گل داوٓدی کی مہک Odour of Chrysanthemums ..... D.H.wrence (1885-1930) UK










گل داؤی کی مہک


Odour  of    Chrysanthemums 
                 
             
D.H.Lawrence  (1885-1930) 
UK 


            تلخیص و تجزیہ:  پروفیسرغلام محی الدین (کینیڈا)
                                                                        
تعارف

            نوٹنگھم شائر کاؤنٹی 1870  میں کوئلے کی کانوں کے لئے مشہور تھا۔ اس علاقے میں کئی مقامات سے کوئلہ نکالا جا رہاتھا۔ سڑکوں اور ریل گاڑیوں کی پٹڑیوں کا جال بچھا دیا گیا تھا جنہیں بندرگاہوں  سے منسلک کر دیا گیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے انجنوں اور ٹرکوں کی پارکنگ کے اڈے قائم کر دیئے گئے تھے جو ملکی اور غیر ملکی باربرداری کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ان میں ایک کان ایک گاؤں برنسلی کولری کے گاؤں میں بھی تھی جو ایسٹ وڈ  اور انڈروڈ کے درمیان واقع تھا۔یہ علاقہ زرخیز تھا۔ دریاؤں، آبشاروں، چشموں،ندی نالوں، باغات، جنگلات وغیرہ سے بھرپور تھا لیکن کوئلے کی دریافت نے اس کی خوبصورتی کو گہنا دیا تھا۔گاؤں کاا زیادہ تر حصہ کوئلہ نکالنے کے لئے کھڈوں اور سرنگوں سے کھدا پڑا تھا۔  بارشوں، زلزلوں، آتش فشاں پہاڑوں کے لاوا اگلنے کی وجہ سے زمین کی مختلف سطحیں بن گئی تھیں۔  اور ہر سطح  پر کوئلہ تھا۔جو کہ چٹان کی مانند سخت تھی۔ ان دنوں اس کان کے پچیس مقامات سے کوئلہ نکالا جا رہا تھاہر مقام پر الگ الگ سرنگ کھودی گئی تھی اور ان کو چھوٹے چھوٹے اڈوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا جہاں مزدور کوئلے کی  چٹانوں کو ہتھوڑوں کی مدد سے کھودتے تھے۔اور ان زیر زمین اڈوں تک پہنچنے کے لئے زمین کے باہر  شافٹ  لگا دئے گئے تھے۔جو چرخی اور فولاد ی زنجیروں سے  سرنگ تک سامان اور مزدور وں کو ڈھوتے تھے اور اڈوں پر جن میں کچھ تو چار مربع فٹ تک ہوتے  تھے ایک یا دو دو مزدور چٹانیں بھاری ہتھوڑوں سے  توڑتے تھے۔ہر چٹان تین طرف سے مکمل طور پر بند اوپر چھت ہوتی تھی وہ صرف  ایک طرف سے ہی کھلی ہوتی تھی۔ اڈے پر گھپ اندھیرا  ہونے کے باعث مزدور روشنی کے لئے سرپر ہیٹ کے ساتھ ڈیوی لیمپ پہنتے تھے۔ سرنگیں ساڑھے چار سو فٹ تک گہری کھودی ہوئی تھیں۔ اور ہر اڈے پر شافٹ کے ذریعے تازہ ہوا فراہم کی جاتی تھی۔
            حادثات عام تھے۔چٹان توڑتے وقت قریبی تہہ والی چٹان  ٹوٹ کر گر پڑتی تھی اور مزدوروں کو زخمی یا کچل دیتی تھی۔چھوٹے علاقے پر تازہ آکسیجن فراہم کرنے کے ساتھ ہاتھ سے اوپر نیچے لے جانے کے لئے  لفٹ بھی نصب تھیں ۔ایک کیبن جس میں ایک وقت میں چھ افراد یا اتنا سامان اوپر اور نیچے لایا جا سکتا تھا۔ اوائل میں تو مزدور لیور سے چرخی سے فولادی زنجیر کے ذریعے  انہیں لاتے لے جاتے تھے۔ بعد میں یہ کام مشینوں کے ذریعے ہونے لگا۔روزانہ پانچ سو ٹن تک کوئلہ نکالا جا رہا تھا۔ کیبن سے آمدورفت کا شور اٹھتا رہتا تھا۔جن دنوں کا واقعہ ہے اس وقت تین سو اکسٹھ مزدور اس کان پر کام کر رہے تھے جس میں دو سو بیاسی کوئلے کے مختلف کھڈوں اورسطحوں پر کام کر رہے تھے۔ان سرنگوں میں شافٹ کے ذریعے آوا جاوی جاری رہتی تھی۔شافٹ، ٹرکوں کا اڈا اور ریل کا گیراج ایسٹ وڈ علاقے کی سیلسٹن پہاڑی پرقائم کئے گئے تھے۔ وہاں چھوٹے چھوٹے کوئلے سے چلنے والے انجن اور ٹرک پارک کئے گئے تھے۔وہ علاقہ زر خیز تھا اس لئے جو علاقہ کھدائیوں سے بچ گیا تھا وہاں اب بھی سبزہ زار تھا۔
            اب وہ کان بند ہو چکی ہے۔ تمام کوئلہ نکالا جا چکا ہے۔اور حکومت نے اس علاقے کو ایک خوبصورت تفریحی مقام میں بدل دیا ہے۔ وہاں ایک عظیم الشان گرجا گھر اور اس سے ملحقہ قبرستان بنا دیا ہے جہاں ان کان کنوں کی قبریں ہیں۔ ان کے وارث  اور بہی خواہ اپنے  عزیزوں اوربزرگوں کی قبروں پر ان کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے لئے حاضری دینے آتے ہیں۔

کہانی کاخلاصہ

             یہ کہانی  ایک کان کن خاندان کی ہے جو سیلسٹن کے نزدیکی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے اڈوں کے نشیبی علاقے میں دیگر مزدوروں کے گھروندے اور درختوں کے جھنڈ اور گھاس پھوس کی قد رتی باڑیں،  جھاڑیاں،پھول، بید کے درخت، دلدل اور چشمے واقع تھے۔ اسی سمت چند منٹ کی دوری پر انڈر وڈ کی طرف پرنس آف ویلز مارکیٹ تھی جہاں رات بھر موسم کی نسبت سے گرمی سردی اور روشنی رہتی تھی تھی۔ ہر طرح کی دوکانیں موجود تھیں۔
             سہ پہر کے بعد ایک چھوٹا انجن دھواں چھوڑ تے ہوئے سیلسٹن کی جانب بڑھنے لگا۔سات بوگیاں بڑی اداسے خمار میں جھومتی،ڈگمگاتی ہوئی اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔انجن کی رفتارآہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی اور اس بات کا  پورا اندیشہ تھا کہ جب وہ نکڑ کے موڑ پر دائرے سے اندر داخل ہوں گی تو ایک سرپٹ گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگنے لگیں گی۔ جب وہ  ایک طرف لگی ہوئی باڑ، گھاس پھوس، شاہ بلوط کے درختوں اور باڑ کے قریب آنے لگی تو ایک خاتون جو پٹڑی کے ساتھ ساتھ پیدل انڈرووڈ جا رہی تھی،نے اپنی گٹھڑی ایک طرف رکھی  اور باڑکے ساتھ لگ کر اس کے گزرنے کا انتظارکرنے لگی۔انجن  اور بوگیا ں آگے بڑھیں  تو وہ دبک گئی اور باڑ اور انجن کے مابین سینڈوچ بن گئی۔اس نے دیکھا کہ شاہ بلوط،اور جھاڑیوں سے سوکھے پتے  اڑ اڑ کر سرسراہٹ کئے بغیر پٹڑ یوں پر پڑرہے تھے۔شوخ رنگ پرندے اپنے قرمزی اور گہرے سرخ رنگوں کے سا تھ ٹھمک ٹھمک کر چلتے ہوئے قریبی جھاڑی کی طرف جانے لگے۔ انجن اور بوگیاں ایک ایک کر کے اس کے بالکل قریب سے گزر یں اور اس سے چند گز آگے جا کر رک گئیں۔ان کے رکنے کے بعد وہ خاتون گٹھڑی اٹھا کر انڈروڈ کی جانب چل پڑی۔
            سیلسٹن سے شافٹ سے آمدورفت کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں۔مزدوروں کی چھٹی کا وقت ہو گیا تھا اور ٹولیوں کی ٹولیاں سرنگوں سے بھر بھر کرلائی جا رہی تھیں۔تھکے ماندے بوجھل قدم قطار اندر قطار اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہے تھے۔ایک خاتون اپنے گھرندوے کی تین سیڑھیاں اتر کر دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ اس گھر پر انگوروں کی بیل چڑھی ہوئی تھی جو نیچے سے چھت تک جاتی تھی۔ ان کی اینٹوں سے چنی گئی دیوار کے باہر چھوٹا سا صحن تھا جس میں موسمی جنگلی گلاب اور گل داؤدی کے پھول تھے۔ اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک باغ تھا جس میں جنگلی پھلوں کے سیب، رس بھری  بیروں، بلیو بیری کے درخت تھے۔ بے ترتیبی سے گلاب،گلے سڑے ہوئے گلابی، عنابی، سرخ، بادامی، زرد اور بھورے رنگ کے گل داؤدی کے پھول بھی تھے جو ایسا نظارہ پیش کر رہے تھے جیسے ٹہنیوں پر رنگ برنگے کپڑے لٹکے ہوئے ہوں۔ تھوڑا آگے  ایک چشمہ تھا۔ علاوہ ازیں وہاں دلدل میں اگے ہوئے بید کے درخت، گھاس پھونس ا و ر اجاڑ کھیت بھی پائے جاتے تھے۔کان کنی سے پہلے وہاں باقاعدہ کاشت کی جاتی رہی ہوگی۔
            خاتون اونچی لمبی تھی۔ چہرے بشرے سے سخت گیر اور خود سر لگتی تھی۔اس کے ابرو کالے تھے۔اس نے اپنے بال سلجھائے ہوئے تھے۔ اس نے کپڑوں کے اوپر ایپرن پہنا ہوا تھا جس پر تنکے و غیرہ پڑے ہوئے تھے۔ ایپرن سے پیٹ باہر نکلا ہواتھا ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ امید سے تھی۔ اس نے ایپرن پر پڑے تنکوں کو جھاڑا۔وہ کھڑی ہوئی مزدوروں کو جاتی ہوئی دیکھتی رہی جواپنے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد ریل پٹڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔اس نے دسمبر کی سردی کے لحاظ سے اپنا تن ڈھانپا ہوا تھا۔
            وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باغ کے درمیان تک آئی۔اس کے بعد وہ آگے بڑھی اور ندی کی طرف بڑھ گئی۔اس نے آواز لگائی۔  تم کہاں ہو؟
            میں یہاں ہوں۔ایک بچے کی جھاڑیوں سے آواز آئی۔خاتون نے گہری نظروں سے دھندلکے میں اس جھاڑ ی کی طرف دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی۔
            کیا تم چشمے کے پاس ہو؟
            بچے نے خود کو رس بھری بیریوں کے درخت کے پیچھے سے جھانکا جس کی شاخیں بید کی طرح اکڑی ہوئی تھیں۔ ایک پانچ سالہ گٹھے ہوئے جسم کا ایک لڑکا باہرنکلااور اکڑ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
            اوہ!میں سمجھی تھی کہ تم چشمے پر گئے ہو گے۔میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ یہاں نہ کھیلنا ۔
            لڑکے نے اس کی بات کا جواب نہ دیا۔
            آؤ۔تاریکی ہو رہی ہے۔اب آجاؤ۔اندھیرا ہو رہا ہے۔
            بچہ ناراضگی سے آہستہ آہستہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے ڈھیلے ڈھالے موٹے کھردرے کپڑے پہنے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی بالغ کے تھے جنہیں چھوٹا کر کے اسے پہنا دیا گیا تھا۔وہ دھیرے دھیرے سے گھر کی طرف  بڑھنے لگے۔لڑکے نے باغ سے گلے سڑے ہوئے گل داؤدی  توڑے اور اس کی پتیاں الگ الگ کر کے زمین پرپھینکنا شروع کر دیا۔
             ایسا مت کرو۔اسے  ایسا کرنا اچھا نہیں لگا۔
            لڑکے نے سنی ان سنی کر دی۔
            خاتون نے زرد رنگ کے گل داؤدی کی ایک ٹہنی توڑی اور اپنے ہاتھ میں پکڑ لی۔ اس نے اس پھول کی ٹہنی کو اپنے ناک کے سامنے کر کے سونگھا اور پھینکنے کی بجائے اپنے  ایپرن کے بٹن کے کاج میں  ٹانک دی۔
            خاتون مسز الزبتھ بیٹس اور لڑکا جان بیٹس تھا۔
            سورج ڈوب رہا تھامسز بیٹس جاتے ہوئے مزدوروں کو دیکھنے لگی۔ وہ  ان میں اپنے میاں کو تلاش کر رہی تھی کیونکہ اس کو بھی چھٹی ہو گئی تھی لیکن ان میں وہ نظر نہ آیا۔ مدھم روشنی اور تھکے ماندے لوگ ایسے بے بس  مزدور مردہ دلی سے جا رہے تھے۔وہ اپنی زندگی کا بوجھ مجبوری سے اٹھا رہے تھے۔  ان کے حلئے بشرے سے لگتا تھا کہ وہ تنہائی کا شکار تھے۔ ایک دوسرے سے بیگانہ تھے۔کسی کا دوسرے سے کوئی سروکار نہ تھا۔کوئلے کی دھوڑ سے  اٹے ہوئے چہروں پر کالک  سے ایسا لگ رہاتھا جیسے انہوں نے اپنے چہروں اور جسموں پر  ٹیٹو (گودے کا نشان) بنائے ہوئے ہوں۔اتنے میں انہیں ایک چھوٹا انجن اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔
             لگتا ہے تمہارے نانا آرہے ہیں۔وہ انجن عین ان کے سامنے آ کر رک گیا۔انجن میں چھوٹے قد کا ایک شخص اسے چلا رہا تھا۔اس کی داڑھی خشخشی تھی۔ڈرائیور کی سیٹ کافی اونچی تھی۔اس نے سیٹ سے باہر جھانکا اور مسکراتے ہوئے  خاتون کو ہیلو کہا اور چہکتے ہوئے کہا کیا  اسے   چائے مل سکتی ہے؟
            یہ ڈرایؤر اس خاتون کا والد تھا۔
             میں اتوار کو تمہیں ملنے نہیں آسکا۔اس نے اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے کہا۔        
            میں اس بات کی توقع بھی نہیں کر رہی تھی۔ بیٹی نے کہا
             باپ کے چہرے پر ندامت اور افسردگی کے آثار پیدا ہوئے۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے  مسکراتے ہوئے کہا۔ تم کو تو اب تک پتہ چل چکا ہو گا۔کیا میں نے صحیح کیا؟ تم اس سلسلے میں کیا کہتی ہو؟
            ابھی تک تو پتہ نہیں لیکن جلد پتہ چل جائے گا کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔بیٹی نے سرد مہری سے کہا۔
            اس پر وہ شرمندہ ہو گیا۔ کچھ دیر خاموش رہا۔ پریشانی پر قابو پا کر خوشامدانہ لہجے میں بولا۔ 
            ہاں! بیوی مرنے پر آدمی ایسا ہی کرتے ہیں۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔میں ابھی جوان ہوں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتا۔ مجھے ساتھی کی ضرورت ہے۔اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔
             اس پر الزبتھ نے کوئی جواب نہ دیا اور  گھر چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئی تو اس کے ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے ہاتھ میں ایک پلیٹ تھی جس میں مکھن اور ڈبل روٹی  تھی۔ اس نے وہ اسے پکڑائی اور انجن کے پائیدان پر پاؤں رکھ کر کھڑی ہو گئی۔
            تمہیں صرف چائے کا کہا تھا، مکھن اور ڈبل روٹی لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس نے چائے کی چسکی لی۔۔۔بہت اچھی بنی ہے۔ایک دو اور گھونٹ لینے کے بعد بولا
            میں نے سنا ہے کہ والٹر نے پھر کسی سے جھگڑاکیاہے؟
            اس نے کب پنگا نہیں لیا؟ خاتون نے جلتے ہوئے کہا۔
            مجھے اس جھگڑے کا پتہ پرنس آف ویلز مارکیٹ میں لارڈ نیلسن کے مے خانے سے چلا۔
            کب؟
            ہفتے کی رات۔
            ہو سکتا ہے۔ میرے علم میں نہیں۔خاتون تلخی سے بولی۔ اس نے مجھے کل رات تیئیس شلنگ گھر کے خرچے کے لئے دئے تھے۔
            یہ تو اچھی بات ہے۔ اس نے چائے کا آخری گھونٹ پیا اور کپ اسے واپس کر دیا۔انجن کا لیور دبایا اور انجن آگے چل پڑا۔
            خاتون نے شافٹ کی طرف دیکھا اور اپنے میاں کو ان میں ڈھونڈنے لگی۔مزدور کام سے واپس آ رہے تھے لیکن ان کی تعداد اب کم ہو گئی تھی۔تاریکی چھا نے لگی تھی۔اس کے دائیں طرف سیلسن اور بائیں طرف پرنس آف ویلز مارکیٹ میں لیمپ جلا دئے گئے تھے۔ الزبتھ  بیٹس کے دو بچے تھے اور تیسرا متوقع تھا۔اسکا خاوند والٹر بیٹس ایک کان کن تھا جو شراب کا رسیا تھا اور گھر کے آگے سے آنکھ بچا کر دبے پاؤں چھپ چھپا کرپینے  کے لئے پرنس آف ویلز چلا جاتا تھا جس پر وہ ہمیشہ کڑھتی رہتی تھی۔
            وہ اپنے بیٹے کو لے کر گھر پہینچیاور اپنے میاں کا انتظار کرنے لگی۔ اس کی نوعمر بیٹی عینی بھی ابھی تک سکول سے گھر نہیں لوٹی تھی۔اس کے گھر کا کچن اور دیوان خانہ نیچے تھا اور اوپر والے حصے میں دو کمرے تھے جو تین سیڑھیاں چڑھ کر آتا تھا۔آتش دان کچن میں تھا اور وہاں کوئلہ جلا کر گھر کو گرم رکھا جاتا تھا۔اس نے آتش دان میں لکڑیاں ڈالنے کے لئے جان کو کہا۔ وہ بڑے انہماک سے  چھوٹی سی لکڑی کو چاقو سے توڑ رہا تھا۔وہ اس کی طرف خاموشی سے دیکھتی رہی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس میں اپنے باپ کی طرح خود محوری پائی جاتی تھی۔آتش دان روشن ہو گیا تھا۔ کچن گرم ہو گیا تھا۔ ا اس نے رات کے کھانے کے لئے آلو بنا لئے تھے۔ میز پر کپڑا بچھا کر برتن رکھ دئیے تھے۔ساڑھے چار بج رہے تھے۔ چھٹی ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا۔ اکا دکا  مزدور اب بھی جا رہے تھے۔اس کا میاں ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اس نے دروازہ کھول کر دور دور تک جھانکا۔اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔اس نے سوچا کہ وہ جل دے کر نکل گیا ہو گا۔ اس نے دروازہ بند کیا اور آتش دان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ آگ کافی دیر سے جل رہی تھی۔ اب وہ بجھنا شروع ہو گئی تھی۔کمرہ مناسب گرم تھا۔ کچن کے درمیان ایک لیمپ لٹکا ہوا تھا۔ وہ ابھی نہیں جلایا تھا اس لئے کمرہ تاریک تھا۔   جب آتش دان سے تپش کم ہونے لگی تو اس نے چولہے پر کھیر پکانے کے لئے رکھ دی تاکہ ایک تو کھانا پک جائے اور دوسرا چولہے کی حرارت آتی رہے۔
            چھوٹے چھوٹے قدموں کی آواز آئی۔گھر کا دروازہ کھلا اور ایک نوعمر لڑکی اندر داخل ہوئی۔یہ اس کی بیٹی عینی تھی جو سکول سے لوٹی تھی۔اس کے  بال گھنگریالے  اور سنہری تھے جو اس کی آنکھوں پر پڑے تھے۔ماں نے اسے سکول سے دیر سے واپسی پر پوچھ گچھ کرنا شروع کر دی۔
            ابھی تو شام ہی ہوئی ہے۔لیمپ بھی روشن نہیں ہوئے۔باپ بھی ابھی تک گھر نہیں پہنچا۔ دیر کہاں سے ہو گئی؟  دیر کہاں سے ہو گئی؟
            تمہارا باپ نہ جانے کہاں رہ گیا؟  پونے پانچ بج چکے ہیں۔کیا تم نے اسے کہیں دیکھا؟
            نہیں ماں۔ راستے میں  وہ کہیں نظر نہیں آیا۔اس نے ماں کو رحم بھری نگاہوں سے دیکھا۔سو چنے لگی کہ اس کا باپ کتنا غیر ذمہ دار ہے پھر وہ بولی کہ ہم کب تک اس کا انتظار کریں۔ ہمیں کھانا کھا لینا چاہیئے۔  مجھے سخت بھوک لگی ہے۔اس نے ایک بار پھر دروازہ کھول کر دیکھا۔ ہر طرف سناٹا تھا۔اس نے جان کو بھی میز پر بلا لیا اور انہیں کھانا دیا۔اس نے بچت کی خاطر کچن کا لیمپ نہیں جلایا تھا اس لئے کمرے میں تقریباً تاریکی تھی۔آگ بھی بجھنے والی تھی لیکن ابھی بھی کچھ انگارے تھے۔عینی اپنی ڈبل روٹی سینکنے کے لئے آتش دان کے پاس جھکی تو اس کا چہرہ انگاروں میں سرخ نظر آنے لگا جس سے وہ مزید پیاری لگنے لگی۔ تاہم کچن کی گرمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی تھی۔ اس پر جان بولا کہ والٹر گھر آئے گا تو شکائت کرے گا کہ وہ جب بھی گھر آتا ہے تو ٹھنڈ ہوتی ہے جبکہ  پرنس آف ویلز میں موسم ہمیشہ بہترین ہوتاہے۔ ماں نے عینی سے کہا کہ آتش دان میں مزید لکڑیاں ڈال ے و تا کہ والٹرکے آنے پر گھر گرم ہو۔
عینی نے لکڑیاں اوپر تک بھر دیں اور کچن یں اندھیرا ہوگیا لیکن لکڑیاں جلنے میں وقت لگتا ہے، گھر ابھی تک ٹھنڈا تھا۔ جان بے صبری سے بولا، جلد از جلد آگ جلاؤ۔ عینی نے جواب دیا کہ اس  سے جلد گرم نہیں ہو سکتا۔ا وہ آگ سے تیز نہیں ہو سکتی۔
            انہوں نے کھانا کھایا۔ مسز بیٹس کی بھوک فلر سے مٹ گئی تھی۔ اس نے چائے پی اور اپنے میاں کا انتظار کرنے لگی۔زیادہ دیر ہونے کی وجہ سے اسے اب گھبراہٹ ہونے لگی اور پارہ چڑھنے لگاتھا۔ بچے بھی اپنے باپ کے نہ آنے پریشان تھے۔اسی دوران الزبتھ اپنے خاوند کے بارے میں جلی کٹی سناتی رہی۔وہ اوپر اوپر سے اپنے بچوں کے ساتھ سختی کر تی تھی جبکہ اندر سے ان کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھی۔اپنے میاں پر دیر سے آنے پر غصہ تو تھا لیکن وہ  عدم موجودگی بچوں کو تسلی دلاتی تھی کہ پریشانی والی کوئی بات نہیں۔وہ ایسے واقعات کو بچوں کی پرورش پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہتی تھی اور انہیں سنگین صورت حال  کا احساس نہ ہونے دینا چاہتی تھی۔
             انتظار کرتے کرتے مسز بیٹس لیمپ روشن کیا تو اس کا ابھرا ہوا پیٹ نظر آیا۔عینی کی نظر الزبتھ کے ایپرن کے کاج میں اٹکے ہوئے گل داؤدی پر پڑی اور اسے سونگھنے لگی اوراس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگی اور اس  سے جڑے تصورات،خوشبو، محبت اور وفاداری  کے وصائف گنوانے لگی تو اس نے اسکی مخالفت کی۔
            عینی کی نگاہ اس کے ایپرن پر پڑی  تو اسے اس میں گل داؤدی ٹنگے ہوئے نظر آئے۔ وہ جوش سے آگے بڑھی اور پھولوں کو سونگھنا شروع کر دیا۔ہٹ جاؤ بیوقوف۔  ماں نے کہالیکن عینی نے پرواہ کئے بغیر ان پھولوں کو سونگھنا جاری رکھا اور پوچھا کہ کیا ان کی خوشبو پیاری نہیں ہے؟ ماں نے جھنجھلا کر پھولوں کی ٹہنی اپنے ایپرن سے اتاردی لیکن عینی نے دوبارہ اسے وہیں اٹکانے کی کوشش کی۔
            بیوقوفی کی کوئی حد ہوتی ہے۔اس نے عینی کو پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا لیکن عینی باز نہ آئی اور پھولوں کو سونگھنے لگی۔اور کہا۔
            کیا تمہیں یہ پھول اچھے نہیں لگتے؟
            ماں نے  ہلکا سا قہقہہ لگایا  اور کہا کہ اسے اسکی خوشبو پسند نہیں۔ جب اس کی شادی ہوئی تھی تو والٹر نے  اسے گل داؤدی کا گلدستہ دیا تھا۔ اگر اس کے  جذبات سچے ہوتے تو آج گھر اور اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔خلوص اور سچائی ہوتی تو خوشی آہستہ آہستہ تمام  نہ ہوئی ہوتی۔یہ سب مکاری او ریا کاری تھی۔ اس لئے ان رومانی تصورات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں
             اس کے بعد جب تم پیدا ہوئی تو اس وقت بھی وہ اس کے لئے گل داؤدی لایا تھا جو اس کی قمیص کے کاج میں اٹکے ہوئے تھے لیکن وہ اس وقت نشے میں دھت تھا۔  تمہارے پیدا ہونے کے بعد تم نے خود اس کو بھگتا ہے اس نے ہمیں تکلیف پہنچانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کیا۔      
            الزبتھ نے ایک بار پھر باہر دیکھا۔باہر سکوت تھا۔ عینی آگ کے سامنے بیٹھی تھی۔سردی زور پکڑ رہی تھی اور سب والٹر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔اس نے عینی کو کہاکہ آگ کو بجھنے نہ دے  اور اس مین لکڑیاں ڈاتی رہے کیونکہ وہ  اس کے باپ کو شکائت کا موقعہ نہیں دینا چاہتی کہ اس بار بھی گھر ٹھنڈا ہے۔وہ  اپنے گھر کا مقابلہ عوامی مقامات سے کرتا تھاجہاں موسم کے مطاق ٹمپریچر رکھا جاتا تھا۔
            الزبتھ اٹھی اور لیمپ روشن کیا  تو اسکا اسکی زرد روشنی میں اس کے ابھرے ہوئے پیٹ کا سایہ دیوار پر پڑا۔عینی کی نظر اس کے ایپرن پر ٹنگے ہوئے گل داؤدی کے پھولوں کی ٹہنی پر پڑی۔وہ آگے بڑھ کر اسے سونگھنے لگی۔ اس کاوش میں وہ ٹہنی ایپرن سے گر پڑی۔  اس نے دوبارہ ماں کے ایپرن میں ٹ ٹانکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی جس پر عینی نے اس ٹہنی کو گل دان میں سجا دیا۔
            مسز بیٹس مضطرب ہو کر آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے وقت دیکھا تو اس وقت چھ بج کر بیس منٹ ہوگئے تھے۔ اس نے تلخی سے سوچا کہ اگرگھر کا سربراہ  رات کے کھانے پر بھی اہل خانہ کے ساتھ کھانے میں شامل نہ ہو تو تف ہے ایسے مرد پر۔ ہوہ آستین والی مردانہ سویٹر پہنے ہلکی پیلے رنگ کی فلالین کی چادر اوڑھے جس کے ایک سرے پر سرمئی رنگ کا کنارا اس نے پھاڑا تھا بیٹھی رہی۔وقت گزاری کے لئے اس نے اون اور سلائیاں نکالیں اور سویٹر بننے لگی۔
            اس نے جلتے ہوئے سوچاکہ چھٹی ہونے کے تین گھنٹوں بعد بھی خود سے نہیں آیا تو اب وہ اپنے پاؤں پر چل کر نہیں آسکتابلکہ اب دوسرے لوگ ہی اسے لائیں گے۔ وہ نشے کی حالت میں توازن قائم نہیں کر سکتا۔اس کے منہ میں چرس کا سگریٹ یا چرٹ ہو گا۔اس کی قمیص کیچڑ میں لت پت ہو گی۔ وہ ا س بار اس کی قمیص نہیں دھوئے گی، وہ خود ہی دھوئے گا۔وہ بھی کتنی پاگل تھی کہ اس کے ساتھ اتنے غلیظ ماحول میں چوہوں اور دیگر حشرات الارض کے ساتھ رہنے کے لئے آمادہ ہو گئی۔پچھلی ہفتے بھی وہ دو دفعہ اسی طرح غائب ہوا تھا اور ہفتے کا یہ پہلا دن ہے۔ دیکھیں آگے وہ کیا گل کھلاتا ہے۔ وہ یہ سوچ رہی تھی۔اس دوران ایک گھنٹہ اور گزر چکا تھا۔اسکے غصے نے اس کو تھکا دیا تھا۔ اس  نے بنائی بند کر دی۔اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ کبھی کبھار اپنی آنکھیں کھول کر دیکھ بھی لیتی ۔ اس کے کان کسی آواز کو سننے کی کوشش کررہے تھے۔ کبھی کبھار اس کا غصہ بڑھ جاتا اور کبھی ختم ہو جاتا۔جب اس نے دروازے کے باہر قدموں کی چاپ سنی تو وہ  چونک کر اس طرف متوجہ ہوگئی۔ وہ  قدم دروازے سے آگے چلے گئے۔ بچے آپس میں کھیل رہے تھے۔، اپنے بچوں کی باتیں سن رہی تھی۔ اس وقتعینی نے شکائت بھرے لہجے میں کہا کہ اس کا باپ ابھی تک واپس نہیں آیا۔
            فکر نہ کرہ۔اسے کچھ نہیں ہواوہ جب بھی آئے گا دوسرے لوگ اسے ایک لکڑی کے ڈالے کی طرح اٹھا کر ہی لائیں گے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کوئی تماشا نہیں لگے گا اور جب بھی آیا،  فرش پر سوجائے گا۔ابھی تک وہ نہیں آیا، مجھے یقین ہے کہ اس کی حالت  ضرورت سے زیادہ پینے کی وجہ سے خراب ہو گئی ہو گی اور وہ صبح کام پر نہیں جا پائے گا!   وہ بچوں کو ا سلانے کے لئے وپر بیڈروم میں لے گئی۔ بچوں نے سونے سے پہلے  اپنے چہرے  فلالین سے پونچھے، سونے کی دعائیں مانگیں اور سوگئے۔ماں نے ان کے چہرے پر کمبل ڈال دیا اور کچن واپس آکر اپنے میاں کا انتظار کرنے لگی۔گھڑی پر آٹھ بج چکے تھے لیکن دور دور تک والٹر کا  نام و نشان نہ تھا۔ وہ ایک بار پھرباہر نکل کر صورت حال کا جائزہ لینے لگی۔صحن میں سرسراہٹ ہوئی،  اس نے اس کی پرواہ نہ کی کیونکہ اسے علم تھا کہ یہ چوہے اسے اس بات کا علم تھا کہ یہ چوہے تھے جو ادھر ادھر بلا روک ٹوک بھاگ رہے تھے۔باہر مکمل خاموشی تھی،  اڈوں پر درجنوں انجن اور ٹرک کھڑے تھے۔  ایک طرف سیلسٹن کی شافٹ پر ہلکی روشنی ٹمٹما رہی تھی  اور دوسری طرف پرنس آف ویلز میں بھرپور روشنی تھی۔  دونوں سمتوں لے بیچ گھپ اندھیرا تھا  اورکسی انسان کا شائبہ تک نہ تھا۔  اسے ڈر لگ رہا تھا لیکن اسے غصہ بھی آرہا تھا کہ غیر ذمہ داری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اپنے خاندان کے لئے اس قدر بے حسی پر اسے والٹر پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ بیتابی سے انڈروڈ کی طرف جانے والی پٹڑی  کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ کچھ دور سڑک تھی اور اس کے بیس گز کے فاصلے پر پرنس آف ویلز تھا۔اس نے وہاں سے چند مزدوروں کو  نکلتے ہوئے دیکھا جو نیو برنسکی جا رہے تھے۔وہاں اسے پرنس آف ویلز میں موجود افراد کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں  جن کا انداز کفتگو عام حالات کی طرح تھی۔ ان کی گفتگو میں کسی قسم کی گھبراہٹ اور ہیجانی کیفیت نہ تھی۔اس کا مطلب تھا کہ وہاں حالات معمول کے مطابق تھے، کوئی دنگا فساد یا حادثہ نہیں ہوا تھا۔اس نے خود کو ملامت کی کہ اس نے خواہ مخواہ والٹر پر شک کیا۔اس طرف سے بے فکر ہو کر وہ حقیقت سے آگہی کے لئے ساتھ  والی سڑک کے گھروں کی طرف مڑگئی۔ ایک گھر پر اس نے دستک دی۔وہ  اس کے میاں کے دوست مسٹر جیک ریگلی کا مکان تھا۔ ایک بوڑھی ہڈیوں کے ڈھانچے والی خاتون نکلی۔  یہ مسز ریگلی تھی۔ الزبتھ نے اس سے  اسکے خاوند کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ آدھا گھنٹہ پہلے گھر آچکا تھا۔اس نے اسے کہا کہ وہ اپنے میاں سے والٹر کے بارے میں دریافت کرے کیونکہ وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا۔  اس نے میاں کو بلا کر پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ جب وہ گھر لوٹ رہا تھا تو وہ ٹھیک ٹھاک تھا، والٹ نے کہا تھا کہ وہ بعد میں آ جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں پھنس گیا ہو یا کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نئی سائٹ پر چلا گیا ہو کیونکہ اس نے اس سائٹ کے منیجر کو بھی اس کے ساتھ دیکھا تھا۔ مسٹر جیک ریگلی بھی اس کے گھر نہ پہنچنے پر فکرمند ہوگیا  اور اسے ڈھونڈنے کے لئے نکل پڑا۔اب مسز بیٹس کو فکر لاحق ہو گئی اور واپس لوٹ آئی۔
            وہ کچن میں بیٹھ کر والٹر کا انتظار کرنے لگی۔جب گھڑی نے نو بجائے تو اس کا غصہ پریشانی میں بدلنے لگا۔اسے خود پر ترس آنے لگا کہ ایک نا ہنجار کے لئے اس نے اپنی زندگی بربادکر دی۔اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے دوبارہ سے سلائیاں اٹھائیں اور سویٹر بننا شروع کر دیا۔دس بجنے میں پانچ منٹ تھے جب اسے اپنے گھر کے باہر قدموں کی چاپ سنائی دی۔وہ فوراً اٹھی اور دروازہ کھولا  تو وہ  والٹر کی والدہ تھی۔اس نے کالا ہیٹ  پہنا ہوا تھا اور کالی اونی شال اوڑھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں نیلی اور رنگ زرد تھا،وہ ساٹھ سالہ خاتون تھی جس کے چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس وقت وہ افسردہ تھی۔
            آہ لیزی!  اب ہم کیا کریں؟ اس نے روتے ہوئے کہا۔
            وہ اس کی بات سن کر چونک گئی۔ کیا ہوا ماں؟  اس نے سوال کیا۔کیا بات ہے؟
            بوڑھی نے خود کو آرام دہ کرسی پر دھڑام سے گرا دیا اور کہا۔ میں نہیں جانتی۔ میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتی۔ اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔الزبتھ اس کی طرف تشویش سے دیکھنے لگی۔
             میں نہیں جانتی۔اس نے  ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔میرے دکھوں کا انت نہیں۔مجھ پر جو آفات اب تک آئی ہیں، کیا وہ کم تھیں؟  بغیر آنسو صاف کئے وہ روتی رہی۔
            لیکن ماں!  الزبتھ نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ تمہارا اس بات کا مقصد کیا ہے؟
            بیچارہ بچہ!  ایک پیارا بچہ! مجھے نہیں پتہ کہ اب ہم کیا کریں گے؟ ۔۔۔اور نہ  ہی یہ پتہ ہے کہ تم کیا کرو گی؟   یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔۔ ایک تلخ حقیقت۔
            کیا وہ مر گیا ہے! ماں کی باتیں سن کر اس کا دل بری طرح دھڑکا۔اسے براہ راست اس کی موت کے بارے سوال کرتے ہوئے جھجک اور شرمندگی محسوس ہوئی لیکن وہ بے ساختہ یہ سوال پوچھ چکی تھی۔اس کے اس سوال نے بوڑھی کو  جھٹکا دیا اور وہ اپنی بے خودی سے نکل آئی۔
            ایسا مت بولو! توقع کرو کہ اتنا برا نہیں ہوا ہو گا۔ خدا ہمیں ایسی منحوس خبر سے محفوظ رکھے۔ جیک ریگلی کچھ دیر پہلے میرے پاس آیا تھا اور کہاکہ میں تمہارے پاس جا کر اس وقت تک بیٹھوں جب تک وہ والٹ کو لے کر نہیں آتے۔اس سے پہلے میں اس سے کچھ پوچھتی، وہ جا  چکا تھا۔میں نے اسی وقت ہیٹ پہنا اور تمہارے پاس چلی آئی۔ میں نے سوچا کہ اگر کوئی بری خبر تمہیں اچانک ملی تو تم شائد برداشت نہ کر سکو۔تم جانتی ہو کہ یہ ایک سنگین معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ تم خود پر قابو نہ رکھ  پاؤگی، تم خود پر قابو نہ رکھ سکو گی۔تم اچھی طرح جانتی ہو کہ اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔کتنی دیر کے لئے ہو سکتا ہے۔ چھ ماہ۔۔۔ یا پانچ ماہ۔۔۔الیزی۔!  آہ!  آہ! وقت گزر جاتا ہے۔ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ افسوس!
            الزبتھ کی سوچ کہیں اور تھی۔اگر وہ مر گیا تو کیا وہ اس کی معمولی پنشن میں گزارا کر پائے گی؟ اگر اس نے نوکری کربھی لی تو کیا کما پائے گی؟ اس نے جلدی سے اپنے دماغ میں حساب لگایا۔۔۔اور اگر وہ زخمی ہوا  تو وہ اسے ہسپتال نہیں لے جائیں گے۔اس کی گھر میں دیکھ بھال اس کے لئے کس حد تک دشوار ہو گی!  لیکن گھر میں ایک بات طے ہے کہ  وہ اسے شراب تو نہیں پینے دے گی۔ایسی سوچوں سے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔اس نے اپنے بچوں کے بارے میں سوچا کہ وہ تن تنہا ان کی کیسے پرورش کر پائے گی۔
            ہائے!   بوڑھی عورت نے دوبارہ آہ بھری۔مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ گھر والوں کو اتنا تنگ کرنے والا نکلے گا۔ بچپن میں وہ تو بہت پیارا، زندگی سے بھر پور اور ہر وقت ہنسنے والا بچہ ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت بھی ہر ایک سے پھڈا مول لے لیا کرتا تھا۔خدا سے یہی دعا ہے کہ اب وہ اسے راہ راست پر لے آئے۔تمہارے ساتھ جس طرح کا برا سلوک کیاہے، میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، یقین مانو وہ بچپن میں وہ بہت اچھا ہوا کرتاتھا۔
            ماں اپنی دھن میں اونچی اونچی بولتی چلی جا رہی تھی۔ الزبتھ اپنی سوچوں میں گم تھی۔ اسے  اپنے گھر کے سامنے والی پٹڑی پر زنجیروں کے کھنکنے اور انجن کی بریکیں لگنے کی آواز آئی، پھر اس نے انجن کے آہستہ ہونے کی آواز سنی۔ بوڑھی عورت کسی بات کی پرواہ کئے بغیر  بولتی جا رہی تھی۔ اس نے انجن کی بریکوں اور رکنے کی آواز نہ سنی۔۔ وہ برابر افسوس کا اظہار کر رہی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ وہ نہیں جانتی کہ بیٹے کی تکلیف کا غم کیسا ہوتا ہے۔وہ جیسا بھی تھا، پیارا تھا۔ اس کے بچپن کی چھوٹی سے چھوٹی بات اسے یاد تھی۔ وہ جب بھی کوئی غلط بات کرتا تھا، میں سمجھ جاتی تھی کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اور پھر اسے معاف کر دیتی تھی۔تمہیں بھی اسے معاف کر دینا چاہیئے اور اس پر روک ٹوک نہیں لگانی چاہیئے۔الزبتھ تجسس سے اس چیز کا انتظار کرتی رہی کہ ٹرین سے  اب کیا  ظاہر ہوتا ہے۔
            رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے۔ماں اس وقت کہہ رہی تھی کہ  والٹبذات خود شروع سے لے کر آخر تک ایک مسئلہ تھا۔زندگی تکالیف کا گڑھ ہے۔تم تکالیف سے عمر کے کسی حصے میں بھی بچ سکتے۔اس عمر میں قسمت نے مجھے کیا دکھایا ہے۔پتہ نہیں والٹ کس حالت میں ہوگا۔اس وقت دروازے پر بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دی اور دروازے پر دستک ہوئی۔ الزبتھ نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک کان کن وردی میں ملبوس نظر آیا۔
            وہ اسے لا رہے ہیں؟ کان کن نے کہا۔
            کیا اس کی حالت بہت ابتر ہے؟
            مرد نے اپنا منہ پھیر لیا اور اس کا چہرہ اندھیرے میں چھپ گیا۔ وہ بولا کہ ڈاکٹر نے اپنے کیبن میں لیمپ کی روشنی میں معائنہ کرتے ہوئے بتایا کہ والٹرجب اس کے پاس لایا گیا تو گھنٹوں پہلے  ہی  جان کی بازی ہار بیٹھا تھا۔
            بوڑھی عورت جو اس کے پیچھے کھڑی ہو کر سن رہی تھی۔ دھڑام سے آرام دہ کرسی پر گر پڑی۔ اے خدا! کہہ کر اپنا سر پکڑ لیا۔ الزبتھ نے است فوراً روکا اور ہدائت کی کہ آواز مدھم رکھے،  بچے جاگ جائیں گے۔انہیں اس وقت مت جگاؤ۔ بوڑھی عورت آہستہ اواز میں رونے لگی۔
            الزبتھ نے ایک قدم بڑھ کر پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا؟
            میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔ لیکن جو ہوا، برا ہوا۔ ایک اڈے پر کام ختم ہو چکاتھا۔، وہ اسے بند کر رہا تھا کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔اس کے ساتھی جا چکے تھے اور وہ اکیلا ہی کام کر رہا تھا۔اس نے  زور سے ضرب لگائی تو ٹنوں وزنی چٹان اس کے اڈے پرآ گری۔
            کیا وہ پوری طرح کچلا گیا ہےِ
            نہیں۔ اس کے جسم کو تو خراش تک بھی نہیں آئی۔چٹان نے اسے چھوا تک بھی نہیں۔وہ چٹان اس کی پشت پر گری۔
            تو پھر وہ کیسے جان سے  ہارا؟
             وہ اڈے کی چٹانوں میں پھنس گیا تھا۔یہ سن کر دونوں ماں  بیٹی رونے کگیں۔روتے ہوئے اسے یاد آیا کہ وہ  واٹ کی میت کو لا رہے ہیں۔ اس کو گھر کے اندر لانے اور رکھنے کے لئے جگہ چاہئے۔ چھوٹ سادیوان خانہ ہی ایسی جگہ تھی جو کچن کے آگے تھی جہاں اسے رکھا جا سکتا تھا۔اس نے موم بتی جلائی۔ کچن میں لیمپ روشن کیا  تو زرد روشنی میں تھوڑا بہت نظر آنے لگا۔آتش دان صرف کچن میں تھا۔دیوان خانے تک اس کی گرمی نہیں پہہنچ سکتی تھی۔ دیوان خانے میں ایک صوفہ اور قا لین پڑا تھا۔ اس نے صوفے کو دیوار کے بالکل ساتھ لگا دیا اور میت رکھنے کی جگہ نکل آئی۔ اس نے فرش پر  ایک پرانے سرخ کپڑے اور ایک اور پرانے کپڑے سے قالین کو ڈھانپا تاکہ وہ گندا نہ ہو۔موم بتی کی روشنی شیشے کے گلدان پر پڑی جس میں گل داؤدی کی ٹہنی لٹک رہی تھی جسے عینی نے ماں سے لے کر رکھ دیا تھا۔ دیوان خانے میں سردی تھی۔ اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ اس نے ایک خشک کپڑا لیا اور اسے کچن میں آتشدان کے سامنے کر کے گرم کیا اور اوڑھ لیا۔پھر اس نے ماں کو کہا کہ وہاں سے آرام دہ کرسی ہٹانی پڑے گی۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے کرسی ہٹائے  بغیر والٹ اندر نہیں لایا جا سکتا۔ماں میکانکی طور پر اٹھی اور ایک طرف زمین پر بیٹھ کر روتی رہی۔ الزبتھ نے ایک اور بتی جلا کر دیوان خانے میں رکھ دی اور سیڑھیوں پرکھڑی ہوکر میت کا انتظار کرنے لگی۔اتنے میں اسے گھر کے ایک کونے سے چند لوگوں کی چاپ سنائی دی۔ وہ آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔وہ چلتے چلتے گھر کے صحن تک پہنچ گئے تھے۔
            الزبتھ نے میتھیو کی آواز سنی جو کہ والٹ کا منیجر تھا۔وہ کہہ رہاتھا کہ جم تم مہربانی کر کے آگے چلو۔الزبتھ نے گھر کا دروازہ پورا کا پورا کھول دیا تھا۔ اس نے دیکھا کو والٹ سٹریچر پر پڑا تھا  اس کے موٹے موٹے کیلوں والے بوٹ نظر آ رہے تھے۔ایک نے  سرہانے اور دوسرے نے پائنتی سے سٹریچر اٹھایا ہوا تھا ۔سرہانتی والا شخص جم الٹے قدموں سے سٹریچر کو اندر لایا اور دوسرا  شخص جیک چھوٹے چھوٹے قدموں سے دھکیتا ہوا  اندر لے آیا۔ الزبتھ نے اسے دیوان خانے کا رستہ دکھایا اور کہا کہ میت وہاں رکھنی ہے۔ والٹ کاجسم کوٹ سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کو اندر لانے لگے تو جم کی ٹھوکر سے وہ کوٹ ہل گیا توانہوں نے دیکھا کہ اس کا اوپر والا دھڑ ننگا تھا۔دونوں خواتین سے ضبط نہ ہوا اورپھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اس کی بدولت فرش پر پڑا گلدان ٹوٹ گیا۔ پانی بہہ گیا اور گل داؤدی کی تٹہنی اور پھول بکھر گئے۔ الزبتھ نے روکا کہ  لاش کوقالین پر نہ رکھا جائے تا کہ وہ جگہ صاف کرسکے۔ وہ سٹریچر اٹھا کر اس وقت تک کھڑے رہے جب تک اس نے گلدان کے ٹکڑے اوربکھرے ہوئے گل د ا ؤدی  نہ اٹھا لئے اور پانی خشک نہ کر دیا۔
            آہ! یہ کیسی نوکری ہے! یہ کس قسم کی نوکری ہے!  میتھیو نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔وہ اپنے ابرو مل رہا تھا۔اس نے افسوسناک لہجے میں کہا کہ اس قسم کا  خوفناک حادثہ نہ اس نے دیکھا  اور نہ ہی  کبھی سنا تھا ۔ اس اڈاے کا حدود اربعہ جس پر وہ کام کر رہا تھا  چارمربع فٹ تھا۔ وہ تین طرف سے بند تھا اور ایک طرف سے کھلا تھا۔ اس نے ہتھوڑے سے زور دار ضرب لگائی تو ایک چٹان جو کھلے حصے کی طرف تھی اور اس چٹان کے سہارے کھڑی تھی جس پر اس نے ٹھوکر ماری تھی،، گر پڑی۔ اس نے اس اڈے کے چوتھے حصے کو بھی سیل کر دیا۔ سر کے اوپر بھی چٹان تھی۔اس چٹان کے گرنے کے ساتھ ہی زہریلی  میتھین گیس بگولے کی شکل میں خارج ہوئی جس سے اس کا دم گھٹ گیا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔میری زندگی کا یہ سب سے تکلیف دہ حادثہ ہے۔وہ چٹان  اس کے لئے چوہے دانی کا شکنجہ ثابت ہوئی۔ کان کن جو پاس کھڑے تھے، نے بھی افسوس سے سر ہلائے۔اس وقت انہیں عینی کی آواز سنائی دی جو پوچھ رہی تھی کہ نیچے کیا ہو رہا ہے ماں؟ نیچے کیا چل رہا ہے؟ یہ کیسی آوازیں آ رہی ہیں؟
            الزبتھ تیزی سے سیڑھیوں کی طرف گئی تاکہ اسے نیچے آنے سے روکے۔ وہ اس وقت اسکے باپ کی موت کا اسے نہیں بتانا چاہتی تھی۔ کہا، کچھ نہیں۔کیوں شور کر رہی ہو، سو جاؤ۔یہاں کچھ نہیں ہو رہا۔ اس کے بعد اس نے سیڑھیاں چڑھنا شروع کر دیں تاکہ اسے نیچے آنے سے روکے۔
             میں نے چند لوگوں کی آوازیں سنی ہیں۔کیا ابا گھر آ گیا ہے؟اس نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں۔ وہ اسے لائے ہیں۔ ایک اچھے بچے کی طرح لیٹی رہوبی  بیوقوف لڑکی!الزبتھ نے سختی سے کہا۔
            کیا وہ اسے اٹھا کر لائے ہیں؟
            ہاں۔
            کیا وہ ہوش میں ہے؟
            نہیں۔
            نیچے کھڑے ہوئے لوگ ماں بیٹی کی آوازیں سن سکتے تھے۔
            کیا وہ نشے میں دھت ہے؟ 
            نہیں۔وہ نشے میں نہیں۔وہ سو رہا ہے۔
            کیا وہ نیچے سو رہا ہے؟
            ہاں۔ وہ نیچے سو رہا ہے۔اور اب شور نہ کرو۔کچھ دیر خاموشی رہی پھر نیچے سے ایک بار پھر کوئی آواز آئی۔
            یہ شور کیسا ہے؟ عینی نے پوچھا۔
            کچھ نہیں ہے۔ آخر تمہیں کون سی چیز پریشان کر رہی ہے؟
            وہ آواز اس کی دادی کی تھی جو پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔وہ ماحول کا خیال نہیں کر رہی تھی اور اپنی دھن میں اپنے انداز سے اپنے دکھ کا اظہار کر رہی تھی اور منیجر اسے چپ کروا رہا تھا۔وہ آوازیں اوپر پہنچ رہی تھی جسے عینی نے سن لیا تھا اور ان آوازوں کے بارے میں سوال کر رہی تھی۔
            کیا وقت ہوا ہے؟ عینی نے پوچھا۔
            دس بجے ہیں۔شاباش! اب سو جاؤ۔      
            وہ سو گئی۔
            میتھیونے اپنے ساتھیوں کو واپس چلنے کا اشارہ دیا۔انہوں نے ہیٹ پہنے،سٹریچر اٹھایا  اور دبے پاؤں سے چل دیئے۔
            جب  الزبتھ واپس آئی تو اپنی ماں کو تنہا  بیٹھے  ہوئے پایا جو کرسی پر جھکی ہوئی رو رہی تھی۔
            ہمیں اب اس کے کپڑوں سے آزاد کر دینا چاہئے۔الزبتھ نے کہا۔اس نے پتیلی میں پانی گرم کرنے کے لئے رکھ دیا۔اس کے بعد والٹ کے پاؤں پر جھک کر اس کے تسمے کھولنے لگی۔کمرہ ٹھنڈا اور نم تھا۔سردی مزید بڑھ گئی تھی۔اس نے جوتے کے تسمے کھو ل دیئے اور جوتے اتار دئیے۔اس کے بعد اس نے اپنی ماں سے کہا کہ اب اس کے کپڑے اتارنے میں اسکی مدد کرنا ہو گی۔ دونوں نے مل کر اس کے کپڑے اتار دئیے۔ جب وہ پورا ننگا ہو گیا تو وہ میت کی تعظیم کے لئے کچھ دیر خاموش کھڑی رہیں۔اس کے بعد الزبتھ نے پتیلا اتھا اور کپڑا بھگو کر اس کا جسم اچھی طرح صاف کرنا شروع کردیا۔وہ بے سدھ پڑا تھا۔اسے اس طرح بے حس و حرکت دیکھ کر وہ حقیقت قبول نہیں کر پا رہی تھیں۔ ایک نر، خوبصورت اور  وجیہہ جوان اس طرح بے بس ہو گا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ الزبتھ نے اسکے جسم کو چھوا تو وہ ابھی بھی گرم تھا۔ وہ شائد اس وجہ سے تھا کہ جس اڈے پر وہ کام کررہاتھا وہ بہت گرم تھا۔ماں نے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا اور اس سے بے ربط گفتگو کر رہی تھی۔اسکے رکے ہوئے آنسو اس کے چہرے پر اس طرح پڑ رہے تھے جیسے پتوں پر جمع پانی رستا ہے۔وہ  رو نہیں رہی تھی بلکہ آنسو خو د بخود  امڈ رہے تھے۔
             الزبتھ اپنے خاوند کے جسم سے بغل گیر ہو گئی۔اس کے جسم پر اپنی گالیں اور ہونٹ رکھ دیئے۔ وہ کسی طرح اس سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اس سے رابطہ نہ کر پائی اور اس کے پاس سے ہٹ گئی۔وہ ناقابل تسخیر تھا۔اس کی حالت بدلی نہیں جا سکتی تھی۔۔۔۔ وہ مر چکا تھا۔ہاں اسکی روح اس کے تن سے جدا ہو چکی تھی۔
            وہ اٹھی، کچن میں گئی، گرم پانی کا پتیلا اٹھایا، ایک کپڑا بھگویا  اس کا چہرہ اور جسم صاف کیا۔ ماں نے اسے فلالین سے خشک کیا۔اس پر الزبتھ کوبے حد پیار آرہا تھا۔وہ  اس بات کو نہ بھولیں کہ وہ ایک مردے کو غسل دے رہی تھیں جو  ان میں سنسنی پیدا کر رہا تھا۔اس عمل میں کافی وقت بیت گیا۔ماں  اس بات پر خوفزدہ تھی کہ اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والا بچہ اس کے سامنے مردہ پڑا ہوا تھا۔بیوی اس بات سے خوفزدہ تھی  کہ ایک انسانی روح اس سے بچھڑ رہی تھی۔ایسا  بھورے بالوں والاشخص جو کہ بھرپور جسم کامالک تھا  اس کے سامنے بے حس و حرکت پڑا تھا جو اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا۔
            خدا اسے غریق رحمت کرے۔ماں نے سرگوشی کی۔اس نے اس کے چہرے سے نگاہیں نہ ہٹائیں۔ بار بار کہتی رہی،پیارے بچے!خدا تم پر رحم کرے!  اس کی دعا بھی تھی، ماں کی محبت بھی تھی اور اس کے ساتھاسکی حرکتوں کی وجہ سے خوف بھی شامل تھا۔
            الزبتھ دوبارہ فرش پر اپنے میاں پر جھک گئی اور اپنا چہرہ  اس کی گردن پر رکھ دیا، پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ڈر بھی تھا۔وہ کانپ رہی تھی۔ اس کے اور اس کے میاں کے درمیان اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا۔اس پر دہشت طاری ہو گئی۔وہ اس کے لئے بے تاثیر اور بے فائدہ ہو گیا تھا۔اس کی زندگی کا  اپنے مرد کے ساتھ خاتمہ ہو گیا تھا۔وہ دودھ کی طرح سفید تھا۔ایک سال کے بچے کی طرح پوترلگ رہا تھا۔ خدا اس پر رحم کرے۔اس کے محبوب پر خدا خوش ہو۔الزبتھ نے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔
            وہ سکون سے چلا گیا۔ اس کی موت آرام دہ تھی۔ تین چار منٹوں میں ہی اس کی روح پرواز کر گئی تھی۔
            کیا وہ خوبصورت نہیں ہے؟ ایک گائے کی طرح معصوم نہیں ہے؟ وہ یقیناً بخشا جائے گا۔ اس کے چہرے پر سکون دیکھ کرایسے لگتا ہے کہ اس نے اپنی  زندگی میں بہت نیکیاں کمائی ہوئی ہوں گی لیزیً۔ ماں نے کہا۔
            الزبتھ نے آنسوؤں سے بھرا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا۔اس کے مرد کا  منہ ذرا سا کھل گیا تھا۔وہ  پورا منہ کھول کرزور دار آواز سے قہقہہ لگایا کرتا تھا۔وہ اس وقت اس کے منہ سے جاندار قہقہہ سننا چاہتی تھی۔اس کی آنکھیں ادھ کھلی تھیں۔اس کی محنت کشی اس کے مرنے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی۔اب وہ اجنبی بن گیا تھا۔وہ بہت دور جا چکا تھا۔اس کے ساتھ تمام  رشتے ٹوٹ گئے تھے۔جس کے ساتھ جسم و جان  سے رہ رہی تھی، وہ تعلق ختم ہو گیا تھا۔کیا یہی سب کچھ تھا؟کیا اتنا ہی ساتھ تھا؟کیا یہی سب کچھ تھا؟کیا یہاں تک ہی تھا؟۔۔۔۔جدائی اس کا مقدر بن چکی تھی۔وہ بھرپور زندگی سے گمنامی میں چلا گیا تھا۔یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے سر کو جھٹکا دیا  اور اسے اپنے ڈہن سے نکالنے کی کوشش کی۔حقیقت کتنی تلخ تھی۔اب کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ جب وہ حیات تھا تو تمام تر تلخیوں کے باوجود  وہ ایک دوسرے کے ساتھ تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ آخری حد تک جاتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ سوتا تھا تو اس وقت دونوں اکے وجود، خیالات اور احسات ایک دوسرے کے بر عکس ہوتے تھے۔ وہلگ الگ حیثیت رکھتے تھے۔وہ اتنا ذمہ دار نہیں تھا جتنا کہ وہ تھی۔ جب بھی وہ امید سے ہوئی وہ  اپنے بچوں سے بے نیاز رہا۔ ان کی کوئی پرواہ نہ کی۔اس نے مرے ہوئے خاوند کی طرف دیکھا۔ اس کے ذہن، گرم جوشی اور ہر طرح کا رابطہ کٹ چکا تھا۔
            الزبتھ کا دماغ سوچ سوچ کر ماؤف ہو گیاتھا۔اب اس کے خیالات باغیانہ ہونے لگے تھے۔ اس نے سوچا کہ وہ کون ہے؟ وہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ وہ اس خاوند کیلئے لڑ رہی تھی جو کہ اس دنیا  میں   موجود نہیں اور جب وہ زندہ تھا تو بھی ایک ظالم اور جابر شخص تھا۔وہ کبھی بھی ذمہ دار نہیں تھا۔وہ اسے قدم قدم پر کچوکے لگاتا تھا۔وہ اب اس کے خوف سے آزاد ہو گئی تھی۔وہ اس کے اب کیوں لڑے؟وہ اس قابل نہیں ہے۔وہ جانتی تھی کہ زندگی بھر اس نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ اندھیرے میں ہی حقوق زوجیت ادا کرتے تھے۔اس  کے متعلق لطیف جذبات جو اس کو نہلاتے ہوئے پیدا ہوئے تھے، وہ یکسر ختم ہو گئے۔اب جو اس کے بارے میں احساسات پیدا ہوئے  وہاں ایک داغ تھا۔وہ اس کے ایسا برتاؤ کرتا تھا کہ جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
            خوف اور شرم سے اس نے اپنے میاں کا  ننگا جسم دیکھا جو اس نے اس کی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ اس کے دو بچوں کا باپ تھا اور تیسرا اس کے پیٹ میں تھا۔اب اس کی روح اس کے جسم سے الگ ہو گئی تھی۔ان کا تعلق دو ایسی پٹڑیوں کی مانند تھا جیسے وہ ساتھ ساتھ تو چلتی تھیں لیکن کبھی مل نہیں پاتیں۔وہ اس سے اس کے ناروا سلوک کی وجہ سے اس سے نفرت کرتی تھی۔اسکا رستہ وہ نہیں تھا جو والٹ کا تھا۔اس نے اسے دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔وہ جس طرح کا تھا اس کی اصلیت کا احساس اسے اب ہوا تھا۔اس نے بیوی کو کبھی انسان ہی نہیں سمجھا تھا۔وہ اسکی موت کی مشکور تھی کہ اس نے اسے حقیقت سے  روشناس کروا دیا تھا اور وہ یہ جانتی تھی کہ وہ ابھی زندہ تھی اور اسے ہی تمام عواقب کا سامنا کرنا تھا۔وہ غم سے جامد ہو گئی۔اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
            اس کے ساتھ ساتھ الزبتھ کے دل  کے کسی گوشے میں اس کے لئے رحم کا جذبہ بھی ظاہر ہو رہا تھا کیونکہ والٹ کی زندگی بھی کانٹوں کی سیج  رہی تھی۔اس نے بھی بہت دکھ اٹھائے تھے۔اس بے بس آدمی نے بھی سخت حالات جھیلے تھے۔اس کی اس حالتمیں وہ اس کی کسی طرح بھی مدد نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے بچے تھے۔ وہ حقیقت تھے۔ اسے ان کا خیال رکھنا تھا۔اسے ان کے لئے جینا تھا۔ وہ ان کی ذمہ داری تھے۔ وہ یہ کیسے نبھا پائے گی۔  یہ سوچ کر اس کا دماغ شل ہو گیا تھا۔والٹ ان سے جان چھڑا چکا تھا۔اب اس کا ان بچوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہ گیا تھا۔وہ دونوں انہیں اس دنیا میں لانے کا باعث تھے۔وہ اپنی ماں کی ھیثیت خوشی سے تسلیم کرتی تھی، وہ ان سے پیار کرتی تھی لیکن بیوی بننا خوفناک تجربہ تھا۔ جب بھی وہ بطور بیوی اپنا کردار یاد کرتی تو اسے شرم بھی آتی اور غصہ بھی۔یوم آخرت میں وہ اس کے لئے اجنبی ہو گا۔زندگی میں وہ ایک دوسرے کو رد کر چکے تھے۔اب وہ اس ماحول سے نکل گیا تھا۔اب سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ان کے درمیان اس کے مرنے سے مایوسی اور نا امیدی چھا گئی تھی۔ اگرچہ  وہ اس گھر کا مرد تھا لیکن ان کے مابین تعلق نہ ہونے کے برابر تھے۔ کیا
             تمہیں اس کی قمیص مل گئی؟  بوڑھی عورت نے پوچھا۔اس نے اسے دیکھا لیکن کوئی جواب نہ دیا۔ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ ابھی بھی اپنے بیٹے کی موت پر رو رہی ہو گی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ اٹھی، کچن گئی اور قمیص لے آئی۔
            قمیص خشک ہو گئی تھی۔اس نے سوتی قمیص کو پھیلا کر دیکھا اور کہا کہ وہ سوکھ گئی ہے۔وہ میت پر قمیص ڈالنے لگی تو وہ سوچنے لگی۔ وہ یہ کیوں کر رہی ہے؟اب اس کے ساتھ اس کا کیا تعلق رہ گیا ہے؟وہ اب اس کے لئے وہ غیر مرد تھا۔اسے چھونے کا حق کھو بیٹھی تھی۔پھر بھی اس نے بوجھل دل کے ساتھ بھاری جسم پر مشکل سے اسے کپڑے پہنادئیے۔
            بالآخرسب کام ختم ہو گیا۔انہوں نے اس کے اوپر چادر ڈال دی اور اسے وہیں رہنے دیا۔اور اس کے چہرے کو کپڑے سے باندھ دیا کیونکہ اس کا جبڑا کھل گیا تھا۔اس نے دیوان خانے کو بند کر دیا تا کہ صبح بچے نہ دیکھ سکیں کہ وہاں کیا پڑا ہے اور بد دلی سے کچن کی صفائی کرنے لگی۔اس نے زندگی کے آگے حوصلہ ہار دیا۔اب اسے نئے حقائق کا سامنا کرنا تھا اور والٹ کو یکسر بھلا نا تھا۔جانے والا تو چلا گیا اسے   آ زما ئش میں ڈال گیا۔


           تجزیہ


            گل داؤدی کی مہک ایک دن کے واقعات پر مبنی کہانی ہے جو  ایک خاندان کے لئے یوم محشر ہے۔ یہ دن  انکے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن نے ان کی حیات کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ واقعات ایک لڑی میں ایسی خوبصورتی سے پروئے گئے ہیں کہ خاندان کی پوری زندگی کے حالات کا علم ہو جاتا ہے۔یہ الزبتھ ا بیٹس اور والٹربیٹس کی زندگی پر محیط ایک داستان ہے جس میں ان کی عائلی زندگی کا کچا چٹھا سامنے آ جاتا ہے۔ اس میں خاتون کی دو جذبیت کا اظہار بہت عمدگی سے کیا گیا ہے۔ اس کی جذباتی حالت ایک وقت تولہ، ایک وقت ماشہ دکھائی گئی ہے۔ کبھی اسے اپنے میاں پر پیار آتا ہے اور کبھی وہ اس سے شدید نفرت کرتی دکھائی دیتی ہے۔اس کا دماغ کام نہیں کر تا۔ اسے صحیح  فیصلہ کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔اس کے سامنے پہاڑ جیسی زندگی ہے، اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اسے کیسے بتائے گی۔
            ڈی۔ایچ لارنس نے اس کشمکش کو علامتی انداز میں گل داؤدی  کے روپ میں پیش کیا ہے۔وہ اس کے ذریعے نرم گرم یادوں کی وضاحت کرتا ہے۔ شادی، پہلے بچے کی پیدائش اور موت پر اس پھول کا ذکر ان میں نمایاں  طور پر کیا گیا ہے۔ گل داؤدی بہت سے معاملات میں اہم شمار کیا جاتا ہے۔جن میں اہم درج ہیں۔
            گل داؤدی کی حیثیت  آفاقی ہے۔
            برطانیہ میں ملکہ وکٹوریہ نے اس پھول کو لوگوں کی دوستی اورفلاح و بہبود کی علامت قرار یاتھا۔  جاپان کے شاہی خاندان کی نمائندگی کرتا ہے۔
            نیو آرلین میں یہ مرے ہوئے لوگوں کی یاد اور عقیدت ظاہر کرنے کے طور پر لیا جاتا ہے۔
             چین میں علوم و فنون کی ستا ئش کے اظہار کے طور پر لیا جاتا ہے
             امریکہ میں  یہ خوشی اور خوبصورتی کا پیغام دیتا ہے۔
             آسٹریلیا میں مدرز ڈے پر ماں کو تحفے کے طور پر دیا جاتا ہے۔
            اس کہانی میں گل داؤدی کی اہمیت عینی، جان، والٹر اور الزبتھ کے لئے مختلف ہے۔ان کی  اس پھول سے  وابستگی ان کی عمروں، شخصی وصائف اور نجی تجربات کی بدولت الگ الگ  ہے۔
             جان ابھی بچہ ہے اس کو کھیل کے انداز میں لیتا ہے۔ وہ گل داؤدی توڑتا ہے اور  پھول کی پتیاں توڑ توڑ کر پھینکتا جاتا ہے۔ماں اسے ایسا کرنے سے روکتی ہے لیکن ناسمجھی کی وجہ سے اسے اس کی اہمیت کا علم نہیں۔
            عینی اسکی خوبصورتی کو سراہتی ہے، اسے دوستی،  خلوص، محبت اور وفا کے معنوں میں لیتی ہے۔ وہ اس کی خوشیو میں دلکشی محسوس کرتی ہے۔ اس میں رومانیت تلاش کرتی ہے۔عینی گل داؤدی کو خوش اخلاقی اور مثبت اقدار کے فروغ کے طور پر لیتی ہے۔اسکے سنہری،گلابی، عنابی،سرخ، قرمزی،پیلے،سنگتری ر نگوں سے اسے پیار ہے۔ وہ پہلے تو ماں کے ایپرن سے پھول کی خوشبو سونگھتی ہے۔ جب ٹہنی ماں کے ایپرن سے گر جاتا ہے تو وہ اسے پھر سے وہاں اٹکانے کی کوشش کرتی ہے۔ جب ماں نہیں مانتی تو اس کی خوشبو کو دیرپا رکھنے کے لئے گلدان میں سجا دیتی ہے۔
            والٹر کے نزدیک اس کی اہمیت رسمی اور روائتی ہے۔ وہ مطلب پرست اور سطحی شخصیت کامالک ہے۔ مکاری اور عیاری سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مخلص، تعلقات میں پائیداری اور مثبت تعلقات چاہتا ہے۔ اپنی شادی پر اس کے اظہار کے لئے وہ اپنی بیوی کو  اور عینی کی پیدائش پر نشے میں دھت ہو کراپنی قمیص کے کاج میں پھول پیش کرتا ہے لیکن اس کے پیچھے خلوص، وفا اور محبت نہیں ہوتے بلکہ وہ محض دکھاوا ہوتا ہے کیونکہ اس کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔
             الزبتھ کے نزدیک اس کی خوشبو موت اور سرد جذبات کی علامت ہے۔اس کے خاوندنے شادی اور عینی کی پیدئش پر گل داؤدی دینے کے بعد جوناروا سلوک اس سے اور خاندان سے کیا اس سے  اسکی گل داؤدی کی مقناطیسیکشش کم ہو جاتی ہے۔بصورت دیگر وہمثبت اقدار پر یقین رکھتی ہے۔وہ اسے تبدیلی اور عظیم انقلاب کی علامت سمجھتی ہے۔ والٹر کی موت پریہ پھول سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ خاوند کی موت پر گل داؤدی سے سجا گلدان ٹوٹ جاتا ہے تواس کی لاش فرش پر رکھنے سے پہلے گل داؤدی کو چن چن کر صاف کرتی ہے۔اس کے چھوڑ جانے کے بعد وہ اپنی انقلابی زندگی کا مقابلہ کرنے کا عزم کرلیتی ہے۔جو اس بات کی علامت ہے کہ اس نے سابقہ زندگی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔اسکے خاوند نے وعدوں، رسموں اور وفاسے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور نئی زندگی میں دوستی، وفا، محبت جیسے نفیس احساسات  کی نئی زندگی میں متلاشی نظر آتی ہے۔ سوچتی ہے کہ اس کے مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ 
            ڈی۔ایچ لارنس نے اس کہانی میں گل داؤدی کی مہک لطیف پیرائے میں بیان کی ہیں۔ قاری غور کرے تو اس میں اسے اس کی تمام علامات مل جاتی ہیں۔اس میں اپنے دوستوں کی وفاداری اور محبت بھی دکھائی دے گی خصوصاً اس جب وہ ایسے مراحل سے گزر رہے ہوں جب ان کی زندگی میں کوئی اہم تبدیلی رونما ہو رہی ہو۔اس میں تعلقات میں مضبوطی کے اظہار بھی نظر آتا ہے۔باہمی روابط میں مضبوطی اور کمزوری بھی دیکھی جا سکتی ہے۔مثبت  اور منفی جذبات بھی ہیں۔ دائمی دوستی بھی ہے غیر رومانی احسا سات بھی موجود ہیں۔دکھی، غمزدہ اور بے بس لوگوں کو تکلیف میں راحت دینے اور انہیں خوشی دینے کا مداوا بھی کرتے ہیں۔ زندگی کے مشکل ادوار میں حل بھی پیش کرتا ہے۔وفادای اور عقیدت کے اظہار بھی کرتا ہے۔ والد کا رویہ، پڑوسیوں اور رفقائے کار کے سلوک، ماں،بیوی اور اپنے بچوں کی آرا سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔
            ڈی۔ایچ۔ لارنس نے گل داؤدی کو  الزبتھ اور والٹر کی زندگی کے مختلف ادوار میں شیریں، ترش اور تلخ  واقعات کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ان کی عائلی زندگی کے مختلف چوراہوں پر جس طرح کے واقعات سے وہ گزر رہے ہوتے ہیں، کی نسبت سے اس کا اظہار کیا ہے۔مثال کے طور پرجب ان کی شادی  ہوئی تو گل داؤدی کا موسم تھا۔شادی کے موقعہ پر اس نے پہلی بار اسے گل داؤدی کا تحفہ پیش کیا۔ یہ موقعہ خوشی کا تھا جس میں والٹر نے اس سے محبت اور وفاداری جتائی تھی جو آہستہ آہستہ ختم ہو گئی۔
            گل داؤدی کو مسز بیٹس کے گل داؤدی کے پھول توڑنے کی بجائے ٹہنی توڑنا اس بات کی علامت ہے کہ اسے ساتھ کوئی ناگوار پہلو وابستہ ہے۔غربت سے نیچے رہنے والے خاندان کی مشکلات کا ایک نقشہ بیان کیا گیا ہے۔زندگی کو بمشکل گھسیٹتا ہوا خاندان اس وقت مزید بڑے بحرن کا شکار ہوا جب گھر کا کماؤ حادثے میں مارا گیا۔بیوی کے جذبات و احساسات کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔حسین پیرائے میں دو جذبیت بیان کی گئی ہے۔کبھی اسے مرے ہوئے شخص پر پیار آتا ہے اور کبھی اس سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔
            گل داؤدی کی مہک علامتی طور پر اس وقت بھی محسوس کی جاسکتی ہے جب وہ درخت سے ٹہنی توڑ کر پھول اپنے ایپرن میں لگا دیتی ہے۔اس وقت اسے ا پنی عائلی زندگی کی  وہ اچھی باتیں یاد آتی ہیں جب اس کے بچے پیدا ہوئے تھے اور وہ انہیں پیار کرتی تھی جبکہ اس کے ساتھ اپنے خاوند کی یاوہ گوئی اور چیرہ دستیاں بھی یاد آتی ہیں۔اس کی شادی کی تلخیاں بھی یاد آنے لگتی ہیں۔    
             الزبتھ کا  باپ کی عملی زندگی کے بارے میں رائے لارنس کے فلسفے کے بڑے موضوعات میں سے ایک موضوع ہے۔وہ یہاں یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ شادی محبت اور روحوں کے ملاپ کا نام نہیں بلکہ یہ خلوت  دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ تنہائی دور کرنے اور ساتھی بنانے کے لئے کی جاتی ہے۔الزبتھ مثا لی دنیا میں رہ رہی ہے۔ اسے اپنے باپ کا شادی کرنا اچھا نہیں لگا۔خاص طور پر اس وقت جب اسکی بیوی کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا۔
            اس کے علاوہ بھی ڈی۔ایچ۔ لارنس نے جگہ علامات استعمال کی ہیں۔جن میں اہم درج ہیں۔
            مزدوروں کے کوئلے کی دھڑ سے بنے ڈب کھڑبے کالے چہرے پس قدمی اور موت کے اندھیرے کی علامت پیش کر رہی تھیں۔
            بجھتی ہوئی آگ کا تعلق چائے کے ٹھنڈے ہونے سے ہے۔ازدواجی تعلقات خاوند دکی عدم دلچسپی کی وجہ سے ناکام ہو جاناتھا۔ آگ بجھنے سے گھریلو جوش و خروش بھی ختم ہو جاناتھا۔اسی طرح ان کے گھرمیں لیمپ جلانے کاتعلق والٹر کے گھرواپسی سے ہے۔اگر وہ نہیں جلتا تو گھر بھی سرد رہتا تھا۔ خاندان اکٹھا ڈنر کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔آگ بجھنے پر گھریلو جوش و خروش بھی ختم ہو گیا تھا۔اس گھر میں لیمپ روشن کرنے کا تعلق بھی والٹر کے آنے سے پہلے پہلے آتش دان گرم کردیا جاتا تھا اور لیمپ جلا دیا جاتا تھا۔ آگ کے بجھنے کا مطلب یہ تھا کہ محدود وسائل کے تحت کچن ایک خاص وقت کے لئے ہی جلائی جاتی تھی۔
            والٹر کے گھر آنے پر کڑوے کسیلے تبصرے الزبتھ میں کوفت پیدا کرتے تھے۔گھر ٹھنڈا ہونے سے مراد اس کے ساتھ سرد مہری تھی، وہ اس کو محبت کی سر گرمی نہیں دکھاتی۔اور دوسرا یہ کہ الزبتھ اتنا سا بھی کام نہیں کر سکتی کہ اس کے لئے گھر گرم رکھ سکے۔جو اس کے لئے موزوں گرم جوشی نہیں نہیں دکھاتی تھی۔ آتش دان میں گرمی نہیں ہوتی تھی جبکہ شراب خانہ گرم ہوتا تھا اور وہاں اس کی پذیرائی زیادہ ہوتی تھی۔
            جان  بھی باپ جیسا ہوتا جا رہا  تھا۔ اس نے بھی عینی کو آگ سستی سے جلانے پر اسی طرح کی شکائت ک
            مسز بیٹس کے حمل کے بارے میں روشنی پیش کر کے بیان کیا۔کہ آنے والا بچہ اس کی محبت کی نشانی ہو گا لیکن حقیقت میں اس کے لئے خوشی کی کوئی بات ہی نہیں تھی۔
            مسز بیٹس اور عینی کے والٹر کے بارے میں جذبات و احساسات مختلف تھے۔مسز بیٹس تمام تر برائیوں اور گھر میں خرابی کی جڑ اپنے خاوند کو قرار دیتی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ مزید شراب نوشی کرنے لگاتھا۔سارا قصور  والٹر کا تھا۔غربت کے باوجود وہ پیسے فضول میں اڑا دیتا تھا جبکہ عینی باپ کی طرف داری کرتی تھی۔
            قصہ مختصر گل داؤدی کی مہک ایک عمدہ کہانی ہے جسے ایک نشست میں پڑھا جا سکتا ہے۔

Popular posts from this blog