ایڈ یپس بادشاہ Oedipus Rex ( One of Trilogy Drama) Sophocles (Greece...496...406 B,C)









ایڈ یپس بادشاہ 
                                                                                                   Oedipus Rex  ( One of Trilogy Drama) 
                                           Sophocles (Greece...496...406 B,C)                                                                                                                                                                                                          غلام محی الدین 
 یونان کے عظیم تمثیل نگاروں میں سب سے بڑا نام ہے ہ لیجنڈ  روائتی یونان  ادیب ہے جس نے ڈراموں کو نئی نہج دی۔اگرچہ سوفوکلیز   کے تمام  ڈراموں کو پذیرائی ملی  لیکن جو  مقام اسے اپنے تین   ثلاثہ    ڈراموں کی وجہ سے ملا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔  اس کو اس نے مثلثیات  المناک  ڈراموں  (Triology) کا نام دیا۔  یہ تین ڈراموں کا ایک سلسلہ ہے جن میں ہر ڈرامہ اپنے اعتبار سے یکتا اور مکمل ہے لیکن اس کے ساتھ  وہ ایک دوسرے سے منسلک ہے اور ان کو اکٹھا   پڑھا جائے  تو ان کا موضوع  زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ واقعات مربوط انداز میں   سامنے آتے   رہتے ہیں اور کہانی  میں تسلسل برقرار رہتا ہے ۔ اسکے ڈراموں میں واقعات  کا اظہار  ایک منظم طریقے سے ہوتا ہے جو    آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ وہ نہائت احتیاط سے چن کر  مختصر انداز میں اپنے الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔فضول کا بحث مباحثہ نہیں پایا جاتا۔  ڈرامائی تاثر ہوتاہے۔ تسلسل اور مرکز ہے۔ ارتباط ہے ۔ اس کے ڈرامے اڑھائی ہزار سال گزرنے کے باوجود بھی مقبول ہیں۔  اس کے المیہ ڈرامو ں

میں درج ذیل تین ڈرامے درج ہیں جو سدا بہار ہیں۔



 Oedipus Rex لاطینی زبان میں  (1 


 Tyrannos Oedipusیونانی زبان میں  

       

  Oedipus The King  انگریزی میں 

  


  Oedipus  at Colonus   اوڈیپس  کولونس میں       (2


   Antigone اینٹگنی     (3

        

            

                                                                                                                                            

   


اوڈیپس بادشاہ  (Oedipus The King)            

 

 سوفوکلیز  نے یہ ڈرامہ ( 429 B.C.  )  میں پیش کیا۔ اوڈیپس یونانی ریاست تھیبز  میں پیدا ہوا۔ اس کا والد  لائییس  (Laius)  وہاں کا بادشاہ تھا۔ اس کی ماں کا نام جوکاسٹا((Jokasta)  تھا۔ اس کی پیدائش پر نجومیوں نے پیشینگوئی کردی کہ وہ منحوس ثابت ہو گا۔ نہ صرف خاندان کی تباہی  کا باعث ہو گا بلکہ وہ اپنے باپ کو قتل کردے گا اور اپنی والدہ سے شادی کر لے گا۔ اس بنا پر اس کے والدین نے اس سے چھٹکارے کے لئے اس وقت جب وہ تین دن کا تھا  اپنے ایک وفادار کے سپرد کر کے کہا کہ اسے پہاڑ سے پھینک کر قتل کر دے۔ وہ بہت خوبصورت تھا۔ سپاہی کو اس پر رحم آ گیا۔  اس نے اسے قتل کرنے کی بجائے پڑوسی ریاست ایتھنز کے ایک چرواہے کے حوالے کر دیا جس نے وہاں کے بادشاہ  اور ملکہ جو بے اولاد تھے ، کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے اسے اپنا  بیٹا بنا لیا  رضاعی والد کا نام فیلی بییس   (Falibius   )اور ماں کا نام ماروقی (Maroqi)  تھا۔   انہوں نے اسے بڑے ناز و نعم سے پالا۔ بہترین تعلیم دلوائی۔ فنون سپہ گری میں یکتا کیا۔اسے حقیقی اولاد سے بڑھ کر پیا ردیا۔ وہ انہیں حقیقی والدین سمجھتا رہا۔ اسے ان سےبے حد پیار تھا۔ ایک دن ایک نجومی  کے ذریعے اس پر یہ عقدہ کھلا کہ  بادشاہ اور ملکہ ایتھنز اس کے حقیقی والدین نہیں  تو اس پر سکتے کی کیفیت چھا گئی۔ پہلے تو اسے یقین نہ آیا پھر وہ دلبرداشتہ ہو کر اپنے صدمے پر قابو پانے کے لئے کولونس (Colonus) چلا آیا اور افسردگی کا شکار ہو گیا۔احساس محرومی اور نا امیدی میں جا رہا تھا کہ  پانچ آدمیوں  کا  مسلحہ ٹولہ مخالف سمت سے آ رہاتھا۔ اس نے اسے راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ بات بگڑی تو ان میں لڑائی ہوگئی۔ اوڈیپس نے ان میں چار کو قتل کر دیا۔ ایک جان بچا کر بھاگ نکلا۔ان مقتولوں میں ایک امیر کبیر لگتا تھا اور باقی اس کے محافظ لگتے تھے۔ اوڈیپس کا ان سے جھگڑنے یا مارنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انہوں نے لڑائی شروع کی اور بڑھائی تھی اوڈیپس  کو اپنے دفاع میں لڑنا پڑا اور وہ مارے گئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔  

 

ان دنوں پڑوسی ریاست تھیبز میں طاعون پھیلا ہوا تھا۔ سماوی آفات کی وجہ سے بادشاہ اور رعایا پریشان تھی۔ اس بلا سے چھٹکارے کے لئے وہاں کا بادشاہ  کوئی مداوا ڈھونڈ نے نکلا تھا کہ یہ سانحہ رونما ہو گیا۔ اوڈیپس اس بات سے قطعی طور پر لاعلم تھا کہ  مقتولوں میں اس کا حقیقی والد بھی تھا۔ 


تھیبز میںطاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی جس کا مداوا ایک بد روح سفنکس (Sphinx  )کے پاس تھی۔اس کا مطالبہ تھا کہ اس کی پہیلیوں کو بوجھنے کے بعد ہی آفات کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ وہ پہیلیاں اتنی مشکل ہوتی تھیں کہ انہیں کوئی حل نہیں  کر سکتا تھا۔ اوڈیپس اس کے پاس گیا اور اس کی پہیلیاں حل کر دیں جس سے عوام الناس  کو اس عفریت سے نجات مل گئی۔۔ خاص و عام اس پر راضی اور خوش ہوئے اور نجات دہندہ اوڈیپس کو زبرستی تھیبز کا بادشاہ بنا دیا۔روائت کے مطابق اس نےبادشاہ کی بیوہ  جوکاسٹا  سے شادی کرلی۔ 

 

اوڈیپس اور جوکاسٹا سے چار بچے  ہوئے۔ بڑا بیٹا  پولی نیسز (Polynieces)   چھوٹا بیٹا  ایٹیوکلز    (Eteocles) ، بڑی بیٹی انٹگنی (Antigone) اور بیٹی ازمینی (Ismene) تھی۔  اس طرح  سے اس کی حقیقی والدہ اس کی بیوی  اور ان کی اولادیں بیک وقت  رشتے میں بیٹے بیٹیاں اور بھائی بہن تھیں ۔ سب بچے جوان ہو گئے۔ سلطنت کے امور وہ بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتا رہا۔


اوڈیپس دیوتاؤں کا عبادت گزار تھا۔ ایک دن وہ زیتون کی شاخوں کی عبادت کر رہاتھا ریاست پر آفات سے نجات کے لئے دعائیں مانگ رہا تھا  کہ رہا تھا


اے ہم وطنو! میں اوڈیپس جس کی عظمت کے سب گن گاتے ہیں،تمہاری بھلائی کی خاطر یہاں موجود ہوں۔ تمہاری مشکلات سے بخوبی آگا ہ ہوں۔ میں تمہیں مشکلات سے نکالوں گا۔ میں اس لئے  یہاں آیا ہوں کہ برگزیدہ لوگوں اور دیوتاؤں سے معلوم کر سکوں کہ کس قسم کی آفات سے تمہارا واسطہ ہے اور مجھے کیا تدابیر کرنی چاہئیں کہ تمہاری مشکلات کا خاتمہ ہو سکے۔ پجاریو، نیک بندو آپ مجھ سے علم اور عقل میں بڑے ہو دیوتاؤں کے قریب ہو، براہ کرم رہنمائی فرمائیں اور بتائیں کہ ان مشکلات کا سبب کیا ہے؟ 



  دیوتا ؤں کا ایک پیام بر غیب دان یک دم  دیوتاؤں  کی طرف سے پیغام لایا کہ  تھیبز کو تباہی سے بچانے کے لئے اوڈیپس کو جلاوطن کر دیا جائےگناہ کبیرہ کیا ہے۔ اوڈیپس اس بزرگ پر پل پڑا۔ اس کی بات کا یقین نہ کیا۔ رفتہ رفتہ گناہ بھید کھلتا گیا اوروہ سپاہی جو کولونس کی لڑائی میں بچ نکلا تھا  نے گواہی پر تصدیق ثبت کر دی  کہ اوڈیپس نے اپنے باپ کو کولونس کے جھگڑے میں قتل کردیا تھا۔ اس پر اوڈیپس نے اپنی آنکھوں میں سوئیاں مار کر خود کو اندھا کر لیا۔  ملکہ جوکاسٹا نے  خودکشی کر لی۔اس کے بیٹوں نے اسے تھیبز سے نکال دیا۔  


اوڈیپس ندامت سے روتا  پیٹتا وہاں سے نکل پڑا اور اندھا ہونے کے باوجود اسے راہ سجھائ دیتی رہی اور دیوتا اس کا رخ اس طرف موڑ دیتے جس طرف اسے پہنچاتا تھا۔ اس کی بیٹی اگنٹگنی نے اسے تنہا نہ نہ چھوڑا اور سائے کی طرح ہر وقت اس کے ساتھ رہی۔دیوتا اسے ایتھنز اور تھیبز کی درمیانی ریاست کولو نس لے آئے۔ اس نے مقدس پتھروں کے پاس جھنڈ میں پناہ لی۔ وہ گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا جو اس سے انجانے میں سر زد ہوئے تھے۔


تھیبز میں اوڈیپس کو اس کے بیٹوں نے جلاوطن کر دیا ۔ چھوٹے بیٹے ایٹییو کلز نے عیاری اور سازش سے تخت پر قبضہ کر لیا اور پولی نیسیس کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔وہ ریاستوں میں بھٹک بھٹک کر اپنے حق میں فوج تیار کرتا رہا۔ 

 

 

2)  اوڈیپس کولونس میں(Oedipus at Colonus ) 

 

 سوفو کلیز   نے یہ ڈرامہ   441 B.Cیں  تحریر کرکے پیش کیا۔ اینٹگنی اور ازمینی اپنے بھائیوں میں صلح کروانے کے لئے تھیبز پہنچتی ہیں  تو  پولی نیسز   اور ایٹیولس دونوں جنگ میں کام آ چکے ہوتے ہیں۔ ان کے ماموں کری اون اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ چکا ہو تاہے اور  فیصلہ سنا چکا ہوتا  ہے کہ ایٹیولس حق پر   تھااور پولی نیسز   غدار تھاکیونکہ وہ سلطنت پرباہر سے حملہ آور ہوا تھا۔ وہ ملک تباہ کرنے کے لئے آیا تھا اس نے اعلان کر دیا تھا کہ ایٹیولس کو تمام اعزازات کے ساتھ دفنایا جائے اور پولی نیسز   کو کھلی جگہ پر رہنے دیا جائے تاکہ جنگلی جانور اسےکھا ئیں اور کتے اس کی بوٹیاں نوچیں ۔جو میرا حکم نہیں مانے گا اسکی سزا موت ہے۔ اس کو سنگسار کردیا جائے گا۔ اینٹگنی نے اس کے احکامات تسلیم کرنےسے انکار کر دیا۔ اس کا ماننا تھا کہ دیوتاؤں کا حکم ہے کہ مردے کی تحریم کی جائے۔ اس کی تضحیک نہ کی جائے۔ دیوتاؤں کا حکم انسانی حکم سے ارفع و اعلیٰ ہے اس لئے اس نے مصمم ارادہ کیا کہ  وہ پولی نیسز   کی لاش ہر صورت دفنائے گی خواہ اس کی جان ہی چلی جائے۔  

 

ایک شخص کری اون کو مطلع کرتا ہے کہ  پولی نیسسز کو دفنا دیا گیا ہے اور وہ  اس کی بھانجی اینٹگنی ہے۔  اس کو پکڑ کر لایا گیا تو اس نے کہا کہ ایک فرمان آپ کا ہے اور حکم دیوتاؤں کا ۔ کیا انسان کا حکم ماننا چاہیئے  یا دیوتا کا۔سب نے ایک دن مر جانا ہے۔ کیوں نہ میں دیوتاؤں کا  حکم مانتے ہوئے مروں۔ اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے۔ پولی نیسسز میرا بھائی تھا۔اس کی میں بے حرمتی برداشت نہیں کرسکتی۔وہ دفنانے کا حقدار تھا۔ 

 

کری اون طیش میں آ گیا  اور کہا کہ وہ یہاں ہماری عبادت گاہیں تباہ کرنے آیا۔ تم میرے بادشاہ بننے پر خوش نہیں ہو۔تمہاری سزا موت ہے۔ میرے گھر میں ہی غدار چھپے بیٹھے ہیں۔تمہارے ساتھ یقیناً  ازمینی ہو گی۔   اس نے اسے بلایا اور پوچھا کہ کیا اس نے پولنیسز کو دفن کیا ہے۔ اس نے جواب دیا ہاں۔   اس پر اینٹگنی بولی کہ ازمینی نے نہیں بلکہ اس نے اسے دفن کیا ہے۔ وہ کیوں اس کے لئے سزا پائے۔  اس کی سزا مجھے دی جائے۔ بھائی کی لاش دفنانی تھی دفنا دی۔ جو بھی سزا دینی ہے دے دو۔  

 

ازمینی نے کری اون سے کہا کہ آپ اپنی بہو کوقتل کروا رہے ہو۔ ہیمون اس کا منگیتر ہے ۔ وہ اس سے پیار کرتا ہے۔    کری اون دونوں بہنوں کو قید میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے۔  ہیمون آتا ہے  اور کہتا ہے کہ بے گناہوں کو سزا دے کر غلطی کر رہے ہو۔ اس پر کری اون سیخ پا ہو گیا  اور کہا کہ اس نے اسے سزائے موت دے دی ہے اب وہ مرجائے گی اور تمہاری بیوی نہیں بن سکتی۔اس پر ہیمون احتجاج کرتا ہے اور غصے میں دھمکی دے کر چلا جاتا ہے کہ اس نے ایسا کیا تو اس کا مرا ہوا منہ دیکھے گا۔ اس کی موت میں عظمت ہوگی۔ اسکی موت اسکی ابدی حیات ہے۔  

 

ایک صاحب علم نابینا   غیب دان صوفی ٹائریسن  آیا اور اس نے کہا کہ دیوتا کی طرف سے پیغام آیا ہے کہ پولی سیسز کو دفنا دیا جائے ورنہ تھیبز پر عذاب آ جائے گا۔ اس کی بات پر کری اون نے اعتبار نہ کیا اور الزام لگایا کہ  اسے کسی نے خرید لیا ہے۔ تم عقلمند تو ہو لیکن ایماندار نہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ اپنا حکم واپس لو۔ میں نے تم سے وہ باتیں  نہیں بتائیں جو اپنا حکم واپس نہ لینے پر تمہیں پیش آئیں گی۔ دیوتاؤں سے لڑائی میں تباہی و بربادی ہے۔ اس سے تمہیں اپنی اولاد سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ابھی وقت ہے جا کر دیوتاؤں کو منا لو ورنہ پچھتاؤ گے۔  فوراً جاؤ اور پولی سیسز کو خود  جا کر دفنا دو اوردیوتاؤں سے معافی مانگو۔ 

کری اون کی بیوی ملکہ یوریڈیسی آتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے محل سے رونے کی آوازیں سنی ہیں۔میں نے دیکھا  کہ ہیمون  نے غصے میں خود کو قتل کر دیا تھا اور مصاحب رو رہے تھے۔ ہیمون قبر نما تہہ خانے میں اینٹنی کو ملنے گیا تو اس رسی سے لٹک کر اپنی جان قربان کر دی تھی ۔ ہیمون نے خود کو خنجر سے قتل کردیا۔ اس کا خون اس کی محبت پر گر رہا تھا۔ اور خود کشی کر لی۔ دیوتا کی نافرمانی سے اس کا پورا خاندان اجڑ گیا۔ سونے زیورات، دولت کی ریل پیل  لامحدود اختیارات دھرے کے دھرے رہ گئے۔نحوست نے ڈیرے جما لئے۔ ملکہ پر سکتہ طاری ہو گیا   اس نے کری اون کو قاتل کہا اور وہ محل جا کر غموں کو نہ سہار سکی اور مرگئی۔ کری اون غم کے سمندر میں ڈوب گیا  وہ پچھتاوے کا شکار ہو گیا ۔ اس نے کہا کہ میرےغرور نے  مجھے برباد کیا۔ میں اپنے پیاروں کا  قاتل ہوں ۔ دکھوں کے پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ قسمت نے مجھے برباد کر دیا۔ مجھے مذہب کی پابندی کرنا چاہیئے تھی۔جو مذہب کے خلاف جاتے ہیں انہیں آسمان کی بلندیوں سے پستیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ 

     تھی سییس                  بہت مرعوب لگ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایسی شاندار موت  انتہائی  عزت والی تھی جو شائد ہی کسی کو حاصل ہوئی ہو۔اینٹگنی اور ازمینی نے تھیسییس سے تھیبز جانے کی اجازت چاہی ۔انہوں نے یہ دلیل دی کہ وہ دونوں بھائیوں کو لڑائی سے روک کر ان میں صلح کروا دیں گی اور تھیبز چلی آئیں۔ یہاں دوسرا المیہ اختتام پذیر ہو تا ہے ۔ 



اینٹگنی ( Antigone)



 اپنے والد اوڈیپس کو باوقار طریقے سے قبر میں اتارنے کے بعد کولونس کے اصرار کے باوجود اینٹگنی اور ازمینی


 وہاں نہ رکیں۔ ان کا ماننا تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کے درمیان جنگ کو ٹال کر ان  میں صلح کروا دیں گی۔دیوتاؤں


 کی بد دعا ابھی بھی برقرار تھی۔ باپ نہ صرف اقتدار سے الگ ہوا، اندھا ہوا، ملکہ نے خود کشی کی اور والددنیا


 سے رخصت  ہوا۔ تاریک سائے ابھی بھی ان کے سروں پر منڈلا رہے تھے۔ وہ تھیبز پہنچیں تو بازی الٹی ہوئی تھی۔


 بڑے بھائی پولی نیسس نے چھوٹے بھائ ایٹوکلیس کو لڑائ میں قتل کردیا  اور خود اپنی موت آپ مر گیا۔ 


ایڈو کلیس اس سے پہلے سازش کرکے اپنے والد اوڈیپس کی جلاوطنی کے بعد بادشاہ بن گیا تھا۔ بڑا بھائی جان بچا


 کر پڑوسی ریاست چلا گیا اور فوجیں اکٹھی کر کے حملہ آور ہوا۔ دونوں بیٹوں کے مرنے کے بعد تخت خالی ہوا تو


 خاندان میں بچ جانے والا فرد کری اون بچا جو اوڈیپس کا سالا اور اس کے چاروں بچوں کا ماموں تھا۔ اس کا مائنڈ


 سیٹ یہ تھا کہ اس نے یک مشت قلم پولی نیسسس کو حملہ آور قرار دے دیا۔ فرمان جاری کیا کہ یٹییوکلس


 تھیبز کا باشاہ جائز حکمران اور اس کا بڑا بھائ بیرونی افواج کی مدد سے اس پر حملہ آور ہوا تھا جارح تھا اسلئے


 ایٹیوکلس کو تمام تر اعزازات کے ساتھ لحد میں اتارا جائے اور پولی نیسس کو باغی ہونے کی بنا پر دفنایا نہ جائے


 اور جو حکم عدولی کرے اسے سنگسار کر دیا جائے۔  



اینٹگنی کری اون کے فیصلے سے مطمئن نہیں تھی۔ اس کے نزدکے یہ فرمان دیوتاؤں کی ہدایات کے  بر عکس تھا۔ وہ


 کری اون کے دو بدو ہو گئی۔ اسے کہا کہ ایک طرف انسان کا حکم ہے اور دوسری طرف دیوتا کا  تو اس صورت


 میں دیوتاؤں کے احکامات لاگو ہوں گے۔ میں نے دیوتاؤں کی نافرمانی ہرگز نہیں کرنی۔ آسمانی حکم ہے کہ مردے


 کی بے حرمتی نہ کی جائے اور اسے دفنایا جائے۔


کری اون کے نزدیک حکومت کی رٹ قائم کرنا ضروری تھی۔  وہ اس بات پر قائم تھا کہ پولینیسیس سلطنت کا


 وفادار تھا جبکہ اینٹگنی اپنے خاندان اور اور دیوتاؤں کی وفادار اسلئے باغی اور غدار کی لاش کو کھلا چھوڑ دیا


 جائے تاکہ جنگلی ضانور اور کتے اسے نوچ نوچ کر کھائیںاور نشان عبرت بن جائے۔ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے


 تھے۔


کری اون ۔ پولی نیسس سے متعلق میرا فرمان درست ہے۔


اینٹگنی ۔وہ میرا بھائی تھا ۔اس کی لاش کی بے حرمتی نہیں ہونے دوں گی۔


کری اون۔ ایک تو نافرمانی اور اوپر سےزبان درازی۔ 

 

اینٹگی۔ میں نے ایک نہ ایک دن مرنا ہے کیوں نہ دیو تاؤں کا حکم مانتے ہوئے جان دوں۔


ایک سپاہی آکر کری اون کو مطلع کرتا ہے کہ پولی نیسیس کی لاش کو دفنا دیا گیا ہے ۔ آس پاس جانوروں کے


 پنجوں کے نشانات بھی نہیں تھے جس سے پتہ چلے کہ چرندوں پرندوں نے اسے نوچا  ہو۔  لاش کے گھسیٹنے کے


 نشانات بھی نہ تھے۔ کہیں یہ کارنامہ دیوتاؤں کا تو نہیں۔؟



کری اون، کیا فضول بات کرتے ہو ۔ یہ ناممکن ہے۔ تمہارا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا؟ اس شرارتی شخص کو فوراً


 تلاش کرو۔ نہیں تو تمہیں لٹکوا دیا جائے گا۔  ۔ مجھ سے پہلے یہاں جتنے بھی حکمران ہوئے ہیں سب کے فرمانوں کی


 پوری طرح سے پابندی کی جاتی رہی ہے۔لگتا ہے کچھ لوگ میرے بادشاہ بننے پر خوش نہیں اور سازشیں کر رہے


 ہیں۔ہر طرف ڈھونڈو ۔ چاروں طرف لوگ پھیلا دو  اور مجرم کا پتہ لگاؤ۔ ورنہ تم میرا فیصلہ جانتے ہو۔

 

وہ  ڈرتا سہما یہ کہتا ہوا  بوہاں سے رخصت ہو جاتا ہے کہ عالیجاہ میں بے قصور ہوں۔ کافی دیر بعد وہ پھر بادشاہ 


کے پاس آتا ہے اور بولتا ہے کہ  مٹی کے ڈھیر کے پاس ایٹگبی کھڑی اس پر مٹی ڈال رہی تھی ۔  اس کے ساتھکچھ


 دور  ازمینی شہزادی بھی کھڑی تھی۔لگتا ہے کہ پولی نیسس کو اس نے ہی دفنایا ہے۔  باقی سب بے قصور ہیں۔ 


کری اون نے شہزادی سے استفسار کیا۔ انٹگنی کیا تم نے لاش دفنائی ہے؟


ہاں ۔  میں نے ہی اسے دفنایا ہے۔ شہزادی نے کہا۔


تم اکیلے کا یہ کام نہیں لگتا ۔ تمہارے ساتھ اور کون شامل تھا۔



مجھے معلوم نہ تھا کہ میرے گھر میں سازشی لوگ ہیں۔ میں نے سانپ پال رکھے ہیں۔ 


کوئی نہیں۔ صرف میں تھی۔اینٹگنی نے کہا۔


لاش اینٹگنی نے نہیں میں نے دفنائی ہے۔ ازمینی نے کہا۔ایسا نہ ہو کہ اینٹگنی بلا وجہ سنگسار کر دی جائے اور میں


 بچ جاؤں۔


نہیں ۔ اسے میں نے دفنایا ہے۔ یہ خواہ مخواہ الزام اپنے ذمے لے رہی ہے۔ اینٹگنی نے بلا خوف اعتماد سے کہا۔



میں نے اپنے گھر سانپ پال رکھے پہں۔کیا تمہین میرے فرمان کا علم نہیں تھا۔ کری اون نے سوال کیا۔


دیوتاؤں کے احکامات انسانی فرمانوں سے اوپر ہوتے ہیں۔ ان کا حکم ہے کہ مردوں کی بے حرمتی نہ کی جائے۔وہ میرا


بھائی تھا۔ بہت پیارا بھائی۔ میں نے دیوتاؤں کے احکامات کی پابندی کی ہے۔ ان کے آگے سب کچھ ہیچ ہے۔موت دینی


ہے تو دے دو۔ بھائی کو عزت سے دفنانا تھا ۔ اسے کتوں اور بھیڑیوں کے نوچنے سے بچانا تھا، بچا لیا۔ جو کرنا ہے کر


 لو۔ میں تیار ہوں ۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔لوگ تمہارے جاہ و جلال سے ڈرتے ہیں اس لئے وہ تمہاری غلطی


کی نشان دہی نہیں کرتے۔ تمہارا حکم سراسر غلط ہے۔ 


اینٹگی آپ کے بیٹے ہیمون کی منگیتر ہے عالیجاہ۔  ازمینی نے کہا۔ آپ اپنے ہونے والی بہو کو قتل کروا رہے ہو۔


ازمینی نے کہا۔ 


وہ غدار ہے۔ اس کی سزا موت ہے۔ اب یہ شادی نہیں ہو سکتی۔ کری اون نے کہا۔ ان دونوں کو لے جاؤ اور غار نما


تہہ خانے میں ڈال دو۔ 


تنازعے کا سن کر کری اون بادشاہ کا بیٹا ہیمون وہاں آ جاتا ہے تو بادشاہ اس سے پوچھتا ہے کہ کیا تم ان 


شہزادیوںکی طرف داری کرنے آئے ہو؟مجھے امید ہےا یک عورت کے لئے اپنے باپ کے خلا  ف نہیں جاؤ گے۔ جو کوئ بھی


سلطنت کے خلاف جائے گا، نتائج بھگتے گا۔ قانون توڑنے پرسزا ملے گی۔ قانون کی حکمرانی ہو گی۔ 


عالیجاہ !  میں قانون کی مکمل عملداری پر یقین رکھتا ہوں لیکن اس حکم کے بارے میں ہر خاص و عام مطمئن 


نہیں۔ وہ آپ کے حکم کو صحیح نہیں سمجھ رہے لیکن آپ کے غصے سے ڈرتے ہیں اسلئے چپ ہیں۔آپ بذات خود اکابرین


، نجومیوں ، غیب دانوں  سے پوچھ لیں یا عبادت گاہ جا کر دیوتاؤں کی ہدایات لے لیں آپ کو اصلیت کا اندازہ ہو 


جائے گا۔آپ کو تو ان شہزادیوں کا احترام کرنا چاہیئے کہ انہوں نے آپ کو سیدھا رستہ دکھایا۔ اگر کوئ اپنی  غلطی


تسلیم کر لے تو اس کی عزت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ 



کل کے چھوکرے! مجھے کہہ رہے ہو کہ میں غلط ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ میں  ملک کا محافظ ہوں۔ ملکی قانون


کی حکمرانی چاہتا ہوں۔ اگر میں ہر کسی کے مشوروں پر عمل کرنا شروع کردوں تو میری حیثیت کیا رہ جائے گی۔ 


کری اون نے غصے سے کہا۔ میں اپنا حکم واپس لینے والا نہیں۔



ابو جان! ایک اکیلا  اور دو گیارہ۔  آپ براہ کرم اہل علم و دانش سے رائے طلب کر لیں۔ آپ پر سچائی آشکارا ہو جائے 


گی۔ آپ غلطی پر ہو۔



یہ تم نہیں تمہارا عشق بول رہا ہے۔ اپنا مجنوں پن ختم کرو اور حقیقت جانو۔ اینٹگنی کو سزا دی جا چکی ہے۔ وہ    

اب وہ تمہاری بیوی نہیں بن سکتی۔ وہ باغی  اور غدار ہے۔ اسے اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ 



ابو جان ! یہ ٹھیک نہیں۔ یہ نا انصافی ہے۔آپ ایسا نہین کر سکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو یہ حماقت ہوگی


 گستاخ۔ تمہیں اندازہ ہے کہ تم نے کیا کہا؟  تم بدتمیز اور گستاخ لڑکے ہو۔ جنس تمہارے اعصاب پر سوار ہے۔ایک


لڑکی کے لئے باپ سے پنگا لے رہے ہو۔ پہلے تو میں نے صرف اینٹگنی کو ہی سزا سنائی تھی اب دونوں لڑکیوں کو


 سزائے موت کا حکم دیتا ہوں۔ان لڑکیوں کو اندھی کوٹھری میں ڈال دیا جائے۔



ہیمون طیش میں پیر پٹختے ہوئے یہ کہتے ہوئے چلا جاتا ہے کہ اگر ان کا بال بھی بیکا ہوا تو آپ میری شکل نہیں دیکھو


گے۔


اینٹگنی اور ازمینی  اپنا آخری وقت گزارنے کے لئے ۔لے جائی جاتی ہیں۔وہ حسرت سے آخری بار آزاد دنیا دیکھتی ہیں 


اور آخری سلام دیتی ہیں۔ وہ بے بس ہیں۔ آنسو بہاتے ہوئے لے جائی جاتی ہیں۔ اس کی شادی اور بال بچوں کے سہانے


 خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔ نہ ڈھولک بجی، نہ سوہا جوڑا پہنا ، نہ مہندی لگی، نہ دلہن بنی خدا حافظ  اے جہاں۔ ہم

 

وہاں لے جائی جا رہی ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ ہمیں بے گناہی کی سزا دی جا رہی ہے۔ ہم بے قصور ہیں۔ ہم


 نے دیوتاؤں کا حکم مانا ہے جو انسانی حکم سے بالا تر ہو تا ہے۔ اس سزا پریں افسوس نہیں۔ یہاں بادشاہ غلطہے۔ 


اجل میرا مقدر ہے ۔



کورس میں گایا جاتا ہے کہ تیری موت میں تیری عظمت ہے۔ تیری بلندی ہے۔  تمہاری بہادری 


اور شجاعت کی مثالیںرہتی دنیا تک قائم رہیں گی۔ تو غلط حکمران کے سامنے نہ جھکی اور 


عظیم مقصد کی خاطر قربان ہوئ۔ مجھے مرنے کا کوئی غم نہیں۔ میں خوش ہوں کہ میںاپنے 


پیارے والدین اور بھائیوں سے جا ملوں گی۔ ہمارا خاندان پھر اکٹھا ہو جائے گا۔ وہ مجھے دیکھ کر 


خوش ہوں گے۔ہمارے مرے بغیرایسا ممکن نہیں تھا۔میری دیوتاؤں سے دعا ہے کہ میرے ملک پر 


رحم کریں۔ بادشاہ کی غلطی کی سزا انہیں نہ دیں۔


کری اون غصے میں بیٹھا تھا کہ انتہائی معتبر ماہر نجوم اور غیب دان  جو نابینا تھا، دیوتاؤں کے


پیغامات تک اس کی دسترس تھی اور اس کی معلومات ہمیشہ معتبر اور صحت مند ہوتی 


تھیں، بادشاہ کے پاس آیا۔ اس کا نام ٹائیری سن تھا۔



عظیم بزرگ ! آپ ضرور کسی اہم وجہ سے آپ میرے پاس طویل سفر کر کے آئے ہیں۔ مجھے فوراً 


بتائیں آپ کیوں آئے ہیں اور کیا خبر دینا چاہتے ہیں۔آپ کی معلومات ہمیشہ سچی ہوتی ہیں۔



بادشاہ سلامت!  میں آپ کو تنبیہہ کرنے آیا ہوں کہ اپ کی ریاست تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔


میں معبد میں عبادت گزار تھا کہ اچانک بہت سے پرندے درد ناک انداز میں چیختے ہوئے میرے


 پاس آ گرے۔ ان کے پنجے خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔ یہ بہت برا شگون تھا۔میں یہ دیکھ کر دہل گیا


میں نے فوراً قربانی دی لیکن آگ نے اسے جلانے سے انکار کر دیا۔ قربانی قبول نہ کی گئی۔ اس کا 


 مطلب یہ ہے کہ آپ پر کوئی آفت آنے والی ہے۔مجھے ودیعت ہوئی کہ آپ نے اوڈیپس کے بیٹۓ


پولی نیسس کی لاش کو جانوروں کو نوچنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے جو دیوتاؤں کے احکامات کے


خلاف ہے۔دیوتا اس  بات پر ناراض ہیں۔


کری اون نے ٹائیری سن کی بات پر خفگی کا اظہار کیا اور اس پر شک کیا کہ وہ کسی کے بہلا وے  میں


آگیا ہے۔ وہ بک گیا ہے۔ اور ریاستی قوانین کے خلا ف جا رہا ہے۔تم اپنی باتوں سے مجھے قائل 


نہیں کر سکتے۔ میں اپنا فرمان واپس لینے والا نہیں۔جاؤ کسی اور کو بیوقوف بناؤ۔ تم یہاں 


ایمانداری نہیں دکھا رہے ہو۔جھوٹ بول رہے ہو۔



آپ کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ سچا کون ہے۔ ایماندار  اور بے ایمان  کون  ہے۔ میں نے ابھی 


وہ باتیں تمہیں نہیں بتائی تھیں جو تمہاری نافرمانی سے تمہارے ساتھ پیش آئیں گی۔ بربادی 


تمہارے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔ تمہارے اس فرمان کے واپس نہ لئے جانے کی وجہ سے اب 


تمہیں اپنے خاندان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔  تم نے دیوتاؤں کے غصے کو للکارا ہے ۔ اب خوفناک 


انجام بھگتو۔ یہ بد دعا دے کر نابینا  ٹائیری سن  لڑکے کے ساتھ واپس چلا گیا۔



کورس ۔ یہ نابینا غیب دان سچا ہے۔ ایماندار ہے ۔ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی باتیں 


صحیح ثابت ہوں گی۔ دیوتاؤں سے لڑائ تمہیں لے ڈوبے گی۔ تم نے دیر کر دی ہے ۔ اپنا حکم فوراً


 واپس لو۔   تم نے پاکباز ٹرائی سن کی نصیحت ٹھکرا کر اپنے ساتھ بہت برا کیا ہے۔  


دیر ہو چکی ہے بزرگو۔ میں اپنا حکم کیسے واپس لوں۔ میں اب کیا کروں۔ 


کورس ۔ فوراً اپنا حکم واپس لو۔ پولی نیسس کو عزت سے دفناؤ۔ لڑکیوں کی رہائی کا حکم دو


تم نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔اول تو اب تک دیوتاؤں نے احکامات دے دیئے ہوں گے۔ فوراً جاؤ


 اور سب کو منا لو۔حکم دینے کی بجائے خود جاؤ۔


میں ایسا نہیں کرنا چاہتا ۔ کیونکہ تم کہہ رہے ہو کہ دیوتا ناراض ہو گئے ہیں اس لئے بادل


نخواستہ چلا جاتا ہوں۔ کری اون نے کہا۔



وہ وہاں پہنچتا ہے تو اس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ دیوتاؤں نے اسے سزا دے دی ہلے۔ وہ آج بھی


 زندہ ہے لیکن بے یارو مدد گار۔ اقتدار ہے، اختیارات ہیں  زیورات ، ہیرے جواہر اور دولت کے انبار


 ہیں مگر خاندان نہیں۔  اسکی ملکہ محل جاتی ہے تو لوگوں کے رونے  سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا 


بیٹا  صدمے کی تاب نہ لا تے ہو ئے  مرگیاہے۔ وہ سکتے میں آجاتی ہے اور خود کو مار لیتی ہے۔ وہ 


قید خانے جاتا ہے تو اینٹگنی  اور  ازمینی نےخودکو رسی سے لٹکا رکھا ہوتا ہے۔ اینٹگنی کے پاؤں پر 


سر رکھے اس کا بیٹا ہیمون مردہ پڑا ہوتا ہے۔


کری اون نے دیوتاؤں کے احکامات سے رو گردانی کی اور زندگی بھر تڑپنے کے لئے زندہ رہ گیا۔ وہ


 خودکو سب کا قاتل سمجھتا ہے۔ اس کے زندہ رہنےکا کوئی مقصد نہیں۔ اس سے محبت کرنے 


والے سب دور چلے گئے۔قسمت نے اسے دھو ڈالا۔ عقلمند ہمیشہ  مذہبی عقائد مانتے اور عمل کرتے


ہیں۔ جو اس کے خلاف جاتے ہیں انیہں دیوتا آسمان کی بلندیوں سے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں 


پھینک دیتے ہیں۔





تجزیہ





سوفو کلیز یونان کے تین عظیم المناک ڈرامہ نگاروں میں سے ایک ہے جس کے چند 


ڈرامے ہزاروں سال بعد ہم تک پہنچے۔ سب میں چھ خصوصیات مشترک تھیں۔ جو


ظلم شدہ ہیرو یا ہیروئن؛  مرکزی خیال ؛ خیالی مخلوق  ؛ کورس میں گلوکاری ،


 تصاویر  ؛   ماورائی مخلوق اور تماشائی شامل کئے جاتے ہیں۔ اس نے یہ تمام عناصر 


ہرایک میں استعمال کئے ہیں۔




 اس نے  شہزادی اینتگنی کو سول نافرمان کے روپ میں 


 پیش کیا۔ اس میں دو متحارب کشمکشیں پائی جاتی ہیں۔  اینٹگنی خانگی اقدار کو تمام امور 


پر   ا ہمیت دیتی ہے جبکہ کری اون کی ترجیح ریاستی قوانین کی پابندی کروانا ہے۔


اس کے تمام ڈراموں میں پلاٹ، ڈرامے کے بارے میں تمہید، اشارے کنائے پا ئے  جاتے ہیں۔ اس کے 


ڈراموں میں تسلسل پایا جاتا ہے۔ اینٹگنی المیہ کا آغاز اس کے دو بھائیوں کی مرگ سے شروع 


ہوتی ہے ۔وہ دونوں تخت کے دعویدار تھے۔ کری اون پولی نیسیس کو اس بنا پر غدار قرار دیتا 


ہے کہ اس نے ریاست کی سرحدوں پر غیر ملکی فوجوں کی مدد سے حملہ آور ہوا ہے۔سزاکےطور


پر اس کی لاش کی بے حرمتی کرتا ہے۔ 

 


کری اون ایک پیامبر کے پیغام اور بزرگوں کی ہدائت پر پولی نیسیس کو دفنانے کی 


اجازت دے دیتا ہے۔ ہیمون جو اینٹگنی کا منگیتر اور کری اون کا بیٹا ہے اس کی  


موت کی سزا سن کر خود کشی کر لیتا ہے۔ملکہ بھی اپنے بیٹے کی موت کا سنتی


ہےتو صدمے سے چل بستی ہے۔ اینٹنگنی اور ازمینی بھی قید خانے میں مر جاتی ہیں 


اور کری اون اپنے زخم چاٹنے کے لئے اکیلا رہ جاتا ہے۔ 



کری اون اپنی تخت نشینی کی تقریب میں قانون کی عملداری کو اولین ترجیح دیتا


 ہے۔ ایک قائد کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ٹھوس منصوبہ بندی کرے جو عوام الناس 


کی آنے والی نسلوں کے لئے بھی مفید ہوں۔ پہلے دن سے ہی اس کی  اینٹگنی سے 


چپقلش شروع ہو جاتی ہے جو مذہب کو تمام اشیا پر ترجیح دیتی ہے۔ اس کے ساتھ 


خاندان اہم حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی عزت وقار کے لئے ہر قسم کے خطرات کا سامنا کرنے 


کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اپنی بہن ازمینی سے گفتگو کے دوران جو وہ اپنے بڑے بھائی


یولی نیسیسکی تدفین کے بارے میں ہے وہ پختہ یقین رکھتی ہے کہ کری اون کے حکم 


سے انحراف سے اس کی موت یقینی ہے لیکن وہ اس بات کی پراہ نہیں کرتی۔ آفاقی


قوتوں اور خاندان سے محبت اور وفاداری کو شاہی فرمان پر ترجیح دیتی ہے۔


سوفوکلیز اپنے ڈراموں میں پیش بندی کے طور پر اشاروں کنایوں میں ڈرامے کے مرکزی


خیال پہلے ہی کورس یا تصاویر اور ڈائیلاگ کے ذریعے نشان دہی کر دیتا ہے۔وہ یہاں


سزا دینے والی دیوی نیمے سز () کے بارے میں آگاہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح اوڈیپس 


بادشاہ میںاس کے والدین کے بارے میں کہ وہ اپنے باپ کو قتل کر کے اپنی حقیقی ماں


سے شادی کر لے گا، اوڈیپس کولونس میں اس کی موت، قبر وغیرہ کی دیوتاؤں سے


ہدایات حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کے کئی اشارے ملتے رہتے ہیں۔ 


جب اینٹگنی کو غار میں قید کر دیا جاتا ہے۔اس وقت کورس اس بات کی ترغیب دیتی


ہے جب ڈینی (Danae) دیوی اہم ہے جسے اس کے والد نے ٹاور میں قید کر رکھا تھا 


اینٹگنی اور ڈینی دونوں کو قید خانے سے نکالا گیا۔


سوفوکلیز کورس کو اہم قرار دیا۔ گلوکاروں کی تعداد بارہ سے پندرہ کر دی۔ ہیرو 


درد ناک انجام پاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں











 


























 















                                                                                        

 

 

حالات زندگی سوفوکلیز 

 

سوفوکلیز 496ق۔م   کولونس   میں ایک متمول خاندان میں پید اہوا  جو ایتھنز اور تھیبز  کی سرحدوں کے درمیان واقع تھا۔ اس کا والد سوفیلی یس (Sophilus)   کی اسلحے کی فیکٹری تھی۔  وہ دور  تخلیق  کاروں  کا تھا۔  سوفوکلیز  کرشماتی شخصیت کا مالک تھا۔  سکول کے زمانے  سے ہی اس نے مسلسل موسیقی  اور ریسلنگ میں اول پوزیشن حاصل کرنا شروع کر دی تھیں۔ وہ بہت اچھا موسیقار تھا۔    سولہ سال کی عمر   میں ہی   اسے قومی سطح  پر  گلوکاری میں  سمندر (گریک سی)کی فتح کا جشن منایا جا رہا تھا کو اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ  فلاح و بہبود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا۔ 

 

 468 B.C  میں  اس نے اپنے دور کے صف اول کے ناقابل  تسخیر تمثیل نگار  )(   B.C. 525-456) .B.C  میں   ایشکی لوس   Aaeschylusکو  شکست دے کر اول انعام حاصل کیا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور کم و بیش ہمیشہ قومی سطح پر اول انعام حاصل کیا۔  ق۔م   میں وہ منتظم منتخب ہو گیا جو کہ اعلیٰ عہدہ  تھا۔ وہ دو بار سٹیٹ افسر منتخب ہوا ۔اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ق۔م میں تراسی برس کی عمر میں وہ سلطنت کا وزیر خزانہ بن گیا۔وہ کم از کم دو دفعہ جرنیل کے عہدے پر منتخب بھی ہوا ۔ وہ مذہبی شخص تھا ۔ وہ پادری کے فرائض بھی سر انجام دیئے۔ اس نے اپنا گھر ایسکلی پییس ( Asclepius)کی عبادت کے لئے مختص کر دیا تھا  جو ادویات اور علاج و معالجہ کا دیوتا تھا۔ اس کے بعد اسے باقاعدہ عبادت خانے میں مستقل طور پر تبدیل کر دیا گیا۔  

 

Plutarch کے مطابق  سوکلیز کی ادبی کاوشوں میں تین ادوار آئے۔ابتدائ دور میں وہ Aeschlusکی تقلید میں دیوتاؤں  اور انسانوں کے مابین تعامل ، تعلقات، پیغام رسانی پریشانی اور ابتلا  کے بارے میں لکھا۔  جس میں ہیرو کو بہت سی آزمائشوں  سے گزر کر وہ حالات کو کامیابی  سے حل کر لیتا ہے۔ 

 

دوسرے مرحلے میں اپنے کرداروں میں تعداد بڑھائی۔ دو بنیادی کرداروں کی بجائے مزید ایک اور کردار کا اضافہ کیا۔  

 

تیسرے مرحلے میں اس نے کورس میں بارہ گلوکاروں کی بجائے پندرہ گلو کار کر دئیے ۔ ڈراموں میں 

مناظر  تصاویر اور گیت سنگیت شامل کئے جس  سے ناظرین کی دلچسپی میں اضافہ ہو گیا۔  

 

اس نے اپنے ڈراموں میں ناصح کا کردار بھی ادا کیا۔ دنیا میں برائی کیوں ہےاور اچھے انسان کو آزمائشیں اور مشکلات کیوں پیدا ہوتی ہیں کے بارے میں اس کاخیال ہے کہ اس کی وجہ معاشرے میں تنظیم، توازن اور انصاف کی فراہمی ہے۔  کوئی شخص کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اگر وہ دیوتاؤں کے احکامات کی پاپندی نہیں کرے گا ۔ اسے قدرت کی طرف سے ضرور سزا ملے گی۔ 

 

سوفوکلیز نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی جس کا نامنیکوس ٹریٹ ( Nicostrate)تھا،   سے دوبیٹے  سوفوکلیزجونئر   ( Sophocles  jr)   اور آئیئوفان  (Iophon) ہوئے جبکہ دوسری بیوی  جس کا نام  تھیئوریس(Theoris)  تھا، سے   ایک بیٹا ارسٹن ( Ariston)ہوا۔ 

 

اس نے 125   ڈرامے لکھے۔ایتھنز کی سالانہ قومی  جشن میں ایک مصنف زیادہ سے زیادہ چار ڈرامے پیش کر سکتا تھا ۔اس نے لگاتار تیس اکتیس سال تک چار چار ڈرامے لکھ کر پیش کئے۔ اس نے ہر بار پہلی پوزیشن حاصل کی۔  اس نے  سے 13   اور دوسرے  عظیم  تمثیل  نگار یوروپیڈیس    ( Euripides)کے مقابلے میں  4  مقابلے جیتے۔ پنی زندگی میں اس نے کم سے کم جو پوزیشن مقابلے میں حاصل کی وہ دوسری تھی۔ 404 ق۔م  میں جب ایتھنز نے سپارٹا نے قبضہ کر لیا ، سے پہلے ہی فوت ہو گیا۔ اس کے ان ڈراموں میں صرف سات  ڈرامےہی ہم تک پہنچے جو درج ہیں۔ 


            

The Theban Plays

   Oedipus The King

Oedipus at Colonus

Antigne

The Women of Trachis

                       Electra

                                                                                 Ajax

 

 سوفو کلیز  سدابہار ادیبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اثر ورسوخ  بعد میں یورپ کے عظیم تمثیل نگاروں میں قائم ہے۔ وہ آنا کے مشہور سائکاٹرسٹ سگمنڈ فرائیڈ نے اس کے المناک ڈرامہ اوڈیپس بادشاہ سے متاثر ہو کر اوڈیپس کمپلیکس اور الٹرا کمپلیس کے تعقلات اپنے نظریہ شخصیت اور طریقہ علاج میں متعارف کروائے۔  

Popular posts from this blog