پل کے اُس پار (Across the Bridge) Garaham Greene





                      

  

                        

پل کے اُس پار

  (Across the Bridge)

      Garaham Greene    

                            (1904-1991   -  UK)                                

         

مترجم و تجزیہ: غلام محی ا الدین

 

میں اور میری نئی دوست لوسیا میکسیکو کے اس  طویل پُل پر بیٹھے تھے جس کی دوسری طرف امریکی سرحد تھی۔ یہ پل ایک دریا 

پر بنا ہوا تھا اور کئی میل لمبا تھا۔ میکسیکوکے اس طرف والے پل والے قصبے میں گندے اور سستے ہوٹل، موٹل،  منی ایکسچینج کی 

دکانیں،ادویات کی دکانیں، گروسری سٹور اور سینما ہی سینما تھے۔ ضرورت کی ہر چیز مل جاتی تھی لیکن گھٹیا، گندی اور مضرِ 

صحت ہوتی تھی۔ میکسیکو کے اس حصے میں امریکی علاقے میں جانے کے لئے مسافروں کو ایک آدھ رات کے لئے رُکنا پڑتا تھا۔ 

پل کے اس پار پارک بھی تھے۔ جگہ جگہ بینچ پڑے ہوئے تھے۔ پل کے دوسرے سرے پر سرحد تھی جہاں امریکہ کا قصبہ 

تھا۔ وہاں سب سہولیات اس کے برعکس تھیں وہاں بیس بیس منزلہ عمارات تھیں، خوبصورت ہوٹل اور مال تھے۔ میکسیکو کے 

حصے پر انتظار کرنے والے لوگ بڑی حسرت سے امریکی سرحد کی طرف دیکھتے رہتے تھے کہ شاید انہیں وہاں جانے کا موقعہ مل

 جائے اور وہ خوشی حاصل کر سکیں۔ پل کے اس حصے میں جو کہ میکسیکو میں تھا،  رشوت کے لیے پیسے ہوں تو وہاں سفارشیں 

حاصل کرنا، گورنر، وزرا اور ارباب اقتدارسے کام نکلوانا بہت آسان تھا۔ امریکہ سے نکالے گئے لوگ یا مجرم بھی بعض اوقات 

بھاگ کر سرحد پار کرکے میکسیکو آجاتے تھے۔ میکسیکو بہر حال ایک آزاد اور خود مختار ملک تھا اس لئے ایسے لوگوں کے لئے جو

 امریکہ کو مطلوب تھے واپس امریکہ لے جانے کے لیے سرکاری کاروائی میں مہینوں لگ جاتے تھے اور وہ جانتے ہوئے، دیکھتے 

ہوئے بھی ان کواس وقت تک گرفتار نہیں کر سکتے تھے جب تک میکسیکو کی حکومت اسے تحریری اجازت نہ دیتی۔

 

میکسیکو کی سرحد پر ایک اور نمایا ں خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہرقسم کے مجرم کو پناہ دے دیتی تھی۔ اگر کوئی مالدار مجرم ہوتا تو 

اس کی عزت بھی کی جاتی  تھی۔ وہ اس کے پیسوں سے مرعوب ہو جاتے تھے۔ جبکہ انگلستان، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں

 میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔مسٹر کیلوویے  امریکہ سے بھاگ کر میکسیکو والے حصے میں آگیا تھا۔  وہ اپنے کتے کے ساتھ یہاں کئ

ی ہفتوں سے مقیم تھا۔  پہلے پہل کسی کو اس کے فراڈ کا پتہ نہیں تھا۔ بعد میں ہر ایک کو اس کا پتہ چل گیا۔

 

 لوسیانے مسٹر کیلووے کو دیکھا۔  وہ ایک غلیظ بینچ پر بیٹھا میکسیکو کا اخبار پڑھ رہا تھا۔ میکسیکو میں ہسپانوی زبان بولی جاتی تھی 

اس پار صرف ہسپانوی زبان کے اخبار ملتے تھے۔ وہ اخبار ضرور لیتا اور غور غور سے اسے پڑھنے کی کوشش کرتا۔ اسے صرف 

انگریزی آتی تھی۔ اس کے پاؤں میں اس کا کتا بیٹھا ہوتا تھا۔وہ اپنے کتے سے بہت پیارکرتا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک دوسرے

 کی طرف محبت بھرے انداز میں پیار کا اظہار کرتے رہتے تھے۔یہاں جانوروں کو مارنا ممنوع تھا اس سے گرفتاری ہو سکتی تھی

 وہ اخبار ایسے پڑھا کرتا تھا جیسے میں پڑھتا تھا۔ ہسپانوی زبان کے اخبار میں انگریزی کے الفاظ دیکھتا  تھااور ان کی مدد سے اندازہ

 لگا لیتا کہ خبر کا متن کیا ہوگا۔ لوسیا بولی کہ کیلووے پچھلے ایک ماہ سے وہ پل کے میکسیکو والے حصے میں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس 

نے کوئی بڑا ہاتھ مارا تھا۔ یا اسے گوئٹے مالا یا ہنڈرا س سے  نکال دیا گیا تھا جو یہاں آگیا تھا۔

 

جب کوئی میکسیکو کے قصبے میں آتا  تو کوئی بات پانچ گھنٹوں سے زیادہ نہیں چھپائی جا سکتی۔ لوگوں کو اندازہ تو تھا کہ کوئی گڑبڑ 

تھی لیکن ابھی تک حتمی طور پر ان کو پتہ نہیں تھا کہ اس نے کو ن سی واردات کی تھی۔ یقیناً غیر قانونی کام تو کیاتھا جو یہاں

 پڑا تھا۔ سب  یہ جانتے تھے کہ وہ کروڑ پتی تھا اور کنجوس تھا۔

         

مجھے اس قصبے میں آئے ہوئے دو ہفتے ہو چکے تھے۔ لوسیا کو مسٹر کیلووے کے بارے میں اتنا پتا تھا کہ وہ ایک مہینے سے میکسیکو 

کے قصبے والے پل میں رہ رہا تھا۔ گندے بینچ پر اپنے کتے کے ساتھ سکون سے بیٹھا ہوا یکا یک وہ اس وقت بے چین ہوگیا 

جب ایک شخص نے غلطی سے کتے کی دم پر پاؤں رکھا۔ دکانوں میں ہسپانوی زبان میں اونچے اونچے گانے بج رہے تھے۔ لوسیا 

کا ایک پرانا دوست مسٹر جوزف مسٹر کیلووے کے بارے میں اس سے زیادہ جانتا تھا۔ اس نے بتایا کہ مسٹر کیلووے نے امریکہ میں ایک ٹرسٹ بنایا تھا۔ اس کے شیئرز فروخت کرکے حصہ داروں کے لاکھوں ڈالر لوٹ کر بہی کھاتوں سے بھاگ ہا تھا۔

         

مسٹر کیلووے اور اس کے کتے کے پاس ایک لڑکا بار بار اس کے جوتے پالش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اسے زیادہ تر بھگاد 

یتا۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے منع کرتاکیونکہ اس کے پاس منع کرنے کے الفاظ ہسپانوی میں نہیں آتے تھے۔ لوسیا اور میں 

اگرچہ اس کے ساتھ والے بینچ پر تھے لیکن ہم نے اسے نہیں بتایا کہ ہمیں انگریزی آتی تھی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ مسٹر 

کیلووے اٹھا اور قصبے کی ایک دکان سے بیئر کی بوتل لی اورا امریکہ جانے والی گاڑیوں کو بڑی حسرت سے دیکھتا رہا۔  وہاں سے 

منی ایکسچینج گیا اور کچھ پیسے تڑوائے۔

         

آپ اس بات میں ضرور دلچسپی رکھتے ہوں گے کہ میں ایسی گندی جگہ پر کیوں گیا تھا۔ یہاں بوسیدگی، غربت، گندگی، گرد و

 غبارا تھا۔ گندی اور غیر معیاری اشیاء کی مارکیٹ تھی، سینما ہالوں میں فضول فلمیں چل رہی تھیں۔ میں اس لئے یہاں تھا کیونکہ 

میں ایک  قافلے کے ساتھ سیرو سیاحت کے لئے امریکہ جانا چاہتاتھا۔  امریکہ میں تفریحی مقاصد کے لئے داخلہ ذرا آسان تھا 

اور میں ان کے آنے کا انتظار کر رہا تھا جبکہ لوسیا اپنے پرانے بوائے فرینڈ کا انتظار کر رہی تھی جس نے اسے امریکہ لے جانا 

تھا۔ چونکہ ہمیں کوئی کام نہ تھا اس لئے ہم مسٹر کیلووے کی تمام حرکات نوٹ کر رہے تھے۔

         

مجھے حقیقی علم تو نہیں لیکن قیاس یہ تھا کہ اس کے ٹرسٹ کے شراکت دار اس کے خلاف قانونی چارہ گوئی کر رہے تھے وہ دم 

دبا کر بھاگ را تھا۔۔ انگلینڈ کی عدالت نے اس پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔ اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے 

تھیاور اس کی  حکومت امریکہ پر زور دے رہی تھی کہ اسے گرفتار کر کے جلاوطن کیا جائے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے لگا 

کہ مسٹر کیلووے نے اپنے کتے کو دولتی ماری۔ جانوروں کے ساتھ ایسا سلوک پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ قصبہ جیسا بھی تھا لیکن 

یہ باات طے تھی کہ جانوروں پر ظلم کرنا جرم تھا اور جرم کرنےٹھوکر کو نظر انداز کر دیا۔

         

ہم نے دو پولیس والوں کو امریکہ سے آتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک ایسے شخص کی تلاش میں آئے تھے جس نے مالی معاملات میں

 خرد برد کی تھی۔ امریکی ایجنسیوں نے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ مسٹر کیلووے پل کے میکسیکو والے قصبے میں چلا گیا تھا۔ وہ اسے

 ڈھونڈنے اور گرفتار کرنے آئے تھے۔ ان کی اس بات سے ہمیں علم ہوگیا کہ مسٹر کیلووے بھگوڑا تھا جو یہاں حکام بالا سے ملاقاتوں کے بعد اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنا چاہتا تھا۔ امکان تھا کہ اس نے  گورنر،  وزرااور دیگر حکام سے ملاقاتیں کر کے مراعات حاصل کر لی ہوں۔ آس پاس کے تمام لوگوں کو پتہ تھا کہ مسٹر کیلووے کون ہے اور کہاں ہے ماسوائے  سراغرسانوں کے۔

         

دو جاسوس اس کے آبائی ملک سے اس کے کھوج میں آئے تھے۔ قانونی طور پر میکسیکو کی حکومت سے اس کی جلاوطنی کے

 احکاماتلے کر اس کو گرفتار کرکے واپس برطانیہ لے جانا چاہتے تھے۔  جب تک آرڈر ہاتھ میں نہ آتا وہ اسے گرفتار نہیں کر سکتے

 تھے بلکہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے تھے اور کسی نے بھی ان کے بارے میں  خبر نہ دی۔  دونوں پولیس والے آپس 

میں گفتگو کر رہے تھے کہ کیلووے اتنی گندی جگہ پر کیوں ٹھہرا ہوا تھا۔  ان دونوں نے مجھ سے مسٹر کیلووے کے بارے میں

 دریافت کیا۔

         

وہ کہیں اِدھر اُدھر پھر رہا ہوگا، میں نے جواب دیا۔ کیا  تم  اس کی نشاندہی کرسکتے ہو؟  پولیس مین نے پوچھا۔ 

         

میں اسے شکل سے نہیں پہچانتا،   میں نے جھوٹ بولا۔

         

میں نے دیکھا کہ کیلووے نے پلازا سے بیئر کی بوتل لے کر پی اور وہیں ایک جگہ بیٹھ گیا۔ وہ ٹائم گزارناچاہتا تھا کیونکہ اس

 کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔

         

میں نے بھی اپنی بیئر فوراً ختم کی اور لوسیا کے پاس گیا اور کہا کہ ہم جلد ہی ایک گرفتاری دیکھنے جا رہے تھے۔ ہمیں اس بات

 کی پرواہ نہیں کہ کیلووے نے اپنے لوگوں کو دھوکا دیا تھا اس لئے گرفتار کیا جائے گا بلکہ اس بات پر حیرت تھی کہ پولیس 

والوں نے اسے ا بتک کیوں نہیں پہنچانا تھا۔ وہ اس کی شکل و صورت سے لاعلم تھے۔  اتنے میں درجنوں ریڑھی والے وہاں

 آگئے اور ہمیں وہاں سے ہٹنا پڑا۔ ہم نے دیکھا کہ کیلووے اور پولیس والے ایک دوسرے کے ساتھ مختلف بینچوں پر بیٹھے تھے 

اور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔  حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ کیلووے پر بالکل بھی شبہ نہیں کر رہے تھے۔ کیلووے بوڑھا 

تھا اور ان کے پاس اس کی ضوانی والی تصویر تھی۔ وہ شاید کسی نوجوان کو کیلووے سمجھ رہے تھے۔

ایک پولیس میں اٹھا اور کیلووے کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا۔ کیا تم انگریزی جانتے ہو؟   

میں انگریز ہوں۔۔ یہ جگہ بہت بورنگ ہے۔ کیلووے بولا۔  

ہاں یہ تو ہے۔پولیس مین بولا۔ یہ سمجھ نہیں پایا کہ ہر کوئی اس پل والے قصبے میں کیوں اُٹھ آتا ہے؟  پولیس نے بات جاری 

رکھتے ہوئے کہا۔        

ہاں۔  کیلووے بولا۔

میں یہاں آکر یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہاں ہر قسم کی دونمبری  والی سہولیات  دستیاب ہیں، تم تو جانتے ہو گے۔ پولیس مین 

بولا۔

اوہ  بے شک! یہاں ہر چیز مل جاتی ہے،   کیلووے بولا۔

تم اپنے ملک کو اس وقت تک یاد نہیں کرتے جب تک تم اسے نہیں چھوڑتے۔پولیس مین بولا۔

سچ  بالکل صحیح کہا،  کیلووے بولا۔

         

پہلے تو دونوں نے اس بات پر قہقہہ لگایا پھر کیلووے ان تمام چیزوں کو حسرت سے دیکھتا اور سوچتا رہا جو پل کے دوسرے پار 

ہو رہی تھیں۔ کاک ٹیل، سینما ہال، تھیٹر، عمدہ ہوٹل، عمدہ کھانے وغیرہ پل کے دونوں سمت اور دیگر امور کی نوعیت ایک 

جیسی ہی تھی۔فرق صرف کوالٹی کا تھا۔ وہاں کثیر المنزلہ عمارات تھیں،  ہوٹل خوبصور ت، زندگی لش پش تھی اور بے حد 

مہنگی تھی۔ آرٹ گیلریاں، بک شاپ پل کے اس پار نہیں تھیں جبکہ امریکہ کی طرف ان کے بڑے بڑے سٹور تھے۔

 

میں دوپہر کے کھانے سے پہلے چہل قدمی کرنا پسند کروں گا۔ تمہیں یہاں خوراک ہضم کرنے کے لئے بھوک چاہیے۔ میں پل

 پر سیر کرنا چاہتاہوں۔ کیا تم میرے ساتھ چلنا پسند کروگے۔ مسٹر کیلووے بولا۔

نہیں۔۔ میں ڈیوٹی پر ہوں اور ایک شخص کی تلاش میں ہوں،  پولیس مین بولا۔ اس نے دل میں کہا کہ میں ایسے شخص کے

 پیچھے ہوں جسے تمام دنیا تلاش کر رہی ہے جس کو شراکت دار ڈھونڈ رہے ہیں۔ تمام لوگ اس خزانچی کو ڈھونڈ رہے تھے جس 

کے پاس انہوں نے نفع کمانے کے لیے زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگا دی تھی۔

         

لوسیا  اور میں نے ان پولیس والوں کو آخری بار ان گندے بینچوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا جبکہ کیلووے کو میڈیکل سٹور پر 

جاتے ہوئے اور پھر اپنے کتے کے ساتھ پل پر واپس آتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے بعد وہ جانے یک دم کہاں غائب ہوگیا تھا۔

 ہم اور دوسرے لوگ آپس میں پولیس والوں کی موجودگی سے بے خبر کیلووے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اور انہوں 

نے وہ گفتگو سن لی۔ یہ بات سن کر کہ وہ جس کے ساتھ کچھ دیر پہلے باتیں کر رہے تھے وہی مطلوبہ شخص تھا،  بے حد 

شرمندگی محسوس کی۔ بینچ پر بیٹھے لوگوں کو تاڑا اور غائب ہوگئے۔    

    

ہم نے پولیس والوں اور کیلووے کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع کر دیں کہ ہو سکتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے وسائل 

استعمال کرتے ہوئے گورنر، وزرا یا مقتدر شخصیتوں سے مل رہے ہوں۔ کیلووے اس لئے اس کی گرفتاری کے احکامات جاری نہ 

کئے جائیں اور پولیس میناس لئے کہ انہیں کیلووے کو گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے۔ وہ چونکہ کروڑ پتی بھی تھا اور مجرم 

بھی، اس لئے میکسیکو میں اس کی زیادہ پذیرائی ہوئی ہوگی۔ تاہم  وہ دونوں ایسے غائب ہوگئے تھے جیسے گدھے کے سر سے

 سینگ۔

 ایک ہفتے  ہم نے مسٹر کیلووے اور پولیس والوں کو الگ الگ بسوں سے اترتے دیکھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ پولیس 

والے گورنر سے اس کی گرفتاری کے احکامات ابھی تک حاصل نہیں کر سکے تھے تاہم اس کی نگرانی کے لئے اس پر نظر رکھی

 ہوئی تھی کہ کہیں وہ بھاگ نہ پائے۔  اس دن لوسیا بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ اسے لینے کے

 لیے آگیا تھا،  اس نے امریکی سرحد پر مجھے الوداع کہا۔  وہ اس وقت بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

         

کوچ سے اتر کر مسٹر کیلووے گندے بینچ پر اپنے کتے کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس وقت وہ بہت شکست خوردہ لگ رہا تھا۔ وہ کسی کی 

موجودگی سے بے نیاز بیٹھا تھا ورنہ اس کی عادت تھی کہ ارد گرد بیٹھے لوگوں کو مسکرا کر خوش اخلاقی سے سلام دعا کرتا تھا۔ وہ 

اپنے آپ میں گم تھا اور تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ کتا اس کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ یکا یک اس نے جھنجھلا کر کتے کو زور سے پہلے

 کی طرح لات ماری اور عین اسی وقت میکسیکو پولیس گشت کرتی ہوئی آئی۔ ہم نے سوچا کہ شاید انہوں نے اس کو جانور پر ظلم

 کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے اور وہ اسے گرفتار کر لیں گے کیونکہ جانوروں پر ظلم میکسیکو میں ناقابل برداشت تھا یا تو پولیس والوں 

کی نظر سے اس کا ظلم نہیں گزر ا یا پھر انہوں نے نظر انداز کر دیا تھا اور وہ کار آگے بڑھا گئے۔

مسٹر کیلووے نے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ تم سرحد کے پار کیوں نہیں جاتے؟

یہاں چیزیں سستی ہیں، میں نے جواب دیا۔ میں پورا دن یہاں گزار کر یعنی کھا پی کر،  عیش کرکے، اور  سیر کرکے سو جاتا 

ہوں۔

یہاں سے چلے جاؤ،  یہ جگہ چھوڑ دو،  یہ اچھی جگہ نہیں۔ کیلووے نے پہاڑ کے نیچے دیکھتے ہوئے صلاح دی کہ وہاں چلے جاؤ۔ 

شاید اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس طرف صرف میکسیکو کے منی ایکسچینجر ہیں۔

یہ جگہ بہت سستی ہے، کیا تم وہاں اس لئے نہیں جاتے کہ وہ مہنگا ہے؟  میں نے پوچھا۔

یہ بات تو ہے۔ لیکن یہاں مشکل یہ ہے کہ میں ہسپانوی زبان نہیں جانتا اس لئے میرے لئے یہاں رہنا دشوار سے دشوار تر 

ہوتا جا رہا ہے اور میں صرف انگریزی ہی جانتا  ہوں۔   کیلووے بولا۔

پل کے اس حصے میں ہر کوئی انگریزی جانتا ہے،  میں نے اسے مطلع کیا۔

وہ یہ بات سن کر بے حد حیران ہوا اور پوچھا کیا ایسا ہے؟

اس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے ایک مہینے کے قیام میں کسی سے بات ہی نہیں کی۔ میں پچھتایا کہ میں نے اسے یہ کیوں 

بتایا۔ اگر اسے یہ خبر نہ ملتی تو وہ ہمیشہ اسی گندے بینچ پر بیٹھ کر اپنے بوٹ صاف کرتا رہتا۔  اس لڑکے کو جو اس کے پاس 

جوتے پالش کے لئے آتا تھا، بھگاتا رہتا اور سوچتا رہتا  یا ہسپانوی زبان کے اخبار ات دیکھتا رہا۔

         

وہ تین دن مزید اسی طرح ہر روز اسی گندے بینچ پر بیٹھا رہا۔ ایک دن اس کا کتا غائب ہوگیا تو میں نے اسے آہستہ آہستہ آواز

 میں اپنے کتے کو پکارتے سنا۔ وہ پریشانی سے اسے اِدھر اُدھر ڈھونڈ رہا تھا۔  ہ غصے میں بھی اور شرمندگی کے ساتھ اس کی تلاش 

میں مارا مارا پھر رہا تھا۔  ڈھونڈتے وقت وہ یہ بڑ بڑا رہا تھا کہ میں اس کتے سے نفرت کرتا ہوں،  یہ وحشی اور مخلوط نسل کا کتا 

ہے۔ اس نے کتے کا نام پکارنا شروع کیا۔ رو ور، روور، روور۔ مسٹر کیلووے کی فیملی نہیں تھی اورصرف کتا ہی اس کا خاندانتھا۔

 میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں۔۔۔وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ وہ بڑ بڑا رہا تھا۔

 

اسی شام کسی نے اُسے اطلاع دی کہ اس نے مسٹر کیلووے کے کتے کو پل کے دوسری طرف دیکھا ہے۔ اس شخص نے اس

 سے مذاق کیا تھا۔  اسے ستانے کے لیے ویسے ہی بول دیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے کسی میکسیکن کو دوسر ی طرف سے کتا 

واپس لانے کے لیے کچھ رقم دی۔  وہ خود تو وہاں نہیں جا سکتا تھا کیونکہ پکڑا جاتا اس لئے اُس نے کسی دوسرے کی خدمات 

حاصل کیں۔ وہ پل کے اس پار ہی رہا۔ حسب معمول بینچ پر بیٹھا رہتا۔  وہ یہ سوچ سوچ کرحیرا ن ہو رہا تھا کہ اس کا کتا یکا 

یک کہاں غائب ہوگیا۔ میں نے خیال کیا کہ وہ بھی سرحد پار کر گیاہوگا لیکن شام کو کیلو وے مجھے میکسیکو کے قصبے کی مارکیٹ

 میں کوکا کولا پیتے ہوئے اور سینما گھر میں فلموں کے پوسٹر دیکھتے ہوئے مل گیا۔ وہ اچھے کپڑوں میں ملبوس تھا۔ اس نے پارٹی 

میں شرکت والے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کوئی پارٹی وارٹی  نہیں ھی بلکہ ویسے ہی

س کا دل کیا تھا کہ اس دن وہ اچھے کپڑے پہنے۔ اس سے کافی فاصلے پر امریکی پولیس مین بھی کوکا کولا پی رہے تھے۔ میں نے 

بھی بیئر لی اور ان سے پوچھا۔ ہیلو! تم ابھی تک یہاں ہو؟ ان کو کیلووے کی موجودگی کا ابھی علم نہیں تھااور وہ اسے تلاش کر 

رہے تھے۔ تم نے کیلووے کو کہیں دیکھا ہے؟پولیس مین نے مجھ سے پوچھا۔

 

اِدھر کدھر ہی تھالیکن اُس کا کتا اس کے ساتھ نہیں تھا، میں نے جواب دیا۔  یہ بات سن کر ایک پولیس مین ہنسا جبکہ 

دوسرے کو یہ بات پسند نہ آئی۔  اس نے منہ بسور  لیا، شاید اسے کتے زیادہ پسند تھے۔ وہ کسی نسلی کتے کے خلاف طنز یا مذاق 

برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

         

لگتا تھا کہ مسٹر کیلووے کتے کی تلاش میں مایوس ہو چکا تھا لیکن کتے نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ ایک کار کے دوسری طرف کتے کے

 بھونکنے کی آواز سنائی دی پھر کتا بڑی تیزی سے سڑک کی طرف بھاگا۔ مسٹر کیلووے نے کتے کو اپنی طرف آتے دیکھا تو بے 

تحاشا جوش میں آگیا اور خوشی سے بولا روور، روور، آؤ میرے پاس اور گھر چلو۔ چلو گھر چلو اور اپنی بانہیں پھیلا کر اس کی 

طرف  جو سڑک کے پا ر تھا، کی طرف بھاگا۔ کتا بھی اسے دکھ کر اس کی طرف دوڑا۔ جب وہ اور کتا سڑک پر تقریباً ملنے ہی

 والے تھے کہ ایک کار زور سے آئی اور مسٹر کیلووے کو کچل دیا۔  اس کے بال، کپڑے خون سے لت پت ہوگئے۔ کتا اس 

کے اوپر آگرا اور اس کے زخم چاٹنے لگا۔ کیلووینے آخری بار کہا۔ روور میں تم سے پیار کرتا ہوں،کتے کی گردن میں ہاتھ ڈالا 

اور آخری ہچکی لی۔

 

لوگ جمع ہوگئے۔ امریکی پولیس مین بھی آگئے اور دیکھا کہ وہ کتے سے بغل گیرہے۔ کتا اسکے جسم پر بڑے فخر سے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے سے غم بھی ظاہر ہو رہا تھا،  ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا کوئی قریبی عزیز مر گیا ہو اور وہ رسم الفت نبھا رہا ہو جو میت کی موجودگی میں ادا کی جاتی ہے۔

 

تجزیہ


جوزف کیلووے انگلینڈ کا بھگوڑا ہے جو جعلی سرمایہ کاری کمپنی کے ڈریعے حصہ داروں کے لاکھوں ڈالر ہڑپ کرچکا ہے۔  آبائی

 ملک میں اس پر فرد جر م عا ئد ہو چکی تھی اور وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے مارا ماراپھر رہا تھا۔ کئی لاطینی ممالک سے ہوتے 

ہوئے وہ یہاں آگیا تھا۔ میکسیکو اس کی محفوظ پناہ گا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تر منظم نظام نہیں 

ہوتا، انتظامیہ،  پولیس، عدلیہ ورہر شئے بکاؤ ہوتی ہے۔ اثر و رسوخ اور رشوت کے تحت فیصلے اپنے حق میں کروائے جا سکتے ہیں۔

 

کیلو وے گرفتاری کے خوف سے مستقل ٹھکانہ نہیں رکھتا۔ وہ اس بار امریکہ سے سرحد پار کرکے میکسیکو آگیا تھا۔ایک طویل

 پل دونوں ممالک کو تقسیم کرتا تھا۔ پل کے اس پار بھی ایک گاؤں تھا جسے کیلووے میکسیکو گاؤں  کے با رونق چوک میں بیٹھ

 کرسے حسرت سے اس پل کو  جو امریکہ سے جوڑتا تھا، دیکھا کرتا تھا۔ اس کے سامنے اس کاکتا بیٹھا ہو تا جو وہ انگلینڈ سے اپنے 

ساتھ لایا تھا۔ وہ اٹھ کر کہیں جاتا تو وہ بھی اس کے پیچھے چل پڑتا تھا۔ ایک بار تو اس نے جھنجھلا کر عادتاً اسے پاؤں سے ٹھوکر 

بھی مار دی۔  جو ایک جرم تھا لیکن اتھارٹی نے اسے در گزر کر دیا۔

 

 پل سے ملحقہ دونوں گاؤں کے تہذیب و تمدن اورطرز حیات  میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ امریکی گاؤں میں  صاف ستھرا 

ماحول تھا۔ ہموار قالین کے طرح بجری کی سڑکیں، بلند و بالا عمارات، مہنگے ہوٹل، نائٹ کلب، جوا خانے، بھرپور زندگی اور 

جوش و جذبہ پایا جاتا تھا۔ادھر بھی وہ تمام اشیاء تھیں لیکن گھٹیا تھیں۔گردو غبار، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کراہت آمیز ہوٹل اور

 عماراتاور گھٹیا سستی اشیاء تھیں۔کیلو وے اس گاؤں میں کافی دنوں سے موجود تھا۔ لوگ جانتے تھے کہ وہ فراڈیا ہے لیکن چونکہ 

وہ امیر تھا اس لئے لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔دو سراغ رساں  اس کی تلاش میں اس کے پیچھے آئے تھے۔ اس وقت 

کیلووے با رونق چوک میں حسب معمول بنچ پر بیٹھا تھا۔ ایک میکسیکو بچہ بار بار اس کے پاس آکر اس کے بوٹ صاف کرتا۔ 

اس بار وہ آیا تو کیلو وے نے اسے بھگا دیا۔

 

وہ پولیس افسر ادھر آئے اور بھگوڑے سے باتیں کرنے لگے۔ ان کے پاس کیلووے کی کوئی پرانی تصویر تھی۔ وہ اسے نہ پہنچان 

سکے اور اس سے کافی دیر گفتگو کرتے رہے۔ مقامی آبادی اور راوی بڑے تجسس سے دیکھ رہے تھے کہ اس کے ساتھ کیا ہوتا 

ہے۔ کسی نے بھی یہ نشان دہی نہ کی کہ وہی مطلوبہ شخص ہے۔ ان افسروں کو جب پتہ چلا کہ وہ مطلوبہشخص ہے تو وہ حکومت 

کے پاس اس کی بے دخلی اور جلاوطنی کا حکمنامہ لینے چلے گئے ۔

 

 ایک دفعہ اس کا کتا گم ہوجاتاہہے تو اس کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ اتفاقاً وہ کتا اسے پر ہجوم بڑی شاہراہ پر نظر آتا ہے تو 

وہ دیوانہ وار اس کی طرف بھاگتا ہے۔ کتا بھی اسے دیکھتے ہوئے اس کیطرف چھلانگ لگاتا ہے اور کیلوویتیز رفتار گاڑی کے نیچے 

آکر شدید زخمی ہو جاتا ہے ہ دیوانہ وار اس کے پاس جاکر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے  ایسے چومنے کگتا ہے جیسے وہ اسے 

بہت پیار کرتا ہو۔اس کے بعد وہ مر جاتا ہے۔

 

گرین کا یہ افسانہ بڑی نفاست سے معاشرے پر طنز کرتاہے۔ اس میں راوی نے ذاتی مشاہدات کی بنا پر معاشرتی اقدار پر نکتہ 

چینی کی ہے۔ سب کچھ جاننے کے باوجود میکسیکو میں کیلو وے ایک باعزت اور باوقار شخص کے طور  پرلیا جاتا ہے۔ اس میں 

راوی باقی تمام کرداروں سے زیادہ  واقف ہے۔ قارئین کو بلا تردد تمام واقعات کی معتبر اور مکمل خبریں دیتا رہتا ہے۔ اس نے 

واقعات کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری اس افسانے میں کرداروں کے ہم رکاب ہو کر کیلو وے کی کی کہانی کو بےنقاب

 کرتے ہیں۔ مزاحیہ مناظر میں کیلووے کے حلیے کی تفصیل، اس کی حرکات و سکنات، نااہل حکومت، سراغرسانوں کا اس کے 

پاس آکر نہ پہنچاننا ،  بھرے چوک میں بیٹھنے کے واقعات، کتے کے مرنے پر کیلووے کے  تاثرات، غیرہ ایسے انداز سے پیش 

کئے گئے ہیں کہ قاری کی دلچسپی اس میں نہ صرف پیدا ہوتی ہے بلکہ برقرار بھی رہتی ہے۔  کیلووے کے مرتے وقت ایسا 

محسوس ہوتا ہے کہ وہ کتے کو چاہنے والامالک ہے جو اپنے وفادار پالتو کو آخری سانس تک پکڑے رکھنا چاہتا ہے لیکن قاری اس 

محبت کی حقیقت جانتے ہیں کیونکہ وہ عام حالات میں اس کو مارتا رہتا ہے۔ اس لئے اس کے مرنے پر اس کے لطیف جذبات 

کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

 

پل کے اس پار گرین کی مخصوص تکنیک ہے جو انسانی جذبات، محرکات، خواہشات  اور احساسات کا  ذکر کرتی ہے۔ سیاسی

 نقائص اور جوڑتوڑ بیان کرتی ہے۔ اس میں اخلاقیات اور مذہبی افکار کو بھی زیر موضوع بنایا ہے۔ اس کہانی میں اس نے کیلو 

وے کو  ایساشخص قرار دیا  ہے جو نہ تو بہت اچھا ہے اور نہ ہی بہت برا بلکہ دونوں کے درمیان ہے۔ اس تمام افسانے میں

 قاری کو کیلووے کی زندگی سے اور نہ ہی موت سے کوئی سرو کار ہے۔ اس سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اگرچہ وہ مجرم ہے۔ آخر

 میں مر بھی جاتا ہے۔سب جانتے بھی ہیں لیکن لوگوں کے برتاؤ سے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ اس  کا جرم وائٹ کالر کرائم ہے 

جو ہیرا پھیری اور فراڈ کے ذمرے میں آتا ہے  اور عام لوگوں کو اس کے معاشرے پر مہلک اثرات کا علم نہیں ہوتا۔۔ وہ 

ڈیسک کے پیچھے ایک مہذب شخص ہے لیکن دراصل وہ سخاوت اور عمدہ سلوک کروانے سے بہت دور ہے۔ مختصر طور پر گرین

 کے بہت سے کرداروں کے پیچھے پرائی ہے۔ اس میں شیطان، بدکردار اور بے ایمان لوگ ملکی اور قومی نقصان کرکے صرف 

اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں  لیکن ایسے لوگوں کی موت کے بعد بھی  ان سے نہ تو ہمدردی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی 

وقارہوتا ہے۔

Popular posts from this blog