدے سے انکار کہ مظاہرہمیشہ اسباب و علل  کے اصول کے تحت  ہی واقع ہوتے ہیں اور ان میں خلل پیدا ہو جائے یا کوئی واقعہ اسباب و علل کے اصول کے بغیر بھی واقع ہو سکتا ہے، سے انکار۔ 

(xviiiفلسفے کے اس بیان سے انکار کہ انسانی روح کا نہ تو کوئی وجود ہے اور نہ ہی یہ کسی حادثے کی پیداوار ہے بلکہ نسانی روح خود کو برقرار رکنے والا جوہر ہے۔

(xixفلسفے کے اس مفروضے سے انکار کہ انسانی روح کا فانی ہونا ناممکن ہے۔

(xxفلسفے کی اس بات سے انکار کہ موت کے بعد دوبارہ مادی جسم میں پیدا کرکے دوزخ اور جنت میں بھیج کر سزا جزا دی جائے گی۔

 

الغزالی یورپی فلسفے کے مطالعے میں  ثابت کیا کہ موضوعات کے مباحثے میں ان کے اپنے دلائل ابہام پیدا کرتے تھے۔ ان کے اپنے بیان علمی انتشار پیدا کرتے تھے۔انہوں نے جس انداز میں مسئلے کو ثابت کیا یا ٹھکرایا ان کی منطق ہی صحیح نہیں تھی۔ وہ لکیر کے فقیر اور تقلید پسند تھے۔ ان کے نزدیک منطق کے ساتھ مشاہدات اور استدلال لازمی ہوں تو ہی معاملے کہ تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے(گریفل2005)۔لغزالی

 اگرچہ مسلم فلسفے کوجو شریعہ کے مطابق تھے،  مانتے تھے لیکن یونانی فلسفے پر جو توحید پرست نہیں تھے،سے اختلافات تھے۔ ان کے نزدیک وہ گمراہ تھے۔ ان کی منطق صحیح نہیں تھی۔

 

الغزالی نے فلسفے پر اعتراضات   ُ تہافت الفلسفہ  ُ میں اٹھائے۔یقیناً آگ کی فطرت جلانا ہے۔ اسے روئی کو جلانا ہی چاہئے۔ یہ عمل حقیقی دنیا کے مقابل ہے۔ اور اس کے بر عکس سوچ حقیقت کے خلاف۔تا ہم کسی بھی مظہر میں کسی ایک سبب کے تبدیل ہونے سے ربط اور تعلق تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود ایسی دنیا ہمارے اذہان میں قابل فہم رہے گی جس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری دنیا ایک ممکن دنیا ہے اور اس نے متبادل دنیا تخلیق نہیں کیاور نہ ہی انتخاب کیا ہے۔

 

 

 الغزالی نے ستارہویں اعتراض میں بحث کے دوران (یعنی اسباب وعلل کے بغیر کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا) کے بارے میں کہا کہ واقعات ان کے بغیر بھی رونما ہوتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی صوفیاء اور انبیاء کے ذریعے ہوتے رہیں گے۔ تمام پیغمبرانہ معجزات جو قرآن میں بیان کئے گئے ہیں، ثابت شدہ ہیں اور ان میں اسباب و علل میں کوئی رابطہ نہیں پایا گیا۔ اس لئے یہ نکتہ کہ ہر مظہر میں علت اور معلول میںلازماًتعلق پایا جانا چاہئیے، کی منطق صحیح نہیں۔ اس طرح ٰیہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم فلسفی جو معجزات کو صحیح مانتے ہیں وہ، وحی ور الہام کو بھی سچ مانتے ہیں۔

 

ان چاروں کتب میں الغزالی نے فلسفے کو رد نہیں کیا جیسا کہ عام خیال ہے۔ ان کو صرف ابن سینا کے مابعد از طبیعیات کے نظریے سے اختلاف تھا۔  طبیعیات، منطق، علم نجوم، ریاضی  میں انہیں اعتراض نہیں تھے۔ الغزالی نے  اپنی کتاب  ُ التہا فت الفلسفہ  ُ  میں یونانی فلسفے کو بڑے منظم انداز  میں سلیقے سے بیان کیا  اور صحیح طور پر مسائل کی نشاندہی کی۔انہوں نے فلسفے پر جو بیس اعتراضات اٹھائے ان میں سولہ کا تعلق مابعد از طبیعیات کے موضوع کی تفصیل بیان کرنے کے ساتھ تھا جبکہ چار کا تعلق مادی اشیاء اور طبعی علوم  کے ساتھ تھا۔  ان کے نزدیک وہ اسلام کے خلاف جاتے تھے۔ شریعہ کو جھٹلاتے تھے۔ ان گمراکن منطق کے باوجود اسلام کو ناقابل تلافی نقصان نہیں پہنچتا۔کیونکہ وہ بدعت کے ذمرے میں آتے ہیں۔ستارہواں اعتراض اسباب و علل کے مابین تعلق کی تشریح کے ساتھ تھاجس میں بو علی سینا  ا ور  الفارابی نے تخلیق کے ازلی ہونے یا نہ ہونے کا دیا۔الغزالی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ان کا یہ نظریہ کسی طرح ثابت کیاجا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ  ارسطو کا فلسفہ تھا جسے بوعلی سینانے بلاتردد قبول کرکے آگے بڑھایا۔ کہی یورپی فلسفیوں نے اسیقبول نہ کیا جن میں فلوطونیس بھی شامل ہے۔

 

فلسفے  کے جن تین نقاط پر الغزالی کو سب سے زیادہ اعتراض  تھا،  درج ہیں۔

 

1)  دنیا کی تخلیق سے پہلے کا دور۔ خدا نے دنیا کی تخلیق ایسے ہی کی جس طرح اس نے دیگر اشیاء تخلیق کی تھیں۔ وقت کاوجو دبھی فانی ہے۔ وہ آتا ہے، چلا جاتا ہے لیکن خدا لافانی ہے کا تنازعہ۔ کائنات کی تخلیق کے وقت کا تعین ممکن نہیں اور نہ ہی وقت پر پیدا کی گئی ہے۔

(2  صرف خدا ہی ہر شئے کی تفصیلات جانتا ہے۔ خصوصاٍ ًافلاطونی  فلسفے کا تنازعہ۔خدائی علم میں صرف خلقت کا صرف ایک طبقہ شامل ہے اور انفرادی وجود میں وسعت حالات کے مطابق د ی گئی ہے۔

3)  روز آخر میں جب دوبارہ تخلیق کی جائے گی تو روحیں پیدا کی جائیں گی، طبعی اجسام نہیں ِ کا تنازعہ۔موت کے بعد روحیں دوبارہ کبھی بھی جسم میں واپس نہیں آئیں گی ،کا فلسفہ۔

 

مندرجہ بالا تینوں نکات اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ جن کی بنیاد الہام اور وحی ہے۔وہ تینوں نکات غلط ہیں۔ یہ شریعہ کے بھی خلاف ہیں اور معاشرے کے لئے سخت نقصان دہ ہیں۔ (گریفل 2000, 301-3)۔ الغزالی نے فتویٰ دیا کہ وہ لوگ جو ان تین نکات کو مانتے اور پرچار کرتے ہیں وہ کافر، مرتد، اور واجب القتل ہیں َ( الغزالی 2000-   9,226)۔ انہوں نے فلسفے کی تحریک کو مذہبی احکات کے مطابق لانے کی کوشش کی۔ انہیں اس انداز میں واضح کیا جو شرعی طور پر قابل قبول ہوں۔  

 

الغزالی الفارابی کے اس نظریے  کی تائید کرتے ہیں جس میں انہوں  نے مابعد از طبیعیات  میں خدا اور روح کے بارے میں دیا۔  کہا کہ کہ دنیا کا  وجود ازل سے نہیں تھا اور جرم فلکی کے دائرے (سیلیسشیئل سفیئرز) بعد میں بنے۔ ان کا یہ نظریہ عیسائی فلسفیوں میں بھی مقبول ہے۔الغزالی اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ کوئی خدا جو کہ اسلام میں قابل قبول، کو یہ جاننا چاہئے کہ دنیا میں روز مرہ کیا ہو رہا ہے۔ جبکہ ابن رشد کا  خیال اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر تسلیم کرلیا جائے تو خدا کی ہستی عام انسانوں جیسی ہوجائے گی  اور اسے یہ علم مہیا کرے گی کہ اسکی عظمت کا انحطاط کا شکار ہے۔ خدا ئی علم لا محدود، ارفع و اعلیٰ اور منفرد ہے۔ اسے دنیاوی علم او ر کسی شئے ی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سب فانی ہیں۔ خدا خالق ہے اور و ہ کائنات کے بارے میں مکمل اور کامل معلومات رکھتا ہے۔ ایسے  وصائف کسی اور میں نہیں پائے  جاتے۔  بین الاقوامی اور تجریدی اشیا کے بارے میں بہترین معلوما  ت خدا کے پا  س  ہی ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔

 

 بوعلی سینا اس بارے میں جو تجزیہ کرتے ہیں۔ ( اس بات سے تاسف نہیں ہے کہ جیسا کہ یہ واقع ہوتا ہے)  اس کے تحت اس کا وجود  کاقابل شناخت ہے۔ اس کے وجود میں ایک اہم سمت خود میں اس کی اپنی ہستی ہوتی ہے۔ جوخارج و باطن  میں ربط اور تعلق میں لازمی عنصر شمار کی جاتی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس عمل میں اپنی  ذات خود میں  اجارہ واری قائم کرے۔ اپنی ذات ہر ایک شئے  ماسوائے اول اصول (فرسٹ پرنسپل) کے لازماً پائی جاتی ہے۔ انکے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ اس وجود کی جہتیں جو ضرورت، تشکیل، وصائف ِ، امکانات، دیگر اشیاء اور روابط وغیرہ میں معاونت کرتی ہیں کے مابین امتیازات کرنا بہت  پیچیدہ عمل ہے۔ ہستی اور شئے کے بنیادی طور پر اگر ایک طرف ان کا   ُ اولین اصول  ُ وجود کی تفہیم میں ایک طرف تو وہ  ماورائی اشیاء کی اہمیت اور موجودگی کی اہمیت بیان کرنے پر زور دیتا ہے اور دوسری طرف وہ دنیا میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وجود ہمیشہ کسی شئے کی ہستی میں پایا جاتا ہے، اس لئے وجودیت کے بارے میں تصورات (جو کہ الحاد اور ضرورت ہے)، اگرچہ یہ الگ خواص کی بنا پرشئے سے علیحدہ ہیں لیکن کبھی بھی ان سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ 

 

الغزالی نے فلسفے پر یہ اعتراض بھی کیا کہ فلسفہ بنی نوع انسان کی زندگی میں طبعی قیامت، جسمانی سزا و جزا نہیں دیتا  اور اگر اسکا ذکر کیابھی ہے وہ مرنے کے بعد کاہے۔ یہ اعتراض کرتے وقت الغزالی کے ذہن میں  ُ  بعد از موت  ُ کا  ارسطو کا  فلسفہ تھا۔ جس میں اس نے کہاتھا کہ انسان کو اس کے اعمال کی سزا مرنے کے بعد ملے گی۔ الغزالی کے مطابق انسان کا وجود روح کے بغیر ممکن نہیں لیکن روح لافانی ہے۔ روح زندہ جسم میں بھی ہے اور بعد میں بھی رہتی ہے۔ وہ لافانی ہے۔ وہ ناقابل تقسیم ہے۔ وہ وجود کا ایک لازمی عنصر تو ہے لیکن یہ پہلو ہے۔فلسفے میں اس بات کا کوئی تصور نہیں کہ موت کے بعد کوئی مادہ ہے۔ ہم صرف زندگی کی بات کر رہا ہے۔ انسانی وجود کی اہمیت اس وقت تک ہی ہے  جب تک اس کے مادی جسم میں روح ہے۔ اگر اس کے جسم سے روح پرواز کر جائے تو انسان کا تصور ہی باقی نہیں رہتا۔ اس لئے فلسفے کی یہ دلیل ناقص ہے۔ابن رشدا ن کی اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جوں جوں کوئی انسان غیر فانی اور سدا بہار علم تک رسائی کرتا رہے گا ، توں توں اسے ماورائی اور آفاقی علوم پر دسترس حاصل ہوتی جائے گی۔ تجریدی معاملات کو سمجھنے کی قدرت حاصل ہوتی رہے گی۔ وہ ان  روحانی علوم میں زیادہ سے زیادہ جاننے لگے گا۔ جب وہ ان علوم کو عقلی سطح پر لا کر یاد داشت میں محفوظ کر لے گا تو اسے رسمی طور پر حقیقی ڈھانچے میں ڈھال لیتے ہیں تو اس وقت ہمیں حقیقتاًکسی شئے کے جاننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ انکے نزدیک ہمیں اشیاء کے بارے میں علم حاصل کرنے کا تعلق بالکل اس طرح ہے کہ ہم اہنی ذات اور اپنے جسم کے مادی خواص کو کسی بھی شئے کے  ایسے بنیادی عواقب جن کا تعلق موت کے ساتھ نہ ہو، ہو جاتا ہے۔ ایسی اشیاء مخصوص ہوتی ہیں جبکہ فرد نہیں۔ ایسی چیزیں جو زمانی اورخصوصی ہوں، فانی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ ان خصوصی نسل کے رکن ہونے کی حیثیت سے لا فانی ہیں اور ہماری نسل مستقل ہے۔ اس طرح پوری کی پوری نسل مکمل طورپر فنا ہونے سے بچ جاتی ہے۔

 

الغزالی کی  ُ موت اور بعد از موت  ُ کی تنقید  سے مذہبی روایات کو ضرب کاری لگی کیونکہ یہ اس سے بھی زیادہ بناموافق بات یہ ہے کہ   ابن رشد اس موضوع کو سیاسی  تصور حیات بعد از موت کا تصور عام لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں،  اس پوزیشن سے زیادہ باطل ہے جو الغزالی پیش کرتے ہیں کیونکہ سزا جزا کا تعلق  محرکات سے ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایسے تصور کا دور دور تک امکان نہیں َ۔ یہ  دلیل صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دی گئی ہے۔

 

الغزالی بوعلی سینا کا روح  النفس کی تخلیق (تھیوری آف ایمے نیشن) کے قائل تھے۔ بوعلی سینا  اشیاء کو  وجود اور روح میں تقسیم کرتے ہیں  جن کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور جو واقعی حقیقتاً  ان اشیا ء میں جو دوسروں کی بدولت ضروری ہے اور انپے اندر ایسی بات حقیقت یا  ایسی  اشیاء جو کہ مادیت پر زور دیتی ہیں ابن رشد کے لئے اہم ہیں اور ارسطو کے فلسفے کو تسلیم کرتی ہیں۔ اس کیلئے دنیا  ایک ماڈل ہے اور فطرت ایک شئے ہے جس میں انسانی تفہیم اور تحقیق و تفتیش میں ایسی مزاحمت نہیں جو ناقابل عمل ہو۔

 

ابن رشد یہ تجویز دیتے ہیں کہ اگرچہ کسی شئے کا وجود اور روح  میں منطقی امتیاز معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے تعلق میں تا ہم پھر بھی  وجود اور روح میں ایک لازم تعلق پایا جاتا ہے۔ ایسا تعلق تمام اشیاء میں جہاں وجود اورروح کے ساتھ واقع ہو رہی ہوں، میں قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح وجود اور روح کی اشراح کیسے ہوئی، کے بے رنگ تجزیے کے تحت واقع ہوتی ہیں  جس کو ابن رشد نے سنجیدگی سے فلسفی کی نوعیت اور ماہئیت کو غیر مناسب تشریح کہا۔ ان کے نزدیک ایک شئے  کے نام کے معانی اور فلسفی کی زبان کی یہ ایک بنیادی غلطی ہے کہ روح  اور وجود مانوسیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس طرح اس سے منسلک ہے جس میں یہ بے رنگ اور غیر سود مند تجزیہ ہوتا ہے۔(ایگزسٹینس میننگ ان اسلامک فلاسفی)۔

 

الغزالی نے ابن رشد کی اس دلیل کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ وجود میں وجود اور روح میں تعلق ختم ہو نے کا بھی قیافہ لگایا جا سکتا ہے۔ عام بول چال اور مقامی گفتگو میں فلسفے کی وضاحت کی جائے تو یکساں معانی  نکلیں گے اور صحیح  ابلاغ ہوگا۔ الغزالی  اس بات کوجواز بنا کر ہتے ہیں کہ خدا اور اسلامی تعلیمات میں تفسیر کرتے وقت نہائت محتاط سے الفاظکا انتخاب کیا جائے تاکہ وہ عام لوگوں کو صحیح سمجھ آئے۔ ایسے الفاظ کا چناؤ کیا جائے جن کے معانی مختلف تناظر میں بھی یکساں رہیں۔  امام غزالی کے نز دیک تجریدی اصطلاحات کا تعلق خارجی دنیا کے حوالے سے بالکل خود مختار اور آزاد ہوتے ہیں۔ ان کا  ایسی تصاویر  یا تمثالوں کے سلاسل کے ذریعے اظہار کیا جائے تو خصوصی وضاحت میں مدد ملے گی۔ خدا کو ماننا اور ان معجزوں کو جو  بغیر ظاہری  وجود کے تخلیق ہوتے ہیں کو دلائل کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کو تخیل میں لانا اتنا مشکل نہیں۔ ابن رشد ان کے برعکس جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسا فریم ورک جس میں دنیا مختلف انداز میں رہتی ہے، تخیلات کے سلاسل کو اپنے حواس میں لانا ہی کافی نہیں۔

 

کسی بھی موقعہ پر الغزالی یہ نہیں بتاتے کہ اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے۔یہ کہاں سے شروع ہوئی اس کی فلسفیانہ اساس کیا ہے۔انہوں نے از خود یہ طے کرلیا کہ فلسفے میں اخلاقیات اور صوفی ازم میں گہری نسبت پائی جاتی ہے جس میں زاہدانہ اور پاک طرزحیات کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ احیائے علوم میں انہوں نے لکھا کہ ان دونوں روایات میں ایک کامیاب ملاپ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی سوانعمری میں لکھا کہ فلسفہ دانوں اور صوفیوں کیاخلاقیات میں مکمل ہم آہنگی اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ وہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اس موقف سے مطابقت رکھتے ہوئے کئی تعلیمات اورفلسفہ کے دلائل ان تحریروں سے لئے گئے ہیں جو انہوں نے صوفیائے کرام کی طرف سے پہلے کی طرف سے پہلے سے کی گئی۔ وحی اور ربانی الہام بصیرت کی بنا پر لکھیں۔ تمام قبل از اسلام کے دور میں پائی جاتی تھیں۔(ٹریگر 20ش

12-99-101 )۔وہ اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلسفے سے کی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ صوفیوں کا اپنا اپنا الگ ہی مذہب تھا۔

 

امام الغزالی کی ایک عظیم خدمت احیائے علوم کی تصنیف ہے۔

 

 

 

Popular posts from this blog