میرارشتہ دار میجرمونی نیکس My kinsman Major Mouneux By Nathaniel Hawthorne (U.S.A)

 

 

 




 میرارشتہ دار میجرمونی یکس    

My kinsman Major Mouneux

                                             Nathaniel Hawthorne   (U.S.A)

                                                        (1804-1864)

 پیشکش و تجزیہ :غلام محی الدین                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   

ایک وقت تھا حکومت برطانیہ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔دنیائے عالم پر ان کا راج تھا۔ہرطرف ان کا سکہ چلتا تھا۔تمام احکامات صدر دفتر سے آتے تھے جو ان دنوں لندن تھا۔کسی کو ان کی حکم عدولی کی اجازت نہیں تھی۔ شہنشاہ حکومتی رِٹ قائم کرنے کے لئے انتہائی قدم اٹھایا کرتا تھا۔ انسانی جان کی کوئی قدر روقیمت نہ تھی۔زیادہ تر آبادی  غربت کی چکی میں پس رہی تھی۔اشرافیہ مراعت یافتہ تھی۔ایک معمولی سرکاری اہلکار بھی عام لوگوں کو روندکر رکھ دیتا تھا۔لوگوں کی زبوں حالی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ تنگ آمدبجنگ آمدکے مصداق لوگ ریاستی جبر و استبدادکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے  ۔ ریاست کے خلاف تحریکیں چلنا شروع ہو گئیں۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اٹھارویں صدی میں شہنشاہ  جارج  دوئم کے متنازع قوانین کے احتجاج میں ایک مسیحی فرقے کےلوگ جوق در جوق امریکہ کی کئی ریاستوں میں آباد ہو گئے ۔ان ریاستوں کو،ُنیو انگلینڈ ' ُبائبل بیلٹُ کہا جاتا ہے۔ حالیہ امریکہ کی بہت سی ریاستیں  ان دنوں برطانیہ کے تسلط میں تھیں ۔گورنراور تمام اہم تعیناتیاں دارالخلافہ سے ہوا کرتی تھیں۔  بیوروکریسی بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتی تھی۔ عالی شان محلات اورلا محدود اختیارات تھے۔لوگوں پر مذہبی اور لسانی قدغن لگائے گئےتوخفیہ تنظیموں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا۔یہ داستان اس دور سے عبارت ہےجو میساچوسٹس صوبے میں پیش آئی۔

اٹھارویں صدی میں شہنشاہوں نے موجودہ امریکی ریاستوں میں  اپنے گورنر مقررکئے  تو اس دور میں وہ شاذر و نادر ہی ریاست کی توقعات پر پورا اترے۔ لوگ حکمرانوں سے شدیدنفرت کرنے لگے اور گوریلا جنگ سےان کو جمنے کا موقعہ نہیں دیا۔ ان ے فرمان ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے جاتے ۔  ُمیساچوسٹس بے' کی تاریخ اس کی گواہ تھی کہ آٹھ گورنر جوپچھلےچالیس سالوں میں برطانوی ہیڈ کوارٹر سے تعینات کئے گئے ، کو یا تو مار دیا گیا یا قید میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح اشرافیہ بھی ان باغیوں کی نفرت کا شکار ہوئی۔اگرچہ ابن الوقت بھی حکومت کی وفادار ی میں دفاع پر آئے لیکن حکومت کو شاذو نادر ہی سکون میسر ہوا۔

 ایک چاند رات نو بجے کے قریب ایک نوجوان جس کا نام  'روبن ُ ہے       ریاست 'میسا چوسٹس بے' ساحل پر اترتا ہے۔ اس کی عمر لگ بھگ اٹھارہ سال لگتی ہے۔ وہ  سخت جان لمبےقد کاٹھ کاخوبصورت نوجوان ہے۔  بال بھورے ، گھنگریالےاورخوبصورت ہنستی ہوئی آنکھیں ہیں۔ تن بدن  سے وہ مفلوک الحال لگتا ہے۔ پرانی  گدلے سیاہ رنگ کی جیکٹ اور چمڑے کی نیکرپہنے ہے,گھٹنوں سے اوپر تک نیلے رنگ کی ہاتھ سے بنی ہوئی اونی جرابیں ہیں جو اس کی ماں یا بہن نے بنی ہوں گی۔پرانی سی تکونی ٹوپی جو اس کے والدین نے (جب ان کے حالات کبھی اچھے رہے ہوں گے) خریدی ہو گی پہنی تھی ۔ ہاتھ میں شاہ بلوط کی جڑ کا  ایک مضبوط بھاری ڈنڈا پکڑےہے۔دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ کسی گاؤں سے آیا ہے۔ اپنے گھر سے میساچوسٹس کی اس بندگاہ پر پہنچنے میں اسےبحری سفر میں پانچ دن لگے ہیں.ساحل پر اتر کر وہ اپنی جیبیں ٹٹولتا ہے ۔ یہاں آنے کا کوئی روٹ نہیں تھااس لئے اکیلے ہی پوری کشتی منہ مانگا کرایہ دے کر آنا پڑا ہے۔ کشتی کا مالک لالٹین اوپر کرتا ہے تا کہ روشنی میں وہ رقم گن سکے ۔ کرایہ ادا کرنے کےبعد اس کے پاس صرف تین شلنگ بچے ہیں۔ وہ پہلی بار' میسا چوسٹس بے'آیا ہے۔ وہ رستوں سے انجان ہے ۔وہ مضطرب ہو کر ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ اسے نہیں علم کہ کس طرف جانا ہے اسلئے وہ رک کر  جائزہ لیتا ہے  اور بغیر سوچے سمجھے ہلکےہلکے قدموں سے ایک طرف چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ گلی تنگ اور پرانے ٹوٹے پھوٹے لکڑی کے گھر دیکھ کر  کچھ سوچ کر واپس آجاتا ہے۔وہ ایک قریبی عزیز جواعلیٰ سرکاری عہدیدار اور امیر کبیر ہےسے ملنے آیا  ہے۔ دولت اور رتبے کی وجہ  سے اسے یقین  ہے کہ اس کو اس علاقے کا ہر شخص جانتا ہوگا۔

 اس ساحل کے قریب ہی تنگ گلیوں کا جال  ہے۔ وہ کشمکش میں مبتلا ہے کہ اسکی تلاش کہاں سے شروع کی جائے۔اس کے سامنے جو گلی  ہےاس میں چھوٹی چھوٹی کھولیاں ہیں ۔ارد گرد کی گلیاں نچلے طبقے کے لوگوں کی رہائش گاہیں ہیں۔اس جیسا صاحب اقتدارکا چپڑاسی بھی ایسی جگہ پرنہیں رہ سکتا  وہ اندازہ لگاتا ہے۔ اب وہ کشتی کے ما لک سے مدد لینے کا سوچتا ہےجو پیشکش کرتا ہے کہ ایک شلنگ معاوضےکے بدلے اسے ڈھونڈنے میں مدد کرسکتا ہےلیکن وہ یہ امکان رد کردیتا ہےاورفیصلہ کر تا ہےکہ وہ سعی و خطا کے ذریعے اسے ڈھونڈنکالے گا۔اسے بھوک لگی ہے لیکن اس کے پاس کھانے کے پیسے نہیں۔ ایک گلی میں داخل ہوتا ہے جو آگے جاکر چوڑی ہو جاتی ہے۔ وہاں گھر بڑےہیں۔ وہ پکی سڑک پر کچھ لوگوں کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ وہ ہر آتے جاتے کو گھور رہا ہے کہ شائد اس کا رشتہ دار دکھائی دے ۔ لوگ اپنی باتوں میں مگن گزرتے رہتے ہیں ۔وہ ایک شخص کا ہیولا دیکھتا ہے جو اس کےآگے چل رہا   ہوتا ہے ۔ وہ قدم تیز کر کےاس کے قریب پہنچتا ہے تو اسے معلوم پڑتا ہے کہ وہ ایک پیرانہ سال ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ اس نے کالے رنگ کی مصنوعی وگ لگائی ہوئی ہے۔کالا کوٹ اور گھٹنوں تک ریشمی جرابیں پہنی ہوئی ہیں۔ اس کے ہاتھ میں لمبی بید کی چھڑی ہےجسے وہ عمودی طور پر زمین پر ٹکا کرآگے بڑھتا  ہے۔

 ُعزت مآب!  میری درخواست ہے کہ مجھے  میجرمونییکس کی رہائش گاہ کا پتہ بتا دیں۔ُ  وہ اس شخص کےپیچھے سےکوٹ کا دامن تھامتے ہوئےتعظیم سے جھکتے ہوئے  ٹھہر ٹھہر کر اونچی آواز میں پوچھتاہے۔اس پروہ  سال رکتا ہے۔ اس کا چہرہ لمبوترا  ہے۔ وہ مڑ کر شدید غصےسے اس کی طرف دیکھتا ہے اور

 مردہ استخوانی ہاتھ  سے بید کی چھڑی کو جھٹکا دیتے ہوئے اسے ڈانٹتے ہوئے کہتا ہے۔ُمیرا لباس چھوڑ دو۔ُ اس کی آواز ایسی ہے جیسے ایک مردہ کفن پھاڑ کر بولاہو۔ میں اس شخص جس کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو، کے بارے میں میں نہیں جانتا۔ ۔۔تمہیں بزرگوں کی عزت کرنا نہیں آتی؟' آس پاس

 دکانیں ہیں جن میں ایک پارلر کھلا ہے ۔ان میں حجام اور گاہک اتفاقاً باہر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ یہ منظر دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں۔ روبن اس سنکی بزرگ کی ڈراؤنی شکل ، ڈانٹ اور پارلر والوں کا رد عمل دیکھ کر شرمندہ ہو کر اس کا دامن چھوڑ کرالگ ہو جاتا ہے۔

  روبن کی پیدائش اور پرورش ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئی ہے۔ وہ شہر کی بودو باش سے ناواقف ہے ۔ اس بزرگ اور ہوٹل کے کارندوں نے اسے اس کی اوقات یاد دلا دی ہے۔اب تو حجام بھی اس پر ہنسنے لگ پڑے ہیں۔ وہ اپنے مسئلے کو کیسے حل کرے ، سوچتے ہوئے وہ چلتا رہتا ہے۔اس کے

 نتھنوں میں سڑک کی تار کول کی بو گھس رہی ہے۔ساحل کے نواح میں ہونے کی وجہ سے سمندر کی مہک ، جہازوں اور کشتیوں کے بادبان چاندنی میں نظر آ رہے ہیں۔ وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور شہرکے ڈاؤن ٹاؤن میں پہنچ جاتا ہے۔ہر جگہ اشتہارات اور بورڈ آویزاں ہیں۔ دکانیں زیادہ تر بند ہیں ۔

 بازار خالی ہے۔شو کیسوں میں بھانت بھانت کی اشیا سجی ہیں ۔ کثیر منزلہ عمارات سے چھن چھن کرچاندکی روشنی آ رہی ہے۔دوسری اور اس سے اوپر والی منازل میں سکونت ہےاور کئی کھڑکیوں میں روشنی  ہے۔ اس علاقے میں خوشحال لوگ رہتےہیں اور اس کا معززرشتہ دار امکانی طور پر کسی ایسےیا

 اس سے اعلیٰ علاقے میں رہتا ہو گا۔ ایک نکڑ پر برطانیہ کےایک قومی ہیرو کا بورڈ آویزاں ہے۔قریبی ہوٹل میں چہل پہل ہے۔ شور آ رہا  ہے۔ محفل جواں ہے۔ ایک کھڑکی کے جھروکےسےاندر کا  منظر نظر آرہا  ہے۔ کھانوں سے سجے ہوئے میزوں کے ارد گردفوجی اور مہمان بیٹھے ہیں۔ کھانوں

 کی مہک سے روبن کی بھوک چمک اٹھتی ہے۔ اس کے پاس صرف تین شلنگ ہیں جو ایک دفعہ کے کھانے کے لئےبھی ناکافی ہیں لیکن اس کو امیدہے کہ جب وہ اعلیٰ مرتبت رشتہ دار سےاپنی نسبت بتائے گا تواسے بڑی شان سے اسے اندر لے جایا جائے گا ۔ وہ نہ صرف شاندار ضیافت کا اہتمام کریں گے

 بلکہ اس کے بعد وہ احترام سے اسے اس کی رہائش گاہ تک بھی پہنچائیں گے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ ہوٹل میں داخل ہو جاتا ہے اور ان آوازوں کی طرف چل پڑتا ہےجو ہوٹل سےآرہی ہیں۔مہمان نچلی منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں بیٹھے ہیں جس کی دیواریں شاہ بلوط کی ہیں اورمسلسل دھوئیں سے سیاہ ہو گئی ہیں۔ فرش بھی میلا سا ہو گیا ہے۔ وہاں زیادہ تر مہمان بحری فوجی، ہنرمند ہیں یامسافر ہیں۔ وہ تین چار کے گروہوں میں بنچوں یا چمڑے کی کرسیوں پر بیٹھےہیں۔ درآمد بہترین شراب کےپیگ چڑھاتے ہوئےخوش گپیوںمیں مصروف ہیں۔ کمرہ د ھوئیں سے بھرا ہواہے اور وہ نکوٹین میں کھانا کھا  رہے   ہیں۔ ایک حصے میں گوشت بھونا جا رہا  ہے۔   

 روبن ہوٹل کے دروازے پر کھڑے ایک ممتاز شخص سے جو پستہ قد ہے۔ ناک چونچ نما انگلی کےبرابر خمیدہ اورمنحنی ہے۔آنکھیں پر کشش ماتھا باہر نکلا ہوا ،بے قاعدہ ، ابرو  گھنے اور کھردرےہیں ۔حلقہ چشم میں آنکھیں دھنسی ہوئی اورظالمانہ تاثر پیش کر رہی ہیں، دیکھتا ہے ۔ وہ اس قت ایک ایسے گروہ سے باتیں کر رہا  ہےجن کے لباس خستہ ہیں اور ان سے کسی منصوبے پر گفتگو کر رہا ہے ۔ رابن یہ دیکھ کر سوچتا ہے کہ اس کے مخاطب اس کےبھائی بندے ہیں اور وہ اس کے حمائتی ہوں گے۔وہ داخل ہوتا ہے تو وہ اس کے پاس آکرتعظیم سے پوچھتا ہےکہ وہ اس کی کیا خدمت کر سکتا ہے۔ اس  کا    اندازشائستہ ہے ۔ روبن کی ہیئت دیکھ کر اندازہ کر لیتا ہے کہ وہ کسی گاؤں سے آیا ہے ۔ اس کا خیر مقدم کرتا ہےاور توقع کرتا ہے کہ وہ وہاں ایک طویل عرصے تک قیام کرے گا۔اسے لبھانے کے لئے کہتا ہے کہ یہ شہر بہت خوبصورت ہے ۔ اس کی میزبانی سےوہ یقیناً مایوس نہیں ہو گا۔ ۔۔ آپ کھانے میں کیا پسند کریں گے ؟اس نے بڑی شائستگی سے پوچھا۔ روبن اس میں خدائی صفات دیکھتا ہے۔ اس کی عقل و فہم میں اس وقت یہ بات آتی ہےکہ وہ اس کی شخصیت سے وہ متاثرہو گیا ہے ۔شائد اس نے سونگھ لیاہے کہ وہ کسی معززین شہر کا قریبی عزیز ہے۔ اس لئے اس سےچکنی چپڑی باتیں کر رہا ہے۔اس کی چاپلوس گفتگو سے تمام مہمان ان کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ اور روبن بڑی ادا سے ڈنڈےکے سہارےکھڑا ہو جاتا ہے ۔میں تمہارے ہوٹل میں ضرور طویل عرصے تک قیام کروں گا۔ اس وقت آپ کی پیشکش سےاستفادہ حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ میرے پاس صرف تین شلنگ ہیں۔روبن نے اونچی آواز میں اعتماد سے کہا۔ اس وقت میں یہ چاہوں گا کہ آپ مجھے میرے رشتہ دارجس کا نام میجر مونییکس   ہےکی رہائش کےبارے میں بتا دیں ۔اس کی غربت کی بات سنتے ہی سناٹا چھاجاتا ہے۔ اس پر روبن یہ سمجھتا ہے کہ تمام لوگ اس کی حیثیت سے مرعوب ہو گئے ہیں اور اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ دیر خاموشی کے بعدایک شخص ایک فوٹو  کی طرف اشار ہ کرتا ہےاوردرشتگی سے کہتا ہےکہ پولیس اس کی تلاش میں ہے۔اسکی گرفتاری پر انعام مقررہے۔ لگتا ہے کہ تم ہی اشتہاری کے رشتے دارہو۔ لڑکے فوراًیہاں سے چلے جاؤ ورنہ وہ پولیس بلانے لگا ہے۔یہ بات سنتے ہی تمام لوگ اسےمشکوک  نظروں سےدیکھنےلگتے ہیں۔ کئی نظروں میں نفرت ہے۔ ناگوار فضا اسے ہوٹل کے ہر حصے سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس ماحول میں جب اس نے اپنے بوسیدہ اور پرانے لباس کا موازنہ کیا تو اسے بہت شرمندگی محسوس ہوئی۔ روبن اپنا ہاتھ اپنےشاہ بلوط کے ڈنڈے سےاس کا سر پھوڑنا چاہتا ہے کہ

  انتظامیہ اور دیگر لوگوں نےمیجر مینیکس کے نام کی بھی لاج نہیں رکھی ۔ اگر وہ گاؤں ہوتا تو ان بدمعاشوں سے کوئی اس کے ہتھے چڑھ جاتا تو اسےا س کی نانی یاد کرا دیتا۔ تا ہم وہ اپنے غصے پر قابو پا لیتاہے اور ہوٹل سے نکل آتا ہے اور غصے اور مایوسی میں منہ اٹھا کر چل پڑتا ہے۔ تنگ گلی کی نکڑ کا موڑ کاٹتے ہوئے دورایک عظیم الشان مینار پر لگا گھڑیال ٹن ٹن  کرتاہے۔ کئی کھڑکیوں میں آتی ہوئی روشنیوں اور شاندار عمارتوں پر پڑنے والی چاندنی بھی وہ آواز سنتے ہیں۔ آگے گلیاں پیچدار ہو گئی تھیں۔ وہ ایک سے دوسری گلی میں مڑتا رہا۔ہر گلی میں اسے لگتا کہ میجر اسے مل جائے گا یا اتہ پتہ معلوم ہو جائے گا۔وہ ایک گلی میں جا رہاتھا اور درمیان میں تھاتو اسےایک لاٹھی کی آواز سنائی دی جو ہر قدم بڑھانے پر آتی تھی۔ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے اس کو پہنچان لیاجو و ہی معمر شخص تھا جس سے وہ پہلے ہی مل چکا تھا۔ خدا مجھ پر رحم کرے اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔وہ دوسری گلی میں چلا گیا اور شہر کے دوسرے حصے کی طرف ڈھونڈنے کا سوچا۔ اب اس کا صبرجواب دے رہا تھا ۔ اب وہ کافی تھک چکا تھا اور بھوک سے بے حال تھا۔ یہ تکان اسے ان پانچ دنوں سے زیادہ محسوس ہوئی جو اس نے کشتی میں یہاں تک پہنچنے میں گزارے تھے۔ اس کےبس میں کچھ نہ تھااس لئے وہ خود کو حالت کی مطابقت سے ڈھالنے لگا۔

 چلتے چلتے وہ  ایک تنگ گلی میں آ جاتا ہے جس میں پرانے گھر ہیں۔ اس میں چاندنی بکھری ہوئی ہے۔ جب وہ تیسرے گھر کے پاس سے گزرنے لگتا ہےتو اسے ایک نیم وا دروازہ دکھائی دیتا ہے۔اس ارادے سے کہ شائد اسے کوئی سراغ مل جائےوہ اس طرف چل پڑتا ہے۔ جوں ہی وہ دروازےکے قریبپہنچتا ہےتو اسے ایک خوبصورت جوان لڑکی اسے تجسس بھری نظروں سے دیکھ کر باہر آجاتی ہے۔ اس نے قرمزی رنگ کا پیٹی کوٹ پہنا ہوا ہے ۔خوبصورت گبھرو دیکھ کر اس کی آنکھوںمیں چمک آ جاتی ہے۔ 

  میں نووارد ہوں۔ اس شہر کے بارے میں کچھ نہیں جانتا پیاری مہربان خاتون!  کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ میجرمونییکس   جو میراقریبی عزیز ہے ، کہاں رہتا ہے۔ ؟  روبن کی آواز ملتجانہ تھی۔ 

لڑکی نے بڑے غور سے اس کا جائزہ لیا اوردروازہ کھول دیا ۔ وہ ایک نازک اندام دودھ کی دھلی ہوئی تھی۔ اس کے بازو گول گول تھے۔ اس کی کلائی نرم و نازک تھی ۔ اس کا پیٹی کوٹ اس کی کمر کے گرد کسا ہوا ہے۔ اس کا چہرہ بیضوی اور خوبصورت ہے۔ اسکے ہیٹ کے نیچے اس کے سیاہ بال نظر آ رہے

 ہیں۔ اس کی آنکھیں روبن کا آ زادانہ طواف کر رہی ہیں۔ اس کی بے باکی اور اداؤں نے روبن کا دل موہ لیا۔

 میجر مونییکس یہیں ہی رہتا ہے۔لڑکی کے مخمور لہجے میں کہا۔

 اس رات روبن نے جن لوگوں کو دیکھا اور سنا تھا۔ یہ آواز ان سب سے پیاری تھی۔ اسے خیال آیا کہ اب اس کی قسمت نے اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔وہ کھڑا ہو کر اس گھر کا جائزہ لینے لگا ۔ وہ ایک چھوٹی سی تنگ دو منزلہ بوسیدہ عمارت تھی۔ اس کا پچھلا حصہ رہائش گاہ تھا جبکہ اگلے حصے میں پنساری کی دکان تھی۔وہ اس پر مکمل یقین کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے ذہن میں سوال ابھرا کہ میجر مینیکس جیسامیر کبیر اور اعلیٰ رتبے پر فائز اس خستہ حال گھر میں کیسے رہ سکتا تھا ۔ اس کے ذہن میں شک گزرا اور کہا۔میں گاؤں سے آیا ہوں اور اسے اس کے ایک دوست کا پیغام دینا چاہتا ہوں؟ اس کو پیغام دینے کےبعد میں واپس چلا جاؤں گا۔ کیا میں اس سے مل سکتا ہوں۔

 نہیں ! وہ اس وقت نہیں مل سکتا۔ اس نے بہت شراب خوری کر لی تھی۔ میں اسے اس حالت میں نہیں جگا سکتی۔ اسے اٹھانے کے لئے کوئی بڑی اہم وجہ ہونی چاہئیے ۔اس وقت میں اسے جگاؤں گی تو وہ ناراض ہو جائے گا۔۔۔وہ ایک ہمدرد شخص ہے ۔ تمہاری شکل اس معزز شخص سے ملتی ہے اور میں

 وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ میجر کا  برساتی کوٹ بھی تمہارے جیسا ہے اس کی چمڑے کی ایک نیکر بھی تمہاری طرح کی ہے۔ ۔۔ اندر آ جاؤ، اس نے مٹکاتی نظروں سے کہا۔ میں اس گھر میں تمہارا شاندارطریقے سے استقبال کروں گی۔ اس نے روبن کا ہاتھ پکڑکردبایا۔اس کی آنکھوں میں ایک واضح

 پیغام تھاجس میں نشہ تھا لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ وہ نازک اندام لڑکی اس جوان سے زیادہ طاقتور لگی اور اسے اندر لے جانے لگی تواتفاق سے پڑوس کا دروازہ کھلا اور ایک بھاری بھرکم شخص جورات کا محافظ لگتا تھا، خواب میں چلتا ہوا باہر نکلا۔ اس کو دیکھ کر لڑکی  چونک گئی اوررابن کا ہاتھ فوری طور پر چھوڑ دیا اور اندر بھاگ گئی۔محافظ نے رابن کو دیکھا اور کہا کہ وہ اس جیسی لڑکی کے پاس کیوں آیا ہے۔ بھاگ جاؤ، ورنہ رات جیل میں گزارنا پڑے گی۔یہ ایک اوراشارہ  تھا ،رابن نے سوچا۔میرا پکا اردہ تھا کہ رات وہاں گزار ے اور اپنے رشتہ دار سےملےتاہم اس ے محافظ کا دخل در معقولات اچھا نہ لگا۔ اس نے  میجر کے بارے میں پوچھنا چاہا تو وہ دور جا چکا تھا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن وہ دوسری گلی میں غائب ہو چکا تھا۔ اس نے قہقہوں کی آواز سنی جو اگلے مکان کی دوسری منزل سے آ رہی تھی ۔ وہ بھی ایک خوبصورت لڑکی کی آواز تھی۔ اس نے سیڑھیوں سے کسی کے اترنے کی آواز سنائی دی تو وہ وہاں سے بھاگ اٹھا۔ اس کا والد جو کہ گاؤں کا پادری تھا ، کی تربیت اس کے کام آئی اور وہ اس بار بھی برائی سے بچ گیا۔اب وہ نا امید ہو گیا تھا۔وہ بے مقصد گھومتا رہا ۔ اسے ایسا لگا کہ وہ کسی جادو کے زیر اثر تھا۔ اس کو یہاحساس ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ اس کے گاؤں میں رونما ہوا تھا جب ایک ان دیکھی چیزتاریکی میں اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ فاصلہ رکھ کر سائے کی طرح اس کے ساتھ رہی۔ یہاں بھی وہ کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔ وہ چلتا رہا ۔ ۔۔ اس وقت ہر طرف سناٹاتھا۔ عجیب و غریب سنسناہٹ پائی جاتی تھی۔

 اب وہ ایک اورسڑک پر ہو لیا۔ کم و بیش تمام گھروں کی روشنیاں گل تھیں۔ ایک جگہ چھوٹی ٹولیوںمیں کچھ لوگ آ جا رہے تھے۔ وہ ان سےاپنے رشتہ دارکے ٹھکانے کا پوچھناچاہا۔ تین تین چار چار کی ٹولیوں میں راہ گیر شوخ وشنگ لباس میں ملبوس تین تین چار چار کی ٹولیوں میں کئی نوجوانوں نے تو

 شوقیہ رنگ برنگی بالوں کی چھوٹی وگیں لگائی ہوئی تھیں۔ سنہرے، روپہلے لیس لگے ہیٹ، لشکارے مارتی تلواریں لئے قہقہے مارتے دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنی اپنی دھن میں جا رہے تھے۔ کئی تو نشے میں جھوم جھوم کرتازہ دھنوں پرناچتے گاتے جا رہے تھے۔ کئی لوگوں سے پوچھا لیکن ان کی زبان اجنبی

 تھی اس لئے وہ سمجھ نہیں پاتا۔وہ چلتا رہتا ۔سڑک کے ارد گرد دکانیں تھیں۔ ان کے لباس اور گفتگو غیر مانوس تھی۔اجنبی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ روبن نے اس سے پوچھنا چاہا لیکن کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ انہوں نے باتیں کیں لیکن اس کے پلے کچھ نہ پڑا۔ اس نے انہیں برا بھلا کہا اور تیزی

 سے آگے چل پڑا۔ اب اس نے ارادہ کیا کہ وہ شہر کے ہر اس گھر میں جائے گا جو عالیشان ہو گا اور ہر ایک سے میجر مونییکس   کے بارے پوچھے گا۔ وہ یہ سوچتے ہوئے چلنے لگا تو اسے ایک کلیسا نظر آیا جو دو گلیوں کے کونے پر بنا تھا۔ وہ اس کے گنبد کے شیڈ تلےرک گیا۔ اسے تا ریکی میں ایک دیوقامت

 شخص نظر آیا جو سر سے پاؤں تک کالی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ وہ اعتماد سے اس انداز میں چل رہا تھا جیسے اس نے کوئی اہم مشن  نبھانا تھا۔ روبن کے لئے اپنے رشتہ دار کے بارے میں جاننے کا اہم موقعہ تھا۔ وہ اس نے اپنے ڈنڈے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑکرایسے کھڑا ہو گیا کہ وہ اس ٹکر کھائے بغیر

 آگے نہیں جا سکتا تھا۔

 نیک بندے ذر ا  رکو! میرے سوال کا جواب دو کہ میرے عزیزمیجر مونییکس   کی رہائش گاہ کہاں ہے؟

 اپنی زبان قابو میں رکھو احمق! مجھے جانے دو۔ اس شخص نے کہا۔اس کی آواز کرخت اور اجڈ لوگوںجیسی تھی۔وہ جاہلوں کی طرح بکنے لگا جس کا کچھ حصہ ہی اسے یاد رہا ۔

مجھے جانے دو۔  ورنہ میں تمہیں زمین پر پٹخ دوں گا۔

 نہیں! نہیں  دوست ! جب تک تم مجھے میجرمونییکس کے گھر کا پتہ نہیں بتاؤ گے میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔روبن نے ضد کی۔

 اس کے اصرار پر وہ آگے کی بجائے دو قدم پیچھےمڑاتو اس کا چہرہ چاندنی میں آگیا۔ اس نے اپنےچہرے سے چادر ہٹائی اور روبن کو غور سے دیکھا۔

 یہاں اسے ایک گھنٹے کے بعد دیکھ لینا۔ میجر یہاں سے ایک گھنٹے بعد گزرے گا۔ یہاں ایک گھنٹہ رکواور تم اسے دیکھ سکو گے۔روبن نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو اس کا حلیہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کی ناک طوطے کی مانند تھی۔ اس کے ابرو گھنے تھے۔ آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ ایسا چہرہ اس

 نے ہوٹل میں بھی دیکھا تھا ۔ اس کے چہرے میں بنیادی طور پر دو تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اسکی دائیں گال مکمل طور پر سرخ رنگ اور بائیں گال مکمل طور پر سیاہ رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ اس کی ناک ایک انگلی کی موٹائی کے برابر نتھنے کے نیچےمنہ کے اوپر کانوں کے آخری سرے تک گالوں کے رنگوں

 کے برعکس یعنی دائیں پر کالا اور بائیں پر سرخ رنگ کا پل کھینچا کیا گیا تھا۔ اس کی آنکھیں جانی دشمن لگ رہی تھیں۔ ملا جلا کر وہ ایک عفریت کا تاثر پیش کر رہا تھا۔ تاریکی اس کی شیطانیت میں اضافہ کررہی تھی۔ اس کے ماتھے پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔وہ  کسی پارٹی کا نشان لگ رہا تھا۔ وہ یہ بول کر

 تاریکی میں غائب ہو گیا۔

 ہم  پردیسیوں کو بھی کن چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ روبن نے خود کلامی کی اور اس عظیم الشان عمارت کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔اس نے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود ایک گھنٹہ رک کر میجرمونییکس کا انتظار کرنا تھا کیونکہ اس شیطان کے بقول اس نے وہاں سے گزرنا تھا۔ اس دوران روبن دن بھر جو

 واقعات پیش آئے تھے، یاد کرنے لگا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت کو قنوطیت کی بجائے رجائیت سےصرف کرے ۔ اس نے اپنی نظریں ایک گلی کی طرف دوڑائیں تو اس میں عمارتیں پرانی لیکن معقول تھیں۔ ان کا حال دوسری گلیوں سے بہتر تھا۔ان گھروں کی ترتیب عجیب وغریب تھی۔ان کی چھتیں

 پرانی ہونے کی بدولت جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں۔ ان کے نمونے بھی مختلف تھے۔ کہیں صعودی، کہیں ڈھلوانی اور کہیں تنگ تھیں۔ ان چھتوں کے رنگ بھی  کالے، سنہری، نقرئی،سبز تھے ۔چاندنی میں وہ نظارہ  بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ان عمارتوں کے ڈیزائن کچھ دیر تو اسے لبھاتے رہےلیکن جلد ہی وہ

 بور ہو گیاپھر اس نے دوسری گلی پر نظریں جمائیں تو اس کی عمارات بھوتوں کا مسکن لگ رہی تھیں۔

 وہ نکڑ جس پر بیٹھا تھا  اس میں اعلیٰ  تعمیرات تھیں۔ایک مینشن جو پاس کی  عمارت سے بالکونی کے ذریعے الگ کیا گیا تھا ، لمبے ستونوں پر کھڑا تھا۔اس پر قرون وسطیٰ کی طرز تعمیر تھی۔اس نے اپنے تصور میں کہا کہ یہ ہی وہ جگہ ہو سکتی تھی جہاں  اس کا عزیز رہ سکتا تھا۔ اس کے پیچھے والی کھڑکی سے

 روشنی آ رہی تھی۔وہ وہاں گیا اور کھڑکی کی چوکھٹ سے دیکھا کہ کمرے کے اندر کیا ہے۔ اس میں لرزتی چاندنی بھی جا رہی تھی ۔ اندر ایک لیمپ روشن تھا جس کی روشنی ایک کھلی کتاب پر پڑ رہی تھی۔یہ مقدس انجیل تھی جس نے ارد گرد کے ماحول کو  پاکیزہ بنا دیا تھا۔ وہ روشنی اس مقدس جگہ کو مقدس

 جگہ کی عظمت بیان کر رہی تھی کیونکہ کوئی بھی انسانی پاؤں اس جگہ پر نہیں تھا۔ اس کو دیکھ کر اس کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اسے اپنے والد کی مذہبی تعلیمات یاد آئیں۔وہ جذبات کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اس نے اس طرح کے جذبات کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس گرجے کے ارد گرد قبریں تھیں اوراب

رابن کے ذہن میں ایک پریشان کرنے والی شئے سامنے آئی۔ اگر اس شئے کا جس کی کہ وہ تحقیق کر رہا ہے، جو کہ اتنا زیادہ اور عجیب طریقےسے دھمکی نہیں تھی۔اس کے تصورمیں اس کا بارسوخ رشتہ دار مسکراتا ہوا  اس کے پاس آیا۔ان باتوں کو جو اس کے لئے پریشان کن تھیں، کو جھٹک کر اپنی سوچوں کا رخ  اس نے جنگل، پہاڑ، چشموں اورگاؤں  اور اپنے گھر کی طرف موڑ دیا۔  وہ اور اس کا والد کس طرح  گھریلو کام کاج میں مصروف رہتے تھے۔خراب موسم سےدروازے، درخت اورپیچ دار مڑے ہوئے تنوں کو یا د کیا۔ گرمی کی شدید حدت میں والد کی کلیسامیں وہ عبادات دیکھتا تھا جس میں سب لوگ شریک ہوتےتھے۔ ہمارے پڑوسی بھی اپنے خاندان کے ساتھ شامل ہو تے تھے ۔ اس کا والد واعظ  تھا۔ان کو مقدس کتاب کا حوالہ دیتے اور سب دعا مانگنے کھڑے ہو جاتے۔خدا سے رحم کی بھیک مانگتا اورحاضرین شکرانہ ادا کرتے ، تسلسل  سے حمد و مناجات ادا کرتے۔  پیاس مٹانے کے لئے عبادات میں تھوڑا سا وقفہ کر کے چشمے سے پانی پیتے تھے۔ایساشخص کو جو اس مجمع سے غیر حاضر ہوتا، کو والد تنبیہ بھی یادتھی۔ وہ یاد کرنے لگا کہ کس طرح اس کی ماں اس کا منہ گٹھیلے تنے کی طرف موڑ دیتی تھی، کس طرح اسکا بڑا بھائی اس کی طرف حقارت سے دیکھتا کیونکہ اس کے بالائی ہونٹ پر اس کی داڑھی بڑھی ہوئی  تھی، کس طرح اس کی چھوٹی بہن درخت نچلی شاخ کوجو حرکت کررہی ہوتی، کو اس کی آنکھوں کے سامنے کرتی؛ اور کیسے چھوٹے بچے جن کی کھیلیں کسی وجہ سے رک یا ٹوٹ جاتی تھیں اور اس نظارے کا سگھڑ پن قائم نہ رہنا ، اپنے کھیل میں ساتھی کی حیثیت کے لئے دعا مانگنا اور اس کے غم میں برابر  کا شریک بن جانا  اور دوسری باتیں ایک ایک کرکے یا د آ رہی تھیں۔ کیا میں یہاں ہوں یا وہاں گاؤں میں؟ رابن چلایا۔ دوبارہ سے فوری طور پر اپنے رشتہ دار کے بارے میں سوچناشروع کر دیا۔جب اس کی سوچیں اور بصیرت واضح ہو گئیں اور وہ خواب وخیال کی دنیا سے نکل آیا۔ اس نے خود کو کھڑا کیا اور اپنی توجہ آہستہ آہستہ مستقل مزاجی سے اس عظیم الشان عمارت کی طرف مبذول کر دی جسے کہ وہ پہلے دیکھ چکا تھا لیکن اب بھی اس کا ذہن حقیقت اور تخیل  میں فرق محسوس کرنا شروع کر دیا تھا ۔ اب اسے ایسا لگنے لگا کہ اس مقام پر جہاں وہ موجود تھا، کی بالکونی کےستون ، دیودار کی لکڑی سے بنی ہوئی اشیا وغیرہ نئی نئی اشکال بنانےلگے۔اس نے اپنا سر جھٹکا  توخود کوجاگا ہوا پایا تو اسے سامنے والی مقابل پکی سڑک  پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔رابن نے اپنی آنکھیں ملیں ۔ ایک آدمی کو اس بالکونی کے نیچےچلتے ہوئے دیکھا ۔ سکوت ٹوٹا اور ایک شخص روبن کے پاس آیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا ۔اسے اندازہ ہوا کہ ایک دیہاتی نوجوان بلا دوست اور بلاٹھکانہ نیند بھری آنکھوں سے کھڑا تھا۔

  اے  نیک دل انسان !تم یہاں کیوں موجود ہو۔ کیا میں تمہارے کس کام آ سکتا ہوں ؟اس نے روبن سے سوال کیا۔

 دوست ! مجھے اس نےاپنے رشتہ دارمیجر مونییکسس ملنے کے لئے یہاں انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔روبن نے دیکھا کہ وہ بھی ایک جوان تھا۔ کھلے دماغ والا ، خوش اخلاق اور ہمدرد دکھائی دے رہا تھا جو اس شہر کے مزاج کے خلاف تھا۔تم میرے ایک سوال کا جواب دو تو میں احسان مند ہوں گا۔ میں اپنے رشتہ داراعلیٰ حکومتی عہدیدارمیجر موینیِنکس کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ کیا  تم مجھے اس کی رہائش گاہ کا پتہ بتا سکتے ہو۔ کیا واقعی اس نام کا کوئی شخص یہاں بستا ہے۔ اس کا پتہ معلوم کرنے کے لئے میرےقدم ٹوٹ گئے ہیں؟روبن نے  پوچھا۔

 میجر مونییکس یہ نام میرے لئے غیر مانوس نہیں۔اس مہربان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟

  میرا باپ پادری ہے ۔ اس کی آمدن محدود ہے ۔ ہمارا خاندان یہاں سے کافی دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہے۔میجرمونییکس  میرے باپ کا بھتیجا اور میرا کزن ہے۔ وہ با اثرہے۔ ایک اہم حکومتی عہدیدار ہے۔وہ بے اولاد ہے۔ وہ ہمارے گاؤں دو سال پہلے آیا تھا اور میرے والد سےمیرے بڑے بھائی اور مجھے گود لینے کی خواہش کی تھی۔بڑے بھائی نے چونکہ والد کی زمین کی کھیتی باڑی کرنا تھی اسلئے وہ گاؤں میں رہ گیا اور میں اپنی قسمت بنانےیہاں آگیا۔یہاںاہم ترین حکمرانوں کےنزدیک ہے اسلئے میں نے سمجھا کہ اس کی تلاش آسان ہو گی لیکن اس کو ڈھونڈنا تو مشکل ثابت ہوا ہے۔روبن  نے     کہا۔

 مجھےنہیں لگتا کہ تمہیں بیساکھی کی ضرورت ہے ۔ تم ہونہارجوان لگتے ہو۔ اس ہمدرد نے کہا۔میں تمہای کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔

 جناب والا !میں اٹھارہ سال کا ہونے والا ہوں۔ میری صحت بھی اچھی ہے ۔ تنو مند ہوں ۔پرورش بھی بہترین ہو ئی ہے۔روبن سیدھا کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔ میرے والد نے کہا کہ میرے لئےیہ نہائت موزوں ہے کہ میں اپنی زندگی بنانے کی تگ و دو کروں۔ میری ماںاور چھوٹی بہن نے اس کی تائید کی ہے۔ میرے والد نے مجھے اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ میرے حوالے کر دیا ہے جس سے میں یہاں پہنچا ہوں۔ میجر مونییکس کی مدد سے اپنا مستقبل روشن کروں گا۔غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے ہی پانچ دن سمندر کے سفر سے یہاں پہنچا ہوں۔اب تک میں اس کی رہائش گاہ سے بے خبر ہوں۔ اب  میں یہاں اس لئے ہوں کہ ایک شخص نے لارا لگایا ہے کہ میجر مونییکس ایک گھنٹے بعد اس جگہ سے گزرےگا۔

 کیا تم اس شخص کا حلیہ بتا سکتے ہو؟

 اوہ !    وہ نا مہربان ، سخت گیر اور شیطانی فطرت کا مالک لگتا تھا۔ اس کے دونوں گال رنگے ہوئے تھے۔ ایک پر سرخ اور دوسری پرسیاہ رنگ کیا ہوا تھا۔ ناک طوطے جیسی تھی۔ ناک کے نیچےسرخ رنگ والی گال پر سیاہ اور سیاہ رنگ والی گال پر سرخ لائن لگی ہوئی تھی جو کان کے پیچھے تک جاتی تھی اور اس کے ماتھے پر سینگ بنے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں سے کینہ اور غصہ دکھائی دے رہا تھا۔ روبن نے اس کا حلیہ بتایا۔

 میں نے بھی ایسا شخص دیکھا تو ہےلیکن اس کے بارے میں نہیں جانتا۔ تمہاری بات سے مجھ میں تجسس پیدا ہوا ہے کہ تمہاری اورمیجرمونییکس کی ملاقات  کا حال دیکھوں۔ یہ کہہ کر وہ ہمدرد سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔یہ گفتگو مختصرلیکن تسلسل سے جاری رہی۔ اس دوران شور میں آہستہ آہستہ تیزی آتی جا رہی تھی ۔ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی جشن منایا جا رہا ہو۔ روبن نےپوچھا کہ کیا یہ شہر اس طرح کے پروگرام رات کو اکثر کرتا رہتا تھا لیکن اس نے کبھی نہیں دیکھے۔

   کیا اپنی نیند خراب ہونے پر مکین معترض نہیں ہوتے؟ روبن نے پوچھا۔

 ایسے پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان پر اعتراض نہیں کیا جاتا۔ اس شہر میں تین چار گروہ ہیں جو ان کا انعقاد کرتے ہیں۔ان کی سرپرستی یہاں کے عوام بھی کرتے ہیں۔عمدہ فطرت شخص نے جواب دیا۔اس وقت دور پار سےمدھم شور سنائی دیا تو انہوں نے اپنی توجہ اس طرف مبذول کر لی۔ آوازیں بہت ہی ہلکی تھیں۔ کبھی سنائی دیتیں اور کبھی غائب ہو جاتیں۔وہ ایک بھنبھناہٹ کا تاثر دے رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آوازیں اس گلی کے دوسرے سرے سے آ رہی تھیں اور اسکا رخ  انکی طرف تھا۔ وہ کوئی ایک آواز نہیں بلکہ بہت سی آوازوں کا مکسچر تھی ۔ اس میں بینڈ بھی دھنیں بجا رہا تھا،  لوگوں کا شور بھی تھا اور بےحد جوش و جذبہ بھی تھا۔ملی جلی آوازوں سے آوازیں گڈ مڈ ہو گئی تھی۔رات کے اس سمے گلیاںسونی تھیں۔ سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔وہ آوازیں آہستہ آہستہ قریب آتی جا رہی تھی۔ یہ آوازیں مکینوں کے سکھ چین توڑرہی تھیں۔وہ حیران تھا کہ اس وقت ایسے شور کی ضرورت کیوں پیش آئی-  روبن سے رہا نہ گیااور اس طرف دیکھنے لگا جدھرسے آوازیں آ رہی تھیں۔جوں جوں وہ مجمع نزدیک آتا جا رہا تھا ،شور میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ روبن کو لا لٹین والا محافظ ، پولیس اور فوج یاد آئی۔ اس نے سوچا کہ کیا وہ بھی اس کو کنٹرول نہیں کرتی۔ وہ شور بے ہنگم تھا ۔ ایسی آوازیں جو بیک وقت ہم آواز ہو کر جوشیلے نعرے لگا رہی تھیں۔ ایسی یکسوئی سے آواز اس وقت ہی آ سکتی تھی جب ہزاروں آوازیں ایک ساتھ نکالیں۔ اسے شہنائی کی آواز سنائی دی جو مسلسل آنے لگی۔ تو اسے حسین و جمیل خادمہ یاد آگئی۔اس کے ساتھ بہت سے آلات موسیقی  یک جا ہو کر ساز بجانے لگے۔ قہقہے بلند سے بلند ہوتے جا رہے تھے۔روبن جوش میں آ کر سیڑھیوں سے نیچے اترا اور شور کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے دیکھا کہ چند لوگ تیز تیز قدموں سے اس سمت آ رہے تھے۔

 شائد کوئی بہت تفریحی تماشا ہونے جا رہا تھا۔ اس نے غل غپاڑا  کے بارے میں سوچا کہ اب مزہ آنے والا ہے۔ اس نے ہمدرد سے کہا۔ جناب والا!جب سےمیں نے اپنا گھر چھوڑا ہے، مصیبت ہی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اب ہنسی خوشی اور اس جشن کے اس موقع کا پورا فائدہ اٹھاؤں گا اور لطف اندوز ہوں گا۔ کیوں نہ ہم تاریک گھر کے کونے میں جا کر کھڑےہو جائیں اوراس جشن کو دیکھیں؟ روبن نے کہا۔

 اچھے روبن  بیٹھ جاؤ!اس ہمدرد نے ہاتھ اپنے کوٹ کی جیبوں میں ڈالتے ہوئے کہا۔ہمیں یہیں تمہارے عزیز کا انتظار کرنا چاہئیےاور میرا اندازہ ہے کہ جلوس ہمارے سامنے سے ہی گزرے گا۔فرشتہ سیرت نے رائے دی۔

 جوں جوں جلوس قریب آتاگیا ، گلیوں کی کھڑکیاں کھلتی گئیں۔ جلوس ابھی بھی کچھ فاصلے پر تھا۔خواتین بالائی منزل سے ٹکٹکی باندھ کر آنے والے جلوس کی طرف دیکھنے لگیں۔اس جشن میں قیدی بھی تھے جن کی حالت زار بہت دگرگوں تھی۔ وہ تقریباً ننگے تھے جن کے جسموں پر مار پیٹ سے زخموں کے نشانات تھے۔وہ سڑک کے کنارے لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے۔ وہ جوں جوں قریب آرہے تھے۔ہجوم جوشیلی آواز میں جشن کی انتطامیہ کا حوصلہ بڑھانے لگیں ۔ان قیدیوں کے مظالم کا حساب مانگنے لگیں۔ وہ بے بسی سے چلتے رہے۔ تماشائی خوشی سے قہقہے لگا رہے تھے۔ان کی آوازیں وحشیانہ تھیں ۔ان کے قہقہوں کی آواز ایسی تھی جیسے گدھے ہینگ رہے ہوں۔رابن نے دیکھا کہ کچھ لوگ اس بھیڑ سے نکل کر آگے چل کر منتشر ہو گئے تھے۔ جب وہ جلوس ان سے سو گز کے فاصلے پر تھا تو اس جلوس کے خد وخال  واضح ہونے لگے تھے۔ جلوس کا ہراول دستہ ان کے قریب پہنچا تو ہمدرد نے رابن سے پوچھا کہ کیا تمہیں ان میں میجرمونییکس نظر آیا۔ کیا تم اسے اس مجمع میں پہنچان سکتے ہو؟

میرے سامنے آیا تو میں اسے پہنچان لوں گا لیکن وثوق سے نہیں کہہ سکتا جناب ۔ روبن نے جواب دیا۔  میں اسی جگہ پر شرکا کو غور سے دیکھوں گا۔  وہ باہر والے حصے جو کہ اونچا تھا کی طرف کھڑا ہو گیا  تاکہ دور تک جائزہ لے سکے۔ ایک جمگھٹا گلی سے نکلا  اور آہستہ آہستہ اس جگہ بڑھنے لگا جہاں روبن کھڑا تھا۔  ان کے درمیان ایک گھوڑ سوار مجمع کو کنٹرول کر رہا تھا ۔ وہ ان کا قائد تھا۔وہ  جلوس کو آگے بڑھنے اور نعرے لگانے کی ہدایات دے رہا تھا۔ہراول دستے کے پیچھے سب سے زیادہ  جوشیلا  ہجوم تھا۔ ان کی آنکھوں میں نفرت اور خون تھا۔ ان کا شور کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا تھا۔ علاقے کا ایک گھر بھی  بے پناہ شورسے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ اس وقت ایک تیز روشنی ہوئی جس نے چاندنی کو مات دے دیا اور پورا مجمع  صاف نظر آنے لگا۔ گھوڑ سوار  فوجی  وردی میں ملبوس تھا۔ وہ ایک جنگجو کے روپ میں تھا۔   اس نے اپنے ہاتھ میں  تلوار اٹھائی ہوئی تھی جو چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ وہ تلوار لہرا لہرا کر احکامات دے رہا تھا۔  اس کا انداز جارحانہ اور خوفناک تھا   اس کے گال سرخ اور سیاہ رنگ سے رنگے ہوئے تھے۔ باغی پارٹی کا آگ اور سینگوں کا نشان بنا ہوا تھا۔ اس کےساتھی وحشی تھے جو قدیم امریکی ریڈ انڈین کے روپ میں تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر رنگ برنگے بیل بوٹے بنے تھے۔ کان میں وہ بھی شامل تھے جو روبن نے ٹولیوں میں دیکھے تھے۔ہر ایک کا فیشن عجیب و غریب تھا۔ کسی ایک کا سٹائل دوسرے سے نہیں ملتا تھا۔  اس جلوس کو پریڈ کا نام دیا جا  گیاتھا۔اس میں ہوٹل میں موجود لوگ بھی شامل تھے۔روبن  جلوس کے قائد کوپہیچان گیا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے اسے کہا تھا کہ میجر مونییکس اسے یہاں ایک گھنٹے کے بعد ملے گا۔اس جلوس میں  ایک حصہ وہ تھا جو پریڈ میں حصہ نہیں لے رہا تھا بلکہ وہ تالیاں بجا کر انہیں شاباش دے رہا تھا۔ اس حصے میں کئی خواتین جلوس کے اگلے کونےسے پچھلے یا پچھلے سے اگلے کونے میں تیز رفتاری سے جا رہی تھیں۔ سپہ سالار کی نظریں مجھ پر جمی تھیں ۔روبن جلوس کی اصلیت دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس وقت مجمع کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں۔ منظر واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ گھوڑ سوار نے مڑ کر شعلہ برساتی آنکھوں سےروبن کو دیکھا۔ جلوس آہستہ آہستہ اس کے سامنے سے گزرنا شروع ہوا۔بجری پر پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ کی آوازسنائی دے رہی تھی۔ پریشان حال زخموں سے چور قیدی اس کے سامنے سے گزرنے لگے ۔ ایک چھکڑا جب روبن کے سامنے سے گزرنے لگا تو قائد نے گرج کر ' رک جاؤ ۔' کہا۔جلوس یک دم رک گیا۔ قہقہےختم ہو گئے ۔شہنائیاں بجنا بند ہو گئیں ۔ اس وقت  ماحول میں ہر سمت خاموشی چھا گئی۔

  روبن نے سامنے  دیکھا تو اس کے قدموں سے زمین نکل گئی۔ چھکڑے پر کوئی سائبان یا چھت نہیں تھی۔ اس چھکڑے پر تیز روشنی ڈالی جا رہی تھی۔اس میں چاندنی بھی شامل ہو گئی تھی جس نے اسے دن کے اجالے کی طرح واضح کر دیا تھا۔میجرمونییکس اس چھکڑے میں بوسیدہ کپڑوں میں زخمی     تھا۔    اس کے کپڑوں پر تار کول کے نشانات تھے۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ اس کے چہرے پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی۔اس کا کشادہ ماتھا رنج و غم  سے افسردہ تھا۔ اس کے ابروؤں پر ایک تاریک لائن تھی۔ اس کی کرشماتی شخصیت خاک میں مل چکی تھی۔ وہ بے وقعت اور حقیر شخص کے روپ میں نظر آ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی ۔ اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔اس کے دشمنوں نےاس کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا تھا۔ اسے اپنی مزیدہتک اور حقارت اس وقت ہوئی جب اس نے روبن کو دیکھا۔ جب ان دونوں کی نظریں دوچار ہوئیں تو بے بسی سے اس نے آنکھیں چرا لیں۔ روبن اس کی بےعزتی دیکھتا رہا۔اس پر رحم اور خوف طاری ہو گیا۔اس نے پھر روبن کو دیکھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں  خاموشی سےدیکھتے رہے۔روبن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔باغی حکومت پر غالب آ گئے تھے۔جب قائد نے محسوس کر لیا کہ رشتہ داروں نے ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ لیا تھا تواس نے مارچ کا حکم دیا ، شہنائیاں بجنے لگیں، بینڈ نےاپنی دھنیں بجانا شروع کر دیں۔ جوشیلے نعرے لگنے لگے اور جلوس چل پڑا۔ نفرت آمیز سلوک نے اس کے ذہن کو مفلوج کر دیا۔ روبن اس غیر متوقع واقعے  کو دیکھ کر اضطراری طور پر کونے میں دبک گیا۔ وہاں ایک خاتون لالٹین لئے کھڑی تھی۔ اس وقت اس نےروبن کا ہاتھ پکڑا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا۔ مدبھری آنکھوں سےخمار سے قرمزی پیٹی کوٹ والی خاتون اسے دیکھ رہی تھی۔اس وقت جلوس سے قہقہے ابھرےتو وہ اس جلوس میں پنجوں کے بل چلنے لگی۔

  روبن سکتے کی حالت میں وہیں کھڑا رہا۔ اسے بالکنی سے  ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا،ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا قہقہوں کی  کی آواز آئی۔ روبن نے مڑ کر دیکھا تو یہ وہ پیرانہ سال تھا جو اسے سب سے پہلے ملا تھا۔ اس نے اس وقت سفید گاؤں پہنے ہوئے تھا۔اس کی سیاہ وگ  اب تبدیل ہو چکی تھی جو اس کے ماتھے سے ذرا نیچے تھی۔ اس کی ریشمی لمبی جرابیں گھٹنوں تک چڑھی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنا بوجھ لاٹھی پر ڈالا ہوا تھا۔  جوش اور خوشی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔ وہ حکومتی عہدیداروں کی بے عزتی پر خوش تھا۔ حجام اور ہوٹل کے لوگ بھی اسے اس بھیڑ میں نظر آئے ۔ وہ بھی قہقہے لگا رہے تھے۔ لوگوں کا یہ سلوک دیکھ کو وہ زور سے چیخا  جو  جلوس کے قہقہوں سے بھی بلند تھا۔ سب نے اس کی آواز سنی اور اس کی طرف دیکھا۔  شہنشاہ کے جو جانی دشمن اس کا  ٹھٹھا اڑا رہے تھے۔ اس کے غموں میں اضافہ کر رہے تھے۔  روبن کے سہانے خواب ٹوٹ چکے تھے۔امنگیں دم توڑ چکی تھیں۔

تواچھا ، کیا روبن تم کوئی خواب دیکھ رہے ہو، نیک دل شخص نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کیا۔

کیا  مجھے واپس جانے والی کشتی کا بتا سکتے ہو؟ روبن کچھ دیر بعد بولا۔

اب تم نے ایک انداز میں سوچنا شروع کر دیا ہے۔ بھلے مانس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ہاں! روبن نے بجھے دل سے جواب دیا۔میں صرف ایک رات ہی اس شہر میں گزاری ہے۔ میں اس زندگی سے تنگ آگیا ہوں اور میں مزید اس میں نہیں رہنا چاہتا جناب۔ کیا تم مجھے ساحل کا راستہ بتاؤ گے؟

نہیں !پیارے دوست روبن ۔ کم از کم آج رات نہیں، ہمدرد شخص نے جواب دیا۔ چند دن مزید یہاں  رہ لو ، اور اگر اس کے بعد بھی تمہارا من واپس جانے کو چاہے تو میں تمہیں تمہارے سفر میں مدد کروں گا یا اگر تم یہاں ہمارے ساتھ رہنا  چاہو تو جس طرح کہ تم ایک سمارٹ ، ہوشیار اورعقلمند ہو تو  تم اس جگہ اپنے رشتہ دار کے بغیر  اپنا  نام بنا لو گے۔

  تجزیہ

 نیتھییل ہا تھورن نے اپنی اس کہانی ُ میرا عزیزمیجر مونییکس   ُ میں اٹھارویں صدی کے انقلاب امریکہ کی ایک رات کے واقعات  کا ذکر کیاہے۔یہ وہ دور تھا جب برطانوی جارج دوئم  کم و بیش تمام دنیا پر حکمرانی کرتا تھا۔ امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں بھی اس کی حکمرانی تھی۔ اس کے جبر و استبداد سے نالاں عوام الناس نے کئی علاقوں میں بغاوت  کی ہوئی تھی۔ تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئ تھیں۔' میسا چوسٹس بے 'ریاست  بھی اس سے مبرا نہیں تھی ۔عوام الناس نے حکومتی رٹ کو چیلنج کر  رکھاتھا۔ا س کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا ہوا تھا۔شہنشاہ نے طاقت استعمال کی تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ پچھلے چالیس سالوں میں مرکزی حکومت کے مقرر کردہ آٹھ گورنروں کو یا تو قتل کر دیا  گیا یا ایسے حالات پیدا کر دئیےگئے جن سے وہ اپنے فرائض سر انجام نہ دے سکے۔ان سالوں میں تمام اشرافیہ باغیوں کے زیر عتاب رہی۔

 نیتھینیل ہارتھورن اس کہانی میں وہ ایک سٹیج قائم کرتا ہے جس سے وہ یہ پیغام دیتا ہے کہ بے چینی  میں روز بروزا ضافہ ہو رہا ہے۔یہ واقعات 1732سےواقع ہونے لگے ہیں۔امریکی عوام برطانوی استحصالی ظام پر بے حد نالاں ہیں۔افراتفری ، ابتری پھیل رہی ہے اورتحریکیں شروع ہو گئی ہیں جو درپردہ حکومتی اداروں پر حملے کر رہی ہیں۔ عوام الناس کی سطح پر مزاحمت شروع ہو گئی ہے۔یہ کہانی 1832میں لکھی گئی ہے۔ آباد کار ریاستوں کے عوام ان تمام نامزدگیوں کے شدید مخالف ہو جاتی ہیں۔ 

 روبن اس میں ہیرو ہے جو اٹھارہ سالہ خوبصورت ،صحت مند جوان ہے جو اپنے روشن مستقبل کے لئے اپنے پیرانہ سال فرسٹ کزن میجر مونییکس کے پاس جو اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور دولت مند  ہے کے پاس قسمت آزمانے آتا ہے۔ روبن ایک چھوٹی سی بستی  کا رہائشی ہے۔ اس کا والد گاؤں کا پادری ہے جس کی تھوڑی بہت زرعی زمین ہے۔ اس کا مشاہرہ کم ہےلیکن کھیتی باڑی سے گزارہ ہو جاتا ہے۔ روبن کا ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن ہے۔میجرمونییکسس لا ولد ہے۔ وہ ایک دوسال پہلے گاؤں آکر اپنے چچا  ( پادری) کو پیشکش کرتا ہے کہ وہ اس کے دونوں بیٹوں کو گود لینا چاہتا ہے۔بڑا بھائی  تو کھیتی باڑی میں مشغول ہے اس لئے پادری روبن کو میسا چوسٹس بے بھیج دیتا ہے۔ پانچ دن کے سفر کے بعد وہ  اس شہر پہنچتا ہے۔اس کے ذہن میں  اسکے بارے میں تاثر ہے کہ وہ اس شہر کا معزز ترین شخص ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے۔اس کا رعب ودبدبہ ہے ۔ وہ جوں ہی وہاں پہنچے گااسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ اسے اصل صورت حال کا علم  نہیں ہوتا۔جب حقیقت آشکار ہوتی ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔میجر مونییکس کا رتبہ اور مالی حیثیت ہی اس کی دشمن بن جاتی ہے۔

 مقامی لوگوں کے لئے روبن ایک مذاق بن گیا ہے ۔ وہ اس کی معصومیت اورنادانی پر ہنستے ہیں۔ روبن خود کو یہ بتا کر مطمئن ہوتا ہے کہ وہ پیرانہ سال ضعیف  اس کے عظیم کزن میجر مونییکس کےبارے اس لئے نہیں بتاتا کیونکہ وہ سنکی ہےجبکہ اصل میں وہ اس کے رشتہ دار کے بد خواہوں میں سے ہوتا ہے۔وہ استخوانی  ڈھانچے والاشخص ہاتھ میں لاٹھی تھامے ایک سراب کے طور پر استعمال ہوا ہے۔وہ بد روح ظاہر کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ  سیاہ چادر میں ملبوس طوطے کی ناک ، شعلہ برساتی آنکھوں، کینہ پرور اور مکروہ  شکل والے بدطینت شخص میجر مونییکس کے دشمنوں کا قائد ہے جس نے اسے  قید میں ڈال کر طرح طرح کی اذیتیں دے کر روبن  کا مستقبل تباہ کر دیا ہے۔ ہوٹل کی انتظامیہ اور اس میں موجود تمام افراد ماسوائے چند ایک کے سب حکومت کے مخالف ہیں اوردر پردہ غداروں کے ساتھی ہیں جو اسے اشتہاری تک قرار دیتے ہیں۔

 روبن کا صبر برداشت سے باہر ہونے لگتا ہے۔ اس کی اس وقت امید بندھتی ہے جب وہ قرمزی لباس والی نوجوان خادمہ  باور کراتی ہے کہ وہ میجر مونییکس  کا ہی  گھر ہے اور وہ سویا ہوا ہے۔ وہ اسے ترغیب دیتی ہے کہ اندر آ جائے ۔ وہ ایک طوائف ہے اور اس نوجوان کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ہاتھورن  نے قرمزی رنگ اپنی ایک مشہور کہانی  سکارلیٹ لیٹر میں بھی کیا ہے جہاں اس رنگ کو طوائف  کی علامت کے طورپر استعمال کیا ہے۔ جس میں' ہسٹر پیرنےُ کو شہوانی ، آزاد جنسی تعلقات رکھنے والی اور رشوت خور  بیان کیا ہے ۔روبن اس لڑکی کی عیاری سے جس میں وہ اس کی مشابہت میجر مونییکس سے کرتی ہےاور چکنی چپڑی باتوں سےاندر لے جا کر اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا چاہتی ہے سے رات کا محافظ  بچا لیتا ہے کیونکہ وہ اس لڑکی کے غیر قانونی دھندے کو جانتا ہے۔

 سیاہ چادر میں ملبوس شخص ایک ابلیس ہے۔ امن تباہ کرنے اور حکومتی استحصال ختم کرنے کے نام پر نجات دہندہ کےاوتار میں  ظاہر ہوتا ہے  وہ  رات کوایک باغی  جنگجو سپہ سالار  بن کربڑے دھڑلے سے اپنے غنڈوں سمیت  حکمرانوں کو نشان عبرت بنا کر ان کی تشہیر کے لئے جلوس نکالتا ہے۔ اس کے آدھے چہرے پر سرخ اور آدھے پر سیاہ رنگ کیا ہوا ہوتا ہے اور ماتھے پر سینگوں کا رنگ کیا گیا ہے۔۔ ۔جلوس میں روشنی اور تاریکی کا تصور  چہرے پر کئے گئے سرخ  رنگ جنگ اور مزاحمت، آنکھوں کے شعلوں، اشتعال، نفرت، انتقام  ظاہر کرتا ہے۔ سفیدی  ، چاندنی  اور سفید برف  کو امید، اچھے مستقبل اور حکومتی ظلم و سم سے چھٹکارے، غربت کے خاتمے  کی علامت  جبکہ اندھیرے، سیاہی،چہرے کے کالے رنگ  کوموت ، عذاب اور مایوسی  قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد عوام الناس پربرطانوی شہنشاہ  کی طرف سے طویل عرصے تک ڈھائے گئے مظالم  پر افسوس، افسردگی ، ماضی کی ناامیدی اور ان کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ کھولیوں، تنگ مکانوں، خستہ حالی اور غربت کی بھی علامت ہےجو رنج و الم کی نشاندہی کرتا ہےماتھے پر پسینہ مزاحمتی پارٹی کو پیش کرتے ہیں۔

 پرسکون رات کےوقت جب سب لو گ دن بھر کی مصروفیا ت سے تھک چور ہو کر سو رہے ہوتے ہیں، میں ہنگامہ آرائی اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کو باور کرایا جائے کہ انقلاب آ چکا ہے اور اس دوران ہر غیر معمولی  بات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ ان سب کے لئے  پیغام ہے کہ حکومت سے انتقام  لینےکے لئے ہر وقت تیا ر رہنا چاہئیے۔ وہ  عوام کورات میں جلوس سے اس بات کا تاثر بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے اس وقت بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جب سب سو رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا احساس ہے اور ان کے تدارک کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ اس  مکروہ  فعل  کے شرکا اور تماشائی امریکی روایات سے انحراف پیش کررہے ہیں۔وہ پیچیدہ لوگ ہیں۔ اچھوت اور مقناطیسی اثرکی طرح پھیل رہے ہیں جبکہ حقیقت میں کم و بیش تمام آبادی امن پرست ہے اور قوانین کا احترام کرتی ہے۔

 روبن دل برداشتہ ہو جاتا ہے ۔ رات کی غلط مہمات اور فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے گھر واپس چلا جائے۔ اس نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ اشیا کو حقیقت پسندانہ طور پر دیکھنے کے قابل ہو گیا ہے ۔ اب وہ پختگی کی منزل پر پہنچ رہا ہے۔ امید کی کرن میں اندھا عقیدہ اور دکھاواختم ہو گیاہے اور واپس گاؤں جانا چاہتا ہے لیکن ایک بھلے مانس اسے ایک نئی راہ دکھاتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ کسی پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرے اور اپنا مقام بنائے اور وہ یہ کر سکتا ہے۔ اس میں وہ تمام وصائف پائے جاتے ہیں جو اسے کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ اسے اس رات روک لیتا ہے۔ روبن  غیر واضح ہے کہ وہاں رکے گا یا واپس گاؤں چلا جائے گا۔ لیکن گھر سے دور تجربات اسے یہ سکھاتا ہے کہ اسے سہارے ڈھونڈنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا چاہئیے ۔ اپنی جبلت پر اعتماد کرکے آگے بڑھنا چاہئیے۔ قسمت اور تقدیر پر تمام تر انحصار کرنے کی بجائے جستجو بھی ایک لازمی عنصر ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات جو راوی نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے  وہ یہ ہے کہ ۔ ُ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ُ  ہمت کی جائے تو راہیں خود بخود نکلتی چلی جاتی ہیں۔

 

 

 

 

 

 

Popular posts from this blog