دلہن گڑیا The Bride Doll Sandra Birdsell 1942--- ٖ Print Mode #66 کتاب 2 کہانی 9 ۔۔۔صفحات 11

 

 

دلہن گڑیا

The Bride Doll

Sandra Birdsell

1942---

(Canada)

             

 

         مسٹر  پنکارتھ        ور            مس لینا  ہارمس کا   بیاہ         کا پتہ  ایک        رقعے          سے چلا۔        متن  پڑھ کر بے اختیار ہنسی آئی۔ ورجینیا              کولپٹس         اور میں زیریں دالان  میں لیٹی ہوئی تھیں۔ہم اپنی   بے رنگ عمارت میں ایک چھجے              کے سائے تلے       اس رقعے کو پڑھ رہی تھیں           جسے        دعوت نامہ  کا نام دیا گیا تھا۔  تقریب میں ہمارے خاندان کو معزز ترین افراد میں شامل کیا گیا تھا        ۔ورجینیا اور میں               گہری سہیلیاں        تھیں اور        ہمیشہ  ایک  ہی محلے   میں رہا کرتی تھیں۔ ہم جب بھی اپنی رہائش تبدیل کرتے  اس کا خاندان  بھی ہمارے پیچھے  منتقل ہوجاتا تھا۔  امسال جب ان کا گھر سیلاب میں اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا                     تو وہ                                    '                       اگاسیز شہر   '                     میں ہماری   گلی  کےآخری حصے میں          ایک   بنگلے میں رہنے لگے۔  ورجینیا                    اخبار             (اگاسیز             ہیرلڈ  ) پڑھ رہی تھی۔ اس میں وہ ان اشتہارات اور  خبروں کو پڑھ رہی تھی  جو شادیوں سے متعلق تھیں۔ ہم بچپن اور بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھیں اس لئے ایسی خبریں ہمارے لئے زیادہ دلچسی کا باعث تھیں۔

میری والدہ بہت مذہبی تھی۔مجھے یہ ہدائت کی گئی تھی کہ  میں جب بھی اپنے لئے دعا مانگوں تو کبھی مالی مفاد اور   مادی بہتری کے لئے کبھی کچھ نہ مانگوں ۔اس کے نزدیک ایسا کرنا لالچ اور خود غرضی  تھی ۔حالیہ سیلاب خطرناک   سیلاب تھاجس نے شہر     کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔مکانات تہس نہس ہو گئے ۔تجارت  تباہ و برباد ہو کے رہ گئی۔ ملبہ  پارکوں میں بکھر گیا۔  افراد  بے گھر اور بے روز گار ہو گئے۔ہم خود بھی   متاثرینِ سیلاب تھے لیکن  والدہ        اپنے جیسے      دوسرے متاثرین         کی فلاح و بہبود  کے بارے میں زیادہ فکر مند تھی۔         اس  نے مشورہ        دیا تھا      کہ جب بھی        دعائیں کریں     توہمیشہ           مستحق لوگوں       کو          فہرست    میں اوپر رکھیں۔   ہم            صرف اپنے  لئے دعائیں مانگیں گے تو دکھی انسانوں کی حق تلفی ہوگی۔ قحط زدہ بچوں کے ساتھ نا انصافی ہو گی اور خدا کا  قیمتی وقت کاضیاع  ہوگا ۔          اپنے پر جبرکر کےاپنی خواہشات کونچلی سطح پر لا کر کےدعا کی خدا مجھے                '      دلہن گڑیا               '                 دے دےتاکہ ہم         ورجینیا                 اور میں کھیل سکیں ۔

تم  'دلہن گڑیا'  کیوں چاہتی ہو؟ ماں نے پوچھا۔

 کیونکہ      ۔۔۔ میں نے اتنا ہی کہا تھا   تو والدہ نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ                    '        دلہن گڑیا                               '                   کی بجائے        ان گناہوں               کی معافی مانگوجو تم سے سر زد ہوئی ہیں۔ ان  کی تلافی کرو۔           اس کی بات سن کر مجھے احساس ہوا کہ میں گناہ کی پُتلی ہوں۔       سب سے پہلے  تو مجھے     رات والے گناہ کا خیال آیا۔میں  نے اس کی تلافی کا سوچا۔ والدہ               کو  ظاہر کرنےکے لئے کہ میں         نے کھانا کھا لیا  تھادھوکہ دہی کرتے ہوئے ڈبل روٹی         اپنے بستر کے نیچے    ٹوٹی ہوئی لکڑیوں میں چھپا دی تھی۔  مجھے ہمیشہ یہ باور کرایا جاتا تھا         کہ دنیا میں ایسے بچے بھی ہیں جن کو کچھ بھی     کھانے کو میسر نہیں          اور میں نے خدا کی نعمت ٹھکرا دی تھی ۔  اب کیا کیا جائے۔ ۔۔ غلطی کی تلافی کے لئے میں بستر کے نیچے رینگ گئی اور بستر کے نیچے لکڑیوں میں چھپائی گئی ڈبل روٹی نکال لی اور اسے کھا لیا۔ کھاتے وقت چوہے کی مینگنیں  میرے منہ میں آگئیں ۔ چوہے کے زہر اور فاسفورس سے مجھے ابکی آ ئی اور قے آگئی حالانکہ ان دنوں میں  کچھ زیادہ ہی صحت مند تھی ۔ میری ٹانگیں چھوٹی  اورموٹی تھیں۔ درخت کے موٹے تنے کی طرح مضبوط  تھی اس کے باوجود میرا معدہ  اسے ہضم نہ کر سکا۔

 سیلاب  کی تباہ کاریوں سےمیرا کمرہ بھی نہیں بچاتھا۔ جا بجا   ٹوٹی ہوئی لکڑیاں پڑی تھیں۔ ہمارے گھر کے تہہ خانے کی دیواریں  اور چھت     خستہ حالت  اورفرش اونچے نیچے ہو گئے تھے۔ پورے گھر  کی مرمت درکار تھی ۔ وسائل محدود ہونے کی وجہ سے  تزئین ٹکڑوں میں  کی جا رہی تھی۔  مجھے سختی سے تاکید کی گئی تھی کہ سیلاب زدہ اشیا کو بالکل بھی نہ چھوا جائے۔  کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھوؤں۔ بد پرہیزی سے خناق ، پیچش ، ہیضہ وغیرہ بیماریوں کا خدشہ رہتا ہے۔  

میرے ہاتھ پرانی البم لگی         تو    مجھے           لگا کہ میں نےبچپن میں ہمیشہ سفید کپڑے پہنے ہوتے تھے۔  پتہ نہیں کیوں۔موٹے شیشوں والی بڑے فریم والی عینک  جو میری ناک سے پھسل پھسل جاتی تھی لگایا کرتی تھی۔ اشیا دیکھنے کے لئے اس کے اندر اور کبھی اوپر سے جھانکتی رہتی تھی۔گروہی فوٹو میں  میں یا تو دائیں  یا  بائیں کونے میں کھڑی ہوتی تھی لیکن  نظریں سامنے نہیں ہوتی تھیں۔ کبھی اوپر، کبھی نیچے ، کبھی ادھر کبھی ادھر دیکھتی  رہتی تھی۔ ہم بہن بھائی  سکول جاتے تھے اور  ہمارے ٹیچر  ہمیں پڑھانے کے بعد پراجیکٹس،   اسائنمنٹس    اور ہوم ورک       دیتے تھے۔سال جوں جوں گزرتا  جارہا تھا ،           بھوت جو کہ  سالانہ امتحان کے نام سے  مشہورتھا،    سر پر آ گیا تھا   ۔ ٹیچروں نے کہہ دیا تھا کہ  امتحان اس ہوم  ورک اور اسائنمنٹس     میں سے آئے گا جو میں نے بے احتیاطی میں گما دئیے تھے۔     انہیں تلاش کیاتو  ہر دوسری سطر  پر (X   )                           '                            غلط   ہے      '                     کے  نشانات تھے جن کی میں نے کبھی اصلاح نہیں کی تھی یا پھر وہ نمدار تھے۔ نتیجہ کیا ہوا  ہو گا ، سمجھنے کے لئے  عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔

                                      ورجینیا سورج میں نہیں بیٹھتی تھی اس لئے اس کا گورا  رنگ جل کر گندمی نہیں ہوا تھا۔ ورجینیا اور میں گھر سے کچھ فاصلے پر پارک میں کھیلا کرتی تھیں جو ہمارے گھر سے کچھ دور تھا۔ وہ غیر صحت مند اشیا سے پر تھا۔وہاں کم لوگ ہی جاتے تھے۔ہم نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔ چپکے سے ادھر چلی جاتیں          اور سب باتوں سے بے نیاز ٹوٹے پھوٹے ٹینس بال یا  پارک میں  سیلاب سے لائی گئی غلاظت کے ڈھیر سےاٹھائی گئی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔  ہم وہاں شادی شادی کھیلا کرتی تھیں۔ہم  پھولوں کے درختوں پر چھتری جیسی   ٹوپی بنا کر اس میں جنگلی پھول بھر کر شاخوں پر رکھ دیا کرتی تھیں اور اسے شادی کی ضیافت کہا کرتی تھیں۔ میں اس وقت  رسمی جملہ بولتی کہ   '              کیا تم اس کو اپنا قانونی خاوند قبول کرتی ہو ؟۔۔۔اس کے جواب میں ورجینا کہتی               ''              کیا  تم اس   خوفناک  عورت کو اپنی بیوی تصور کرتے ہو؟           ' ۔  وہ ہمیشہ قانونی  بیوی کی جگہ  خوفناک بیوی (   lawful                 کی جگہ     awful) کہا کرتی تھی۔ اس کے جوابی فقرےسے شادی کی تقریب  بے لطف ہو جاتی تھی۔  پارک سے چنا ہوئی اشیا چونکہ خراب ہوا کرتی تھیں  جس سے کھیلنے میں مزہ نہیں آتا تھا اس لئے میں نے خدا سے '     دلہن            گڑیا                        '                 مانگی تھی۔

مسٹر پینکریتھ ہینڈی مین تھا اور   ِادھر ُادھر کےہر قسم کے کام کر لیتا تھا۔  اس کے پاس کام کی کمی نہ تھی۔ وہ ہمیشہ مصروف رہتا تھا۔ وہ سفید فام     تھا            ۔      بوڑھا اور کنوارا تھا۔         پارک کے پاس  ہی کھیت میں   جس کی زمین اسے   تقریباً مفت ہی مل گئی تھی           ، پر اپنا مکان  بنیادوں سے  تعمیر کر رہا تھا        جو تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ کہنے کو تو  نیا نکور تھا لیکن  پرانا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس مکان کی تعمیر میں جو سامان استعمال کیا گیا تھا وہ ملبے سے نکالا گیا تھا۔       اس وقت اس کے ہتھوڑوں  کی آوازیں  پارک میں گونج رہی تھیں۔    اس کے مکان کی چھت ٹوٹے ہوئے سکول     کی چھتوں اور فرنیچر سے جو پارک میں پڑا تھا  ،       اٹھا              کر بنائی گئی  تھی۔ اس کی چار کھڑکیاں بغیر کسی ترتیب     کے    بے ہنگم بنائی گئی  تھی۔   میرے دادا نے اس کانام          '     احمقوں کا  سردار' رکھا ہوا تھا لیکن میرا خیال اپنے دادا سے مختلف تھا کیونکہ وہ ایسا بیوقوف نہیں تھا جو خود کو نقصان پہنچائے۔  اس نے اپنے گھر کی جو بنیادیں بنائی تھیں وہ           زمین سےاتنی اونچی تھیں  کہ کئی سیڑھیاں چڑھ کر گھر میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ یہ اس نے اس لئے کیا تھا کیونکہ سیلاب میں اس پارک میں گھٹنے سے اوپر تک پانی جمع ہو گیا تھا۔                 پارک، پل، دریا  ،       سینٹ میری      سڑک،          گھوڑے کی  ِ سمیں ،ُکھر ، ہائی وے    اور دیگر       اس کے گھر کی بنیادوں  سےسڑکیں بہت نیچے تھیں۔

سیلاب نے ہمارے گھر کو بھی  بری طرح متاثر کیا تھا۔  ماں نے پینکریتھ کو  اپنے گھر باورچی خانے  کی الماری بنانے کے لئے بلایاتھا۔   میری والدہ  نے اس سے پوچھا کہ اس نے کچی آبادی  جو ناقابل رہائش ہے، وہاں کیوں  مکان بنا لیا۔ وہاں بہت زیادہ مچھر تھے اور پارک بھی غلاظت سےبھرپور تھا ۔کوڑا کرکٹ ،           ملبہ،        گندی اشیا کے ڈھیرتھے۔  شاہ بلوط کے درخت  سارا سال ڈوبے رہتےتھے  اگر وہ  پانی اتر بھی جائے جس کی بہت کم توقع ہوتی تھی،  کیچڑ اور دلدل تو ہر وقت رہتی تھی۔بیماری کا گڑھ ،مینڈک، کیڑے مکوڑے، سانپ اور      نبات بے ہنگم اندز میں اگتی تھیں۔  مجھے سمجھ نہیں آیا  تم نے وہ جگہ کیوں چنی۔

پینکریتھ نے اپنی ٹوپی اتاری تو اس کا  گنجا پن صاف نظر آیا  اور اپنے ہموار گنجے سر پر ہاتھ پھیرا۔  اس نے اپنے کان سے پنسل اتاری  اور جواب میں کہا کہ اچھی جگہیں فیملی والوں کے لئے ہوتی ہیں۔ میرا نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ مجھ جیسے بوڑھے شخص کو عمدہ مقامات پر رہ کر کیا کرنا ہے۔

تو تم شادی کرلو اور فیملی بنا لو۔

مجھ بوڑھے سے شادی کون کرے گا۔وہ ایک بوڑھی  باتونی عورت سے بھی بدتر تھا۔ وہ کام کرتے وقت الف لیلوی داستانیں  سناتا رہتا۔ اس کا منہ کوئی بند نہیں کر سکتا تھا۔   اپنے گھر کو بہت پسند کرتا تھا۔ وہ ہمارے  گھر کو بھی اچھا سمجھتا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ  وہ ہمارے گھر میں کیا شئے پسند کرتا ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ  اس کی اولاد اور ہمارے گھر کے فرش۔

میری  والدہ   نہانے کے برتن کے پاس بیٹھ کر  مچھلی  صاف کر رہی تھیں۔ وہ کندھوں کو اس طرح ہلا رہی تھی جیسے وہ اس کی باتوں سے اختلاف کر رہی ہو۔    اس وقت پینکریتھ اندرونی ٹائلٹ  کے پاس تھا۔ ایک تختے کو کاٹنا چاہتا تھا۔اس نے دونوں ہاتھوں میں کام والے ہتھیار  پکڑ رکھے تھے۔ اس نے   اوزار ایک ہاتھ میں رکھ کر دوسرا ہاتھ خالی کیا تاکہ وہ باتوں کے دوران ماں   ہلا سکے۔  

'مجھے کام ڈھونڈنے میں کبھی دقت نہیں ہوئی۔میں ہر فن مولا ہوں۔ لوگ مرمتیں کروانے کے لئے  انتظار کرتے  ہیں۔

     ماں نے کہا کہ اس عمر میں ساتھی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اسے مشورہ دیا کہ شادی کر لےتو  پینکریتھ  مان گیا  اور کہا کہ  ڈیوڈ کی  سابقہ بیوی                               '                   لینا ہارمس                '              اپنا گھر دوبارہ سے بسانا چاہتی ہے۔          پچھلی شادی سے ان کا ایک بیٹا ہے۔ ڈیوڈ نے لڑکے کو اپنے ساتھ رکھنے کی حامی بھر لی ہے۔

کیا وہ  تم سے شادی کر لے گی ؟والدہ نے پوچھا۔

ہاں۔ مجھے ڈیوڈ نے بتایا ہے۔ہماری                         شادی کے بعدڈیوڈ  برٹش کولمبیا منتقل  ہو جائے گا۔ ڈیوڈ کی بہن نے اسے دو خط لکھے تھے اور وہاں آنے کو کہا تھا۔

         لینا ہارمس  کا ایک بہت بڑا خاندان تھا۔ وہ سیاہ فام تھے اور پیرا گوائے سے نقل مکانی کر کے یہاں آ کر بس گئے  تھے جبکہ پینکریتھ سفید فام تھا     ۔ نیدر لینڈ سے  یہاں آ گیا تھا۔ وہ اپنی مستی میں اپنی شادی    کا ذکر کر رہا تھا۔

بات پینکریتھ             اور لینا  ہارمس                               کی شادی کے رقعے کی ہو رہی تھی۔  اس کا دعوت نامہ پڑھ  کر بے حد ہنسی آ رہی تھی۔۔  دعوت نامے میں  عبارت کچھ اس طرح  کی تھی۔

'                         پینکریتھ                       اور مس            لینا           ہارمس           کی شادی  میں شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے  جو بارہ جولائی کو ہو نا طے پائی ہے۔ وقت دو بجے دوپہر ہے۔ تم اپنے ساتھ جتنے چاہو مہمان لا سکتے ہو۔ ان کو بھی شادی میں شرکت کی دعوت ہے لیکن اپنے کھانے پینے کی اشیا  اپنے ساتھ لانا ہوں گی               '۔  اس ساتھ کچھ اور ہدایات بھی تھیں ۔      مہمانوں       کے لئےنشستیں         مختص کی گئی تھیں۔ اس میں تفصیل سے لکھا گیا تھا کہ کسی  نے اس دن کیا پہننا تھا اور کیا کیا کرنا تھا۔ ہیٹ ،            جالی دار نقاب، ، زیورات، ، پھول دار لباس   پہننے کی ہدایات دی گئی تھیں۔مجھے لگا کہ  اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا لانے             کا             خیال یقیناً    لینا ہارمس        کا ہو گا۔  وہ کہا کرتی تھی کہ پیرا  گوائے میں ہر  شادی پر پورا گاؤں شامل ہوا کرتا تھا۔        شادی کے سندیسے کی عبارت دلہن کی والدہ کی تھی تو فنکشن کی تفصیلات دولہے  نے طے کی تھیں۔

وہ   ہمارے گھر پر کام کے وقفے میں صابن سے ہاتھ دھو رہا تھا ۔      لینا                رمس            کا خاندان  پروٹسٹنٹ تھا۔پیراگوئے سے آگروہ        اپنے فرقے   کی  جھگیوں میں  اپنے طورپر بس گئے           تھے جو پہلے ہی  خلاف قانون  مقامات پر رہائش پذیر تھا۔ اس کے      جھگی      نما  گھر کی دیواریں اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں جسے سیلاب نے بہت  متاثر کیا تھا۔ وہ غیر محفوظ تھی۔ وہ باہر سے تو محفوظ لگتا تھا لیکن اندر سے پوری طرح  نمدار  اور ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔

 شادی سے پہلے  ایک تقریب رکھی گئی تھی ۔ ہم مس ہارمس کے گھر چلے گئے۔ اس               کے گھر کے تین کمرے تھے جس میں چودہ لوگ                 رہ              رہے تھے۔ان کے کمروں میں        ایک کے اوپر دوسرا ڈبہ  رکھا گیا تھا          ۔ انبار فرش سے  چھت تک لگا  ہوا تھا۔ انہوں نے یہ سامان ملبے سے اکٹھا کیا تھا ۔ زیادہ تعداد کپڑوں کی تھی۔ سردیوں میں بھی وہ ململ  پہنے ہوئےتھے کیونکہ ان کے پاس گرم کپڑے نہیں تھے ۔  روپے پیسے کے لحاظ سے ویوالیہ تھے۔اشیا نکالنے اور رکھنےکے لئے گتوں  کے            ڈبے اوپر نیچے کرتے رہتے تھے۔   ان کے باورچی خانے میں عجیب سماں تھا۔ ہر طرف بچے ہی بچے تھے۔جومیز، فرش، پنگھوڑوں،  آتش دان کے پاس پاؤں پسارے ہوئے تھے۔ سیاہ کالے رنگ،  ہوشیار جاندارسیاہ آنکھیں، ننگے پاؤں ، گندگی سے بھرے چہرے، بوسیدہ کپڑے پہنے ہمیں گھور رہے تھے۔  جب ہم صحن میں گئے تو ہم نےگیس سے چلنے والی  ایک واشنگ مشین  دیکھی جس پر دلہن   خارش کرتے ہوئےایک ٹانگ پر کھڑی ہو کر  اپنے کپڑے دھو رہی تھی۔ ساتھ ہی چولہے پر کیتلی میں پانی ابل رہا تھا۔مس ہارمس کاقد اپنی والدہ سے لمبا تھا۔ اس کی ناک بہت موڑی تھی جو اپنی ماں پر تھی۔ اس کے پاؤں صندل رنگ جیسے تھے۔ اس کا وزنی بالوں کا جوڑا اس کے کندھوں سے آگے  آ کر اس کی چھاتیوں پر گراتھا۔مجھے یاد آیا کہ  ایک دفعہ وہ ہمارے سکول اپنی بہن کے پاس آئی تھی جو میری کلاس فیلو تھی اور میرے بنچ  جس کا سائز بہت چھوٹا   تھا میرے ساتھ بیٹھ گئی تھی اور اس کی آدھی سے زیادہ پیٹھ  بنچ پر نہیں تھی۔ میں ناگواری سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی تو ٹیچر نے مجھےایسا کرنے سے منع کیا۔ وہ  کلاس کے ہر لڑکے کو ادائیں دکھا رہی تھی۔تفریح ہوئی تو لڑکے اس کے پاس  رسی لے آئے  تا کہ    وہ رسی پر ٹاپے۔وہ کودی تو لڑکے اس کی        پھولدار  قمیص میں بھری بھری چھاتیوں کو اچھلتا ہوا دیکھنے لگے۔وہ ان کی اس سازش سے بے خبر قہقہے لگاتی رہی اور ایسا ظاہر کر تی رہی جیسے ہمارے جیسی بچی  تھی۔ وہ اگر بھدی نہیں تھی تو اس سے دور بھی نہیں تھی۔دانت باہر نکلے ہوئے تھے۔   بول چال میں  اکھڑ مزاج تھی ۔

اس کے گھر کے تمام بچوں کے کپڑوں اور جسموں سے سیاہ فام نسل کی مخصوص بو آ تی تھی جوکھٹی       سڑاند         کی طرح  تھی ۔ ان کی مادری زبان ہسپانوی  تھی  لیکن وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بھی بات کر لیتی تھیں۔ وہ   آپس میں ہسپانوی   میں باتیں  کر رہی تھیں اور  ہمارے پلے کچھ نہ پڑ رہا تھا۔ان کے گھر تقریب رکھی گئی تھی لیکن  اس خاندان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔یہاں تک کہ  گاڑی میں گیس ڈلوانے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔ ان کی والدہ نے ان سے ہسپانوی زبان میں کچھ کہا تو بچوں نے ہیٹ پکڑے۔ ان کو الٹا کیا اور ہر ایک کےآگے  جاکر               '                   کار  گیس، کار  گیس               '  کی صدا لگا کر بھیک مانگنے لگے۔

۔ مجھے تجسس تھا کہ میری والدہ  نے اپنی شادی کے روز دکونسا لباس زیب تن کیا تھا۔میں نے  والدہ سے یہ پوچھا تو اس نےجواب دینے کی بجائے مجھے وہاں سے کہنی ما ر کر ہٹا  دیا۔             میں نے ایک  فیملی           تصویر      دیکھی ۔ماںکا  لباس  روائتی لباس نہیں تھا لیکن  تھا خوبصورت  ۔ کندھوں پر بٹن تھے۔  البم میں اس کے تمام رشتے دار         اور اماں ابا          سب شامل تھے۔ یہ نادر تصویر تھی۔ اماں  ابا کے گھٹنے پر بیٹھی تھی۔اس کی ننگی ٹانگیں واضح طور پر نظر آ رہی تھیں۔ ایک کے اوپر دوسری ٹانگ رکھی تھی۔ اس کے نوکدار جوتوں پر بو ٹائی      لگائی گئی تھی۔ بال گھنے اوراتنے زیادہ لمبے تھے کہ میں نے آج تک کسی کے بھی نہیں دیکھے۔اس نے  اپنے ایک کان کے پیچھےمارلن ڈائیٹرش                   ایکٹریس کی طرح    بال کئے ہوئےتھے۔ابا نے اپنی ٹھوڈی اماں کے کندھوں پر رکھی ہوئی تھی اورمسکرا رہا تھا۔ واہ کیا موقع تھا                  !                  میں  نے                  پوچھ ہی لیا کہ یہ تصویر کب کی تھی۔  کس تقریب میں یہ اتاری گئی۔یہ تصویر   بہت پہلے کی ہےاس نے جواب دیا لیکن عرصے کے تعین کا نہ کیا جا سکا۔

  رقعے کی تحریر  پڑھ کر والدہ زور زور سے قہقہے لگا رہی تھی۔ یہ خبر اخبا ر میں نہیں چھپی تھی بلکہ ہاتھ سے لکھی گئی تھی  اور ایک بچہ  ہر گھر میں دروازہ کھٹکھٹا کر   پہنچارہا تھا۔ معزز ترین مہمانوں میں ہمارے خاندان کا نام سب سے نمایاں تھا۔ میری والدہ نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا کہ  میرا خیال ہے کہ ان کی جوڑی اچھی رہے گی۔

 ہم ورجینیا   کے گھر   تھے۔ اس نے چنبیلی   کے رنگ کی اور میں نے کوکا کولا رنگ کی عینکیں لگائی  ہوئی تھیں۔ورجینیا نے اپنے بازوؤں پر خارش کرتے ہوئے عینک اتاری تو اس کی آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیا گئیں۔ اس کی آنکھوں کے کنارے سرخ تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سوجے ہوئے  تھے۔ورجینیا مجھے اندر لے گئی۔ پرانے وارنش اور روغن کی بو آ رہی تھی۔ ورجینا کے والد  کو نوکری کے لئے شہر سے باہر جانا ہوتا تھا۔   اس کی ماں ہسپتال میں نرس تھی۔وہ پستہ قد تیز طرار خاتون تھی۔اس کے بال بہت سخت تھے۔ جنہیں سلجھانے میں  اسے بہت وقت لگتا تھا۔  اس کی ڈیوٹی  زچہ بچہ وارڈ میں ہوتی تھی۔ اس کے فرائض منصبی میں نومولود کے بول وبراز کو دھونا اور ہر طرح سے صاف رکھنا تھا۔  اس سے ہر وقت پیشاب اور پاخانہ جیسی بدبو آتی رہتی تھی۔ ورجینیا اور میں اسکی والدہ ڈولورس  کی الماری کے پاس کھڑی تھیں تو ہمیںْ کوٹیکس پیڈ 'نظر آیا ۔ ہمارے لئے وہ نئی چیز تھی۔ ہم اس  کا معائنہ کرہی تھیں تو اس کی والدہ  آگئی ۔ ہم نے اس کے بارے میں دریافت کیا  تو اس نے اسے اپنی رانوں میں رکھ کر اس کی افادیت سمجھائی۔  میں اس وقت کسی ایسی شئے کے بارے میں نہ تو جاننا اور نہ ہی سننا چاہتی تھی جو سکرٹ کے نیچے خون کے دھبے ڈالے۔ اس لئے میں نے اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہ دیا۔

ابا تہہ خانے میں  فرشوں کی مرمت میں لگا ہوا تھا۔ وہ کئی ہفتوں سے اس پر لگا ہوا تھا۔دکان بند کرنے کے بعد  وہاں آ جاتا  اور ہتھوڑے چلانے لگ جاتا۔اونچے نیچے فرش کو ایک سطح پر لانے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کی ٹھوکروں سے اوپر والے فرش میں درز پڑ  گئی تھی اور ہر ضرب پر ہلنے لگا تھا۔ اب جو اس نے ہتھوڑا لگایا تو برتنوں والی الماری گر گئی اور  اس میں پڑے چینی کے برتن چھناک سے گر پڑے اور کرچی کرچی ہو گئے۔  اوہ خدایا !               اس کی چیخ برتنوں کے چٹخنے کی آواز سے بھی زیادہ تھی۔   میں  سراسیمہ ہو کر وہاں سے الگ ہونے لگی تو والدہ کا زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر پڑا۔ ابا پریشانی میں بھاگتا ہوا اوپر آیا۔ اور  گھبراتے ہوئے پوچھا کہ سب ٹھیک تو ہے ناں ۔

تم نے یہ سب کیا کر دیا ہے۔ چینی کے چھوٹے بڑے برتن اور پلیٹیں ٹوٹ گئی ہیں۔

ابا آگے بڑھا اور ہتھوڑا  اور کسی پھینکی اور بولا میکا۔ یہ حادثہ تھا۔  شکر ہے صرف  برتن ہی تھے۔میرا خیال تھا کہ کوئی خوفناک حادثہ پیش آیا ہے۔

یہی تو ہماری جمع پونجی تھی۔ والدہ نے روہانسی ہو کر کہا۔ یہی برتن تو میرے پاس کل تھےجوباقی بچے تھے۔

میرے بھائی بہن یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ میں گھر سے  بھاگ نکلی۔         پیچھے            سے             ماں کا رونا دھونا اور چیخیں             سنیں  جو بالکل ویسی تھیں جیسے  پرندے فضا میں  پھڑ پھڑا کر چیخ رہے ہوتے ہیں۔    میں ہانپتے ہوئے       کھنڈر جیسی                 عمارت پر  رک  کر بنیری پر بیٹھ گئی تو اس کے گرم تختوں کی گرمی اپنی  پیٹھ پر محسوس کی۔ میں  وہاں  رہی اور       اس وقت کا انتظار کرنے لگی جب تک  کہ  کرچیاں چن کر  اور ٹوٹی ہوئی  الماری  کے ٹکڑےاس پارک کے ملبے پر              جو ہمارے گھر کے  عقب میں تھا                ،نہ پھینک دیئے  جائیں     ۔ 

شادی کی صبح میری والدہ نے دو برگر پینکریتھ کے گھر بھیج دیئے۔ سورج  اس وقت آہستہ آہستہ افق پر بڑھ رہا تھا  اور بڑے برگد  کے درختوں  سے جو کہ پارک میں تھے 'میری      روڈ'  کے متوازی اور 'ہارس شو لیک'  کے پاس تھا۔ وہاںآس پاس کے       کھڈوں میں دھندکی لہر چھائی ہوئی تھی۔     پارک میں خود رو گلاب  اگے ہوئے تھے۔ ان کی  دیکھ بھال نہ ہونے سے ان میں خوشبو کی بجائے زنگ جیسی سڑاند آ رہی ہوتی  تھی۔ میں سڑک پر آئی تو   سیلاب کی باقیات کی وجہ  سے   کیچڑ محسوس کیا۔         ذرا آگے بڑھی تو اس پر  کھڑا  پانی کئی  انچ میرے پاؤں چھو رہا تھا۔  اس میں گڑھا پڑا ہوا تھا۔ خلیج کے پانی کا شور مجھے خوفزدہ کر رہا تھا۔   میں سحر زدہ ہو کر وہاں کھڑی ہو گئی۔         سڑک کے نیچےندی کا    پانی  اپنی مستیوں میں مصروف تھا اور اٹھکیلیاں کر رہا تھا۔        اس میں پتھر اور وہ ملبہ پڑا تھا جو سیلاب اپنے ساتھ بہا کر لایا تھا۔

میں اپنی منزل کا تصور              اپنے ذہن میں لائی۔ بڑے  بڑے ڈگ بھرتے ہوئے     پینکریتھ   کے گھر پہنچی۔ دروازے پر دستک دی۔مجھے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ڈیوڈ اس وقت اپنے کام سے فارغ ہو کر پینکریتھ کی طرف آیا تو وہ شوخی سے بولا کہ دیکھو ہمارے  گھر کون آیاہے اور ہمارے لئے کیا لایا ہے؟ ڈیوڈ نے اس کی بات پر توجہ نہ دی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی اور خیال میں مصروف تھا۔  پارک کے عقب میں ایک فاختہ سکون و شانتی کا راگ ا لاپ رہی تھی جو ہلکے ٹھنڈے موسم کی مناسبت سے موزوں تھا۔  سورج کی نرمی سے شبنم موجود تھی       ۔ ہلکی ہلکی ہوا   چل رہی تھی۔    پینکریتھ              نے جب میرے ہاتھ سے برگر پکڑے تو اس کے ہاتھ بہت ٹھنڈے اور ِچپ ِچپ کر رہے تھے۔ میں نے جھٹ سے اپنے ہاتھ پیچھے ہٹا لئے۔  اس نے ایک برگر ڈیوڈ کو دیتے ہوئے کہا کہ آج وہ ایک کنوارے کے بدذائقہ برگر کی جگہ لذیذ   بر گر کھائے گا۔ بر گر         دے کر میں واپس آ گئی۔پینکریتھ              ان دنوںہمارے گھر مرمتیں کر رہا تھا۔ اس نے والدہ کو کہا ہوا تھا کہ  وہ     اس               کے دیر      سے آنے پریشان نہ ہوراس کا دروازے پر انتظار نہ کیا کرے۔  اسوقت اٹھا کرے جب وہ دروازے پر دستک دیا کرے۔

سردیوں کے ایک دن ڈیوڈ گھر سے باہر تھا اور اپنے نائیٹ ڈریس میں تھا۔ اس کے چہرے پر برف سے جلنے کے زخم تھے۔میرا خیال تھا  کہ           اس وقت        ڈیوڈ اور  پینکریتھ  باورچی خانے میں اشتہ کر رہے ہوں گے لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا کیونکہ مجھے ان کے گھر کے باہر عقب سے آوازیں آرہی تھیں اور وہ کیا ریوں میں کچھ بو رہے تھے۔ وہ گھٹنوں کے بل جھکے بیج ڈال رہے تھے۔  پینکریتھ کی مجھ پر نظر پڑی تو  مزاحیہ انداز میں  کہا                   '                  لو جی   ہمارا ایک مہمان آ گیا ہے  '۔                وہ کسی شئے کو بھی ضائع نہیں کیا کرتا تھا اور کسی نہ کسی استعمال میں لے آیا کرتا تھا۔  اس کے پاس ایک ہی طرح کے کام میں پہننے  والے  پھٹے پرانےکپڑے تھے۔ہمیشہ وہی پھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہوتا تھا۔ وہ بے حد کنجوس تھا ۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیا وہ      شادی والے دن بھی  انہی کو مرمت                         کر کے پہنے گا۔ اتنے میں ورجینیا کی آواز سنائی دی۔اس کے ہاتھ میں   ٹینس بال تھی جو وہ سیمنٹ پر مار کر اچھال رہی تھی۔  آؤ کھیلیں۔

کیوں ؟     کیا  گڑیا گڈے کی  شادی کا کھیل نہیں کھیلنا۔

نہیں ۔ وہ  ٹوٹے پھوٹے اور گندے ہیں۔ ان کو دیکھ کر گھن آتی ہے۔ ورجینیا نے کہا۔ لوگوں نے دیکھ لیا تو ناک بھوئیں چڑھائیں گے۔

         پینکریتھ  اور لینا ہرمس                 کی شادی کا دن آگیا۔             جب ورجینیا               اپنی ماں مسز کولپٹس اور میں شادی میں شرکت کے لئے جانے لگیں تو اس وقت         آسمان پر اونچا ہو کر گرم ہو گیا تھا۔  مٹی اڑ رہی تھی۔ ورجینیا          کی والدہ      نے ہمیں اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ ہم اس روز نیلپالش لگا لیں۔  میں نےان پر  قرمزی رنگ کیا تھا جو بہت جچ رہا تھا۔ میری والدہ ، بہنیں اور کئی دوسرے لوگ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ میرے والد کی حجام کی دکان تھی اس نے اپنی زندگی میں اپنی دکان          کبھی بند نہیں کی تھی۔ وہ  حسب توقع  دکان پر تھا۔ ایک باراسے میری بڑی بہن کی  شادی پر اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے   لیکن اس روز بھی  رسوم کی ادائیگی کے بعد اس نے دکان کھول لی تھی۔ مجھے حیرانی ہوئی جب خلاف توقع  پینکریتھ اور     ڈیوڈ  نے اپنے کام والےکپڑے تبدیل کر کے سفید قمیص اور کالی پینٹ پہن لی تھی۔  

دلہن والوں کی  طرف سے لوگوں کی  کاروں کی ایک لمبی قطار آتی دکھائی دی تو مسٹر پینکریتھ کی جان میں جان آئی۔ وہ  مٹی اڑاتی آ رہی تھیں  اور آہستہ آہستہ  پارک کے پاس روک دی گئیں۔ اس وقت کو ا اپنی بے سری آواز میں کائیں کائیں کر رہا تھا۔

پینکریتھ نے سر ہلا کر ہر ایک کا خیر مقدم کیا۔ خواتین نے  اپنے اپنے گھروں سے لائے گئےکھانے بیچ کی میز پر سجانے شروع کر دئیے۔ پینکریتھ             نے اپنا سرخ چہرہ صاف کیا اور رومال کے پیچھے سے ٹیڑھی آنکھیں کر کے ہماری طرف دیکھا۔  میری ماں نے ٹھوکا  لگاتے ہوئے ہمیں کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ میں کرسی پر بیٹھ گئی ۔ لوگ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے  تھے۔ ان کی تانگوں پر آسانی سے چٹکی لی جا سکتی تھی۔              وہ چیونٹی کی چال سے ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔  سب کی آنکھیں اس طرف تھی جدھر سے دلہن نے آنا تھا۔    دلہن  کی آمد کا اعلان   ہوا      تو ہر سو خاموشی چھا گئی۔   یہاں تک کہ بے قرار بچوں نے بھی اپنی کھیلیں  ترک کر دیں  اورخاموش ہو  کر   ادھر دیکھنے لگے۔ میرا گلا سوکھ گیا ۔ پارک میں کوے ٹائیں ٹائیں کرنے لگے  ۔  ہم سب سڑک کے دوسری طرف ہم ان کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سن سکتے تھے۔

  دلہن  والوں کے ہجوم سے گانوں کی آوازیں آ رہی تھیں جو ہسپانوی زبان میں تھیں۔ جوں جوں وہ نزدیک آتے گئے آوازیں بلند ہوتی گئیں۔ وہ سڑک عبور کر کے ہماری طرف آنے لگے تو ہم سب کھڑے ہو گئے۔         اس کے   خاندان            کے تمام  بچے ننگے پاؤں  دلہن کے ارد گرد ننگے پاؤں ناچ گا رہے تھے۔    میں نے ایڑیاں اونچی کر کے دلہن کو دیکھا تو میرا دل دھک سے رہ گیا۔  بھونڈا میک اپ کیا ہوا تھا۔                     اس کےبالوں پر نیلا   پیلا رنگ کیا ہوا تھا۔ بہت سی بالوں والی سوئیوں سے بال باندھے گئے تھے۔ اس کے نقاب کی جالی سفید رنگ کی تھی۔اس  نے جو لباس پہنا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے بستر کی  چادر اپنے ارد گرد لپیٹ         رکھی  ہو۔     اس پر پلاسٹک کے پھول ٹانکے ہوئے تھے اور ان پر بھی مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔        ذرا سا روپ نہیں چڑھا تھا۔دلہن کے ہاتھ میں گلابی پھول تھے ۔ ہر ایک بے حس و حرکت  کھڑے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ دلہن کی فیملی        قریب     آتے گئے۔ لوگ ادھر ادھر ہو گئے تا کہ ان کا خاندان وہاں سے گزر جائے اوروہ بو جو  وہ اپنے ساتھ گرد و غبار، نارنگی          اور پسینے کی بو اپنے ساتھ لائے تھے  کم ہو جائے۔ دولہے کے ساتھ دلہن کی ماں  کھڑکی تھی جس کی گردن میں لومڑی کی دم کے بال والا مفلر لپیٹا ہوا تھا۔ اس کا  سیاہ  داغوں والا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔     دلہن   کے ایک طرف باپ اور دوسری طرف ماں نے دلہن           کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا   اور جب وہ پینکریتھ              کے پاس آیا  تو جوش سے اسے کہا کہ 'یہ لو  دلہن لینا ہارمس۔'

پینکریتھ              نے جب دلہن کا لباس دیکھا تو مایوس ہو کر غصے سے  بولا 'چھوڑو'۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔کیا  بات کرتے ہو۔ اس  نے گالی دیتے ہوئے کہا کہ وہ دلہن  کا لباس بھی نہیں خریدسکتے تھے۔

میں اسے تمہارے حوالے کرتی ہوں۔ دلہن کی ماں نے کہا اور دلہن کو اس کے سامنے ایسے کر دیا جیسے کہ کسی  پوٹلی کو رکھتے ہیں۔ اس نے اس کو اپنے پاس کھینچا  اور اس کو ڈیوڈ  کی طرف لے گیا۔ دلہن کا والدبھی پاس  کھڑا تھا۔ وہ دانت پیس رہا تھا اور اس سارے عمل کی توثیق کر رہا تھا۔ اس کے  کالے بال تیل سے چوپڑے ہوئے تھےاور پیچھے کئے ہوئے تھے۔ اس نے اس انداز  میں لوگوں کو دیکھا اور ایسے کہا جیسے وہ مذاق کر رہا ہو۔

' تم کیا کہتے ہو۔ حضرت عیسیٰ ؑ تمہاری قسمت اچھی کرے۔  '               اس نے باچھیں پوری کھولتے ہوئے        پینکریتھ              کو کہا۔ منہ کھولنے سے اس کے لمبے دانت نظر آئے۔ اس کو اپنی بیٹی کی کرتوتوں کا پتہ تھا اس لئے اس نے ذو معنی بات کی تھی۔

بد صورت لینا         مس        ہارمس اپنی خوش اخلاقی دکھانے کے لئے مسکرا رہی تھی۔ اس کے عمودی دانت باہر کو نکل آئے تھے۔وہ مڑی اور اپنے پیچھے کھڑی دو لڑکیوں کو کہا کہ اس کا جالی دار نقاب صحیح کریں۔پیچھے کھڑی کسی خاتون کی آواز آئی ۔' خدا دولہے پر رحم کرے'۔  میرا خیال ہے کہ یہ میری ماں کی آواز تھی، جو بھی ہے دولہا دلہن سے کہیں اچھا ہے۔ وہ ایک عمدہ شخص ہے۔

میں نے دیکھا کہ شادی کے تمام شرکا اپنے قہقہوں پر قابو نہیں پا رہے تھے۔ میری عینک کے پیچھے  ہنسی نہ رکنے سے آنسو جمع ہو گئے تھے اور  جاری ہو گئے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔   خوبصورت کا معیار کیا ہے۔اس سے تو ہمارے گڈا گڈی اچھے ہیں۔اس کی بدصورتی دیکھتے ہوئے میں   چیختی ہوئی صحن میں بھاگ آئی۔

تمہارا یہ رویہ کیسا تھا۔ یہ کیا بدتمیزی تھی؟والدہ نے اپنا ہیٹ اتارتے ہوئے  تختے پر رکھتے ہوئے کہا جو باورچی خانے کے وسط  میں تھا اور اصل جگہ پر نہیں تھا۔ چمنی کے پاس چھوٹا چاقو پڑا تھا۔کمرے کے پردوں سے روشنی چھن چھن کر اندر آ رہی تھی جس نے ماحول کو  روشن کر دیا تھا۔میں اپنے سامنے  ذروں کو ناچتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ والدہ مہمانوں سے ملاقات کرنے جا رہی تھی۔ اس نے اپنا ہیٹ اتارا تو  سورج کی روشنی اس کی گالوں پر پڑی۔  ملاقاتوں کے بعدہم گھر آگئے۔

 میں  پارک مین تھی  کہ نو بیاہتا جوڑا پارک میں اپنے شادی کے جوڑے میں سیر کے لئے آ گیا۔  دلہا دلہن  درختوں کے جھرمٹ کی طرف جا رہے تھے۔وہ قرمزی رنگ کے بھوتوں کی طرح حرکت کر رہے تھے۔  اگلے دن میں نے انہیں سڑک کے کنارے کھڑا دیکھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال رکھے تھے۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ ایک اور شام میں نے انہیں ہارس شو  سٹریٹ کے پاس اس وقت دیکھا  جب بادل گھن گرج رہے تھے اور وہ چھتری نما پھول کے پودے کے پاس کھڑے تھے۔ وہ  متوقع طوفان کی آمد سے بے پرواہ تھے۔  ایک رات جب میں نے اپنے گھی کی کھڑکی سے دیکھا  تو دولہے        نے دلہن کا جالی دار نقاب  پکڑا ہوا تھا اور وہ  شہر کی گنجان آبادی کی طرف جا رہے تھے اور ان کے اس انداز پر کوئی بھی ہنس نہیں رہا تھا۔

اس بے کیف شادی سے بہتر تو ورجینیا اور میری گڑیا کی شادی تھی۔ ہمیں کسی ڈرامے کی ضرورت نہیں  تھی۔ ہماری پرائیویسی  بھی تھی۔ کسی کی بےعزتی اور بدنامی بھی نہ تھی ۔ اگر پینکریتھ اور لینا         ہارمس     جیسا جوڑا        اعتماد سے گھوم پھر سکتا ہے اور لوگ ان پر آوازے نہیں کستے اور انہیں قبول کر لیتے ہیں         تو ہم اپنے گڈے گڈی کا بیاہ رچاتے ہوئے جھجک نہیں ہونی چاہئیے تھی۔     اس لئے ہم نے کھیل شروع کیا۔                                 

        ہم       نے     پھولوں کے درختوں پر چھتری جیسی   ٹوپی بنا ئی۔    اس میں جنگلی پھول بھر کر شاخوں پر رکھ دیئے    ۔ شادی کی ضیافت  سجانے کے بعد   کہا۔   

'              کیا تم اس خاتون  کو اپنی قانونی  بیوی        قبول کرتے ہو ؟               ''        میں نے پوچھا

ہاں۔     ورجینیا نے کہا

              کیا  تم اس    کو  قانونی طور پر اپنا                  خاوند            قبول  کرتی ہو؟           '         ورجینیا نے  پوچھا۔

ہاں۔

جب  مسٹر پینکریتھ      اور لینا ہرمس     جیسے بھٹکے ہوئے        لوگوں کی بے جوڑ شادی   ہو سکتی ہے اور خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں تو  میری گڑیا  خوبصورت  بھی ہو سکتی ہے  اور قانونی طور پر اسے قانونی خاوند تسلیم کر سکتی ہے۔ ورجینیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔  

مجھے بھی اب اپنی دعاؤں میں خدا سے دلہن گڑیا مانگنے کی ضرورت نہیں۔ ہم    اپنی      اسی گڑیا  اور گڈے سے کام چلا لیں گی۔  میں نے کہا

   

 

Life history

Sandra Birdsell

1942---

(Canada)

 

حالات زندگی

 

سینڈرا برڈسیل  کینیڈا کے صوبہ  مینی ٹوبا        کے شہر                           '               ہیمی اوٹا                         ' میں 1942 کو پیدا ہوئی۔                             اس کا والد کینیڈا میں پیدا ہوا تھا لیکن اس کی نسبت   نیدر لینڈ              سے  تھی  اور   ولندیزی زبان ( میٹیس کری)             کو زندہ رکھا ہوا تھا جبکہ فرانسیسی اور انگریزی اس کی  کینیڈین زبانیں تھیں۔            اس کی والدہ جرمن نژاد تھی جو روس میں پیدا ہوئی             تھی ۔1943    میں اس          کے        والد نے         فوج     میں نوکری کر لی تو اس کا خاندان ایک جگہ مستقل طور پر           کسی ایک جگہ رہائش نہ رکھ سکا۔ وہ اپنے گیارہ بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔       اس نے ابتدائی تعلیم  موریس               سے حاصل کی۔                  اس نے 15 سال کی عمر میں اپنا گھر  چھوڑ دیا۔ وہ                                       یونیوسٹی آف  وینی پیگ                         اور یونیورسٹی آف مینی ٹوبا میں پڑھی۔ اس  کا                 گائیڈ  رابرٹ کروشن تھا۔1966     میں  وہ                     سیسلیچوان             صوبے کے دارالخلافہ  ریجائنا               منتقل ہو گئی۔                   جب وہ 35 سال کی تھی تو اس نے یونیورسٹی آف وینی پیگ مین انگریزی  تخلیقی ادب                 میں داخلہ      لے لیا۔     پانچ سال کے بعد تھرسٹون پبلشر نے اس کا سب سے پہلا ناول (نائٹ ٹریلولز) چھاپا۔                آج کل وہ اونٹوریو صوبہ                            اور کینیڈا کے دارالحکومت  اٹاوا                   میں مقیم ہے ۔

 دو  واقعات  نے  اس کی سوچ کا رخ بدل دیا۔  پہلا  واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ساڑھے چھ سال کی تھی۔ اس وقت اس سے بڑی بہن           کینسر    سے فوت ہو گئی۔اب اس کا وقفہ اپنی  دوسری بڑی بہن سے چار سال کا ہوگیا۔بڑے خاندان کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔ دوسرا واقعہ 1950 میں پیش آیا جب اس کے شہر موریس میں سیلاب آیا ۔ اس نے اوپر نیچے تین کہانیاں سیلاب کی تباہ کاریوں پر لکھیں جو        اس کی تصنیف            آسیز سٹوریز                میں شامل کی گئیں۔  2007  میں        چار سال          تک یونیورسٹی آف وینی پیگ میں  پیشہ ور مصنفہ کے طورخدمات سر انجام دیں۔ 2010 میں وہ آرڈر آف کینیڈا   اور 2012 میں سیسکیچوان کے آرڈر آف کینیڈا    کی رکن منتخب ہوئی۔

         '                     برائڈ                  ڈول                        '                                         اس کے مجموعے                   '                      اگیسیز             سٹوریز                       ؛                        سے لی گئی ہے۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

 

Novels

The Missing Child (1989),The  Chrome Suite (1992),The Town That Floated Away (1997),The Russland (Katya 2001),Children of The Day (2005),Waiting for Joe (2010)

 Short Storis

Night Travelers ( 1982),Ladies Of the House (1984),Assassiz Stories (1987),The Two Headed Calf (1997)

Awards

The Missing Child (First Novel Award 1987),The Two Headed Calf (1997 Saskatchewan Book Award)

The Town That Floated Away (1997 Saskatchewan Book Award).The Russ lander (1997 Saskatchewan Book Award)

Popular posts from this blog