I'm Not a Robot by Victoria Warmerdam Oscar Winner of 2023
عالمی ادب
میں مشینی شخص نہیں ہوں
I’m
Not a robot
وکٹوریا وار
مرڈیم(عالمی انعام یافتہ)
Victoria
Warmerdam (Netherland)
مترجم
و تجزیہ: غلام محی الدین
لارا موسیقی
کے ادارے میں اسسٹنٹ پروڈیوسر
میں رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہی ہے اور اس دن اس کا نوکری کا انٹرویو بھی ہے ۔وہ سازندوں اور دیگر گوّیوں کے ساتھ بڑی
سنجیدگی سے ریہرسل کر رہی ہوتی ہے
۔ اس کے کانوں پر موسیقی والے ائیر بینڈ لگائے ہوتے ہیں ۔
تم
ایک پر کی طرح ہواکی لہروں میں تیر رہی ہو
ایک خوبصورت دنیا میں
میری خواہش ہے کہ میری حیثیت خصوصی
ہوتی
تم میرے لئے بہت خصوصی ہو
لیکن میں ایک حقیر کیڑے کی طرح رینگ رہی ہوں
لارا بڑی لگن سے مستی میں اپنی
خوبصورت آواز میں کمپیوٹر کی سکرین سے پڑھتے ہوئے گا رہی ہے
تو یک لخت بجلی چلی جاتی ہے اور ساز بند ہوجاتے ہیں اور خاموشی چھا جاتی ہے۔کمپیوٹر
پر اطلاع آتی ہے۔
ہوشیار!
اس سے پہلے کہ تم اپنا پروگرام دوبارہ شروع کرو، تمہیں اپنی
شناخت اپ ڈیٹ کرنی پڑے گی!
لارا حیران ہوتی ہے ۔وہ اپنا آی
ڈی اور پاس ورڈ ڈال کر سائن ان ہوتی ہے
اور کمپیوٹر کو کمانڈ دیتی ہے کہ مجھے مت
روکو اور پروگرام جاری رکھنے دو۔جب اس کا کوئی جواب نہیں آتا تو وہ کر سر
کو سکرین پر ِادھر ُ ادھر کلک کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتی
ہے ،کہ کمپیوٹر پر بیپ ہوتی ہے جو اس کے
لئے کمپیوٹر کا غیر معمولی ردّ عمل ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کمپیوٹر
کی
طرف سے کوئی ہدائت آنے والی ہو۔وہ
ائیر فون اپنے کانوں پر چڑھا لیتی ہے ؛کمپیوٹر پر ایک اور بیپ
ہوتی ہے اور غیرملکی زبان میں کچھ
لکھاہوا آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا کہ تم سب مر چکے ہو۔۔۔لارا حیران ہو کر سکرین
کی ہدایات سمجھنے کی کوشش کرتی ہے کہ سکرین پر پھر بیپ ہوتی
ہے۔کوئی غیر ملکی ( ڈچ ) زبان میں
کوئی کچھ کہتی ہے اور سکرین پر 'کیپ چا'
لکھا آتاہے، جو کمپیوٹر (CAPTCHA)کاایک
پروگرام ہے جو اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی شخص انسان ہے یا روبوٹ ۔یہ پروگرام
اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کوئی شخص انسان
ہے یا بے جان شئے۔
وہ حیران ہو کر کرسر کو سکرین پر ہلاکر مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرتی
ہے۔اسےکچھ سمجھ نہیں آرہی کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا،یک دم کیا ہوا ہے۔، وہ مایوسی
سے آہ بھرتی ہے۔ وہ کچھ سوچ کرکمپیوٹر پر دئیے گئے نمبر پر فون کرتی ہے تو دوسری
طرف سے انجانی زبان میں کوئی بولتا ہے۔ جس سے اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے پروگرام کو 'کیپ چا' نے
بند کیا ہے اور جب تک وہ اس بات کی تصدیق نہیں کرلیتا کہ وہ انسان ہے ، پروگرام
آگے نہیں بڑھ سکتا۔وہ سوچ میں پڑ جاتی ہے کہ آگے کیا کرے کہ اسے فون آتا ہے جس
میں اس کی بات کے جواب میں وہ کہتی ہے ،'ہاں
، گڈ آفٹر نون ! میں لارا ورمیولین ہوں۔۔۔مجھے کمپیوٹر کی سکرین پر ہدایات ملی ہیں
کہ مجھے
پروگرام اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔میں کوشش کررہی ہوں لیکن ہو نہیں پا رہا۔اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ میں ایک روبوٹ ہوں جبکہ میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں '
'اچھا ۔ میں دوبارہ تمہارا
سٹیٹس چیک کرتا ہوں۔کیا تم نے کمپیوٹر بند کر کے دوبارہ سٹارٹ کیااور اپنی
میموری دوبارہ اپ ڈیٹ کی ؟'
' کئی بار'۔
'اور تم کامیاب نہیں ہوئی۔'
' دیکھو! یہ بات تمہاری ذاتیات سے تعلق رکھتی ہے، لیکن کیا یہ
ممکن ہے کہ ایسا ہو کہ تم ایک روبوٹ ہو۔'
'میں! نہیں تو۔' کمرے میں اس کی
رفقائے کار نے حیرانی سے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
'کیا تمہیں یقین ہے؟
'اگر میں اپنے بارے میں یہ نہیں
جانتی تو اور کون جان سکتا ہے؟'
'یہ ضروری نہیں کہ اس حقیقت کا تمہیں پتہ چلے۔'
' میں روبوٹ ہر گز نہیں ہوں ۔کیا
تم مجھے میرے پروگرام تک رسائی دو گے ۔
میں اس کے بغیر اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتی ۔'
'کیا یہ کمپیوٹر سروس ہے ؟'
'ہاں!
'تم کس قسم کی خدمات سر انجام دے
رہے ہو؟'
'تم جس لہجے میں بات کررہی ہو ، وہ
تمہارا مسئلہ حل کرنے میں مدد نہیں کرے گی۔اگر تم کوئی شکائت درج کرانا چاہتی ہو
تو اپنا ای۔میل ایڈریس لکھواؤ۔ اس کے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھے گا'۔
'او کے، میں ایسا کردیتی ہوں۔کیا
اس کے علاوہ کچھ اور رسمی امور بھی کرنے ہیں؟'وہ اپنا ائیر فون لگا کر بیٹھ جاتی ہے اور کرسر سکرین پر ادھر ادھر کرنے لگتی ہے کہ
شائد کسی طرف سےاشارہ مل جائے کہ آگے کیا کرنا ہے۔'
سکرین پرآتاہے ' بدقسمتی سے تم
ثابت نہیں کر سکی کہ تم ایک انسان ہو، بلکہ تم ایک روبوٹ ہو۔'وہ یہ پڑھ کر پریشان
ہو جاتی ہے ۔وہ سکرین پر کرسر پھیرتی ہے تو لکھا ہوا آتا ہے ۔' تمہارے دعوے کی
تصدیق کے لئے آن لائن سوالات پوچھے جائیں گے ۔ان جوابات کی روشنی میں تمہارے
بارے میں حتمی فیصلہ ہو گا۔'
س ') تمہاری صنف کیا ہے؟' ۔۔۔ج)' مادہ'
س) 'کیا کسی نے تمہیں بتایا ہے کہ تم روبوٹ ہو ؟'۔۔۔۔ ج) 'نہیں'
س)' کیا وہ ساتھی جس کے ساتھ تم رہ رہی ہو،بہت امیر ہے؟' ۔۔۔۔ج) 'ہاں '
س) ' تمہارے جوابات ساپچا سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ مجھے یہ بات باقاعدگی سے محسوس ہوتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں
ہے؟۔۔۔ج) کیوں؟،
س) 'مجھے
ایسا لگتا ہے کہ تم کسی اور دنیا سے ہو۔۔۔'ج)
دوسرے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں سرد مزاج
ہوں'۔۔۔یہ جواب دینے کے بعد وہ اپنی ساتھی
سے پوچھتی ہے ،'سارہ ! کیا میں سرد مزاج
ہوں؟'۔۔۔تو وہ کہتی ہے، نہیں ۔ جس پر وہ
کمپیوٹر کو جواب دیتی ہے ،میری پرورش عام لوگوں کی طرح نہیں ہوسکی کیونکہ میرے والدین اچانک فوت ہو گئےتھے۔اس لحاظ سے میں عام لوگوں جیسی
نہیں ہوں۔'
س) 'وہ کب مرے ؟'۔۔۔۔۔ج) 'وہ پراسرار طریقے سے اس
وقت فوت ہوئے جب میں چھوٹی تھی اور میری یادیں نہیں بنی تھیں ۔'
س) 'وہ کس طرح مرے ، بادبانی کشتی کے ڈوبنے سے ، سڑک پر گاڑیوں کی ٹکر سے یا کسی حادثے سے ؟'۔۔۔لارا
اس اس سوال پر مشتعل ہوکر منہ میں ، کیا
بکواس سوال ہے، کہتی ہے ۔۔۔ج) ہاں ، حادثے سے۔۔۔
اس کے بعد سکرین پر لکھا آتا ہے، 'باٹ ( روبوٹ) کمیونٹی کی طرف سے خوش آمدید ۔تمہارے جوابات کی
روشنی میں 'کیپ چا' نے یہ
نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ تم ایک روبوٹ ہو۔'
وہ یہ پڑھ کر شدید غصے میں آجاتی ہے ۔کمپیوٹر بند
کرکے اپنا مزاج ٹھنڈا کرنے کے لئے منہ پر
پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔اس دوران
اس کا فون بجتا ہے
'ہیلو لارا۔'
'ہیلو۔۔۔مجھے کسی خاموش جگہ پر
پہنچنے دو، ایک سیکنڈ دو۔
'ہاں،۔۔۔تم اس وقت کیا کررہے ہو ڈینیل ؟
'اپنے دوستوں
کے ساتھ کھیل رہا تھا۔'
'کیا کھیل رہے تھے؟'
'وہی جو ہم مرد کھیلتے ہیں۔'۔۔۔لارا
کو غسل خانے میں آواز آتی ہے ، وہ اندر جا
کر دیکھتی ہے تو وہاں اسے ایک حضرت نظر آتا ہے۔
ْ تم اس دروازے کو بند کرنا چاہتے
ہو؟'
'ہاں ، یہ میرا پیشہ ہے۔'
'اوہ! ' وہ کھسیانی ہنسی ہنستی ہے۔۔۔اور
فون پر بولتی ہے ، 'کیا تم اب بھی موجود ہو؟'
'ہاں ، میں فون پر ہوں ۔'
'لارا! کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟'
' میں ٹھیک ہوں۔۔۔میں واقعتاً ٹھیک
ہوں ۔'
ڈینیل وٹس اپ پر آتا ہے اور اسے پریشان حالت میں
دیکھتا ہے 'شکل سے تو ایسا نہیں لگ رہا۔ تم مایوس اور افسردہ دکھائی دے رہی ہو۔'
'نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ۔'۔
'میں نہیں جانتی کہ میرے ساتھ کیا
ہورہا ہے،باتیں میرے پلے نہیں پڑ رہیں ۔ سمجھ نہیں آرہا کہ اسےکیسے بیان کروں'۔
'کیوں! کیا ہوا؟'
'میں بھی نہیں جانتی کہ کیا کہوں۔'
'بس بول دو۔ تمہارے احساسات جو
بھی ہیں ، کہہ ڈالو۔'
' مجھے خدشہ ہے کہ تم مجھے غلط
سمجھ لو گے ۔۔۔نہ کہوں تو اس سے مزید حیرانی اور پریشانی ہو گی۔'
' تم بڑی فنکارہ ہو ۔تم جانتی ہو
کہ دوسرے کا تجسس کیسے بڑھانا ہے۔ لارا!بجھارتیں ڈالنا چھوڑو اور کہہ ڈالو۔مجھ پر
بھروسہ کرو۔'
'ایک بات نے میرا دماغ دوبارہ ماؤف کر دیا ہے ۔۔۔ میں نے کمپیوٹر پر
آن لائن کورسز لئے تھے ۔۔۔'
'اگر اس سے تمہاری صحت کا کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے تو کیا میں ڈاکٹر سے
رابطہ کروں؟ خواہ مخواہ کی پریشانی سے ہلکان نہ ہو!'
'نہیں ، نہیں ، نہیں ، ایسی کوئی
بات نہیں۔اگر ضرورت پڑی تو میں ڈاکٹر کو خود ہی بلا لوں گی ۔'
اتنے میں کمپیوٹر سے ایک زور دار آواز آتی ہے جو کہتی ہے ،لارا تم ایک روبوٹ ہو۔،
۔ یہ سن کر ڈینیل چپ ہو جاتا ہے ۔وہ فون کی سکرین پر اس کی صورت دیکھتی رہتی ہے، جب
وہ کافی دیر خاموش رہتا ہے تو وہ کہتی ہے:
' اگرچہ یہ بات تقریباً ناممکن ہے
کہ میں روبوٹ ہوں۔۔۔ میں تمہیں کھونے جا رہی ہوں۔۔۔وہ تخیل۔۔۔'آواز کٹ جاتی ہے اور
تصویر غائب ہو جاتی ہے۔
'میری وائی فائی کا کنکشن کٹ رہا
ہے۔۔۔ہنی! کیا تمہیں میری آوازہی ہے لارا ؟'
'ہیلو! ہیلو! کیا تم مجھے سن رہے
ہو ڈینیل؟'
'میں بعد میں کرتا ہوں ۔ آئی لو
یو!'
ڈینیل اسے
دوبارہ فون ملاتا ہے تو گھنٹی بجتی رہتی ہے اور اسے کوئی نہیں اٹھاتا تو پیغام چھوڑتا ہے۔
'کیا بات ہے؟ فون کیوں نہیں اٹھا
رہی؟'
لارا شدید غصے میں ہوتی ہے اور اٹھ
کر کہیں جانے لگتی ہے تو دروازہ کھول کر
اس ادارے کی ایک منتظم بیلی اسے ڈھونڈتے آجاتی ہے ۔'بورڈ تمہارے انٹرویو کے لئے بلارہا ہےہے۔؟'
'اچھا؟'
'لارا! کی اسسٹیٹ پروڈیوسر کی
نوکری کا آج فائنل انٹرویو تھا۔ اسے نوکری کے لئے اپللائی کرنے سے ایسا لگتا تھا کہ مقتدرہ اپنی مرضی سے یا پرچی نکال کر کسی شخص کو بھرتی
کر لیتے ہیں یا کسی کو زبردستی ہی رکھ لیا جاتا ہے لیکن بعد میں اسے معلوم ہوا
کہ یہاں بھرتی میرٹ پر ہوتی ہے اور مختلف نسلوں کے لوگ جو معیار پر پورے اترتے ہیں ، کو نوکریاں دی
جاتی ہیں ۔
'کیا تمہیں علم ہے کہ ہم سب یہاں میرٹ پر ہیں ۔بیلی نے کہا'۔
'ہاں! مجھے علم ہے کہ ایسا ہی ہے۔
نسلی ، لسانی اور ثقافتی اختلافات کو نہیں دیکھا جاتا اور اہلیت کی بنا پر بھرتی کیا جاتا ہے۔'لارا نے کہا۔
'ہم جس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں،
یہ شفاف ہے ۔ ۔۔تمہارا خیال ہے کہ تم نہ صرف اس نوکری کی اہل ہو بلکہ مقبول بھی ہو۔'
لارا اپنی دوست میلوین فون پر کسی کو
ٹیکسٹ کرتی ہے ، 'کیا تم ڈینیل کو کہہ سکتی ہو کہ مجھے فوری فون کرے۔یہ
ضروری ہے!'
'لارا۔۔۔لارا۔۔۔لارا'۔ وہ ٹیکسٹ میں مصروف ہوتی ہے۔ آواز سے وہ چونکتی ہے۔
وہ پوچھتی
ہے '
'تم میں خصوصی خوبیاں کیا ہیں جو
پروڈکشن میں کارآمد ہو سکتی ہیں؟'
لارا جو اپنے روبوٹ ہونے کے انکشاف
پر الجھی ہوئی تھی ،اس کے منہ سے نکلا ،'ہاں ! میں ایک انسان ہوں۔'اس کے جواب پر بیلی
کی ساتھی انٹرویو کنندہ حیران ہو کر کہتی
ہے ' تو۔۔۔، لارا کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ بتائے کہ وہ گلوکاری کی ، بجائے
اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرے۔۔۔'
'ہم یہاں ایک جونئیر پروڈیو سر بھرتی کرنے جا رہے ہیں جس
کے فرائض میں موسیقی کے تمام پر نظر رکھنا پڑے گی۔اسے گانے کی آمیزش ، اقسام
، گلوکاری ، شاعری اور اس سے متعلقہ تمام شعبوں پر دھیان دینا ہو گا۔'
'کیا لارا تم اپنے بارے میں مزید معلومات دینا پسند کرو گی؟'
' معذرت خواہ ہوں ، مجھے ایک ضروری
فون کرنا ہے ۔' وہ ان کے جواب کاانتظار کئے بغیر اٹھ کر چلی جاتی ہے اور ڈینیل کو
فون لگاتی ہے جو اس کا فون نہیں لیتا۔۔۔پھر وہ میلون کو فون کرتی ہے وہ بھی وائس
میل پر ہوتا ہے۔۔۔اتنے میں اسے ڈینیل کا ٹیکسٹ آتا ہے ۔۔۔'لارا، تم کہاں ہو؟میں ایک
خاتون کے ساتھ بورڈ کی میٹنگ میں بیٹھا ہوں۔'
'ڈان( ڈینیل )!یہ کیا بیہودگی ہے۔تم
میرے فون مسلسل نظر انداز کر رہےہو ، یہ کیا بکواس ہے؟'وہ ڈان ( ڈینیل ) کی میٹنگ پہنچ کر اس پر چلّاتی ہے۔
ڈان کی ساتھی رکن کہتی ہے 'لارا! پہلے آرام سے بیٹھ
جاؤ، پھر بات کرتے ہیں۔'
'سوری! تم کون ہو جو درمیان میں
بول رہی ہو؟' لارا غصے سے کہتی ہے۔
'میں پام ہوں ، تم
یہاں کیوں آئی ہو اور کیوں بھڑک رہی ہو؟'۔۔۔وہ بیٹھ جاتے ہیں ۔
' تم یہاں کیا کر ہی ہو لارا؟ ڈان پوچھتا ہے۔
'ہم سب یہاں کیوں موجود ہیں ؟ لارا
نے الٹا سوال کیا۔پام بیچ میں بولنے لگی تو لارا نے کہا۔ 'میں اپنے بوائے فرینڈ سے
بات کررہی ہوں۔اور تم مداخلت کرنا بند کردو۔'
'کیا خوب!یہ تو دلچسپ بات کہی۔' پام نے ڈان سے کہا۔
ڈان پام کواشارہ کرکے کہتا ہے،'اسے
اس کی حیثیت بتا دو۔ اسے پہلے سے ہی اس
بات کا علم ہے۔'
'میں کیا جانتی ہوں ؟ لارا نے پوچھا۔
' یہ کہ تم ایک روبوٹ ہو
۔'پام نے کہا۔لارا اس کی بات سن کر ہنس
دیتی ہے اور کہتی ہے
'میں روبوٹ نہیں ہوں۔میں جانتی ہوں
کہ یہ خبر الجھن میں ڈالنے والی ہے۔'
'لیکن کچھ عرصے بعد تم اس کی عادی
ہو جاؤ گی۔ میرے خیال میں تم پر روبوٹ ہونے کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے۔آلو کی
طرح'۔پام کہتی ہے۔اس فقرے پر لارا ہنستی ہے۔ہا ہا کرکے کہتی ہے۔
'تم اپنا کام جاری رکھو، تم اپنے
مذاق میں کامیاب ہوئے۔'
' یہ مذاق نہیں ہے لارا۔۔۔پلیز
بیٹھ جاؤ ، بیٹھ کر بات کرو۔' ڈان بولتا
ہے ۔
'آج سے پانچ سال پہلے اس شریف آدمی
نے تمہیں ہمارے روبوٹ بنانے والے ادارے سے لیا تھا۔'
لارا حیران ہوکر ڈان کی طرف دیکھتی ہے ،' یہاں
سے لیا تھا؟۔۔۔یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ میں جاندار ہوں ، میری ایک زندگی ہے، میں اس سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوئی ہوں ۔ اس
خبر سے پہلے میری دوستیاں تھیں ۔'
'ہمارا یہی کام ہے کہ روبوٹ میں ایسا پروگرام سیٹ کرتے ہیں کہ وہ انسانوں سے تعلقات قائم کر لیتا ہے۔ان کے ساتھ اس کی
یادیں بن جاتی ہیں۔'
' مجھے تم ہاری بات پر اعتبار نہیں
۔'
'ہاں، سچ یہی ہے جو میں نے بتایا ہے۔ تمہاری آنکھیں واقعات کی مماثلت سےتیزی سے ادھر ادھر حرکت کر
سکتی ہیں اور تمہارے نتھنے اب بڑے ہونے لگے ہیں ۔یہ تم اس وقت کرتی ہو جب تم پریشان
ہوتی ہو لارا۔' پام یہ کہہ کر رک جاتی ہے۔کچھ دیر بعد کہتی ہے،'تمہارے لئے یہ
انکشاف ایک صدمہ ہے، لیکن آہستہ آہستہ تم اسے قبول کر لو گی۔'یہ سن کر لارا کی
سانس اکھڑنے لگتی ہے ۔ ڈان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے ، 'اس انکشاف کے بعد
ہمارے تعلقات بدستور ویسے ہی رہیں گے جیسے کہ پہلے تھے ۔ہم نے جو وقت اکٹھے گزارا
،وہ ایک حقیقت تھی۔اور مجھے اس کی قطعاً
پرواہ نہیں کہ تم ایک مشین ہو۔ تم ہر وہ
کام کر سکتی ہو جو دوسرے کرتے ہیں۔تم مکمل طور پر خو،مختار ہو ۔۔۔تمہیں مزید' پری
۔ پروگرام 'نہیں کیا جائے گا۔'
'میں تمہاری یہ بکواس نہیں سنو گی'
یہ کہہ کو وہ وہاں سے چلی جاتی ہے۔پال اسے روکتے رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ سٹوڈیو
میں واپس جا کر اپنا کام سنبھالو۔' لیکن لارا وہاں سے بھاگتی پارکنگ لاٹ میں جا
پہنچتی ہے اور اسے کھانسی آجاتی ہے۔اسے سانس چڑھا ہوتا ہے ۔وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کراپنا سانس درست کرنے لگتی
ہے۔ڈان بھی اس کے پیچھے بھاگتا ہوا آتا ہے اور دروازہ کھول کر اس کےساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔
'تم یہاں کیا کررہے ہو؟'
'پام نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے
پیچھے جاؤں۔'
'کیا پام نے تمہیں یہ کہا؟'یہ کہہ
کر وہ گاڑی سے اتر جاتی ہے اور پال اس آوازیں دیتا رہ جاتا ہے تو گاڑی لے کر اس کے
پیچھے آجاتا ہے۔
'بے بی! ہم اس پر بات کرسکتے
ہیں۔اس سانحے کو قبول کرنے کے لئے تمہیں کچھ وقت چاہیئے۔'
ڈان کہتا ہے۔
'بکواس بند کروڈان ۔ میں اپنا
سامان پیک کرکے تمہیں چھوڑ رہی ہوں '۔
'ہم اس چھوٹی سی بات پر پرانا تعلق
نہیں توڑ سکتے!'
'تو تم کیا سوچتے ہو؟تم ایک روبوٹ
پر بے تحاشا خرچ کروگے؟اس کے بدلے تمہیں ایک مشین ملے گی جبکہ تم اس رقم سے ایک خوبصورت
بیوی حاصل کرسکتے ہو۔'
'لیکن، تم تو آزادی نسواں کی
علمبردار ہو۔۔ کیا ایسا نہیں ؟'
'ایسا کرنے سے تم آزادی نسواں کے
علمبردار نہیں کہلاسکتے!'
'تم تو اب ایسا سلوک کر رہی ہو
جیسے کہ مجھے تمام خواتین سے نفرت ہے، اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ ایسا نہیں۔۔۔
تمہیں علم ہے کہ میں تمہیں صرف جنسی کھلونا نہیں سمجھتا اور تمہاری مرضی کے بغیر کوئی کام کرتا ہوں۔ اس کے برعکس ہم سب عمل کرتے ہیں '
'اس سے تمہاری مراد کیا ہے؟ کیا
تمہیں تمہارے پیار کے بدلے کافی زیادہ محبت نہیں ملتی؟'
'لارا ً پلیز پرسکون ہو جاؤ۔'
میں خاموش نہیں رہوں گی ۔'
' دراصل میں مہنگی طوائف ہوں ۔'یہ کہہ کروہ غصے سے چل پڑتی
ہے ۔
'تم طوائف نہیں ہو۔۔۔تم ایک طوائف
نہیں ۔ تم میرے جیسی ہی ہو لیکن تم میں میں اور مجھ میں فرق صرف یہ ہے ۔۔۔'
' کیا فرق ہے ڈان؟'
یہ سن کر ڈان کار سے اتر آتا ہے اور کہتا ہے ' فرق اتنا ہے کہ تم اس کے تھوڑی دیر بعد مروگی جب میں موت کی آغوش میں چلا جاؤں گا۔ تم
میرے بعد فوت ہو گی اور صرف یہ چیز مجھے تم سے مختلف بناتی ہے۔مجھے انسان اور تجھے
حقیقی
انسان نہیں بناتی ۔'
'اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟
'تم اس کے بعد ہی مرو گی جب میری موت ہو جائے گی۔'
'یہ کیا بکواس ہے۔اس سے تمہاری مراد کیا ہے؟'
'اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری موت اگر پہلے ہو گئی تو
میں تمہارا دکھ سہہ نہیں پاؤں گا، اس لئے میں پہلے مروں گا۔'وہ پیار سے جیکٹ اس کے کندھوں کے پیچھے پھیلادیتا ہے۔لارا
یہ سن کر
گہری سوچوں میں گم ہو جاتی ہے ۔
'کیا اولیو یا ایک حقیقی انسان
ہے؟' لارا پوچھتی ہے ۔
'ہاں۔''اگر میں تمہارے ساتھ مزید
نہ رہنا چاہوں تو۔۔۔؟'
'تم ایسا کبھی نہیں کر سکتی ۔تم
میں یہ صلاحیت موجود ہی نہیں ۔تم خود سے ایک مکھی بھی نہیں مار سکتی۔'
'مجھے یہ مت بتاؤ کہ میں کیا کرسکتی ہوں۔ اگر میں ریل گاڑی کے سامنے کود
جاؤں تو کیا ہوگا ڈین ؟'
'میں نہیں جانتا ۔میں نے اس بارے
میں کچھ نہیں سوچا۔ یہ معاملہ صرف اس وقت تک ہے جب تک میں اور
تم دونوں زندہ ہیں ۔'
'میں اس کا فیصلہ از خود کروں گی
۔'اتنے میں پام آجاتی ہے ۔
'یہ وہ شئے ہے جس کا تم خود سے
فیصلہ نہیں کر سکتی ۔' پام نے اسے کہا ۔
'تم پر لعنت ہو۔تم بیچ میں کہاں سے
ٹپک پڑتی ہو۔'لارا نے اسے غصے سے کہتی ہے۔
'لارا ، تم اپنی موت اور زندگی کے
بارے میں خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ۔' پام نے کہا ۔اس پر لارا گھبرا جاتی ہے
۔۔۔'کیا سب ٹھیک تو ہے؟' پام کہتی ہے
'کیا تم یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہے ہو؟' پھر وہ طنزیہ انداز میں ہنستی ہے 'کیا سب کچھ صحیح ہےڈینیل ؟یہ
خاتون جو کہہ رہی ہے، ناقابل ِ یقین ہے ۔'
' پام! تم لارا کے جذبات ٹھنڈا
ہونے دو،ورنہ اس پر اضطرابی حملے ہونا شروع ہو جائیں گے۔ 'ڈینیل کہتا ہے۔
'یہ برتاؤ جو اس وقت لارا ،ہم تمہارے ساتھ کررہے ہیں ، بہترین ہے۔اس معاملے کو در گزر
کرکے ہمارے ساتھ اندر چلو۔'پام اسے کہتی
ہے۔
'اپنا منہ بند رکھو پام!میں نہیں
جانتی کہ تم کس دنیا میں رہ رہی ہو، لیکن میری دنیا میں ایسا نہیں ہے '۔لارا غصے
سے بولی۔۔۔ْتم لوگوں کے ساتھ زندگی اور موت کا کھیل رچا رہے ہو، تمہارا یہی اصل
کام ہے ناں !' لارا غصے سے کہتی ہے۔۔'اور
پام ! اگر میں مرنا چاہوں تو کسی میں ہمت ہے کہ مجھے روک سکے؟'
'تمہارے چاہنے یا نہ چاہنے سے کوئی
فرق نہیں پڑتا لارا!۔تمہاری زندگی اور موت
کاانحصار ڈینیل کی خواہش پر ہے۔'
' تمہاری بات سے مجھ میں تجسس پیدا
ہو گیا ہے۔یہ آدمی جو یہاں موجود ہے اس
بارے میں سوچتا رہ جائے گا '۔ لارا پراعتماد انداز میں کہتی ہےور وہاں سے بھاگنے لگتی
ہے۔ڈینیل اس کے پیچھے اسے پکارتے ہوئے پیچھا کرتا ہے لیکن لارا چھت سے نیچے چھلانگ
لگا دیتی ہے اور منہ کے
بل گر جاتی ہے۔اس کا سر پھٹ جاتا ہے۔خون کے پھوارے پھوٹنے لگتے ہیں۔۔۔گانا بجتا ہے۔
جب تم پہلے یہاں تھی
تم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں
دیکھ سکتی تھی
تم ایک فرشتے کی طرح ہو
تماری ِجلد مجھے ُرلا دیتی ہے
تم ایک پر کی طرح اڑتی ہو
ایک خوبصورت دنیا میں
میری تمناتھی کہ میں کوئی خصوصی
شئے ہوتی
تم میرے لئے بہت زیادہ خصوصی ہو
لیکن میں تو ایک حقیر شئے ہوں
میں عجیب و غریب مخلوق ہوں
میرا یہاں کیا کام
میں اس دنیا سے تعلق ہی نہیں رکھتی
میرا اس دنیا سے کوئی واسطہ نہیں
تجزیہ
وکٹوریہ
وارمرڈیم کا افسانہ 'میں مشینی شخص نہیں '(آئی'م ناٹ اے روبوٹ) ایک ہیبت ناک سائنسی کہانی ہے جس میں اس نے ' سی
اے پ ٹی سی
ایچ اے (ساپچا)تکنیک ' کے ذریعے ایک عام انسان کو مصنوعی بنانے کی کوشش کی ہے۔
' سی اے
پی ٹی سی
ایچ اے ('کیپ چا'' کمپیوٹر کی ایک تکنیک ہے جس میں حروف کی ہیئت بدل کر،انہیں تروڑ مروڑ کراس کا پس
منظر بدل کر معانی بدلے جاتے ہیں۔
CAPTCHA: challenge -response Turing test
'کیپ چا' کی
تکنیک عوام الناس پر استعمال کی جاتی ہے۔یہ مکمل طورپر میکانکی ہوتی ہےجس میں
کمپیوٹر کا پروگرام ایسے ترتیب دیا جاتا ہے کہ اس میں انسان اور مشینوں کی حیثیت الگ الگ کردی جاتی ہے ۔ایسے ٹیسٹ ویب
سائٹس پر کئے جاتے ہیں اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ آیا استعمال کرنے والا شخص جس ویب سائٹ سے تال میل کر رہا ہے ،کیا وہ انسان
ہے اور رو باٹ نہیں ۔اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے ذہن میں ایسا پروگرام ِ فٹ کر دیا
جاتا ہے جس میں اسے حکم دیا جاتا ہے کہ وہ کرے اور وہ اس پر ایک مشین کی طرح حکم بجا لاتا ہے۔ (اشیاء کی شناخت تخیلات میں دئیے
ہوئے جوابات میں سے کسی ایک پر ِٹک لگا کر
اس پر دئیے گئے مسخ شدہ متن کی تشریح کرتا
ہے ، وغیرہ)
اس کہانی میں، افسانہ نگار مرکزی کردار
جس کا نام لارا ہے، 'کیپ چا' ٹسٹ میں (صحیح جوابات دینے کے باوجود ) بار بار ناکام قرار دی جاتی ہے۔اس کی یہ ناکامی سےاسے یہ خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ انسان ہے بھی کہ
نہیں۔کیا وہ روبوٹ تو نہیں ؟
جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے تو
اس کی وسعت ویب سائٹ کے عمومی ٹیسٹ سے علامتی میکانیت تک جا پہنچتی ہے: یہ تکنیک اسے
گوشت پوست کے انسان کی بجائے روبوٹ قرار دے دیتی ہے۔اس سے اس کے وجود،
شناخت آزادی و خود مختاری اور انسان ہونے پر سوالات اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں۔
'کیپ چا' ایک
استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔یہ کہانی آہستہ اپنے بنیادی مقصد کی تہیں کھول کر سامنے
لاتی ہے۔جو:
انسانیت کی تصدیق ؛یہ ٹیسٹ لارا
کو ایسے جوابات دلاتا ہے جس ساس کا انسان ہونا مشکوک ہوجاتا ہے ۔ صحیح جوابات کی بار بار
ناکامی اس تصور کی توثیق کرتی ہیں کہ وہ
ایک مشین ہے ۔۔۔ان جانچوں سے اس بات پر تشویش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک جاندار شئے ہے بھی یا وہ محض عام مشینوں
کی طرح مشین ہے جو اسے کنٹرول کرنے والے کے
احکامات کی پابند ہے۔
لارا کے رویےاور سرگرمیوں کی مکمل
نگرانی کی جاتی ہے ۔یہ تکنیک ریاضی کے
فارمولوں کی طرح استعمال کرکے حتمی نتائج
حاصل کئے جاتے ہیں۔اس میں کنٹرول کردہ اسے پاس کرنا یا فیل کرنا ، یا اصل یا نقل اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔وہ اسے اس پروگرام شدہ
نظام کے تحے تکنیکی لحاظ سے جانچتا ہے۔
اس میں بیگانگی اور شناخت کے موضوعات بھی شامل کئے گئے ہیں۔لارا
کی جانچوں پر صحیح جوابات کے باوجود مسلسل ناکامیاں اسے عام انسانوں کی فہرست سے باہر کردیتے ہیں۔وہ
خود کو انسانی دنیا سے باہر تصور کرتی ہے۔
میں مشینی شخص نہیں
ہوں'( آئی ام ناٹ اے روبوٹ') وکٹوریا وارمر ڈیم کی سائنسی تخلیق ہے ۔وہ نیدر لینڈ سے تعلق
رکھتی ہے۔اس کا مرکزی کردار لارا ہے جو ایک موسیقار ہے جو ایک موسیقی کے ادارے میں
کام کرتا ہے جسے اپنے لیپ ٹاپ
کو اپ ڈیٹ کرنے کے بعد لازماً 'کیپ چا' کے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں
کہ وہ ایک انسان ہے یا نہیں۔ بدقسمتی سے
وہ ان تمام جانچوں میں تمام
جوابات صحیح صحیح دینے کے باوجود ناکام قرار دیا جاتا ہے اس کی تکنیکی ٹیم اسے تجویز
دیتی ہے کہ ان جانچوں کی بنا پر لارا انسان نہیں بلکہ ایک مشین ہے اور روبوٹ ہے۔یہ
رپورٹ لارا کے لئے حیران کن ہے۔وہ سوچ بھی
نہیں سکتی کہ ٹیسٹ اسے انسان کے درجے سے ہی گرا دے۔
اس کو جو ٹیسٹ دیا جاتا ہے اس میں پہلے تو تخیلات
کی شناخت کی جاتی
ہے اور اس کے بعد سابقہ وجود کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں۔جیسے ؛کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم ان لوگوں جیسے نہیں
اور تم دوسری دنیا سے تعلق رکھتی ہو'؟، یا ' تمہارے والدین تمہارے حقیقی والدین
ہیں؟' آخر کار وہ جانچیں 87 ٪ یہ نتیجہ دیتی ہیں کہ لارا انسان نہیں بلکہ انسان کی
شکل میں ایک مشین ہے جس کی حرکات و سکنات کو روبوٹ کی طرح پروگرام کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد
اس پر حیران کن انکشافات ہوتے ہیں۔جیسے اس کا بوائے فرینڈ اسے یہ اطلاع دیتا ہے کہ
اس نے پانچ سال پہلے جان بوجھ کر مشینی
انسان کے طور پر اپنی دوست بنایا تھا ۔اس نے اس کے دماغ میں یہ پروگرام سیٹ کردیا تھا کہ جب وہ مرے گا
تو اس کے مرنے سے کچھ عرصہ بعد از خود اپنی جان دے دے گی۔اس نے یہ پروگرام
ایسے سیٹ کیا تھا کہ اگر وہ چاہے گا تو ہی
وہ مرسکے گی۔وہ اپنے طور پر مرنا چاہے تو مر نہیں پائے گی۔اچانک ایک بحران پیدا
ہوتا ہے اور افراتفری میں وہ چھت سے نیچے کود جاتی ہے اور اس کے دماغ پر چوٹ لگتی ہے اور خون نکلنا
شروع ہو جاتا ہے، لیکن وہ مرتی نہیں اور اسے
ہوش آتا ہے ۔یہ افسانہ مبہم طریقے سے ختم ہوتا ہےجو قاری کو یہ سوچنے پر
مجبور کرتا ہے کہ کیا وہ واقعی جاندا ر
تھی۔
اس افسانے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ
اس میں فرد کی شاخت اور خود مختاری ختم
کردی جاتی ہے، ور اس کا انسان کے لئے مطلب کیا ہے ۔ 'کیپ چا' کی
ترتیب ایک استعارے کے طور پر استعمال کی گئی ہے۔۔یہ مشین لارا کی انسانیت کی تصدیق نہیں کر سکتی۔،اور اس کے
وجود پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
افسانہ یہ مدعا پیش کرتا ہے کہ اگر
کسی کومصنوعی طور پر تخلیق کیا گیا ہے ،یا
کسی کی خواہشات کی تکمیل کے لئے گھڑا گیا
ہے تو اس میں ان بھی ذاتی استحکام پیدا ہوجاتا ہے؟اس شئے کا اظہار کہ لارا کو مصنوعی مشین کے روپ میں ڈھالا گیااس
شئے پر زور دیتی ہے کہ کنٹرول ، اور غیر جانبداریت پر سوالات کھڑے کر دیتی ہے۔اس تجربے میں صحیح
جوابات ہونے کے باوجود اس کا فیل ہوجانا بحثیت انسان فیل ہونا جدید دور کا بیگانہ
پن ظاہر کرتا ہے۔ہم بڑی بڑی کارپورریشنوں میں
اپنے دفاتر میں اسی طرح کی تنہائی
اور بے حسی دیکھتے ہیں۔ کیا ہماری زندگی
مشین کی مانند نہیں ہو گئی ؟مزید
برآں ، افسانہ جذباتی نکاس ، تکنیکی
حفاظت اور رنج و غم دور کرنے کے لئے کوئی روبوٹ
منتخب کرے اور ایک مشینی نظام اس بات کا فیصلہ کرے کہ تم
اصلی ہو۔
آخر میں ، لارا کے چھت سے کودنے کا
ابہام کہ لارا انسان ہے یا روبوٹ ، اس میں
زندگی بچی ہے یا نہیں
ہے، اسے مصنوعی طور پر تخلیق کیا گیا ہے
یا میکانکی اور کنٹرول کا لیبل لگا دیا
جاتا ہے ۔
اس افسانے کا بیان سادہ اور آسان
مفہوم پر تشکیل دیا گیا ہے۔۔۔۔ایک فون کال
پر نظام بنایا گیا ہے ۔ 'کیپ چا' کام کرنے کی جگہ ہے جسے آہستہ آہستہ ایک گہرے
معاملے میں ڈال دیا گیا ہے۔، جس میں تصور ذات
اور خود مختاری کی سچائی
پرکھی گئی ہے۔اس افسانے کی وقت اس بات میں
ہے کہ روزمرہ ڈیجیٹل دنیا کے تجربات 'میں
ایک روبوٹ نہیں ہوں ' کے سوالات اور ان کے چیک باکس پر نمبر لگانے کی بنا پر لیبل کردیا جاتا ہے۔اس
میں خارجی طور پر دہشت پائی جاتی ہے ۔اس سے قاری اپنے روٹین
کو شکوک و شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے اور
سوالات کرتا ہے کہ ہمارے اعمال کس حد تک خود کار یا خارجی طور پر قابل تصدیق ہیں؟یہ افسانہ اس
بات کی توثیق کرتا ہے کہ قاری یہ سوال کرے اگر وہ 'کیپ چا' کے
ٹیسٹ میں ناکام ہو جاتا ہے تو کیا وہ
انسان نہیں رہے گا یا کم حیثیت کا انسان بن جائے گا ۔۔۔یا وہ لارا جیسا
ہوجائے گا۔
اس افسانے کا عنوان 'میں مشینی شخص نہیں '( آئی
ایم ناٹ اے روبوٹ ) اس لئے رکھا گیا ہے
کیونکہ اس کی نسبت براہ راست غلط اور صحیح جوابات پرکھنے والے چیک باکس 'کیپ چا'
سے ہے ۔لارا پوری سنجیدگی سے کوشش کرتی ہے
کہ ثابت کرے کہ وہ انسان ہے لیکن نمبر
لگانے والا چیک بکس اس کے جوابات کو غلط کردیتا ہے اور اسے روبوٹ قرار دیتا ہے۔اس
لئے یہ عنوان طنزیہ طور ادبی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔اس کے باوجود یہ بیانیہ میں کمی
لاتا ہے، جو تناؤ پیدا کرتی ہے اور راوی کے ذہن میں سوالات پیدا کرتی ہے کہ ایک
مشینی انسان اور اصلی انسان میں کیا فرق
ہے ۔
نفسیاتی طور پر یہ افسانہ انسان کے وجود کا منکر ہے۔لارا کی انسانیت اس
نظام کے تحت غیر متوازن ہو جاتی ہے جو اسے
انسان کی حیثیت دینے کو ہی تیار نہیں ۔'کیپ چا' جانچوں
پر بار بار ناکامی اس نظام کو ننگا کر کے
رکھ دیتی ہے ۔وہ اس نظام کا تمسخر اڑاتی ہے۔وہ کہتی ہے 'میرے سارے جوابات صحیح تھے
لیکن انہیں غلط قرار دیا گیا۔'اس قسم کے نتائج نکلیں تو ایسے ٹیسٹوں سے اعتماد اٹھ
جاتا ہے جس کا نتیجہ اضطراب ،بے یقینی اور بیگانگی کی صورت میں نکلتا ہے ۔تکنیکی مدد کی منظر کشائی فرد کی سوچ میں تبدیلی پیدا کر دیتی ہے۔اس لئے
لارا کواپنی یادداشت، باہمی تعلقات اور یہاں تک کہ اپنے وجود کی صحت
اور اعتباریت پر شک پیدا ہونے لگتا ہے۔جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی محبت نے اس کے
جسم کو مشین سمجھ کر اس کی پوری زندگی کو سختی
سے پروگرام کے مطابق سیٹ کیا ہوا ہے تو اسے گہرا صدمہ پہنچتا ہے ۔اس پر سے اس کااعتماد اٹھ جاتا ہے۔وہ خود انحصار ہونے کی بجائے ایک باربردار بن جاتی ہے جو اس میں اکتسابی بے بسی
کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔وہ اپنی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتی ۔اس کا گھر کی چھت سے
چھلانگ لگانے وہ زخمی ہو جاتی ہے۔اس کا سر پھٹ جاتا ہے جس سے خون بہنے لگتا ہے جو
اس شئے کی علامت ہے کہ اس نے اپنی خومختاری واپس لے لی ہے جس سے اس نے اپنی حدود
کو اپنی استطاعت کے مطابق دوبارہ سے بحال کر دیا ہے۔اس میں اس بات کا شعور پیدا ہوگیا ہے
کہ اس
کی اصلیت کیا ہے ۔یہ کہ وہ مشین
نہیں ہے ۔ جس کا اظہار اس کی سماجی ااورذاتی شناخت کی تکنیکی
تعمیر میں ظاہر ہوتا ہے
۔ لیکن 'کیپ چا' اسے پھر
بھی مشینی شخص ہی تصور کرتا ہے ۔اس سے اس
میں ذہنی ہیبت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ دہشت
اس وجہ سے نہیں کہ اس پر کسی عفریت نے قبضہ کر لیا ہے بلکہ اس کی حیثیت مقداری کردی گئی ہے۔ اسے اعدادی نمبروں سے ماپا جا رہا ہے۔اس کے معتبر
پن کو مخصوص نظام کے تحت ماپا جا رہا ہے ۔
یہ افسانہ نیدر لینڈ اور بلجیم کی ثقافت سے متعلق ہے لیکن اس کے موضوعات پاکستان میں بھی کئی طرح لاگو ہوتے ہیں ۔
پاکستان میں ڈیجیٹل تصدیق
اور نوکرشاہی عوام پر پوری طرح مسلّط ہے ۔ای۔گورنس ہے ، اور بائیو
میٹرک نظام رائج ہے جس نے اسے مشینوں کا
محتاج بنا دیا ہے جو 'کیپ چا' کے
اصولوں کی پیروی میں قائم کیا گیا ہے ۔
حکومتی ایجنسیاں مشینوں کے ذریعے عوام الناس پر حکومت کر رہی ہیں ۔ان کی نگرانی ا کر رہی ہیں اور ان کی خود مختاری
محدود کر دی گئی ہے ۔ان کی ثقافتی ، سیاسی یا تکنیکی صلاحیتیں
ضبط میں لائی گئی ہیں ۔
لارا کی خودمختاری پر ضبط لا کر اس کے افعال کو پہلے سے طے کر لیا گیا ہے۔جدید
کام اور اجنبیت پیدا کردی گئی ہے ۔پاکستان میں آئی ٹی کی روز مرہ ترقی سے اسے زندگی کے تمام شعبہ جات میں لاگو کیا
جانے لگا ہے۔ اسے آؤٹ سورس کر دیا گیا ہے جہاں
لوگ خود کو مشین کا پرزہ تصور کرنے لگتے ہیں ۔
'کیپ چا' تکنیک عالمی ہو گئی ہے۔دنیا نے عالمی
گاؤں کی شکل اختیار کر لی ہے۔جہاں مقامی آبادی چند لمحات میں دنیا بھر سے
روابط قائم کر لیتے ہیں جس سے باہمی روابط میں اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر کی
ثقافتیں ایک لڑی میں پرو دی گئی ہیں ۔
آخر میں یہ افسانہ
راوی کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتا ہے
۔ ' میں کون ہوں ؟'اور 'کس وجہ سے میں انسان کہلاتا ہوں ؟'یہ سوالات
پاکستان میں بھی ہر شخص خود سے پوچھتا ہے جس میں ابھی بھی کچھ روایات پائی جاتی ہیں ۔وہ ترقی پذیر ملک ہے، اس میں
مقامی اور علاقائی شناخت پائی جاتی ہےاور اس میں ڈیجیٹل تیکنالوجی ترقی پا رہی ہے اور مستقبل میں وہ چھا جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
