ہیلو ریڈ ........Kurt Vonnegut.........Hello Red

ڈ

Hello Red

By

Kurt Vonnegut

مترجم : غلام محی ا الدین

سورج ایک بہت بڑے کل دارپل کےپیچھے  چھپ رہاتھا۔یہ محل وقوع کےلحاظ سےایسا  شاندار پل تھاجودو دریاؤں کے دہانےکےسنگم پرتھااور دوملحقہ آبادیوں کوملاتاتھا۔ سائےگہرےہوتے جارہے تھے۔وہ ایک حساس جگہ تھی جہاں پر ہروقت آنے  جانے والے کااندراج کیاجاتاتھا۔اسکےایک کنارے پر ایک  ایسی تنصیب کی گئی تھی جو گھومتی  .رہتی تھی ۔اس جگہ ہمیشہ  سخت پہرہ ہوتاتھااور اس پل پر ایک محافظ نیانیا تعینات ہوکر آیاتھاجوڈیوٹی کے دوران ہر ایک پرنظر رکھتاتھا۔ اس کانام ' مسٹر ریڈ 'تھا  ۔پل کے ایک سرے پرکینٹین تھی جہاں ملازم  وقفے میں کھانا کھاتےاوروقت گزارتے تھے۔ایک محافظ کھانے کےوقفے میں  برگر اورکافی  سے فارغ ہونےکےبعد سٹول پر بیٹھاتھا کہ اسے پل کےگھومنےوالے حصے سےایک شورسنائی دیا۔اس نے پل کی طرف دیکھا اور غورکیاتووہ  بیرنگ کاشور تھا۔ وہ محافظ قوی اور بھار ی جثے والانوجوان تھاجس کی عمرپچیس  سال سے زیادہ تھی۔جس پرقصاب کا کینہ پرور چہرہ چڑھاہواتھا۔وہ ایک ٹانگ سے لنگڑاتھا۔

کنٹین کے کاؤنٹر کے پیچھے  ایک شخص کھڑاتھاجو گاہکوں کی فرمائشیں پوری کررہاتھا۔اس کانام سلم کارنی تھا۔اس وقت اس کےپاس  تین گاہک کھڑےتھے۔وہ  اس لنگڑے شخص کودیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرائے لیکن سٹول پربیٹھے آدمی  نے انہیں خشمناک نگاہوں سے دیکھا۔اس کی آنکھوں میں خون نظرآرہاتھا۔ان کی آنکھیں ملیں  تواس نےچھینک ماری اور اپنی توجہ پھر سے اپنے کھانے پرمبذول کرلیاور  ان برتنوں کوجواس کی میزپرپڑےتھے سےکھیلنے لگا۔اس کےکسرتی بازو ؤں پر طوطم بنےہوئےتھے جس پر خنجراور دل بنےتھے۔کاؤنٹر والےشخص نے سٹول پر بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان تینوں خریداروں سے پوچھاکیاوہ 'ریڈ میو'نہیں ہے؟انہوں نےدیکھ کرکہاکہ ہاں لگتاتووہی ہے۔پر یہ یہاں کیاکررہاہے۔اسےتویہ جگہ چھوڑے عرصہ ہوگیااوراس کاتوکوئی اتہ پتہ بھی نہیں ۔چلواس سےپوچھ لیتے ہیں۔

کیاتم مسٹر 'ریڈمیو'   ہو؟ایک   نے پوچھا۔

ہاں۔اس نےاایک لمبی سانس لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھے بغیرکہا۔

ان کے منہ سے حیرت ظاہرہوئی اور پوچھا۔کیاتم نے مجھے پہنچانانہیں ریڈ؟

پہنچان لیاہے۔اس نےبےرخی سےکہا۔

بتاؤمیں کون ہوں ریڈ؟ایک ذراسی زیادہ عمروالے شخص نےپوچھا۔

ہائے۔ریڈ نے کہالیکن اس سے زیادہ نہ بولا۔

تمہارے والد کی فوتگی کاسن کر بہت افسوس ہواریڈ۔وہ اگرچہ دوسال پہلے دنیاسےرخصت ہواتھالیکن اس دورا  ن   تم سے ملاقات نہیں ہوسکی۔اب اچھے شخص کودوبارہ دیکھاتو سوچااب افسوس کااظہارکردوں۔ریڈ کی آنکھوں میں افسردگی دیکھ کروہ  ذراسا ہچکچایا ۔تم مجھے پہنچانتے ہوریڈ ۔ میں جارج موٹ ہوں۔

ہاں۔ ریڈ نے کہا۔ کنٹین والے کی طرف دیکھ کرکہا کہ وہ سلم کارنی ہے۔اس کے ساتھیوں کی طرف دیکھ کرکہا کہ وہ  ہیری چلدز ہےاور وہ سٹان ویسٹ۔

وہ ہمیں نہیں بھولاسلم کارنی کاؤنٹر کلرک سے انہوں نےکہا۔

یقیناًہم  سب اسے یادہیں۔۔۔وہ کیسے ہمیں بھول سکتاہے؟انہوں نے ہم آواز ہوکرکہا۔

میرااندازہ تھاکہ تم سے شائد ہماری ملاقات پھرکبھی نہ ہو۔ سلم نے کہا۔میں سمجھاتھاکہ تم یہ جگہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے ہو۔

تمہاری سوچ صحیح نہیں تھی۔ریڈ نے کہا۔قیافے کبھی غلط بھی ہوجاتے ہیں۔ریڈ نے کہا۔

تم کب واپس آئے؟ سلم نےپوچھا۔تمہیں یہاں سے گئے آٹھ نوسال توہوگئے ہوں  گے  

؟

آٹھ سال۔ریڈ نے کہا۔

کیاتم اب بھی بحری جہاز میں ہو؟

ہاں۔ ریڈ نے کہا۔

کس عہدے ہر ہواور تمہاری ڈیوٹی کہاں ہے۔

ایک محافظ کےطور پر۔اسی پل پر۔ریڈ  نے کہا۔

ہی،ہی،ہی،ہی، کیاتم نے سنا۔یہ کہہ رہاہے کہ اسی برج پر ۔تم  کب سے اس پل پر ڈیوٹی دے رہے ہو۔

دودن سے۔ریڈ نے کہ

دو دن !اور ہمیں ہی معلوم نہیں۔۔۔ہم اپنی ڈیوٹی کے دوران روزانہ چاربار اس پل سے گزرتے ہیں ۔اگر تم یہاں  ہوتےتو ہماری نظروں سے کیسے بچ سکتےتھے۔ جارج موٹ نےکہا۔تمہیں یہاں آکر ہمیں ہیلوہائے توبولناچاہیئے تھا۔تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اس  پل پرمیکانی نظام ہے ۔اپنی ڈیوٹی کے دوران تم نے مجھے، ہیری، ۔سٹین۔ موٹ ۔ایڈی اور ہر ایک   کوپل عبورکرتے ضرور دیکھاہوگااور تم نے کسی کوبھی  ایک لفظ تک نہیں بولا۔

اس وقت میں تیار نہیں تھا۔ریڈ نےکہا۔تم سے ملنے سے پہلے ایک شخص سے ملاقات

ضروری تھی۔

اوہ !سلم کاچہرہ اتر گیا۔اس نے باقی ساتھیوں کی طرف دیکھا۔وہ بھی اس کی بات سن کر ہکا بکارہ گئے۔وہ متجسس ہوگئےاور اپنی انگلیوں  کو چٹخانے لگے۔۔۔پھرسلم نے آہستہ سے کہاکہ اب ہم سب تبدیل ہوگئے ہیں۔

مجھے یہ نہ بتاؤ۔یہ خبرنہ دو۔ریڈ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔اس نے تینوں کو  پھرسے دیکھا تو انہوں نے اپنے کندھے اچکائے۔ان کاتجسس اب فکرمندی میں تبدیل ہوگیاتھا۔ ریڈ کے  روکھے رویے سے  بے چین لگناشروع ہوگئے تھے۔

تمہیں کیانہ بتائیں سلم نےکہا۔

مجھے سب پتہ چل گیاہےریڈ نے کہا۔اپنے معصومانہ تاثرات جوتم ظاہر  کر رہےہو۔میں اس بارے میں بات کررہاتھا۔

خداگواہ ہے میں نہیں جانتاکہ تم کیاکہہ رہے ہوریڈ۔سلم نے کہا۔ تمہیں اپناگھر  چھوڑے  عرصہ بیت گیا۔میرے لئے یہ طےکرنامشکل ہے کہ سب سےپہلے خصوصی طورپر ہمیں ملنے سے پہلےتم  کس  سےملناچاہتےہو۔ہم سےاہم کون ہے؟

اس دوران بہت سے لوگ آئے اورچلےگئے۔۔۔ابھی پل کے نیچے بہت پانی گزرچکاہے

  ۔ ۔۔تمہارے پرانے دوست احباب اب بڑے ہوگئے  ہیں اورانہوں نے اب اپنی اپنی دنیاآبادکرلی ہے۔سب اکائی میں بولے۔

ریڈ نے ناگواری سےمنہ بنایااورایسامحسوس کروایاکہ وہ ان کی باتوں کواہمیت نہیں دے رہا۔۔۔میں سب سے پہلے اس لڑکی سےملناچاہتاتھا۔اب میں ایڈی سکیڈ کا انتظارکر رہا ہوں۔وہ یہاں پہنچیں گےتوپھربات کروں گا۔

اوووو۔۔۔اوہ۔سلم نے شہوت انگیزلہجے میں بے ساختگی سے کہا اورہنسنے لگا۔۔۔تم پرانے کتے۔۔۔تم بوڑھے بحری کتے۔۔۔اپنے پرانے معاشقے کی فکرستانے لگی لیکن تمہاری محبوبہ اب اس دنیامیں نہیں رہی۔لگتاہےکہ اس عشق  نامرادکی اوراس شہرمیں تمہارے پرانے گھر کی یاد ستانے لگی ہے۔انہیں یادکرکے مستی چھائی جانے لگی ہے۔

ریڈ نےاپنے ہونٹ  سختی سے بھنیچ لئے۔وہ تینوں اس بات پرحیران تھے کہ وہ ایڈی سکیڈ کاکیوں انتظارکررہاتھا۔

ریڈ ان پرنالاں تھاجنہوں نے اپنے چہرےپرمعصومیت کے غلاف چڑھائے ہوئے تھے اوراسے اہم ترین خبرسے بےخبررکھاتھا۔اس لئے بتائے بغیر  وہ طیش میں بھن رہاتھا۔وہ تقریباًاپنے گاؤں کوبھول چکاتھا۔خداکی قسم  تمام دنیا اس کے دعوے کی قائل ہوجائے گی جووہ ایڈی کے آنےپرکرنے لگےگا۔سب  اس بات پر قائل ہو جائیں گے کہ یہ مقدس کتاب کی طرح کی سچائی تھی۔اس نے میزپرمکہ مارتے ہوئے کہا۔میرے اپنےوالدین  بھی!اس نے کہا۔میرااپناخون اور جسم ۔۔۔انہوں نے اس واقعے کے  بارے میں اپنےخطوط میں ایک لفظ تک نہیں  لکھا۔ریڈ نے سوچا۔ تم سب نے جھوٹ چھپایا۔ریڈ نےکہا۔

جھوٹ؟کون ساجھوٹ؟سلم نے کانپتے ہوئے پوچھااورجارحانہ انداز میں پوچھا۔ جھوٹ ! ۔۔۔کون ساجھوٹ؟

ریڈ نےطوطےوالی آوازنکال کرطنزیہ لہجے میں کہا ۔۔ ۔پولی کوایک خستہ بسکٹ کی ضرورت ہے۔پولی کوخستہ بسکٹ چاہیئے۔میرااندازہ ہےکہ سفرکےدوران  میں  نےتقریباًہرشئے دیکھ لی ہے۔،لیکن  صرف ایک شئے نہیں دیکھی۔جیسی میں نےدیکھی ہے۔

کون سی شئے؟سلم نےپوچھا۔

ایک خودحرکی جنوبی سانپ کی طرح کاایک بے ضرر جانور۔ریڈ نےکہا۔جوبچوں کوپسند تھا۔وہ اس کےساتھ کھیلتے تھے۔ایک دوسرے کوپکڑاتے تھے۔اسے پالتوجانوروں کی طرح پالاجاتاتھا۔ویسے ہی رینگتااورایسے افعال کرتاجیسے کہ وہ واقعی سانپ ہو۔

ہم نےتو ایسی کوئی بات نہیں سنی۔۔۔ایساسانپ نماجانور کیاکرتاہے؟کیاوہ کیک

کھاتاہے؟

یہ سوال تم  ایڈی سےکرنا۔وہ ہی اس کازصحیح جواب دے سکتاہے۔جب وہ یہاں آئے گاتواس سے پوچھ لینا۔ریڈ نےکہا۔وہ فطرت ،جانوروں   اور ان کےبالوں اور دیگر معاملات  میں عموماً مہارت رکھتاہے۔یہ کہتےہوئے اس نےبرگرکے بڑے نوالےسے اپنامنہ بھرکریہ تاثردیاکہ  گفتگوختم ہوگئی ہے۔

پھرکچھ دیر بعد کہا کہ ایڈی کودیر ہوگئی ہے۔ اس نے بھرے منہ سےکہا۔میراخیال ہےکہ اسے میراپیغام مل گیاہوگاریڈ نے اپنے ایلچی  جوایک بچی تھی کےبارے میں سوچاکہ وہ کیسے ایڈی  تک  ریڈ کا پیغام پہنچائے گی اور اسے اس کے پاس آنے کاکہے گی۔۔ریڈ کے جبڑے برگرسے انصاف کررہے تھے۔اس کی آنکھیں اس وقت  جھکی ہوئی تھیں۔وہ سوچ  رہاتھاکہ ایڈی کے آنے کے بعد تمام معاملات سلجھ جائیں گےاور وہ جلد ہی  دوبارہ اپنی  لنگڑی ٹانگ کے ساتھ زندگی  اچھے طریقے سے گزارنےلگےگا۔اس کے ذہن میں کچھ   ایساہی کچھ چل رہاتھا۔

اس کے ذہن میں یہ خیال آیاکہ وہ دوپہر کوفولادی شیشے کےبنےہوئےکیبن سےسڑک سے چھ فٹ  اونچے شہریر پل کےایک طرف جارہاتھااور آسمان پربادل چھائے ہوئے تھے ۔پل کےبھاری  توازن قائم کرنےوالے بیرم اس  پل کوسنبھالادئیے  ہوئے تھے اور کنٹرول کررہے تھے۔اس میں ایک چوتھائی انچ کے ایک بیرم سے ریڈ کوئی کام لیناچاہ رہاتھا۔گاؤں چھوڑنے سے پہلے  ریڈ کویہاں  ٹرک چلاناپسند تھا۔وہ  خود کوہمیشہ متحرک رکھتاتھا۔وہ پل کے نیچے بہتے ہوئے دریاکی روانی  دیکھنا پسندکیاکرتاتھا۔لیکن اسے دریااور سمندری لہریں بہت مرغوب تھیں اس لئے اس نے بحری زندگی کوترجیح تھی اورٹرک ڈرائیوری چھوڑ کر ملاح بن گیا۔وہ گاؤں چھوڑنے کےبعد پچھلے نوسالوں  سے  اس میں نوکری  کررہاتھا۔اس دوران ایک حادثے میں اس کی ایک ٹانگ جاتی رہی تو اس کاتبادلہ خشکی پربطور محافظ کردیاگیا۔وہ اب پل کی نگرانی پر اپنے گاؤں   میں واپس آیاتھا۔وہ دودن سے اپنی ڈیوٹی  نبھارہاتھا۔ اس دن وہ  پہلی بار دوپہرکےکھانے کےوقفے میں کینٹین پرآیاتھا۔ان دودنوں میں وہ ایک لڑکی کوتلاش کرکے جس کاتعلق ایڈی سے تھا سےمل کرحقائق کا جائزہ لیناچاہتاتھا۔

اس  روز   اس نے اپنی دوربین سے ایڈی سکیڈ کواپنی جھینگامچھلی کاشکارکرنےوالی کشتی میں دیکھ لیا تھا۔اس کےساتھ فلپس تھاجس کارخ  دریاکی طرف تھاجونمک کی دلدل     والے سپرنگ والے تختے کےساتھ دائرے میں گھوم رہی تھی۔ اس کے ساتھ اس کی آٹھ سالہ سرخ بالوں والی  بیٹی' نینسی  'بھی تھی۔وہ کیبن سےباہرنکلی اور کشتی پر اچھلنے  لگی۔ کچھ  دیر بعد  اس نے اچھلنابندکردیا اور سکون سے بیٹھ گئی۔

ریڈ نے اس پل پراپنی ڈیوٹی اس لئے لگوائی تھی کہایڈی اور  نینسی  پرنظررکھے۔اس کےبارے میں زیادہ سےزیادہ جانے۔ان دنوں ایک تہوار منعقد ہونے والاتھاجس میں بچیوں اورخواتین میں بال سجانےکامقابلہ ہوتاتھا۔اس میں وہ نینسی کوسجتا ہوادیکھنا چاہتا تھا   ۔

ریڈ کی انگلیاں دوربین پرایسےچل رہی تھیں جیسےکوئی بانسری بجارہاہو۔۔۔ہیلو ریڈ!اس نے خودکلامی کی۔نینسی اپنے سرخ بالوں کوسنواررہی تھی۔اس کی آنکھیں بندتھیں۔ اس کی بال الجھے ہوئے تھےاوروہ برش سےاسے سلجھا رہی تھی۔کشتی نمک کی دلدل میں سےہوکرگزررہی تھی اوروہ فولاد کےاونچے ناہموار کناروں پراس سڑک پر پل عبور کررہی تھی۔ہرروز دوپہرکو نینسی وہ پل عبورکرتی ہوئی کھانےکےکمرے میں جایاکرتی  تھی جوکہ دوسری طرف سب سے آخرتھا۔وہاں  وہ اپنااوراپنےوالد کاکھانا لے کراپنے گھرجایاکرتی تھی جوپل عبورکرنے کے بعد ایک کیبن میں تھا۔آج پھر وہ اسے اپنےوالد کاکھانالےجاتے ہوئے دیکھ رہاتھا۔

جب نینسی  کینٹین سے کھانالے کر پل پرسے اپنے گھر جانے کے لئے گزرنے لگی تو ریڈ نے اسے روکا۔وہ اسےدیکھ کر مسکرادیا۔

اس کی مسکراہٹ دیکھتے ہوئے نینسی نےاپنےبالوں کوچھوکردیکھا۔

اب بھی تمہارے سرپرموجود ہیں۔ریڈ نےمذاق کےلہجے میں کہا۔اسے وہ  بچی  ایک ننھی

 منی پری کی مانند لگی۔اس کےسرخ بالوں کو دیکھ کراس کامن بھرآیا۔ فکر نہ کرویہ اب بھی تمہارے سر پرموجود ہیں۔ریڈ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

کیاچیز؟ نینسی نےکہا۔

تمہارے بال ۔ریڈ نے کہا۔کیاتمہارانام ریڈہے؟ اس  نے لڑکی سے پوچھا۔

میں نے تمہیں کل بھی بتادیاتھاکہ میرانام ریڈ نہیں بلکہ نینسی ہے۔

توپھر ہرکوئی تمہیں تمہارے نام کی بجائے ریڈ کہہ کرکیوں پکارتاہے۔

کیونکہ میرے بال سرخ ہیں ۔نینسی نے کہا۔

تومیرایہ حق ہےکہ میں تمہیں یہ نام دوں  ۔

میں توتم سے بات بھی نہیں کرناچاہتی۔اس نے اسےتنگ کرنے کے انداز میں لاڈسے کہا۔اس کے ذہن میں کسی قسم کی بداعتمادی نہیں تھی بلکہ اس کارویہ  ایساتھا کہ وہ اس عجیب وغریب شاہکار پل کی مفید اور افسوں گرانچارج ہو۔ مسٹر ریڈ اس  لڑکی کےبارے

 میں اس لڑکی  کےبارے میں وہ  کچھ جانتاتھاجووہ خود بھی اپنے بارے میں نہیں جانتی تھی ۔تاہم اس نے اس لڑکی سے بات بڑھاتے ہوئے کہا۔

کیاتم یہ نہیں جانتی  کہ میں بھی اس گاؤں  میں پیداہوااور پلابڑھاجیسے تم ہو۔ریڈ نے

کہا۔کیاتم نہیں جانتی کہ تمہاری ماں اورباپ کےساتھ میں نے ہائی سکول اکٹھاکیا۔کیاتم یہ نہیں جانتی کہ تمہاری ماں اور باپ  اکٹھے ہی پڑھے تھے۔کیاتم کومیری بات پریقین نہیں ؟

مجھے یقین ہے ۔۔۔لیکن میں تم سے مزید بات نہیں کرسکتی کیونکہ  ماں نے کہاتھاکہ اجنبیوں  سےتعارف توکرسکتی ہولیکن  گفتگونہیں ۔

ریڈ اس بچی کیبات سن کرخوش ہوااور کہاکہ تمہاری ماں نےتمہاری تربیت کتنی اچھی کی ہے۔اس نےاپنی آواز کی طنز دورکرتے ہوئےکہاکہ ایک شاندار سیدھی راہ پرچلنےوالی ماں کی تمیزدار بچی۔کیاایسی نہیں؟ریڈ نے کہا۔

ہاں۔ وہ جانتی تھی کہ اچھے لڑکے اور لڑکیوں کوکس طرح کا برتاؤ کرناچاہیئے۔ ہاں جناب۔ ۔۔یہ بات سونے کی طرح  عمدہ ہےہرکوئی یہی کہتاہے۔نینسی نے فخریہ انداز میں کہا۔اب ییہاں صرف بابا اور میں ہی ہیں۔ماں ہمیں چھوڑ کر آسمانوں پرچلی گئی ہے۔

بابا ہی میراسب کچھ ہے۔ڈیڈی میرابہت اچھاباپ ہے۔ میں  بھی اسے بہت چاہتی ہوں وہ بڑااچھاباباہے۔ نینسی نے کہا۔

تمہاری والدہ کی رحلت کاسن کر مجھے بہت افسوس ہوا؟ ریڈ نے کہا۔اس نے نینسی کی نقل اتاری۔ڈیڈی۔ ڈیڈی۔ڈیڈی

ایڈی  شیڈر میرابڑااچھا باپ ہے۔اس نے اپناسر ٹیڑھاکرتے ہوئے ریڈکوکہا۔

تم نے اپنےباباکو  یہ بتایا کہ میں یہاں موجود ہوںنینسی۔

وہ یہ سن کر جھینپ گئی۔اور کہا کہ میں وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔

ریڈ نے دانت پیسےاو ر اس کےسرکوپیارسے تھپکااور کہاجی !ان تما م باتوں کے بعد جب میں یکایک اچانک آسمان سے ٹپک کراس کےسامنے آؤں گاتو کیا وہ بڑاجوتااٹھاکر مجھے مارے  گاونہیں؟۔ریڈ نے  ہنستے ہوئے کہا۔

ماں نے مرنےسےپہلےایک بات کی تھی۔نینسی نےکہا۔وہ یہ کہ میں کبھی بھی وعدہ خلافی نہ کروں۔

ریڈ بڑے خلوص سے ہنسااور کہا واقعی ؟ تم کتنی اچھی بچی ہو۔تمام دنیاسے پیاری ہو۔جب ایڈی ،تمہاری ماں اور میں ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہوئےتوعملی زندگی میں داخل ہونے اور شادی کرنے سےپہلے زیادہ تر ہماری کلاس فیلوز چندسال موج مستی کرناچاہتی تھیں۔تمہاری ماں ان میں سے نہیں تھی۔وہ باوقار اورعزت دار لڑکی تھی۔اس نے ادھرادھرمنہ مارنے کی بجائے ایڈی سے شادی کرکےاپنا گھر بسالیا۔ان دنوں ہماری کلاس کی وائلٹ اور نوئیسز بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوچکےتھے۔تم اس وقت پیداہوچکی تھیں۔جب میں نےتمہیں اس وقت دیکھاتھاتوتمہارے بال نہیں تھے۔ ریڈ نے کہا۔

مجھے اب جاناہوگا۔باباانتظار کررہاہوگا۔اسے کھانادیناہے۔اس سے باتیں کرنی ہے۔اس سے کہانی سننی ہے اور۔۔۔ نینسی نے کہا۔

ڈیڈی،ڈیڈی، ڈیڈی۔۔۔ریڈ نے جھنجھلاکراس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ کہا۔ڈیڈی کےلئے یہ کرناہے،ڈیڈی نےوہ کرناہے۔تمہاری جیسی معصوم ،پیاری اور  مخلص لڑکی خداہرایک کودے۔ریڈ نے  دعادیتے ہوئےکہا۔تم اپنے باپ سے ان سرخ بالوں کے بارے میں پوچھناجیسامیں نے کل تمہیں کہاتھا۔اس سے پوچھناکہ تمہارے سر کےبال سرخ کیوں ہیں؟

نینسی بولی کہ بالوں کارنگ ورثے میں ملتاہے۔یہ رنگ خاندان میں نسل در نسل چلتا ہے ۔نینسی نےاسے سمجھاتے ہوئے کہالیکن بعض اوقات  غیرمتوقع طور پر بھی   بچوں کے والدین سے مختلف رنگ کےبال اگ آتے ہیں جیسے کہ میرے۔ میری والدہ اور والد دونوں نےبال سیاہ تھےلیکن میرے بال سرخ ہیں۔

ریڈ کاہاتھ نینسی کی بالوں کی طرف گیااور پوچھا۔ارے یہ توابھی بھی وہاں موجود ہیں۔ میں سمجھاتھاکہ غائب ہوگئے ہیں۔اس نے مذاقاًکہا۔

ارے نہیں۔ یہ بڑے مضبوط ہیں۔ یہ غائب نہیں ہوں گے۔نینسی نےہنستے ہوئے

 کہا۔  

تمہارے سرخ بال؟ ریڈ نےاچانک قہقہہ لگایااور کہاکہ میں قسم کھاتاہوں کہ  سرخ بالوںمیں ایسا رنگ   منفرد ہوتاہےاور خصوصی ہے۔یہ شاذونادر ہی پایاجاتاہے۔کیاتم بھی ایسا سمجھتی ہونینسی؟

یہ بات بابانے بھی کہی تھی۔نینسی نےکہا۔

یہ سن کر ریڈ کے چہرے پرخوشی کی لہردوڑ گئی۔اسے علم تھاکہ ایڈی نےنینسی کےسرخ بال ہونےپر بہت سوچاہوگا۔

ریڈ  نے نینسی سے کہا کہ اب تم میرے خاندان ہی کو لو۔اگر میرے کسی بچے کے بال سرخ نہ ہوں توہرکوئی اس پرحیران ہوگا کہ وہ سرخ کیوں نہیں اور طرح طرح کی باتیں بناناشروع کردیں گے۔میرے خاندان میں ہمیشہ سرخ بال ہی پائے جاتے ہیں۔ کھڑکیوں سے بابا میرے سرخ بالوں کودیکھتاہےتومیں اور بھی دلچسپ  لگنے لگتی ہوں۔ نینسی نے کہا۔

تم ان بالوں پر گہرائی سے سوچوگی تو سوچ مزید دلچسپ ہوجائے گی۔ریڈ نے کہا۔ تمہارے، میرے اور میرے والد کے بال سرخ ہیں اور پورے گاؤں میں صرف ہمارے خاندان کےبال ہی سرخ ہیں۔میراوالد فوت ہوگیاہےاوران ہم دونوں کے بال سرخ اورایک جیسے ہیں۔

تم لنگڑاتے کیوں ہو؟ نینسی نے پوچھا۔

ایک حادثے میں جان بچانے کے لئے میری ٹانگ کاٹناپڑی۔ ریڈ نے کہا۔

نینسی پرسکون رہی۔اس کی سمجھ میں اتناہی آیاجتناآٹھ سالہ بچی کے ذہن میں آسکتا تھا ۔ پھراٹھی اور اسے بائی بائی کہااور جانے لگی۔

ریڈ نےدوربین سے پل کےپار ایڈی کےکیبن پرنظریں جمادیں۔کھڑکی میں  اسے ایڈی نظرآرہاتھا جوبے چینی سے   ادھرسے ادھراور ادھرسے ادھرچل رہاتھا۔اس نے جھینگے سے ملتاجلتا سرمئی رنگ کاسوٹ پہن رکھاتھا۔اس کاسر بہت  بڑاتھا۔قد بہت چھوٹاتھا۔ ایڈی   کے چہرے سے لگ رہاتھاکہ وہ افسردہ تھالیکن ایسی  خصوصیات رکھنے والے لوگوں کےبارے میں خیال تھاکہ وہ  محنتی ہوتے ہیں۔

ہیلو۔نینسی ایڈی کاکھانادےکرباہر ریڈ کے پاس دوبارہ آگئی۔ریڈ نےسرگوشی کی۔اے ، اے،اے،اےاے!ہوسکتاہے کہ تم بڑی ہوکر نرس بنو۔جس طرح سے تم ایڈی  کاخیال رکھ رہی ہو۔میری خواہش تھی کہ  اس ہسپتال  جس میں  میں داخل تھاتمہاری قسم کی نرس ہونی چاہیئے تھی۔

ریڈکی یہ بات سن کرنینسی کے چہرے پررحم کے تاثرات پیداہوگئے۔تم  کتناعرصہ ہسپتال میں  رہے ہوجواس قسم کی باتیں کررہے ہو۔

 تین مہینے۔لیورپول میں جہاں نہ توکوئی  دوست اور نہ ہی کوئی رشتے دارتھا۔میری تیمارداری  کےلئے ایک شخص بھی نہ آیا۔کسی نے توکارڈ بھیجنے کی زحمت بھی گوارانہ کی ۔میں کتنااکیلاتھاتم سوچ بھی نہیں سکتی۔میں ہسپتال میں پڑاچھت تاکتا رہتا تھااور سوچتاتھاکہٹانک گنوانے کے بعد  کبھی سمندر نہیں جاپاؤں گا۔احساس محرومی میں اپنے ہونٹ مایوسی میں چاٹتا رہتاتھا۔میرے لوگوں کےبارے میں رائے اس دوران تبدیل ہوگئی تھی۔ اس دوران مجھے یک دم اپنےگھرکی ضرورت  شدت سے محسوس ہوئی ،  جہاں میراکوئی اپناہو۔میری دیکھ بھال کرنےوالاہو۔ چھت  میں رہنے والاہو ۔میرے پلے توکچھ بھی نہیں رہ گیا تھا۔میں نےاپنی ایک ٹانگ کھودی  تھی۔

ایک دن میں پاگل ہورہاتھا،ایک سخت بچہ جسےسب  وہاں  تگڑا اور بہادر جانتے تھے۔ریڈ نےکہااوراگلےروز وہایک بوڑھا۔۔۔ہاں بوڑھا اور بےبس بن چکاتھا ۔

نینسی نے ایلڈی کادرد محسوس کرتے ہوئے  اپنی انگلیوں کاجوڑکاٹا ۔کیاتمہاری ماں یاباپ یابیوی نہیں جوتمہاری سیواکرسکے۔نینسی نےپوچھا۔

نہیں۔ریڈ نےکہا۔

نینسی نے ریڈ پررحم کھاکر بیٹی کےطورپر اپنی خدمات پیش کردیں جوایک اچھی بچی پیش کرسکتی تھی۔

ریڈ نے اپناسر جھکالیااور افسردگی سے کہاکہ میری والدہ  فوت ہوگئی ہے۔تمہاری والدہ بھی اس دنیامیں نہیں رہی ۔اس نے من میں سوچاکہ تم اکلوتی لڑکی  جس پرمیں اپناحق جتا سکتاتھا(اور جس کی گواہی وہ  دیتی ،وہ بھی زندہ نہیں ،اسے کیسے بتاؤں)اورمیری  خواتین دوست  کوئی نہیں۔مجھے کسی  اور کسی لڑکی کومجھ سےمحبت نہیں۔ان  میں کسی کےساتھ  پیار   کرنے کامطلب یہ ہوگاکہ تم کسی بھوت  کوچاہ رہے ہو۔ریڈ نےکہا۔

نینسی کاپیاراسا چہرہ تلملااٹھاجب ریڈ نے اسے دنیاکی تلخیوں کااحساس دلایا۔زندگی کا

برارخ اس کےسامنے آگیا۔اس نے کہا ۔تم یہاں دریامیں کیوں رہتے ہو۔تم دنیامیں اگربالکل تنہاہوتوان کےپاس کیوں نہیں رہتے جہاں تمہارے دوست ہیں؟

ریڈنےاپنےابرواٹھائےاور کہا پرانے ساتھی؟مضحکہ خیزقسم کے دوست تھے۔ ان میں

ایک بھی ایسا نہیں جس نے مجھے یہ اطلاع دی ہوکہ تمہاری والدہ وائلٹ کی بیٹی  کے بال سرخ ہیں۔یہاں تک کہ میرے والدین نے بھی یہ بات مجھ سے چھپائی۔

تازہ ہواچل پڑی تھی اور اس ہوامیں ،جوکہ  کہیں دورچل رہی تھی،اس وقت نینسی نے کہا ۔ڈیڈی انتظارکررہاہوگا ۔ وہ  جانےلگی توریڈنے آواز دی ۔وہ رک گئی اور اپنے ہاتھ اپنے بالوں میں پھیرنے لگی لیکن اس نے ریڈ کی طرف نہ دیکھااور اس کی طرف پیٹھ کرکےکھڑی رہی۔ریڈ نےخواہش کی کہ اس وقت کاش وہ اس کاچہرہ دیکھ لے۔

ایڈی کوبتادیناکہ میں اس سے ایک اہم بات کرناچاہتاہوں۔تم اپناوعدہ ضروربنھانا۔ اسے کہناکہ کل ڈیوٹی سےفارغ ہونے کے بعد مجھے لنچ روم میں ملے۔میں اس کاوہاں انتظارکروں گا۔

میں کہہ دوں گی۔نینسی نےکہا۔اس کی آواز صاف اور پرسکون تھی۔

پکاوعدہ؟سکاؤٹ کاوعدہ؟

سکاؤٹ کاوعدہ ،کہہ کروہ چلنےلگی۔

نینسی کاہاتھ اپنے بالوں پرگیالیکن چلناجاری رکھا۔ریڈ اپنی دوربین سے اسےجاتا ہوا  دیکھتا   رہا ۔لیکن نینسی سے اپنےچہرے کارخ ایسارکھاکہ وہ ریڈ کونظر نہ آئے۔جند منٹوں بعد جن وہ اپنے باپ کے کیبن میں داخل ہوئی تو ریڈ کوکھڑکی میں ایک سایہ نظرآیاجوپل کی طرف دیکھ رہاتھا۔

سہ  پہرکو ایسا محسوس ہواکہ ایڈی کے کیبن میں کبھی کوئی رہتابھی نہیں تھا۔وہ جگہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے خالی ہوگئی تھی۔غروب آفتاب کے وقت ایک دفعہ وہ نظرآیااوراس نے پل کی طرف نہیں دیکھا۔اس نے اپناچہرہ چھپایاہواتھا۔

ریڈ اس وقت ل کنٹین  کےسٹول پربیٹھاخیالوں میں گم تھا۔ذراسا ہلنےسے سٹول میں شور پیداہوتاتھا۔اس نے غروب آفتاب  کےوقت ادھردیکھاتوایڈی  پل عبور کر کے آہستہ آہستہ کنٹین  کی طرف آرہاتھا۔اس کاسربہت بڑااور ٹانگیں مڑی ہوئی تھیں۔اس کے ہاتھ  میں ایک چھوٹاسابیگ تھا۔

ریڈ نے اپنی نگاہیں دروازے کی طرف  کرلیں۔اپنی جیکٹ میں اپناہاتھ ڈالااوروہاں سے بہت خطوط نکالےجسے اس نے بنچ پرپھیلادیا۔اس نےان پر اپنی انگلیوں  کےنشانات  ایسے لگائے جیسےکہ تاش کاکھلاڑی  کھڑےہوکرگدی تھپکتاہے۔اس ماحول میں سب سے اہم شخص کےآنے کاانتظارکیاجارہاتھا۔

ایڈی آگیا۔ان دونوں کاآمناسامنا ہوا۔کوئی کچھ نہ بولا۔اس کے بعد رسمی علیک سلیک ہوئی ۔پھر ایڈی کی آواز ابھری جو غیرمتوقع طور پرپرسکون اوراعتماد سے بھرپور تھی۔ اس نے کہاکہ نینسی نےمجھے پیغام دیاکہ تم مجھ سےملناچاہ رہےہو؟

نینسی نے صحیح کہا۔ریڈ نے کہا۔تمہیں یہاں اس لئے بلایاتاکہ  تم سے جوباتیں ہوں ان کاکسی کوپتہ نہ چلے۔

نینسی  سے ریڈ نے جوباتیں کی تھیں اس  کی باتیں سمجھ میں نہیں آئی تھیں۔اسے باتوں کی

گہرائی تک پہنچنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ایڈی نے آرام سے غصے کے بغیر اسے دیکھا۔ کہوکیاکہناہے ؟

ایڈی اس کےسامنے سٹول پربیٹھ گیا۔ اس نےاپنے بیگ  کوکاؤنٹر پررکھ دیا۔کاؤنٹر پر ریڈ نے خطوط پھیلائے ہوئے تھے۔وہ ان خطوط کی خوش خطی دیکھ کرحیران رہ گیا۔باقی چاروں   بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔

ریڈ نے ان خطوط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایڈی کوکہاکہ یہ خطوط اگرچہ ذاتی نوعیت

کے ہیں مگران کاتعلق ہمارے معاملے سے  ہے۔میں ایڈی کی تحمل مزاجی پردا دیتا  ہوں کہ تم بڑے حوصلے سے میری باتیں سن رہے ہو۔ہمارے سامنے لوگ ہیں جواس بات کی گواہی دیں گےجوکچھ ہمارے درمیان ہورہاہے۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جوکوئی بات بھی یہاں ہوگی،اس کاگواہ خداہے۔ایڈی نےکہا۔

اس معاملے میں ایڈی کاخدا گواہ بنانا ریڈ کے لئے غیرمتوقع تھا۔ہسپتال کے بیڈ پرریڈ اپنی ٹوٹی ٹانگ   کی شدید تکیف میں خواب ہائے بیداری  کرتارہتاتھا۔اس کے ذہن میں جو باتیں آتی تھیں وہ ناقابل تردید تھیں۔جن میں  یہ طے تھاکہ شہادتوں کی رو سے اپنے خون اور جسم پراس کااولین حق تھا۔اس نے سوچاکہ وہ اس واقعے کوڈرامائی رنگ دے کر

 اپناحق جتائے لیکن بعد میں اسے ایساکرنا مناسب نہ لگا۔ریڈ نے بات شروع کی اور کہا۔

مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ اس معاملے میں ریاستی قانون کیاکہتاہےکیونکہ یہ چیز قانون سے بالاتر ہے۔

ہم ایک صفحےپرہیں۔ایڈی نےکہا۔

ٹھیک ہے۔ایڈی نے کہا۔پہلےتو ہمیں اس بات پررضامندہوجاناچاہیئے اور مجھے امید ہے کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ ایڈی نے کہا۔

ہم دومختلف باتیں نہیں کررہے۔ریڈ نے کہا۔میں یہاں یہ دعویٰ کررہاہوں کہ نینسی

کاباپ میں ہوں۔ تم اس کےباپ نہیں ہواور میرے پاس اس کے پکےثبوت ہیں۔ریڈ

نے کہا۔یہ سن کرسلم اور دیگرتینوں ساتھی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔

ایڈی یہ سن کر پریشان ہوگیااور اپناچمچ خالی پیالی میں بار بار پھیرنے لگاپھر بولاآگے  بولو ۔ایڈی نے اطمینان سے کہا۔

ریڈ اس وقت کھڑاہوگیا۔معاملات اس  کی توقع کےبرعکس تیزی سےآگے بڑھ رہے تھےاور اس کےساتھ ہی وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ رہے تھے۔اب  معاملہ کلائیمکس سےآگے جاچکاتھاجواسےاپنےگھرآتےہوئے محسوس ہواتھا۔ابھی کچھ بھی نہیں بدلا تھااور مزیدتبدیل بھی نہیں ہونےوالاتھا۔ہرایک  اس کی ہاں میں ہاں ملارہاتھا۔سب

اس بات پرپوری طرح متفق تھے کہ نینسی ریڈ کی ہی بیٹی تھی۔

وہ اچھے ہمسائے رہے تھے۔

ریڈ کے  ذہن میں اس وقت طرح طرح کےخیالات آرہے تھے۔ اسےایسے فقرات یادآرہےتھے جواس موقعےپرمناسبت نہیں رکھتے تھے۔اس نے ابھی انہیں استعمال نہیں کیاتھا۔میں اس بات پرآمادہ ہوں کہ اس کےخون کاٹیسٹ لیاجائے۔اس سے پتہ چل جائے گاکہ وہ کس کی بیٹی ہے۔ریڈ  نےکہا۔

کیاتم ہو؟ ایڈی نےپوچھا۔

کیاہمیں سب کوخون دیناپڑے گااس سےپہلے کہ ہم دوسرےکویقین دلانے کے لئے

 ۔میں نے تمہیں بتایاتھا کہ میں تمہاری بات پرمتفق ہوں۔تم ہی اس کےباپ ہو۔یہ

بات ہرایک جانتاہے۔لوگ اس بات کوکیسے نظراندازکرسکتے ہیں۔

کیا نینسی نےتمہیں بتایاکہ میری ایک ٹانگ کا ٹ دی گئی تھی۔ریڈ نے پوچھا۔

ہاں۔ایڈی نےکہا۔اس کی اس بات نےریڈ کوسب سےزیادہ متاثرکیا۔یہی ایک چیز تھی جس نےآٹھ سالہ بچی کوسب سے زیدہ پریشان کیاتھا۔

ریڈ نے کافی کے مگ میں اپناعکس دیکھاتواسے اپنی آنکھوں  یں پانی نظرآیااوراس کا چہرہ بالکل روشن اور چمکدار گلابی ہوگیاتھا۔اس کےاس عکس سے اس نےیہ نتیجہ اخذکیاکہ اس نے مدلل گفتگوکی تھی۔۔۔ایڈی! وہ بچی میری ہے۔ریڈ نے زوردےکرکہااور میں اسے حاصل کرناچاہتاہوں۔

میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں۔مجھےافسوس ہےریڈ۔میں یہ بچی تمہیں نہیں دےسکتا۔بات کرتے ہوئے اس کی زبان پہلی بارلڑکھڑائی اور ہاتھ کانپا۔اس کاچمچ کافی کے مگ سےٹکرایا۔میراخیال ہےکہ تمہیں نینسی کےبغیریہاں سےجاناہوگا۔ایڈی نےاپنافیصلہ سنادیا۔

کیاتم مجھتے ہوکہ یہ کوئی عام معاملہ ہے۔ریڈ نے سٹپٹاتے ہوئے کہا۔تم نےیہ کیسے سوچاکہ میں نینسی کویہاں سے لئے بغیرچلاجاؤں گا۔کیایہ کوئی معمولی بات ہےاور تم  اسےایساسمجھ رہےہوجیساکہ  یہ بات  بیکارہے۔۔۔اپنی ہی بیٹی کوچھوڑکرچلاجاؤں اور

اسے بھول جاؤں؟

نینسی کاباپ نہ ہونے کے باوجود ایڈی نےکہا میں تمہاری ذہنی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔جس اذیت سے تم گزرہےہو۔میں اچھی طرح جان سکتاہوں۔ایڈی نےکہا۔

تم اسے بڑاہلکالے رہے ہو۔اسے مذاق سمجھ رہے ہو۔ریڈ نے کہا۔

میرے لئے تو نہیں۔ایڈی نےکہا۔

اگرتمہاری بات کو سمارٹ طریقے سے بیان کیاجائے تواس سے مرادتویہی ہےکہ تم اس

کےزیادہ  باپ ہوبہ نسبت میرے۔تمہارااس پرمجھ سے زیادہ حق ہے۔ریڈ نےکہا۔

اگر میں نےیہ نہ کہاہوتاتومیں اسےایساکہہ دیتا۔ایڈی نے کہا۔اس کاہاتھ ضبط سے باہرہوگیااور کانپنےلگاکہ اسےاپناچمچ کپ میں ہی رہنے دیناپڑااور کاؤنٹر کےکنارے کواس نے تھام لیا۔

ریڈ نے جب ایڈی کی یہ حالت دیکھی  تواسے پتہ چل گیاکہ ایڈی  بہت زیادہ خوفزدہ ہو چکاتھااور اس کی امید کم ہوگئی تھی۔ریڈ کواپنی قوت میں اضافہ نظرآیا۔اچھی  صحت ہونا اور سچائی جس کےاس نے خواب دیکھے تھےنظرآنے لگے۔ وہ فوری طورپر اس معاملے کاانچارج بن گیاتھااور بہت کچھ کہنے کوتھا اور اپنی بات کہنے کا  بہت زیادہ وقت تھا۔

اسےاس بات پرغصہ آگیاتھاکہ ایڈی نےاس سےدھوکہ دینےاور پریشان کرنے کی

کوشش  کی اور تقریباً اس میں کامیاب  ہوبھی گیاتھااوراس غصے کی رومیں ریڈ کی نفرت بےرحم  خالی دنیا پرپڑ گئی تھی۔اس کی اب صرف یہی خواہش کہ اس پستہ قامت شخص کوجواس کے ساتھ ہی بیٹھاتھااوردبکاہواتھا۔

   وائلٹ اور میری بیٹی نینسی۔۔۔ریڈ نےکہا۔اس  نےتم سےکبھی محبت نہیں کی ایڈی ۔ اس نےتم سے شادی  اس لئے کی کیونکہ اسے لگاکہ میں چونکہ گاؤں چھوڑکےجارہاہوں اور کبھی پلٹ کرنہیں آؤں گا۔

مجے پورایقین ہے کہ وائلٹ مجھ سے محبت کرتی تھی۔ ایڈی نےکہا۔

ریڈ  نے اپنی جیکٹ کی بالائی جیب سے ایک خط نکالااس میں اس نے ریڈ کوواضح طورپر لکھاتھاکہ  وہ اس سےپیارکرتی تھی۔اس نےوہ خط ایڈی کودکھایالیکن اس نے پکڑنے سے انکارکردیااور کہاکہ اس کے تمہارے متعلق یہ جذبات بہت پہلےکے رہے ہوں گےریڈ۔اس کےبعد اس کے خیالات تبدیل ہوگئے تھے۔ایڈی نےکہا۔

میں تم پرایک بات واضح کردوں جواس سے پہلے کبھی نہیں کہی گئی۔وہ یہ کہ اس سے

میری خط وکتابت کبھی بھی بند نہیں ہوئی ۔ریڈ نے کہا۔اس نے مجھ سے باربار درخواست کی کہ میں واپس گاؤں آجاؤں۔

میراخیال ہے کہ تم جودعویٰ کررہے ہووہ کچھ عرصہ تک ہی صحیح رہاہوگا۔ ایڈی نےکہا۔

کچھ عرصہ تک؟ ریڈ نے حیرانی سے کہا۔اس نے وہ خطوط جو اس نے کاؤنٹر پرسجاکے رکھے تھے جن کادورانیہ جو اس کےگاؤں چھوڑنے سے اس کی موت تک لکھے تھے پر محیط تھے۔اس  ن ے خطوط  ایک ایک کرکے اٹھائے۔اس کی تاریخیں پڑھیں ۔اس نے وہ خطوط تاش کے پتوں کی طرح پھینٹے اور اسے کہاکہ ان میں سے کوئی خط نکالےاور پڑھ لے۔

میں نہیں دیکھناچاہتا۔ایڈی نے کہااور کھڑاہوگیا۔

تم خوفزدہ ہوگئے ہوایڈی۔

یہ سچ ہےایڈی نےکہا۔اس نےاپنی آنکھیں بندکرلیں۔چلےجاؤریڈ۔یہ کہہ کروہ دروازے کی طرف چل پڑا۔

مجھے افسوس ہےایڈی،ریڈ نےکہا۔تم اپنابیگ یہاں بھول کےجارہے ہو۔ریڈنےکہا۔

یہ بیگ نینسی نےتمہارے لئے بھیجاہے۔ اس کےچاروں  ساتھی پتھر کےبن گئے۔اگر مجھےعلم ہوتاتویہ بیگ کبھی نہ لاتا۔ایڈی نےروتے ہوئے کہا۔

ایڈی چلاگیااورپل کوبڑھتی ہوئی تاریکی میں عبورکیا۔وہ سب مکمل طورپربےحس وحرکت بیٹھے رہے۔

یاخدا!ریڈ  ان پر چلایا۔میرااپناخون اورجسم!یہاں یہ سب سےاہم شئے ہے!مجھےیہاں سے چھوڑنے پرکون مجبورکرسکتاہے؟

کسی نےکوئی جواب نہ دیا۔

ریڈپرایک خوفناک قسم کی افسردگی طاری ہوگئی جواس تنازعے میں پیداہوئی تھی۔اس نےاپنےہاتھ کا پچھلاحصہ اپنی جیب میں ڈالا۔

تم شائد اپنے ان زخموں کامداواچاہ رہے ہوجو تم نےنوسالوں میں  سہے؟سلم نےکہا۔اس بیگ 

اس بیگ میں کیاہے سلم؟ریڈ نے پوچھا۔

سلم نے بیگ  کھولااوراس کےاندرجھانکا اورکہا۔اس میں سرخ بالوں کاگچھاہےریڈ۔

ریڈکاچہرہ سرخ ہوگیااور کہا۔میں عدالت کےذریعے اپنی بچی حاصل کروں گا۔

 

Life history

Kurt  Vonnegut

1922…..2007

USA

  حالاتِ زندگی

کرٹ وونی گٹ   11 اگست 1922 کو  انڈیاپولس  میں  جرمن والدین کے ہاں پیدا ہو۔ اس نے ت ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی ۔1940 میں اس نے ہائی سکول کیا۔اعلیٰ تعلیم یونیورسٹی آف شکاگو ، یونیورسٹی آف ٹینیسیس  ، کارنیل یونیورسٹی  اور کارنیگی یونیورسٹی سے حاصل کیا۔اس نے کارنیل یونیورسٹی میں  داخلہ لیا اور ایک سال بعد ہی 1943 میں چھوڑ دیا۔اور امریکی ائر فورس میں فلائنگ افسر بھرتی ہو گیا۔۔اپنی تربیت کے لئے فوج نے اسے مکینیکل انجینرنگ کی تعلیم دلوانے کے لئے کانیگی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جو اب کانیگی میلون یونیورسٹی ہے اور ٹینیسی یونیورسٹی  بھیجا۔۔اس دوران جنگ عظیم چھڑ گئی اور اسے یورپ کے ایک محاذ پر لڑنے کے لئے بھیج دیا گیاجہاں جرمنوں نے قبضہ کرلیا۔ وہ اپنے پانچ سو فوجیوں کے ساتھ قید ہوگیا۔ اسے ڈریسڈن کے جنگی قیدیوں کے کیمپ منتقل کردیا گیا۔وہ علاقہ شہری آبادی تھی جس میں عام فیکٹریاں تھیں اور وہاں متحدہ فوجوں کے حملے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی لیکن انہوں نے اس شہر پر زبردست بمباری کی اور تمام شہر تہس نہس کردیا ۔ اس دوران کم از کم پچیس ہزار شہری مارے گئے۔ اسے ایک مذبح خانے میں بیگاپر لگایا گیا تھا ۔وہ اپنے ہی ملک کی بمباری سے بچنے کے لئے تہہ خانے کی سب سے نچلی منزل (تیسری) میں چھپا۔ اس کی جان بچ گئی لیکن اس کی بیگار میں اضافہ ہو گیا اور جرمنوں نے ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے پر لگا دیا۔ اس نے اس واقعہ کو اپنے ناول 'ٖڈا سلاٹر ہاؤس' میں لکھاہے۔ اس نےاپنی فوج کے خلاف لکھنا شروع کیا تو اسے فوجی نوکری سے نکال دیاگیا۔

اس کے والدین اور وہ جرمن زبان فر فر بولتے تھےجنگ ختم ہونے کے بعد اس نے میری کاکس سے شادی کی   جو اس کے ساتھ یونیورسٹی آف شکاگو میں پڑھتی تھی۔جس  میں اس کے تین بچے ہیں۔اس کے علاوہ اس نے اپنی  بیوہ بہن         جو کینسر سے فوت ہوگئی تھی کے ایک بیٹے کو بھی متبنیٰ بنا لیا۔وہ شروع سے ہی علمی اورادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سکول میں ایں وہ سکول کے رسالے کا کو ایڈیٹر تھا اور مشہور رسالوں میں لکھا کرتا تھا۔ رات کو ایک رپورٹر کے طور پر بھی کام کیا کرتاتھا۔وہ خدا کی ہستی سے منکر ہے۔وہ ایک زبردست ادیب ہے۔اس کی اہم تصنانیف درج ذیل ہیں۔

Novels

Player Piano, The Sirens of Titan, Mother Night, Cat’s Cradle, God Bless You. Rosewater, Slaughterhouse, Happy Birthday Wanda June, Breakfast of Champions, Slapstick,Jailbird,Palm  Sunday etc

Short Stories

All the Kings Horses, Any Reasonable Offer, Deer in the works, EPICAC Harrison Bergeron, Miss Template, Welcome to Monkey House, Mnemonics, Miss temptation, The Package, Tomorrow, Tomorrow, Tomorrow  etc

 

Awards

2009   Audio Award for Short Stories, 1973 Hugo Award for Best Dramatic Presentation, 1971  Drama  Desk Award for Outstanding Play writing , 1970, 1969 Award Nominated Slaughterhouse etc.

 

11 اپریل 2007 کو گرکر شدید چوٹیں آئیں جن سے وہ جانبر نہ ہوسکا اور فوت ہوگیا۔

 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        


Popular posts from this blog