ماسرگریٹ تھیچر کا قتل ( پہلی قسط) The Assassination of Margaret Thatcher )Episode1( lary Mantel


 





 

The Assassination of Margaret Thatcher  )Episode1(

By

Hilary Mantel

UK

 

مارگریٹ تھیچر کا قتل (پہلی قسط)

مترجم: غلام  محی الدین

25اپریل 1982

وزیراعظم برطانیہ کی رہائش گاہ   10 ڈاؤننگ سٹریٹ  لندن سےایک اعلان جاری  ہواکہ  ساؤتھ جارجیا کےفاک لینڈ جزیروں پر لشکرکشی کرکے اسےارجن ٹینا سےچھڑالیاگیاہے۔مسز تھیچر وزیراعظم برطانیہ نے قوم سے خطاب میں کہا۔

خواتین و حضرات!

سیکرٹری دفاع نے ابھی کچھ دیرپہلے مجھے بہت بڑی  خوشخبری سنائی ہے۔ ہماری بہادرافواج لندن کے وقت کے مطابق چاربجےسہ پہر ساؤتھ جارجیامیں داخل ہوگئی ہیں۔وہاں کےکمانڈر نےاطلاع دی ہے کہ  دارالخلافہ پر برطانوی پرچم لہرادیاگیاہے۔خداملکہ کو سلامت رکھے۔ اس خبرپرہماری بحری اوردیگرافواج مبارک باد کی مستحق ہیں۔مسز تھیچر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ  دروازے کی طرف مڑتی ہے۔

ایک رپوررٹر نے سوال کیا۔مسز تھیچر کیاہم ارجن ٹینا سے  جنگ لڑنے جارہے ہیں؟

مسز تھیچر  دروازے کی دہلیز پرکھڑی ہوئی اور مسکراتے ہوئےکہا۔اس جگہ کو اپنے ذہن میں لائیں جہاں عام   شہریوں نے اپنی آخری سانسیں لیں۔وہ ایک پرسکون اور سنسان  گلی تھی جہاں پرانے درختوں کاسایہ چھایاہواتھا؛ اس گلی  کی بلندوبالاعمارات میں مکین رہتے تھے۔ان کے گھروں کے اگواڑےبرفباری سےسفیدتھےان کی اینٹوں کاکام سنہری ساتھا۔وہاں کےباشندے کچھ تو جارجیا کے باشندے  تھےجوبالکل  معصوم تھے۔کچھ وکٹورین تھےاورپھر مسز تھیچر نے آواز کھینچ کر کہا  وہ جدید طرز کے مکانات کے لحاظ سے بہت بڑے تھے۔ان میں کئی گھروں کوکاٹ کر کئی  چھوٹے چھوٹے فلیٹ بنادئیےگئے تھےلیکن وہ اس طرح تعمیر کئے گئے تھےکہ ان کی تقسیم کے دوران  ان کی شان وشوکت میں کوئی فرق نہیں آیاتھااور نہ ہی ان کےسامنے والے دروازوں کی تعمیری سا خت متاثرہوئی تھی۔وہاں   دروازے متوازی تھے ۔ان پرپیتل کی چادرچڑھاکر پالش کیاگیاتھااور ان کی کوالٹی اورچمک دمک  میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی تھی۔ان کا نیوی بلیو یاجنگل کا سرسبز رنگ  برقرارتھا۔ہم نے ظالموں سےاسےآزادکرالیا۔

میں جس  جگہ رہتی  تھی وہاں لندن کابہترین ہسپتال تھا۔  اس پڑوس  میں صرف  ایک کمی تھی کہ  وہاں پارکنگ کی جگہ نہیں تھی ۔رہائشی مشکل  سےکوئی گاڑی  پارک کرسکتے تھے۔ہرایک مکین کے لئے پارکنگ کی جگہ الاٹ تھی۔اگر کوئی مہمان آجاتایا کوئی اضافی گاڑی آجاتی تو پولیس  کےمحکمہ سے اجازت نامہ لیناپڑتاتھا ۔اگرکوئی جگہ ملتی  تواس اجازت  نامے کو ڈیش بورڈپررکھ دیاجاتاتھا۔اگر اجازت نامہ نہ ہوتاتو ان کاچالان ہوجاتاتھا۔ایسے گھر جن کے باہر پختہ سڑک کا راستہ بناہوتا وہاں پارکنگ کی  جاتیں تورستہ رک   جایا کرتا  تھا لیکن مکین اور مہمان ان مشکلات کوسمجھتے تھے ۔ان میں قوت برداشت تھی۔اس خلاف ورزی پر وہ سیخ پانہیں ہوتے تھےبلکہ اپنی خوبصورت گلی پر فخر محسوس کرتے تھےاورتمام مشکلات کےباوجود وہاں ہی رہناپسند کرتے تھے۔اگر آپ  کی نظر اوپراٹھے تو شہر کی یاتو ایک کمزور سی  روشنی نظر آتی تھی  یا پھر ریت کاڈھیر جس میں کیچڑ اور دلدل  اورچٹانوں کی سخت مٹی یاپھر رنگدار شیشہ نظر آتاتھا۔ اس مقام پرموسم بہارمیں چیریوں کا پھل بہت زیادہ مقدار میں  پیداہوتا تھا جو ہرطرف  خوشبو بکھیردیتاتھا۔جب ہوا چیری کے پتوں سے ٹکراتی تووہ ان  کےپھولوں کوتوڑ دیتی   اور گلابی  قطرے ٹپ ٹپ کرکے زمین پر گرکرچاروں طرف پھیل  کرصحن  اور  پٹٹری   پر قالین کی طرح بچھ جایاکرتے  تھےجو اس بات کااحساس دلاتے   کہ  شائد اس گلی میں کوئی شادی  تھی جسے خوشبودار پھولوں سے سجایاگیاتھا۔موسم گرمامیں،کھلی کھڑکیوں سے موسیقی کی آوازیں آتی تھیں:جس میں مذہبی  سنگیت ہوتا جو  کلیساؤں  سے آتاتھا۔

گلی میں سڑک ہلکی سی خمیدہ تھی جو بڑی شاہراہ پرکھلتی اور اندرونی شہر تک جاتی تھی جواصل شہر تھاجہاں اس کے اردگرد میلوں مضافات بن گئے تھے۔وہاں کے مقدس کلیسا پر گیریزن کےجھنڈے لہرائےگئے تھے،اگر شہرکی کسی بلندجگہ سے دیکھا جائے (جومیں نےموت کےدن ملاحظہ کیا)تووہاں قریب  ہی ایک محل اور قلعہ نظر آتاتھا۔  اپنے بائیں جانب دیکھاجائے،تو ایک گول ٹاور دیکھاجاسکتاتھا،جوان کھڑکی کی درزوں کے رستے میں آجاتاتھا۔بدقسمتی سے برفباری،اولوں اوربارش میں یہ نظارہ   صحیح طور پرنہیں  کیا  جاسکتا تھاکیونکہ دھند ان کی تفصیلات چھپالیتی تھی ۔ مدھم   روشنی  میں ان کااپناہی لطف تھا۔ پھیکے  نقش ونگارکو شوقیہ مصوروں  کا کینوس پر اتارنا خاصا کٹھن کام تھا ۔وہ انہیں بناتے وقت باربار ربر استعمال کرتے تھے تاکہ وہ اصلی حالت میں  ظاہر ہوں ۔ ایساکرنے سے تصویر کے کنارے باریک ہوجاتے تھےلیکن ایسی تصاویر میں انکی محبت اور خلوص نظر آتاتھاجو ہر ایک  کےدل میں اتر جاتا تھا  ۔

وہ گھرجوگرجاگھرکےدائیں سمت تھے۔۔۔یعنی شہر کےدائیں  رخ سے باہر۔۔ ۔وہاں  وسیع باغات تھےجہاں  تین یاچارکرائے دار آباد تھے۔ 1980   کےاوائل میں برطانیہ آگ سے  نہیں جل  رہاتھا۔آئر لینڈ کے باشندوں کے استحصال کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جنگ وجدل  کی کیفیت نہیں تھی۔آئرلینڈ ، انگلستان اور سکاٹ لینڈ کے مابین کوئی چپقلش نہیں تھی۔جلنے اور اسلحے کی بونہیں آیاکرتی تھی۔ہفتے   اور اتوارکےدنوں میں   باغات میں باربی کیو  کی خوشبوہرطرف سے آرہی ہوتی تھی،لوگ خوشی کے گیت گارہے ہوتے تھے۔آج بھی اسی طرح باربی کیو ہوتے ہیں لیکن اس وقت وہ خوشبو بدبومیں تبدیل ہوچکی ہے۔گیت گائے جاتے ہیں لیکن وہ آئرلینڈ کی آزادی کےترانے ہوتے ہیں۔تمام ریاست نفرت کی بھٹی میں جل رہی  ہے۔اب ان گلیوں  میں بچے نہیں  ہوتے  ۔ان کی جگہ ان نوجوانوں نےلےلی تھی جوروٹی روزی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔معمرحضرات شام کےوقت اپنی کھڑکیاں کھولا کرتے ہیں تاکہ  قرب وجوار میں ہونےوالی پارٹیوں کودیکھ اور سن سکیں۔ گرمیوں کی سہ پہروں کو لانوں میں  عام طور پر اکثر کیک وغیرہ بنائے جاتے ہیں اور  جانور بچاکھچا کھانا جومٹی کی بالائی  سطح پر بکھراہوتا کو شوق سے کھاجاتے ہیں۔

موسم خزاں  میں ،پتوں کے ڈھیر اپنے آپ صحن پرکھاد کاکام کرتے اور تہہ خانوں میں رہنے والے رہائشیوں کوبادل نخواستہ غصے میں آکر صاف کرناپڑتے ہیں۔سردیوں کی بارشیں جھاڑیاں اور باغات  گیلاکردیتی  ہیں اور ان کی  دیکھ بھال کرنےوالاکوئی بھی نہ ہوتا۔

  1983    کے موسم گرمامیں  خاندانی ،صاحب ثروت لوگوں اور سیاحوں کی بھیڑہوتی تھی۔وہ قومی اہمیت  کی اشیا کودیکھتے تھے۔اس   گلی کے باغات کےعقب میں ایک نجی ہسپتال  تھا جس کے ایک کونے میں  پروقار زرد رنگ   کی عمارت تھی۔

مارگریٹ تھیچر  اپنی آنکھوں کی  جراحی کے لئے اس ہسپتال میں داخل ہوئی تھی جس سے اس علاقے کوسکیوریٹی اداروں نےاپنی  حفاظت میں لےلیاتھا۔علاقےکومحصور کرلیاگیاتھا۔ کئی رہائشیوں کوتو سکیورٹی  اداروں نے وہاں سے کسی دوسری جگہ پر منتقل کردیاتھا۔محافظ جو سادہ کپڑوں میں ہوتے رہائشیوں  پرناحق پابندیاں لگاتے اور ان  سے الجھتے رہتے۔اخباری نمائندےاور تصویری رپورٹ کرنے والےعملے نے  اس علاقے کو گھیررکھاتھااور چوبیس گھنٹے خبرسونگھتے رہتےتاکہ اپنےادارے کی ریٹنگ بڑھانے کے سب سے پہلے سنسنی خیزخبردیں۔ انہوں نے ہرجگہ غیرقانونی طورپراپنے وہیکل پارک کرکھے تھے اور پولیس ان کے چالان کرنے سے ڈرتی تھی تاکہ وہ اخبارات اور ٹی وی میں شورشرابہ کرکےانہیں کسی مشکل میں نہ ڈال دیں۔سکیورٹی ادارے  مکڑیوں کےجالے کی طرح ہرجگہ پھیلے تھےتاکہ اپنے وزیراعظم کو امکانی خطرے سے پوری طرح محفوظ رکھ سکیں۔وہ پگڈنڈیاں جوعوام الناس کی سیر کےلئے بنائی گئی تھی   اجنبیوں سے بھرگئی تھیں۔ایسی پگڈنڈیوں کو اچھی طرح تیز روشنیوں سے جگمگایاگیاتھاتاکہ  وہ جگہ واضح طورپرنظرآئے اور کوئی چھپ کروار نہ کرسکے۔محافظ  اور نشریاتی ادارے کے کارکن ٹکٹکی باندھ کرہسپتال کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔ان کی گردنیں   اپنی مشین گنوں،اسلحے اورکیمروں کی چمڑے کی پٹی میں چھپی ہوئی تھیں۔ ہرکوئی مستعدی سے اپنافرض نبھارہاتھا۔ہرچند منٹوں بعد رپورٹر کیمروں کو اپنے گردن میں ڈالے،اپنی بھاری جیکٹیں اٹھائے

ہسپتال کی طرف چستی سے دیکھتے دکھائی دےرہے تھے۔انتظارکی گھڑیوں میں وہ  ہلکی پھلکی خوراک  کھاتے،مشروبات اور سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ان کے سامنےکھانے کا چوراگرجاتاتھاجسے کیڑے مکوڑے شوق سے کھالیتے تھے۔

وہ اپنےبھیگے ہوئے بیگ پھولوں کی کیاریوں پرلٹکادیتےتھے۔اس علاقے کی نزدیک ترین عمارت سینٹ لینارڈ روڈ کی چھت  پرصبح دس بجے پنیر کے برگراور سینڈوچ بناناشروع کردئیے جاتے تھےجبکہ باقی اقسام  دوپہرکےبعد بناناشروع کی جاتی تھیں۔ونڈسرمحل جوملکہ کی سرکاری رہائش گاہ تھی  کے  پاس جو  کلیسا تھاکےپاس  بھی لوگ  جمع ہو جاتے اور اس کی چھوٹی دیواروں پر اپنے بیگ لٹکادیتے اور مختلف قسم کی قیاس آرائیاں  کرتے کہ  کس دن ،کس وقت ،کس جگہ اور کس لمحے کس شخص  کویہ اعزاز حاصل ہوگاکہ وہ مارگریٹ تھیچر کی ہسپتال کے اندریاباہرزیارت  حاصل کرسکے۔

ان دنوں ونڈسر کے آس پاس رہنے والے  لوگ  جیسا کہ سب سوچتے تھے  وہاں کے اصلی باشندے نہیں  تھےبلکہ وہ خفیہ ایجنسیوں کے حکام  تھےجو کسی بھی سازشی ٹولے کی تہہ میں رہتے تھے کہ امن و عامہ کامسئلہ پیدانہ کریں۔اگر اس وقت کسی کو  پی سکاڈ گلی کےتہہ خانے  جانے کااتفاق ہوتووہاں  سوشلسٹ آئرش وفادار نظر آئیں گےاور وہاں سے سینٹ لینارڈ چوراہاعبور کرلیا جائے تووہاں جمہوری حکومت کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔لیکن مقامی سوشلسٹوں کے حامی   بھی وہاں پائے جاتے تھے  تاہم تمام قرائن بتاتے تھے کہ ان میں اتنادم خم نہیں  تھاکہ  حکومت کو زک پہنچاسکیں اور اگر وہ کسی قسم کی منصوبہ بندی بھی کرتے توکامیاب نہیں ہوسکتےتھےکیونکہ  نہ تو ان کے پاس اتنے وسائل تھے کہ ریاستی اداروں  کامقابلہ کرسکیں اور نہ ہی افرادی قوت: لوگوں کامانناتھاکہ اگر سوشلسٹوں نے ان کوشکست دینی ہے تو اس کے لئے واحد طریقہ ووٹ کی طاقت تھی  اور اپنے نظریہ کو مقبول بنانے کے لئے ان کے نزدیک واحد رستہ یہ تھاکہ وہ اپنی علمی اور فنی قابلیت بڑھائیں اور عوام الناس کواپنی طرف مائل کرکے ان سےووٹ حاصل کر کے اپنی اکثریت ثابت کریں اور آزاد ہوجائیں۔

حال ہی میں  وہاں کےفائر بریگیڈ کی عمارت کی از سرنوآرائش کی گئی تھی۔اس کے اندر ایک جگہ شاعروں          ، فنکاروں اورادیبوں  کے لئے مخصوص کردی گئی تھی تاکہ وہ  اپنے فن پاروں کی وہاں نمائش کر سکیں  اور اپناپیغام عوام تک پہنچاسکیں۔یہ دیکھا گیا کہ  ایسے فنکار اپنے بستے سے پوا نکالتے  ، گھونٹ گھونٹ پی کرجھومتے اور دل کی بھڑاس نکالتے۔ہفتے کی صبح یوگا، تصویرسازی  کرتےاور خود پر ضبط کیسے لایاجائے کی کلاسیں منعقد ہوتی تھیں۔

ایک دفعہ مسز تھیچر اس جگہ معائنے کےلئے آئی  تومخالفین آناًفاناً جمع ہوگئےاور اس کے خلاف نعرہ بازی کرنے لگے۔پریس کی پلٹن اس واقعے کی فلمبندی  اور رپورٹنگ کے لئے آئی تواس نے اور اس کے حواریوں نے اپنا رخ ہسپتال کی طرف کر لیا جہاں    طب سے متعلق مختلف  محکموں کی پارکنگ کی جگہ مختص کی گئی تھی۔وہاں جو تختی لگائی گئی تھی اس پر 'ڈاکٹروں کے لئے' تھا۔ایک  خاتون  یہ کہہ کراپنی گاڑی  وہاں پارک کرنے لگی کہ وہ پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر ہے تواسے وہاں پارک کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔اس پروہ احتجاج کرنے لگی۔وہ صبح کاوقت تھا۔اس کاکھانا جووہ  اس وقت  بیکری سے  لائی تھی  گرم گرم تھا،اس کو اس نےاپنے پالتو کی طرح بغل میں دبایااور بولی کہ  تھیچر کے ہسپتال  میں داخلے اور واپسی کی چہ مہ گوئیاں ہورہی  ہیں ۔مجھے ان سے غرض نہیں لیکن  میں اس سے اپنی غلامی کابدلہ لوں گی۔میں ایک ایسے خنجرکی طرح ہوں جو براہ راست سینے میں اتر کرراز اگلوالیتی ہے۔میرے ہتھے وہ ضرور چڑھے گی اورمیں اس  سے اس طرح   معلومات حاصل کروں گی۔

تمہارے جذبات  قابل تعریف ہیں میں نے اسے کہا۔ تم موقعہ ملنے پرضرور ایساکرلوگی لیکن اس وقت مجھے تمہاری تدبیرسے زیادہ مسٹر ڈگن کی ضرورت ہے(  پلمبر  کووہاں عرف عام میں ڈگن کہاجاتاتھا)۔ میں اس کا انتظار کررہی ہوں کیونکہ میرے کمرے کا نل خراب ہے اس میں ٰ پانی  ٹپک رہاہے اور بوائلر کابھی مسئلہ ہے۔سرد گرم پانی  بھی صحیح طریقے سےنہیں ہورہا۔

ہفتے کے روز؟ چھٹی کے روز ڈگن نہیں آیاکرتے اگر آتے ہیں تواپنی قیمت  بھی مزدوری میں شامل کردیتے ہیں۔ وہ توٹھگ ہیں ۔سب کچھ لوٹ کے لے جاتے ہیں اورپھر بھی کہیں گےکہ مزدوری کم  تھی اور احسان  الگ جتائیں گے۔

کیا تم نے اس سے آج کی اپائنمنٹ لے   لی ہے؟اس نے اپنی جیب سے ایک پین نکالا اور میرے ننگے بازوپرکچھ لکھنے لگی اور کہاکہ یہ اس  خاتون کا نمبر ہے۔ اسے فون کرلیا کروں۔اس نے کاغذ پر بھی اپنا نام اور ٹیلیفون نمبر لکھنا گوارانہ کیا۔اس کے بعد اس نے پوچھاکہ کیامیں آرٹ سنٹر جاتی ہوں۔کبھی آنا ۔ہم وہاں بیٹھ کر اکٹھے پیئیں گی۔

میں نے  اپناسرہلایااورکہا۔ضرور۔ڈگن کے آنے کاوقت ہواچاہتاہے،اب چلتی ہوں۔میں اپنی  کثیرالمنزلہ عمارت جوبالکل ساتھ تھی   کی سیڑھیاں  چڑھ کر تیسری منزل پر اپنے ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں آگئی۔فریج سے پانی کی بوتل نکالی ۔پانی پیتے ہوئے میں مسز تھیچر کاسوچ رہی تھی کہ علاج کے بعد وہ کب جائے گی۔میرے کمرے کی کھڑکی سے ہسپتال اور پارکنگ صاف نظر آتی تھی ۔میں ڈیگن کاانتظار  کچن کی کھڑکی پر بیٹھ کر کرنے لگی اور باہر کانظارہ گھر بیٹھ کر ہی کرنے لگی اور بورہوتی رہ اور دوسروں کی طرح ادھر ادھر پھر کرخوار نہ اور اونگھ آگئی۔

عین اس لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔

لوجی! ڈگن آگیا۔

میں نےدروازہ کھول کر اس شخص کو اندر بلالیا۔  چونکہ مسز تھیچر کاقصہ اس علاقے میں اس وقت زوروں پر تھااسلئے بات کی شروواد اس کی صحت سے متعلق  ہوئی۔ہمیں ڈگن  کی شکلوں کا پتہ نہیں تھابلکہ سب لوگ ان کر پلمبری کے آلات اور وزنی بیگ سے ہی پہنچانتے تھے۔اس کو عزت کے ساتھ بلانا، باتیں کرنا اور نخرے اٹھاناسب پرلازم تھاورنہ وہ ناراض ہوجاتے اور کام کرنے سے انکارکردیتے۔

ڈگن نے ایک بھاری بیگ اٹھایاہواتھالیکن اس کا سائز اور شکل عام بیگوں  جیسی  نہیں تھی۔

کیاتمہیں پارکنگ کی جگہ مل گئی؟ میں نےپوچھا۔

میں نے نکڑ والی  نجی ڈرائیو وے پر اپناٹرک پارک کردیا ہے۔کہیں جگہ ہی نہیں ملی۔اس وقت وہاں کوئی نہ تھا۔۔۔جوہوگا، دیکھاجائے گا۔اس نے جواب دیا۔

میں نے اس کاحلیہ دیکھاتووہ  پختہ عمر کاتھا۔ایک سستی سی جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔میں نے سوچاکہ اب مجھے اس کی فیملی کے بارے میں کوئی بات کرنی چاہیئے۔میں نے پوچھاتواس نے اپنے کتے بائیکر کے بارے میں بتایا جو اسے اپنے خاندان میں سب سے اہم تھا۔

اس  نے بیگ کی زپ کھولی اور اندر جھانکا۔

میں ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں رہتی تھی جس میں ایک  ہال ،ایک خواب گاہ  جس میں ایک میٹرس آسکتی تھی ،ایک  غسل خانہ اور ایک چھوٹاسا باورچی خانہ تھا جہاںہماری ناکیں تقریباً آپس میں ٹکراتی تھیں۔اس وقت اس نے ایسی جیکٹ پہنی تھی  جووہاں کے موسم سےمطابقت نہیں رکھتی تھی اور بہت گرم تھی۔  وہ آگے بڑھاتو میں پیچھے ہوگئی کیونکہ جگہ بہت کم تھی۔

تمہارےبوائلر کےساتھ کیامسئلہ ہے؟اس نےپوچھا۔

اس سے طرح طرح کی آوازیں نکلتی ہیں۔ُگھر ُگھر کی آوازیں نکالتاہے۔میں جانتی ہوں ہوں کہ یہ اگست کامہینہ ہے،گرمی ہے میں نےکہالیکن۔۔۔

تم ٹھیک کہتی ہو۔تمہاری شکائت جائز ہے۔تم یہاں  کے موسم پراعتبارنہیں کرسکتی۔کیااس کی سلاخیں  گرم  ہوجاتی ہیں؟

کسی کسی جگہ سے۔میں نےکہا

میں اسے ٹھیک کردوں گا لیکن تمہیں   انتظار کرناہوگا میں اپنے اوزار بھول آیاہوں۔

کیا تمہارے پاس اس کاحل ہے۔میں نے پوچھا۔یہ وہ وقت تھاجب میرے ذہن میں شک پیداہوا۔

انتظارکرو۔اس نےکہا۔

کس چیزکاانتظارکروں؟تم  کوئی فوٹوگرافر ہویاپلمبر؟میں نےکہا۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ اپنی جیکٹ کے نچلے ٹٹول رہاتھا۔اپنی جیبوں میں  اضطرابی  طور پرکچھ تلاش کررہاتھا۔

تم ایک پلمبرہو۔بغیر اپنے اوزاروں کے تمہیں نہیں آناچاہیئےتھا۔میں نےکہا۔تمہیں ایسے ہی اندر داخل نہیں ہوناچاہیئے تھا۔

تم نے خود ہی تو دروازہ کھولاتھااور کہاتھاکہ اندر آجاؤاور میں ہال میں آگیا۔اس نے کہا۔

میں اب بھی حیران ہوں کہ تم کیوں آن ٹپکے۔بتاؤ؟تمہیں یہاں سے جاناہوگا۔میں نے اسے زوردےکرکہااور یہاں سےنکل کر بائیں طرف مڑجاؤ۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ مسز تھیچرعقبی دروازے سے آرہی ہےاور یہ جگہ اس کےلئے موزوں  ترین ہےجہاں سے میں اسےبہترین انداز میں دیکھ سکتاہوں۔اس نے کہا۔

میرے باورچی خانےکی کھڑکی سےہسپتال کاباغ صاف نظر آتاتھا،ہر شخص جو اس گھر کے اردگرد گھوم رہاتھا۔اس بات کو اچھی طرح سے دیکھ سکتاتھا۔

تم کس کےلئےکام کرتے ہو؟میں نےپوچھا۔

تمہیں اس کےجاننے کی ضرورت  نہیں۔اس نے سرد مہری سے کہا۔

شائدنہیں لیکن تمہاری مہربانی ہوگی کہ تم بتادو۔میں نے کہا۔

جب میں کچن میں چلی گئی تواس نےپیچھاکیا۔کمرے میں بھرپور روشنی تھی۔اب میں نےاس کااچھی طرح جائزہ لیا۔وہ ایک  بھاری بھرکم شخص تھا۔ تیس کے پیٹے میں تھا۔وہ اس وقت پریشان  دکھائی دے رہاتھاجس کے چہرے پر دوستانہ تاثرات تھے، بال بکھرے تھے۔اس نے اپنے بیگ کو میز پررکھ دیا۔تم کہہ سکتی ہوکہ میں فری لانسر ہوں۔اس نے کہا

اسکے باوجود۔۔۔میں نےکہا۔میں اپنی جگہ کوتمہارے مقصد میں استعمال کےلئےتم سے فیس لوں گی۔یہ ا یک مناسب بات ہے ۔ میں نے اسے کہا۔

تم اس کام کے لئے پیسے نہ لو۔یہ نیک کام ہے۔اس نے کہا۔

اس کے لب ولہجے سےلگ رہاتھاکہ وہ 'لیورپول' سے آیاتھاجومیرےعلاقے کے ڈگن سے بہت دور تھالیکن  ہال میں پہنچنے سےپہلےوہ کچھ نہیں بولااس لئے میں اس سے پہلے کیاجان سکتی تھی۔وہ فوٹوگرافرکےساتھ  ایک پلمبربھی ہوسکتاتھا۔میں نے خود سے کہا۔میں بالکل ہی بیوقوف نہ تھی؛اس لمحے میری ذاتی توقیر سب سے زیادہ اہم تھی جواس وقت  میں محسوس کررہی تھی۔اس کی میں فکر کررہی تھی۔میں نے اسے اپنا شناختی   کارڈدکھانے کوکہا۔سیانے یہ نصیحت کرتے تھے کہ کسی اجنبی کوگھرمیں داخل ہونےسےپہلےاس کی شناخت  چیک کرلینی چاہیئے۔ڈگن نے اپنی شناخت نہ کروائی تو میرے لئےبہت بڑا مسئلہ کھڑاہوسکتاتھا۔

اگرمیں یہاں کے ڈگن کےبیٹے کوسیڑھیوں میں آتےدیکھ لوں تومیں اس مشکل  گھڑی میں اس پر ہی قناعت کرلوں گی۔اگرتم میں ہنرہےتو اس دوران   بوائلر کو ٹھیک کردو۔وہ خاموش رہا۔

باورچی خانے کی کھڑکی سے کلیسادیکھاجاسکتاتھاجہاںاس وقت لوگ بے حد جذباتی ہورہے تھے۔ان کےملےجلے جذبات  ابل رہے تھے ۔کوئی حق میں تھےتوکئی مخالف۔میں  نے اپنی گردن کھڑکی سے ذراسی باہرنکالی تومجھے بہت سے پولیس افسران نظر آئے۔میری بائیں طرف مزید تازہ دم فورس آگئی تھی جواس وقت کلیرنس کریسنٹ کےباغات میں مستعدی سے گھوم پھرکر اپنی ڈیوٹی اداکررہی تھی۔۔۔اس نے مجھے سگریٹ کی ڈبی سے سگریٹ نکالتےدیکھ لیاتھا۔

لو۔ ایک تم لے  لو۔میں نے کہا۔

نہیں۔  اس نے کہا

 میں  نے ایک لےلیاہے تم نےنہیں لیااسلئے ایک تم بھی لےلو۔میں نے پھرکہا۔

توصحیح کہتی ہے۔اس نے سگریٹ کی وہ ڈبی اپنی جیب میں ڈال لی اوراسے پیس دیااور ایک گولہ بنالیااور تہہ کرلیا۔رومال نکالااور لمبی کھڑکی سے ہٹ کر کھڑاہوگیا،اس سے اپناچہرہ پونچھا؛اس کاچہرہ اور رومال دونوں پسینے سےُ چورُچور تھے ۔رومال  کارنگ اودی تھا۔ صاف ظاہر تھاکہ یہ وہ شئے نہیں تھی جس سے وہ استعمال کیاکرتاتھااور جس سے وہ دوسروں کے نجی گھروں میں گھس کرقطرہ قطرہ ٹپکاتا تھا ۔ ۔۔میں اس سے زیادہ خود پرناراض تھی۔وہ اپنی گزربسر ایسے ہی کررہاتھااورکوئی کسی کو زبردستی  روک نہیں سکتا۔

جب کوئی احمق خاتون کسی کےلئے دروازہ کھولتی ہےتوتم کیاسمجھتےہوکہ اس شخص کو کتنی دیرتک اس جگہ پررہناچاہیئے؟۔میں نےسوال کیا۔

عموماًایسے لوگ  زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے ٹکتے ہیں۔اس نے جواب دیا۔لیکن تم اپنے طور پر فیصلہ نہیں کرسکتی ۔اس کےجانے یاٹھہرنے کافیصلہ اس نے ہی کرناہوتاہے۔۔۔اس وقت گلی سے شور اٹھناشروع ہوگیاتھا۔

تم یہ بات کیسے جانتے ہو؟

ذاتی تجربہ ہے۔اس نےکہا۔

میں نے اسے کھانے کے لئے برگر دیا۔اس کے ماتھے پرایک داغ تھا۔

وہ  جلد ہی باہر آجائےگی  کیونکہ ڈاکٹروں اور نرسوں نے قطاربنارکھی تھی تاکہ پروٹوکول دےکراسے رخصت کیاجائے۔اس دوران  وہ ان کاشکر اداکرےاور ان کو شاباش دے۔یہ سوچاجارہاتھا کہ وہ پیدل چلتی ہوئی آئے گی اور ان کو بائی بائی اور شکریہ کہے گی،اس کےبعد ایک طرف  دوسالہ بچوں کی طرح چہل  قدمی کرےگی، اورپھرایک  فائر پروف لیمو میں بیٹھ کر اڑن چھوہوجائے گی۔

اچھا!تو یہ پروگرام ہوگا۔میراخیال ہےکہ ایسا ہی ہوناچاہیئے۔لیکن اس بات کااندازہ نہیں کہ یہ کس وقت ہوگا۔حتمی  وقت کاعلم نہیں  ۔عین ممکن ہے کہ  یہ وقت صبح کاہواوراگرمیں ان فرشتوں کودیکھ پایاتومیری یہ بڑی خوش نصیبی ہوگی اور ایسے فرشتوں کی زیارت ہوپائے گی۔میں اس کی تصویر کھینچوں گا۔اس نے کہا۔

ایک تصویر کی تمہیں کیااجرت ملے گی؟ میں نےپوچھا۔

میں پیسوں کے بغیریہ جرم کرتاہوں۔اس نے کہا۔

میں نے قہقہہ لگایا۔میراخیال نہیں کہ تصویر کھینچناکوئی جرم ہے۔ میں نے دیکھاہےکہ تمہارے کیمرے میں  عجیب قسم کےطاقتور لینس ہیں جوعام  کیمروں  سے مختلف ہیں ۔میرا مشورہ ہے کہ  تمہیں نزدیک جاکر اس کی  فوٹو  لیناچاہیئے۔اتنی دوری سے  عمدہ فوٹو نہیں آپائے گا۔

اس نے برگر ختم کرکےکچراباورچی خانے میں پھینک دیا۔

نہیں۔میں نزدیک سے فوٹونہیں لے سکتاکیونکہ وہاں ہر طرف سے لوگ آڑے ترچھے ہوکرراستہ روک رہے ہوتےہیں۔ اس نے جواب دیا۔

میں نے اس کے ہاتھ میں مچڑاہواایک کاغذ دیکھا جو وہ کوڑے میں پھینکناچاہ رہاتھااور کوڑے دان کوڈھونڈ رہاتھا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذلے لیاجس پر اس نے ناک بھوں چڑھائی۔پھراس نے اپنے بیگ سے ایک کینوس نکالاجو کیمرہ مینوں کے پاس ہونا جائز تھا۔اس کے بعد اس نے اپنے بیگ سے ایک ایک کرکے ایسے پرزے نکالے جن کا تعلق  میری ناقص رائے کے مطابق فوٹو گرافی سے نہیں تھا۔ اس نے ان کوجوڑناشروع کردیا۔اس کی انگلیاں نازک تھیں۔انہیں جوڑتے وقت وہ ناک کےاندر گنگنا رہا تھا جس کی طرز کچھ ایسی تھی جوفٹبال کےمیدان میں گایاجاتاہے۔وہ کس جگہ کاسنگیت تھامیں پہنچان گئی۔

تم لیورپول کی مقامی بولی میں گارہےتھے۔ میں نےپوچھ لیا۔تم وہاں کے جمہوریت ڈے کے گانے پہ ہی خوش ہوتے ہوگے۔اس کے گنگنانے کےالفاظ میرے ذہن میں گونجنے لگےجوکچھ اس طرح کے تھے:

تمہاراباپ اپنی ماں کی منشیات چرانے لگاہے

براہ کرم میری ہڈیوں سے بناساز مت  نکالو

تیس لاکھ لوگ یہاں بیروزگارہیں۔ان میں زیادہ غربت کی لکیرپرہیں۔ریاست میں کوئی بھی حادثہ ہوجائےتوزیادہ ترعوام افسوس کریں  گے ۔ان کی زندگی کولہوکےبیل کی طرح چلتی ہے ۔حادثہ ان کےرزق پربرااثرڈالتاہے۔ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتاہے۔ بازار کی رونقیں اجڑجاتی ہیں۔بازر سنسان ہوجاتے ہیں۔پل پرتحفے تحائف کی دکانوں کاتوسب سے براحال ہوجاتاہے۔ کیامیں نے صحیح کہا ؟ اس نےکہا۔

نہیں۔ایسا صرف چند منٹوں  یاچند گھنٹوں کےلئےہوتاہے۔اس علاقے میں  ہیٹ کی دکانیں ہیں۔ہائی سٹریٹ پر ایسےتحفوں کی دکانوں کی بھرمارہے۔کیاتم نے نہیں دیکھیں؟وہاں اتنارش ہوتا ہے کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے ۔سیاح دھکاپیل کرتے دکانوں                       میں   ُگھستے ہیں۔اس کے علاوہ ادھر چمڑے  کی مارکیٹ   بھی ہے۔اسکی ایک الگ دنیاہے۔خواہ حالات کتنے ہی گڑبڑہوں وہاں  زیادہ دیر تک اثرنہیں پڑتا۔وہ ایک دوسراملک لگ رہاہوتاہے۔

اس وقت خاموشی  تھی۔ گلی سے کوئی شور نہیں آرہاتھا۔اتنے میں کسی کے گانے کی آواز آئی ۔وہ اپنے دل میں ڈوب کر گا رہاتھا۔وہ گاناکافی مقبول تھا۔وہ ایک مصرعہ باربارگارہاتھا۔میں سوچنے لگی کہ کیا مجھے اس کادوسرامصرعہ آتابھی ہےیانہیں۔اس دوران میں نے دیکھاکہ  بن بلائے مہمان نے جو پرزے نکالے تھے اپنے انوکھے کیمرے میں لگا دئیے تھے۔وہ ایک اور پرزہ نکال رہاتھا۔وہ پرزہ  اگرچہ صاف تھا پھربھی اسےاس نےاسے کپڑے سے اچھی طرح  سے دوبارہ صاف کیا۔وہ اسے بڑے پیارسے دیکھ رہاتھاجیسے قربانی کے بکرے کوذبح کرنے سے پہلے دیکھاجاتاہے۔صاف کرتے وقت من میں کچھ گنگنارہاتھا۔ جب اس نے اپنامیکانکی عمل مکمل کرلیا تو کیمرہ نما چیزکےپورے نظام کوبڑے غور سے دیکھااور معائنے کے لئے میرے سامنے رکھ دیااور کہا کہ کیا تمہیں میراخصوصی کیمرہ خوبصورت لگا؟ اس کیمرے کی رینج بہت زیادہ ہے اور  تصویر پر صحیح بیٹھتی ہے۔جب میں نے اسے دیکھاتو مجھ پرلرزہ طاری ہو گیاکیونکہ وہ  کوئی  خطرناک شئے لگ رہی تھی۔وہ اتنی نفیس اور کم جگہ گھیرنے والی تھی  کہ کھول کر بند کی جائے تووہ کارن فلیک کے ڈبے میں بھی بند ہوجاتی تھی۔

 لوگوں نے اس کا نام 'بیوہ بنانے والا کیمرہ'رکھاہواہے۔اس نے کہا۔اگرچہ یہ اس کااصل نام نہیں۔ جواس کمرے سے تصویر بنواتا ہے وہ غریب وحشی  ڈینسٍ  کہلاتاہے  ۔۔۔اس کےلواحقین کو انڈے خود ہی ابالناپڑتے ہیں۔

اب وہاںصورت حال یہ تھی کہ جیسے جیسے وقت گزررہاتھاہم سونےکےکمرے میں  اکٹھے بیٹھے تھے۔وہ کرسی پر تھا۔اس نے جب اپنی کرسی  کھڑکی کی طرف گھسیٹی تومگ اس کےہاتھوں میں تھا۔سے چائے اچھل پڑی۔اس نے وہ کیمرہ نماشئےبستر کے کونےکی طرف کھینچی ۔میں نےجلدی سےاس پرپڑی قیمتی باریک روؤں والی رضائی تہہ کی۔اس دوران وہ اپنی جیکٹ جو باورچی خانے میں پڑی تھی لےآیا۔اس میں مزید چھوٹے چھوٹےپرزےتھے۔اس نے جیکٹ  کی جیبیں بسترپرانڈیل دیں۔ان میں کچھ  پرزے فرش پر گر پڑےمیں نےانہیں اٹھانے کی کوشش کی تومیرے ہاتھ سے پھسل کرپھرگرپڑے۔

وہ اپنی گھڑی پروقت دیکھتارہاحالانکہ اس نے کہاتھاکہ  اس کے کام کاوقت مخصوص نہ تھا۔وہ فوراًبھی آسکتاتھااورکبھی بھی نہیں۔اس کےچہرےپر پسینےکےقطرے تھےجواس نے اپنی ہتھیلی  سےپونچھے۔دھندکی وجہ سےاس کوپورانظارہ دکھائی نہیں دےرہاتھا۔اس نے اپنے عجیب وغریب کیمرے کےلینس ایک بارپھر  صاف کئے۔اس کےعدسے میں وقت  بھی آرہاتھالیکن اس کاتعین اپریٹر خود کرتاتھا۔اس نے اپنی آنکھوں کےکنارے سے لینس  میں باہرکانظارہ کیااورمطمئن ہوگیا۔میں ابھی تک وہیں تھی جہاں مجھے ہونا چاہیئے تھا۔میرے ہاتھ کاعکس اسے اپنےکیمرے میں دکھائی دے رہاتھا۔اس نے مجھےاپنی پوزیشن تبدیل کرنے کوکہا۔پھراس نےاپنی نگاہیں لان میں گاڑدیں اور اپنی کرسی کوصحیح تصویرکشی کےزاویے پرلےآیا۔

میں نےاسےکہاکہ تم مجھ سے طاقت میں زیادہ ہولیکن میں باتوں میں تم سے  تیز ہوں۔میں نے یہ ہنراپنےوالدسےسیکھاہےجس کاگراسری سٹور تھااور گاہکوں کواپنی میٹھی  گفتگو سے مائل کرلیتاتھا۔میں ذہنی طورپرسمارٹ سمجھتی تھی اورمجھے پوراگمان تھا کہ میں موقع محل کی نزاکت اور تیزی سے بدلتی حالت کوسنبھال  لوں گی ۔

جب فون کی گھنٹی بجی تواس نے ہم دونوں کواپنی اپنی نشستوں سےاچھال دیا۔اس نےان باتوں کوجومیں اس سے کررہی تھی منقطع ہوگئیں۔اس نے کچھ سوچااورکہاکہ یہ گھنٹی  اس کے لئے بجی تھی۔اس نے مجھے کہاکہ دروازہ کھول دوں۔اس کامطلب یہ تھاکہ وہاں کوئی خفیہ نظام نصب کیاگیاتھاجس کامجھے علم نہیں تھا۔کوئی  ایسا سسٹم تھاتوہی ان میں ابلاغ ہورہاتھا۔میں حیران تھی کہ میرے علم کے بغیر مواصلاتی نیٹ ورک کیسے بچھادیاگیاتھاجس سے سرگرمیاں بآسانی کی جاسکتی تھیں۔مجھےچائے کی طلب ہوئی  تومیں نے پتیلی میں پانی ڈال کر آگ پررکھ دیا اوراس زبردستی کے مہمان کوکہاکہ تم جانتے ہوکہ میں پلمبرکاانتظار کررہی  تھی۔مجھےیقین ہےکہ وہ جلدہی آنےوالاہے۔

ڈگن؟اس نےکہا۔

کیاتم اسے جانتے ہو؟

نہیں۔لیکن یہ جانتاہوں کہ وہ اس قت یہاں نہیں آئے گا۔اس نے کہا۔

تم نےاس کےساتھ کیاکیاہے؟میں نے اس سے پوچھا۔

چھوڑواس قصے کو۔اس نےغراتے ہوئے کہا۔اس نے  ایک اشارہ  میں بتایا کہ وہ اس تصویرکشی میں اکیلانہیں۔تصویر کھینچنے میں بہت سے ساتھی شامل  ہیں۔

ساتھی؟ میں نے سناتوسوچا کہ اس کامطلب یہ تھاکہ وہ کسی گروہ کاحصہ تھاجس نے اپنی سرگرمیوں کاایساجال بچھارکھاتھاجودوسروں کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔مزید گہرائی میں گئی  تویاد آیا کہ ڈگن ۔۔۔یاخدا! ڈگن ۔ ۔۔یہ توآئرش لفظ ہے۔توکیایہ  شخص آئرلینڈ کی آزادی دلانے والے غداروں میں سے تھا جوآئرلینڈ  آزاد کروانے کے لئے تخریبی کاروائیاں کرکے دنیاکی توجہ اپنی طرف مبذول کرواناچاہتے تھے۔ڈگن نام  سے مجھے اس کاخیال بھی نہیں آیاتھاکہ  اس کاتعلق  کسی تحریک سے ہوگا۔اب میں پریشان ہوگئی تھی ۔ مجھے ان   کی سوچ اور مطالبے پرکوئی اعتراض نہیں تھالیکن میرا نقطہ نظریہ تھاکہ  معاملات گفت وشنید سے جمہوری طریقے سے حل کئے جائیں۔ووٹ  کی طاقت سے آزادی حاصل کی جائے نہ کہ تشدد سے۔

میں نے اسے کہاکہ مجھے یقین تونہیں  کہ تم کیاچاہتے ہولیکن اگرتمہاراکام  تصویرکشی کاہے توتمہارے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالوں گی ۔ میرے خیال کے مطابق تم صحیح نہیں کررہے۔تم  غلط  طریقہ استعمال کررہے ہو۔کیاتمہیں پتہ ہے کہ اگر تم نے کوئی غلط اقدام اس گھر سے کیا تو میراکیاحال کیاجائے گا۔تم اصل میں کیاکرناچاہتے ہومجھے معلوم نہیں لیکن میں یہ اچھی طرح جانتی ہوں  کہ چوری چھپے ایساکرنادرست نہیں۔ایسا کرناکسی مسئلے کاحل نہیں  (اس میں ایک فقرے کااضافہ نہ جانے کیوں کردیا) لیکن میں تم سے دھوکہ نہیں کروں گی کیونکہ۔۔۔

ہاں۔ میں سمجھ سکتاہوں۔اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ہرکوئی اس کی نانی ماں ( جو آئرلینڈ کی ملکہ تھی) سے نالاں تھا۔اس بات کی کوئی  پرواہ نہیں کہ میراکام جائز ہے یاناجائزاور نہ ہی مجھے تمہاری وابستگی سے کوئی لینادیناہے۔۔۔سامنے والی کھڑکی سے ہٹ جاؤاور فون سے دور رہو۔اسے  نہ چھونا۔اس نے حکم دیا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 


Popular posts from this blog