آرتھر شوپنہار - تیسری قسط - فور فولڈ
آرتھر شوپنہار: ایک عظیم فلسفی (تیسری قسط)
Arthur Schopenhauer (1788-1860)
Germany
تحقیق و تجزیہ: ر غلام محی الدین
شوپنہار کا فلسفہ بہت جامع ہے۔ اس قسط میں اس کے فلسفے کے چند پہلؤں کو
چھوئیں گے۔
(1) دنیاوی نمائندگی (The World as Will Representation - W.W.R)
یہ موضوع دوسری قسط میں بیان کیا جا چکا ہے۔ اس قسط میں مندرجہ
ذیل عنوانات پر بحث کریں گے:
(2) اصول معقول استدلال ( Principle Of Sufficient Reason)
(3) منطق اور چار پہلو ( and Fourfold Logic)
(4) راہِ نجات اور بنا خواہش کے زندگی (Road to Salvation and Will-less Life)
(5) حس جمالیات اور اصول معقول استدلال(Aesthetics and Arts)
اب ان کے بارے میں مختصراً بیان کرتے ہیں۔۔۔
(2) اصول معقول استدلال ( Principle Of Sufficient Reason)
شوپنہار نے اپنے فلسفے کی بنیاد ُاصول معقول
وجوہات‘ پر رکھی۔ اس نے یہ اصطلا
ح سب سے پہلے اپنے پی۔ ایچ۔
ڈی کے مقالے میں جو اس
نے جینا یونیورسٹی میں 1813 میں جمع
کروایا تھا، میں استعمال کی۔ آٹھویں صدی
عیسوی میں لیب نیز (Leibniz) نے اس کو اصول اول کہا تھا
جبکہ شوپنہار کے شاگرد ہائیڈیگر
نے انیسویں صدی عیسوی میں اسے
استدلال کا نچوڑ (Essence Of Reasons)
کہا۔ وہ کہتا ہے کہ
کسی شئے کے بارے میں کوئی
ادراک اور تعقل بغیر علم اور معانی
کے بے کار ہے۔ ان میں ایسا تعلق ہونا چاہئے جو دلائل کے ذریعے ثابت کیا جا سکے۔
ہمارے اذہان میں کسی شئے کے بارے میں علم ، اس کے مقام، وقت اور اسباب کی تشریط سے تشکیل پاتا ہے۔ وہ ایسی اشیاء ہوتی ہیں جس میں انفرادی سوچ کے تحت اپنی مرضی سے شئے کا ادراک کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان تمام عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے جو معقول وجوہات کی بنا پر آپس میں تعلق قائم کرتی ہیں۔ اس طرح سے اشیاء میں جو رشتہ بنتا ہے،اُس اصول کو معقول وجوہات کی بنا پر تعلق کا قائم ہو ناکہتے ہیں۔
کائنات ایک قابل فہم جگہ ہے۔ اس میں جو بھی کوئی چیز موجود ہے وہ حقیقی ہے اور جو حقیقی ہے وہ دلائل کی بنیاد پر ثابت کی جا سکتی ہے۔ یہ تصور شوپنہار نے سو سال پہلے ُلیبنز ٗ (Leibniz) سے مستعار لیا جس نے ُنظام توحید یا نظریہ واحدیت‘ (Monadology ) پیش کیا ۔ اس میں اس نے کہاکہ کوئی بھی شئے جو حقائق پر مبنی نہ ہو، کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہئےاور اسے سچ نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس نے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ:
٭) تمام کائنات میں کسی وقت، کسی بھی جگہ دو افراد ہو بہو ایک ہی شکل و صورت، قد کاٹھ، عادات و سکنات جیسے ہوں کا پایا جانا اس لئے نا ممکن ہے کیونکہ اس کی عقلی سطح پر توجیہ نہیں پیش کی جا سکتی۔
٭) اصول معقول دلائل کے تحت اس اصول کو لا محدود طور پر ہر جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور ہر ایک سوال کا مخصوص جواب ہے۔ کون سی شئے کسی مخصوص جگہ پر کیوں موجود ہے، کا مطالعہ کیا جاتا ہے، نہ کہ اس بات کا کہ وہ وہاں کیوں نہیں ہے؟ شوپنہار نے اس اصول کو بین الاقوامی طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس نے کہا کہ اس اصول کے تحت ماورائی سوالات یعنی ما بعد الطبیعیا ت کے سوالات کے جوابات نہیں دئیے جا سکتے کیونکہ ہمارے پاس محدود علم ہے اور ہمارے حواس ان کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے اس کا معروضی اور عقلی نتیجہ اخذ کرنا ناممکن ہے۔
شوپنہار نے واضح کیا کہ اصل معقول وجوہات کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے ایک مخصوص شئے کے بارے میں سوچنا ہو گا جس کی وضاحت کرنا مقصود ہو۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ چونکہ ہماراعلم محدود ہے اسلئےمعروضی طور پر تمام مظاہر کو حواسِ خمسہ سے پرکھا نہیں جا سکتا لیکن انسان کے پاس ماورائی حس ہے جس کو ُچھٹی حسٗ کہتے ہیں۔ وجدان اور الہام کے ذریعے ظاہری عدم موجودگی کے باوجود اسے محسوس کر لیا جاتا ہے۔ اس نے اسے ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل طریقے استعمال کئے:
(2.1 ) فلسفہ علمیات (Epistemology)
شوپنہار نے علم علمیات کے ذریعے کہا کہ کسی بھی مظہر کے لئے ماحول یا دنیا میں ایک شخص ( Subject) ہوتا ہے جو کسی شئے (Object) کی وضاحت کرتا ہے۔ شوپنہارنے معقول وجوہات کے نقاط قدیم مغربی فیلسوف سے لئے جن میں اہم اناکسی میندر، پیرامینڈس، ارشمیدس اور گاٹفرائڈ ولہلم لیبنز ہیں۔
اناکسی میندر 610 B.Cپہلا یونانی فلسفی تھا جس نے مثالی نمونہ ( Ideal Model) کا تصور پیش کیا۔ اس نے کہا کائنات کی تشکیل لوہے سے ملتی جلتی دھات کی طرح کے مادے ( Apeism) سے ہوئی ہے اور وافر مقدار میں ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ اس فرضی مادے کو پیش نظر رکھتے ہوئے افلاطون نے علم کائنات (Cosmology) کانظریہ تشکیل دیا اور دلیل دی کہ جس کے تحت اس مادےسے جو کائنات تشکیل پائی ہے اور دنیا میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں،وہ بلا وجہ نہیں۔ اناکسی میندر پہلا فلسفی تھا جس نے دنیا کا نقشہ بنایا۔
پیرامینڈیس 485 B.C نے حقیقت کا مونائی نظریہ (Monism View of Reality ) پیش کیا۔ اس نے کہا کہ کائنات کا وجود اس مادے کی وحدت سے قائم ہوا ہے۔ اسے کسی نے تخلیق نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی اسے تباہ و برباد کر سکے بلکہ کائنات میں کچھ ایسے عوامل پائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر کچھ چیزیں واقع ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہو سکتیں۔ اسے نہ تبدیل ہونے والے وجود کا فلسفی (Philosopher Of Changeless Being) کہا جاتا ہے۔
ارشمیدس 287 B.C.نے بھی مسائل کو حل کرنے کے لئے مقداری انداز اپنایا۔ وہ ایک ایسا سائنسدان تھا جو اس بات میں دلچسپی رکھتا تھا کہ سمندر میں ایسی چیز بنائے جو پانی میں تیر سکے۔ وہ بڑے بڑے جہاز بناتا تھا اس نے ایک نظریہ پیش کیا جس کا نام پانی پر بوجھ کے ساتھ تیرنا یعنی ُطبعی قانونِ اچھالٗ یا Law of Physical Buoyance تھا۔
اب ہم سبب اور مسبب میں نمائندگی کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
(2.2) نمائندگی اور اصول معقول استدلال
شوپنہار کے نزدیک چار عوامل استدلال (Law Of Causality)کے لئے اہم ہیں۔ جنہیں باطنی طور پر محسوس کرکے پہلے سے موجود معلومات میں شامل کرکے آگہی حاصل کی جاتی ہے۔ ممکنہ تدابیر سے فوری اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تمام فطری علوم اسی طرح کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ شوپنہار نے اسباب سے قبل (پرایئری آف کازیلٹی) کی اصطلاح استعمال کی جس کی رو سے تمام کائنات عمومی سطح پر حل ڈھونڈنے کے لئے اسی طرح عمل کرتی ہے۔ پہلے سے موجود معلومات کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وجوہات اور فوری ردعمل کے جو نتائج ظاہر ہوتے ہیں اور متواتر ایک ہی جیسا ردعمل پیش کرتے ہیں۔ ان کے مابین لزوم (کو رلیشن) قائم کر لیا جاتا ہے۔ ذہن بنیادی عنصر ہےجو یہ کام سر انجام دیتا ہے۔ یہ نکتہ کانٹ کے نظریے سے مختلف ہے جو کہتا ہے کہ مسائل کے حل میں علم و دانش اہم ہیں۔ ہر فرد اپنا علم استعمال کرکے ادراک حاصل کرتا ہے۔ اگر اس کو وافر معتبر مواد حاصل ہو جائے جو اس مسئلے کو سلجھائے تو اس شخص کو نمائندے کی حیثیت دے دی جاتی ہے کیونکہ ماضی میں ایسا ہی ہوا تھا۔ اب ہم خواہش کی نمائندگی کرنے والے عوامل کا ذکر کرتے ہیں۔
(2.21) وجود (بی انگ)
کسی بھی مظہر میں اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کی کوئی
حقیقی حیثیت ہے یا نہیں۔ کسی شئے کے موجود ہونے کو دیکھا جاتاہے۔ وجود ہو گا
تو ہی اس کی آ گہی ہو گی۔
(2.22) وقوف۔ علم (نوئنگ)
وقوف علم کا تعلق ہمارے دماغ کی قذالی فص(اوکسی
پیٹل لوب) کے ساتھ ہے۔ تمام واقعات، حالات اور تجریدات میں نظام عصبی
کام کرتا ہے۔ وہ ہمارے تعقلات میں غیر الہامی استدلال پیدا کرتا
ہے۔ اس کی بدولت ہی خواہش کی نما ئندگی کی جا سکتی ہے۔
(2.23) پیدا ہونے کا عمل ( بی کمنگ)
پیدا ہونے کے عمل میں کسی مظہر کو جاننے کے لئے وقت اور
مقام کا صحیح تعین لازم قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں زمانی
فص (ٹمپرل لوب) اہم شمار کی جاتی ہے جو کسی شخص کو اس بات کی خبر دیتی
ہے کہ کوئی شئے کس دن، کس تاریخ، کس وقت، کس
جگہ، کس کے نزدیک، کس کے سامنے، کس مقام پر واقع ہوئی تھی۔ اس کا حسابی
انداز میں جائزہ لیا جاتا ہے اور اصول موزوں دلائل کی بنا پر صحیح فیصلے پر پہنچا
جاتا ہے۔ وقت کی سمت اور تعین ایک ہی ہوتا ہے جو ہمیشہ آگے کی طرف ہی سفر
کرتا ہے اور کبھی واپس نہیں آتا۔۔۔ جبکہ خلا، مقام، جگہ کی سمت کا تعین واقع
پذیر شئے کی تمام اطراف کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ مقام یا جگہ کی ایک
مقررہ لکیر (فکسڈ بیس لائن) ہوتی ہے جو تبدیل
نہیں ہوتی۔ اعتباریت (ریلا ئبلٹی) اور صحت مواد
(ویلیڈیٹی) مقداری انداز میں معلوم کی جا سکتی ہے۔
(2.24) خواہش، رضا، مرضی ( وِلنگ)
خواہش، رضا اور مرضی کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ ہرشخص اپنی
ضرورت کے مطابق براہ راست صورتحال کو محسوس کر سکتا ہے۔ اسے اپنے خیالات کی
مکمل آگہی ہوتی ہے۔ وہ کیا چاہتا ہے۔ اس کی کیفیت کیا
ہے۔ وہ حالات و واقعات اور وقت کے مطابق اپنی
تحریک کا تعین کر سکتا ہے۔ اس کو یہ معلومات نظام عصبی کے درآور اور
برآور اعصاب کے ذریعے ملتی ہیں۔ کوئی کردار اس لئے ادا کیا جاتا ہے کہ کوئی
معقول وجہ اس کے ذہن میں ہوتی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلے کے وجود کے لئے مقام، وقت اور اسباب ضروری ہیں۔ کسی ایک کی عدم موجودگی سے یہ عمل نامکمل رہ جاتا ہے اور سبب و مسبب میں تعلق قائم نہیں ہو پاتا۔ اگر اس میں کوئی عنصر صوابدیدی طور پر بھی شامل کر لیا جائے تو وہ وجود غیرمعتبر ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں مقداری اور باطنی کیفیات، تجریدی ادر حقیقی تعلق قائم نہیں کر سکتیں اور اس میں جھوٹ شامل ہو جاتا ہے۔
شوپنہار کہتاہے کہ خارجی دنیا کے حقائق اور حقیقت پر مبنی قول (Dogmatic reality) اور حقیقت پسندی (Realism) کے درمیان اسباب کے بارے میں علم اگر پہلے سے حاصل ہو تو اصول معقول وجوہات کا اطلاق صرف شئے ( Object) پر ہی ہوگا اور شخص کے بارے میں دلائل نہیں دئیے جا سکتے۔ مختلف صورتوں میں اس اصول کا اطلاق بین ا لا قوامی طریقے پر لاگو ہوتا ہے جو کہ معروضی حیثیت کا وجود (Objective existence) رکھتی ہیں، لیکن شخص کا اس شئے سے تعلق لازم و ملزوم ہونا چاہیئے۔ کیونکہ اس سے ا صول معقول وجوہات کے لوازم پورے نہیں ہوتے اور یہ اس کی حدود سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو بہت سے تضادات سامنے آ جاتے ہیں۔ اس سے اسکی مثالیت غیر واضح اور ماورائی مثالیت (Transcendental Ideality) بن جاتی ہے۔
مادہ کا عمل ان اشیاء پر ہوتا ہے جو کہ سامنے ہوتی ہیں اور ادراک کا باعث بنتی ہیں۔ مادہ اسباب و علل میں تعلق قائم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ادراک میں جوشخص حواس خمسہ کے ذریعے کسی چیز کو محسوس کرتا ہے اس میں وجدان اور الہام بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ وہ ہرشخص کی عقل و دانش کا حصہ ہوتے ہیں اور ادراک میں اہم شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ ہرشخص کی ضمنی پیداور نہیں ہوتے۔ وہ اپنی مرضی سے صورتحال کو دیکھتا اور اس کے درمیان تعلق قائم کرسکتا ہے۔
ان دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقائق تک رسائی کے لئے منطق اہم ہے۔ اس کی تفصیل مندرجہ ذیل خاکے کے بعد پیش کی جائے گی۔
(3 ) منطق (Logic) اور اس کے چار پہلو (Fourfold Roots)
چاروں عناصر (فور فولڈ رُوٹس) میں اسباب و علل کا پایا جانا لازم ہے۔ اس نکتے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ دلیل منطق اور سبب میں تفریق نہیں کر سکتی۔ ڈ یکا رٹ ( Descartes) کے نظریے میں بھی یہی ابہام ہے جواس نے علمیات کے نظریہ (Epistemology) میں قائم کیا۔ اس کے تحت چونکہ خدا کے وجود کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اسلئے اس کا وجود نہیں ( FRPSR - 6-13)۔ شوپنہار نے اسکو دوسرے ایڈیشن 1847 میں مزید واضح کیا۔ منطق کے چار عناصر جو اصول معقول استدلال کی بدولت تعلق قائم کرتےہیں، درج ذیل ہیں۔
(3.1) مادی اشیا میں تعلق (کازیلٹی اینڈ دی میٹیریل تھینگز)
شو پنہار کہتا ہے کہ اسباب و علل (Causality) کسی شخص کے تجربات اور شئے کے
مابین کسی و اسطے کے پائے جانے سے ہے۔ مادی اشیاء میں
تعلق ُاگر۔۔۔ تو ٗ کے اصول کے تحت کیا جاتا ہے۔ شئے (Object) اور شخص( Subject) کے مابین وقت ( Time) اور مقام ( Space) کی نسبت معلوم
کئے بغیر کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ ان دونوں
سے تعلق اسلئے ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کسی عمل میں نہ صرف مستقل حیثیت
رکھتے ہیں بلکہ تواتر میں بھی پایا جانا چاہئے۔ اس کی بدولت ہی ادراک حاصل کیا جا سکتا
ہے۔ اگر ان میں سے کوئی عنصر (وقت یا مقام) غیر
حاضر ہو تو دلیل قائم نہیں کی جا سکتی۔ جب کوئی شخص کسی شئے کو جانچنے کی کوشش
کرتا ہے تو وہ وقت اور مقام کے مابین نسبت کی بدولت ہی واضح ہوسکتی ہیں ۔ اگر جگہ نہ ہو تو اس شئے کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ آگے کون سی چیزہے اور بعد میں کیا ، کا
پتہ نہ چلتا اور اگر وقت نہ ہوتا تو یہ معلوم نہیں ہوسکتا
تھا کہ پہلے کیارونما ہوا اور بعد میں کیا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت
مادی اشیاء ہی پائی جائیں کیونکہ کئی دفعہ ہمارا واسطہ
تجریدی اشیا ء سے بھی پڑتا ہے جس میں اونچائی، گہرائی اور
خلا کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔
(3.2) تجریدی تعلق ( لاجیکل فارم اِن ا یبسٹریکٹ تھینگز)
تجریدی معاملات میں ربط منطق کی رو سے معلوم کیا جاتا
ہے۔ دنیاوی خواہش کی نمائندگی میں شوپنہار انسان کو
اشرف ا لمخلوقات اس لئے کہتا ہے کیو نکہ اس کے پاس ہر
معاملے کو پرکھنے کی منطقی صلا حیت ہوتی
ہے۔ وہ تجریدی اشیاء اور مکانی ادراک (اونچائی، گہرائی اورخلا) کا صحیح اندازہ لگانے کی قدرت
رکھتا ہے۔ انسانوں میں منطق کی صورت ان کے محرکات کی وجہ سے
بدلتی رہتی ہے۔ ان کے دلائل اپنی خواہشات کے
تحت مختلف اوقات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ مادی اورتجریدی،واحد یا
گروہی خواہشات کی تسکین کیلئے حالات کی نسبت سے جو اس شخص کو معقول
لگتا ہے، فیصلہ کر لیتا ہے۔ اس صورت میں دنیاوی خواہش کی
نمائندگی یعنی( ڈبلیو۔ ڈ بلیو۔ آر۔) کی منطقی صورت ایک نیا رخ اختیار کر
لیتی ہے جسے وہ چیزوں کے سیکھنے کا ادراک یا علم کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ FRPSR 1240 ۔ کسی
نتیجے پر پہنچنے کیلئے وہ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ جوفیصلہ وہ کرنے جا رہا
ہے:
(3.2.1) اس میں کوئی وزن ہو۔ وہ حقائق پر مبنی ہو۔ اسکا ادراک مکمل ہو۔ وہ اس کو صحیح طور پر سمجھ رہا ہو۔
(3.2.2) وہ امکانی تجربات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو۔ جو شئے شخص کے دعوے کی نہ تو تصدیق کرتی ہو اور نہ ہی جھٹلاتی ہو، کو اپنے تخیل سے جان لے اور ذہن میں اس صورت حال کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے۔
(3.2.3) ایک یا دو ایسے معاملات پر لاگو ہو جو متضاد ہوں،کے فرق کو اپنے علم، تجربے اور تفکر سے سمجھا جا سکتا ہو۔
(3.2.4) سچائی کے فیصلے کاتعلق حوالے سے باہر کا ہو۔ (FRPSR - 128) وقت، جگہ کے حساب سے کسی عمل کا جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہو۔ وقت ہمیشہ تبدیل ہونے والی شئے ہے اور جگہ یا مقام مستقل طور پر ایک جگہ موجود ہوتا ہے۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہرشخص میں الہام اور وجدانی کیفیات بھی پائی جاتی ہیں۔کسی میں زیادہ تو کسی میں کم۔ وجدان خصوصی احساسات ہوتے ہیں جن کو دلائل اور استدلال کے ذریعے نہ تو صحیح ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی غلط۔ ایسے معاملات میں اصول معقول وجوہات یعنی پرنسپل آف سفیشنٹ ریزن استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی اگرچہ حسابی انداز میں خارجی طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی اور وہ قیاس آرائی سےہی کوئی رائے قائم کرسکتا ہے لیکن یہ کیفیات مقداری کسوٹی پر پورا نہیں اترتیں۔ یہ کسی شخص کے محرکات سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس عمل میں خواہش کا پیدا ہونا بھی ایک لازمی امر ہو جاتاہے۔ عمل کی بدولت جو تاثرات پیدا ہوتے ہیں،وہ محرک کا باعث بنتے ہیں۔
جس وقت واقعہ ہوا ہو اور جس جگہ پر رونما ہوا ہو، کا جائزہ لے کرنتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ ایک شئے کا دوسری شئے کے بارے میں لازمی تعلق پایا جانا ضروری ہے۔ اس لئے برابری، مساوات کا مختلف زاویوں سے تعلق ماپا جاتا ہے۔ بعض معاملات کے حل کے لئے پیمائش کے لئے ہندسی اور حسابی علم کی ضرورت ہوتی ہے۔
(3.3) حسابی اور ہندسی تعلق (میتھیمیٹیکل اینڈ جیومیٹریکل فارم)
صورت حال میں تعلق معلوم کرنے کے لئے اعداد و شمار،ہندسوں اور
اشکال بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ اس عمل میں شئے ، وقت اور
مقام تینوں شامل ہو کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں کہ
صورت حال کیسی ہے۔ شئے کے مادی اوصاف کی بدولت کسی بھی مظہر
کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ مادہ ایک شئے بن جاتی ہے اور جب
کوئی شخص ان کو دیکھتا ہے تو نہ صرف اس کے لئے بلکہ
دیگر اشخاص کیلئے بھی اس مقام اور اس
وقت کی نوعیت یکساں ہی ہوتی ہے۔ اس لئے ہر کوئی
ایک جیسے نتیجے پر ہی پہنچ سکتا ہے۔ وقت ہر لمحہ ایک ترتیب سے رونما
ہوتا رہتا ہے۔ ایک بات دوسری کا حوالہ بن جاتی ہے۔ ردعمل
خواہش کے اظہار کے بعد فوراً پیدا ہوتا ہے جیسے تھکان کے بعد آرام کی
ضرورت، مارفین کے بعد نیند آنا وغیرہ۔ ان میں حسابی تعلق ثابت کیا جا سکتا
ہے۔ حساب دانی وقت اور مقام کی پیمائش کے لئے ضروری
ہے۔ وقت اور اطراف کی بدولت واضح مواد اور اس
میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا صحیح نتیجہ اخذ
کرنا ممکن ہے۔ اگر ان میں تلازم پایا جائے تو معاملات میں
مہیج اور ردعمل کے لازم و ملزوم ہونے کا تعین کیا جا سکتا
ہے۔ اس کے بعد اگلا پہلو جو سبب اور مسبب میں تعلق معلوم
کرتا ہے کا موضوع ُمنطق میں اخلاقیات ٗسے ہے۔
(3.4) نفسیاتی ، تحریکی اور اخلاقی تعلق (سایئکولاجیکل، موٹیویشنل اینڈ مارل فارم)
شوپنہار کے نزدیک کسی شئے میں چوتھا عنصر نفسیاتی، تحریکی اور اخلا
قیات ہے جس کی بنا پر تعلق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ نیت،ارادہ،خواہش اورتحریک
کیسے پیدا ہوتی ہے،بھی تعلق بیان کرنے میں اہم شمار کی جاتی ہیں۔ جس سے ان میں کسی
صورتحال میں ہمدردی، رحمدلی اور شفقت شامل ہو جاتی ہے۔ کسی عمل میں یہ واحد
شئے ہے جو کسی شخص کی آرزو کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ یہ اسکی تمام
سرگرمیوں میں موجود ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی تمناؤں کا تعین خود کرتا
ہے۔ اسے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کے پاس کون سے ذرائع ہیں اور کون سے
نہیں۔ کون سے اچھے ہیں۔ کون سے اخلاقی معیار پر پورا اترتے
ہیں۔ مابعداز طبیعیات جن کی حیثیت ماورائی ہوتی ہے، میں طبعی
اشیاء کے مابین تعلقات معیاری اصولوں کے تحت ہی قائم
کئے جاتے ہیں جبکہ معاشرتی، مذہبی معاملات اور
محرکات میں منطق استعمال کرتے وقت اخلاقیات کے اصول بھی لازماًًدیکھے
جاتے ہیں۔
شوپنہار وثوق سے کہتا ہے کہ شخص کے ہر مظہر میں اخلاقیات ظاہری اور باطنی طور پرپائی جاتی ہیں۔ جذبات، جوش،جنون اورخواہشات،ارادوں اور امنگوں کا نہ صرف اسے علم ہوتا ہے بلکہ ان میں ربط بھی پایا جاتا ہے۔ وہ معلومات ہم آہنگ ہو کر ہمدردانہ اور مشفقانہ ا نداز میں کردار سازی کرتی ہیں۔ اس طرح سے اس نے کانٹ کے ماورائی مثالیت کے نظریے کے ساتھ مشرقی اقدار کو بھی شامل کیا۔
قصہ مختصر اصول معقول وجوہات کے ذریعے شوپنہار نے مادی، تجریدی، حسابی اور اخلاقی پہلو شامل کرکے روابط بیان کئے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ چاروں عناصر آزاد و خود مختار اور متوازی ہیں جو اپنے اپنے انداز میں اپنے موضوعات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ جس نوعیت کا مسئلہ ہو گا، متعلقہ عنصر ہی اس کو سمجھنے کے لئے کوشش کرے گا۔ تجریدی معاملات کو سلجھانے کے لئے ذہنی طور پر منطقی طریقہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
چونکہ انسان ہر دم اذیت میں مبتلا رہتا ہے اور خواہشات اس کا جینا دوبھر کر دیتی ہیں اس لئے ان کو دور یا کم کرنے کے لئے شوپنہار نے کچھ اقدامات تجویز کئے جس سے ان کی خواہشات کو یا تو ختم کیا جا سکتا ہے یا کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
(4) راہ نجات اور بنا خواہش زندگی ( Road to Salvation and LifeWill-less )
انسان ہر وقت خواہشات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ کبھی کبھار وہ اپنی کوشش سے اسے آسانی سے حاصل کر لیتا ہےتو اس میں احساس برتری پیدا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نتائج اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ شوپنہار نے انسانی تکالیف کا تعلق ذاتی تفاخر،تکبر اور غرور (Vanity) سے جوڑا۔ اس نے سقراط ( Socrates) کے اس نکتے کو سراہا جس میں اس نے کہا تھا کہ انسان کا وجود اور زندہ رہنا ہی کافی نہیں بلکہ اہم شئے یہ ہے وہ کس شان سے زندہ رہتا ہے۔ اگر وہ عمدہ طریقے سے رہے تو ہی اس کا رہنا قابل قدر شمار کیا جاتاہے۔
فخر،غرور اور تکبر احساس برتری لاتی ہیں جو درحقیقت فرد میں مزید خواہشات پیدا کرتی ہیں اور اپنا مقام برقرار رکھنے کے لئے انسان کو مزید تناؤ کا شکار کردیتی ہیں۔ اس لئے احساس برتری انسانیت کا مزید تاریک پہلو بن جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسے طریقے اپنائے جائیں جو ان خواہشات کو کم کریں یا پیدا نہ ہونے دیں تو یہ عمل انسانیت کے لئے سود مند ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مذہب اور جسمانی مشقت کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔
شوپنہار اس موضوع میں اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہندہ مت اور بدھ مت میں اذیت اور تکالیف کا تصور اس کے عقیدے کی بنیاد ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ذاتی مشکلات کے پیش نظر بین ا لاقوامی سطح پر معاملات کا جائزہ لیا جائے تو چارسُو اضطرابی کیفیت ہی دکھائی پڑتی ہے۔ اقتدار، اقتصادی استحصال، علاقائی غلبے کے لئے نفسیاتی اور جنگی حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ فریقین بلا امتیاز فاتح اور مفتوح کے اپنے اپنے نہ ختم ہونے والے مسائل میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی ریشہ دوانیاں ازل سے ہیں اور ا بد تک رہیں گی۔ انسانیت دکھی تھی، دکھی ہے اور دکھی رہے گی۔ اس نے دکھوں کے نجات کے لئے ذاتی فطرت اور خواہشات کی شناخت کا ذکر کیا۔
ذاتی فطرت کی حسابی شناخت جو کہ جاندار اشیاء میں پائی جاتی ہیں، کا فوری علم مشاہدہ باطن سے ہوتا ہے لیکن یہ شناخت صرف زیست وجود کی نفی (نروان) میں ہے جو کہ خواہش کی تصدیق ( سمسارا) کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ وجود زیست کی تصدیق اس مظہریاتی دنیا میں تمام وجود اور اشیا ء میں تنوع، انفرادیت، انائیت، نفرت، ظلم جنم لیتے ہیں۔ (WWR II 610-14 Ch XLVIII)۔ شوپنہار نے سادھوؤں ، سنتوں، جوگیوں اور تارک الدنیا لوگوں کا مطالعہ کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ راہِ نجات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
شوپنہار نے کہا کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ ہماری ضروریات اور حیران کن فطرت ان کے لئے، جنہوں نے دنیا کی خواہشات پر قابو پا لیا ہےاور جبلت زیست اور بذات خود زیست (وِل اِن اِٹ سیلف) ختم کر دی ہے، وہ اپنے خاتمے کا انتظار کرتے ہیں اور مرنا چاہتے ہیں لیکن ان میں بے چینی نہیں پائی جاتی۔ وہ مطمئن اور خوش ہوتے ہیں جو کہ عام لوگوں کے بر عکس احساسات ہیں اور ان سے بالا تر ہیں۔
اسی کے نتیجے میں زندگی کے ساتھ مستقل نوعیت کی تکالیف اور
انسانوں کی موت یقینی ہے۔ اس نسبت سے دوری اور اس کا انکار وجود زیست
(Will to Live) اس کو دیگر نسلوں سے الگ کردے
گا۔ ہم اس کے تحت بیان کر سکتے ہیں کہ کون سی شئے آزاد ہونی چاہئے اور
کون سی خواہش زیست (W.W.R)۔
ظاہری بات ہے کہ یہ مظاہر پرستی اور وجود جو کہ سمسارا کو ایک ُخدا ٗ کا نام دیتا ہے،اُس کو ہندو سادھو ؤں نے نروان کا نام دیا لیکن ان کا دنیا سے تعلق سمسارا کے بھکشوؤں سے زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ بدھ مت میں تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر ایک شخص کی طرح جس سے ہم رابطہ قائم نہیں کر سکتے، کے بارے میں ایسا مقصد اپنانا ہی نہیں چاہئے جو اس کی عزت و وقار اور قدر و قیمت میں اضافے کا تعین کرسکے یا پیمائش کر سکے۔ اس لئے ہمیں اس شخص کے ظلم و ستم کو بھی نہیں دیکھنا چاہئے اور نہ ہی اس کی حدودکا تعین کرنا چاہئے ۔ نظریات کو دیکھنا چاہئے نہ کہ اس کی گمراہی کو کیونکہ ایسا کرنے سے ہم میں ان کے لئے نفرت اور حقارت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارا یہ مقصد ہونا چاہئے کہ ہم ان کا بھلا کیسے کر سکتے ہیں۔ ان کے دکھوں کو کیسے دور کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ہمدردانہ رویہ کیسے رکھ سکتے ہیں۔ اس عمل سے خواہشات کے تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔
بدھوؤں کے نزدیک دنیا ایک جہنم ہے اور اس میں بسنے والے انسانوں کی روحیں زخم خوردہ ہیں۔ وہ شیطانوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہندومت کے اپنشد براہمیت میں دنیا گناہوں کا گہوارہ ہے۔ اسے کفارہ ادا کرنا ہوتا ہے جو اسے تنہا رہ کر ہی ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ اس وقت تک گوشہ نشین رہتا ہے جب تک کہ وہ ان دنیاوی نجاست سے نجات حاصل نہ کر لے۔
اس کے برعکس بدھ مت میں دنیا ایک ناقابل بیان انتشار کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی ہے۔ انسان کو ہر وقت توبہ کرنی چاہئے۔ یہ لادینیت کو تسلیم کرتا ہے۔ براہمیت میں یہ پایاجاتا ہے کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے جس نے کائنات بنائی ہے، اس لئے ہر اُس چیز کی عبادت کرنی چاہئے جو فائدہ پہنچا سکتی ہو یا نقصان پہنچا سکتی ہو۔ بدھ مت کے نزدیک عیسائیت اور اسلام یہودیت کی کوکھ سے پھوٹے۔ اسلام وحدیت جبکہ عیسائیت خدا میں شریک کے عقیدے پر قائم ہے جبکہ بدھ مت کے نزدیک کائنات کسی نے نہیں بنائی ملکہ موسموں کے تغیر و تبدل، زلزلوں، طوفانوں وغیرہ سے بنی ہے لیکن جہاں تک بنیادی یا ثانوی محرکات کا تعلق ہے، اس کی مذہبی عقائد کی پابندی کر کے ان کو کم کیا جا سکتا ہے۔
قصہ مختصر ہر شخص اپنی سہولت، عظم اور موقع محل کی مناسبت سے اپنی خواہشات کو انفرادی سطح پر آہستہ آہستہ اپنی مرضی کے تابع کر سکتا ہے جو ایک واپسی کا رخ پلٹنے والا عمل ہے۔ تبدیلی کے بعد خواہشات پھر سے اس پر اثر انداز ہوتی ہیں اور وہ پھر سے انہیں روکنے میں لگ جاتا ہے۔ ٹریجڈی آتی ہے تو اس کے اثرات کو کوشش سے دور دھکیلا جاتا ہے اور دوبارہ سے ان کو سوچ سمجھ کر مٹانے کی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اگر یہ تصور واضح نہ ہو پائے،مشکوک ہی رہے، کوئی حل نظر نہ آئے اور بے بسی طاری رہے تو اس وقت موت واقع ہو جاتی ہے۔ موت کے وقت تمام قوتیں جو ہمارے باطن میں موجود ہوتی ہیں اور انسان کی ہمیشہ رہنے والی قسمت کا تعین کرتی ہیں، باہمی مل کر عمل سر انجام دیتی ہیں۔ ان کے مابین کشمکش ایک ایسا راستہ ہے جو اس کو پاٹنا پڑتا ہے۔ اس لئے تمام رنج و غم اور دیگر تاثرات کے ساتھ جو اس کے اندر پائے جاتے ہیں، باہمی طور پر مستقل حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور ناممکن اقدامات کی بدولت موت واقع ہو جاتی ہے۔ تاہم وہ معاملات جن کی بدولت اتنے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،عہد اور کوشش پیہم سے کم کئے جا سکتے ہیں۔
خواہش کو کس طرح کم سے کم سطح پر رکھا جا سکتا ہے،
پر شوپنہار نے کچھ تجاویز پیش کیں جو درج ذیل ہیں:
(4.1) مشرقی فلسفہ اور اصول معقول دلائل ( Eastern Philosophy)
شوپنہار ایک ملحد تھا لیکن اس نے تمام مذہبوں کا
گہرائی میں مطالعہ کیا ہوا تھا۔ ہندو مت،بدھ مت، زبور (حضرت داؤدؑ) اور تورات
(حضرت موسیؑ) قبل از مسیح کے مذاہب تھے لیکن اس نے ہندو مت، بدھ مت اور عیسائیت کے
عہد نامہ قدیم کے کچھ عقائد لئے اور اسے اپنے فلسفے میں شامل کیا۔
اس نے کچھ مشرقی مذاہب کا جائزہ لیا تو ان میں سے چند ایک میں اسے ایسے اہم عقائد ملے جس کے ذریعے خواہش کے بغیر زندگی گزاری جا سکتی تھی، تو اپنے نظریے کی سچائی ثابت کرنے کے لئے جو وہ مشرق کے سفر سے پہلے بیان کر چکا تھا، کا گہرائی میں پڑھا اور ایسے ثبوت حاصل کئے جو اس کے نظریے کی تصدیق کرتے تھے۔ ان عقائد میں رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے اپنی خواہشات کی نفی کی جا سکتی تھی اور ان اقدام کو بڑی تحسین سے دیکھا جاتا تھا۔ شوپنہار نے انہیں اپنے نظریے میں شامل کرکے اُس کو تقویت دی۔ اس کے پیش روپنی اپنی ثقافت اور عقیدے کے مطابق نظریات پیش کرتے تھے جو علاقائی تھے اور محدودعلاقے تک ہی ان کا اثر تھا۔
شوپنہار نے اپنے نظریے میں مشرقی علوم کو مغربی علوم میں شامل کیا اور بتایا کہ دیگر ثقافتوں کے علوم بھی انسانیت کی بہتری کرتے ہیں۔ اس نے دو طرفین کے اختلاط سے اپنا نظریہ بنایا جس نے بین ا لاقوامی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بدھ مت اور ہندو مت میں محبت بنیادی طور پر لافانی ہونے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ دنیاوی تکالیف اور محبت میں جنونی کیفیت عمومی دنیا وی زندگی سے دلچسپی کم کر دیتی ہیں اور اپنی ذات کو محبوب کے وجود میں گم کردیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھوک مٹ جاتی ہے اور دنیا کی قدرومنز لت کم ہوتی جاتی ہے۔
(4.11) ہندومت
شوپنہارنےہندومت کا مطالعہ کیا تو اُس میں اُسے ویدانیت،اپنشد اور تناسخ ارواح بہت مفید لگے جو راہِ نجات میں خواہشات میں مدد دے سکتے تھے۔ اس نے انہیں خصوصی طور پر اپنے فلسفے میں شامل کیا۔ ویدا کا مطلب علم ہے جو قدیم ترین مذہبی کتابیں ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے ہندو داناؤں نے سن کر اگلی نسلوں تک پہنچایا۔ ویدوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کا نام شروتی اورسمرتھی ہے۔
شروتی میں چار وید ( رگ ویدا، یاجور ویدا، ساما ویدا اور اتھواویدا )شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اس میں اپنشد بھی شامل ہیں۔ یہ ایک کتاب نہیں بلکہ مختلف صحیفے ہیں جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ وہ اُن کی طرز حیات متعین کرتے ہیں۔ خانگی، معاشرتی، اخلاقی اقدار اور رسوم و رواج بیان کرتے ہیں۔ ویدات بنیادی طور پر بھجنوں اور منتروں پر مشتمل ہیں۔ یہ روز مرہ زندگی کے اصول بیان کرتے ہیں۔ ان میں صوفیانہ اور فلسفیانہ عقائد ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں کہ پاکیزہ زندگی کیسے گزاری جائے۔ ویدات کے چار حصے ہیں۔ سب سے قدیم حصہ (سیم ہیتاس) جس میں بھجن اور براہمنیت کے اصول ہیں۔ اس میں پیدائش، شادی اور موت کی رسومات کے بارے میں بیان کیا گیا ہے مثلاً پیدائش کے وقت جنم پتری بنانا، شادی کے وقت کنڈلی ملانا یا موت کے وقت مردوںکوجلانا وغیرہ۔
اپنشد ویدا کا فلسفیانہ رخ ہے۔۔ اس کے ایک حصے میں روح کو بیان کیا گیا ہے جسے ُ براہمیت ٗ کہتے ہیں۔ روح (آتما) کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں تناسخ ارواح کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور روح بھی ہے جو کہ مذہبی تعلیمات کے تحت روح کی تشریح کرتی ہے۔ اسے انہوں نے بین الاقوامی روح کا نام دیا جسے مذہبی عقیدے میں ُ براہمیت ُ کہا جاتا ہے۔
سمرتھی وہ مقدس صحیفے ہیں جنہیں حفظ کیا جاتا ہے۔ یہ قانون،اخلاقیات اور تاریخ سے متعلق ہیں جن میں مہا بھارت اور راما ئن اہم شمار ہوتی ہیں۔ ہندو مت کے مقدس مقامات جہاں وہ پوجا کرتے ہیں وہ دریا، پہاڑ، مندر اور کئی اہم جگہیں ہیں جو وہ پاکیزہ قرار دیتے ہیں اور وہاں جا کر حج کرتے ہیں۔ ان میں ذات پات کا نظام رائج ہے جو کسی وقت مصر میں بھی رائج تھا۔ برہمن یعنی عقل (دانا، پروہتوں، اساتذہ وغیرہ)، ویش یعنی بازو (جنگجو)، کھشتری یعنی دھڑ(تاجر، جاگیر دار) اور شودر یعنی سب بوجھ اٹھانے والی ٹانگیں (ہاری، مزدور، خاکروب وغیرہ) جو آج بھی رائج ہے۔
(4.12) بدھ مت
شوپنہار بدھ مت سے بھی بہت متاثر تھا۔ مہاتما بدھ کے اس قول کو اس نے اپنے فلسفے میں شامل کیا جس میں اس نے اپنے پیروکاروں کو تنبیہ کی تھی کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ پیدائش دکھ ہے، بڑھاپا دکھ ہے،بیماری دکھ ہے، مرنا دکھ ہے، پژمردگی اور نا امیدی دکھ ہے، ناگوار حالات کا سامناکرنا دکھ ہے، اس چیز کو حاصل نہ کرپانا جس کی اسے خواہش ہو، دکھ ہے۔ شوپنہار نے انسانی فطرت کو اسی انداز میں بیان کیا۔ اس نے انسانی زندگی کا تاریک رخ بیان کیا ہے جو انسانیت کا روئے زمین پر پیش کرنے کا قنوطی انداز ہے۔ اسکی یہ بات سچ ہے کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ بڑھاپا، موت، استرداد، مایوسی و نامرادی، خواہشات کی ناکامی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ یہ تلخ حقائق ہر ذی روح کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
ویسے حقیقت میں یہ بات صحیح نہیں کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ دکھوں کا گھر ہے۔ اُس میں اور کچھ نہیں، دکھ ہی دکھ ہیں، کے تصور میں ایسا ضرور ہے کہ حالات قابو میں نہ رہیں تو مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ شوپنہار اس بات پر یہ دلیل دیتا ہے کہ بعض اوقات ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ سکون میں ہے لیکن اسکی یہ کیفیت مستقل نہیں ہوتی۔ بہت لمحاتی ہوتی ہے۔ کچھ دیر بعد ہی جسمانی، معاشرتی، اخلاقی، معاشی، قانونی وغیرہ ضروریات کی وجہ سے خواہشات دوبارہ سر اٹھاتی ہیں اور پھر دکھوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
شوپنہار نے بدھ مت کے چند اہم عقائد اپنے فلسفے میں شامل کئے جس میں دھرما،آتما، مجاتما، مایا،سچائی کے سنہری اصول(دوکھا،سمدھیا، نرودھا،ماگا)،نروان،مراقبہ اور تناسخِ ارواح ہیں۔
دھرما کا تعلق انسانی تکالیف کے ساتھ ہے۔ انسان ان پر غلبہ پا سکتا ہے بشرطیکہ اس میں عزم اور قوت ہو۔ اس میں مراقبہ کی نوعیت اہم ترین ہے۔ اگر مذہبی رہنما اصولوں پر عمل کیا جائے تو خواہشات سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تناسخ ارواح کا تعلق گھومنے کے ساتھ ہے۔ پہیے کی علامتی حیثیت بدھ مت میں بہت زیادہ ہے جس کا تعلق انسانی حیا ت اور موت سے ہے۔ اس کے نزدیک زندگی ایک پہیہ ہے جو چکر کھا کھا کر آلام پیدا کرتا رہتا ہے اور انسان رنج و غم برداشت کرتے کرتے مر جاتا ہے اور پھر دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ اگلے جنم میں اس کی شکل دیوی، دیوتا، انسان، بھوت پریت،بڑے معدے،بڑے پیٹ،جانوروں، مگرمچھ وغیرہ کی صورتوں میں پیدا ہوتا ہے جو ہمیشہ بھوکے ہی رہتے ہیں۔ ایسا جنم لینے والے لوگ دوزخی شمار کئے جاتے ہیں۔
شوپنہار نے بدھ مت میں گہری دلچسی لی۔ اس میں اسے اپنے بچپن کے ذاتی خیالات نظر آئے۔ اس نے زین مت، شنٹو مت اور بدھ مت کا عملی طور پر خود پر اطلاق کیا۔ جنگلوں میں روائتی مراقبہ کے ذریعے کس کرما کا تعلق نیکی بدی کے تحت زندگی گزارنے کے ساتھ ہے،کے بارے میں مکمل آگہی حاصل کی ۔ کہا کہ منفی طرزِ عمل اختیار کرنے والے جب نیا جنم لیتے ہیں تو وہ کم حیثیت اور اچھوت کی شکل میں آتے ہیں۔
اس کے علاوہ اہم عقیدہ نروان ہے۔ جس سے مراد ذہنی سکون،طمانیت اور آرام کا میسر ہونا ہے۔ اور اس میں حواسِ خمسہ کو تربیت دی جاتی ہے۔ شوپنہار نے اپنے نظریے میں بدھ مت کے آٹھ عمدہ رہنما اصول بیان کئے جو کہ شانتی کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کو استعمال میں لا کر مخصوص نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نروان حاصل کرنے کے شوپنہار کے آٹھ اصول درج ذیل ہیں۔
صحیح نکتہ (رائٹ ویو)
صحیح تفکر (رائٹ تھاٹ)
صحیح گفتگو (رائٹ سپیچ)
صحیح عمل (رائٹ ایکشن)
صحیح بودوباش (رائٹ لاؤلی ہڈ)
صحیح کوشش (رائٹ ایفرٹ)
صحیح ذہنیت (رائٹ مائنڈفل نیس)
صحیح توجہ (رائٹ اٹینشن)
تناسخ ارواح بدھ مت میں کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ مرنے کے بعد دوبارہ جنم ہوتا ہے جس میں سابقہ مظالم کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نروان اس وقت ہی حاصل ہوتا ہے جب اس کی سابقہ جنم کی غلطیاں ختم ہو جائیں۔ ورنہ روح بے چین ہو کر بھٹکتی رہتی ہے۔ نروان کچھ بدھوؤں کے نزدیک جنت ہے۔ اس کے بعد سکون ہی سکون ہوتا ہے۔ نروان حاصل ہونے کے بعد اس کا دوبارہ جنم نہیں ہوتا۔
گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات میں یہ بات نہیں کی کہ خدا نے کائنات کیسے بنائی بلکہ اس نے دھرما کا نظریہ پیش کیا جو انسانی تکالیف کو دور کرتا ہے۔ اشیاء کے بارے میں وہ بیان کرتا ہے کہ تمام کی تمام ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں۔ اس کا یہ عقیدہ تبدیلی، تکالیف اور ذات کی نفی سے متعلق ہے۔
تبدیلی کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ یہ ایک لازمی امر ہے۔ کسی شئے کو ثبات نہیں۔ ہر شئے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ جسمانی، ذہنی اور جذباتی سطح پر تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اسلئے مستقل تحفظ حاصل نہیں ہو سکتا۔
روحانی سکون کی تلاش میں چونکہ گوتم بدھ کو بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اِس لئے اُس نے دنیا کو ْدوکھاٗ کہا۔ دنیا میں اگرچہ خوشی ہے لیکن لمحاتی ہے۔
ُ ذات کی نفیٗ میں اُس نے کہا کہ تمام برائیوں کی جڑ انا پرستی ہے۔ اُس نے ْمیںٗ کے تصور کو ختم کرنے پر زور دیا۔
یہ تینوں نقاط اگر باہمی طور پر مل جائیں تو یہ کسی شخص کی مکمل شخصیت بیان کرتے ہیں ۔ جیسے ایک گھوڑا گاڑی کے تمام اجزا جڑے ہوں تو ہی وہ مکمل ہوتی ہے۔ اگر اس کے اجزا کو پہیوں، دھڑ، طرفین کو الگ کردیا جائے تو وہ چھکڑا نہیں کہلائے گا۔ اسی طرح ُ میری ذات ٗ میں وہ عناصر مل کر شخصیت بناتے ہیں۔ گوتم بدھ نے اس کو ُ کندھار ُ کہا جو ایسی سرگرمیوں پر مشتمل ہیں جن کی حیثیت ارادی ہوتی ہے۔ راہِ راست پر رکھنے کے لئے گوتم بدھ نے چار سنہری اصول پیش کئے۔
مصیبتوں کی اچھی سچائی (دی نوبل ٹروتھ آ سفرنگ) کا انمول اصول
تکالیف کی بنیاد کے وقت اچھائی کا آغاز ( دی نوبل ٹروتھ آف دی
اوریجن آف سفرنگ) کا انمول اصول
مصیتوں کے خاتمہ کی نیکی پر مبنی سچائی( دی نوبل ٹروتھ آف سیسیشن آف سفرنگ) کا انمول اصول
وہ طریقے جن کی بنا پر مصیبتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے، کی سچائی پر مبنی ( دی ہول ٹروتھ آف دی وے لیڈنگ ٹو دی سیسیشن آف سفرنگ) کا انمول اصول
گوتم بدھ نے ہر انسان کے اندر تین ایسی قوتوں کی نشاندہی کی جو اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ قوتیں جارح ہو کر فرد کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
تمنا (Desire)
غصہ (Anger)
خبط (Delusion)
اب ہم مراقبہ کے بارے میں مختصر طور پر بیان کرتے ہیں۔
(4.13) مراقبہ (Meditation)
مذاہب عالم میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص خواہشات کا غلام بن جائے تو اس کو کبھی ذہنی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ اگر وہ نیکی اور سچائی کی راہ اپنائے تو اس کی تکالیف میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ سچائی اور طہارت اس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
ذہنی کیفیت مراقبے کے لئے اہم ہے۔ ہرشخص اپنے مزاج کے مطابق ہی مراقبہ کرتا ہے اور اپنی کیفیات کے مطابق ہی اسے محسوس کرتا ہے۔ مراقبہ اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہے اور اس کی بیش بہا اقسام ہیں۔ اس میں شئے اور وہ شخص جو مراقبہ کر رہا ہوتا ہے، ایک ہی نفطہ پر نظر مرتکز کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے خیاا لا ت میں وضاحت اور بصیرت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس میں خامیاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ انہیں مسلسل ریاض سے دور کرتا رہتا ہے۔
ہندو مت اور بدھ مت میں مراقبے کے موضوع کو شوپنہار نے اپنے فلسفے میں بنیادی حیثیت دی۔
شوپنہار نے ْمایاٗ کو اپنے اصول معقول دلائل کے تحت ثابت کیا کہ یہ مصائب سے آزادی اور نجات دلاتی ہے۔ جس وقت کسی شئے کے بارے میں کسی فردکو معلومات حاصل ہو جاتی ہیں تو اس وقت اس سے متعلق خواہشات کم یا ختم ہو جاتی ہیں۔ اس مظہر کو شوپنہار نے مایا کا نام دیا جو باطنی محرک کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ بعد میں شوپنہار نے ترمیم کر کے اسے بدھ مت کی اصطلاح ُسمسارا ُ کر دی۔
شوپنہار نے ہندومت میں سادھوؤں کے طرز حیات کا مطالعہ کیا اور ان کے اخلاقیات (سٹا ؤئیک ایتھکس) کے اصولوں سے اس نے ایسے تصورات لئے جس میں غور و تدبر، اپنے فیصلے کو معطل کرنے ، زاہد و تقوی کے طریقے بیان کئے گئے تھے جس کا ذکر اس نے (ڈبلیو۔ ڈبلیو آر والیوم ون ) میں کیا ہے۔ اس نے ان کا عملی جائزہ لیا اور کانٹ کی پیروی کی۔ اس کے علاوہ شوپنہار نے ویدانیت اور اپنشد سیکھے جو اس کے نزدیک الاپنے سے خواہشات کو کم کرتے تھے۔ اس کے ابتدائی دور کے نظریے میں یہ بہت اہم شمار کئے گئے۔ پھر شوپنہار کی توجہ بدھ مت کی طرف زیادہ ہو گئی جس میں اس نے تھراویدا اور ماہایانا ذرائع اور ماہا وسما کو اپنایا۔ اور اب یہی افکار اس کے فلسفے میں چھائے ہوئے ہیں۔ اس کی واحد سوچ خواہش زیست ہے جو امن کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ وہ جستجو ہے جو تمام تکالیف سے آزادی دلاتی ہے۔ اس کے نزدیک اخلاقیات اور ماورائی طبیعیات الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی شئے کے دو رخ ہیں۔
دکھ کو اس نے لغوی معنوں میں لیا ہے اور غیر مطمئن وجود کا یا زندگی کی کسی مخصوص قسم اور صورت کا ذکرنہیں کیا۔ علاوہ ازیں اس نے یونانی دیو مالاؤں اور بدھ مت کے تناسخ ارواح کے نظریات کوعیسائت کی طرح بدھ مت اور ہندو مت میں بھی دنیاوی خوشیوں کا منبع غرور اور تکبر قرار دیا اس لئے۔ اس نے کہا کہ ان برے افکار سے نفرت کی جائے تو ان سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اپنے وجود سے انکار مصائب ختم کرنے کا حل ہے۔
چین میں تین مذاہب ہیں۔ جین مت، شنٹو مت اور بدھ مت جو نہ تو وحدانیت کو مانتے ہیں اور نہ ہی کثیر خداؤں کو۔ ان کے نزدیک کائنات ماحولیات میں تبدیلیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے۔ ان کے عقائد کے مطابق نیک شخص کو آسانی سے موت آتی ہے اور وہ خوشی سے موت قبول کرتا ہے۔ ایسا شخص وجودِ زیست کی نفی کرتا ہے اور حقیقت میں بھی مرنا چاہتا ہے۔ اپنے وجود کو ہر قسم کی دنیاوی خواہشات سے الگ کر لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی پر کسی بھی دوسرے شخص کا عمل دخل نہیں اس لئے وہ خود کو مٹا دیتا ہے۔
بدھ مت مکمل طور پر متقی پن کو اہمیت نہیں دیتا جبکہ براہمنیت میں زاہدیت اہم ترین عقیدہ ہے۔ مرضی سے مراقبے میں بیٹھنا بدھ مت کا ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے جبکہ براہمیت کے نزدیک یہ پاک دامنی کی علامت ہے۔ بدھ مت میں رضاکارانہ غربت، عاجزی اور بھکشوؤں سے تابعداری، گوشت خوری نہ کرنا، سادہ ترین لباس پہننا اور تمام آسائشوں سے منہ موڑنا اہم شمار کی جاتی ہیں۔ وہ ہر کام فلاح وبہبود کے لئے اپنا مقصد بناتے ہیں۔ یہ مقصد وہ اپنے عقیدے کی تربیت سے سیکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ صحیح راہ کی اور سچائی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ خواہش زیست کو مٹا دیتے ہیں۔ ان کا مراقبہ اتنا سخت ہوتا ہے کہ وہ بغیر کھائے پئے دنوں بیٹھے رہتے ہیں۔ گھنٹوں سانس روک لیتے اور دل کی دھڑکن بند کر لیتے ہیں۔ اس طرح سے وہ اپنی خواہشات کو کم سے کم کر لیتے ہیں جس سے ان کی خواہش زیست مٹ جاتی ہے۔ گناہ آلود زندگی سے بچا جاتا ہے۔ وہ جب حتمی آزادی حاصل کر لیتے ہیں تو بدھ اس کو موکسا کہتے ہیں۔ بدھ اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ نروان کا تصور باطل ہے اور اسکے عقیدے سمسارا کی نفی ہے۔ اگر نروان کو ختم کر دیا جائے تو اس سے مراد یہ ہو گی کہ سمسارا میں کوئی واحدعنصر ایسا نہیں ہے جو نروان قائم کر سکے یا واضح کر سکے۔ یہ خالص اخلاقی پہلو ہے جس میں پرہیز گاری ہوتی ہے۔
بدھ مت کے گہرے اخلاقی اور مابعد از طبیعیاتی نظریات کے تحت وہ ظاہری شکل وصورت اور آرا پر نہیں جاتے بلکہ ان کی بھلائی سوچتے ہیں۔ یوگی ہی بہتر سمجھتا ہے کہ اپنی حسیات کی تربیت کیسے کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنی دنیا کو لازماً ان مشقوں کے ذریعے بھلا سکتا ہے، اگرچہ یہ عمل بہت کٹھن ہے۔ بدھوں کا سکیامنی گوشت خوری کی اجازت نہیں دیتا۔ انسان کو اس کے دنیاوی خول سے نکال کر روحانیت کی طرف راغب کرنا بہت مشکل عمل ہے۔ اس کے باطن اور لاشعور تک رسائی کٹھن ہوتی ہے اور لگن سے یہ مرحلہ طے کیا جا سکتا ہے۔
اب ہم تناسخ ارواح کے عقیدے کا ذکر کرتے ہیں۔
4.14) تناسخ ارواح (Reincarnation)
روح بنی نوع
انسان کا ایک لازمی حصہ ہے۔ جب تک زندگی ہے،روح موجود رہتی
ہے۔ زندگی کے آغاز سے آخری سانس جسم میں رہتی ہے۔ جب وہ جسم سے آزاد
ہوجاتی ہے تو اسے موت کہا جاتا ہے۔ جسم فانی ہے لیکن روح لافانی ہے۔ اس کا تصور اس
وقت سے پیدا ہوا جب انسان کی تخلیق ہوئی۔ کائنات سمجھنے میں فیلسوف نے دیکھا کہ جب ہم سوتے ہیں تو اس
وقت جسم سے کوئی شئے نکل آتی ہے اور خواب کی صورت میں مختلف کام کررہی
ہوتی ہے۔ کبھی پہاڑو ں، دریاؤں، سبزہ
زاروں، میں گھوم پھر کر پھر جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔
ہندو مت میں کہا گیا ہے کہ سوتے وقت
جب روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو
اس وقت جسم تقریباً مردہ حالت میں ہوتا
ہے۔ اگر کوئی شخص گہری نیند میں ہو تو اسے
فوری طور پر اٹھایا نہ جائے کیونکہ اس سے ہو سکتا ہے کہ گھبراہٹ میں روح واپسی کا رستہ بھول جائے اور انسان کی موت واقع ہو جائے۔
افلاطون بھی روح کی موجودگی تسلیم کرتا ہے۔ جسم اور روح دو الگ الگ نظام ہیں۔روح جسم کا سایہ ہے۔ مرنے کے بعد جسم سے پرواز کر جاتی ہے اور اس کا وجود برقرار رہتا ہے۔
شوپنہار نے نہ صرف روح بلکہ تناسخ ارواح کے فلسفے کو بھی قبول کیا ہے جس میں مرنے کے بعد کوئی شخص دوبارہ دنیا میں کسی نئے روپ میں پیدا ہوتا ہے۔ ہر دور میں مذاہب کا اثر و رسوخ رہا ہے۔ رسوم و رواج، لوک کہانیاں، لوک گیت، دیو مالائی قصے، عقائد، ریت روایات، طبو وغیرہ ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں اور پائے جاتے رہیں گے۔ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ وہ اس ماحول سے باہر نکلنا نہیں چاہتا کیونکہ شوپنہار کے مطابق اس کے دوبارہ جنم تناسخ ارواح یا ری انکارنیشن یا آواگون (Theory Of Transmigration) کی بدولت جو میلانات نومولود کے ذہن میں پیدائش سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں ودیعت کر دئیے گئے ہوتے ہیں، کی روشنی میں اسے علم ہوتا ہے کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ اسے اپنی خواہشات جو کہ مسلسل اور مستقل طور پر پیدا ہونی ہوتی ہیں، مخصوص وقت ( Time)اور موزوں مقام پر (Space) پر پورا کرنا ہوتا ہے لیکن وہ اس پابندی سے بچنا چاہتا ہے ۔
فطری طور پر نو مولود کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اسے دنیا میں دھکیل دیا جائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا ہےکہ اس کے آباؤ اجداد بھی ایسی مشکلات سے گزرے تھے اور وہ وصائف بھی چونکہ اس کی نسل میں منتقل ہو چکے ہیں اسلئے وہ اپنے والدین کے تجربات کی مدد سے جو خصوصیات اس کے ذہن میں رجحانات اور میلانات کی شکل میں منتقل ہو گئی ہیں،کے علاوہ اپنی روحانی تربیت سے انہیں کم اور ختم کرسکتا ہے۔ اس سے اس میں نسلی بقا کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ ایسے تصور کو اس نے مثالی انا (Ideal Ego)کا نام دیا۔ اس کے اس تعقل کو بعد میں کارل یونگ(Carl Jung)نے اپنے نظریے تحلیلی نفسیات (Analytical Psychology) میں تمثال (Archetype) کہا۔
ہندومت اور بدھ مت کے مذاہب نہ صرف روح کے تصور کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ کسی روپ میں نئے جنم کی صورت میں واپس آجاتی ہے۔ کئی مذاہب میں با ر بار جنم لینے کا تصور نہیں۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان کے نزدیک مرنے کے بعد قیامت کا تصورپایا جاتا ہے جس میں تمام مخلوق پھر سے زندہ کی جائے گی اور روز محشر ہر ایک کی نیکی بدی کا حساب ہو گا۔ ہر شخص کے دماغ میں کمپیوٹر نصب ہے جو منکر نکیر کی صورت میں نیکیاں اور گناہ ریکارڈ کرتا رہتا ہے۔ ایک ایک نس اس ریکارڈ کو پیش کرے گی اور اس کے کے بعد خدا ئے از و جل و برتر اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ اسے دوزخ میں ڈالنا ہے یا جنت میں۔۔۔ اور وہی زندگی دائمی ہو گی۔ جبکہ ہندو اور بدھ اس کی اور طرح سے وضاحت کرتے ہیں۔
شوپنہار نے کہا کہ گوتم بدھ سے پہلے بھی بدھ مت تھا اور اس کے پیروکار بہت زیادہ تعداد میں ہیں۔ اس میں لا دینیت کا تصور نہیں۔ عیسائیت، بدھ مت اور ہندو مت موت کو تسلیم کرتے ہیں۔ براہمنیت میں تناسخ ارواح کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ بھکشو، سادھو، جوگی، درویش، سنت، صوفیا سخت تربیت کے بعد نروان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی تمام خواہشات مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوسکتیں کیونکہ زندہ رہنے کے لئے کچھ ضروریات لازم ہیں۔ اگر تمام خواہشات ختم ہو جائیں تو اسکا مطلب موت ہے۔ اسلئے زندہ رہنے کیلئے خواہشات کو کم سے کم سطح پر رکھنا پڑتا ہے۔ ا نسان یہاں اپنا آپ چھوڑ دیتا ہے اور تمام ارضی معاملات (Mundane) سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ اذیتوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور انفرادی طور پر بلند ترین اخلاقی درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ جسے ماگا سکرپچر کہتے ہیں۔ وہ اپنے حال میں مگن رہتا ہے جو ایک نیک مقصد ہے ۔ جب ایسا شخص اس پاکیزگی کی حالت میں مرتا ہے تو اس کو مکتی حاصل ہو جاتی ہے اور وہ دوبارہ جنم نہیں لیتا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ بدھ مت میں دوبارہ جنم لینے کی کوئی حد متعین نہیں۔ وہ اس وقت تک نئے روپ میں آتا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنی غلطیوں کو سدھار نہ لے۔
براہمیت تناسخ ارواح کے نظریے کو مانتی ہے۔ َ اس کے نزدیک موت کے بعد روح واپس کسی اور روپ میں آجاتی ہے۔ نئی روح ایسی شئے میں ظاہر ہوتی ہے جس طرح کے اس نے اپنی پہلے زندگی میں اعمال کئے ہوتے ہیں۔ اگر وہ بہت ظالم تھا اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا، تو اس کا نیا روپ ایک اچھوت اور غریب شخص کی صورت میں آئے گا اور اس کے کرموں کی سزا اسے نئے جنم میں مل جائے گی۔ اسی طرح وہ سزا کے طور پر کسی ایسے جانور کی شکل میں دوبارہ جنم لے سکتا ہے جس طرح کے کام اس نے پچھلے جنم میں سر انجام دئیے۔ ان کے نزدیک قیامت کا کوئی تصور نہیں بلکہ ان کی نیکیوں اور برائیوں کا انجام اسی دنیا میں نئے جنم کی صورت میں مل جاتا ہے۔ ان کے نزدیک سات جنم ہوتے ہیں۔ ان سات جنموں میں اگر وہ زاہدیت کے اصولوں پر قائم ہو جاتا ہے تو اس کو نروان حاصل ہو جاتا ہے اور مکتی مل جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ ان جنموں میں وہ حاصل نہیں کر پاتا تو اس کی روح بھٹکتی رہتی ہے۔
اپنے اعمال کے مطابق نیا جنم لینا ایک انتہائی نظریہ ہے۔ مگرمچھ، کوڑھی، اچھوت، ذہنی مریض وغیرہ کی صورت میں دوبارہ روپ میں آنا ایک زیادتی ہے کیونکہ ایسے اشخاص کا بغیر قصور کے دنیا میں واپس آنا ان کے ساتھ ظلم ہے۔ دوسرا یہ کہ کسی شخص کا اپنی زندگی میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور اس کی بنا پر نیا جنم لیا جاتا ہے، وہ ایک الگ شخصیت ہے۔ دوبارہ جنم کے بعد اس کی شخصیت الگ ہو گی۔ پہلے جنم اور دوسرے جنم کے وصائف الگ ہوں گے۔ وہ دو علیحدہ ہستیاں ہوں گی۔ علاوہ ازیں وہ نئی ہستی جن لوگوں کے ساتھ زندگی گزارے گی، وہ بھی مختلف ہوں گے۔ اسلئے بدھ درمیانی رستہ اپناتا ہے۔
اب ہم شوپنہار کے جمالیات ، علوم و فنون اور اصولِ معقول استدلال کے متعلق مختصراً بیان کرتے ہیں۔
فن تعمیرات،باغبانی،حسین منظر کی مصوری، جانوروں کی مصوری،تاریخی مصوری اور
مجسمہ سازی،شعر وشاعری، موسیقی،محبت ہیں۔ ان تمام علوم و فنون میں تخیل بنیادی
کردار ادا کرتا ہے۔جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔
فنون لطیفہ ایک لمحاتی تجربہ ہوتا ہے جس میں فنکار خواہش زیست کی چیرہ
دستیوں اور جا ئز و ناجائز مطالبات سے کنارہ کشی کر لیتا ہے۔اس طرح
علوم و فنون انسان کے لئے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے عمل کے لئے تحریک
پیدا کرتی ہے۔ اور زندہ رہنے کی خواہش کی رضاکارانہ طور پر نفی کرتی ہے جو کہ
شوپنہار کے نزدیک ایک عظیم مقصد حیات ہے۔ فنکار اپنے تخیلات کو بروئے کار لا کر
اپنی مشکلات کو اصل اور خالص شکل میں پیش کرتا ہے۔ خواہش زیست کو عارضی طور پر ترک
کر دینے سے فنکار کو ان تکالیف پر سوچ بچار کا موقع ملتا ہے اور وہ ان کو انوکھے
انداز میں ایسے پیش کرتا ہے کہ دوسروں کی فوری توجہ حاصل کر لیتا ہے۔وہ اسے سراہتے
ہیں۔ اس تخلیق پر سر دھنتے ہیں۔ فنکار کا پیغام لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ
اپنے دکھوں کو ان فن پاروں میں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔اس طرح تخلیق اور فن
میں ایک رومانوی تعلق پیدا کر لیتا ہے۔ ہر نئی سوچ کے ساتھ نئی تخلیق پیدا ہوتی ہے
اور یہ صدقہ جاریہ رہتی دنیا تک جاریرہتا ہے۔ شاعری، ادب، سائنسی
تخلیق۔مجسمہ سازی، منظر کشی وغیرہ اسکی عام مثالیں ہیں۔
علم کی وہ قسم جو وجود کو تمام معاملات اور تنازعات سے آزاد کرتی ہے اور ہمیشہ سچ شمار کی جاتی ہے اس کے لئے شوپنہار نے تخیل (Idea) ا کی اصطلاح استعمال کی۔ تخیل غوروفکر کے ذریعے جو تخلیق کرتا ہے اور اس عمل میں معقول وجوہات کے اصول استعمال نہیں ہوتے۔ اس وقت جو سوچیں ذہن میں آتی ہیں وہ خواہش کا بلا واسطہ اظہار کرتی ہیں، وہ اس وقت کے لئے مخصوص اشیاء کہلاتی ہیں۔جن میں بذات۔خود۔شئے۔والی معروضیت پائی جاتی ہے۔ تفکر کے اس عمل یعنی تخیلا ت میں اس وقت مقام اور وقت میں معروضیت کی بنا پر موزوں اسباب و علل پایا جاتاہے۔ اصول معقول وجوہات کی بنا پر یہ طے ہے کہ علم ہمیشہ خواہش کے ماتحت رہتا ہے۔
شوپنہار نے تخیلات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عام لو گ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں جو معلومات کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں۔اگر ایسی معلومات یا فن جو ان کیلئے اجنبی ہوں یا ان کی معلومات سے مطابقت نہ رکھتا ہو، کو قبول نہیں کرتے جیسے کہ نئی تخلیقات، سائنس دان یا محقق مروجہ علوم سے ہٹ کر کوئی نئی معلومات پیش کرتے ہیں تو وہ سابقہ معلومات میں شامل ہو جاتی ہیں اور ایک جزو کے طور پر موجود ہوتی ہیں لیکن ان میں اسباب و علل میں تعلق ثابت نہیں ہو پاتا اس لئے خواہش کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور اس دوران تخلیق کار جو کام بھی کرتا ہے، اس میں اصول معقول وجوہات کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ اس دوران جو بھی فنکاری ہوتی ہے،وہ لا شعوری ہوتی ہیاور اس میں خواہش کا تعلق نہیں پایا جاتاا ور فن کا اظہار بلا خواہش کے ہوتا ہے۔شاعری، موسیقی، مصوری میں شعوری دلائل نہیں ہوتے اور خواہش معطل ہو چکی ہوتی ہے۔کیوں، کب اور کہاں کے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔اور فنکار صرف کیا؟ پر ہی توجہ مرکوز کرتا ہے۔( WI 178)۔ دوسرے معنوں میں شخص مکمل طور پر اپنے کام میں کھو چکا ہوتا ہے۔ وہ مدرک (Perceiver) اورتخلیق، مدرکہ (Perceived) میں تفریق کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور مکمل دھیان ایک واحد عکس (تخلیق)کی طرف ہوتا ہے۔ اس دوران جو تخلیق بنتی ہے وہ کوئیمخصوص تخیلات کو فنون میں بطور شئے استعمال کرنے کے متعلق لکھا کہ جب کوئی فنکار ان کو جب خواہشات کو ظاہرکرتا ہے تو وہ اصول معقول وجوہات کے تحت ہی پیغام رسانی کرتا ہے۔ کیونکہ اس طریقے سے پیغام بہتر طریقے سے وصول کرنے والے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ خصوصی اشیاء شاذونادر ہی تن تنہاظاہر ہوتی ہیں کم و بیش اکثر وہ مرکب ہوتی ہیں اور ان میں ربط پایا جاتا ہے۔ فنکار اپنی مشکلات کو اپنے تخیلات،تجربہ، علم، عقل، تجربے اور بصیرت کی بنا پر تمام صورت حال کو منفرد انداز میں پیش کرتا ہے جس سے نہ صرف وہ اپنے اضطراب کو دور کردیتا ہے اور دوسری طرف اس کو دیکھنے والے ا فراد اس نظارے یا شاعریامصوریامجسمے وغیرہ کو دیکھ کر اپنی مصیبتوں کی تصویر کشی براہ راست یا بلا وا سطہ طور پراس فن پارے میں پاتی ہے تو اسے سراہتی ہے۔ انکے زخموں پر مرہم پاشی ہو جاتی ہے.اس سے فلاح عامہ ہوتی ہے۔ایسے خیالات کو افلاطونی تخیلات کہا جاتا ہے۔خواہش میں افلاطونی خیالات خود کو معروضی بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کا وجود فن پارے کی صورت میں ظاہرہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ خواہشات اور تخیلات کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔
شوپنہار کے نزدیک دنیا دکھوں کا گڑھ ہے۔جس میں شخص خواہشات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور انکی تسکین کیلئے تمام عمر اذیتیں جھیلتا رہتا ہے۔زندگی کے اس دور میں چند لمحات ایسے بھی آتے ہیں جس میں وہ راحت اور آرام بھی محسوس کرتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ وہ دنیاوی تسکین پائیدار نہیں ہوتی اورکچھ عرصہ بعد کسی شکل میں پھر ظاہر ہو جاتی ہے لیکن علوم و فنون ایسا وسیع شعبہ ہے جوسب پر حاوی ہے اور تمام مادی اشیاء کو نظر انداز کر دیتا ہے جو اسکی تکالیف اور لمحاتی لطف کے دوران واقع ہوتی ہیں۔تفکر کے اس عمل میں فنکار کا تعلق مادی اشیاء سے ختم ہو چکا ہوتا ہے اور اسکا تخیل تمام اشیاء سے الگ تھلگ اپنی دھن میں مگن سب باتوں سے بے نیاز اپنے تخلیقی عمل میں مصروف رہتا ہے۔اس مرحلے میں وہ تخیلات کے سحر میں میں مبتلا ہوتا ہے۔اسکی من مانیاں، اور خواہشات ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔وہ تمام اشیاء سے بیگانہ ہو کر وہ اپنی تخلیق پر سوچتا اور کام کرتا ہے۔کسی اور چیز کی سدھ بدھ نہیں پائی جاتی، دنیاوی معاملات سے بیگانہ ہو کر وہ فن پارے کی تخلیق کرتا ہے، دنیا داری او ر دیگر ایجنڈے اس وقت تک معطل رہتے ہیں جب تک کہ اسکا تخلیقی مشن مکمل نہیں ہوتا۔
شوپنہار اپنی اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ شاہکار کی تخلیق میں فطانت لازمی عنصر ہے لیکن صرف ذہانت ہی کافی نہیں بلکہ صنف میں مخصوص لیاقت کا پایا جانا بھی لازم ہے۔وہ اپنی قابلیت سے عام سی اشیاء میں بھی ندرت، انوکھا پن، پرانی اشیاء میں ترمیم و اضافہ اور نئی اختراع کر تاہے۔ایک فطین علم میں عام لوگوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ حال سے مستقبل کی طرف دیکھتا ہے۔وہ صرف یہ سوچتا ہے کہ اسکی تخلیق کوکسی موضوع کے تحت لایا جا سکے۔ بالکل اس طرح جیسے کہ ایک عام انسان بیٹھنے کے لئے مناسب فرنیچر دیکھتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔اسکے علاو ہ تخلیق کار کے نزدیک عام اشیاء کو عنوان کے تحت لانا ہی عام ادراک کا کام ہوتا ہے اور مکمل ہونے کے بعد اسکی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ہمیں تجریدی اور تعقلاتی معلومات زیادہ گہری،اور دل چھو لینے والی ہوتی ہیں۔وہ موجودی صورت حال سے آگے کی فطین کی ایجاد ماسوائے مکمل ترین معروضیت کے اور کچھ نہیں۔ فنکار ہمیشہ ادراک کرنے والی حالت میں رہتا ہے۔خود کو اپنی تخلیق میں پوری طرح گم کر دیتا ہے۔فطین کی تخلیق ماسوا ئے مکمل ترین معروضیت کے سوا کچھ نہیں۔ (WI 185)۔ دوسرے الفاظ میں تخلیق کار اپنے پراجیکٹ میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ اسے ارد گرد کاہوش نہیں ہوتا۔ اپنے ذہن میں پیدا شد ہ تخیلات اور اس میں پائی جانے والی دلچسپی اور بصیرت میں سے ہی حاصل ہو پاتی ہے۔فطین کا مطالعہ شوپنہار کے نزدیک بہت اہم تھاکیونکہ اس نے اپنے مقالات میں اسکا ذکر کئی بار کیاہے، ایک جگہ پر تو فطین اور ذہنی مریض میں بھی تعلق قائم کرتا ہے۔
شوپنہار کے نزدیک ایک فطین شخص وہ ہے جس میں اتنی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اشیاء کے مابین باہمی ربط جو ایک عام شخص قائم کرتا ہے، کو نظر انداز کرے۔ یہ اصول معقول وجوہات کے تحت ایسی چیز پر اسے توجہ مرکوز کرنا کہ تخلیق کی جا سکے۔ وہ حقیقی باطنی ایک عام علم ہے۔کسی چیز پر اسلئے توجہ مرکوز کرنا کہ تخلیق کی جا سکے۔وہ حقیقی باطنی خیال کے تحت نئی چیز ایجاد کرتا ہے یا پہلے سے موجود اشیاء میں بہتری لاتا ہے۔ وہ ت مختلف اشیاء کے درمیان تعلق تعلق قائم کر کے عصری تصورات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔وہ اپنے خیالات کے مابین تعلق قائم کر کے عصری تصورات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ وہ اپنے خیالات کے درمیان لزوم معلوم کرتا ہے۔اس میں یہ لیاقت پائی جاتی ہے کہ اسکے باطنی خیالات کی پو ری نسل میں نمائندگی کیسے کرنی ہے۔ مثلاً وہ معلومات ذخیرہ کرنے کا خالص فردبن جاتا ہے اور وہ شخص بننا ترک کر دیتا ہے۔جو غورو فکر کے واسطے سے فارغ ہو جاتا ہے جو کہ ایک حقیقی انسان میں میں موجود ہوتا ہے، ایک کمزور اور لاغر شکل میں جنکی اصلاح اور ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے، اسکو اس حد تک قابل کر دیا جاتا ہے کہ وہ بالکل صحیح خیال میں تبدیل ہو جائیں ا ور یہ عملی تخلیق کار کی ذہانت اور غور و فکر کی وجہ سے طے پاتا ہے۔اسکا مشاہدہ عام لوگوں کی نسبت انتہائی گہرا ہوتا ہے۔اسکی سوچ عمیق ہوتی ہے اور دوسروں کے سامنے اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ عام لوگ انہیں سمجھ سکیں۔ (WI 194)۔
فنکار عام حالات کے کسی رخ کو ایسے انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے جس پر ناظرین نے ان پر پہلے توجہ نہیں دی ہوتی یا کم توجہ دی ہوتی ہے۔وہ اپنے اچھوتے افکار کو دیگراشیاء میں بھی منتقل رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شوپنہار کہتا ہے کہ مصوری ایک ایسا فعل ہے جو بار بار دہرایا جا تا ہے۔وہ مسائل کواپنی نظر سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسکی یہ صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے لیکن وہ اس تحفے کو تعلیم و تجربے سے نکھارتا ہے۔تاہم فطری صلاحیتوں کے باوجود تکنیکی معاملات میں حاصل کرنا بھی ضروری شمار کیا جاتا ہے۔(WI 195)۔
شوپنہار کے نزدیک اذیت،، تکلیف اور آلات کی جڑیں طلب اور خواہشات میں ہوتی ہیں جو جبلی ہیں۔ جمالیا تی حس اور فنون ان سے چھٹکارا دلاتی ہے۔فنکار جب کسی اپنی دنیاوی خواہشات کو کم سے کم کردیتی ہیں۔جس وقت فنکار اپنی تخلیق میں موجود ہوتا ہے تو اس پر وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے۔اس الہامی حالت میں فنکار کی خواہشات اپنی کم ترین سطح پر پائی جاتی ہیں۔اسلئے اس مرحلے کو بے خواہش کی منزل (Will.lessness) بھی کہا جاتا ہے۔اس میں فنکار روحانی آسودگی محسوس کرتا ہے۔اس وقت وہ ہر قسم کی اذیتوں سے بے نیاز ہوتا ہے، دنیاوی اشیاء سے نہ صرف ناطہ توڑ دیتا ہے بلکہ ان سے نفرت محسوس کرتا ہے۔ اس دوران اسکی تمام عقوبتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ وہ لمحات اسکی زنگانی کا بہترین سرمایہ ہوتے ہیں۔وہ سماں اس میں طلسماتی لذت پیدا کرتا ہے۔ یہ دنیا خارجی دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔اس وقت اسے اپنی حیثیت بھول جاتی ہے۔وہ اس وقت معلومات کا ایک ذخیرہ ہوتے ہیں۔ذ اتی خواہشات کو رد کرکے وہ اپنی گہری سوچ کو تخلیق سے عام فہم بناتا ہے بصورت دیگر صرف فطین لوگ ہی اس سے استفادہ حاصل کر سکتے۔انسانیت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
شوپنہار کے نزدیک کا تجربہ ہمیں تمام خواہشات، مایوسیوں، محرومیوں، تلخ حقائق،وغیرہ سے روکتا ہے اور تخیلات اورتصورات کو مضبوطی سے تھامتا ہے۔ وہ خود بینی کرتا ہیاور یپنی لاشعور کی گہرائی سے حقائق نکال کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
شوپنہار کہتا ہے کہ ہر فن کی اپنی خصوصیت، اہمیت اور مقام ہے۔فن تعمیر، زرعی مصوری، تاریخی مصوری، مجسمہ سازی، علامتی بیان بازی، شاعری، تمثیل نگاریاور موسیقی وغیرہ اپنے اپنے مقام پر اہم ہیں۔شوپنہار کا نقطہ نظرصرف اس کے نظریے تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ وہ خود بھی ایک اعلی! مصور اور موسیقار تھا۔ وہ بانسری بہت اچھی بجاتا تھا۔اب ہم مختصراً فنون کی مختلف اصناف بیان کرتے ہیں۔اس نے جمالیات پر کتب لکھیں۔ اس نے اسکی فن کے موضوع کے تحت تخیلات کے لحاظ سے درجہ بندی کی۔ سب سے ادنی! سطح پر اس نے ایسے تخیلات کو شمار کیا وہ غیر نامیاتی مادے کے بارے میں تھا۔ اس سے اوپر مادی، پھر نباتاتی، پھر حیوانات آتے ہیں۔اس کے بعد درجہ بندی میں جودرجہ آتا ہے، اس میں ایسی اشیاء ہیں جو خواہشات رکھتی ہیں، آتی ہیں۔
(5.11)موسیقی
یہ فنون اعلی سطح پرآتی ہیں جس میں کردار سازی اور روز مرہ
زندگی کے حقائق سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ شاعری کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ
اپنا پیغام دوسروں تک پہنچائے۔اسکی روحانیت اسکے شعروں کے قالب میں ڈھل
جاتی ہے۔اس صنف میں موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ہر سو کسی بھی عنوان پر
اپنے جذبات کو معروضی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔مختصر ترین الفاظ میں معرفت کی
باتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔اس کے ذریعے ، سوانعمریا ں، حمد، نعت، حمد، ا
نسانی اعمال، فطرت، افکار، جذبات، ترقی پسندی، رجائیت، قنوطیت، معاشی،
سیاسی، معاشرتی، غم جاناں اور غم جاناں، رومانیت، انقلاب وغیرہ پر لکھے۔شاعری
سچائی کے قریب سمجھی جاتی ہے۔یہ وقت کی قید سے آزاد ہے۔وہ انسان کو اس قابل بناتی
ہے کہ وہ کسی بھی دور، مقام، قوم،سلطنت،واقعا ت اور حالات پر لکھے۔شاعری کو پابند
نہیں کیا جا سکتا، وہ اپنے انداز میں اپنا مدعا ضرور پیش کر دیتی ہے۔
تمثیل نگاری میں ٹریجڈی کو شاعری کی ایک اہم صنف قرار دیتا ہے۔مایوسیاں، درد جو
ادا نہیں کیا جا سکتا، بربادی،، ظلمت کی فتح، قابل نفرت حالات، ظلم و
ستم پایا جانا۔ ایک معصوم اسکا سراسر شکار ہوتا ہے۔اس وقت حقیقی دنیا
کی اصلیت کا پتا چلتا ہیکہ دنیا کا روپ کتنا گھناؤنا ہے۔ایسے ڈرامے میں خواہش کی
مخا لفت مکمل طور پر ظاہر ہو جاتی ہے اور اس میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔(WI 253).۔ ٹریجڈی
خواہش کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔بعض میں تو خواہش کی نفی بھی دکھائی جاتی ہے۔ترک
دنیا کر لی جاتی ہے۔، دنیا تیاگ دی جاتی ہے۔
شوپنہار نے موسیقی کو دیگر فنون سے مختلف قرار دیا کیونکہ یہ ایک شخص کی باطنی دنیا کی نقلی حیثیت کے اظہار کا اچھوتا طریقہ ہے۔یہ کسی فنکار کی خواہش کی نقل ہوتی ہے۔ موسیقی تخیلات کی نقل نہیں۔تخیلات اصل ہوتے ہیں جو خواہش کو معروضی طور پر معقول انداز میں بیان کرتے ہیں اور علوم و فنون کی تمام اصناف میں پائے جاتے ہیں۔جبکہ موسیقی میں جمالیاتی حس کی ایک صنف ہے جو تخیلات کو استعمال نہیں کرتی۔ موسیقی میں انسان اپنی خواہش کی بنہ صرف نقل کرتی ہے بلکہ اسے آگے منتقل کر دیتی ہے۔یہ عظیم فن ہے۔اسکا اثر لوگوں پر گہرا ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ۔ جذبات و احساسات ان کومکمل طور پر سمجھ لیتے ہیں۔اسکے کلام، آواز اور آرکیسٹرا میں قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہر سامع سن کر کہتا ہے کہ یہ اسکے جذبات کی عکاسی کر رہی ہے۔موسیقی ایک بین الا قوامی زبان ہے جسے ہر کوئی بلا رنگ و روپ، اور مذہب سمجھ لیتا ہے۔ ( WI 256)۔ جمالیاتی فنون کی جملہ اصناف میں موسیقی ہی ایسا فن ہے جس میں تخیلات نہیں پائے جاتے۔ یہ ایک عمدہ فن ہے اور ارفع شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں مبہمسا تصور پایا جاتا ہے اور وجدان سے وہ من موہ نے والی دھنیں ترتیب دیتا ہے۔ واضح اشیاء کے سامنے نہ ہونے پر بھی صحیح طور پر بیان کر دیتا ہے۔ اسے ایسے معاملات کے بارے میں بھی پتہ چل جاتا ہے جو اس کے حواس خمسہ سے دور ہوتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں بھی اسے ان کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی پیشین گوئیاں یگر بار بار صحیح ثابت ہو جائیں تو آنے والے واقعات کے بارے میں ان الہامی نمائندگی سے مدد لی جا سکتی ہے اور تجربات اس کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ الہامی نمائندگی۔ شوپنہار کے مطابق ایسے واقعات اصول معقول استدلال (Principle Of Sufficient Reasoning) پید ا کر لیتے ہیں اور وقت اور مقام کو کو ایک مخصوص نداز اور نمونے کی صورت میں ظاہہرکرتے ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ تجرنہ ایک سبب اور محرک بن جاتا ہے جو وقت اور مقام کو ایک مخصوص اندازمیں پیش کرتا ہے۔ س عمل کو شوپنہار وجود کی بنیاد ( Ground Of Being) کہتا ہے۔
(5.12) شاعری، ادب، تمثیل، آپرا، تھیٹر، فلمیں)Poetry)
اس میں نثر،شاعری، فکشن، نان فکشن، تمثیل نگاری۔ فلم سازی وغیرہ
آتے ہیں۔ یہ بھی تخلیقی اعمال ہیں۔ ان کی مزید جہتہں
ہیں۔ تعریفی ادب، حمد، مثنوی، ڈرامے کی شاعری، انقلابی اور
رومانی شاعری وغیرہ اہم اقسام ہیں۔ لکھتے وقت اصول وضوابط،
الفاظ کا منفرد انداز میں انتخاب،، حروف کی ترتیب، معاونت کے لئے
توجیہات، بات پر زور اور اصرار کے انداز، سر، تال، ہم
آہنگیصوتی ترتیب،، بیان کرنے کی سکیم وغیرہ اہم شمار ہوتی ہیں۔ اعلیٰ
ادب افکار میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ دنیا کے کئی انقلاب اس کی بولت
واقع ہوئے ہیں۔ انقلاب فرانس، روس، ایران ، رومنوی دور وغیرہ ادب کے ذریعے ہی
آئیں۔ ان کی شیرینی محسوس کی جاتی ہے اور دیر
(5.13) تعمیراتی فن، حیوانات کی نقش نگاری اور مجسمہ سازی
شوپنہار کے نزدیک فن تعمیرات بھی فنون لطیفہ ہے لیکن یہ فن کی نجلی
سطح پر آتا ہے۔ اس کا تعلق عام لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ
ہے۔ اس میں بیک وقت تمام حواس استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں ڈھانچہ،
خوبصورتی، ساختی ڈیزائن،، مضبوطی،فعالیت و، رنگوں کا امتزاج،، سجاوتٹغیرہ کا خیال
رکھا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کے طرز زندگی بیان کرتا
ہے۔ اس کے لئے جمالیاتی ح س اہم ہے۔یہ یسا تخلیقی عمل ہے جس
میں تکنیکی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات تو تعمیراتی نوعیت نے ح پیچیدہ
نوعیت کی ہوتی ہے۔ اسلحہ خانے، طویل پل، کثیر منزلہ عمارات، زمین
دوز تعمیرات وغیرہ بہت پیچیدہ عمل ہے۔
اس میں علم کے ساتھ ساتھ احساسات کا بھی تعلق
ہے۔ وہ تعمیرات کے افعال اور اقسام پر بات نہیں کرتا۔ وہ ان قدیم
عمارات کا تذکرہ کرتا ہے جس میں کشش ثْل اور سختی کے ساتھ تعلق ہے۔ اس کے نزدیک
تعمیر میں توازن، مساوات، بھاری بھرکم ڈھانچے جو پتھروں سے تعمیر
کئے گئے ہیں جو یونانی مندروں میں کئے گئے پر
بات کرتا ہے۔عمارت سازی،باغبانی (Horticulture)، منظر کشی (Landscape)، اصناف لطیفہ: یہ فنون تخیل
سازی ظاہر کرتی ہے۔ منظر کشی میں سبزہ، پھول، کیاریاں، پودے محل وقوع کے لحاظ سے
لگائے جاتے ہیں تاکہ پیش منظر دلکش لگے۔اسے موسموں کی مناسبت سے بنایا
جاتا ہے۔ مجسمہ سازی میں بھی منظر کسی کی جاتی ہے اور حیوانات کی نقش نگاری کی
جاتی ہے۔ایسے فن میں خواہش پوری طرح موجود ہوتی ہے۔ منظر کو دلفریب بناکر،
اس میں کھو کر اپنی تکالیف کو کم کیا جاتا ہے۔پتھروں پر مصوری یا نقش
نگاری ناظرین کے مود کا تعین کرتے ہیں۔ اگر نقش نگاری میں بپھرے ہوئے جانور ہوں تو
تاثرات اور ہوں گے،اگر خوبصرت مناظر منقش ہوں گے تو اورتاریخی
مصوری اور مجسمہ سازی میں جمالیاتی حس اس سے اوپر آتی ہے۔
شوپنہار کہتا ہے کہ فنکا ر کو نسلوں کی ترویج و ترقی، ثقافت، معاشیات
وغیرہ کی عکس بندی ضرور کرنی چاہیئے۔انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی فن میں
شامل کیا جانا چاہئیے۔ ایک ہی نسل کا جانور اپنی انفرادیت بھی رکھتا ہے۔ہر ایک کی
انفرادیت کو اجاگر کرنا ایک فن ہے۔ تواریخی مصوری اور مجسمہ
سازی میں فنکار میں تخیلات کی پیچیدہ صورت حال کی نسبت سے، طیش، غصہ،
خوشی، غم، دکھ، مایوسی، فخر، غرور، خوبصورتی، محبت، نفرت، خد وخال اور انفرادیت کا
عکس دکھایا جاتا ہے، اشکال، تصویر کشی سے حالات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ پتھروں پر
کندہ جملے، اشکال اصلیت بیان کرتے ہیں۔شوپنہار کے مطابق تاریخی مصوری
کو عروج اسوقت حاصل ہوا جب عیسائیت کی ابتدا روح اور اخلاقی پہلو اجاگر
کئے گئے۔انسانوں کو عقیدت اور روحانیت کے ساتھ پیش کیا گیا۔عموماً حضرت عیسیَُِٰٖ
علیہ السلام کے ساتھ ا ن کی امت کا ایک گروہ ان کے ساتھ ہوتا
تھا۔ تصاویر میں عموماً ایک ماں اور بچہ جسے فرشتوں نے اٹھایا ہوتا تھا
اس دور کی عکاسی کرتی تھیں۔
یہ فنون اعلی سطح پرآتی ہیں جس میں کردار سازی اور روز مرہ زندگی کے حقائق سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ شاعری کا بنیادی مقصد کے پیچھے جنسی محرک پایا جاتا ہے جو دراصل زندگی کی خواہش ظاہر کرتا ہے لیکن یہ خوہش ایک مخصوص شخص کے لئے ہی پائی جاتی ہے۔ پریمی نسل کو دوام بخشنے کی خواہش رکھتے ہیں۔محبت مطابقت اور روگ پالنے کا نام نہیں بلکہ جذبے اور جنون کا نام ہے جو ان کی طبعی جسمانی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔یہ خواہش زیست ہے اور اپنے پریمی سے ہی نئی نسل قائم کرنا چاہتی ہے۔اصناف میں پکا لگاؤ پایا جاتا ہے، آپس میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور اسکے ساتھ ہی اپنی جنسی خواہشات کی تسکین چاہتا ہے۔ان کا ایک خوابیدہ اور خفیہ مقصد نسلی بقا ہے۔
شوپنہار کے نزدیک فن تعمیرات بھی فنون لطیفہ ہے لیکن یہ فن کی نجلی
سطح پر آتا ہے۔ اس کا تعلق عام لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ
ہے۔ اس میں بیک وقت تمام حواس استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں ڈھانچہ،
خوبصورتی، ساختی ڈیزائن،، مضبوطی،فعالیت و، رنگوں کا امتزاج،، سجاوتٹغیرہ کا خیال
رکھا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کے طرز زندگی بیان کرتا
ہے۔ اس کے لئے جمالیاتی ح س اہم ہے۔یہ یسا تخلیقی عمل ہے جس
میں تکنیکی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات تو تعمیراتی نوعیت نے ح پیچیدہ
نوعیت کی ہوتی ہے۔ اسلحہ خانے، طویل پل، کثیر منزلہ عمارات، زمین
دوز تعمیرات وغیرہ بہت پیچیدہ عمل ہے۔ اس میں علم
کے ساتھ ساتھ احساسات کا بھی تعلق ہے۔ وہ تعمیرات کے افعال
اور اقسام پر بات نہیں کرتا۔ وہ ان قدیم عمارات کا تذکرہ کرتا ہے جس میں کشش ثْل
اور سختی کے ساتھ تعلق ہے۔ اس کے نزدیک تعمیر میں توازن، مساوات، بھاری بھرکم
ڈھانچے جو پتھروں سے تعمیر کئے گئے ہیں جو
یونانی مندروں میں کئے گئے پر بات کرتا ہے۔
جمالیاتی فن میں شوپنہار کے نزدیک سب سے نچلی سطح پر آتی ہے۔اس میں ایک صورت تو مصنوعی ہے جس میں ماہر تعمیرات کشش ثقل، زمینی ٹکراؤ، سختی، سیال مادہ،روشنی، موسم کی مناسبت، گرمی، سردی کی نوعیت، ڈھانچہ، مضبوطی، بارش، آندھی، طوفانوں، آسمانی بجلی سے بچاؤ,، کشش ثقل،فن مضبوطی اور خوبصورتی وغیرہ دیکھ کر عمارت کو دلکش بناتے ہیں۔اس فن میں آرکیٹیکٹ مواد کو اپنی مرضی سے تبدیل کر کے کوئی نئی چیز بناتا ہے۔مادہ کی خصوصیات دیکھ کر اسکو اپنی بصیرت، ہنر، علم اور تجربے کی بنا پر انوکھے انداز میں تعمیر کرتا ہے۔ روشنی، خوبصرتی سے پتھروں، رنگوں کا انتخاب، سر سبز لان، آبشار وغیرہ شامل ہیں۔ تاج محل آگرہ۔ شالامار باگ وغیرہ اسکی مثالیں ہیں۔ ایسے فن میں فنکار کی خواہش شامل ہوتی ہے اور بے خودی نہیں پائی جاتی۔یہ اس وقت فن کا درجہ حاصل کرتی ہیں جب وہ ظاہری طور پر دلچسپ لگے۔ مادہ میں بذات خود تخیلات نہیں پائے جاتے لیکن اصلی جمالیات تو قدرتی مناظر کی ہوتی ہے۔بسا اوقات زمانے کے تغیر و تبدل کی وجہ سے وہ
(5.14)زمین کی تزئین و آرائش( Land Scaping)
زمین کی آرائش بھی ایک جمالیاتی حس ہے۔ منظر
کشی روحانی تسکین فراہم کرتی ہے۔ باغات اس کی
اہم مثالیں ہیں۔اس میں مقصد کے مطابق خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کا
ڈیزائن کیسے کیا جائے۔ اس میں عمارت کے مطابق قطارین بنائی
جاتی ہیں۔ موڑ بنانا، قطاریں سیدھی، متوازی یا عمودی
بنانا عمارت کی نوعیت کے لطاظ سے بنائی جاتی
ہیں۔ خیال یہ رکھا جاتا ہے کہ وہ متوازن، ترتیب وار ہوں تو دل کو
لبھائیں اور روحانی تسکین کا باعث بنیں۔ پغڈنڈیوں اور
راستوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ دن اور رات کے حساب سے موزوں انداز میں روشنی
کا انتظام کیا جاتا ہے جو قدرتی بھی ہو سکتا ہے اور مصنوعی
بھی۔ یہ ڈرامائی اث رات لاتے ہیں۔ نمونہ۔ ساخت رنگ وغیرہ بھی اہم ہیں۔
شوپنہار نے محبت، شفقت، یگانگت پسندیدگی اور تعریف اس وقت تک
قائم نہیں ہوتی جب تک کہ آپس میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح منسلک نہ ہوں۔ اگر
رومانیت، شفقت اور مہربانی کے بغیر ملن ہوگا تو وہ تعلقات
مفاہمتی کہلائے جائیں گے۔جبری روابط، قیمتی تحائف دے کر جنسی تعلقات قائم کئے جا
سکتے ہیں اور نسلی بقا بھی کی جاسکتی ہے لیکن رومانیت نہیں۔
شوپنہار سے پہلے یونانی فیلسوف نے محبت پر لب کشائی تو کی لیکن اسے سطحی طور پر بیان کیا۔ افلاطون، روسو، کانٹ اور سپینی نوزانے اس سلسلے میں مختصراًً بیان کیا۔ افلاطون نے جنسیت کو امروہ پرستی کی رو سے بیان کیا کہ محبت انسانی فطرت میں داخل ہے۔محبت و جنسی کشش سے بالاتر قرار دیا۔اس کے نزدیک یہ روحانی تعلق ہوتا ہے ا ور عملی لحاظ سے یہ تعلق مکمل طور پرغیر جنسی ہوتا ہے۔ جبکہ شوپنہار اسکے اس تصور سے انحراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ محبت میں شہوت اور جنس اہم ترین عنصر ہے۔ روسو نے محبت کو غلط اورغیر موزوں قرار دیا۔ کانٹ نے محبت کو خصوصی معلومات کے بغیراحساس قرار دیا۔ سپینوزا نے محبت کو معصومانہ فعل قرار دیا۔شوپنہار نے ان کے تمام د عووں کو غلط قرار دیا جبکہ اس کے نظریے کے کی پیروی کرنے والوں میں سگمنڈ فرائیڈ اور شیکسپیئر ان میں اہم تھے۔فرائیڈ نے اپنے نظریہ تحلیل نفسی میں شخصیت اور ذہنی بیماریوں کی بنیاد ہی جنس قرار دی۔ شہرہ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے بھی اسکے نظریے کی تائید کی اور اوڈیپس کمپلیکس کا تصور پیش کیا۔
شوپنہار کہتا ہے کہ پریمیوں میں آپس میں اس قدر قربت اسلئے پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں۔ ان میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، عادات، مزاج کے لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے لئے موزوں ہیں اور جنسی شراکت دار ہیں۔یہ تمام چیزیں دوسرے رشتوں میں نہیں پائی جاتیں۔
شوپنہار کہتا ہے کہ محبت میں پریمی ایک دوسرے کی تعریف و ستائش کرتے ہیں۔ان میں فطری طور پر ایک دوسرے پر حق جتانا،حق ملکیت اور حسد لازماً پایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں اس رشتے کو پائیدار بنانے کے لئے جنس بھی اہم ترین عمل ہے جس کے بغیر نسلی تسلسل ناممکن ہے۔ وہ اسے ما بعد از طبیعیات کی رو سے بھی بیان کرتا ہے۔ لیکن جزویطور پر اسکی حیثیت طبعی ہے اور جزوی طور پر ماورائی۔ اسلئے اس کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ تا ہم قد، عمر،صحت طبعی ساخت، کاٹھ، شکل و صورت، جسم پر متناسب گوشت، رنگ و روپ ساتھی کے انتخاب میں اہم شمار کی جاتی ہیں۔محبت کرنے والوں کی سچائی واضح طور پر منظم انداز میں سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ ان کے رومان میں روحانیت بھی پائی جاتی ہے۔ تقدس، وفاداری،بے لوث چاہت،اور سماجی وحدت پائی جاتی ہے۔ محبت میں کوئی بات توقع اور مزاج کے خلاف بھی ہو تو اسکو در گزر کردیا جاتا ہے۔یہ طوفانی دور جب گزر جاتا ہے توپھر اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ حقوق نسواں، حقوق وراثت۔ بین الذاتی تعلقات ، اعتماد، وفائی بے وفائی، بد کرداری وغیرہ کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جوڑا انتخاب میں اس بات کو اہم شمار کرتے ہیں کہ نئی نسل کیسی ہو گی۔اس کے مطابق خواتین ساتھی کے انتخاب میں ذہانت کو کم اہمیت دیتی ہیں اور اپنی حفاظت، جسامت اور جنسی قوت پر زیادہ زور دیتی ہیں۔ ہماری خواہش ہمیشہ اپنے لئے موزوں ساتھی تلاش کرتی ہے۔اگر جوڑے کے تعلقات خراب رہیں تو اولاد کی صحیح پرورش نہیں ہو پاتی۔محبت میں دیگر تمام خواہشات بھلا دی جاتی ہیں اور پریمی کے نزدیک محبت کی خواہش ہی باقی رہتی ہے۔
شوپنہار محبت کو مذہبی عقائد کے نقطہ نظر سے بھی دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت کے وسیع تناظر میں خواہش ہمیشہ اس کوشش ہیں ہوتی ہے کہ اپنا رومان ایسے شخص سے کرے جو اسکے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اور افزائش نسل کیلئے موزوں ہو۔ا سنے بدھ مت اور ہندو مت کے تناسخ ارواح (Reincarnation)کے نظریے کے تحت اسکی وضاحت کی۔ وہ کہتا ہے کہ مختلف اصناف میں محبت کے درمیان سلوک، اور رویہ ا س چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ سابقہ دور کے تجربات کی روشنی میں ان کے موجودہ وجود میں مقام کی ابدیت اور وقت کی لامحدودیت کس حد تک پائی جاتی ہے، کیا اس باران کی محبت میں خواہش زیست برقرار رہ سکے گی؟ کیا وہ اس بار اپنی یہ خواہش حاصل کر پائیں گے؟ تمام خواہشیں سمت کر محبت پانے کی خواہش تک محدود ہو جاتی ہیں،
نطشے نے محبت کے اس عمل کو سایہ، تمثال یا ہو بہو سابقہ (Selfsame) عمل کہا۔ اس نے اس تصورکی وضاحت میں کہا کہ کوئی شخص محبت کی خواہش میں مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں واپس آ سکتا ہے۔ محبت میں انفرادیت نہیں رہتی۔ محبت میں جو لا محدود مسائل پیدا ہوتے ہیں،ہر دور میں محبوب سے فراق کا غم روحانی کرب میں مبتلا کردیتا ہے۔جو یہاں اپنے مقصد کے حصول کا حتمی وسیلہ شمار کیا جاتا ہے۔ دکھ، درد،اور شدید اذیت محبوب کی انفرادیت بلکہ اسکی مرکزی انفرادیت پر حملہ کرتی ہے جسکا نام خواہش ہے۔اس مرحلے میں اسکی نسلی وجوہات کو جزوی تشفی بخشتی ہے لیکن خواہش تمام ذاتی محبت کی بنیاد ہے۔ تمام تر خواہش بقا حاصل کرنا ہو جاتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی غیر مخلوق کے زیر اثر ہے اور اسکا حصول ہی اسکی زندگی ہے۔ دراصل وہ افزائش نسل کی خواہش ہی ہوتی ہے۔
رومان میں میں جوڑا ایک مزاحیہ اور عجیب و غریب کردار بنکر رہ جاتا ہے۔ اگر اس میں ٹریجڈی ہو جائے تو ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ وہ کسی سائے کے زیر اثر ہے۔ وہ اپنے آپ میں نہیں رہتا، اپنی ڈات سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی اسے ریموٹ سے کنٹرول کر رہا ہے۔ ایسی ہیجانی کیفیت میں وہ خودکشی بھی کر لیتا ہے۔ اس حالت میں وہ عقل و دانش کے بغیر کام کرتا ہے۔اس سائے کو شوپنہار نے نسلوں کی روح (Spirit Of Species)کہا۔ایسے اوقات جس سے اب وہ گزر رہا ہوتا ہے کو اس نے نسلوں کی خواہش (Will Of Species) کا نام دیا۔ بے بس ہو کر جب کوئی اور چارہ کار نہیں ہوتا توایسے کرب سے بچنے کے لئے وہ سراسر غیر موزوں ساتھی تلاش کر لیتا ہے جو اسکی صورت حال کو مزید تلخ کر دیتا ہے۔ ایسا جوڑا شادی کے بعد کے نو سے بارہ مہینے ظاہری سطح پر اچھی طرح رہتا ہے پھر اس میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے کیونکہ اس دوران بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اختلافات ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں اور شادی ناکام ہو جاتی ہے۔جبکہ حقیقی محبت حاصل کرنے کے بعد جذباتی تعلق دیرپا ہوتا ہے۔کسی آرزو کے رہتا ہے اور انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔
مندرجہ بالا علوم و فنون شوپنہار کے مطابق ایسے فنون ہیں جوذاتی خواہش کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، مثبت تصور کئے جاتے ہیں اور انسانیت کی بہتری میں بھی معاون ہوتے ہیں لیکن ان سے انسانی خواہشات پر تھوڑا بہت ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔اب ہم شوپنہار کے اس نظریے پر آتے ہیں جس میں اس نے انسان میں بغیر کسی خواہش کے زندگی گزارنے کا تصور پیش کیا۔ ایسی زندگی کو اس نے جینے کی معراج کہا۔ااس کے مطابق ایسا کردار اپنانے سے انسان نروان حاصل کر سکتا ہے۔جو نیچے بیان کیا گیا ہے۔
موسیقی اور رقص و سرودکا فن
شوپنہار کے نزدیک یہ اہم ترین فن ہے جس کی تاثیر ماورائی ہے۔ یہ روح کی غذا ہے۔ یہ انسان کے دل و دماغ پر فوری اثر کرتی ہے۔ اس کا تعلق فطری صلاحیتوں کے ساتھ بھی ہے اور ہنر مندی کے ساتھ بھی۔ کوئی سر میں نہ ہو تو تمام تر ہنر کے ساتھ متاثر نہیں کر سکتا۔ اس سے دیوانگی اور جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔یہ جسم و جان کو مکمل طور پر اپنے احاطے میں لے لیتا ہے۔ حس جمالیات، موسیقی، شاعری اور ادب میں ہمارے دماغ کے دائیں نصف کرے کی ابتدائی جبہی فص (پری فرنٹل لوب) ہیجانات سے متعلق ہے۔ ایسے معملات میں وہ لاشعوری طور پر متحرک ہو جاتے ہیں اور ہیجانات کو بر انگیختہ کر دیتے ہیں۔
برقی جسدی،
(الیکٹرو ڈرمل)۔ قلبی رگوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے رد اعمال (کارڈیووسکولر) کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
لرزش، حوصلہ
پست ( چلز) ِ َ۔ باطنی احساسات پیدا کرتا
ہے۔
نفسی طبعی
رداعمال ( سائیکو فزیکل) تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
جوش اور
شہوت۔ (ایریکشن۔ پائیلو ایریکشن) لاتا ہے۔
جلدی
تبدیلی لا کرونگٹے کھڑے کرتا( گوز
بمہس)ہے۔
جذباتی
عروج، بلند ترین جذباتی کیفیت (ایموشنل پیکس) پیدا کرکے محرک کا باعث بنتا ہے۔
حرکی۔ چہرے
کے تاثرات (موٹر۔ فیشل ایکسپریشن) میں تبدیلی
لاتا ہے۔
ای۔ای۔جی سے
بہت خوشی اور دیگر جذبات کی پیمائش کی جا
سکتی ہے۔
حفتی انداز کی
سرگرمیاں، دو گمٹی ملاپ (زائگومیٹک ایکٹیویٹی)
کی سائنسی پیمائش کی جا سکتی ہے۔
موڈ پر اثر
انداز ہوتا ہے۔ذاتی باخبری پیدا (سیلف۔ اویئر نیس) کرتا ہے۔ فرد کے موڈ
کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر کسی کاا موڈ خوشگوار بنانا ا ہو تو مسلسل دو ہفتے
مثبت (پوزیٹیو) تحریک کو بڑھانے والے اور جوش پیدا کرنے والے گانے سنوائے جاءٰیں
تو افسردگی دو ر ہو جائے گی۔ خواہشات کی شدت کم ہو جائے گی۔قوت برداشت پ میں اضافہ ہو جائے گا۔ ذاتی کارکردگی بہتر ہو جائے گی)۔ چلتے ہوئے، دوڑتے ہوئے سنیں تو اس سے
سٹیمنا بڑھتا ہے، ترقی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
لوگوں کی خواہشات اور تکالیف کے ازالہ کے لئے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ وہ کس
قسم کے خواص کا مالک ہے تو اس
کی شخصیت کے ٹائپ کی موسیقی موزوں ثابت ہوتی ہے۔ ذوق کے مطابق موسیقی تکالیف کی نجات میں مدد دیتی
ہے۔ وہ اس میں کھو کر رہ جاتا ہے اور ارد گرد کا ہوش کھو دیتا ہے۔ اس صفت کی بدولت ذاتی تعلقات بھی بنتے اور
بگڑتے ہیں۔ موسیقی کی کئی جہتیں ہیں۔
رقص و سرود
والی موسیقی (ڈانس میوزک) کے شائقین کشادہ
ذہن، ہر ایک کو موقعہ دینے والے اور سماجی قبولیت کرنے والے ہوتے ہیں۔
روح پرور
موسیقی (جاز بلیوز، اینڈ سول میوزک) میں افراد بروں بیں،اعلیٰ تصور ذات،
تخلیقی، ذہین اور سہولت ہوتے ہیں۔
شاعر ی بھی خواہشات
کم کرنے میں اہم ہے۔ دیکھا گیا ہے
کہ یہ ذہنی اور طبعی صحت کے لئے مؤثر طریقہ ہے۔ شاعری لکھنا اور پڑھنا
دونوں ہی ناپسندیدہ خواہشات کم کرنے میں اہم ہیں۔ اپنے دبے ہوئے جذبات کا بلاواسطہ
اظہار نہ صرف تخلیق کار کا ذہنی تناؤ کم کرتا ہے بلکہ اس کو
پڑھنے والوں میں بھی ہم روی والے احساسات
پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی سے بھی تکالیف دور کرنے میں نفسیاتی مدد ملتی
ہے۔ عنوان، الفاظ کی ترتیب، جامع انداز میں اظہار،الفاظ کی تعداد، چبھتے
ہوئے تصورات قاری میں ویسے ہی جذباتی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ یہ تصور ذات بڑھاتی
ہے۔جذباتی تشنگی میں مدد ملتی ہے۔ یہ
تنقیہ نفس کا اہم ذریعہ ہے۔ محرک پیدا کرتی ہے۔ نئے طریقے بیان کرتی ہے اور
اپنے مسائل کو حل کرنے میں معاونت کرتی ہے۔ نیا مقصد تعین کرنے میں مدد دیتی ہے
اور طریقے بتاتی ہے کہ انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔
جب آپ بکھرے
ہوئے ہوں، کسی ٹریجڈی میں ہوں یا زخمی،
بیمار یا ٹوٹے ہوئے ہوں، صدمہ، افسردگی، خالی پن،
کو نفسیاتی اور جذباتی حوصلہ دیتی
ہے۔
اعتراف کرواتی
ہے جس سے شرمندگی، احساس گناہ کے اثرات کو ذہنی طور پر کم کرنے میں مدد ملتی
ہے۔ ابہام کو دور کرتی ہے۔ تذبذ ب والی کیفیت
میں وضاحت لاتی ہے۔
کھوئے جانے
کا احساس کم کرتی ہے۔ اس کے ذریعے اندازہ
لگایاجا سکتا ہے کہ مستقبل میں یہی
انداز اپنایا جائے تو کیا ہو گا۔ محتاط پن پیدا کرتی ہے۔
یہ
دوہرا عمل ہے جس میں نہ صرف لکھاری بلکہ قاری بھی اس میں بہہ
جاتا ہے۔ ہم روی کے احساسات پیدا کرتی ہے۔جنسی آسودگی کے اظہار کا معصومانہ طریقہ ہے۔جادوئی،تمثال لاتی ہے۔
اوپرا میں دیانتدارانہ احساست کا اظہا ر کیا جاتا ہے۔ شاعری تین طرح سے موڈ تبدیل کرتی ہے۔ طرز کلام۔ لفظوں کا انتخاب جو جذبات میں ہلچل
مچا دیتے ہیں، فقرات یا سمعی ترنم،، تخیل
۔ یہ ذہن پر معالجاتی اثر کرتے ہیں۔ نفسی
طبعیاتی اعصاب میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں
جو جذبات کو بر انگیختہ کر دیتا ہے۔ اس سے حسب منشا ء خواہشات میں تبدیلی لائی جا
سکتی ہے۔
گرجا گھر اور
مذہبی عمارات اور لائبریریوں میں تیز روشنیاں
رکھی جاتی ہیں جو نفسیاتی طور پر اس بات کی
علامت ہے کہ لوگوں کو اندر آنے کی علامت
ہے۔ ایک دعوت عام ہے کہ آکر مستفید
ہو۔ ان پر رحمت اور علم کے
دروازے وا ہیں۔ ان میں غور و تدبر پیدا کرتے ہیں۔
عمارات تعمیر
کرنے میں حسابی پیمائش اہم ہے۔ اس کی سجاوٹ بھی
آنکھوں کو بھاتی ہے۔۔ اس میں عمارت
کی تعمیر کے مقاصد کو رکھتے ہوئے تعمیراتی اصول مد نظر رکھے جاتے ہیں۔ دفاعی، ہوائی
اڈے، پل، سو منزلہ عمارت، زمین دوز عمارت۔ صحرا، پانی۔ رہائشی، تجارتی وغیرہ کے
مقاصد کے تحت بنانے والی عمارات کی خصوصیات
الگ الگ ہیں۔ اس کے لئے خصوصی علوم کی تربیت لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذوق بھی
بھی ضروری ہے۔ سجاوٹ کے انداز بھی مقاصد کے تحت اپنائے جاتے ہیں۔
تعمیر سازی
کے نفسیاتی اثرات ہیں۔ یہ ا ضطراب
ور افسردگی کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔ کینسر کے مریضوں میں ذہنی تکالیف کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا
کرتے ہیں یاکم کرتے ہیں۔ ادویات کے
جلد ا ثرات کرتے ہیں۔ ایسے فنکار جو جسمانی یا ذہنی مریض ہو جائیں
اور اپنا تخلیقی عمل جاری رکھیں، ان کی تخلیقات کا جائزہ بھی بے حد اہم ہوتا
ہے۔ ان سے اہم معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
اس میں ہر عمر کے فنکار اہم ہیں۔ ان کے تخیلات
اور مقاصد کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شوپنہار نے ان کی اہم اقسام جس سے
خواہشات میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔ ان میں
موسیقی، ادب، تعمیراتی فنون اہم ہیں۔
فن تعمیر شخصیت
پر اثر انداز کا دلچسپ ترین طریقہ
ہے۔ پسندیدگی، ناپسندیدگی، سماجی، ثقافتی،
روحانی، مالی، اخلاقی اور قدرتی معیار ماپتا ہے۔
ہم موجودہ دور میں معروضی طور
پر جمالیات اثرات جانچ سکتے ہیں۔ جلدی کھچاؤ، رونگٹے کھڑے ہونا، آنکھوں کی جنبش، دل کی دھڑکن،
سانس کے زیر و بم، چہرے کے تاثرات
، صوتی
زییر و بم، لب و لہجہ،
وغیرہ کو ای۔ای۔جی سے ماپا جا سکتا
ہے۔
موجودہ
دور تشویش اور افراتفری کا دور ہے۔ قدم
قدم پر الجھنیں اور بے قراری پائی جاتی ہے۔
کاروبار اور ملازمت میں ہر روز دیکھی، ان دیکھی رکاوٹیں پیش آتی رہتی ہیں۔ جس سے صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں کیا جا
سکتا۔ کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ان
عوامل کو جاننا ضروری ہے جو انہیں پیدا کرتے ہیں اور ان کا تدارک ضروری
ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر صرف اس بات پر صرف
ہو رہے ہیں کہ عوام الناس میں احساس تحفظ
پیدا کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ہر وہ قدم اٹھائے جا رہے ہیں جو ان کے اضطراب کو کم کر سکیں۔ عمارتوں کے ڈیزائن، پارک، ارضی
خوبصورتی (لینڈ سکیپنگ) اعلیٰ تصاویر، ریڈیو
اور ٹی وی اور ابلاغ عامہ کے ذریعے
تفریح کا سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔
محبت
ٓ پریمی زیادہ محفظ
محسوس کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے جڑنے کا
احساس پایا جاتا ہے۔ درد میں کمی پیدا ہوتی ہے۔ موڈ خوشگوار
ہو جاتا ہے۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ ہتھیلیوں پر پسنہ آتا ہے۔ افشار خون میں اعتدال آجاتا ہے لیکن ماحول نا موافق ہو تو افشار خون زیادہ ہو جاتا ہے۔زیادہ
اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ فطری تقاضے پورے ہوتے ہیں۔محبت میں ناکامی میں
فشار خون میں تیزی، ذیابطیس، دماغی شریان کا پھٹنا (سٹروک)، دل کا دورہ وغیرہ کی بیماریاں لاحق ہو
جاتی ہیں۔
جاری ہے۔۔۔