نہ پائے رفتن نہ جا ئے ماندن One's A Heifer Sinclair Ross (1908 - 1996) Canada






نہ پائے رفت نہ جائے ماندن 

One's A Heifer
Sinclair Ross (1908 - 1996)
Canada
  مترجم:  غلام محی الدین 


                میرے چچا کولہے کے شدید درد کی بدولت بستر سے لگ گئے تھے۔  شدید سردی میں جب درجہ حرارت نقطہء انجماد سے پینتیس درجے سے بھی نیچے چلا جاتا تھا،  میں کھلے میں کام کرنا تو کجا بیٹھنا بھی محال ہو جاتا تھا۔  چچا فارم ہاؤس کا مالک تھا جس میں درجنوں مویشی اور گھوڑے تھے۔  گھر میں چچا،  چچی اور میں رہتے تھے۔  ہمارے وسیع و عریض کھیت ہیں جن میں وہ دن بدن چرتے رہتے اور شام ڈھلے خود بخود فارم ہاؤس لوٹ آ تے تھے۔  اس  روز سارا دن اور رات برفباری ہوتی رہی۔  جب  اگلی صبح طوفان رکا تو دیکھا کہ  دو بچھٹرے گم تھے۔  ایک نر تھا اور دوسری مادہ۔  ان کی عمر ایک سال کی تھی۔ 
                چچی ایلن نے مجھے کہا کہ فوراً انہیں ڈھونڈ لاؤں۔  موسم کی مناسبت سے میں نے دو موٹی اون سے بنی ہوئی جرابیں،  دو بنیانیں،  اونی قمیض،  اونی جیکٹ،  چمڑے کی جیکٹ،  اونی مفلر،  اونی ٹوپی اور چمڑے کے دستانے پہن لئے۔  اتنی احتیاط کے باوجود بھی سردی محسوس ہو رہی تھی۔  جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس وقت میری عمر تیرہ سال تھی۔
                میرا گھوڑا ٹم اور میں پوری تیاری سے نکلنے لگے تو چچی نے مجھے کچھ رقم دی تاکہ اگر مجھے دیر ہو جائے تو رستے میں کچھ کھا پی سکوں۔  ہمارے علاقے میں ارد گرد بہت سے فارم ہاؤس تھے۔  ہر فارم ہاؤس میں اصطبل،  چھجے،  اناج کے گودام اور رہائش کے لئے کمرے بنے ہوتے تھے۔  اس علاقے کی ریت روایت تھی کہ اگر کوئی مسافر بھوکا ہوتا تو لوگ مہمان سمجھ کر کم و بیش اکثر مفت کھانا کھلا دیتے تھے جبکہ کچھ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اس کے عوض خوراک کی قیمت بھی وصول کرتے لیتے تھے۔
                ہمارا علاقہ میدانی تھااور آس پاس پندرہ میل تک کھلے کھیت تھے جس کے بعد ریت کے ٹیلے شروع ہو جاتے تھے۔  وہاں بھی فارم ہاؤس تھے لیکن ان کی حالت مخدوش تھی۔  دس انچ برفباری کے بعدزمین برف کی سفیدی سے اٹی پڑی تھی۔  چھتوں پر بھی برف ہی برف تھی۔  برفباری کی وجہ سے ٹم کو قدم بہ قدم اپنے پاؤں کو زمین پر ٹکا کر چلنا پڑتا تھا۔  ٹم اور میں جب باہر نکلے تو سرد ہوا کے جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔  ہم نے سیدھا جنوب کا رخ کیا اور تین میل تک چلتے رہے۔  میرا خیال تھا کہ بچھڑے برفانی طوفان میں ادھر چلے گئے ہوں گے اور وہیں کہیں بھٹک رہے ہوں گے۔  میں بڑے غور سے کھیتوں، گوداموں،  فارم ہاؤسوں اور چھجوں وغیرہ کا جائزہ لیتے ہوئے،  لوگوں سے پوچھتے پو چھاتے آ گے بڑھ رہا تھا۔  کسی ذی روح نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔   ہمارے بچھڑے بہت خوبصورت اور توانا تھے۔  ان کے چہرے پر سرخ اور سفید رنگ کے نشان تھے۔ 
                ہماری رفتار سست تھی کیونکہ ٹم کے لئے نرم برف پر چلنا مشکل ہو رہاتھا۔   مناسب لباس کے باوجود ہم سردی سے ٹھٹھر رہے تھے۔  ٹم بھی سردی برداشت نہیں کر پا رہا تھااور سر جھکا کر بہت آہستہ چل رہا تھا۔  موسم کی سختی سے ہمارے حوصلے پست ہو رہے تھے۔ جب ہم کسی چرا گاہ کے قریب سے گزرتے تومویشی سر اٹھا کر ہمیں ایسے دیکھتے جیسے انہیں ہماری موجودگی انہیں پسند نہ آئی ہو۔  صبح کا وقت  کے باوجود بھی مجھے وہ میدانی علاقے بھیانک لگ رہے تھے۔  ہر دروازے پر دستک دے کر جب نفی میں جواب ملتا تو مایوسی کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آتا تھا۔
                رینگتے ہوئے چلنے کے بعد تقریباً ایک بجے ہمیں بھوک نے بے حد ستایا تو ایک فارم ہاؤس پر رک گئے۔  ان لوگوں نے مجھے دلیا اور پھلیاں دی جبکہ ٹم کو چارا فراہم کر دیا۔  وہ اس بات کا رونا رونے لگے کہ اس سال فصل بہت خراب ہوئی ہے۔  میں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور بتایا کہ اسی وجہ سے میں بھی اپنے بچھڑوں کو ضرور تلاش کرنا چاہتا ہوں۔  جب میں نے انہیں کھانے کے پیسے دئے تو آدمی نے مروت میں انہیں لینے سے انکار کر دیا۔  مجھے اس کی بیوی کی آنکھوں میں شاید بوجہ تنگ دستی لالچ نظر آئی  اور لگا کہ وہ رقم قبول کرلینا  چاہتی تھی لیکن خاوند کی وجہ سے نہ کر سکی۔
                ایک گھنٹہ آرام کے بعد ہم پھر بچھڑوں کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔  ان کے بارے میں جب بھی کسی سے بھی پوچھتے اور نفی میں جواب پاتے تو آگے کو ہو لیتے۔  رفتہ رفتہ کھیت کھلیان ختم ہو گئے اور ہم رتیلے پہاڑ اور ٹیلوں تک پہنچ گئے۔  چیونٹی کی رفتار میں ہم نے وہاں تک پہنچنے کے لئے جو بھی فاصلہ طے کیا تھا تواس وقت تقریباً شام ہونے کو تھی۔
میں اب بھی پر یقین تھا کہ ہمارے بچھڑے وہاں کہیں ضرور موجود ہوں گے۔  میں نے ٹم کو سناتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیں یہاں مل جائیں گے۔  ان ریت کے ٹیلوں کے نزدیک ہی ایک چھوٹی سڑک گزرتی تھی جو سیدھا ہمارے قصبے سے ہو کر بڑی سڑک پر چلی جاتی تھی۔  اگر اس وقت وہ بچھڑے مجھے مل جاتے تو میں انہیں کسی کھیت کھلیانوں یا کچے راستوں سے گزرے بغیر صرف چوتھائی وقت میں سڑک سے سیدھا گھر لے جاسکتا تھا۔  ٹیلوں سے پہلے سڑک ختم ہو جاتی تھی۔  اگر ہم ٹیلوں پر چلے جاتے تو پھر وہاں سے واپسی کا سفر مزید گہری برف اور نا ہموار زمین کی وجہ سے زیادہ لمبا ہو جانا تھا۔ 
                جب ہم رتیلے ٹیلوں پر پہنچے تو سورج کا آخری پہر تھا اور اس میں حدت نہ رہی تھی۔  آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔  زمین پر ٹنوں برف گری ہوئی تھی۔  ہوا میں پھر سے تیزی آنے لگی تھی اور ٹھنڈمیں اضافہ ہو گیا تھا۔  اس علاقے میں فارم ہاؤس نہ صرف دور دور تھے بلکہ خستہ حالت میں تھے۔  کتے ہم پر بھونکتے رہے،  جنگلی بھیڑیوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔  میں ڈرا تو صحیح مگر ٹم کو تسلی دیتا رہا اور ہم بڑی احتیاط سے قدم بہ قدم آگے بڑھتے رہے اور پھر میں نے ان کو دیکھ لیا۔  ہمارے بچھڑے بیس پچیس مویشیوں کے بیچ چل رہے تھے۔  اس وقت شام ہو چلی تھی۔  دھندلکے کی وجہ سے ان کی شکل پوری طرح سے واضح تو نہیں تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ سرخ اور سفید نشانوں والے بچھڑے ہمارے ہی تھے۔  وہ ایسے فارم ہاؤس کی طرف جا رہے تھے جو کہ وہاں سے تقریباً ایک میل دور تھا اور ان کے جانے کا رستہ اتنا تنگ تھا کہ ان سب مویشیوں کو ایک ہی قطار میں جانا پڑ رہا تھا۔  وہ فارم ہاؤس بہت پرانا دکھتا تھا جس کے باہر زنگ آلود ٹوٹی پھوٹی مشینری پڑی تھی،  پیچھے ایک چھوٹا سا اصطبل اور ایک ہال دِکھ رہا تھا۔  میں نے انہیں وہیں سے گھیر گھار کر واپس لانے کا سوچا تو مجھے آگے جانے کا رستہ نہ ملا کیونکہ اس پگڈنڈی کے دونوں طرف زمین اونچی نیچی تھی اور گڑھے پڑے ہوئے تھے اس لئے ہمیں ان کے پیچھے پیچھے چلنا پڑا۔  اس فارم ہاؤس تک پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی۔  سردی کی شدت میں ہر گزرتے لمحے اضافہ ہو رہا تھا۔  یہاں اب یہ مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کہ اس سردی میں رات کے اندھیرے میں واپس جانا تقریباً نا ممکن تھا۔  چونکہ ہم صبح کے نکلے ہوئے مسلسل چل رہے تھے اس لئے تھک کر چور ہو چکے تھے۔  بھوک اور پیاس بھی شدید لگی ہوئی تھی۔  یہ جگہ سنسان تھی۔  یہاں پر خوراک اور رہائش کے لئے گرم جگہ ملنا نا ممکن لگ رہا تھا۔  اس فارم ہاؤس میں بجلی نام کی کوئی چیز بھی نظر  نہیں آ رہی تھی۔
                ابھی اس عمارت سے میں کچھ فاصلے پر تھا کہ مجھے ایک گرج دار آواز سنائی دی۔  ’جہاں پر ہو وہاں پر ہی رک جاؤ‘۔  ایک لمبا چوڑا شخص جس کا چہرہ بے حد خوفناک تھا،  لمبے اوور کوٹ میں اور ہاتھ میں بندوق تھامے بھاگتا ہو ا آیا اور ٹم کی باگیں تھام لیں۔  میری طرف غصے سے ایسے دیکھا جیسے وہ مجھے کاٹھی سے گرانا چاہتا ہو۔
                میں نے تمہیں کہا تھا کہ ’تم جہاں پر ہو وہاں پر ہی رک جاؤ۔  کیا تم نے میری آواز نہیں سنی؟  کونسی چیز تمہیں یہاں لے کر آئی ہے؟ٗ  
                میں اپنے گھوڑے سے اترا اور بتایا کہ ہم ایک بچھڑے اور بچھڑی کی تلاش میں یہاں آئے ہیں جو برفباری کی وجہ سے رستہ بھٹک گئے ہیں۔  ان کے چہرے پر سرخ اور سفید نشان ہیں۔  انہیں میں نے تمہارے مویشیوں میں دیکھا ہے۔  یہ باتیں میں نے بڑے اعتماد سے اس کی آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں۔ 
                میری بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ 
                میں نے مزید کہا کہ میں نے انہیں رستے میں گھیرنے کی کوشش کی لیکن نا ہموار زمین اور تنگ راستے کی وجہ سے ان تک نہ پہنچ سکا۔  اب وہ ان مویشیوں کے ساتھ تمہاری عمارت میں داخل ہو گئے ہیں۔  اگر تم وہ میرے حوالے کر دو تو میں انہیں فوری طور پر واپس لے کر چلا جاؤں گاکیونکہ وہ میری ملکیت ہیں۔
                میں اس وقت گیٹ کے قریب پہنچ چکا تھا اور میں نے اعتماد کے ساتھ اصرار کیا کہ وہ میرے ہیں۔  میں نے انہیں خود اندر جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
                یہ بات سن کر اس کی آواز کرخت ہو گئی۔  تم نے کوئی بچھڑے نہیں دیکھے۔  وہ میرے ہیں۔  تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنا رستہ ناپو۔
                مجھے اندر جانے دو۔  میں انہیں تلاش کر کے واپس چلا جاؤں گا۔  تم ہمارے بچھڑوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔  تم ہمارے بچھڑے چوری کررہے ہو،  میں نے بھی سختی سے کہا۔  میں گھر جا کر اپنے چچا اور پولیس کو لے کر انہیں تم سے برآمد کروا لوں گا پھر تم دیکھو گے کہ بچھڑے تمہارے ہیں یا ہمارے۔
                میری دھمکی نے اس پر اثر کیا اور اس نے حامی بھر لی  کہ میں اس کے ساتھ اندر چلوں اور ان کو ڈھونڈ لوں تاکہ میری تسلی ہو جائے۔  تاہم اس نے ٹم کی باگیں اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھیں۔  اس نے مجھے اصطبل کے باہر روکا اور خود اندر چلا گیا۔
میں نے دیکھا کہ اس نے مویشیوں کے لئے جو چھجا بنایا ہوا تھا وہ کافی چھوٹا تھا اور اس کی چھت جھکی ہوئی تھی۔  مجھے اس نے باہر روکا تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ اندر جا کر میرے بچھڑوں کو کسی جگہ چھپانا چاہتا تھا۔  میرا ارادہ تھا کہ میں اسے اس سے روکوں لیکن کیسے؟  وہ عمر،  قد کاٹھ،  توانائی اور طاقت میں مجھ سے ہر لحاظ سے بہتر تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس سے اس وقت پنگا نہ لوں،  آنکھیں کھلی رکھوں اور موقع ملتے ہی اپنے بچھڑوں کو لے اڑوں۔
                میں اس مخمصے میں تھا کہ وہ لالٹین لے آیا اور خوش دلی سے بولا کہ اندر آ جاؤاور خود ہی دیکھ لو۔  اس نے ٹم کو کھونٹی سے باندھ دیا اور مجھے ایک تنگ سی گلی سے اندر لے گیا۔  اس گلی کے دو حصے تھے اور ہر حصے کے آخر پر دروازہ تھا۔  ایک دروازہ کھلا تھا اور دوسرا دروازہ مقفل تھا۔  کھلے ہوئے دروازے کے باہر گھوڑوں کے استھان تھے اور دوسرے مویشی چارہ کھا رہے تھے۔  وہاں دو بچھڑے سرخ اور سفید رنگ کے نشانوں والے موجودتھے لیکن وہ ہمارے نہیں تھے۔  مجھے یقین تھا کہ اس نے ہمارے بچھڑوں کو کہیں اِدھر ُادھر کر دیا ہے۔  دوسرا دروازہ لوہے کی چپٹی سے نٹ بولٹ کے ذریعے سے بند کیا گیا تھا۔  وہ چپٹی اتنی اونچی تھی کہ میرا ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔  اس نے وہ دروازہ  دھکیل کر تھوڑا سا کھولا اور کہا کہ وہاں اس نے  ایک نسل افزئشی گھوڑارکھا ہے۔  مجھے اندر صرف کباڑ خانے کی چیزیں پڑی ہوئی دکھائی دیں جس میں لگامیں،  زین،  کاٹھیاں،  چمڑے کی پٹیاں،  نعل اور رکابیں وٖغیرہ تھیں۔  اس نے مجھے اس دروازے کے اندر نہ جانے دیا جس سے میرا شک یقین میں تبدیل ہو گیا کہ اس نے ہمارے بچھڑے یہاں ہی چھپا کر رکھے ہیں۔
                وہ ایسے بول رہا تھا جیسے اس کے دل میں چور تھااور کوشش کر رہا ہو کہ میں اس جگہ سے دور ہی رہوں۔  اس نے جو لالٹین اٹھائی ہوئی تھی اس کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔  اس روشنی کی بدولت ہمارے بننے والے سائے نہایت بھیانک لگ رہے تھے۔
                میں کسی حد تک خوفزدہ تو تھا لیکن با ہمت تھا۔  اگر وہ مجھے پورا اندر جانے دیتا تو میں اچھی طرح تلاشی لے کر فوری طور پر گھر کا رخ کرتا۔  اس نے مجھے اندر نہ جانے کی یہ دلیل دی کہ اس کمرے میں ایک گہرا کنواں نما سوراخ تھاجس میں گر کر مجھے چوٹ لگ سکتی تھی۔  میں نے بظاہر سر ہلایا لیکن مجھے اس پر یقین نہیں تھا۔
                میں واپس جانے کے لئے ٹم کے پاس آیا۔  اس کو کھونٹی سے کھولا اور واپس نکلنے لگا تو محسوس ہوا کہ اس شدید سردی میں ہمارا واپس پہنچنا محال ہو گا۔  بھوک سے بھی مر رہا تھا۔  میں نے سوچا کہ جانے سے پہلے اگر اس سے کھانے کی درخواست کی جائے تو توانائی آ جائے گی اور اس کے بعد ہم رختِ سفر باندھ لیں گے۔  پوچھنے پر اس نے مجھے دلیہ، پھلیاں، گڑ،  کافی اور ٹم کو چارہ مہیا کرنے کی پیشکش کر دی۔  میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔  پھر اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور میرے عظائم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اتنی سردی میں باہر نکلنا دانشمندی نہیں اس لئے میں وہیں رات بسر کر سکتا ہوں۔  کھانے کے بعد ہم شطرنج کی بازی بھی لگائیں گے۔
                یہ کہنے کے بعد اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا کہا،  میرا نام آرتھر وائکرز ہے۔
                میں نے اس کا جائزہ لیا تو اس کے ہونٹ پتلے تھے،  لمبی ستواں ناک تھی اور آنکھیں گہری تھیں جن میں مکاری نظر آتی تھی۔  پھراس نے ٹم کی زین اتاری،  اسے چارہ اور پانی دیا اورمجھے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا۔  کمرے میں سب چیزیں بے ترتیب تھیں اور ان پر مٹی پڑی ہوئی تھی۔  وہ رہنے کی جگہ سے زیادہ ایک سٹور دکھ رہا تھا۔  وہاں ایک میز تھا جس پر گھوڑوں کا سامان رکھا گیا تھا۔  زنگ آلود چولہے کے ساتھ پھلیاں،  چوکر اور دلیے کے برتن رکھے تھے۔  چولہے کے ساتھ ایک لوہے کا بستر پڑا تھا جس پر کوٹ،  گھوڑوں کے کمبل،  نیولوں اور جنگلی بھیڑیوں کی کھالیں وغیرہ سوکھنے کے لئے پڑی تھیں۔  بستر کی پائنتی پر اوزار تیز کرنے کے لئے پتھر سے بنا ہوا سان پڑا تھا۔  اس کے ساتھ ہی ایک کونے میں الو بیٹھا تھا جو زرد آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔  اس کے پر کٹے ہوئے تھے اس لئے وہ اڑ نہیں سکتا تھا۔  دیواروں پر بندوقیں،  گھوڑوں کے پٹے اور ربر کے جوتے لٹکے ہوئے تھے۔  چولہے کے آس پاس سگرٹ کی راکھ تھی۔  ایک انگیٹھی تھی جس میں آگ جلا کر کمرہ گرم کیا جاتا تھا۔  اس کے پاس آمنے سامنے دو پتھر کی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔  اس نے اس وقت ایک اور لیمپ جلایا جس سے روشنی کی مقدار میں قدرے اضافہ ہو گیا۔
                وہ دلیہ بناتے ہوئے بولا،  میں آج گھوڑے کی زین مرمت کر رہا تھا۔  جب بندہ اکیلاہوتاہے تو تمام کام اسے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔  گھر کو صاف ستھرا رکھنے اور کھانا پکانے کے لئے گھر میں خاتون کا ہونا ضروری ہے۔  اس نے بے ترتیبی اور گندگی کی وجہ بیان کی۔
               
                اس نے جھاڑو اٹھایا اور فرش پر سے راکھ اکٹھی کرنے لگا۔  اس نے بستر سے کھالیں اٹھائیں،  گھوڑوں کے کمبل سیدھے کئے،   آتش دان میں لکڑی ڈال کر آگ جلائی،   پھر میری طرف آیا اور میری چمڑے کی جیکٹ اور دوسرے کپڑے اتارنے میں مدد دینے لگا۔  وہ ایک اچھے مہمان نواز کی طرح سے میری خدمت کر رہا تھا۔
میں نے ایک مہذب شخص کی طرح اس کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔  درحقیقت ایسا شخص جس نے تمہارے دو بچھڑے چوری کئے ہوں،  کے لئے ایسے الفاظ ادا کرنا موزوں تو نہیں تھے لیکن حالات سے فائدہ اٹھانے کے لئے میں نے ایسا کہا۔  میں نے کھانا تیار کرنے میں اسے اپنی مدد کی پیشکش کی جسے اس نے قبول نہ کیا۔  اس کے بعد اس نے چند پیالے،  پلیٹیں دھو کر خشک کیں۔  پھر اس نے خشک دودھ نکالا۔  مکھن،  گڑ اور بڑے بڑے بسکٹ جو اس نے گھر میں ہی تیار کئے تھے،  پلیٹوں میں ڈالے اور میرے سامنے رکھ دئے۔  میں چونکہ اکیلا ہوتا ہوں اس لئے میرے ساتھ کھانے والا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔  مجھے شدید بھوک تھی اس لئے میں کھانے پر ٹوٹ پڑااور وہ مجھے کھاتے دیکھتا رہا۔  اس وقت اس کے چہرے پر فکر مندی کے اثار تھے جو میرے خیال میں ہمارے بچھڑے چوری کرنے کے احساس جرم کی وجہ سے تھے۔  کھانے کے دوران میں سوچنے لگا کہ اپنے بچھڑوں تک کیسے رسائی حاصل کر سکتا تھا۔ 
                جب میں کھانا کھا چکا تو آرتھر بولا،  سردیاں خراب تو ہیں ہی مگر گرمیوں میں اس سے بھی بری حالت ہوتی ہے۔  میں اتنا مصروف ہو جاتا ہوں کہ کھانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔  ان دنوں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہوتی ہے۔  پچھلی گرمیوں ایک لڑکی چند ہفتوں کے لئے میرے پاس آئی تھی جو ایک گائے کے مانند بہت موٹی تھی جس کی خواہش میرے پاس مستقل طور پر رہنے کی تھی لیکن اس کا خاندان پاس ہی کہیں آباد ہو گیا تھااس لئے وہ ان کے پاس واپس چلی گئی۔
                وہ اپنی دھن میں بولے جا رہا تھاکہ وہ بے حد تنہا ہے اور مہینوں تک کسی سے بات کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ 
                میں نے اس سے واپسی کی اجازت لی تو وہ بولا،  نہیں۔  باہر بے حد سردی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔  تمہاری جان کو خطرہ ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ رات میرے پاس ہی قیام کرو۔  اس نے یہ بات اتنی ہمدردی اور پیار سے کی کہ میں بھول گیا کہ وہ ایک چور ہے جس نے ہمارے بچھڑے غائب کر دئے ہیں۔  ساتھ ہی خوش بھی ہوا کہ اس دوران وہ اپنے بچھڑے ڈھونڈ نکالنے کا موقع مل جائے گا۔  میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ 
                آرتھر نے میز صاف کی۔  برتن دھوئے اور کہا کہ وہ اصطبل جا رہا ہے تاکہ ٹم اور دوسرے جانوروں کو ایک بار دیکھ کر آئے۔  میں نے اس کے ساتھ جانے کی پیشکش کی جس سے اس نے منع کر دیا۔  جب اس نے مجھے سختی سے روکاجو میں نے اس کی آنکھوں میں وہی غصہ،  درشتگی اور مکاری دیکھی جو کہ فارم ہاؤس سے داخلے سے پہلے تھی۔  میں نے منصوبہ بنایا کہ رات کو جب وہ سو جائے گا تب میں بند دروازہ کھول کر تفصیلی جائزہ لے لوں گا۔  میں نے تہیہ کر لیا کہ میں رات کو نہیں سووں گا۔  اس وقت میں من ہی من مسکایا کہ اس نے مجھے رات ٹھہرنے کی دعوت دے کر بہت بڑی غلطی کر دی تھی۔
                جب وہ واپس آیا تو ہم آتش دان کے پاس پڑی کرسیوں پر بیٹھ کر شطرنج کھیلنے لگے۔  وہ شطرنج کا بہت بڑا کھلاڑی تھا۔  میرا دل رکھنے کے لئے وہ جان بوجھ کر ہارتا رہا۔  ہم کھیل کے دوران بات چیت کرتے رہے۔  آرتھر نے بتایا کہ موٹی بھدی لڑکی بھی میرے ساتھ شطرنج کھیلا کرتی تھی۔  وہ کم عقل تھی اور اسے مہروں کی پہچان نہ تھی۔  کبھی کبھار تو اپنے مہروں کی بجائے میرے مہروں سے کھیلنے لگ جاتی تھی۔  جب کبھی وہ ہار جاتی تو رونے لگتی۔
                میری چچی کی طبیعت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔  جب وہ تاش میں ہار رہی ہوتی تو بے ایمانی کرنے لگتی تھی۔  اگر اسے بے ایمانی کرتے وقت پکڑ لیا جاتا تو وہ بہانہ بناتا کہ اس کی کمزور نظر کی وجہ سے صحیح ادراک نہیں ہوا۔  خواتین شطرنج کھیلتے ہوت بہت زیادہ بولتی ہیں۔  وہ کھیل پر پوری توجہ نہیں دے سکتی اس لئے وہ بہتر کھلاڑی ثابت نہیں ہوتی۔
                میرا یہ دن بے حد طویل تھا۔  میں پچھلے سولہ گھنٹوں سے سفر پر اور نیند سے آنکھیں بند ہو رہی تھیں لیکن میں سونا نہیں چاہتا تھا۔  میں نے اسے تجویز دی کہ وہ اپنے ساتھ کسی دوسرے کو کیوں نہیں رکھ لیتا۔  اس سے تمہارا اکلاپہ دور ہو جائے گا۔
                بہت سے لوگ میرے ساتھ رہنے کے خواہشمند ہیں۔  ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔  وہ لڑکی بھی ایسی ہی تھی۔  وہ گلے پڑ گئی تھی۔  وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن میں نے اسے زبردستی بھیج دیا،  آرتھر نے جواب دیا۔
                میں نے محسوس کیا کہ جب وہ لڑکی کی باتیں کر رہا تھا تو چہکنا شروع ہو گیا تھااور اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی۔  میں نے اس پر اسے کہا کہ شاید وہ تمہیں پسند کرنے لگ گئی ہو۔
                وہ مجھے بے شک بہت زیادہ پسند کرتی تھی۔  وہ تمام رات مجھے دلچسپی سے دیکھتی رہتی۔  دہ ہفتے پہلے وہ پھر اپنا سامان لے کر میرے پاس آئی تھی اور میرے پاس موتقل رہنا چاہتی تھی۔  اس نے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ میرا تمام کام بغیر تنخواہ کے کر دیا کرے گی لیکن میں نہ مانا،  آرتھر فخریہ انداز میں بولا۔
مجھے نیند کے جھونکے آنے لگے مگر میں سونا نہیں چاہتا تھا۔  اس لئے میں کرسی میں اس انداز میں بیٹھ گیا جس سے میں تکلیف میں رہوں تاکہ سو نہ سکوں۔  اس دوران میں نے اس سے پوچھا لیا کہ پھر اس نے اسے اپنے پاس کیوں نہیں رکھ لیا؟
                میری بات سن کر آرتھر کی آنکھیں سکڑ گئیں اور اس نے کہا،  پچھلی بار اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مجھے بڑی تگ و دو کرنا پڑی تھی۔  نہ صرف وہ بیوقوف تھی بلکہ اس کا پورا خاندان ہی احمق تھا۔  اس کی ماں کا رویہ بھی دس سالہ بچی والا ہوتا تھا۔
                تم اس سے شادی کر لیتے،  میں نے تجویز کی۔
                وہ اور اس کا خاندان میرے ساتھ اس کی شادی میں سنجیدہ تھالیکن وہ کند ذہن تھی۔  میرے دو آدمیوں پر چڑھ دوڑی تھی اور ان سے تعلقات قائم کر لئے۔۔  اس کی یاد داشت نہایت کمزور تھی۔
                 آتش دان میں کوئلے کا سینک کم ہونے لگا تھا۔  اس نے کوئلوں کو ہلایا۔  دو شاخیں اور ایک موٹا تنا اس میں ڈالا۔
                میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا،  پھر بھی اگر تم اسے اپنے پاس رکھ لیتے تو اس کے لئے بہتر ہوتا۔
                آرتھر نے جواب دیا،  پہلے پہل میں نے بھی یہی سوچا تھا۔  فارم ہاؤس میں ایک خاتون کی ضرورت تھی۔  وہ  میرے کام کر سکتی تھی اور ہر وقت میرے ساتھ ہوتی اور پیچھے پیچھے پھرتی۔  میرے ساتھ تمہاری طرح رات کو بیٹھ کر بظاہر شطریج بھی کھیلتی لیکن اس کی توجہ مہروں سے زیادہ میرے اوپر ہوتی۔  اس کو تو مہروں کی پہچان بھی نہ ہوتی۔  کم عقل تھی۔  ہر کوئی اسے بیکا سکتا تھا جو نہ صرف اس کے لئے بلکہ فارم ہاؤس کے لئے بھی نقصان دہ تھا۔  جب وہ دوبارہ میرے پاس رہنے کے لئے آئی تھی تو میں نے واپس جانے کا کہہ کر چند دنوں کے لئے شہر چلا گیا تھا۔  واپس آیا تو شکر ہے کہ وہ اپنا سامان لے کر جا چکی تھی۔
                میری نیند سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔  اس نے میری حالت دیکھ لی اور کہا کہ مجھے سو جانا چاہئے۔  لیکن میں سونا نہیں چاہتا تھا۔ 
                میں نے پوچھا،  سردی کی شدت کم کرنے کے لئے کیا مجھے کافی مل سکتی ہے؟  شاید کافی پینا میرے لئے بہتر رہے گا۔ 
                دراصل میں اپنی نیند اڑانا چاہتا تھا۔  اس نے مجھے کافی دے دی جسے پی کر میں بظاہر سو نے کا اداکری کرنے لگا۔  وہ از خود شطرنج کھیلنے لگا۔  لگتا تھا اس نے بھی خود کو زبردستی میرے ڈر سے جگایا ہوا تھا۔  میں نے اونگھنے کے بعد کئی بار دیکھا تو وہ مسلسل جاگ رہا تھا اور اپنی مگن میں اکیلے ہی کھیل میں لگا ہوا تھا۔  ایک بار میں اونگھ سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہ بالآخر سو رہا تھا۔
                میں بڑی آہستگی سے اندھیرے میں انتہائی محتاط طریقے سے چلتا ہوا بند گیٹ کی طرف گیا۔  معلوم ہوا کہ وہ گیٹ نٹ بولٹوں سے اسطرح بند ہوا تھا کہ اوزاروں کے استعمال کے بغیر نہیں کھل سکتا تھا۔  پھر بھی میں نے کسی طرح دھکیل کے اس دروازے کو ہلکا سا کھول کراندھیرے میں اندر جھانکاتو ایسا محسوس ہواجیسے کوئی چیز اس پار موجود تھی۔  مجھے اندازہ ہو گیا کہ میسے بچھڑے اسی جگہ پر ہوں گے۔  اس لئے میں واپس آ کر لیٹ گیا تاکہ صبح کے وقت انہیں ڈھونڈ لوں گا۔ 
                صبح جب میری آنکھ کھلی تو آرتھر جاگ چکا تھا۔  میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں بچھڑوں کے بغیر واپس چلا گیا تو میری کہانی پرمیری چچی یقین نہیں کرے گی۔  اس لئے کسی نہ کسی طرح سے بچھڑوں کو ساتھ لے جانا لازمی تھا۔  دوسری بات یہ تھی کہ اگر میں ان کے بغیر چلا گیا تو اگلے دن سے پہلے پہلے یا تو وہ انہیں ذبح کر دے گا یا پھر کسی دوسری جگی منتقل کر کے ان کا نشان مٹا دے گا۔
                و ہ موجود نہیں تھا تو بند گیٹ کے پاس گیا۔  غور کیا تو ایک گھوڑے کی ہنہناہٹ سنائی دی۔  مجھے امید تھی کہ میرے بچھڑے بھی وہیں ہوں گے۔  میں اس وقت انہیں لے کر نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ
میں نے رہنے اور خوراک کے پیسے ابھی تک نہیں دئے تھے۔  اگر میں ادھار چکائے بغیر چلا جاتا تو چور کہلاتا۔  میں نے فیصلہ کیا کی جب میں ٹم کو ساتھ لے کر جا رہا ہوں گا تو اس وقت بھر پور کوشش کروں گا کہ اپنے بچھڑوں کو بہرطور اپنے ساتھ لے جا سکوں۔  اتنی دیر میں آرتھر آ گیا۔  اس نے اپنے مویشیوں،  گھوڑوں اور ٹم کو چارہ ڈال دیا تھا۔  اب وہ ناشتہ بنا رہا تھا۔  اس نے انڈے،  ڈبل روٹی،  دلیہ اور پھلیاں بنائیں جو میں نے سیر ہو کر کھائیں۔  ناشتے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اس نے تین بار میری طرف بڑے غور سے دیکھا۔  اس کی آنکھوں میں اس کے ڈیلے بڑی تھے۔  رت جگے سے وہ سست لگ رہا تھا۔  عین اسی وقت وہ اٹھا اور الو کے سامنے گوشت رکھ دیا۔  پھر واپس آ کر کافی پینے لگا۔  اس وقت اس کا رویہ خالص دوستانہ تھا۔  مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے جلد سے جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ 
                 میں تسلی سے آستہ آہستہ کھاتا رہا۔  اس وقت میں اپنے بچھڑوں کی بات کرتا تو کیا وہ مان جاتا؟  اور مجھے انہیں لے جانے کی اجازت دیتا؟  ہر گز نہیں!  وہ پرایشانی اور غصے میں ّ کر ایسا قدم اٹھاتا کہ میں اپنے گھر نہ پہنچ سکوں اس لئے میں نے سوچا کہ اس سے نرمی سے بات کرنی چاہئے۔ 
                تم نے مجھے اور ٹم کو بہترین کھانا کھلایا۔  رات سونے کو جگہ دی۔  میں تمہارا شکرگزار ہوں۔  میں نے اسے کچھ رقم دی کہ وہ اپنی اس خدمت کے عوض رکھ لے۔
                وہ ایک کھوکھلی ہنسی ہنسا اور پیسے لینے سے انکار کر دیا۔  پھر بولا،  تم پھر آؤ اور زیادہ دنوں کے لئے آؤ۔  میں تمہیں شکار پر لے چلوں گا۔  میں تمہارے پاس تمہارے قصبے بھی آؤنگااور وہاں ہم دونوں عمدہ ریستوران میں بہترین کھانا کھائیں گے۔  میں یکسانیت سے اکتا جاتا ہوں او رتبدیلی کی مجھے اکثر ضرورت پڑتی رہتی ہے۔  اس کے لہجے میں خلوص تھا اور میں نے ایک حقیقی ہمدردی محسوس کی۔  اس کے اس عمدہ رویے نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا لیکن میں اس سے کوئی جذباتی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ میرے بچھڑوں کا چور تھا۔  آرتھر نے میرے چمڑے کی جیکٹ اٹھائی اور مجھے پہنانے لگا۔  اس کا یہ انداز اتنا ہی محبت بھرا تھا جتنا کہ میری چچی کا مجھے جیکٹ پہناتے وقت ہوتا تھا۔  مجھے عین اس وقت ایک تدبیر سوجھی۔
                مجھے بھی گھوڑوں میں دلچسپی ہے۔  کیا میں تمہارا اصطبل دیکھ سکتا ہوں۔  اس خواہش کے پیچھے میں اپنے بچھڑوں کو تلاش کرنا چاہتا تھا۔  کھلے ہوئے دروازے میں میں گیا اور ہر گھوڑے کو دیکھتا،  اس کے جسم پر پیار سے ہاتھ پھیرتا،  تھپکی دیتا،  ان کی نسل اور وصائف کے بارے میں تبصرہ کرتا،  اپنے گھوڑوں سے موازنہ کرتا۔  کونسا گھوڑا فطری طور پر خاموش طبع ہے،  کونسا آسانی سے سدھایا جا سکتا ہے،  کونسا اڑیل ہے اور کس طرح سے قابو کیا جا سکتا ہے۔  اس دوران اس نے ٹم کو تیار کر کے باہر والا دروازہ کھول دیا تاکہ میں اس پر سوار ہو کر واپس جا سکوں۔  اب میں گھوڑوں کا جائزہ لیتے لیتے ایک ایسی گھوڑی کے پاس گیا جو اڑیل تھی اور مستی کر رہی تھی۔  وہ ہی میرے لئے کارآمد ثابت ہو سکتی تھی اور میرے بچھڑوں کے ڈھوندنے کا سبب بن سکتی تھی۔
                وہ گھوڑی اپنی پیٹھ کو سٹال کے ایک طرف رگڑ رہی تھی۔  میں چپکے سے اس کے پیچھے سے نکلنے لگا تو اس نے اچانک تیزی سے حرکت کی جس سے میں اسکے نیچے آنے سے بال بال بچا۔  اس نے زور سے اپنا سر جھٹکا اور اپنے پاؤں میں بندھی ہوئی رسی کو کھینچا تاکہ وہ کھل جائے۔  وہ رسی استھان کے پاس ایسے باندھی گئی تھی کی آسانی سے کھل سکے۔  میں نے چپکے سے گانٹھ کھول دی۔  چونکہ میں اس وقت اوٹ میں تھا اس لئے وہ میرے اس حرکت کو نہ دیکھ پایااور گھوڑی کے منہ پر زور سے چپت لگائی تو وہ بدکی اور سر پٹ بھاگ کر گیٹ سے باہر نکل گئی۔  آرتھر اضطراری طور پر اس کے پیچھے بھاگا۔  میں اسی موقع کا انتظار کر رہا تھا۔  میں فوری طور پر اس بند دروازے کی طرف بھاگا۔  لڑکی کے تنے کو دروازے کے نٹ بولٹوں پو زور دارضربیں لگائیں تو دروازہ تھوڑا سا کھل گیا لیکن ٹھوکروں کی زور دار آوازیں سن کر آرتھر چونکا اور انتہائی طیش کی حالت میں میری طرف آیا۔  میں نے دروازے کو پورا کھولنے کے لئے لاتیں مارنا شروع کر دیں جس کی وجہ سے میرا بہت سا وقت ضائع ہو گیا۔  آرتھرنے میری چال سمجھ کر واپس آتے ہی مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور پیٹنے لگا۔  اس کی آنکھوں میں جنگلی چمک تھی جس نے مجھے بہت خوفزدہ کر دیا اور میں نے اس سے جان چھڑانے کا سوچا۔  نہ جانے مجھ میں اتنی قوت کہاں سے آ گئی کی اسے زور سے دھکہ سے کر گرا دیا۔  بھاگا،  ٹم کی رسی کھولی،  چھلانگ لگا کر اس پر بیٹھا اور اسے بھگا کر گیٹ سے باہر آ گیا۔  آرتھر نے تیزی سے میرا پیچھا کیا لیکن میں نے ٹم کو سر پٹ بھگا دیا اور اسے پیچھے چھوڑ دیا۔
                دوپہر ہو چکی تھی۔  ہم جلد ہی واپس گھر پہنچ گئے کیونکہ ہمیں کھیت عبور نہیں کرنے پڑے اور نہ ہی گھر گھر جا کر بچھڑوں کے بارے میں دریافت کرنا پڑا۔  درجنوں مزدور بڑی سڑک کی صفائی میں مصروف تھی تو راستہ صاف تھا۔   گھر پہنچنے پر میری حالت بہت ابتر تھی۔  میں نے ٹم کو اصطبل چھوڑا۔  اس کی کاٹھی،  زین،  لگامیں اور پٹی نہ اتاری اور بھاگتا ہوا گھر داخل ہو گیا۔ 
                میری ظاہری حالت سے چاچی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے ساتھ کیا بیتی تھی۔  پھر میں نے اسے رام کتھا سنائی تو وہ سوچ میں پڑ گئی اور پھر بڑے آرام اور سکون سے بولی،  بھول جاؤ اس قضیے کو۔ 
                اس نے بار بی کیو بنانے کے لئے تکے کباب لوہے کی سلاخوں پر پکنے کے لئے آگ پر رکھ دئے۔  پھر وہ میرے پاس آئی اور میرے جیکٹ اور دیگر کپڑے جو سردی سے بچاؤ کے لئے میں نے پہنے تھے،  اتارنے میں میری مدد کی۔  میرا ماتھا چوما اور کہا،   آگ سینک کر بہتر محسوس کرو اوربچھڑوں کو بھول جاؤ۔  کل دوپہر کو وہ بچھڑے از خود ہی واپس آ گئے تھے لیکن تم اس وقت تک بہت دور جا چکے تھے۔ 
                میں نے حیرانی سے چچی کو دیکھا۔ 
                مگر میں تو ہمارے بچھڑوں کو اس بندکمرے کے اندر ڈھونڈنا چاہتا تھا۔  اور  میں وہ کمرہ کھول کر اندر داخل ہونے ہی کو تھا جب آرتھر نے مجھے مار گرایا۔  اس کمرے میں اگر بچھڑے نہ تھے تو کیا تھا؟  
        چچی نے کوئی جواب نہ دیا اور بار بی کیو کی آگ سلگانے میں متوجہ رہی۔ 
 میں نے سوچا کہ اب میں کیا کروں۔۔۔  نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔  


Popular posts from this blog