بے بیٹ کی ضیافت )دوسری قسط) (Babette's Feast) Isak Dinesen (1885 - 1962) Denmark

 


 


بے بیٹ کی ضیافت )دوسری قسط)

(Babette's Feast)

Isak Dinesen

  (1885 - 1962)

 Denmark

مترجم : غلام محی الدین

آرچل کا خط پڑھ کر فلی پا،اس کی بہن اور باپ سوچ میں پڑگئے کہ  بے بیٹ کی مدد کیسے کی جائے۔ اُن دنوں انہوں نے ایک جزوقتی ملازمہ رکھی ہوئی تھی۔ اضافی ملازمہ یا کسی فل ٹائم ملازمہ کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔جب اُنہوں نے آپس میں یہ بات کی تو بے بیٹ بولی،  فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔وہ آرچل کے بہترین دوستوں کے لئے اپنی خدمات مفت پیش کرے گی لیکن اگر انہوں نے اسے اپنے پاس نہ رکھا تو وہ مر جائے گی۔اُسے اُنہوں نے قبول کر لیا اور اپنے پاس رکھ لیا۔وہ بارہ سال تک ان کے گھر کی دیکھ بھال کرتی رہی اور کھانا پکاتی رہی۔

بے بیٹ(Babette)  نا گفتہ بہ حالات میں ڈین اور اس کے خاندان کے پاس آئی تھی۔اس کا مذہب اُن سے مماثلت نہیں رکھتا تھا۔پہلےپہل  تو وہ تذبذب کا شکار ہوئے لیکن پھر سوچا کہ اُن کے ساتھ رہ کر وہ بھی اُن کی اقدار اپنا لے گی اِس لئے اُسے اپنے پاس رکھ لیا۔چند دنوں بعد ہی بے بیٹ کا سگھڑ پن ظاہر ہونے لگا۔وہ اس گھر کی ایک قابلِ اعتبار رکن بن گئی۔اُس نے سب کے دل فتح کر لئے تھے۔اُس کی خاموش اطاعت، قوتِ برداشت،معاملہ فہمی اور اس کی کرشمہ ساز شخصیت کی وجہ سے تمام معاملات سلیقے سے اور منظم طریقے سے طے ہونے لگے لیکن وہ آرچل پاپن کی اس بات سے متفق نہیں تھیں کہ بے بیٹ ایک عمدہ باورچن ہے کیونکہ جووہ کھاتے پکاتے وہ نہیں جانتی تھی۔ اُنہوں نے اُسے سکھایا کہ اُن کی خوراک کیسے بنائی جائے جو کہ اُس نے جلد ہی سیکھ لیا اوراُن کے ذائقے پر پُورا اترنے لگی۔فرانسیسی فضول خرچی اور عیاشی ان کو پسند نہیں تھی۔یہ بات اُنہوں نے بے بیٹ کوبتا دی تھی کہ وہ غریب ہیں اور معتدل قسم کی خوراک کا خرچ ہی برداشت کر سکتےتھے۔  بے بیٹ نے سر ہلا کر کہا کہ اُسے معلوم ہے کیونکہ وہ ایک دفعہ ایک پادری کی باورچن بھی رہ چکی  تھی۔  بہر حال بے بیٹ نے گھر سنبھالا تو اس کے سگھڑ پن اور عمدہ کھانے بنانے کی بدولت وہ مطمئن  ہو گئیں کیونکہ ان سے بہتر خوراک بنانے کے باوجود خرچہ میں بھی  کمی واقع ہوگئی تھی۔اس کے علاوہ اُن کی خوراک میں تنوع بھی پیدا ہو  گیاتھا۔ اس کی شہرت علاقے بھر میں پھیل گئی ۔ اُس کو ناروے کی زبان تو نہیں آتی تھی لیکن زبان کے اہم لفاظ سیکھ لئے تھے۔وہ بحث کرکے چیزوں کی قیمت کم کروا لیتی اور اس سے مزید چیزیں خرید کر نئی ورائٹی پیدا کر لیتی تھی۔فلی پا کی خیرات کرنے کی قوت اور بھی زیادہ ہوگئی تھی۔گاؤں کے دوسرے لوگ بھی اس کے سلیقے کے قائل ہو گئے تھے اور اپنے فنکشن میں اس کو ضرور  مدعو کرنےلگے۔ 

بے بیٹ  (Babette) نے اپنے ماضی کے بارے میں شاید ہی کبھی کوئی بات کی تھی۔ دونوں بہنوں (مارٹینی اور فلی پا) نے اس کے اپنوں کے جانی و مالی نقصانات پر بہت افسوس کا اظہار کیا تھا جو بے بیٹ نے بڑے حوصلے اور ہمت سے برداشت کیا تھا۔ وہ ہمیشہ اُس کی دل جوئی کرتی رہتی تھیں۔           

مارٹینی اور فلی پا کے والد ڈین کی سو سالہ سالگرہ آنے والی تھی۔وہ والد کی سالگرہ کا بڑی شدت سے انتظار کر رہی تھیں اور اسے اپنے لحاظ سے شایانِ شان طریقے سے منانا چاہتی تھیں۔اُن کو اِس بات پر فخر تھا کہ زمانے کے بدلتے تقاضوں کےباوجو وہ  اپنے آبائی مذہب پر ابھی تک قائم تھے جبکہ زیادہ تر  ساتھیوں نے عقیدہ بدل لیا تھااورجدیددورکاشکارہوگئےتھے۔           

جوں جوں ان کے والد کی سالگرہ قریب آتی جا رہی تھی ان کی ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی تھیں۔وہ اِس بات کا پورا خیال رکھ رہی تھیں کہ تمام تر رسومات ان کے آبائی عقیدے کے مطابق  ہی ہو ں اور اُن کا والد یہ نہ سمجھے کہ وہ گمراہ ہوگئی ہیں۔جب وہ دونوں ساتھ ساتھ ہوتیں تو اپنے عقیدے کا یہ قول بار بار پڑھتی رہتیں کہ خدا نمک کے سمندر ، برف سے اٹے ہوئے پہاڑوں میں راستہ بناتا ہے اور ایسی جگہ بھی راستہ بنا تا ہے جہاں ان کی نگاہیں نہ پہنچ سکیں۔           

گرمیوں کے ایک دن بے بیٹ  (Babette)  کے نام ایک خط آیا۔ان بارہ سالوں میں یہ پہلا خط تھا جو اُس کے نام آیا تھا۔وہ اُسے لے کر باورچی خانے میں چلی گئی۔خط پڑھ کر وہ خوشی خوشی باہرآئی، مارٹینی اور فلی پا کو بتایا کہ اُس نے ایک دفعہ فرانس میں ایک  ٹکٹ خریدا تھاجس پراب اُس کا دس ہزار فرانک کا انعام نکل آیاہے۔            

یہ خوشخبری سن کر دونوں خواتین حیران رہ گئیں اور ایک منٹ کے لئے وہ بالکل ساکت کھڑی رہیں۔وہ خود گورنمنٹ سے ملنے والی پنشن پر گزارہ کر رہی تھیں جس سے اُن کا بڑی مشکل سے گزارا ہوتا تھا اور وہ رقم بھی قسطوں میں ملتی تھی۔وہ اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ دس ہزار فرانک ککی رقم کتنی بڑی ہوتی ہے۔ اُن کے ہاتھ کانپنے لگے اور انہوں نے بے بیٹ کا ہاتھ دبا لیا۔  اِن بارہ سالوں میں یہ پہلی بار تھی کہ انہوں نے اُس کا ہاتھ دبایا تھا پھر وہ یہ سوچ کر افسردہ ہوگئیں کہ اتنی بڑی رقم پانے کے بعد وہ انہیں چھوڑ کر فرانس واپس چلی  جائے گی۔اُس کے ساتھ وہ خوش بھی ہوئیں کہ اب بے بیٹ امیر ہوگئی تھی اور کسی کی محتاج نہیں رہے گی           

عجبب بات تھی کہ بے بیٹ اس لاٹری جیتنے کے بعد مکمل طورپرخاموش ہوگئی تھی۔یہ خاموشی پر اسرار تھی۔وہ باورچی خانے میں زیادہ وقت صرف کرنے لگی اور خاموشی سے کوئی کتاب پڑھتی رہتی جو فرانسیسی زبان میں تھی۔دونوں بہنوں نے سوچا کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق خدا کا شکریہ ادا کر رہتی تھی ۔وہ یہ بھی سوچتی تھیں کہ ہو سکتا ہے وہ لاٹری کی رقم جیتنے کے بعد مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہی تھی اور اپنا فیصلہ کسی دوسرے کو نہ بتانا چاہتی تھی جبکہ وہ اس بات پر افسردہ بھی تھیں کہ وہ غریب ہی رہ گئے تھے۔وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے مکان کی مرمت بھی نہیں کروا سکتی تھیں۔بے شک لاٹری ایک شیطانی کھیل تھالیکن وہ سوچتی تھیں کہ کیا وہ اس رقم سے غریبوں کی مدد نہیں کرے گی؟اِس قسم کی سوچیں آتیں اور چلی جاتیں۔انہوں نے یہ خبراپنی کمیونٹی کےلوگوں کوبتائی جنہیں وہ  بھائی بہن کہتے تھے۔           

آخر ایک دن بے بیٹ  (Babette)  کے پاس دس ہزار فرانک کی خطیر رقم آگئی۔اُن تینوں نے مل کر وہ رقم گنی۔انہوں نے اسے ایک صندوق دے دیا تاکہ رقم کو احتیاط سے اس میں رکھ لے۔انہوں نے اپنے دل میں سوچا کہ کاش بے بیٹ ان کے والد کی سوویں سالگرہ کے بعد جائے تو اچھارہےگا۔           

ایک روز ڈین کی سوویں سالگرہ سے ڈیڑھ مہینے پہلےبے بیٹ اُن کے پاس آئی اور انتہائی عاجزی اور انکساری سے درخواست کی کہ اسے ان کی  ایک اور مہربانی درکار ہے۔وہ چاہتی ہے کہ وہ ان کے والد کی سوویں سالگرہ پر وہ اپنی مرضی سے خصوصی  فرانسیسی کھانا بنائے۔اُن خواتین نے توکسی خاص کھانے کا تو سوچا ہی نہیں تھا۔وہ سادہ سا سوپ اور کافی بنا کر ہی روز مرہ کی طرح پیش کرنا چاہتی تھیں۔وہی کھانا ان کے لئے عظیم الشان ہوتا تھا اور وہی مہمانوں کو بھی کھلا دیتے لیکن بے بیٹ  اپنی مرضی کاکھانا بنانے کی درخواست  کرتے وقت اس کی نگاہیں اتنی عاجزانہ تھیں کہ انہوں نے ایسی انکساری اُس کی آنکھوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔   ساتھ ہی اس نے اس میں اضافہ کیا کہ وہ صرف ایک دفعہ ہی ایسا کھانا بنانا چاہتی ہے جو فرانس میں حقیقی خوشی کے موقع پر بنایا جاتا ہے۔ وہ عقیدت کے طور پر ایسا چاہتی ہےاوراُس کی خواہش ضرور منظور  کی جانی چاہیئے۔  دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔  انہیں اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ وہ کھانا کیسا ہوتا ہے۔  انہوں نے آج تک نہ تو ایسا کھانا کھایا تھا اور نہ دیکھا تھا لیکن جس پرخلوص انداز  سے اُس نے درخواست کی تھی کہ ُان کو ہاں کہنا پڑی۔         

بے بیٹ نے اُن کی ہاں پر سکھ کا سانس لیا لیکن اس کے باوجود بھی وہ وہاں سے نہ گئی کیونکہ اُس نے ایک اور درخواست بھی کرنا تھی جویہ تھی کہ وہ یہ کھانا اپنی رقم سے بنائے گی۔وہ اس کی طرف سے دعوتِ شیراز ہوگی۔           

نہیں بے بیٹ، ہر گز نہیں!  وہ اس قسم کی بات کیسے سوچ سکتی  تھی۔وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ بے بیٹ کی اپنی رقم ان کے والد کی سالگرہ پر خرچ ہو۔وہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیناچاہتی تھیں  کہ وہ اپنی قیمتی رقم کھانے پینے پر خرچ کرے۔           

بے بیٹ  (Babette)  نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عزم سے ایک قدم آگے بڑھایا۔اس کا قدم ایسے وقار کے ساتھ آگے بڑھا جیسے 1871  کے  انقلابِ فرانس میں کامریڈ فوجی چھاؤنی میں بڑھایاکرتے تھے۔اس درخواست میں فرانس کی عظمت تھی اور وہ اُسے ناروے کی زبان میں ایسے ادا کر رہی تھی جیسے وہ کوئی خوبصورت گیت الاپ رہی ہو۔اس کی آنکھیں اُن پر ایسے گڑی تھیں جواُن کے دلوں کو چیرتی ہوئی نکل رہی تھیں ۔وہ  اس بات پرپرعزم تھی کہ کھانااپنی رقم سے ہی بنائے گی۔اس نے کہا،مادام کیا اس نے اِن بارہ سالوں میں کبھی بھی کسی چیز کی اُن سے فرمائش کی تھیں؟ 

نہیں!  خواتین بولیں۔           

میں آج پہلی بار اور آخری بار دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ تمنا کر رہی ہوں کہ اُسے ایسا کرنے کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے سالگرہ کا کھانا بنا ئے اور اپنے انداز میں پیش کرے۔اگر اُسے یہ اجازت مل جائے تو اُسے اس کو منظور کرنے کی اتنی ہی خوشی ہوگی جتنی آپ کو اپنے خدا سے اپنی دعا قبول کرنے پر ہوتی ہے۔           

فلی پااور مارٹینی نے سوچاپھر فیصلہ کیا کہ اسے اجازت دے دی جائے۔دس ہزار فرانک میں سے اگر چند خرچ بھی ہوگئے تو بھی اس کے پاس کافی رقم بچ جائے گی۔ اُنہوں نے ہاں کہہ دی۔یہ الفاظ سنتے ہی وہ ایسی شان سے چل دی جیسے کہ اس نے دنیا زیر کر لی ہو۔           

نومبر میں بے بیٹ  ڈین کی سوسالہ سالگرہ  کےجشن کی تیاری کے لئے ایک سفر پر چلی گئی۔اُس نے سالگرہ پرخصوسی  ضیافت کابندوبست کرناتھا۔  اُس نےخواتین کو کہا تھا کہ دعوت کی تیاری کے لئے آٹھ دس دن چاہئیں۔اُس کا بھتیجا جو بحری جہاز میں اسے ناروے لے کر آیا تھا، ابھی بھی   بحری جہاز پربطور باورچی کام کر رہا تھا۔اُس نے اُس کے ذمہ یہ لگایا کہ فرانس سے اشیاء خرید کر اُس تک پہنچائے۔ وہ اپنے بھتیجے کو  فہرست فراہم کر کے واپس لوٹ آئی۔اگلے چند ہفتے وہ کافی بے چین رہی۔ایک دن خوشی اور جوش سے اس نے خواتین کو بتایا کہ مطلوبہ اشیاء فرانس کے دارالخلافہ سے ناروے پہنچ گئی تھیں اور وہاں سے جہاز کے ذریعے برل واگ  پہنچ جائیں گی اور وہ  انہیں آج وصول کر لے گی۔ 

کون سی اشیاء؟  خواتین نے حیرانی سے پوچھا۔ 

دعوت کے لئے جو چیزیں منگوائی تھیں وہ یہاں پہنچ گئی ہیں بے بیٹ نے جواب دیا۔  وہ اُس قت بہت خوش لگ رہی تھی۔

اس دن ایک رہڑی جس میں بہت سی بوتلیں تھیں،  ایک بوڑھا شخص لے کر آیا۔

مارٹینی نے ایک بوتل اٹھائی اور پوچھا کیا یہ شراب ہے؟

یہ شراب نہیں ہے مادام،  یہ مخصوص مشروب  (Clos Vougeout 1846)ہے جو فرانس  (Rue Montrogruel)سے منگوایاگیاہے۔           

ان خواتین کو پہلی بار پتہ چلا کہ خصوصی مشروب بھی ہوتے ہیں اور ان کے وصائف بھی مختلف ہوتے ہیں۔شام کوایک رہڑی اور آئی جسے ایک بھورے بالوں والا جوان کھینچ کر اندر لا رہا تھا۔اُس نے رہڑی سے ایک وزنی سی چیز اٹھائی جو سبزو سیاہ مائل پتھر کی شکل کی تھی ۔جب اس نے اسے باورچی خانہ کے فرش پر رکھا تو اس نے سانپ کی طرح اپنی گردن باہر نکالی۔ مارٹینی نے کچھوے پہلے بھی بہت دیکھے تھے لیکن اتنا بڑا کچھوا کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ بغیر کچھ کہے کچن سے باہر نکل آئی۔ اس کو رات بھر نیند نہ آئی۔اس نے سوچا کہ والد کے سالگرہ کی رات ایسی دعوت  جس میں کچھوے پکائے جائیں گے وہاں  چڑیلیں ہی آئیں گی۔رات بھر اسے ڈراؤنے خواب آتے رہے۔           

اگلی صبح جب وہ سو کر اٹھی تو اس نے گلی کے ایک ایک گھر کے باہر دعا مانگی کہ اللہ انہیں خیر خیریت سے رکھے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ اب انہوں نے اپنے والد کی سوویں سالگرہ کے لئے مہمانوں کی لسٹ بنانا تھی۔کھانے میں جو اشیاء استعمال ہونی تھیں وہ عجیب و غریب تھیں اس لئے انہوں نے سوچا کہ وہ چپ چاپ کھالیں گی اور خموش رہیں گی خواہ وہ مینڈک ہوں، کچھوے ہوں یا کیکڑے، وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالیں گی۔وہ بے بیٹ کادل نہیں توڑناچاہتی تھیں۔           

انہوں نے سب سے پہلے مسز لُیو  (Mrs. Loe wenhielm)  کو جو کہ ان کے والد کی سب سے بڑی پیرو کار تھیں اور اگرچہ وہ اس وقت نوے سال کی عمر کی  تھی جس  کے ذائقے کی حسیں ختم  تھی کو سب سے پہلے بلانے کا سوچا۔اتفاق سے ان دنوں اس کا بھتیجا لورنیز  (Lorens)بھی آیا ہوا تھا۔ وہ ترقی کرتے کرتے اب جنرل بن چکا تھا اوربادشاہ کااہم مشیربن گیا تھا۔اُس نے درخواست کی کہ کیا وہ اپنے بھتیجے کو اپنے ساتھ لا سکتی ہے؟  وہ خوبرو جوان ابھی تک ان کو اچھی طرح یاد تھا۔ مارٹینی  کاپہلااورآخری پیارتھاسے ملنا چاہتی تھی۔اُسے اُس کی یاد آتی رہتی تھی۔وہ ماضی کے خوبصورت لمحات کو تازہ کرنا چاہتی تھی اِس لئے اس نے کہا کہ وہ اُسے خوش آمدید کہے گی۔  اسے مہمان خصوصی کے طورپرمدعوکیاگیا۔بے بیٹ کو مطلع کیا کہ مہمانوں میں ا یک اور مہمان شامل کر لیاجائے۔بے بیٹ یہ سن کر خوش ہوئی کہ یہ مہمان پیرس میں بھی رہ چکا تھا اور مقتدر حلقے سےتعلق رکھتا تھا۔وہ بولی فکر نہ کریں۔وہ اس کے حصے کاکھانا بھی بنالے گی۔ کھانا سب لے لئے کافی ہوگ           

مارٹینی اور فلی پا اپنے گھر کی صفائی کرنے لگیں۔وہ کچن نہ گئیں کیونکہ وہاں بے بیٹ کا بھتیجا اور وہ کھانا بنانے میں مصروف تھے۔ وہ نہ تو اُن کی مصروفیت میں خلل ڈالنا چاہتی تھیں اور نہ وہ یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ عجیب و غریب چیزیں کیسے پک رہی تھیں۔           

خواتین نے میزوں پر استری شدہ لینن کی چادریں بچھا دیں۔بہترین کراکری دستر خواں پر چن دی گئی  جوبے بیٹ لائی تھی۔ وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اتنی بہترین کراکری بے بیٹ کہاں سے لے کر آئی تھی۔کل بارہ مہمان بلائے گئے تھے۔ان مہمانوں کے لئے اتنی کرسیاں ان کے گھر میں نہیں تھیں اس لئے صوفے کو گھسیٹ کر ٹیبل کے قریب لایا گیا۔مارٹینی اور فلی پا نے اپنے طور گھر سجایا۔اپنے باپ کی تصویر کے سامنے پھولوں کا گلدستہ رکھا۔جگہ جگہ خوشبو دار پتوں کو سلگایا اورموم بتیوں کو سٹینڈ پر رکھ کر خوبصورت ماحول پیش کرنے کی کوشش کی۔ نوے سالہ  مسز لیو اپاہج  تھی، وہ چل پھر نہیں سکتی تھیں  ۔اُن کی کرسی یا بگھی کوکیسے اور کہاں سے گزار ا جائےکے بارے سوچا اورگزارنے کابندوبست  کیا۔تمام انتظام مکمل کرنے کے بعد اُنہوں نے اپنے خوبصورت لباس زیب تن کر لئے اور عبادت کرنے لگیں۔           

ڈین کے  مذہب کےمعتقد(جنہیں  بھائی اور بہنیں  کے الفاظ سے پکاراجاتاتھا)بھی آگئیں۔وہ سب بڑے ادب کے ساتھ کمرے میں آکر بیٹھ گئے۔آج تمام مہمانوں کا استقبال گھر کے باہر سے ہی کیا گیا اورانہیں  کمرے میں لایا گیا۔ڈین نے سبز رنگ کا صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا۔تمام مہمان اس سے عقیدت سے ملے اور حمد گانے لگے۔ابھی وہ سب گا ہی رہے تھے کہ انہوں نے بگھی کی گھنٹیوں کی آواز سنی جونوے سالہ مسز لیو کی آمدکی اطلاع تھی۔اُس کے ایک طرف مارٹینی کا چاہنے والامسز لیو کا بھتیجا لورنیز تھا جواونچا لمبا، کشادہ چھاتی والا، سرخ و سپید شخص ایک جنرل کی وردی پہنے ہوئے تھا جس کی چھاتی تمغوں سے سجی ہوئی تھی۔ وہ اس وقت بادشاہ کے بعد ملک کا  اہم ترین شخص تھا۔وہ  اپنی محبت کے اظہار میں ناکامی سے دلبرداشتہ گائوں چھوڑنے کے بعد پہلی دفعہ آیا تھا۔  وہ اپنی شان و شوکت اور اشرافیہ کی مصروفیات سے جان چھڑا کر کچھ وقت کے لئے تنہا رہ کر سکون حاصل کرنا چاہتا تھا ۔وہ اس گھر میں آنا چاہتا تھا جس کے سامنے ان کے سرمائی، گرمائی اور موسمِ بہار کے محل ہیچ تھے۔سکون وہ یہاں پر ہی حاصل ہوسکتا تھا۔اس نے اپنی زندگی میں جو جو خواہش کی تھی وہ اس نے حاصل کر لی تھی سوائے مارٹینی کے۔اُس کے رشتہ دار اور ا س سے متعلق جو بھی لوگ تھے وہ اس پر فخر کرتے تھے۔عزت، شہرت، دولت اور رُتبہ تھا لیکن کبھی کبھار وہ بے حد اداس ہو جاتا تھا۔اس کی زندگی میں جو خلامارٹینی نے چھوڑا تھا اس کی  جگہ اس کی بیوی بھی ُپر نہ کر سکی تھی۔وہ بادشاہ کے اندرونی حلقوں میں سے تھا۔اسے جو بھی ذمہ داری سونپی گئی، اُس نے بے حد خوش اسلوبی سے سر انجام دی تھی۔اس کے دوست ہر جگہ موجود تھے۔مقتدر حلقوں میں وہ اہم ترین شخص سمجھا جاتا تھا۔           

اُس کی بیوی ذہین اور خوبصورت عورت تھی جو پارٹیوں کی دلدادہ تھی جس کی وجہ سے اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ گھر پر توجہ دے سکے۔وہ نوکروں کو ہر تین مہینے بعد فارغ کر دیتی تھی۔جنرل کے کھانے پینے کے کوئی خاص اوقات مقرر نہ تھے جس کی وجہ سے اس کا پیٹ ہمیشہ خراب رہتا تھا۔وہ بہترین خوراک کا شوقین تھا اور اِس معاملے میں وہ اپنی بیوی سے غیر مطمئن تھالیکن یہ کوئی ایسی بات نہ تھی کہ وہ اُسے چھوڑ دے۔اس گھر میں داخل ہوا تو پھر سے اس کواپنی روح ناپاک لگنے لگی اوروہ خود کو بڑا گنہگار سمجھنے لگا۔اُس کی وجہ اسے سمجھ نہ آئی۔وہ ایک باکردار شخص تھا۔توبہ کے بعد اپنی بیوی کے علاوہ اس نے کسی اور سے تعلقات استوار نہیں کئے تھے، پھر بھی اُس میں اِس وقت شدید احساسِ گناہ اور احساسِ ندامت پیدا ہوگیا تھا۔اُس کی وردی تمغوں سے سجی ہوئی تھی جو اسے دوسروں سے ممتاز بناتے تھے ۔ جب وہ جوان تھا تو اس کی شخصیت مقنا طیسی تھی جو ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔وہ ایک ایسے خوشبودار پھول کی مانند تھا جسے شہد کی مکھیاں اور تتلیاں چوسنا چاہتی تھیں اور اِس کے ارد گرد منڈلاتی رہتی تھیں۔اُس کا ہمیشہ تعاقب کرتی رہتی تھیں۔وہ شہزادیوں کی صحبت ٹھکرا دیتا۔اُس نے تمام دنیا فتح کر لی تھی۔اپنے ملک کے تمام اعزازات اپنے نام کر لئے تھے لیکن آج وہ ایک بوڑھے کے روپ میں سوچ رہا تھا۔اپنی سابقہ زندگی میں جب وہ لیفنینٹ تھا اور آج جب کہ وہ جنرل تھا تو اسے لیفٹنٹ والی زندگی برتر لگ رہی تھی۔اُس نے یہ محسوس کیا کہ اس نے اپنی زندگی میں انتہائی قیمتی شے کھو دی تھی۔وہ آج کی دعوت میں اُن کھوئے ہوئے واقعات کو ڈھونڈنا چاہتا تھا، اُن واقعات کو حاصل کرنا چاہتا تھا جو وہ جوانی میں اس گھر میں مارٹینی کے روپ میں چھوڑ گیا تھا۔           

اسے وہ وقت یاد آیا جب اس کو پیرس میں فرانس کی جانب سے اس ملک کےسب سے بڑا اعزاز سے نوازا گیا تھا تو اُس کی شان میں ایک خاص ضیافت کا انتظام کیا گیا تھا۔اُس میں بادشاہ، ملکہ، اشرافیہ، جرنیل اور تمام عہدیداران شامل تھے۔اُس بہترین ہوٹل میں ایک شہزادی نے ہاتھ میں شیمپین کے گلاس سے ٹوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے ہمیشہ خوش رکھے گی تو ایک لمحہ کے لئے اس کی شکل میں اسے مارٹینی کی جھلک نظر آئی تھی لیکن ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر اس وقت اس نے اپنا سر جھٹک دیا تھا۔ جب کہ آج وہ حقیقی طور پر مارٹینی اور فلی پا کے درمیان تھا اور ان کی بھر پور توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔وہ باتیں کر رہا تھا اور وہ اسے بڑے غور سے سن رہی تھیں اور اس کے زندگی کے واقعات میں تجسس سے دلچسپی لے رہی تھیں۔           

بے بیٹ آج سوویں سالگرہ کی ضیافت کی میزبان تھی۔اُس نے تمام معزز مہمانوں کے لئے ڈائننگ روم کھولا۔تمام مہمان احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انتہائی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوئے پھر انہوں نے حمد گانا شروع کر دیں۔بے بیٹ نے میزوں کے درمیان موم بتیاں جلا رکھی تھیں۔ان کی پیلی روشنیاں مہمانوں کے لباسوں کو رنگین کرکے مزید دلکش بنا رہی تھیں۔جنرل لورنیز نے اپنے ذہن میں مارٹینی کا وہ چہرہ دیکھا جو وہ تیس سال پہلے چھوڑ گیا تھا۔اس طویل عرصے نے اس کے چہرے کے نقوش پر کیا اثرات ڈالے تھے، دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے دیکھا کہ اس کے سنہری بالوں میں اب چاندی اتر آئی تھی۔اس کا گلابی چہرہ اب بالکل سفید ہو چکا تھالیکن اس کے چہرے پر کتنا اطمینان تھا۔اس کا ماتھا کتنا نورانی تھا۔آنکھیں کتنی سچی اور قابل اعتبار تھیں۔منہ کتنا میٹھا اور پاک تھا، ہونٹ کتنے رسیلے تھے جنہیں آج تک کسی نے بھی چھوا نہ تھا۔وہ اس کے موجودہ حلیے کے سحر سے باہر نہ نکل سکا۔وہ روح کتنی پاکیزہ تھی اُس سے بہت متاثر ہوا۔           

جب سب مہمان اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو سب سے بزرگ معتقد ڈین کی شان میں قصیدے پڑھنے لگا۔اسے سب خموشی اور ادب سے سننے لگے۔میز پر بوتلیں اور خالی گلاس رکھے گئے تھے۔بے بیٹ کے بھتیجے نے اُن گلاسوں میں مشروب ڈالنا شروع کر دیا۔بزرگ کی دعا کے بعد سب نے گلاس اٹھایا اور اسے پینے لگے۔جنرل لورنیز مشروب کے رنگ کو دیکھ کر چونکا اس نے متجسس ہو کر ایک گھونٹ لیا، اُسے سونگھا اور اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اُسے یہ بات بڑی عجیب و غریب لگی۔اُس نے کہا کہ یہ تو وہ مشروب ہے جو صرف خصوصی موقع پر بادشاہ اور اشرافیہ پیتے ہیں۔وہ مشروب  (Amontillado )  کی بہترین قسم تھی  جو اُس نے آج  پیش کی جارہی تھی۔اُس نے اپنے شک کو دور کرنے کے لئے سوپ سے ایک چمچ لیا۔اسے چکھا، ذائقے کو کنفرم کرنے کے لئے ایک اور چمچ لیا اور پی لیا۔وہ حیران تھا کہ وہ سوپ اس کچھوے کی نسل کاتھاجو شاہی تقریبات میں پیش کیاجاتاتھااوربے حد مہنگا اورلذیذ ہوتاتھااور جسے شاہی  خانے میں ہی بنایایاجاسکتاتھا۔اس گاؤں میں جب لوگ ڈنر کرتے تھے  تو بولتے نہیں تھے لیکن اُس وقت سب بول رہے تھے۔بزرگ مداح  ڈین سے اپنی ملاقات کی تفصیلات  اور زندگی بھر کے قصے بیان کر رہا تھا۔ایک عورت بولی کہ اس کمیونٹی  کے بھائی اور بہنیں ایک دوسرے کی  ہمیشہ مدد کرتی تھیں اور یہ سب ڈین کی تعلیمات کی بدولت تھا۔لورنیز نے بھی ب گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ناروے کی ملکہ کو بھی ڈین کادہ وعظ بہت پسند تھا جو اس نے کتابچے کی صورت میں چھپوایاتھا۔

اس کے بعد نئی ڈش لائی گئی تو وہ خاموش ہوگیا۔اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ شاہی کھانا کھا رہا تھا۔اب جو ڈش پیش کی گئی  تھی وہ  (Blinis Demdoft ) بھی شہنشاہوں کے لئے بنائی جاتی تھی۔اس نے ارد گرد دیکھا تو لوگ اسے عام ڈش سمجھ کر کھا رہے تھے۔انہیں اس ڈش کی قدرو قیمت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔مہمان ڈین کی ایک سے بڑھ کر ایک تعریفیں کر رہے تھے۔ایک اور خاتون کہہ رہی تھی کہ اس کے وعظ کی بدولت بچپن میں طوفانی برفباری رک کر فوراً ہی خشک ہوگئی تھی۔ بھتیجے نے ایک بار پھر سب کے گلاس بھرے، مہمان اب یہ جانتے تھے کہ یہ شراب نہیں بلکہ کوئی مشروب ہے لیکن یہ کون سا ہے کی پہچان نہ تھی۔یہ لیموں کے ذائقے والی کوئی چیز تھی۔لورنیز نے اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے شخص کو کہا کہ یقینایہ ڈش سب سے خاص تھی جس کا نام   (Veuve Cliqout 1860) ہے۔

 ہاں  یقینا! اُس شخص نے جنرل کی طرف دیکھا،مسکرایا اور موسم پر گفتگو کرنے لگا۔ بے بیٹ کے بھتیجے نے  ہدایات کے مطابق صرف جنرل کے گلاس کو بارباربھرتارہا۔ وہ گلاس ختم کرتا وہ پھر بھر دیتا۔جنرل اس سے محظوظ ہوتا رہا۔جب برل واگ گاؤں کے لوگ ڈنر کرتے تھے تو ان کا پیٹ بوجھل ہو جاتا تھا لیکن آج کی دعوت ایسی تھی کہ وافر مقدار میں کھانے کے باوجود ان کا پیٹ ہلکا رہااور سب خود کو تازہ دم ہی محسوس کر رہے تھے۔جنرل لورنیز کھانا کھانے کے بعد بے حس و حرکت بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ یہ کھانا بالکل وہی تھا جو اس کے اعزاز میں  سب سے بڑا تمغہ دیتے وقت پیرس میں پیش کیاگیاتھا۔وہاں اس کے اعزاز میں ایک لذیذ نئی  ڈش  بنائی گئی تھی جواسے بہت پسند آئی تھی۔ اُس نے وہاں اس وقت اپنے پاس بیٹھے کرنل سے پوچھا تھاکہ یہ کون سی ڈش تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ یہ  (Caillese Sarcophage )  چاہت کی ڈش ہے۔یہ وہ ڈش تھی جو صرف اس شاہی کیفے  (Anglais Cafe)  میں ہی بنتی تھی۔یہ ایک شیف کی ایجاد کردہ تھی جو  ایک خاتون تھی۔یہ ڈش اس دور کی بہترین ڈش تھی جو رومانس اور محبت کے فروغ کے لئے بنائی جاتی تھی۔لورینز کو اب یہ ڈش پیش کی گئی  تو اس نے پاس بیٹھے مہمان کو کہا کہ یہ  ( Caillesan Sarcophage )  چاہت کی ڈش ہے اوریہ ایک معجزہ ہے کہ ایسی عظیم ڈش ی سوویں سالگرہ میں اس گھرمیں پیش کی گئی ہے۔

  اس نے کہا ہاں ہاں، ہاں اور کون سی ہو سکتی ہے؟

ڈین کے معجزے بیان کرنے کے بعد اب بات ان کی بیٹیوں کے چھوٹے چھوٹے معجزوں پر ہونے لگی تھی۔دعوت کے اختتام پر جنرل نے مہمان خصوصی کے طورپراختتامی تقریر کرنا تھی۔وہ اٹھااورکہا۔

 

جاری ہےxxxxxxxxxxx 

 

Popular posts from this blog