کیا کھویا کیا پایا - رثل بینکس aکیاکھویاکیاپایا Lost And Found By Russell Earl Banks

 





aکیاکھویاکیاپایا

Lost  And Found

By

Russell  Earl Banks

مترجم : غلام  محی  ا لدین 

نغلام میسٹینلے نے اسے کسی ایسے کمرےمیں دیکھاتھاجہاں بہت رش تھا۔وہ  اسے جانتاتھا لیکن اسے یہ یادنہیں رہاتھاکہ کہاں اور کب دیکھاتھا۔وہ گندمیگت والی حسینہ تھی۔اس  کی پیشانی کشادہ  اور عارض  کی ہڈیاں ذراابھری تھیں ۔اس   کے   اندازے کےمطابق وہ مشرقی یورپ کی لگتی تھی۔مےخوری کی شوقین  دکھائی دےرہی تھی اور ورزش  نہ کرنے کی وجہ سےہلکی سی فربہ تھی۔ ویسے تووہ چالیس کےپیٹے میں تھی لیکن  دیکھنے میں کم لگتی تھی۔ایک نوجوان دلربامحبوبہ   اس نے جدید فیشن کےمطابق  بال ترشواکر انہیں سرمئی رنگ کی لیس  سےباندھا تھا۔وہ چاہتی تواپنے بالوں  کوکوئی رنگ بھی دے سکتی تھی لیکن  اس نے  ابھی اس کی                                    ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔اس نےاپنےپتلےلباس والی قمیض چھپانے کےلئےپینٹ کوٹ اورجوتے پہنے تھ

سٹینلے فائیو سٹار ہوٹل  میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں میامی کی میریٹ  ہوٹل میں آیاہواتھا۔وہ اس خاتون کو دیکھ کر سوچ میں پڑگیاکیونکہ  اس کی شکل مانوس لگ رہی تھی ۔ رفتہ رفتہ اسے یاد آیاکہ  پانچ سال پہلے سٹینلے اسے اس ہال میں ہزاروں لوگوں کےمندوبین  کے درمیان اسے کانفرنس  کےشرکاکےبیچ  سےگزارتاہوا  سیدھا رقص گاہ کےایک کونے میں لےگیاتھا حالانکہ رستے میں بڑےپرکشش  مہکتے  گلاب  کے پھولوں  کے گملےپڑے تھے۔وہ انہیں  سونگھے بغیر آگے بڑھ   گیا۔وہ  خودکومردم شناس سمجھتاتھا۔اس کاایک مشغلہ یہ تھاکہ  اردگرد لوگوں کی شخصیتوں کی تشخیص کرے ۔اس کاان کےبارے تجزیہ کم وبیش صحیح ہوتاتھا۔اس کا قیاس درست نکلتاتھاکہ وہ  کن خواص کےمالک تھے۔اپنا وقت  دلچسپی سے گزارنے کے لئے وہ ادھرادھرجائزہ لےکر اندازہ لگاتا رہتاتھالیکن اس کاانداز ایساہوتاتھاجیسے  سب   اتفاقیہ تھا اور ان میں نہ تو اس کی نیت شامل تھی ،نہ مرضی  بلکہ حادثاتی طورپر رونماہورہی تھیں ۔وہ بظاہر خودکوایسے پیش کرتاتھا جیسے کہ اردگردکےماحول سے بےنیازتھا۔وہ میامی  کےایک فائیوسٹار  میریٹ ہوٹل میں کٹلری کی صنعت کی کانفرنس میں شرکت کےلئے آیاتھا۔اس میں بہت سی ایسی خواتین بھی تھیں جو  دل پھینک  شرکا کوپھانسنے کےلئے آئی تھیں ۔وہ ان کی طرف زیادہ متوجہ تھیں جو جام پرجام لڑھکارہےتھے۔کئی سمارٹ خواتین سیلز مین تھیں اور اپنےسالانہ کمیشن جولاکھوں ڈالرمیں تھے بتاکردوسروں کومرعوب کررہی تھیں۔سٹینلے کی نظر جب اس حسینہ پرپڑی تواس کی شکل وصورت اسے پسند آئی اور وہ اسے بھاگئی۔بظاہر تووہ اس سے لاپرواہ تھالیکن کسی طرح  اس سے دوستی چاہتاتھا۔اس لئے جب وہ کانفرنس ہال میں آئی اوراسے ہیلوبولا تواس نے اسے اچک لیااور بالآخر اسے رقص گاہ لےگیا۔۔۔سٹینلے کےدل ودماغ نےاسے پسند کرلیاتھا۔اسے لگاکہ اس نےاسےپالیاتھا۔

وہ سالانہ کانفرنس  کی شرکت کے لئے آیاتھا جوکٹلری، باورچی خانے  اورگھریلواور تجارتی عمارات کی  سجاوٹ  کے سامان اور پلمنگ کے آلات  سے متعلق تھی ۔ہرسال  یہ کسی  اہم ہوٹل میں ہوتی تھی اورمشہور و معروف کمپنیان اپنی اپنی مصنوعات متعارف کرواتی تھیں اوراپنے اپنے تجربات بیان کرتی تھیں۔یہ ان کابہت  بڑا اجتماع ہوتاتھااورچند دنوں کی کانفرنس میں کروڑوں ڈالروں کی تجارت ہوتی تھی۔اس کےشرکامیں ٹھیکے دار،انجینئر،آرکیٹیکٹ، انٹیرئریر ڈیزائینر ،ہول سیلر، سیلز ایگزیکٹو اور مصنوعات  بنانے والی کمپنیاں  شامل ہوتی تھیں۔شرکاکی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی۔سٹینلے  بھی پلمبنگ  کےکاروبارمیں تھاجس کے آلات بہت قیمتی ہوتے تھے۔شرکا میں کم وبیش سب ادھیڑعمر یااس سے بڑی عمرکے تھےجن میں زیادہ ترمرد اپنی بیویوں کوگھرچھوڑ آئےتھے۔وہ جواپنی اپنی بیویوں کواپنےساتھ لائےتھے،وہ ہیروجواہرات سےلدی پھدی تھیں اوربہترین پوشاکوں میں تھیں۔ اپنے اپنےخاوندوں کی مےخوری پرنظریں رکھے تھیں اس بات کابھی امکان تھاکہ  ان  میں کئی خواتین ایسی بھی تھیں جو سیلزکےپیشےسے منسلک تھیں۔یہ بعید نہیں تھاکہ ان میں کئی خواتین  اور حضرات ایسے بھی ہوں جواسے کسی کانفرنس ،شہریاکسی ملک  میں مل چکے  یافلرٹ کرچکےہوں ۔ کٹلری  کاشعبہ چونکہ امورخانہ داری میں آتاتھا اسلئے تجارتی ادارے اپنی کمپنیوں میں حسین وجمیل اور سلیقہ دار خواتین کو سیلز میں رکھتیں اور وہ اس میں کامیاب بھی تھیں۔ایسی خواتین اپنی سیلزکے تجربات اور اپنی سالانہ کمیشن جولاکھوں ڈالروں    میں ہوتابتاکرایک دوسرے کومرعوب کرتیں اس شعبے میں وہ گراں قدرخدمات سرانجام دیتی تھیں۔گاہکوں کواپنی طرف بہت جلدراغب کرلیتی تھیں۔اس شعبے میں ہمیشہ حسین اورنوجوان اور بہترین گفتگوکرنے والی  ہوتی تھیں۔سٹینلے نے جب اس خاتون کودیکھا تواس کو اس بات کایقین تھاکہ وہ اس کےگروہ میں نہیں آئی تھی اگر وہ اس کے گروپ میں آئی ہوتی تووہ یقیناًاسے پہنچان لیتا۔وہ چلتے چلتے اس کے پاس آئی تھی۔اس نے ہلکی سی مسکان سےاپنے بائیں ہاتھ سے اس سےمصافحہ کیا۔اس نےہلکاسامیک اپ کیا ہوا تھاجواس پرخوب جچ رہاتھا۔اس نے بڑی بڑی سبزآنکھوں کےایک سرے سےدوسرےسرےتک مسکارا لگایاہواتھا۔اس کےناخنوں پرسرخ نیل پالش لگی تھی جواس کی  جوتی سے مماثلت رکھتی تھی۔اس کےہاتھ میں انگوٹھی نہیں  تھی ۔اس کامطلب تھاکہ وہ  اس وقت  شادی  کے بندھن میں نہیں تھی۔اس نےسوچاکہ شائد  اس نےحال ہی میں طلاق لےلی ہو۔وہ اس سال بھی کانفرنس میں موجود تھی۔۔۔اس نےمصافحے کےلئے اپناہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ہیلو!سٹینلے۔

 اس نے اس سےہاتھ اس طرح ملایا جیسےدواجنبی  جتنی دیر مصافحہ کرتے ہیں ،سٹینلے نےمزیدچندسیکنڈتک اس سے ہاتھ ملائے رکھا ۔اور بولا۔۔۔ہیلو!تمہیں دیکھ کرخوشی ہوئی۔وہ 'دوبارہ'کالفظ گول کرگیاکیونکہ اسے اس وقت تک  پتہ نہیں تھاکہ کیاوہ اس سےپہلےبھی مل چکاتھالیکن اسے ایسالگ رہاتھاکہ وہ بالکل اجنبی نہیں تھی۔لیکن وہ اس کانام جانتی تھی کیونکہ سٹینلے کی جیکٹ پر اس کےنام کاکارڈ لگاتھا۔اس خاتون کانام جاننےکےلئےاس کی  چھاتیوں کی طرف دیکھالیکن وہاں کوئی کارڈ نہیں تھا۔اس سے اس نے یہ اخذکرلیاکہ وہ  کانفرنس کے شرکامیں سے نہیں تھی ۔سٹینلے نے سوچا کہ یہ بھی ممکن تھاکہ وہ  شرکا کوپھنسانے والی  کواعلیٰ  سوسائٹی کال  گرل نہ  ہولیکن  اس کے حلئے وہ ایسی نہیں لگتی تھی۔یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ کبھی کسی  کانفرنس میں اس کی دوست رہی ہو۔اس نےسوچالیکن اسے یاد نہ آیا۔ایک  چانس یہ بھی تھا کہ شرکا کی مددکے لئے انتظامیہ کی کوئی نمائندہ ہو لیکن اس نے اس بارے میں کوئی بات نہ کی بلکہ یہ کہاکہ اگرتم نے اپنے نام کاکارڈ لگایاہوتاتو مجھے تمہارانام جاننے میں مدد ملتی۔

تم نے مجھے نہیں پہنچاناسٹینلے؟بڑی حیرت کی بات ہے۔کیاایسانہیں؟

اگرتم نے اپنےنام کاکارڈلگایاہوتاجیسےہم سب نے لگایاہےتومجھے مددمل جاتی اورشرمندگی نہ ہوتی۔سٹینلےنےمسکراکرایسےکہاجیسے وہ موضوع بدلناچاہ رہاہو۔

میں  ہوٹل کےلئے کام کرتی ہوں۔اس  نےکہا۔کیاتمہیں بھول گیا؟میں تقریبات منعقدکروانےکی منیجرہوں۔

میں میریٹ   ہوٹل میں  شرکت کےلئے پانچ سال پہلے میامی آیاتھا۔اس کے بعد ان کی کانفرنسیں فینکس، نیوآرلینز، اٹلانٹا اور میمس میں ہوئیں۔سٹینلے کولگاکہ پانچ سال پہلے وہ اسے  ہال میں ملاتھا۔اسے اس کانام گھومنے لگا۔اس کے ذہن میں اس کانام کوندا۔۔۔وہ ایلن تھی لیکن یہ اس کامکمل نام نہیں تھا۔یہ اس کےنام کا آخری حصہ نہیں  تھا۔اسے اتنایاد آیاکہ وہ اس کاچہرہ دیکھ کر اس کی طرف مائل ہوگیاتھا۔اسے اس بات کی حیرانی ہوئی کہ وہ اسے فوری  پہنچان کیوں نہیں پایا ۔یا پھر ان کےدرمیان کوئی رومانوی بات نہیں ہوئی ہوگی یاان کی ملاقات سرسری رہی ہوگی یاان کاتعلقات ایسارہاہو جس میں یادرکھنے والی کوئی بات ہی نہ ہوئی ہویامعاملہ درمیان میں رہ گیاہو۔وہ اپنےذہن پرزور دے کر اس کاپورانام یادکرنے کی کوشش کررہاتھا۔ اسے یقین تھاکہ وہ اسے پچھلی  کانفرنس میں کئی بار  ملاتھا۔اس کےساتھ اس نے جووقت گزاراتھایاد آرہاتھا لیکن پورانام ذہن میں نہیں آرہاتھا۔ادھرایلن توقع کررہی تھی کہ سٹینلے کوپانچ سال پہلےگزاراگیاوقت یاد آگیا ہو گا ۔وہ ذہن پرزوردے رہاتھااوراسے پریشانی میں پاکروہ ہلکی سی لطف اندوزہورہی تھی۔

سٹینلے بات بڑھانے کے لئے  اس کےپہلےنام سےپکارا'ایلن' تم  زبردست لگ رہی ہو۔اس نے  دل سےکہا کہ تم بےمثال ہو۔ایلن   حقیقت میں ایسی ہی تھی۔وہ سمارٹ،توانائی سےبھرپوراورعمدہ  مزاج  کی مالک تھی۔وہ  ان خواتین کے برعکس  لگ رہی تھی جو ڈراؤنے،خطرناک  میک اپ میں زیورات سے لدی  تھیں اور کسی خاص منصوبے پر کام کررہی تھیں۔ان کے برعکس ایلن  ایسی خاتون تھی جواس بات میں کامیاب تھی کہ بہت زیادہ تناؤ کےماحول میں بھی خود پر قابورکھے۔ سٹینلے کوایسی اقدار والی خواتین پسند تھیں۔ایسی ہی خصوصیات اس کی بیوی میں بھی پائی جاتی تھیں جواس سے بےپناہ محبت کرتی تھی۔

اس وقت اسے ایلن کےبارےمیں کچھ اور  یادآگیا،پچھلی کانفرنس گزشتہ ختم ہونے سے ایک رات پہلے ایک سیشن اس کے کمرے میں منعقد ہواتھا جوگئی رات تک چلاتھا۔آج وہ کسی حد تک نشے میں تھا۔درحقیقت  اس کی ایسی حالت  ُاس کانفرنس میں  دوسری بار ہی ہوئی تھی ورنہ وہ ہمیشہ خود پرضبط رکھتاتھا۔خواتین اور پہنےپلانے کے معاملے میں وہ حتی الوسع محتاط رہتاتھا۔اس نے سوچاکہ آج سے بارہ سال پہلے ایک کانفرنس میں  اس نے رات  ایک ایسی عورت کے ساتھ گزاری تھی جو اس کی بیوی نہیں تھی۔اس کے کئی مہینوں بعد وہ  خاتون اس کی دوسری بیوی بن گئی تھی اور اب وہ اس کےتین بچوں کی ماں بھی تھی۔آج اسے   ایلن   مل گئی  تھی  اور سٹینلے کےدل میں محبت ایک بارپھرجاگ رہی تھی ۔اس کے ساتھ ہی اسے بار سال پہلے والا واقعہ روک بھی رہاتھا جس نے اس کی ہنستی بستی زندگی  بربادکردی تھی۔۔۔اب اسے ایلن کےساتھ  گزرے  لمحات کاکچھ حصہ یادآنے لگاتھا اور اسے دوبارہ  ملنےکی  توقع تھی  لیکن اسے یہ یقین تھاکہ وہ اس کےساتھ سویانہیں تھا۔

ان کی پہلی ملاقات  پانچ سال پہلے کی کانفرنس میں رجسٹریشن کی میزپرہوئی تھی جوہوٹل کی لابی میں  نمائندوں اورکانفرنس کےشرکا  اوروفودکی رجسٹریشن  کررہاتھا۔سٹینلےنےاس کے نام کاآخری حصہ پکارااورایلن نے اسے ایک پیکٹ تھمادیاجس پر کانفرنس اورہوٹل وغیرہ کےبارے میں معلومات تھیں اور پلاسٹک کاایک بیگ جس پر سٹینلے کےنام کاکارڈ لگاہوا تھا۔ اس نےاس کی طرف دیکھااور مسکرائی۔اسے اس وقت  ایسالگاجیسے اس کی عمدہ شکل وصورت اسے پسند آگئی تھی۔اسے پتہ تھاکہ روائتی انداز میں جائزہ لیاجائےتووہ خود بھی خوبصورت کہلایاجاسکتا تھا۔اس کی شخصیت ماڈل اورفلمی ہیرووالی تونہیں تھی لیکن ان لوگوں سےجوپلمبنگ  یااس قسم کاکاروبارکرتےہیں،سے  بہت بہترتھی۔

اگرتمہیں کسی شئےکی ضرورت  ہویامزید معلومات درکارہوں توبلاتکلف مجھے فون کرنا۔اس نے اپنے بٹوے سے ایک کارڈ نکالااوراسےتھمادیا۔اس نے وہ کارڈ دونوں ہاتھوں میں تھام کرپڑھا۔اسے جوانی والی رومانی اور جاندارمسکراہٹ دی۔سٹینلے نےدل میں سوچاکہ وہ کتنی پرکشش اور آزاد خیال  لڑکی تھی۔

اس  کانفرنس کے دوران ان کاکئی بارسامناہوا۔اس سے ملاقاتیں ہوتی رہیں کیونکہ وہ تقریبات کی منیجرتھی اور میں  یونین  کاعہدیدار تھا۔انتظامات پر مشورے ہوتے رہے۔پہلی بارتواتفاقی طورپرلابی میں، پھرلفٹ میں،پھرہوٹل کی گفٹ شاپ میں جہاں وہ ٹوتھ پیسٹ لینےکےلئےگیاتھااور وہ سگریٹ لینے گئی تھی اور پھرانتظامی امورمیں،شام کوجان بوجھ کر ڈنرپرمیں  ناچ گھر میں ایک دوسرے کےساتھ آمنے سامنےبیٹھتے ہوئے، اس حالت میں انہوں نے  اس طرح ظاہر کیاکہ جیسے وہ  وہاں  کسی منصوبے کےبغیر  گئے تھے، اورکھانے کے دوران تقاریر کے اختتام پرجب  وہ ہوٹل کےمےخانے گئےتو وہ آدھی رات تک اکٹھے رہے۔اگلے روز وہ ناشتے پرملےاوردوپہرکےکھانے پروہ جھیل والےکیفے میں ملے۔ انہوں نےان ملاقاتوں میں اپنی گفتگومیں آواز اپنے سر نیچے کئے  ہلکی  اوررومانوی ہی رکھی ۔پچھلی کانفرنس کےواقعات اسے یاد آنے لگے تھے۔

پھررفتارکی تیزی سےان کی گفتگونجی اوراشاراتی  ہوتی گئی اورمعاملہ یہاں تک پہنچ گیاکہ وہ اس کانفرنس میں اسے اکیلی دوست سمجھنےلگ گیا  حالانکہ عملی طورپروہ وہاں  کئی درجن منیجروں سے بھی واقفیت حاصل کرچکاتھا۔اس نےایلن کواپنی بیوی شیرن اور اپنے تینوں  بچوں کابتایا جوبار سال پہلے ملی تھی۔ اس کی ازدواجی زندگی  اس وقت مشکل میں تھی اور احتیاط کی  کہ ان  کےبارےمیں کوئی شکائت نہ کرےلیکن کنایوں میں  کچھ غیر مطمئن ہونے کی نشاندہی بھی کی۔اس نے کہا کہ میامی  بچوں  کی تعلیم وتربیت کےلئےاچھاشہر تھا۔ یہاں  بکھرےہوئے گھر تھےجس میں دوگاڑیاں کھڑی کرنےکی جگہ تھی۔رہائش کےلئےبہترین تھیں۔شاپنگ ،پلمبنگ سپلائی کمپنی کی تجارت کےلئے موزوں ترین شہرتھا۔دوستی کے لئے غیر مناسب تھاکیونکہ اس میں خاندان آجاتاتھا۔

ایلن  نےاس کااشارہ سمجھ لیا۔۔۔اس نے کچھ سوچنے کے بعد کہا ۔ایسالگتاہےکہ تم خودکوکسی حدتک تنہاسمجھتے ہو۔ایلن نے کہا،

ہاں۔تو۔کئی مقامات پرتوہم خودکواکیلاسمجھتےہیں ۔خواہ اردگردلوگوں کی بھیڑ ہوبھی تو۔جیسے کہ یہاں ہے۔

شائد، خصوصاًبھیڑ میں تم خود کواکیلاسمجھتے ہوگے۔ہجوم تمہارے دل کوکچوکے لگاتاہوگا۔ تم   بھی اس دنیامیں میری طرح  تنہاہو۔ایلن نے کہا۔

تمہارے دل کوکچوکےلگاتاہوگا،کافقرہ سٹینلے کےدل کوبھاگیا۔اس نے من ہی من میں کہاکہ اس کی بیوی شیرن اس صورت  حال میں یہ کہتی۔چھوڑو اس قصے کو۔تم اس دنیامیں تنہانہیں ہو۔۔۔لیکن ایلن ایک پرکشش خاتون  تھی  جواکیلی تھی ،روپےپیسےکےحساب میں خودمختارتھی ،میامی جیساشہرہوجوعجیب ہووغیرہ وغیرہ اوراکیلی ہو۔اپنے بارے میں مزید بتاؤ۔سٹینلے نے کہا۔

غیرشادی شدہ،کوئی بچہ نہیں ۔کوئی قریبی رشتےدار بھی نہیں۔ایلن نےکہا۔

کیاکوئی بوائے فرینڈسٹینلے نے پوچھا۔

نہیں،کوئی مستقل بوائے فرینڈنہیں۔ایک تھا جس کانام ہراساں کرنےوالاتھا۔

سٹینلے نےسوچا اور پوچھا۔کیاتم اکیلی ہو؟

اس نےاپنےکندھے اچکائے ۔ہاں ۔میراخیال ہے۔تمہاری طرح۔تم سےزیادہ نہیں۔  تمہاری توبیوی ہے،بچے ہیں اور منی وین ہے۔ایلن نےکہا۔

پانچ سال پہلے والی کانفرنس میں جلد ہی  ایلن  اس کے لئےایک  ایسی خاتون بن گئی جس کےساتھ وہ کمپنی پسند کرنے لگا۔وہ اس کے پاس رہتا،اس سے گفتگو کرتااور  اس کےساتھ چلاجاتا،ہجوم سےبھاگتااور اس کےساتھ  وہ سگریٹ پیتا ۔۔وہ بھی اس برینڈکی جووہ پیتاتھا۔اسے یادآگیا۔وہ مذاقاً کہاکرتاتھاکہ یہ تمہارےلئےبہتررہتاکیونکہ تمباکوایک نامیاتی ضرورت بن گئی تھی۔وہ دونوں اسے چھوڑناچاہ رہے تھے ۔۔۔کچھ کہے بغیر وہ  زیادہ سمارٹ اور رومانوی ہوتےگئے خصوصاً اس وقت جب وہ اکیلےہوتےبہ نسبت اس وقت جب دوسرے لوگ آس پاس  ہوتے۔جب کبھی وہ دیگرشرکااور ان کی بیویوں کی  گفتگو کرتے۔وہ طنزاًاور ہلکی گفتگو کرتے، لیکن ان کالہجہ غیردوستانہ اور غیرمہربانہ نہیں ہوتاتھا اور وہ پلمنگ اورکٹلری  انڈسٹری کوسنجیدگی سے لیتاتھا۔

سٹینلے کےنزدیک   اس کانفرنس کی تمام خواتین میں  ایلن سب سے خوبصورت اورپسندیدہ خاتون  تھی ۔اورجب وہ اپنے رفقائے کار کو دیکھتاتوان میں زیادہ ترفربہ ،اکھڑمزاج ،غیرسلیقہ مند ،فشارخون  کی  زیادتی کی وجہ سے چہرےوالے اور اونچی آوازمیں گفتگوکرنے والے اورفضول کپڑے پہنےہوئےلوگوں میں سٹینلے ان تمام میں  سب سے خوبصورت اورعمدہ آداب واطواروالا شخص سٹینلے  تھا۔کم ازکم ایلن  کوتوایساہی لگتاتھا۔اس کامقابلہ سخت نہیں تھا۔یقیناًوہ ان سب سے بہتر تھا۔

اسے یاد آیاکہ پچھلی کانفرنس میں  اسے پتہ چلاکہ ایلن کی عمرچونتیس سال تھی۔یعنی وہ اس سے چودہ سال چھوٹی تھی،طلاق یافتہ تھی ۔اس کےوالدین شارلٹ نارتھ کیرولینا میں رہتےتھے اورایلن کی پرورش وہیں ہوئی تھی۔۔وہ میامی فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی میں مارکیٹنگ پڑھنےآئی ۔اپنی گریجوایشن کے بعد اگلے روزہی  وہ اپنے شماریات کے  پروفیسرسے جواس سےدس سال بڑاتھاسے شادی کرلی جو چارسال تک چلی لیکن  خوش قسمتی  سے اس دوران اسے کوئی بچہ نہ ہوا۔اس پروفیسرکی ایک بری  عادت تھی جواس نے شادی کےبعد بھی نہ چھوڑی ۔وہ بلاتمیز اپنےطلباوطالبات کےساتھ ہم بستری  کیاکرتاتھا۔ایلن نےبتایا۔

عجیب وغریب۔سٹینلے نےحیرانی سےکہا۔اپنے سٹوڈنٹس کے ساتھ مباشرت؟اوروہ بھی دونوں طرف سے؟

یہ اتناعجیب بھی نہیں ہے۔ تمہیں یقین نہیں آئے گاکہ یونیورسٹیوں  کےکتنےپروفیسر ایسی وارداتوں کے شوقین ہیں۔دونوں طرف سے۔یہ بات  ان تک  ہی محدود نہیں  بلکہ کلیسا کے لوگ بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔یہ شائد اس وجہ سےہےکہ یہ میامی ہے۔ایلن نے اپنی بات میں اضافہ کرتے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

میامی بہت زیادہ  شہوت انگیزشہر  ہے۔ سٹینلے نےکہا۔

یہی وجہ ہےکہ مارکیٹنگ کارخ شمال  میں رہنے والوں کی طرف موڑدیاگیاہے سٹینلے۔اس میں کھونہ جاناکیونکہ سینٹی آگو  نیویارک شہرمیامی کی شہوت انگیزی سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔

اس نے یہ سن کرقہقہہ لگایا اور کہا کہ یہ بات سچ ہے۔

پچھلی کانفرنس کی آخری رات  اختتامی  دعوت   میں انہوں نے شرکت نہ کی۔لابی  عبورکرکے باہرچلےگئےاور سگریٹ سلگالی۔کھلی ہوامیں ساتھ میں بہنےوالی خلیج کےپانی کی خوشبو محسوس ہوئی جونم دارتھی اورساحل سے دوروالی ہوا سے آ رہی تھی۔کھجوروں کے درخت ہوامیں جھوم رہے تھے۔ساحل کے کنارے ٹیکسیوں کی لمبی قطارسواریوں کےانتظارمیں لگی تھی۔ایک ڈرائیورنےپوچھاکہ کیا انہیں سواری چاہیئے؟

کیاتم کہیں جاناچاہوگی ایلن؟سٹینلے نے پوچھا

نہیں۔

سٹینلے نےاشارے سےٹیکسی ڈرائیورکومنع کردیا۔۔۔اس نے ایلن سے پوچھا۔تم کہاں رہتی ہو؟

گیبلز میں۔یہ یہاں سےکافی دورہے۔ایلن نے کہا۔

کیاتم  میرے کمرےمیں کچھ دیرآرام کرناپسندکروگی؟تھوڑاقیلولہ کرناچاہوگی۔سٹینلے نےپوچھا۔

ایلن نے پہلے دورجھیل کی طرف اور پھراپنےپاؤں کی طرف دیکھا۔مڑی ،اپناسگریٹ بجھاکرایش ٹرےمیں ڈالاجودروازےکےپاس ہی پڑاتھااور جواباً کہا۔'یقیناً'۔

جب وہ ہوٹل میں دوبارہ داخل ہوئےتوکانفرنس کے پانچ شرکا جوسب مردتھے،آپس میں مذاق کرتے  گھومنےوالے شیشے سےباہرآرہےتھے۔ان میں سےایک سٹینلے کاشناساتھاجوگاؤدی تھاجواس کی عمرکاہی تھا۔اس کانام برنی تھا۔ اور سیراکیوز سے آیاتھا۔اور ہول سیلرتھا۔

ہیلوسٹینلے!ہمارے ساتھ آؤ۔برنی نے کہا۔ ہم جنوبی ساحل پر منظرکشی کےلئےسمندرجارہےہیں۔رات ابھی جوان ہے۔

شکریہ۔۔۔نہیں۔۔۔شکریہ برنی۔میری کل  بہت صبح کی پروازہے۔یہ کہہ کراس گھومنےوالےدروازےکودھکادیاتوایلن اندرچلی گئی۔اس کےپیچھے سٹینلے بھی داخل ہوگیا۔

برنی ہنسااور کہا۔کوئی بات نہیں۔

پچھلی کانفرنس میں سٹینلےکاکمرہ ستائیسویں منزل پرتھاجہاں سے بیسکینی جھیل کا خوبصورت منظرنظرآتاتھا۔جہاں سیروسیاحت والےجہاز اپنی پیلی روشنیاں  جلائے لنگرانداز تھےاور شمال سے آنےوالے مسافروں کاانتظارکررہےتھے۔جگہ جگہ قمقمے جگ مگ جگ مگ کرہےتھے۔ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں کےنیون  روشن تھے۔بادلوں کے ٹکڑوں کےنیچے گلابی  روشنیاں جھلمل  جھلمل کررہی تھیں۔اس مقام سے دوربہتا  بحیرہ اطلس   بھی نظرآہااتھا۔ اس نےکمرے کے چھوٹے مےخانے سے  کیلیفورنیا شارڈونی  کی ایک سیل بند بوتل کھول  کردوجام بنائے۔ایسا کرتے وقت اس نے اپنے ذہن میں سوچاکہ وہ اس  رات پہلے کتنی پی چکاتھا۔اس نے حساب لگایا،دوجام استقبالیہ پر اوردوجام سکواش کےرات کے کھانے پر۔اتنی شراب کےبعد تواس پرنشہ طاری ہوجاناچاہیئے تھالیکن اس نے کنٹرول کررکھاتھالیکن  اندر سےاس پرمستی چھائی ہوئی تھی۔

نیندبھگانےکایہ بہترین نظارہ ہے۔ایلن نےکہا

وہ بسترپربیٹھ گئی اورنظریں خوبصورت منظرپرہی رکھیں۔بستر سےاٹھے بغیراس نے اپنے جوتوں کی تنیاں کھولیں اورپاؤں جھٹک کر جوتےاتاردئیے۔سٹینلے اس کےپاس آیا۔پاس پڑی میزپرجام رکھااورواپس کھڑکی  کی طرف جاکرپھرسے سمندر کا نظارہ کرنے لگا جس کاعکس شیشے میں دیکھنےلگا۔ایلن نے بغیرآستین سادہ قمیض پہنی تھی۔اس نے ایک  کافی وزنی نیکلس جوزیادہ مہنگانہیں تھااورچمڑے کی تارسے جڑاہواتھاپہناتھا۔اس کی ٹانگیں لمبی اورپتلی تھیں۔اس نےچھلے دار گھیرے والیے جھمکےاتارے اوربسترکےپاس سائڈ ٹیبل پررکھ دیئے۔جام اٹھایااورایک چسکی لی۔اور بولی۔کیاتم عمر بھروہیں ہی کھڑے رہوگے؟

میں نہیں جانتا۔سٹینلے نےجواب دیا۔

ایلن کچھ دیرخاموش رہی پھرکہا۔۔۔تم نہیں جانتے؟ یہ کہہ کربستر سے اتری۔اپنےجوتے پھرپہن  کراس کی تنیاں کسیں۔اس نےایسااس لئےکیاتھاکیونکہ سٹینلے نے تاثردیاتھا  کہ وہ اس سے کچھ نہیں کرناچاہتاتھا۔اس نے یہ بات جان بوجھ کرکہی تھی۔

اسے یاد آیاکہ پچھلی کانفرنس میں ایلن کے سا،یقیناً  پہلی ملاقات سے ہی سٹینلے نےذراسی مزاحمت بھی نہیں دکھائی تھی اور ایلن کو سب کچھ آزادی سےکرنے دیاتھا۔وہ کانفرنس کے تمام دنوں اورہفتہ اتوار تمام وقت اس سے فلرٹ کرتارہاتھا، سے اس نے خیالوںمیں  ہی  مباشرت کرلی تھی۔اصل میں اس نے احتراز کرلیاتھالیکن اگلے دن  اپنےصاف ضمیر کےساتھ واپسی  کی اڑان بھرناچاہ رہا تھا۔اس نے ایلن کوپاکے گھودیاتھا۔ اس نے محتاط انداز میں چال چلی تھی۔کوئی پیچیدگی نہیں کی تھی۔کوئی خفیہ مہم جوئی نہیں کی تھی ۔سٹینلےنے پروگرام بنایا تھاکہ اپنے معاملات  حد میں ہی رکھے ۔وہ اپنی بیوی بچوں سے بےوفائی  کرکے شادی نہیں توڑناچاہتاتھا۔۔۔اس دوران ایلن نے سائڈ ٹیبل سےاپنے جھمکے اٹھاکر پہن  لئے اورکھڑی ہوگئی۔

کیاوہ اتناہی اکیلاتھاجتناکہ اس نےایلن کوبتایاتھااوراس نےاس پریقین کرلیاتھا۔اگرنہیں تھا،توکیاوہ اپنی شادی شدہ زندگی میں مشکلات محسوس کررہاتھایاشادی سےبوریت محسوس ہونےلگی تھی،اپنی بیوی میں کوئی ایسی شئے محسوس کررہاتھاجو آؤٹ آف فیشن ہوگئی تھی اور جسے دیکھ دیکھ کر وہ تنگ آگیاتھاجس سے چھٹکارے کےلئے اسےبدلناضروری یاایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ فرنیچر ویسے ہی رہنےدیاجائے اور اسےنظراندازکرکے بےدلی سے اسے استعمال کرتارہے۔اس واقعے کوچارسال بیت گئے تھے ۔وہ ترپن سال کاہوگیاتھا۔ اب اس کی جوانی  نہیں رہی تھی،اس نےخود کویقین دلایا،کہ ادھڑعمر کے بحران  کامستقل مزاجی اوربہادری سے مقابلہ کرناچاہیئے اور حالات  سے سمجھوتہ کرناچاہیئے۔اس کی عمراب اس سےزیادہ ہوچکی تھی ۔وہ اپنی منی وین کوسرخ پورشے میں تبدیل نہیں کرناچاہتاتھا،یا  کسی نئی ہیلتھ کلب میں شمولیت نہیں کرناچاہتاتھا،اپنے عام  کمپنی کےزیرجامہ کوسیاہ  ڈیزائنر زیرجامہ میں تبدیل نہیں کرناچاہتاتھاجو گھٹنوں تک نہیں جاتےتھے۔اس سوچ کاتعلق محض اس بات سے نہیں تھا کہ ایلن کےساتھ معاشقہ لڑائے اورعملی طورپر جنسی ترغیب  دے۔۔۔ہفتے کی عام دنوں کی دوچھٹیاں جومہینےکےآخری دنوں میں آتی تھیں میں معاشقہ لڑائے۔یہ نکتہ ثابت کرنے کےلئے کہ وہ اسے بے حد پسند کرتاتھا اس کے بغیر رہ نہیں سکتاتھااس کےسامنے بیان کرنا                   مردانہ وقارنہیں تھا ۔۔۔یہ ایلن ہی تھی جواپنے طورپر ، اس کے لئےایک بہت ہی خصوصی خاتون بن گئی  تھی جس کی رومانی ہلکی گفتگو، سبزآنکھیں ،لطیف حس مزاح  اور روشن اوردلچسپ لفاظی،اور ہاں،اس کی پتلی خوبصورت ٹانگیں  ،جواس نے اسے محسوس کروائیں ، دلپذیرتھیں جوکسی بھی انسان کےحواس کھوسکتی تھیں۔آج ایلن اسے دوبارہ مل گئی تھی۔وہ ہاتھ بڑھاکراسے حاصل کرسکتاتھا۔

وہ غصے ہوگئی تھی،اسےاب یاد آیا۔شائدیہی وجہ تھی  کہ وہ اس رات کوبھول گیاتھااوراسےاب یاد نہیں کرناچاہتاتھااوراس میں وہ کامیاب بھی ہوگیاتھا۔اب پانچ سال بعد،وہ اور بوڑھاہوگیاتھا۔اس  خاتون نے ازخود سٹینلے کےسامنے آکر خود کو ایک بارپھر ظاہر کروایاتھا،جو مزاحیہ،سمارٹ،اچھی شکل وصورت اوراکیلی تھی۔ان پانچ سالوں میں سٹینلے نےمحسوس کیاتھاکہ اس کی شادی شدہ  زندگی میں دلچسپیاں کم سےکم ہوگئی   تھیں۔زیادہ  عمر ہونے کی وجہ سے اس  کےاحساسات مٹتے جارہے تھے،تجارت میں بھی نقصانات ہوناشروع ہوگئے تھےیامنافع کم ہوگیاتھا۔اس کےباوجود وہ نقصانات سے پوری طرح باخبر نہیں تھا۔اس رات سے پانچ سال پہلےایلن کےساتھ میریٹ ہوٹل  میں ستائیسویں کمرے میں تھا۔ وہ اپنی زندگی بھلاچکاتھا ۔وہ اپنے موجودہ حالات میں گم ہوچکاتھالیکن آج اسی خاتون نےپانچ سال  پرانی یادیں تازہ کرکے گم شدہ زندگی کودوبارہ  سے ملادیاتھا۔وہ زندگی پھر سے چالوہوگئی تھی ۔گم شدہ شئے واپس آگئی تھی۔لیکن پھر یکایک وہ دوبارہ گم ہوگئی تھی کیونکہ تعلقات کوآگے نہیں بڑھاناخطرناک حد تک خوفناک تھا۔ایلن  پہلےکھو گئی تھی،پھرمل گئی اورپھر گم ہوجانی تھی۔

کیا یہ اوکے ہے ؟تم نے توکوئی غلط بات نہیں کی سٹینلے ۔تم نے تقریباًسب کچھ پالیاتھا ا لیکن  جان بوجھ کرکھودیا ۔۔۔تم نے وہ کرناہی نہیں چاہااس لئے نہ کیا۔ایلن نے کہا۔

شائد یہی وجہ ہےکہ کیوں میں تمہیں یاد نہیں رکھناچاہتاتھا۔کیونکہ اس رات جومیں نے کھویااسےدہرانانہیں چاہتاتھا۔اوراب مجھے آج جو کچھ حاصل ہواہے،میں اسےپھر  سےبھول جانا چاہوں گا۔

ایلن نے سٹینلے کی بات سن کر پھیکی  مسکراہٹ دی اورمنہ پیچھےکرلیا۔میری خواہش ہے کہ میں تمہاری بات پریقین کرلوں لیکن تمہاری نظریں اور دل کی پکار کچھ اورہے۔تم کیاسمجھتےہوکہ تم نے کیاپایااور کس بات کوبھولنا چاہتے ہو۔وہ جوکچھ بھی ہواتھا ،اسے تفصیلاًبیان نہیں کیاجاسکتاسٹینلے؟

نہیں۔کوئی اوربات ہے،سٹینلےاسے کچھ بتاناچاہ رہاتھاکہ اس قصےکوبھول جائے۔وہ جوکچھ بھی ہواتھا،اسے بیان کرنا مشکل تھا،اس کی طرف سے نہیں ،تاہم اس نےخود کویہ کہتے سنا کہ میرےدل  میں ایک کانٹاسا چبھ گیاہےاورایسامحسوس کررہاہوں کہ میرادل تیزی سے دھڑکنے لگاہےاور سالہا سالوں میں پہلی بار شائد میری پوری زندگی میں ایساہواہے۔

اوراس بات نےتمہیں خوفزدہ کردیا۔ایلن نےکہا۔

یہ اس طرح ہےکہ اگرتم جانوکہ تم زندہ ہواورجلدہی مرنےجارہےہو۔

اس لئے تم نےیہ فیصلہ کیاہےکہ اس قصےکوبھلادو۔کسی کوپاؤ اور کھودو۔یہ بات باور کروائے کہ تم زندہ ہو۔ایلن نےکہا۔

ہاں۔

اس کامطلب یہ ہےکہ اس طرح سےتم اپنے اصل وقت سےپہلے مرناچاہ رہےہو۔

ہاں۔ایساہی ہے۔

سٹینلےکویادآیاکہ ایلن بسترکےایک طرف کھڑی تھی۔اس کاآدھارخ دروازے کی طرف تھا،اور اس کےکمرے سےباہرجانےکےلئےتیارتھی۔وہ اس کےدوسری طرف گیا۔اس نے اس کی کمر کےگرد اپنےبازو حائل کردئیےاوراس کی گردن پربوسہ دیااورپھر نرمی سے ہلکاسااس کےلبوں کوچوما۔ایلن نےاپنا ہونٹ بھینچ لیااورچندسیکنڈ بعد اس کی گرفت سےآزاد ہوگئی۔

مجھے افسوس ہے۔سٹینلے نے کہا۔

افسوس کرنےکی ضرورت نہیں۔تم نے کچھ نہیں کیا۔ایلن نےاس وقت کہاتھا۔

اس بات پر ہی توافسوس ہے سٹینلےنےکہا۔

الوداع سٹینلے۔

وہ تاریک کھڑکی کی طرف گیااورشیشے میں ایلن کے عقبی حصےکوجاتے دیکھتارہا۔اس نے دروازہ کھولااورباہرچلی گئی ۔دروازہ اس کےپیچھے آہستہ  آہستہ بندہوا۔

ایلن  جب اس باراس سے ملی تواس نے سٹینلےسےکہا۔تمہیں دوبارہ دیکھ کرخوشی ہوئی۔تم بالکل بھی نہیں بدلے ۔

نہیں۔میں اب بدل چکاہوں۔

الوداع سٹینلے !اوروہ ہال کی بھیڑمیں رستہ بناتے ہوئے باہرنکل گئی۔۔۔میں پانے کھونے،کھونے پانے کی الجھن میں کھوگیا

 

Life history

Russell  Earl   Banks\

1940….2023

U.S.A

 

رسل ارل بینکس  28 مارچ 1940 کو    ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صوبے مساچوسٹس  کے شہر نیوٹن میں پیداہوا۔اس کے والد کانام ارل   بینکس تھا۔ وہ ایک پلمبر تھا۔اس کی والدہ کانام فلورنس تھا۔وہ  گھریلو خاتون تھی۔ وہ سفید فام  اور بے حد غریب تھے۔ اس کی زیادہ تر عمر پس ماندہ  جرائم پیشہ  اور غربا کی آبادی میں گزری۔ اس کا والد غیر ذمہ دار تھا۔ سخت گیر تھا اپنی بیوی اور بیٹے کو مارتا اور بدسلوکی کرتاتھا۔وہ  شراب  خور اور گری ہوئی سیرت کا مالک تھا۔ رسل جب 12 سال کاتھا تو وہ  گھر چھوڑ کر چلا گیاتھا اور  لوٹ کر واپس  نہ  آیا۔اس نے ہائی سکول اپنے شہر سے کیا  اور اچھے نمبر لئے ۔اسے کولگیٹ   یونیورسٹی   نیو ہیمپ  شائر کا دوسال  کاسکالر شپ ملالیکن وہ چھ ہفتوں بعد ہی  یونیورسٹی چھوڑ گیا۔اس کے بعد وہ نارتھ کیرولینا یونیورسٹی  نیویارک میں داخل ہوااور تعلیم مکمل کی ۔

1960 میں اسے لیلا بولیرو پریس میں ایڈیٹر اور پبلشر کی ملازمت مل گئی۔اس کی بود وباش  نیلے کالر والے محنت کشوں کے ساتھ رہی اس لئے اسے ان کے مسائل کا مکمل ادراک  تھا۔اسے ان کی مشکلات کا مکمل احساس تھا اور ان  کی بہتری چاہتاتھا۔ اس لئے وہ انفلابی تحریک کا سرگرم رکن بن گیا ،اس نے کچھ عرصہ جزائر غرب الہند میں گزارا۔وہ کیوبا گیاااور فیڈرل کاسٹرو کی انقلابی  فوج    میں  بھرتی ہوگیااور بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔اس نے جیل خانہ جات کی اصلاح کی  تحریک چلائی۔اس کے  برے ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس کاادب  نسل در نسل  تشدد اور اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کے حقیقی مسائل  کاعلم تھا اور ان کے تلخ  حالات کو اپنے ادب اور عملی کوششوں سے بہتر کرنا چاہتاتھا۔

فوج  چھوڑ دی اور فلوریڈا  آگیا اورایک سٹور میں نوکری کرنے لگا۔وہاں اس نے ایک  سیلز کلرک'  ڈارلین   بینٹ' سے شادی کرلی۔اس سے ایک بیٹی ہوئی ۔پھر کچھ عرصہ بعد ان میں طلاق ہوگئی،ا س نے  کل ملاکر اکیس  چند سال  بعد اس نے   کتب تحریر کیں۔جن میں افسانے،ناول ، سائنسی مضامین وغیرہ شامل ہیں۔اس کی اہم تصانیف درج ہیں۔

Waiting to freeze(1969),           Meditation of Caucious Man in winter(1979).,  Family (1979),  Hamilton Stark(1978),  Cloud Splitter ( 1998), A Permanent Membeer of Family (2013),  The  Darling (2005),   The  Reserve (2008)Lost Memory of Skin (2011) ,  Foregone (2021) etc,,.

اسے  جان ڈوس پاسوس انعام  میں  پلٹزر   انعام سے نوازا گیااور دو بار (1986 اور 1989)میں پو لیٹزر  کے لئے نامزد ہوا۔ وہ بیاسی سال کی عمر میں 10 جنوری 2023  کو ساراٹوگا میں کینسر سے فوت ہوا ۔

 



Popular posts from this blog