کیبن کا باسی (The Man In The Shed 1st Episode ......... Llyod Jones۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لائڈ جونز) پہلی قسط

 





کیبن کا باسی (پہلی  قسط)

The Man in The Shed

                                                     By

Llyod Jones

مترجم : غلام محی الدین

ہرشخص کی زندگی میں  ایسےمقام بھی آتے ہیں جب   اپنے  تمام معاملات خودتک  محدود  رکھناپڑتےہیں  اوروہ کسی دوسرے کواس میں شریک نہیں کرسکتا۔یہ اس وقت ہوتاہےجب بات انتہائی قریبی لوگوں کی ہویابہت  جذباتی نوعیت کاہو۔ا سے شک ہوکہ اس کا معتمد اس سے ریاکاری کررہاہےلیکن وہ بول نہین سکتا۔کہ الٹے بانس بریلی والے نہ بن جائیں۔اس صورت میں شکی بن جاتاہےاوراندرہی اندرکڑھتارہتاہے۔کہ اس کے ساتھ کوئی ہاتھ  کرگیاہے۔ وہ   اپنے تئیں مقابلہ کرتا رہتاہے۔

روزمرہ  زندگی میں جب کوئی  محسوس کرے کہ کسی کھانے کی میزپراس کے ساتھ  غیرشائستگی کی ہےیاصریحاً  اس کےساتھ  بدتمیزی کی ہےتو  دیکھاگیاہے کہ وہ امپنا نوالہ منہ میں ڈالنے سےپہلےہی چھری کانٹاپھینک دیتاہےاور سامنے ایسے  دیکھتاہےجیسے کہ وہ احتجاج کررہاہو۔کچھ ایسا اباکےساتھ بھی پیش آیا۔ شائد یہی سوچ کراس نےاپنی  کرسی   چھوڑی ہوگی ۔اس نے سوچاہوگاکہ ہمارےچہرے  اس لائق نہیں تھےکہ ان کے ساتھ بیٹھاجائے۔اگراس نے یہ سوچاتھاتو ساراخاندان  اس کےلئے بےمعنی ہو کررہ گیاتھا ۔ اس نے سمجھاہوگاکہ وہ غلط گھر آ گھسا تھا۔

جب ماں اورمیں  نےاباکوکہاکہ اپناکھاناختم کرےتووہ دوازہ  کھول کر باہرنکل  گیااور اطراف کاایسے جائزہ لیا جیسے کوئی دشمن اس کی گھات میں تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتاتھا ۔ وہ ایک شکی مزاج شخص تھا۔والدہ اس کے رویہ سےنالاں تھی۔اس کے شک میں اس وقت سے اور اضافہ ہوگیاتھاجب سے ایک بن بلایامہمان ہمارے  گھرآٹپکاتھا۔

ابا کھانےکے بعداپنے کام پرجاتاتھااوردن بھرکام کےبعد شام کولوٹتاتھا۔جب کام پرجاتایاآتاتو وہ جاسوسانہ انداز میں پورے گھر کا جائزہ لیاکرتاتھا ۔ یہ اس کی عادت بن گئی تھی۔والدہ اور گھروالے اس کی اس عادت سے نالاں  تھے۔اس کی اس حرکت کی وجہ سےسب  اس سے چڑتے تھےلیکن وہ  بازنہیں آتاتھا۔میں نوع،رتھا۔وہ مجھے اپنے سب سے قریب سمجھتاتھااور ڈیوٹی سے واپسی پردن بھر کی رپورٹ مجھ سے لیاکرتاتھا ۔اگر وہ ڈیوٹی پر نہ گیاہوتو اس کی کھانےپرغیرموجودگی  سے یہ اخذ کیا جاتا تھاکہ وہ غسل خانے میں ہوگااورکھانے کی میزپرجلد ہی آنے والا تھا یاباہرسڑک پرمٹر گشتی کررہاہوگا یاکوئی غیرمعمولی حرکت کررہاہوگا۔اس پرہرکسی تو تشویش ہوتی تھی کہ جانے کون سی احمقانہ حرکات کررہاہو۔ہم  سب سہم جاتےتھے کہ جانے آگے کیاہونے والاتھا۔یہ مرحلہ اعصاب شکن ہوتاتھااورہم سب اس وقت تک پریشان اور مضطرب  رہتے جب تک وہ صحیح سلامت میرپرنہ آجاتا۔ہم اسے دیکھ کرتے  منہ چلانابندکردیتے اورمعمولی سےمعمولی کام بھی بندکردیتے جیسے کھانسنا،چھابے سے کھانے  کی  چیزیں ڈھونڈنا ،باہر کی آوازوں پردھیان نہ دینا۔۔۔ ہرفرد کی اپنی اپنی فہرست تھی جس پر والدکواعتراض تھا ۔

اس نے گھرکے پچھواڑے میں ایک چھوٹاساکیبن اس وقت بنوایاتھاجب اس نے کسی

زمانے میں ایک  پالتوبکری پالی  تھی ۔جس میں غلہ،چارہ، کھرلی اورسردیوں  اور خراب موسم سےبچنے کےلئے اس پرلکڑی کی  چھت بنائی ہوئی تھی لیکن اب وہ کیبن  خالی تھا  ۔وہ کیبن ایک جھگی اور ُکلی کی طرح  تنگ اور چھوٹاتھا۔اس میں آج کل ایک بن بلائے مہمان ٹھہراہواتھا۔اس اور اپنی بیوی کووہ شک بھری نظروں سےدیکھتارہتاتھالیکن ان کےردعمل سے کچھ کہہ نہیں سکتاتھا۔

ایک دفعہ  کیبن کاباسی  کھانے کی میزپرشوربے کاپیالہ اٹھاکراپنےلبوں پرلایا۔ابانے اس پرنارمل ردعمل دیا۔یہ کوئی  ایساسوپ لگتاتھا  جسے ابانے متجسس نظروں سے نہ دیکھا ۔اس سےہم سب نے یہ اخذکرلیاکہ چونکہ اباکو اس سےکوئی تکلیف نہیں ہوئی  اور نہ ہی  کوئی انگلی اٹھائی اورنہ ہی تنقید اوراعتراض  کیاتویقیناًیہ ٹھیک سوپ ہی ہوگا۔ ہمیں تسلی ہوگئی کہ کھانےکایہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پاجائےگالیکن معاملہ اس وقت بگڑاجب ہمیں چھری کانٹے کےساتھ  آزادانہ  سیروتفریح کرتے ہوئے لال بیگ بھی  دکھائی دئیے۔اس  سے ہم  خوفزدہ ہو گئے۔ابانےپیالہ اپنے ہونٹوں سے لگایا تواس کی آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں ۔اس نے اس وقت ممی کودیکھاجواس وقت اسی کی طرح سوپ پی رہی تھی۔ وہ  اس کی نظروں کومحسوس کررہی تھی لیکن چپ رہی۔اس کی یہ عادت  تھی کہ کھانے کی میز پربات نہیں کرتی تھی۔وہ اس کی بازووالی کرسی پر بیٹھی تھی۔ماں نے کھانے سے اس وقت تک نظریں نہ  ہٹائیں  جب تک  کنڈی کھلنے کی آواز نہ سنائی دی۔ہم ادھردیکھنے لگے۔ کیبن کے باسی نے سوپ پی کرپیالہ میز پر رکھ  دیا تھااور  اٹھ کرکمرے سےباہرنکل کراپنےکیبن میں چلاگیا۔

بابا متفکر نظرآرہاتھا ۔ ایسالگاکہ کسی اہم معاملے  پرسوچ رہا تھا۔ بابانے ماں سے کہاکہ تمہیں اب راز آشکارکردیناچاہیئے جس پر ماں نے ہاں میں سرہلادیا۔اس پروہ اٹھا اور دروازہ کےپاس گیا۔وہ   دروازے کے پاس بیٹھ کراپنے کام والے جوتوں کے تسمے باندھنے گا۔

 ماں  نےکھانے کاجائزہ لےکرمسکراکر میری اور میری   بڑی بہن  جس کانام 'پین' تھا کی طرف الگ الگ بہادرانہ مسکراہٹ  سےدیکھا۔ہر ایک نے جی بھرکھانا کھالیاتھا اور کافی  سے زیادہ کھانا ختم ہوگیاتھا۔ اس کے بعد اس نے  میزسے کھانے کاسامان اٹھایا۔اور مطمئن ہوگئی  کہ ایک  مرحلہ تو اچھے طریقے سے طے ہوا۔ یہ روزانہ کا معمول تھا۔

والد  جب باورچی خانے گیا تو ڈرائیو وے پر ایک گاڑی رکنے کی آواز آئی تو میری  بڑی بہن پین اور میں دونوں اچھل پڑے۔یہ کار پین کے بوائے فرینڈ جمی فرینک کی تھی۔ اس  نے اندر آنے کی بجائے پین کا باہرکارمیں ہی انتظار کیا۔پین اور جمی دونوں ہی نابالغ تھے لیکن ان کا معاشقہ چل رہاتھا۔۔پین  نےاپنا کھانا ختم کیااور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جاناتھالیکن میراکوئی  خاص پروگرام نہیں تھا کیونکہ میں بارہ سالہ بچاتھا۔ زیادہ تر وقت گھرپرہی گزارتا۔اس لئے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلاگیا۔یہ وہ جگہ تھی جہاں   میرےلئےوقت گزارنامشکل ہوتاتھا۔مجھے بابانے تاکیدکی تھی کہ میں ایک ایک لمحہ نوٹ کروں ۔میں پین کےمعاشقےکےبارےپریشان تھا۔ اس کےبارے میں بات چیت اس وقت ممکن تھی جب پین اور میں اکیلے باورچی خانے میں ہوتے۔اتنے  میں پہلےباورچی خانے کا،پھرسامنےوالااور پھرکارکادروازہ کھلااور بندہوااور گاڑی کاانجن سٹارٹ ہوا ۔' جمی ' اورمیری بڑی بہن 'پین 'چلے گئے۔

دروازہ  ایک بارپھرکھلا۔ممی بھی اپنا کام ختم کرکے بیٹھ گئی۔میرا خیال تھا کہ میرے والدین اس وقت قریبی ساحل پرتھے کیونکہ جب انہوں نے کوئی اہم بات کرنی ہوتی تو وہ ساحل سمندر پرجاکرکرتے تھے۔گھر میں  اس   وقت میں اکیلاتھا۔ٹی وی بندپڑاتھا۔ میں  نہ تو عقبی لان میں اور نہ ہی ساحل پرگیااور اپنے بسترپرپڑےرہنےکوترجیح دی۔ماں ہال میں بیٹھی تھی۔ ڈرائیووےپر ایک گاڑی  رکی ۔کار کا دروازہ کھلنے اوربند ہونے کی آواز  سنائی دی۔چاپیں گھر کی طرف آنے لگیں ۔گھر کابیرونی  دروازہ کھلنے ،بند ہونے کی آواز آئی۔کوئی ہال میں آیااور پریشانی سے ادھر ادھر گھومنےلگاکہ میں نے آواز سنی  

'میں امید سے ہوں'۔

 اس کےبعد دوتین  مہینوں تک اس پرکوئی بات نہ ہوئی ۔ اشاروں کنائیوں میں بلاواسطہ  گفتگوہوتی رہی۔صبح کے وقت ماں کی حالت خراب رہنے لگی ۔سردرد، متلی،سستی،جسم میں درد تھکاوٹ کی شکایات ہونے لگیں ، پیٹ میں ہوا بھرنے لگی اوربطخ  کی    طرح 

      ڈکمگاکر چلنے لگی تو۔مجھے پکایقین ہوگیاکہ میرابھائی یابہن آنے والی ہےلیکن کوئی بھی اس پرکھل کے بات نہیں کرتاتھا۔جس پرہمیں  چپ رہنےکاکہاجارہاتھا۔۔۔ہم نتیجے کا انتظارکررہے تھے۔ماں کاوزن بڑھنے لگا توعلامتی طورپرکہاجاتاکہ جہاز پر سامان لادا جا رہاتھا۔وزن  بڑھنےسے اس کاتوازن بگڑرہاتھا۔میں  نے سوچاکہ اگر سامان لادنے کی رفتار یہی رہی تو جہازکا چلنا دوبھر ہوجائے گا۔

اس واقعےکو ہم سب  جان چکےتھے  کہ ایساکیوں ہواتھا۔گھرمیں نئےفردکاآناکوئی معمولی بات نہیں تھی۔گھربھر کےپورےنظام پراثرپڑناتھا۔ اس نے پورے گھرکو متفکر کردیا تھا۔نئے فرد کےآمد کی خوشی بھی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی ضروریات پوراکرنا ایک مسئلہ بھی تھا۔تاہم ایسےواقعات ماضی  اورحال میں ہوتے رہے تھے۔ اس لئے اب اس پرکڑھنابیکارتھا۔ہم نے اس آزمائش سےنبردآزماہونےکےلئے خود کوذہنی

کاکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ 

  بابادستی کام کرنے کاکاریگر تھا۔وہ ہرکام کرلیتاتھا۔  اس  کے پاس روٹی روزی کمانے کاہنرتھا۔ نئے حالات میں وہ  مزید محنت کرنے لگا ۔وہ  نئی ذمہ داریاں نبھانے کےلئے خود کوتیاکرنے لگا۔اسے نئے بچےآنےکی فکراور کیبن کےباس کاغم تھااس لئےوہ خود  

مصروف رکھتا۔دوسری طرف مجھ  سےچار  سال  بڑی بہن پین اپنے یار جمی فرینک سے ہروقت چمٹی رہتی تھی۔میراشغل سکول جانااور ساحل سمندرپرجا کرنہانا اور کھیلنا تھا ۔ کیبن کاباسی ہماری طرح سمندر کے اندر تک نہیں جاتاتھا اور سمندری تیزہواکاسامنا نہیں کرتاتھا۔لہریں جب اچھلتی ہوئی ہمارے سروں سے اوپر سے گزرتی تھیں  توہمیں بہت مزاآتاتھالیکن وہ باسی ان سے ڈرتاتھاحالانکہ وہ اونچالمبادبلا تھا۔ وہ اپنے بازو اور چہرہ سمندری پانی سے اوپرسے نیچے تک دھوتارہتا۔لہریں ایک ہی انداز سےنہیں چلتیں ۔اوپرنیچے ہوتی رہتی تھیں۔وہ جھکتا اوراپنی مٹھیوں میں پانی بھرتا اوراس کو اپنے چہرےاورگردن پرڈالاکرتا۔

ماںسمندر کے اندر چلی جاتی تھی۔ ساحل پر سمندر کاپانی کمرتک آتاتھا ۔ساحل پر  ہر جگہ

ریت کے ٹیلے تھے ۔وہ ان ٹیلوں کوعبور کرکے مزید اندرجانے کی کوشش کیاکرتی تھی۔

لیکن  اس کی دلچسپی  سمندر کے ایک خاص حصے تک ہی ہواکرتی تھی۔

اس ساحل کی لمبائی کوئی ایک کلومیٹر تھی۔حکومت نے اسے مچھلی کے شکار کے لئے پوری طرح تیارکیاہواتھا۔مچھلی کے گوشت  کی پوری صنعت وہاں قائم کی گئی تھی اور وہاں سے مچھلی دنیابھرکو برآمد کی جاتی تھی۔شکارگا، وہاں شکار پہنچانے، کاٹ کر ٹکڑے کرنے، صاف  کرنے، پیکٹ بنانے۔ جہازوں پرلادنے کےانتظامات تھے۔ ورکشاپیں ،پرزے بنانے اور مرمت کرنے، تفریحی مقامات ،سیاحوں کے لئے ہوٹل، موٹل اور کھیلوں کے میدان  قائم کئے گئے تھے۔ سمندرکی  اونچی لہروں پرسواری کرنے کے کھیل کابھی انتظام تھا۔  ضرورت مندوں کے لئے کیمپ ، ہنگامی صورت حال سے نپٹنے کے اقدامات  وغیرہ  کا بھی پورابندوبست تھا۔ ہزاروں خاندان اس ساحل سے پلتے تھے۔

میں اس وقت ایک  ایسی چٹان پر بیٹھاتھا جوساحل کے آخری حصے پر تھا۔وہاں سے  میں چاروں طرف دیکھ سکتاتھا۔میں تھک کر بیٹھ گا اوراردگرد کانظارہ کرنےلگا۔پھر میں نے سمندر میں نہانے کاارادہ کیا تو   اپنی تیراکی کاسامان پہن لیا۔اپنی ناک پرماسک پہنا اور  س   

  حصے کی طرف تیرنے لگا جہاں سمندری درختوں کی کیاریاں تھیں۔میں   وہاں جوچوٹی پہلے آئی  ،پرلیٹ گیا۔ان مچھلیوں کوجواس جگہ تیرتی ہوئی آجارہی تھیں کانظارہ کرنے لگا۔وہ بڑے سکون سے تیررہی تھیں۔انہیں کہیں جانے کی جلدی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی وجہ تھی کہ ان میں افراتفری پیداہو۔ان دنوںہمارے علاقے میں ایک نیاسپر سٹورکھل گیاتھا۔اس کے مختلف شعبوں میں خریدار دن بھر آتے جاتے رہتے تھے۔ ہر وقت تانتا بندھارہتاتھا ۔ سمندر میں مچھلیاں تواتر سے آجارہی تھیں۔ایسا لگتاتھاا کہ وہ کسی شئے کی تلاش میں تھیں لیکن وہ شئے کیاتھی انہیں معلوم نہ تھا۔

آج سے چندروزبعدموسم خراب ہونے کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ ایک ہولناک طوفان آنے کوتھاجوموجودہ نظام اور لہروں کی اس ترتیب کوتہہ وبالاکرنےوالاتھا۔سمندری درخت اکھڑجانےاور ساحل کاستیاناس ہوجاناتھا۔کوئی اس کو روکنابھی چاہتاتواکچھ نہیں کرسکتاتھا۔اور سب  نمناک آنکھوں سے اس تباہی کانظارہ کرنے والے تھے۔طوفان کی بربادی کے بعد  امدادی ٹیمیں سفید یونیفارم میں کم سے کم انسانی   جانیں بچانےاورمالی نقصانات  کم سےکم کرنے اوربحالی میں مصروف ہوجاناتھیں۔اس جگہ پر پیلے رنگ کی اکاس بیل جس پرسرخ دھبے تھے اوراسی رنگ کی ایک مچھلی جو میں نےسمندر میں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی نظرآئی۔وہ پہلے بھی وہیں کہیں ہوتی ہوگی۔اس نے یہ یادہانی کرائی کہ ہمارے گردونواح میں بہت سی ایسی اشیا موجود تھیں جنہیں ہم نہیں جانتے تھے   ۔ وہ  آس پاس تھیں لیکن آنکھوں سے اوجھل تھیں۔ ایک اورروز ہم مچھلیوں کے  بڑےشکاری جال کوسمندر میں ڈال کر چاروں طرف کھڑے تھے ۔ارادہ کسی وزنی مچھلی کوپکڑنے کاتھا۔اس جگہ ٹنوں وزنی مچھلیاں جیسے رنگ کور ہارس،وہیل   کے علاوہ  کے علاوہ بھی بہت سی اقسام کی مچھلیاں جن کی عام آدمی شناخت نہیں کرسکتاپائی جاتی

تھیں۔وہ بہت خطرناک تھیں اور کافی تعداد میں تھیں ان کے بڑے بڑے تیز دانت   

 تھےاور وہ غصے سے دانت پیس رہی ہوتی تھیں اورایک پل میں چیرپھاڑ کررکھ دیتی تھیں ۔ 

مجھے ان چیر پھاڑکرنے والی  وہیل مچھلیوں اور کیبن کے باسی میں مماثلت نظر آئی۔۔ ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہوکہ وہ باباکے لئے ان جیساہی خظرناک لگتاتھاجس نے اس کے گھر آکراس کاامن وسکون تباہ کردیاتھااور اوروہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتاتھاکیونکہ وہ اس کی بیوی کابڑااچھادوست تھا۔اس وقت مجھے کیبن کے باسی کی آمد کامنظر یادآیاجب وہ غیرمتوقع طورپرہمارے گھر آٹپکاتھا۔ایک بار بیرونی دروازے پردستک ہوئی ۔بابا نے مجھے اشارہ کیاکہ دیکھوں کہ کون تھا۔ میرے بال سمندرمیں نہانے کی وجہ سےگیلے تھے۔سراورجسم پرریت تھی ۔اس دن ایک بہت بڑاجہاز  آیاتھا۔اسے بندر گاہ سے میلوں دور لنگرانداز ہوناپڑا تھا کیونکہ ساحل کےکناروں پر سمندر کی گہرائی تھوڑی تھی۔اس کے ارد گرد ایسی لہریں تھیں جن کی اونچائی کم تھی اور تعمیری سامان کے ٹکڑوں سےٹکراکر جھاگ بنارہی تھی۔ ہم جلدگھرآگئے تھے۔دروزہ کھولا تو وہ کھڑاتھا۔ یہ ایک ایسا شخص تھاجسے میں نے پہلی بار دیکھاتھا۔۔۔ وہ  ہمارے گھر اس سےپہلے کبھی نہیں آیاتھا تو اس کالہجہ  میری سمجھ میں نہیں آیاتھا۔اس کی غیرمتوقع آمدنے سب کو حیران کردیاتھا ۔وہ پورچ میں بلب کی روشنی میں کھڑاتھا۔ میں دروازہ کھول کرنکلاتواسے میری بجائے کسی بالغ کےآنے کی امیدتھی۔میں اسے اندر لے آیا۔اس  کالہجہ عجیب وغریب تھاجوسمجھ میں آنے والا نہیں تھا۔اگلی چیز جومیں نےنوٹ کی وہ اس کالباس تھا جس سےواضح ہورہاتھاکہ وہ ہمارے ملک  کانہیں بلکہ  غیرملکی تھا۔ا سکی خاکستری قمیض فلالین کی تھی۔اس کی پینٹ ضرورت سے زیادہ استری شدہ تھی اوربڑی صفائی سے درمیان میں تہہ شدہ تھی۔اس کاپہناوا صاف ستھراتھا تھے۔کپڑے کی کوالٹی عمدہ تھی ۔سلائی سٹائلش  اور جدیدڈیزائن کاتھا۔

اس کےلباس  پہننے میں انفرادیت تھی۔وہ بڑاوضح دارلگ رہاتھا۔تمیز سےبولتا اور بیٹھتا تھا۔اس نےاپنا کوٹ اتارکراپنے کندھےپر رکھا ہوا تھا۔اسکی مسکراہٹ میری بہن کےبوائے فرینڈ جمی میک کےبرعکس  بہت عمدہ تھی جو اس کی سیاہ  آنکھوں کےمرکزسے

آتی تھی جواس کےپورے جسم پرپھیل جاتی تھی جس میں گرمی ِ جذبات ،جوش اورجذبہ

تھا۔اس کے کھانے کی میزپربیٹھنے کے ایک منٹ بعد ہی ہم  اس کی باتوں پر سب ہنس رہے تھے۔۔۔اوربغیر کسی موضوع کے قہقہے لگا رہےتھے۔ کھانے کی میزپرمجھے یہ تومعلوم نہیں کہ موضوع کیاتھالیکن مجھے بابا کی وہ مسکراہٹ ضروریادتھی جواس نے مجھے دیکھ کردی جس میں یہ تاثرتھاکہ  اس میں قوت برداشت کی اہلیت تھی۔۔۔

 میں سونےکےلئےلیٹاہی تھاکہ مجھے ہال میں کچھ آوازیں سنائی دیں۔ماں کہہ رہی تھی کہ مہمان  کوصوفےپر سلا دیناچاہیئے۔اس کایہ فقرہ میرے لئے خوش کن تھاکیونکہ اس سے میں اپنے بستر سے بے دخل ہونےسے بچ جانا تھا۔ وہ شائد دنیاکے اس دوردراز خطے سے آیاتھا جہاںمیرےوالدین  کسی دور میں تفریح کےلئے گئے تھے۔ میرے خیال  میں والدہ کی اس سےالفت کی وجہ یہی نظرآتی تھی جووہ  اسےاتنی سخاوت دکھارہی تھی۔اس کے بعد میں نے اس شخص کی  صوفے پر بیٹھنے کی آواز سنی۔اگلی صبح میں نےاسےصوفےپر لیٹے دیکھا  لیکن اس کامنہ دوسری طرف تھا۔اس نے اپناسر اپنے بازوپر رکھاتھا ۔ میں  دبےقدموں سے چلنےلگاتاکہ اس کی نیندحرام نہ ہو۔۔۔اگلی بار میں نےاسے باورچی خانے میں دیکھا۔اس نے  فلالین کی  وہی قمیض پہنی ہوئی تھی جس کی آستینوں  پردھات کے بٹن تھے ۔اسکے چہرے پراس وقت طمانت تھی۔اس کی

 

قمیض تقریباًاستری شدہ تھی۔اسکا چہرہ میرے والدین کے چہروں سے بھی بڑاتھا۔وہ اگلے   ہفتے بھی وہ مغز پرپہلےدن کی  طرح سوارتھا۔درمیانی عرصے میں اس سے    بہت گفتگوہوتی  رہتی تھی ۔ چونکہ وہ واپس جانےکانام نہیں لےرہاتھااوربوجوہ والدین اسے بے مروتی سے اپنے گھرسےنکال بھی  نہیں سکتے تھے ۔اسلئے یہ مسئلہ کھڑاہوگیاکہ اسے مستقل  طورپرکہاں ٹھہرایا جائے۔

کا ہمارے گھر کےپچھواڑے  والد نےکسی زمانے میں گودام یا بکری رکھنے کیلئےلکڑی کاایک چھوٹاساکمرہ بنایا تھا ۔ وہ ایک کال کوٹھری سے کم  نہیں تھا بناہواتھا۔گھر میں جگہ نہیں تھی اس لئے والدین نے سوچا کہ اسے اس لکڑی   کےکیبن  جوکھولی  کی طرح تھا کو ٹھیک کر کے اسے رہنے دیاجائے۔ والدہ نے اس کےپردے سیئے۔والدکہیں سے سٹریچرلےآیا۔ہمسایوں نےفرشی دری دےدی جس کی انہیں اب ضرورت   نہ تھی ۔ دوسراپڑوسی جسے ہم اچھی طرح نہیں جانتے تھےماسوائے اتناکہ وہ ایک سائنس دان تھاشطرنج نماکوئی شئے اپنی بغل میں دبائےمین گیٹ پرآگیااور پوچھاکہ سناہےکہ تمہارے گھر کوئی آیا ہے ؟ چونکہ اس وقت صرف میں ہی موجود تھااس لئے میری ذمہ داری تھی کہ بتاؤں کہ کھولی میں کیا ہورہا تھا۔اس کی کیسے آرائش کی جارہی تھی۔  میں نے اسے  تازہ ترین حالات سے آگاہ کیا۔چونکہ اس نےبغل میں شطرنج دبائی تھی اس لئے شائد اس کی منشا تھی کہ شطرنج کھیلی جائے۔اس وقت مہمان سفیدقمیض اورکالی پینٹ میں مسکراتے ہوئے ہال سے نمودار ہوا۔وہ نہاکر باہر نکلا تھا ۔اس کےبال گیلےتھے اوروہ اپنی آستین کےبٹن بندکررہاتھا۔

قصہ کوتاہ  ۔۔۔اس کلی مہمان وبال جان بن چکاتھا۔والد کو شبہ تھاکہ اسکے ماںسے گہرے تعلقات تھے۔اس نے یہ شک دل میں بٹھایاہواتھاورحسد کی آگ میں جل رہا تھا۔ماں اس کےاس شک پرکڑھتی رہتی  لیکن اپنی من مانی کرتی ۔کیبن کا رہائشی گھر کے  فرد کی طرح رہ رہاتھا۔تمام کھانے ہمارے ساتھ کھاتاتھا۔

والد ابھی کام پرتھا۔مجھ سے چارسال  بڑی بہن پین اپنےبوائے فرینڈ کےساتھ کہیں باہرگئی ہوئی تھی ۔ تنگ سی جھگی میں رہنے والا آدمی ،والدہ اور میں گھرپرتھے۔وہ کھڑکی کیساتھ والی کرسی پربیٹھ گیا۔سائنسدان ہمسائے کوجس نےاپنی بغل میں شطرنج دبائی تھی کوبیٹھنےکااشارہ کیا۔باورچی خانہ ایسی جگہ تھی جس میں بیرونی آوازیں پوری طرح سنائی دیتی تھیں۔باہرسڑک پرایک کارگزررہی تھی جسکے گئیر وں نےتوجہ اپنی طرف کھینچ لی۔اسکےبعدمجھے اپنی پالتوکتیاکااپنے جسم کواپنے ناخنوں سےکھرچنے کی آوازسنائی دی۔ کھڑکی کےباہر بہت اونچی کئی شاخوں والی باڑتھی جس کے اوپر والاحصے میں گرمی سے دڑاریں پڑگئی تھیں۔جہاں تک موسم کاتعلق تھا، سمندر  میں نہانے کے لئے وہ بہترین  دن تھا۔سائنسدان کی خواہش پروہ شطرنج کی بازی لگارہےتھے۔مہمان ضرورت  سے زیادہ مسکرا رہاتھااورماں  سمجھ رہی تھی کہ وہ مسکراہٹ اس کے لئے تھی۔ ماں بھی جواباً ہنس رہی تھی جسےہنستے دیکھ کراس کی باچھیں مزیدکھل گئی تھیں۔ سائنسدان کی نظریں شطرنج بورڈپرگڑی ہوئی تھیں۔بڑے غور سےمہروں کی پوزیشن دیکھ کر چال سوچ رہاتھا۔سائنسدان  نےاپنےزنگ آلود دانتوں سے سیٹی بجائی اور اطمینان سے ہاتھ پرہاتھ رکھ کرکرسی سےٹیک لگاکرپربیٹھ گیا۔وہ مکمل پراعتمادتھاکہ بازی اس کے ہاتھ میں تھی  اوراس نے شہہ دے دی تھی لیکن مہمان  نےاسے چیک میٹ کہاجس کاسائنسدان توڑنہ نکال سکااوربازی ہارگیا۔

والدنے حسب معمول  پورےدن کی کاروائی کےبارے میں مجھ سے پوچھناتھاجیساکہ اس نے۔میں نےجواب دیاکہ اچھارہا۔سائنسدان شطرنج کھیلنے آیا  ، مہمان،   ، سائنسدان اور ماں نے اکٹھے شطرنج کھیلی۔میں نےجوباتیں باباکوبتائیں وہ وہی تھیں جو اس روز ہوئی تھیں لیکن باباکےلئےناکافی تھیں اوروہ چیزیں جن سے اسے دلچسپی  اور شطرنج کےمہروں سے زیادہ اہم تھیں کاذکرنہیں تھا۔میں یہ بتانابھول گیاتھاکہ اس روزگھرکااتناخوبصورت ماحول اس سے پہلےکبھی نہیں بناتھا۔میں ان مسکراہٹوں اور اونچے اونچے  قہقہوں کوگول کرگیا جواس دوران  ماں اور مہمان  میں ہوتی رہیں ۔میں اس کشمکش میں مبتلارہاکہ بتاؤں یا چھپاؤں۔

ایک سہ پہر میں  نے خود کو باباکےساتھ  پچھلے صحن میں تنہاپایا۔والد اردگردجائزہ لےکرغصے سے لال پیلا ہورہاتھا۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بلاوجہ وہ ایساکیوں کررہاتھا۔یکایک اس نےمجھے حکم دیاکہ مہمان کو اپنامحلہ  دکھانےلےجاؤں۔

میں اسےگلی میں لےگیا۔ہم  پڑوسی خاتون کےبلیوںوالےگھرکےپاس سے گزرے ۔ اس سے اگلے گھر جس کی گھاس عرصے سے کاٹی نہ گئی تھی ،میں  ایک ماؤری خاندان آباد تھاجو حال ہی میں منتقل ہوا تھا ۔اس سےہماری سرسری سی ملاقات تھی۔اس سے اگلی گلی میں جوگھر تھےان تمام کی گھاس بہترین اندازمیں کاٹی گئی تھی۔ان میں رنگ برنگےپھول حدسے زیادہ اونچے تھے اورعام گھروں سے زیادہ  بہاردکھارہےتھے۔اس کےبعد ہم اس گھرکےسامنےسےگزرے جس کے باہرمیں نےپچھلی سردیوںمیں ایک ایمبولینس کھڑی جومسز کوئین کاتھا،دیکھی تھی اورمیں وہاں اس وقت تک کھڑا رہاتھاجب تک کہ پیرامیڈیکل سٹاف مسز کوئین کوسٹریچر پر ڈال کر لےنہ گیا۔اگلے روز ماں نے خبرسنائی کہ وہ فوت ہوگئی تھی۔وہ میرے سکول پڑھایاکرتی تھی۔اپنی جوانی میں وہ ہائی جمپ میں صوبے کی چیمپین رہی تھی۔میں نےاس کوآخری بار ترپال میں لپٹی ہوئی سٹریچر پر پٹی سےباندھ کر لیٹی ہوئی دیکھاتھا۔میرے ذہن میں آیاکہ اس سےمریضوں کوسٹریچرپر پٹی سے کیوں باندھاگیاتھالیکن میں مسز کوئین کاذکرکئے بغیرآگے بڑھ گیا اور  یہ ایک نجی معاملہ رہا۔بعد میں احساس ہواکہ یہ اچھی بات تھی کہ میں نے اس بارے میں اس سے کچھ نہیں کہا۔مسز کوئین پہلی انسان تھی جسے میں نے مردہ دیکھاتھا۔

ہم چلتےچلتےاتناآگےآگئے تھے کہ سڑک  کےآخری سرےوالا دھات کاجنگلہ آگیا تھا ۔ وہاں سےہم مڑےاوراسی سڑک سےواپس آگئےکیونکہ اس سے آگے ساحل   جہاں     ہم  ایک کونے میں کھڑے ہوکر سمندر کی تیزاورہلکی ہوامیں ٹھنڈی سانسیں لیتے تھے وہاںسمندری بگلوں کےغول درغول  پروازکرتے رہتے تھے۔خراب موسم کی پیشگوئی تھی۔ہرسال اس موسم  کئی دن خراب موسم رہتاتھا،کے اعلان سےسراسیمگی چھاگئی  میں برفباد،شدیدسردی  ،ہواکےجھکڑ چلتے جو  سمندری لہروں کوآسمان کی بلندی تک لےجاتے اور اس کی زد میں جوشئے بھی آتی انہیں نیست ونابود کردیتے۔ چند گھنٹوں یا دنوں بعد طوفان تھمتاتوہم دیکھتے کہ لہریں اتنی پرسکون ہوجاتیں جیسے کبھی موسم خراب ہواہی نہ تھا۔اورسورج کی تمازت سےسہ پہر کو چھتوں پرجمی برف پگھلناشروع ہو جاتی اور جانور ایسی جگہیں تلاش کرنے لگتے جہاں اپناسرچھپاسکیں۔

ہم اپنے گھر کی طرف واپس آرہےتھےتوراستے میں اس مکان کےپاس پہنچے جس کی

کارپارک کرنے کی جگہ  بجری کی تھی۔یہاں آ کر ہمارمہمان  رک گیااور گلی کاجائزہ لینے لگاکہ کوئی دیکھنےوالی چیزرہ تونہیں گئی تھی۔۔۔اس کے منہ سےنکلاکہ تمہارا محلہ کتنا شاندارہے۔اس کے گمان میں بھی نہیں تھاکہ یہ اتنااچھاہوگا۔اس کے خیال میں توہم ایک گندی اورغریب کمیونٹی میں رہ رہے تھے ۔ میری خواہش تھی کہ اسےایک اور شئے دکھاؤں اس کےلئے میں اسے مسزکوئن کےگھرلےگیااوراس کی کہانی سنائی ۔ چندسال پہلے روس نے خلامیں ایک خلائی جہازسپوتنیک فضامیں چھوڑاتھاجس نےخلاکی تصاویر زمین پربھیجناشروع کردی تھیں جو اخبارات کی زینت بن رہی تھیں۔انسانی تاریخ میں پہلی بارایساہواتھاکہ انسانوں نےبروج تسخیرکئےتھے جس پر پہلے بات کرنابھی محال تھا۔

اگراعتدال پسندی سے کام لیاجائے توسمندرکاکنارابھی یہی مقصد پوراکرتاتھا۔ہم رک سکتے تھے،بھاگ سکتے تھے۔ہم افق سے دور ہوکراپنی حقیقی زندگیوں کی طرف مڑکردیکھ سکتے تھے،جیسے ہی سمندری لہرآتی سمندر میں بسنےوالی تمام مخلوق منتشرہوجاتیں  ۔ ہمارے  قدموں کےنشانات مٹ گئے تھے۔اگر کوئی چندگھنٹوں بعد واپس آئے تووہ ان نشان کو نہیں دیکھ سکتےتھے۔لہریں انہیں مٹادیتی تھیں۔اگرہم وہاں آئی تھی۔ہم کسی مخصوص سمت میں چلتے رہیں توزمین کے ایک خاص  ٹوٹے پرپہنچتے تھے۔وہاں گیلی ریت چمکتی  جوگزرتے بادلوں کی وجہ سے پتھرمیں تبدیل ہوجاتی تھی۔اچانک ہی  دنیانے یہ چیزتلاش کرلی کہ اس پردوبارہ سے تحقیق کی جائے اورقدموں کےنئے نشانات بنائے جائیں۔وہاں نیچے شائد ایک قدم آگے بڑھنےکےلئے موجود تھا اور اس پرتحقیق کی علامات نظر آرہی تھیں اور چونکہ ان میں  ایک جذبہ اور جنون موجود تھا،اس لئے اس پرکام شروع ہوگیاتھا۔

ماں  چونکہ امید سےتھیں اسلئے وہ محتاط انداز میں چلاکرتی تھی۔ہم اسوقت ساحل پر تھے۔میں نےدیکھاکہ اس کےپاس کپڑوں کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی۔اس نےوہ ایک طرف رکھی ، چمڑےکےسینڈل پہن کرآہستہ آہستہ چلتی  سمندرمیں اتر گئی۔  آئی اس نےوہ  تیراکی  کی سفیدٹوپی پہن رکھی تھی ۔ اس کےکانوں میں درد ہورہاتھا ۔ سمندر کےٹھنڈے پانی سے نہانے میں اس کےکانوں کودردہوجاتاتھا۔اس کے سر کےبال بہت ہلکےتھےاسلئے اسکی چھبیہ مردانہ  دکھائی دیتی تھی۔جیسے ہی وہ سمندرمیں    اتری۔  وہ گہرےپانی میں چلی گئی۔وہ زچگی  میں تیز تیراکی نہیں کرسکتی تھی۔مہمان بھی ساتھ تھا۔وہ بھی کودپڑااور تیرتے ہوئے اسےجالیا۔اسکےبعد اس نے ہلکےہلکے گول دائرے میں تیرکر کرتب دکھاناشروع کردیئے۔کبھی پانی پرپیٹ کےبل لیٹا،کبھی ڈبکی لگائی، کبھی  چھینٹیں اڑائیں اور کبھی بٹرفلائی اور کبھی آسمان کی طرف بادل دیکھتے ہوئے اس کے ارد گرد گھوم کرسینے کے بل ہوتاغوطہ لگایا۔ موسمی پیشین گوئی کےمطابق  جب موسلا دھار بارش پڑنےلگی تومیں بس سٹینڈ کی پناہ گاہ میں  جوپارکنگ والی  جگہ میں بنائی گئی تھی کی طرف بھاگا۔ بارش کی وجہ سےریت نرم ہوگئی تھی۔ساتھ ہی برفباری شروع ہوگئیاوروہاں کی دنیا روئی کےگالوں  سے بھرگئی۔تیز ہواؤں کے شور سے سننے کی صلاحیت تقریباًچلی گئی۔جب  ہم سمندر میں تیررہےہوتےتھے توبارش  زیادہ لطف دیتی تھی۔  اس سے ناہموار لہروں میں قرارآجاتاتھااور وہ متوازن ہوجاتی تھیں   بارش اس وقت ہلکےہلکےبھنور بناتی تھی جن کادورانیہ مختصر ہوتا تھااورجلدی غائب ہوجاتے تھے۔

پناہ گاہ سے میں  نےباہرجھانکاتو دیکھاکہ ماں اور مہمان اس وقت ریت کےتودے کے پاس خندق کھود رہے تھے ۔قریب ہی اونچائی پر ایمرجنسی کے لئے ایک چھجابنایا گیاتھا ۔ مہمان نےاپناہاتھ آگے بڑھایا توماں  نے یہ پیشکش قبول کرلی۔جب ماںچڑھائی چڑھنے لگی تواپناہاتھ چھڑاکر اپنےہاتھ رانوں پررکھ کرچڑھنے لگی۔یہ دیکھ کرمجھے سکون آگیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد وہ دوبارہ تیزی سے واپس آئےاوروالدہ نے اپنی گھٹڑی اٹھالی جس میں سوکھے کپڑے پلاسٹک میں رکھے تھے اوربھاگتے ہوئے ودبارہ پناہ گاہ میں چلی گئی۔ میں نے ٹھنڈاسانس لیا۔برفباری رکنے پرمیں نےدیکھاکہ وہ پھر ریت پر چلتے ہوئے دور تک چلے گئےتھے۔ان کےقدموں کے نشانات برف پردھنستے چلےگئےجوواضح طورپرپہنچانےجا سکتے تھے جواگلے دن تک مٹ نہیں سکتے تھے۔میرے خیال  میں اس وقت وہاں کچھ بھی ایسانتھاجومعترضہ ہواور اس کی اطلاع اپنےوالدکودی ش    جائے ۔بابا شام کوکام  سے آیاتومیرے کمرےمیں جھانک کو مجھ سےدن بھر کی رپورٹ مانگی۔میں نےلگی لپٹی رکھےبغیر جودیکھاتھابتادیا۔میں یہ پہلےسےجانتاتھا کہ یہ رپورٹ  اسے مطمئن  نہیں کرے گی۔میں نےمحسوس کیا کہ وہ کوئی ایسی بات سنناچاہتاتھاجس میں کوئی سکینڈل ہو۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 


Popular posts from this blog