اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے ( تیسری قسط ) Sons And Lovers (3rd Episode) By D. H. Lawrence (1885-1930) United Kingdom

 






اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے   ( تیسری قسط )
Sons And Lovers (3rd Episode)

By

D. H. Lawrence (1885-1930)

United Kingdom

 تلخیص  و تجزیہ: غلام محی الدین (3)

 عینی کے گھر دو ماہ رہنے کے بعد پال اپنی ماں کو کرائے کی کار میں جو اس 

دور میں نایاب تھی اپنے گھر لاتا ہے۔ محلے دار  اسکے استقبال کے لئے گلیوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔عینی بھی ان کے ساتھ آتی ہے۔ ان کی ماں مر رہی ہے۔ ماں کے بغیر پال کو اپنا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ماں کے مرنے کے بعد اس کی زندگی بیکار ہو جائے گی  اور کسی اور کے ساتھ تعلق میں اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔وہ باہر سے گھر آتا ہے توماں کے کمرے کی کھڑکی میں مدھم روشنی دیکھ کر  وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی ماں اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جانے والی ہے۔

پال اپنی ماں کو آرام دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کی ماں نے بھی پکا تہیہ کیا ہوتا ہے کہ اس نے نہیں مرنا۔ وہ پوری قوت ارادی سے زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ نہ تو کھا سکتی ہے، نہ پی سکتی ہے۔تمام جسم شدید دردوں میں ہے۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتاجیسے وہ کہہ رہی ہو کہ اگر وہ مر جاتی ہے تو پال کو بھی اس کے ساتھ مرنا ہو گا۔ اس کی اذیت برداشت نہیں کی جا رہی۔ اسکی نبض محسوس نہیں ہورہی۔ اسکو دیکھنے والا اسکی اذیت کو محسوس کر سکتا ہے۔ وہ اسکو تکلیف سے نجات دلانے کے لئے مارفین کی گولیاں پیس کر دودھ میں ملا کر اسے پلا دیتا ہے اور کئی گھنٹوں  کے بعد اس کی روح فانی دنیا سے پرواز کر جاتی ہے۔ 

تمام خاندا ن بوجھل دل سے اسے پڑتے اولوں میں دفنا دیتاہے۔

اس  کے بعد پال نوٹنگھم جاتا ہے اور بیکسٹر اور کلارا سے ملتا ہے۔ بیکسٹر اس وقت  مکمل صحت یاب ہو چکا ہوتا ہے۔اب دونوں بہترین دوست بن گئے ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ بیکسٹر اور کلارا کا ملاپ دوبارہ ہو جائے۔ وہ ساحل پر آؤٹنگ کا پروگرام بناتا ہے جس میں وہ کرائے پر ایک کمرہ لیتا ہے اور بیکسٹرکو وہاں لے جاتا ہے۔پھر وہ کلارا کو وہاں بلا لیتا ہے اور میاں بیوی کی صلح کروا دیتاہے اور اکیلا واپس چلا آتا ہے۔ پھرپال اپنے بہنوئی لیونارڈ کے ذریعے بیکسٹر کی 

نوکری کا انتظام شیفورڈ میں کرادیتا ہے۔

     پال اب بالکل تنہا رہ گیا ہے۔ اسکا باپ گھرچھوڑ کر کسی کے ہاں ایک کمرہ 

کرائے پر لے کر رہ رہا ہے۔ عینی اور آرنلڈ، آرتھر اور اسکی بیوی اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ پال نے نوٹنگھم میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا ہوتا ہے۔اسے اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔وہ اپناوقت مے خانوں میں  گزارنے لگتا ہے۔اسکی زندگی میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔وہ مرنا چاہتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اسکی ماں کی وفات کے بعد اسکی زندگی سے محبت ختم ہو گئی ہے اور اس  کاجینابیکارہے۔

     ایک اتوار و ہ نوٹنگھم ذہنی سکون کی خاطرچرچ جاتا ہے تو وہاں مریم اسے 

مذہبی مناجات گاتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔اس کے چہرے سے روحانیت ٹپک رہی ہے۔ وہ عبادت بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ کر رہی ہے۔پال اسے نوٹنگھم میں دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔پادری کے بیان کے بعد وہ اسے ملتا ہے۔وہ بھی غیر متوقع ملاقات پر حیران ہوتی ہے۔وہ اسے بتاتی ہے کہ کسی کام کے سلسلے میں وہ اپنے کسی رشتے دار سے ملنے کے ایک دن پہلے آئی تھی  اور اگلے دن واپس ویلی فارم  ہاؤس جا رہی ہے۔وہ اسے اپنے گھر جانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ مان جاتی ہے۔ وہ اسے لے کر اپنے چھوٹے سے  بدحال کمرے میں لاتا ہے اور اسے کافی بنا کر پیش کرتا ہے۔مریم اسے بتاتی ہے کہ اسکاٹیچنگ کالج میں داخلہ ہو گیا ہے اور وہ جلد ہی وہاں جا رہی ہے۔اس کی بات سن کر وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ مریم اپنے روشن مستقبل پر خوش ہے۔مریم اس سے پوچھتی ہے کہ کیا وہ اب بھی کلارا کے سا تھ رہتا ہے۔ پال منفی میں جواب دیتا ہے۔ اس پر وہ پیشکش کرتی ہے کہ اس کے ساتھ شادی کر لے۔ پال منع کر دیتا ہے۔مریم اسے کہتی ہے کہ اگر وہ اس کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتا تو ان کے درمیان تعلق نہ ہونا بہتر ہے،یہ کہہ کر چلی جاتی ہے اور وہ اپنی ماں کی سوچوں میں غرق بیٹھا رہتا ہے۔


تجزیہ

 ڈی۔ ایچ۔لارنس نے ’اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے‘ ناول روایتی  ڈگر سے ہٹ کر اس دور میں تخلیق کیا جب یورپ میں کلیساء کی حکمرانی تھی۔ مذہب سے روگردانی عذاب کو دعوت دینا تھا۔ جنسی مسائل پر لکھناطبو تھا۔ ان دنوں سگمنڈ فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریے کا چرچا تھا۔ لبیدو جو حیاتیاتی،نفسیاتی اور سماجی عو امل کی بنا پر جنسی توانائی پیدا کرتی ہیں وہ شخصیت کی تشکیل میں مدد دیتی ہیں۔ شیر خوار خوراک سے جوقوت حاصل کرتا ہے، اس کی نگہداشت جس انداز میں کی جاتی ہے، جس قسم کے ماحول میں وہ پرورش پاتا ہے  اسکی سماجیت میں اہم شمار ہوتے ہیں۔فرائیڈ اپنے نظریے میں جنس کوکردار سازی میں اہم ترین شما ر کرتا ہے۔ اس کے اوڈیپس کمپلیکس کا نظریہ جس میں بچہ اپنے صنف  مخالف کے والدین کے ساتھ لاشعوری سطح پر جنسی خواہش رکھتا ہے ناقابل قبول شمار کئے گئے۔ اس نے یہ تصور’سو فو کلس اوڈیپس ریکس ‘کی کہانی سے لیا۔ اس کہانی میں بیٹے نے انجانے میں اپنے باپ کو قتل کرکے اپنی ماں سے انجانے میں شادی کر لی تھی۔ اس پر ہر طرف سے تنقید کے ڈونگرے برسنے لگے۔ فرائیڈ کے نظریے کو معدوے چند ترقی پسند علماء نے ہی قبول کیا اور اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔ان میں ڈی۔ ایچ۔ لارنس پیش پیش تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علم دانش اس نظریے کی اہمیت سمجھنے لگے اور ادب میں استعمال کرنے لگے لیکن روایت پسند ادیب اور مذہبی حلقے اس نظریے کے خلاف رہے۔

 لارنس نے اپنے اس ناول کی بنیاد اوڈیپس کمپلیکس کے اصول پر رکھی ہے۔اس نے ناول میں ولیم اور پال کو اپنی ماں کی طرف ملتفت ہوتے بیان کیا ہے۔وہ باپ کو رقیب سمجھتے ہیں۔ والدین کے مابین جنس کو پسند نہیں کرتے۔لڑکے ماں پر ہر طرح کا حق جتاتے ہیں۔وہ اپنے باپ سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔انہیں خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں انہیں اس کی اپنی ماں کیلئے جنسی خواہشات کا علم نہ ہو جائے۔ وہ طاقتور ہے، حاکم ہے،بیٹے اس کے سامنے کمزور ہیں۔مکمل طور پر محتاج ہیں۔ اسکا کسی لحاظ سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔

 ولیم اور اس کی ماں کا جذباتی تعلق بھی بہت مضبوط ہے۔  ولیم اپنے باپ کے ساتھ برسر پیکار رہتا ہے۔ اس کے اگرچہ بہت سی لڑکیوں کے ساتھ رومانی تعلقات ہیں لیکن اس کی ترجیح ہمیشہ ماں ہی رہی ہے اور ماں بھی ہمیشہ اس کی پوری طرح ملتفت رہی ہے جو اوڈیپس کمپلیکس کی بہترین مثال ہے۔

 مریم اپنے مضبوط ضمیر کی وجہ سے اسی کوشش میں رہتی ہے کہ ہر ممکن طور پر اپنی رومانیت کو قابو میں رکھے جبکہ پال ایک عملی شخص ہےجسکی رومانیت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک اسکا جنسی جذبہ پورا نہیں ہو جاتا۔ تسکین کے بعد اسکی وہ جذباتی کیفیت ختم ہوجاتی ہے اور ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے  ان میں کبھی رومانی تعلق نہیں رہا۔ جب ہارمون سر اٹھاتے ہیں تو وہ پھر نامعقول رویہ اپناتا ہے اور مقصدحاصل  کرنے  کے بعد ماں کے کنٹرول میں آجاتا ہے اور اس کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ وہ کسی بھی لڑکی کے ساتھ حد سے گزرتا ہے تو لاشعوری  پر سمجھتا ہے کہ اسکی ماں اسکی نگرانی کر رہی ہے اور وہ اسکی حق تلفی کر رہا ہے۔  یہ تصور اسے کسی کے ساتھ مستقل تعلقات قائم کرنے  میں مانع ہوتا ہے۔ وہ مریم تو کیا، کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ یہ اوڈیپس کمپلیکس کی صحیح مثال ہے۔ 

 پال مریم لیورز سے ملتا ہے۔اگرچہ وہ اسے پسندکرتا ہے لیکن اسکی سوچ بھی ولیم کی طرح کی ہو جاتی ہے اور وہ  ذہنی طور پر عورت بیزار ہو جاتا ہے۔مریم اسے ماں کی چیرہ دستیوں سے بچانے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن ماں کی پال پر گرفت زیادہ مضبوط ہے۔ لمبی سیر کے دوران ویرانے میں الگ تھلگ جھاڑیوں میں مریم کا  گلاب کے چھپے ہوئے پھول کی نشاندہی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے اور اسکے لئے برملا اظہار کی ضرورت نہیں سمجھتی۔  اس طرح ولیم بھی چھپی ہوئی جنسی تسکین حاصل کرتا رہتا ہے، شادی بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اس سے بے حد نالاں بھی ہے۔ پال بھی مریم  اور کلاراسے پائیدار  تعلقات قائم کر نے میں مخلص نہیں۔ وہ لاشعوری طور پر یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ مریم  اور کلارا کے ساتھ وقت گزاری کر کے اپنی ماں سے غداری کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  وہ اپنی ماں سے شدید جذباتی وابستگی اور انجما د  رکھتا ہے۔ وہ اوڈ یپس بندھن توڑنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کی والدہ اس کوشش کو ناکام بنا دیتی ہے۔ جب وہ یہ کہتی ہے کہ وہ مریم کے ساتھ اسکے تعلقات برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ کسی اور کو قبول کر سکتی ہے لیکن اسے نہیں کیونکہ وہ اس کے لئے ذراسی بھی جگہ نہیں چھوڑے گی۔اور میرا کوئی خاوند نہیں ہو گا۔ کبھی بھی نہیں۔یہ بھی اوڈیپس الجھن کی مضبوطی کوبیان کرتی ہے۔

 ولیم اور پال کی ماں سے بے پناہ الفت عمر کے ساتھ ساتھ بلاواسطہ طور پر بڑھتی گئی ہے جس سے جوانی میں جنسی تعلقات قائم کرنے میں مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔پائیداررومانی تعلقات قائم نہیں  کئے  جاسکے ا ورناکارہ  زندگی گزاری ہے۔ولیم کی گرل فرینڈز کے ساتھ اسکی ماں کا معاندانہ رویہ، ان کے خطوط کو جلا دینا اور امیر لڑکی جس نے اسکے والدین سے ملنے کا لکھا تھا ،کے مشورے کو رد کرنا ولیم پر اپنا حق ملکیت جتانے کی علامت  تھی۔ اسکے علاوہ ماں کا ولیم کی منگیتر سے حسد کرنا اوڈیپس کی الجھن کی بدولت ہیں۔ایک وجہ ہے کہ اشرافیہ خاندان کی لڑکی للی  نے اس کی جگہ لے   لی ہے اور ولیم اس کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔  اور دوسرا  یہ کہ  ولیم نے اس کو بیس پونڈ سالانہ  بطور قریب ترین  (محبوبہ)ہستی ادا کرنے تھے ۔  وہ اس سے محروم ہو گئی تھی جس سے اسے خدشہ ہو گیا تھا کہ اوڈیپس بندھن میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔

 ولیم کے مرنے کے بعد پال اس کی جگہ لے لیتا ہے۔وہ ماں کا پسندیدہ بن جاتا ہے۔پال کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس سے شادی کا طلبگار ہے۔یہ بات اس وقت  ثابت ہو جاتی ہے جب پال اسے پرفیوم دیتاہے اور وہ محبوبانہ ادا سے اسے قبول کرلیتی ہے۔وہ شہوانی آواز میں " خوبصورت "  کہتی ہے۔لہجہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی محبوبہ اپنے عاشق سے کوئی تحفہ وصول کرتی ہے۔جوں ہی پال بالغ  ہوتاہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کی  وہ اوڈیپس کمپلیکس کا شکار ہو کے اپنے والد سے تعلقات مزید کشیدہ کر لیتا ہے۔ وہ اپنے باپ سے حسد کرنے لگتا ہے۔اور اپنی ماں کو یہ تجویز بھی دیتا ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ سویا کرے۔ یہ بھی اوڈیپس کی الجھن ہے۔  وہ اپنے باپ سے اور اسکا  باپ اس سے جلا کرتا ہے۔ دنیا اس کی شہرت سے جلتی ہے۔اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے  جیسے احساسا ت بھی اس میں پائے جاتے ہیں۔

 پال اپنی ماں کی چاہت میں پاگل ہے۔ اسے اپنے ماں باپ کی جوڑی ناپسند ہے۔ اپنا باپ اسے زہر آلود لگتا ہے۔ وہ اس سے نفرت کرتا ہے اور اپنی ماں سے کہتا ہے کہ اپنا خاوند تبدیل کر لے۔ وہ یہ دعا کرتا ہے کہ اس کا باپ مر جائے۔ وہ لاشعوری طور پر اسکی جگہ لینا چاہتا ہے۔یہاں اسکے عاشقانہ جذبات کی حدت معاشرتی اور اخلاقی حدود میں رہ کر اسکے ساتھ گہرے دوستانہ مراسم قائم کرنے کی پیشکش کرتی ہے۔ونگ فیلڈ کے تفریحی دورے پر جب اس کی ماں امور خانہ داری اور پال روپے پیسے کا حساب رکھتا ہے اور باقی لوگ خاندان کے اراکین کا تو علامتی طور پر وہ میاں بیوی کا کردار نبھا رہے ہیں۔اوڈیپس کی الجھن کی مثال ہے۔

 ناول میں اوڈیپس بندھن کی بدولت پائی جانے وال ذہنی کشمکش کے باوجود  ولیم اور پال دونوں مختلف خواتین سے جسمانی ضرورت کے ہاتھوں ہمت ہار دیتے ہیں ۔ یہ تعلقات خلوص پر مبنی نہیں ہوتے اور اپنی ماں کی تائید کے طلب گار ہوتے ہیں جو ان کی لاشعوری بے بسی ظاہر کرتے ہیں۔

 پال مریم کے ساتھ سرد مہری برت کے ایک شادی شدہ عورت کلارا ڈاؤ س کے ساتھ جس کی اپنے خاوند بکسٹر ڈاؤس سے علیحدگی ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے جنسی تعلقات قائم کر لیتا ہے۔ اسکی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی  یہ کہ اس کی ماں اسکی سب سے بڑی رقیب ہے۔ اسکی ماں کا اس پر پورا کنٹرول ہے۔ وہ اوڈیپس الجھن کی وجہ سے مریم کے ساتھ جنم جنم تک ساتھ نبھا نہیں سکتا۔ وہ اسے چاہتا توہے، اسکی خوبصورتی، ذہانت اور خلوص کو سراہتا بھی ہے لیکن جنسی طور پر وہ جوش و جذبے سے ساتھ نہیں دیتی۔ تیسری بات کلارا  ڈیوس ہے جو شادی شدہ ہے  اور اسکے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس دور میں طلاق ناممکنات میں سے  ایک فعل ہے۔اس کی سب سے مثبت بات جو پال کو نظر آتی ہے وہ اسکی جنسی جوشیلا پن،بے باکی ہے۔  اس کی ذہانت اور علوم و فنون کی قدرت اور ادب  پرکھنے کی استعداد بہت کم ہے۔ ولیم اور پال میں سماجی کرداری مسائل دوسروں کے مسائل کو سمجھنے کا رجحان نہیں پایا جاتا اوروہ حل کے لئے ماں کی طر ف دیکھتے ہیں۔

 مسز موریل بیمار پڑجاتی ہے۔ وہ بستر مرگ پر ہے اور شدید دردوں میں مبتلا ہے۔ڈاکٹر نے اسے تکلیف سے نجات کیلئے افیون کی گولیاں دی ہوئی ہیں۔ عینی اور پال اسکی دیکھ بھال پر مامورہیں ۔ پال اسکی اذیت برداشت نہیں کرسکتا  وہ افیون کی گولیوں کی پوری بوتل پیس کر دودھ میں ملا کر اسے پلا کر مار دیتا ہے۔ یہ قتل وہ اسے دنیاوی تکالیف سے نجات کے لئے کرتا ہے۔ تحلیل نفسی کے مطابق مس موریل اسلئے بیمار ہوتی ہے کہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ پال سے اسکا جنسی ملاپ ناممکن ہے۔ اور پال کا مقصد اوڈیپیس کی الجھن سے لاشعوری طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ وہ کسی بندھن کے بغیر کھلی اور آزادفضا میں سانس لیناچاہتا ہے اوراس میں اس دوران خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ مریم سے شادی کر لے ۔ماں کے مرنے کے بعد بھی وہ اوڈیپس الجھن سے آزاد نہیں ہوا حالانکہ مریم اس وقت بھی  شادی کی پیشکش کرتی ہے۔ ماں سے انجماد ہونے کی وجہ سے اسکی یادوں میں تن تنہا زندگی کا باقی ماندہ سفر طے کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے۔

        دلکش ارضی مناظر، دریا کا بہاؤ، سمندری لہریں، دلدل سے گزرنا،جنسی تپش اور ٹھنڈک مہیا کرنے کی علامت کے طور پر استعمال کی گئی ہیں۔ پھول کا مسلنا جنسی ملاپ کی علامت ہے۔ کھلے میدانوں میں ملاپ سے مراد کھلے اور پبلک مقامات پر جنسی اختلاط ہے جو جنگلات، سمندر، دریا کے کنارے، ساحل سمندر، قلعے، کھنڈرات، باغوں اور درختوں کی نیچے کئے گئے ہیں۔گرجا گھر روحانی تسکین  ؛اتا ہے اور احساس گناہ سے نجات دلاتا ہے۔

 بیکسٹر سے رقا بت کے باوجود وہ کلارا کے سامنے بیکسٹر کی طرفداری کرتا رہتا ہے اور اسے اس بات کا تاثر دیتا ہے کہ خواتین بے وفا ہوتی ہیں۔اسکا قصور نہیں ہے بلکہ کلارا ہی کی غلطی شمار کرتا ہے۔  اسکاگھر نہ بسنے کی ذ مہ دار اسے قرار دیتا ہے۔جب وہ ایسی تاویلات مریم کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ پال کی بات سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ کلارا کا اپنے خاوند کو چھوڑنے میں بیکسٹرکو سراسر قصور وار سمجھتی ہے۔ یہاں پال مردانہ بالا دستی ثابت کرتا ہے حالانکہ کلارا کے گھر چھوڑنے کی بنیادی وجہ اسکے میاں کا اسکے ساتھ ناروا سلوک ہی ہے، پال کی تاویل ہے۔ یہ اس کے خبط اذیت کی مثال ہے۔ پال اس کی عزت  کو  نقصان پہچانا چاہتا ہے۔

 پال یہ سمجھتا ہے کہ مریم اسے استعمال کر رہی ہے۔وہ ایسی چیزوں سے محبت کرتی ہے جو اس کے لئے فائدہ مند ہو۔پال اسکی تعلیمی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔اس کے نزدیک وہ صرف اس چیز سے محبت کرتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسکی تعلیمی استعداد میں اضافہ ہو جائے اور وہ پڑھائی کا مقصد پورا کر لے جبکہ وہ صدق دل سے یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے خلاف کھڑا ہو کر اس سے شادی کر لے۔ لیکن اس کی ماں مسز موریل کویقین کامل ہے کہ پال کا  مریم کے ساتھ وقت گزارنا پال کو ضرور نقصان پہنچائے گا۔ وہ یہ نہیں جانتی کہ اسکی پال پر سختی، اسے مریم کے پاس نہ جانے دینا پال کے لئے نفسیاتی طور پر نقصان دہ ہے۔وہ بالغوں کے درمیان تعلقات قائم نہیں ہونے دیتی۔وہ مریم کے ساتھ تعلقات کی تشر یح اس انداز میں کرتی ہے کہ اس میں احساس گناہ پیدا ہو۔وہ تعقلیت کا شکار ہے اور اپنے غلط کردار کو دلائل اور توجیہات کے ذریعے ایسے پیش کرتا ہے جیسے کہ وہ صحیح ہے اور دوسرے غلط ہیں۔

 پال ماں کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ وہ مریم سے شادی نہیں کرنا چاہتا اور اس بات کا یقین دلانے کے لئے ماں کی کرسی کے پاس آکر اسے چوم رہا ہوتا ہے تو اوپر سے اسکا باپ آ جاتا ہے اور وہ یہ منظر دیکھ کر آگ بگولا ہو جاتا ہے۔ پال کے لئے جو آئس کریم لاتا ہے، خود ہی کھا لیتا ہے۔اس پر  اسکی بیوی اسکی  سر زنش کرتی ہے۔وہ پال کو مکہ مارنے کی کوشش کرتا ہے وہ جھکائی دے کر بچ جاتا ہے۔ماں باپ لڑلڑ کر چپ ہو  جاتے ہیں۔یہ حرکت اوڈیپس  کی مثال کے طورپرستعمال کی جا سکتی ہے۔  وہ خود کو  اہم ہستی سمجھتا ہے۔اسکے سوچنے کے اندازمیں خرابی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے اور دوسرے غلط۔ 

اگر اوڈیپس کا نظریہ قبول کرلیاجائے تو  بیٹی کی محبت کا محور باپ ہونا چاہیے تھا۔اسے ماں کو اپنا رقیب سمجھنا چاہئے تھا کیونکہ اس نظریے کے مطابق باپ پر لاشعوری طور پر اسکا حق ہے اور اسکی ماں نے عینی کا حق سلب کیا ہوا ہے۔ اسی طرح باپ کو بھی بیٹے کی نسبت بیٹی کے زیادہ قریب ہونا چا ہئے تھاجس کا ناول میں کوئی ذکر نہیں۔وہ ماں کی  محتاج ہے لیکن ماں کا رویہ اس کے ساتھ ظالمانہ نہیں ہے۔ اس ناول میں لارنس نے عینی کے اپنے باپ کے بارے میں رومانی اور شہوانی جذبات و احساسات کہیں بھی نظر نہیں آئے۔  

اسی طرح آرتھر کے بارے میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں، اس لحاظ سےآرتھر کو اپنی ماں سے محبت اور باپ سے نفرت ہونی چاہئے تھی جبکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ صرف آرتھر ہی ایسی اولاد تھی جس کو دیکھ کر والٹر خوش ہوتا اور  چومتا تھا اور آرتھر بھی اپنے باپ کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور اس کی طرف لپکتا تھا کہ وہ اسے اٹھا لے۔ جبکہ ماں کی طرف اس کا رویہ عام سا تھا جو  اوڈیپس کمپلیکس کے نظریہ پر سو فیصد پورا نہیں اترتا۔ 

اسکے ناولوں میں فرائیڈ اور  یونگ کے نظریات کی جھلک نظر آتی تھی۔ اسلئے اس پر غیر موزوں متن کے اعتراض اٹھائے جاتے تھے لیکن آخری ناول میں لارنس نے کئی مقولے پیش کئے ہیں جن میں چند ایک درج ہیں کہ زندگی بسر کرنے کے لئے ہے نہ کہ گزارنے کے لئے۔اسلئے جو جی میں آئے، کر گزرنا چاہئے۔میں اپنی زندگی بھر پور طریقے سے جینا چاہتا ہوں تاکہ رات کو یہ سوچ کر نہ پچھتاؤں کہ میں نے وہ کیوں نہ  کیا جو میں چاہتا تھا۔ کسی عورت سے فلرٹ کرنا اور پٹاناسب سے حسین فعل ہے۔مرد اس میں وہ چیز تلاش کرتا ہے جو اس میں موجود نہیں۔اس تال میل میں گلے ملنے یا مباشرت سے ہر دفعہ نئی لذت حاصل ہوتی ہے، ہر ایک کو محبت کرنا سیکھنا چاہیئے خواہ اس کے لئے کتنی ہی اذیت اور مشقت بردشت نہ کرنا پڑے۔۔۔۔۔ا ور یہ سفر ہمیشہ دوسری روح تک رسائی دیتا ہے  وغیرہ۔ 

ادبی مقام

 ایک مشہور امریکی ناقد بیری سکا ٹ سیئرچیمپ نے 28نومبر  2019کو لارنس کی ادبی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے  نیویارک ویو آف سلیکٹڈ ایسسیزمیں سدا بہار ادیبوں کے بارے میں تبصرے شائع کئے۔ اسے ایساجنسی ہیجان پیدا کرنے والا ناول نگار۔ ڈرامہ نگاراور شاعرسمجھا گیا جو  آرٹسٹ کے روپ میں ان کا برملا اظہار کر رہا تھا۔ اسے آوارہ منش انسان سمجھا گیاجو مقفع مسجع  اور مرصع  نثر نگاری کی تہہ میں فحاشی پھیلاتا تھا۔ اس کے آخری ناول لیڈی چیٹرلیز لوورکو برطانیہ میں فحش نگاری کا ٹھپہ لگا کر اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ جیمز جوائس نے لارنس کو  ایک گندے ڈہن والا ادیب کہا جبکہ ورجینیا وولف نے اس کو نچلی سطح کا  ادیب کہا۔ ریبیکا ویسٹ نے 1930 میں اسکی تپ دق میں چو الیس سال کی عمر میں وفات پر اسکے لئے تعزیت نامے شائع کئے  البتہ اس میں بھی اس نے دعوی ٰکیا کہ  لارنس پر فحش نگاری کا جو بھی الزام لگایا گیا وہ صحیح تھا۔ اس کے باوجود یہ تسلیم کیا گیا کہ وہ ایک ایسا فطین ادیب تھا جس کی موت کے انیس سال بعد 1949 تک اسکی درگت بنتی رہی۔ اس کے بعد اس پر علمی مغا لطے بند ہونا شروع ہوئے۔معاشر تی ارتقاء، حقوق نسوانیت اور صنعتی ترقی میں مزدوروں کی تحاریک نے ادب کو بھی قدامت پرستی سے نکالا اور وہ موضوعات جو چند عشرے پہلے طبو تھے،مقبول ہونے لگے۔  انداز بیاں اور موضوعات جو وہ انیسویں صدی دور میں سامنے لایا تھا، اس میں اس نے بنیادی محرکات کی لفاظی اس انداز میں کی تھی کہ وہ اس وقت  کے قارئین اور ناقدین کو جنسی لذت کے موضوعات لگے۔ عہد جدید میں وہ موضوعات اور طرز بیان ہیجانی تلاطم کے لحاظ سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ 

اس کی یہ کتاب جو اسکی سوانعمری شمار کی جاتی ہے، میں اس نے اپنی ذات کے بارے میں تمام باتیں کھل کر ایماندارانہ طریقے سے لگی لپٹی رکھے بغیربیان کر دی ہیں۔ اسکے اسلوب فن میں خوبصورت لفاظی ادبی شاہکار تصور کی جاتی ہے۔وہ الفاظ سے آسانی سے کھیلتا ہے۔خوب تراش خراش کرتا ہے۔ اسکے خطوط،حسین  نظاروں، پھولوں، سبزہ زاروں، پہلی جنگ عظیم کی منظر کشی، مضامین، تجزیے ، سہیہ  کے مرنے کی کہانی، سفر نامے،قدیم مسمار شدہ محلات، قلعے، عمارات ، پرندوں، قدیم امریکیوں سے ملاقاتوں،وغیرہ اس اندازمیں لکھے گئے ہیں کہ اس سے پوری طرح اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کو پڑھ کر پوری طرح سے واضح ہو جاتاہے کہ وہ کن مقامات پر گیا ہے اور کن کن تجربات سے گزرا ہے۔لارنس مستقبل کا ادیب ہے۔ اس کے طبو سے متعلق موضوعات اگرچہ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس نے ہر ایک کو مختلف اورانوکھے انداز میں پیش کیا ہے۔ اس  کے بنیادی تصورات میں انسان ہمیشہ نامکمل رہتا ہے۔ اس نے جگہ جگہ اسے اشاروں کنایوں میں بیان کیا ہے۔ ایک ایسا  تصور ہے جس میں وہ اس بات کو کہ نفس کے سوا کوئی وجود نہیں اسلئے اصلی علم نفس کو جاننا ضروری ہے۔ اس کے مطابق ایک آرٹسٹ کے ہاتھوں میں بے پناہ حساسیت پائی جاتی ہے جو اسکے نفس کے وجود کو سمجھ کر اپنے فن کی تخلیق میں  معاون ہوتی ہے۔اس نے اپنی باطنی کیفیات کو فطری کہا۔ وہ رومانیت کو ذاتی تجربات کی روشنی میں واضح کرتا ہے۔ وہ فطرت کو اس میں شامل کرتا ہے۔ اسکے نزدیک رومانیت کی ہر قسم میں فطرت بھی پوری طرح شامل ہوتی ہے جو تعلقات قائم کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ 

ڈی۔ ایچ۔ لارنس  ایک ایسا نامور شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار، نثر نگار، مضمون نگار، ادیب،سفرنامہ نگار اور عظیم مصورہے جو جیتے جی عزت و ستائش سے محروم رہا لیکن مرنے کے بعد اس کی قدرت ومنزلت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج وہ بیسویں صدی کے برطانوی عظیم ترین ادیبوں کی فہرست میں کافی اوپر آتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ برطانیہ کی انیسویں صدی کی ریت، روایات،سخت کیتھولک اور مذہبی عقائد، پس ماندہ معاشرے اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت کے دور میں ایسے ادب کی گنجائش نہیں تھی اسلئے اس دور کے سقراط، ارسطو  بلیدان  چڑھتے گئے۔ ڈارون، آئن سٹائن، گیلیلیو گیلیلی  جیسے عظیم سائنسدان پر زبردست تنقید کی گئی۔ ڈی ڈی۔یچ۔لارنس بھی مبری ٰنہیں تھا۔ انفرادی سوچ کا قبول نہ کیا جاناکوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ عصر حاضرمیں اس کتاب  'اولاد نرینہ اور انکے معاشقے'  پر فلم اور ٹی۔وی سیریل بنائے گئے ہیں۔ اس کے اس ناول پرتنقید ہوئی کہ اشاروں کنایوں میں وہ فرائیڈ کے ایڈیپس کمپلیکس کے نظریے کو فروغ دے رہا ہے۔

 جس گھر میں وہ پیدا ہوا وہاں آج کل اسکے نام پر میوزیم بنا دیا گیا ہے۔بی ویل بورد سکول جس میں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، کا نام تبدیل کرکے گریزلے بیویل ڈی۔ایچ۔ لارنس پرائمری سکول رکھ دیا گیا ہے۔آج یہ ناول برطانیہ کے کلاسیکی ادب میں شامل ہے اور بیسویں صدی کے پہلے سو ناولوں کی فہرست میں نویں نمبر پرآتا ہے۔

جاری ہے۔

 

 

Popular posts from this blog