|
میلکم پاسلے
فہرست دیہی معالج اور دیگر افسانے ( فرانز کافکا)
|
صفحہ
|
مصنف/
مصنفہ
|
عنوان
|
نمبر
شمار
|
|
|
غلام محی الدین
Ghulam Mohyuddin
|
دیباچہ
Preface
|
1
|
|
|
میلکم پاسلے
Malcolm parsley
|
میلکم پاسلے اور کافکا
Malcolm Parsley
on Franz Kafka
|
2
|
|
|
غلام محی الدین
Ghulam Mohyuddin
|
فرانز کافکا کے حالات زندگی
|
3
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
نیا وکیل
The New Lawyer
|
4
|
|
|
فرانز کافکا
Franz
kafka
|
ایک دیہی معالج
A Country Doctor
|
5
|
|
|
فرانز کافکا
Franz Kafka
|
بالائی گیلری میں
Up in the Gallery
|
6
|
|
|
فر انز کافکا
Franz kafka
|
ایک قدیمی نسخہ
An Ancient Manuscript
|
7
|
|
|
فرانز کافکا Franz kafka
|
قانون کے روبر
Before the Law
|
8
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
سیّاراور عرب
Arabs and Jackals
|
9
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
اپنے آپ سے ملاقات
The Next Village
|
10
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
اگلا گاؤں
The Next Village
|
11
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
ایک سلطانی پیغام
An Imperial Message
|
12
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
سربراہ خانہ کی تشویش
The Anxiety of the Head of Family
|
13
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
گیارہ پسران
Eleven Sons
|
14
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
برادر ُکشی
Fratricide
|
15
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
سپاس نامہ اکادمی
A Report for an Academy
|
16
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
تعزیری کالونی میں
In the Penal Colony
|
17
|
|
|
فرانز کافکا
Franz kafka
|
ہیئت میں تبدیلی
Metamorphosis
|
18
|
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی ادب Book 5
Franz Kafka’s ‘ A Village Doctor’
دیباچہ ایک دیہی معاج
Preface
فرانز کافکا عالمی ادب کے بہت بڑے
ناموں میں سے ایک ہے۔اس کی وجہ شہرت ' کیفکا ایسک' ہےجس سے یہ مراد ہے کہ وہ
ایسے ادب کا بانی ہے جس میں روز مرہ کے حالات ان
پہلوؤں کو دنیا کے سامنے لانا ہے جو عوام الناس کے سامنے
کابوسی اور ہولناک پہلو لاکر ان کےتدارک کے لئے
راہ
دکھانا ہے۔ایسے افسانوں میں مقدمہ'( دا ٹرائل)، 'ہیئت کی تبدیلی'(
د
ا
میٹافور سز) ، 'قلعہ '( دا
کاسل)،
'دا پینل کالونی 'مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ان میں قاری
اجنبیت، اداراتی لال فیتہ،اور وجودی آشوب لظر آتا ہے۔اس کی
نثر میں حقیقت پسندی کے ساتھ دہشت ، مسخ شدہ مواد
کاامتزاج بھی دکھائی دیتا ہے جو صاحب بصیرت اشخاص کو متاثر کرتا ہے
۔وہ اپنے موضوعات میں ثقافت اور زبان دانی کو ترجیح دیتا
ہےجس نے اسے ان ادباء میں شامل کردیا ہے جو جدید ادب میں فلسفے
اور نفسیاتی متون کے علمبردار ہیں ۔کافکا کی وہ کتب جو اس کی وفات کے
بعد چھپیں ، نے نئے نفسیاتی بیانئے تشکیل دیئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جدید
ادب کو نئی جہت ملی اور انسانی حالات،اور جدید دور کے مسائل کونئے
پہلوؤں سے پیش کیا جانے لگا۔
کافکا کے ادب نے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی ذہن سازی
کی۔اس نے ان میں نہ صرف سماجی توقعات اور ذمہ داریاں نبھانے بلکہ
انجانے خوفوں کو دور کرنے کی بھی راہ دکھائی۔اس کے افسانوں کے کردار ، جن
میں مرکزی کردار زیادہ ترحضرات کا ہوتا ہے ،کو ان کو،اپنی زندگی میں پائے
جانے والے جبر، ظلم و ستم ،خانگی ذمہ داریاں،اور باطنی خوف کی شناخت
میں آگاہی فراہم کرتا ہے ۔ ہیئت
میں تبدیلی (میٹا مارفوسز )افسانہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہےجس میں
نوکری کا دباؤ، گھریلو ذمہ داریاں اور خود پر نافذ کردہ
فرائض میں کوتاہی اسے معذور بنا دیتی ہیں۔ کافکا کو اپنی زندگی میں ہمیشہ یہ
َ شکوہ رہا کہ اہل علم و دانش نے اس کے افسانوں کی روح کو نہیں سمجھا
۔اس کے ان نکات جن میں اس نے ذاتی آزادی ،اور سخت نظام
میں انفرادیت پر زور دیا، کی غلط تشریح کی گئی۔اس کی بصیرت
عدم تحفظ، حاکمیت کو چیلنج کرتی ہے، فکری انتشار کا
مقابلہ کرتی ہےاور غیر یقینی پن اور ابہام دور کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔
اس کاادب صرف مردوں کے لئے ہی نہیں، اور
خواتین کی عدم مساوات کو یکساں طور پر اہم موضوع بناتا ہے۔وہ ان میں
معاشرے کی زیادتیوں،جذباتی استحصال اور اور نظام کی چیرہ
دستیوں کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتا ہے۔اس کے علاوہ وہ ان میں ان
دیکھے ناجائز مسائل جو ان ک ی زندگیوں میں خاندان نے پیدا کر دئیے ہوتے
ہیں ، پر ڈٹ جانے کے مشورے دیتا ہے ۔ معاشرے میں مردوں کا غلبہ ہے، وہ
خواتین اور حضرات کے مساوی حقوق کا علمبردار ہے۔اس کا ادب ان قوتوں کو جو بظاہر
نظر نہیں آتیں، یا قانونی، اخلاقی، معاشرتی اور خانگی اور ناانصافی پر
قائم کی گئی ہوتی ہیں، کے زبردست خلاف ہے۔وہ خواتین
کو مردوں کے غلبہ سے چھٹکارا دلانے کے حق میں ہے
۔ان کے کمتر سماجی رتبے کا ناقد ہے ۔ ان کی آواز دبا دی جاتی ہے ،یا
ان کے اظہار رائے کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے، کا مخالف
ہے۔مردوں کےظالمانہ نظام کے ہر ادارے میں خواتین کے خلاف زیادتیوں
پراپنی تحریروں میں مزاحمت کرتاہے۔وہ اپنے تئیں اپنی بصیرت ، تخیلات میں
بنی نوع انسان کےمعاملات میں جو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں،
کی نشان دہی کرتا ہےاور ان کے انسدادکے طریقے پیش کرتا ہے۔اس کا ادب اپنی
خود مختاری، تصور ذات، ذاتی شناخت،اور اپنی ذات کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
کافکا کے نزدیک انسانیت کی میراث کا تعلق اس بات
سے کہ بین الاقوامی طور پر اس کے وجودکی
تشویش ، اخلاقیات کے ابہام کی عکاسی کیسے کی جاتی ہے۔اس کے ادب
میں تمام لوگوں میں آزادی کا معیار یہ ہے کہ ان کی ثقافت ،
فیصلہ سازی، اختیار کی آزادی ، الجھن ،اور تنہائی کااظہارسانجھا
کرنے اور باٹنے کی نوعیت کیا ہے ۔اگر ان پر پابندی پائی جائے تو
وہ ثقافت بیگانہ تصور کی جاتی ہے۔انہیں غیر حقیقی یا
چرب زبانی سے آزادانہ اور منصفانہ قرار نہیں دیا جا سکتا
۔کافکا
قاری پرزور دیتا ہےکہ وہ فرسودہ زندگی کا مردانہ وار مقابلہ کرے
اور اس کی اندھا دھن پیروی نہ کرے۔اس کے افسانے نامنصفانہ
قوانین اور آمرانہ نظام کے خلاف ہے اورجذبہ ہم روی ، تصور ذات ،
انصاف کے نظام اور ذاتی احتساب کا حامی ہے۔
کافکا کا ادب، جدید دنیا کے پیچیدہ نظام جو
زیادہ تر غیر انسانی ہوتا ہے، کی اخلاقی پرکار کے طور پر
لیاجاتا ہے جس میں اقدار کا تعین کرتی ہیں۔
اگر کافکا کی تصانیف میں ثقافت، کو کوزے میں
بند کیاجائے تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ:
'کافکے سیک' کا بانی ہے جس میں حقیقی ، غیر
حقیقی اور ظالمانہ فضا کا امتزاج پایا جاتا ہے؛ انسانوں میں بیگانہ پن
ہونے کا مدعا اٹھاتا ہے؛ فرد معاشرے اور اپنی ذات سے کٹا ہوا ہے،کی
آگاہی دیتا ہے؛ نوکرشاہی کا سخت ناقد ہے۔ پیچیدہ، لاشخصی ظالمانہ نظام کا
مخالف ہے؛انسانی زندگی کے مقاصد اور معانی پر لا تعداد سوالات
اٹھاتا ہے؛ اس کے ادب میں نفسیاتی گہرائی اور وسیع فلسفہ پایا جاتا
ہے۔وہ احساس جرم ،تشویش اور نظام کے خوف کے بت توڑنے پر زور دیتا ہے؛
اس کے ادب کے موضوعات کی نوعیت بین الاقوامی ہے اس نےثقافتوں اور سیاسی
نظاموں پر تنقید کی ہے؛ اس نے پورے ادب کو تبدیل کردیا ہےاور جارج اوٹ ویل، کیمس
اور ہاروخامی کے فلسفے کا حامی ہے جوانسانوں کی ہر قسم کی آزادی کے حق
میں ہیں ؛ اس نے بیسویں صدی کے ادب کی واضح سمت متعین کی ہے؛ بے کس ، نادار
، بے آواز اور بے اختیاروں کے حق میں پوری طرح کھڑا ہے؛ اس کے ادب میں استعارات
کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ زندگی میں جو حقیقی اور غیر
حقیقی واقعات رونما ہوتے ہیں، میں افراد کی ذاتی
اور سماجی کاوشیں لگی لپٹی بغیر پیش کرتا ہے؛اخلاقی ابہام ، صحیح اور غلط
میں تفریق کے بارے میں لکھا ہے؛ اس کے ادب کے موضوعات وقت کی قیود سے آزاد
ہیں ۔اپنے دور کے نامنصفانہ نظام ، بیگانگی اور فرسودگی کا ہر افسانے
میں ذکر کیا ہے ؛اپنے ادب میں خوابوں اور حقائق کی منطق پیش کی ہے جو انسان
کے تفکر میں اضافہ کری ہے؛اس کے ادب میں فلسفے،
سیاسیات اور نفسیات کی گہرائی پائی جاتی ہے؛اس کے ادب میں موزوں زباندانی
پائی جاتی ہے، پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کرتاہے جو عوام الناس کے
لئے عام فہم ہے،وہ نظام کی ناکامی بیان کرتا ہے؛ناقدانہ تفکر کی حوصلہ
افزائی کرتا ہے،آمریت اور سماجی معیار پر سوالات اٹھاتا ہے۔اس کے ادب
میں سچائی اور نفاست پائی جاتی ہے۔وہ بات ایک معمولی سی ذاتی سچائی سے
شروع کرتا ہے اور اس پر پورا افسانہ بنالیتا ہے،اس طرح سے اس کے افسانے میں
خود نوشت سوانحعمری اور تخیلات دونوں شامل ہو جاتے ہیں۔
کافکا کے ادب کے موضوعات پاکستانی ثقافت کے
حوالے سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔یہاں نوکرشاہی نظام، من مانہ احکامات،
نظام انصاف جو مقتدرہ کی مرضی کے فیصلے کرتا ہے، ، حکام بالا
کے سامنے بے اختیاری کا احساس،انسانی بے توقیری،عوام کا خون نچوڑنے اور ذاتی
مفاد میں
قانون سازی، انسانی جان، چادر چاردیواری کی پائمالی
، جھوٹے مقدمات بنانا،رشوت خوری، عوام کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے مہنگائی میں
جکڑنا اور چند سو افراد کی اجارہ داری وغیرہ ایسے مسائل جو کافکا نے
اپنے ادب میں بیان کئے ہیں، پاکستان میں پوری طرح لاگو ہیں۔یہاں بھی مقدمات
اسی طرح چلتے ہیں جیسا کہ اس نے مقد مہ کی اور پینل کالونی میں بیا ن کئے ہیں۔من
مرضی احتساب کیا جاتا ہے گورنس ناقص ہے۔پاکستان میں عوام الناس کی
کوئی عزت نہیں ۔اس کے سماجی اور سیاسی نظام اتنا ہی ناقص ہے جو کافکا اپنے افسانوں
میں بیان کیا ہے۔
فرانز کافکا پراگ (چیکوسلواکیا)
میں 1883 میں پیدا ہوا۔اس کا خاندان دو زبانیں بولتاتھا جو چیکوسلوانیا کی زبان اور جرمن زبان بولتاتھا۔فرانز کو
بچپن میں جرمن زبان کے سکولوں میں اورجرمن پونیورسٹیوں میں تعلین
دلائی گئی۔ان نے 1906 میں قانون میں پی۔ایچ ۔ڈی کی۔اس کے بعد اس نے سرکاری انشورنس کمپنی میں اعلیٰ پوزیشن پرنوکری کرلی اور
زندگی کے آخری لمحوں تک اس کمپنی میں رہا۔یہ کمپنی پہلےآسٹریلیا ۔ ہنگری حکومت اور پھر
چیکوسلواکیاکی نئی حکومت کے زیر اثر آگئی۔اسے ادب میں دلچسپی تھی ۔وہ سرکاری نوکری
کے ساتھ ساتھ شوقیہ لکھتا لکھاتا رہا۔وہ سخت گیر اور جابر تھا ۔اس کے اپنے والد سے
حالات کشیدہ رہے۔اس کے علاوہ خواتین کے ساتھ غیرموزوں تعلقات میں الجھنوں کی وجہ سے وہ جذباتی
انتشار کاشکار رہتاتھا۔ان خواتین میں برلن کی ایک خاتون فیلس بائر جس سے اس کی دو بار منگنی ہو چکی تھی، کے علاوہ
چیک زبان کی مترجم میلینا جیسیکا پولک کے ساتھ 1920 میں اس کا معاشقہ چلا؛ ڈورا ڈایامنٹ
،ایک نوجوان لڑکی جس کاتعلق پولینڈ کے ساتھ تھاجس سے اس کی زندگی کے آخری سال محبت ہوگئی تھی ۔اسے اس نے قابل
اعتماد ساتھی پیایا تھا سے محبت ہوگئی۔اس دوران نے اس کو 1917 میں تپ دق ہو گئی
اوراس کے ادب نے میں نیا ُرخ اختیار کر لیا۔وہ اس بیماری سے 1924 میں فوت
ہوگیا۔اس کی زندگی میں بہت کم افسانے چھپے۔اس کا افسانہ 'ہیت کی تبدیلی اور دیگر
افسانے 'پینگوئین پبلشر نے شائع کی۔اس نے اپنے دوست جس کا نام میکس بریڈ تھا کواس نے
وصیت کی کہ اس کی تصانیف جنہیں وہ سمجھتاہے کہ وہ معیاری نہیں ،اس کی موت کے بعد تلف کردی جائیں
لیکن اس نے اس کی نصیحت پر عمل نہ کیااور تمام غیر مطبوعہ کتب شائع کروادیں۔ بریڈ
نے اس کا آغاز تین ناولوں سے کیا جن کے نام 'دا ٹرائل '( 1925)؛ دا کاسل ( 1926 ) اور ' امریکا '
(1927 ) تھیں۔ اس کی بہت سی تصانیف اس نے گمنام ناموں سے چھپوایا جن میں کئی اس کتاب ' دا گریٹ وال آف چاہنا اور دیگر افسانے' میں دی گئی ہیں ۔
میلکم پاسلے 1926 کو پیدا ہوا ۔
شربن سکول اور ٹرینٹی کالج آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں و ہ میگڈیلن کالج آکسفورڈ کی برطانوی
شاخ کا پروفیسر ایمیریٹس اور جرمن اکیڈمی کے شعبہ زبان اور ادب کا فیلو بن
گیا۔فرانز کافکا ک کی اس ناقدانہ کتاب کا فیلو بنا ۔وہ اس کے ناول ' د ا کاسل '(1982) ؛ 'دا ٹرائل '
(1990) اور گمنام افسانوں اوران کی جزویات مجموعہ اوّل ( 1993) کے ترجمے کا ذمہ دار ہے۔اس عصری اشاعت جس کا عنوان' فرانز کافکا کے مضامین' ہے کا
مسودہ اس نے 1995 میں لکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔e
میلکم پاسلے اور فرانز کافکا
Malcom Pasley
on Franz Kafka
اس مجموعے میں وہ افسانے شامل کیے
گئے ہیں جنہیں کافکا کی زندگی میں شائع نہ کیاجاسکاتھا اور انہیں اس ترتیب سے
پیش کیاجارہاہے جس تاریخ میں اس نے لکھے تھے۔ان افسانوں کی تاریخ خصوصی طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ
ان کے متن کا تعلق اس کی زندگی کا چراغ ُگل ہونے کے وقت سے ہے۔اس لئے یہاں ہر افسانے میں یہ بات کہ اس دور اس
کے ساتھ کیا کیا چل رہاتھا،بیان کرنا موزوں رہے گا۔یہ اور بات ہے کہ افسانے کا اس کی زندگی کے اس دور کا تعلق نہ بیان
کیا گیا ہو۔اس کے ادب میں اس نے از خود موقع محل کے مطابق اپنی سوانحعمری کا کچھ
حصہ بیان کیا ہو۔لیکن اس کے زیادہ تر پوشیدہ ہیں۔اس نے اپنی کہانیوں میں کئی
مقامات پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اس کا تذکرہ برائے نام تھا جو اس کے احمقانہ پن کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔یہ سراسر نجی نوعیت
کا تھالیکن اس نے اپنے افسانوں میں اس لیے شامل کیا کیونکہ اس سے وہ نجی معاملے کی
بجائے زیادہ وسیع زمانے پر اس لیے ر بیان کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ انسانوں کے بنیادی وجود کے موضوعات پر خالص ،سچی اورناقابل تغیر نمونہ پیش کر سکے۔ (روزنامچہ 1917)
فرانز کافکا 1883 میں پیدا ہوا۔اپنی زندگی کا زیاد تر
حصہ پراگ میں گزارا جہاں کثیر زبانیں بولی جاتی تھیں اور وہ جگہ انتشار کا شکار
تھی۔وہاں ایک عظیم الشان محل پایا جاتا تھا لیکن کوئی بادشا ہ نہ تھا۔اس کے قصوں میں اس بات کا ذکر
ملتاہے کہ وہ کس شہر میں تھا۔ خواہ بدنام زمانہ شہر بابل تھا جہاں ظلم و بربریت عروج پر تھی اور اسلحہ کی بھرمار اور لاقانونیت تھی ۔اس نے اس کا
ذکر اپنے افسانے ' دا سٹی کوٹ آف آرمز ۔۔۔یا عظیم الشان شہر
پیکنگ ہو جو اس نے اپنے ناول ' دا گریٹ وال آف چائنا'میں
بیان کیا ہے۔۔پراگ میں اس کی تجارتی حلقوں میں کافی جان پہچان تھی۔اس کے والد کی قدیم ٹاؤن سکوئر میں فیشن کی اشیاء کی دکان تھی اور اس
کا تعلق قانونی اور انتظامیہ سے بھی تعلقات تھے۔اس نے چارلس یونیورسٹی سے قانون کی
ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس نے 1908 سے 1912 تک بیمہ کمپنی جو مزدوروں کے حادثات کے کلیم کے شعبہ میں بوہیمیا حکومت میں باعزت ایماندار نوکری کی جسے وہ ا
نوکر شاہی کا تاریک گھونسلہ کہا کرتا تھا۔تجارتی کاروائیاں ،قانون ، عوامی
انتظامیہ کا ذکر خواہ وہ حقیقی پس منظر میں ہو یا علامتی اظہار کے طور پر اس کے افسانے ' دا نیبر' ، ' دا میریڈ کپل ' ؛ ' دا ریفیوزل ' ، 'دا پرابلم آف آور لاز '؛ 'ایڈوکیٹ ' اور قانونی معاملات میں نیم طنزیہ اور بازاری گفتگو اس کے ادب کا سٹائل ہے۔پراگ ایک ایسا شہر تھا
جہاں یہودی اور دانشمند لوگوں پر ظلم و ستم روارکھا جا رہاتھااور وہ وہاں بہت گھٹن
محسوس کرتے تھے۔وہ ایسا محسوس کرتے تھے کہ وہ ہوا میں لہرا رہے ہیں اور ان کی جڑیں نہیں ہیں۔ ایسے دانشور
اپنے والد کے عقیدے سے خود کو آزاد کرکے دکھ اور رنج کے ساتھ جرمن ثقافت کو اپنا
رہت تھے جو ان سے غلامانہ سلوک کرتے تھے۔اس بنا
پر کافکااور اس کا دوست میکس بریڈ اپنا مذہب ترک کر کے بنیاد پرست صیہونی بن گئے تھے۔فلسطین جانے کے خیال نے
خصوصی طور پر کئی سال بعد کافکا کو بھی متأثر کیالیکن اپنے آلام کا یہ حل اسےہمیشہ خصوصی نوعیت کا ہی لگا،جو کسی قسم کی صورت حال میں پریوں کی کہانیوں کی طرح کبھی سچی نہیں ہو سکتی تھی۔ جب وہ پولینڈ کے کئی اداکاروں سے
ملاجو1911 میں پراگ کی سیر و تفریح کے لیے آئے تھے اور بگڑی عبرانی زبان بولتے تھے تو اسے
اپنی یہودی میراث کے تحت اسے اس نے اپنے افسانے 'سیون ڈاگ میوزیشنز' سلسلے میں 'انویسٹی گیشن آف اے ڈاگ' میں پیش کیا۔جس میں پیش
کی گئی تمام کہانیاں اس کی سوانحعمری بیان کرتی ہیں۔اس میں اس نے مشرقی یورپ کی پراسرار قوت جو یہودیوں کی حقیقی کمیونٹی میں پائی جاتی
تھی ،اجاگر کی۔اس کے روزنامچے اور اس کی خط و کتابت سے یہ ثابت ہوا کہ اس نے مخصوص یہودی کمیونٹی جس نے اسے اپنی کمیونٹی سے خارج
کردیاتھا ،کو قدرے قدیم اور توہماتی پایااور اان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجو د ہمدردانہ، مزاحیہ ، شاندار اور
متأثر کن کہا۔اس کا یہ تأثر ان کمیونٹیوں کے ساتھ بھی تھا جو چیکو سلواکیا کے صوبوں کے دیہی علاقوں میں رہتی تھی۔ پراگ کے
بابل دانشور پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ گئے کہ اس نے شہر ی آبادی کو کیوں اس میں شامل نہ کیا۔ راس
بات کااظہار اس نے 'دا ولیج سکول ماسٹر' میں کیا۔
- کافکا کا والد ہرمن ،ایک طاقتور ، مغرور اور گھمنڈی تھا جس نے اس میں اس بات کا احساس کوٹ کوٹ کر
بھر دیاتھا کہ وہ ایک نالائق ،نااہل تھا اور اس میں احساس جرم پیدا
کردیاتھا۔اسے معلوم تھا کہ اس کی شادی اور ازدواجی زندگی مکمل طور پر اس کے والد کے
زیر اثر تھی اور اس ماحول میں وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔اس لیے اس نے
کنوارہ رہنے کا فیصلہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ وہ ادب جو اس نے اس دوران
لکھا اس میں تنہائی کی اذیت اور بیگانگی کا اظہار کیا جو اس کے ناول ' بلم
فیلڈ ،این ایلڈری بیچولر ' میں بیان کیا۔اسے شادی نہ کرنے کا احساس محرومی
1914 میں شدت سے ہواجب اس کی فیلس بائر جو برلن جرمن کی ایک مڈل کلاس کی سمجھدار
خاتون جو اپنے آپ تک محدود رہتی تھی ، اور مضبوط قوت
ارادی کی مالک تھی ، جس نے اسے اپنی طرف کھینچا تھاسے تھوڑا عرصہ رہی منگنی ٹوٹ گئی۔یہ وہ دور تھا جب وہ
اپنے ناول 'دا ٹرائل ' اور 'ان دا پینل کالونی ' لکھ رہا تھا۔
یہ واضح ہے کہ اس کے اپنے والد کے ساتھ کشیدہ تعلقات اس کے پہلے کے افسانوں 'دا ججمنٹ؛ اور 'دا ٹرانسفارمیشن 'میں بیان کیے
تھے جو اس کے ادبی مخزن جیسے کہ ''ان دا پینل کالونی
' اس کی زندگی میں شائع ہوئے اور کامیاب رہے۔1916
کے آخر میں جب اس نے اپنا چھوٹا سا گھر جو 'کاسل ہل ' کی ڈھلوان میں آچیمس ٹین گاسی ' میں تھا ر
خریداجوایک جھگی کی طرح کاتھا۔اس گھر میں اس کو اپنی جارحانہ نجی سرگرمیاں
کھل کر کرنے کی آزادی مل گئی۔اسے لکھنے لکھانے میں کسی حد تک غیر مستحکم اعتماد حاصل ہوا۔اس کی تصانیف کرنے کا یہ مشن ،تاہم،
گیر یقینی رہا۔اس دوران اس نے روحانی اور مذہبی کتب لکھیں جن کے
عنوان ' دا کو لیکٹڈ افوریزم ' کسی نظریے یا عقیدے کا کوئی کلیہ یا مقولہ) لکھی۔ 1917 میں اس پر تپ دق کا حملہ ہوااور
اس کی مکمل توجہ اپنی بیماری کے علاج اور تصانیف پر مرکوز ہو گئی۔کہا جاسکتا
ہے کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کی اس بیماری نے اس کی فیلس
کے ساتھ تعلقات جو طویل عرصے سے مشکلات کا شکار تھے ،میں کسی حد تک
کمی ہوئی۔اس کی انشورنس کمپنی نے اس کی اس دوران اسے بیماری کی کھلی چھٹی دے کر مدد کی لیکن جب وہ صحت یاب نہ
ہوا تو اسے پنشن پر بھیج دیا۔
کافکا نے اس دوران خود اعتمادی سے پوری قوت کے ساتھ لکھنے لکھاناکا مشن جاری رکھنے کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتالیکن اس
کی 1916 کے بعد کے افسانے جو اوٹ پٹانگ ، مہمل ا ور کوتاہی ظاہر کرتے ہیں اور ناکام شمار ہوتے ہیں لیکن یہ
وہ جگہ ہے جہاں اس کی سوانحعمری کی داستان میں مکمل طور پر نااہلی ثابت ہوتی ہے۔یہاں اس نے اپنا تشخص
اور اپنی شخصیت کو مسخ کر دیاہے ۔اس کی یہ کیفیت اس نے اپنے افسانوں 'دا بریج ' میں پیش کیاہے جس میں ایک
شخص خود کو قابل نفرت اور خستہ حال پیش کرتاہے جو ذہنی تصادم میں معاشرت خلا کو ُپر کرنے اور پل کا
کام کرنے میں ناکام رہتاہے۔لیکن اس کی یہ مسخ شدہ شخصیت اس کے روزنامچے میں دی گئی تفصیلات سے مطابقت نہیں رکھتیں جس
میں اس نے لکھا کہ ' میرا خاتمہ نھی ہے یا آغاز بھی۔' یہ بات اس نے اسی اصرار کے ساتھ ' ' دا ہنٹر گراکچس ' میں بھی کہی۔'ایک دریا جو لیک گارڈا کے پاس بہتا ہے جو ایسا
لگتاہے کہ کسی کسی دوسرے سیارے سے آیا ہے اپنی نایاب چھٹیاں گزارنے کے لیے پراگ میں تاہم وہ یہاں اپنے روزنامچے میں اپنی نمائندگی کسی حد تک مایوس کن پست ہستی کے طور پر جو خود کو اپنی زندگی میں ہی شکست شدہ تصور کرتا ہے سچ نہیں کیونکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے اور وہ
حقیقی طور پر زندہ رہنے والا ہے۔
1917 کے بہت زیادہ تخلیقی سال کے باوجود اپنے میں اور لکھنے میں وہ اتنا زیادہ کھو گیا کہ ،کہ اس کی تنہائی اور انسانی روابط میں کمی اس پر دوباہ چھا گئی۔1919 میں وہ
ایک چنچل لڑکی جولی وہریزیک جو ایک غریب گھرانے سے تھی ،سے ملی جس نے اسے دوبارہ سے شادی کی خواہش پیدا
کی۔ااور 1920 میں ا س کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی ادب
حالات زندگی
فرانز کافکا ( نوبل انعام یافتہ 2001)
فرانز کافکا 3 جولائی 1883کو پراگ
میں بوہیمیا آسٹریا جو آج کل چیکوسلواکیا میں پیدا ہو۔وہ 3 جون 1924 کو
کریلنگ جو وی آنا کے قریب تھا، میں فوت ہوا۔وہ جرمنی زبان میں
لکھتاتھا۔اس کا ادب زیادہ تر تخیلاتی ہے ۔ا
اس کے اہم ناول و افسانے شمار کئے جاتے ہیں۔لیکن امریکہ میں ان ناولوں کے بارے میں عدم
اطمینان پایاجاتاتھا۔ The Trial
19 2اور5 Metamorphosis
1915 اور
فرانز کافکا کے والد
کانام ہرمن کافکا اور والدہ کانام جولائی لوئی
تھا۔اس کاباپ سوداگر تھا۔ کافکا کی اپنے والد سے بالکل نہیں بنتی
تھی۔ان کے نظریات ایک دوسرے کے برعکس تھی۔ وہ اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد
تھی۔اس کی تین بہنیں تھیں جن میں 'اوٹلہ'
اس کے سب سے زیادہ نزدیک تھی۔وہ اپنے حسب نسب میں بڑے فخریہ انداز میں اپنی والدہ
کے خاندان کے نزدیک آنے میں فخر محسوس کرتاتھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ
باوقار اور ذہین و فطین تھے۔ ان میں
انکساری پائی جاتی تھی۔تاہم وہ ،اپنی والدہ کے زیادہ
قریب نہیں تھا۔ کیونکہ وہ گھریلو ذمہ داریوں میں دبی ہوئی تھی اور اسے
زیادہ وقت نہیں دے پاتی تھی ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کاخاوند بے حد مصروف
رہتاتھا۔اور جب گھر میں موجود ہوتاتو ماحول پریشان کن
ہوتاتھا۔وہ اپنے خاوند کی اس رائے سے متفق تھی کہ کافکا ایک سست اور
بیکار شخص تھا۔انہیں یہ شک تھاکہ وہ غیر سماجی
سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
کافکا اپنے والد کو اپنااول ترین
دشمن سمکجھتاتھا۔ اس کا ماننا تھاکہ وہ اس کی ادبی سرگرمیوں کو
سبوتاژکرتارہتاتھا۔ کافکا کی بہترین تخلیق بھی اسے کوڑا لگتی
تھی۔وہ اس کی ہر شئے کو کومالی فوائد میں تولتاتھا۔اس کا رویہ اس
کے لئے جابرانہ ہوتاتھا۔دیکھنے میں اس کا والد اگر بات نہ کرے تو
خوبصورت ، دراز قد اور پرکشش تھا لیکن اس کارویہ
انتہائی کافکا کے لئے ظالمانہ ہوتاتھا۔کافکا نے اپنی سوانعمری میں 'والد کے نام جو خط لکھا ۔میں اس بات
کاذکرکیاکہ اس کی محرومیوں اور ناکامیوں کاذمہ دار اس
کاوالد تھا۔اس نے یہ بھی بتایاکہ اس کے اپنے والدین کے ساتھ واجبی
تعلقات تھے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ خط کبھی اس کےوالد تک نہیں پہنچا۔ٍوہ
اپنے والد سے اتنی شدید نفرت کرتاتھاکہ اس نے اسے اپنی زندگی سے خارج کردیاتھا۔وہ
اگر اپنے والد سے واسطہ رکھتاتو وہ خود کو ناکارہ اور نامرد سمجھتا۔ اسے یقین تھا
کہ اس کاوالد جو بھی نصیحت کرے گا، وہ اس پر عمل نہیں کرےگا۔اس نے ان
خیالات کا اظہار اپنے ناول ججمنٹ اور کئی اور
ناولوں میں کیا۔
کافکا نے اپنے والد کی اس پر
زیادتیاں پوری قوت سے بیان کیا۔اس کے مطابق اس کے والد نے اس پر ظلم
وستم کابازار ہمیشہ گرم رکھا۔وہ اسے ذہنی اذیت دیتارہا۔کافکاہمیشہ یہ کوشش کرتارہا
کہ اس کی ستائش حاصل ہو لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔اس چیز کااظہار اس نے اپنے ناول
'دا ٹرائل ' میں کیاہے۔اس کی اپنے والد سے شکایات اور بھی ہیں۔وہ اس کی بالغ زندگی میں
ہمیشہ دخل اندازی کرتارہا۔اس کی جوانی اس نے گزاری وہ مایوس کن تھی۔اس نے اسے دوست
بنانے نہیں دیئے۔اس پر ہمیشہ اجنبیت طاری رہی۔وہ تمام لڑکیاں جواس کی محبت میں
تھیں، وہ نوکریاں جو اس نے کیں، اس کاوالد ہمیشہ ان سے نفرت کرتارہا۔وہ
معاشرہ جس میں کافکااپنی زندگی گزار رہاتھا ، میں ہر ایک نے اسے ناقابل تلافی
نقصان پہنچایا۔
ایک ایسا شخص جس کے ذہن میں اس کا
مذہب رچ بس گیاتھا اور وہ اس پر پوری طرح کاربند تھا، اپنے بیٹے کافکا کو احساس
گناہ دلاتا رہتا تھا۔وہ کافکا کی صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کرتاتھااور
اس کے لئے حقارت آمیز الفاظ اداکرتاتھا حالانکہ وہ بہت ذہین تھا اور اس
کا اعتراف اس کے اساتذہ اور دوست احباب کرتے تھے۔ اس نے تعلیمی میدان میں زبردست
کامیابیاں حاصل کی تھیں۔کافکا کی منظم معاشرتی زندگی اس وقت واضح ہوگئی
جب بالغ کی حیثیت سے اس نے خود کو سوشلسٹوں کے لئے ہمدردانہ رویہ
اپناتارہاَ۔ وہ چیکوسکواکیہ کے متشدد فسادات جو جنگ عظیم سے
پہلے پائے جاتے تھے کے لئے مثبت رویہ اپنایا۔اس دور میں
صیہونیت قائم کی جارہی تھی۔وہ اس میں بے حس اور منفعل رہا۔سیاسی معاملات سے لاتعلق
رہا۔وہ جرمن کمیونٹی سے بیگانہ تھالیکن چیکوسلواکیہ کی سیاسی اور
ثقافتی امنگوں کی تائید کرتارہا۔۔ وہ خانہ بوش بن کر رہ گیا
جن کی کسی قسم کی جڑین نہیں ہوتیں۔میں سماجی تنہائی پیدا ہوتی گئی اور وہ پوری
زندگی ناخوش رہا۔
کافکا نے پراگ میں چند دوست
بنائے۔1902 میں اس کی
ملاقات میکس براڈ سے ہوئی جو بعد میں اس کا گہرا
دوست بن گیا اور اس نے اس کے ناولوں اور افسانوں کے لئے موزوں اشاعت
خانوں میں چھپوانے کا ذمہ لیا۔وہ اس کامعاون اور شارح بن
گیا۔وہ اس وقت پراگ یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کر
رہاتھا۔اور کافکا کی سونعمری بھی لکھ رہاتھا۔کافکا نے 1906 میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی اور
1907 میں ایک بیمہ کمپنی میں ملازمت کرلی۔وہ پوزیشن تو بڑی معقول تھی لیکن
اسے طویل گھنٹوں کے لئے روزانہ کام کرنا پڑتاتھا۔اس کو ادب کے لئے وقت
نکالنا مشکل ہو گیاتھا۔1908 میں اس نے یہ سوچ کر نوکری تبدیل کر لی کہ
اس میں اسے اپنی تخلیق کے لئے وقت مل جائے گا۔وہاں وہ 1917 تک رہا۔لیکن اس کو ٹی۔
بی ہوگئی گئی۔ اسے باربار چھٹیاں لینا پڑیں اور کئی بار تو سینیٹوریم میں بھی داخل
ہوناپڑا۔اس پر اس نے پنشن لے لی۔ اور 13 جون 1924 میں فوت ہوگیا۔
کافکا کی شخصیت کاناقدانہ تجزیہ
کیاجائے تو وہ ہونہار، کرشماتی شخصیت اور اچھے ذوق کا مالک
تھا۔ اس کی حس ظرافت بہت عمدہ تھی لیکن اس نے دوہری زندگی گزاری۔ایک طرف تو نوکری
کے لمبے گھنٹےاور دوسری طرف ادیبانہ مزاج ایک ساتھ مل کر
اسے الجھنوں میں مبتلا کرتے رہتے تھے۔ان کی چپقلش سے وہ پریشان ہوجاتاتھا۔اس ابتلا
میں وہ نعض اوقات چڑچڑاہوجاتاتھاجس سے اسے پائیداراور مستحکم تعلقات
قائم کرنے میں مشکل پیش آتی تھی۔اس کشمکش نے اسے نیوراتی بنادیاتھا۔اس کی ترغیبات
ہمیشہ تصادمات کاشکاررہتی تھیں۔اسی وجہ سے وہ دوجذبیت میں مبتلارہتاتھا۔ اس
کے نتیجے میں وہ اپنی محبوباؤں جن میں
فیلیس بائر اؤئر اور
میلینیا جسینکا تھیں جو اس پردل وجان سے عاشق
تھیں، جن سے اس کی منگنی بھی ہوئی،سے بھی نباہ نہ کرسکااوران سے مکمل
طورپرعلیحدگی کرلی۔
1923 میں وہ برلن گیاتاکہ وہ اپنا
پوراوقت ادب لکھ سکے ۔وہ بالٹک ساحل پر جو سویڈن کو کو جرمنی اور پولینڈ سے الگ
کرتاہے، پر تفریح کے لئے گیا۔۔بعد میں اسی سال اسی جگہ وہ ایک سوشلسٹ
لڑکی ڈورا ڈائیمنٹ ( ڈایامنٹ) سے ملا۔ وہ اس کے ساتھ رہنے لگی ۔وہ وی
آنا میں ٹی بی سے 1924 میں فوت ہوگیا۔
کافکا نے اپنی زندگی میں اپنے ناول اور افسانے
بہت کم چھپوائے۔ اہم ناول اور افسانے درج ذیل ہیں
Judgment
(1912), Description of a Struggle(1912),Metamorphosis
(1915),Penal Colony (1919), A Country Doctor (1919), A
Hunger Artist (1924)/
اس نے وصیت کی تھی کہ اس کے
ناولوں اور افسانوں کے مجموعوں کو جلادیاجالئے یا ضائع کر دیاجائے لیکن اس کے گہرے
دوست براڈ جو اس کا پروموٹر تھا ، نے اس کی وصیت پر عمل نہ کیا اور اس کی کتب
چھپوادیں کیونکہ وہ ادبی سرمایہ تھیں۔ جن میں کچھ درج ذیل ہیں۔
The
Castle (1925), The Trial (1925), Amerika (1927), The Great Wall of
China (1931), The Penal Colony
اس کی کہانیاں غیر منظم ہیں
لیکن منطقی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
نیا وکیل
The New Lawyer
فرانز کافکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz Kafka (Nobel Laureate)
ہمارے ہاں ایک نیا وکیل آیا ہے جس
کا نام' ڈاکٹر بُسفے لس 'ہے۔ وہ بلند
حوصلہ ہے۔ اسے نظامِ عدل اور اداروں پر
مکمل اعتماد ہے اور اسے مزید مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا
ہے۔اسےاپنے پیشے سے لگن ہے ۔ محنت شاقہ اور علم وبصیرت سے
نام کمانا چاہتا ہے۔اس کا کوتاہ قد اس دور کی یاد تازہ کرتا ہے جب اس
جیسا ایک جواں
ہمت شخص مقدونیہ کاکار
آزمودہ جنگی سوار ہوتا تھا۔اس کو لوگ آج بھی سکندر اعظم
کہتے ہیں ۔وہ اس عظیم جرنیل کی عکاسی کرنا چاہتاہے
۔وہ میدان جنگ ۔چونکہ اس کا تعلق عسکری افواج سے نہیں بلکہ
قانون دانی ، علم حصول انصاف اور علم و
ادب کے میدان سے ہے، اس لئے وہ اس میں سکندراعظم بننا
چاہتا ہے۔ جوش و ولولہ میں لوگ اس کے معترف ہیں
کہ ' ڈاکٹر بُسفے لس 'اپنا فرض بخوبی نبھاتا ہے ۔
کمرہ عدالت کی شہ نشینی پر اس سادہ
لوح وکیل ( ' ڈاکٹر بُسفے لس ')کی ماہرانہ
آنکھیں عدالت میں حیرت انگیز طور پر اچھل اچھل کربرستی
دیکھیں جس کے پاؤں سنگ مرمر کے فرش پر بج رہے
تھے۔ سامعین اس کے دلائل کی داد دے رہے تھے اورتوقع کررہے تھے کہ وہ مقمہ جیت جائے
گا۔
حالانکہ وکلا
کی آئینی تنظیم نے ' ڈاکٹر بُسفے لس ' کو حال ہی
میں وکالت کا سرٹیفیکیٹ دیاتھا لیکن اعلیٰ
بصیرت پر عوام الناس کی رائے تھی کہ ' ڈاکٹر بُسفے لس 'جدید سماجی نظام
کا علمبردار بن جائے گا۔ اس کی شخصیت ایسی ہے اورپریشانی ،
تذبذب اور دیگر صورتوں میں ، وہ دوستانہ سلوک کرتاہے۔وہ تاریخ
عالم کی طرح وکالت میں نمایاں
مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔
آج ۔۔۔اس بات سے کوئی
بھی انکار نہیں کرسکتاکہ دنیا میں کوئی اورسکندر اعظم پیدا نہیں
ہوا۔پولیس سٹیشنوں اور عدالتوں کے چکر لگانے والوں کو بخوبی علم ہے
کہ قانونی موشگافیاں کیا ہوتی ہیں ،معمولی جرائم جیسے کسی شاہانہ
ضیافت کی میز پرکسی دوست سے
جھگڑنے ،نیزہ بازی، بلم بازی کی
ہڑبڑی اور قتل جیسے سنگین جرائم کی نوعیت اور سزا کیا ہوتی ہے۔ سائلین
کی داد رسی کے لئے ڈاکٹر بُسفے لس ' عزم کے ساتھ اس پیشے میں داخل ہوا؛ اور
کئی لوگوں کے نزدیک ، مقدونیہ آخری حد تھی جہاں اس کے والد فلپ
دوم ( سکندر اعظم اس کی تیسری یا چوتھی بیوی سے
تھا)پر تنقید کے ڈانڈے برسائے جاتے ہیں ۔۔لیکن وہ ہی ایسا عظیم
جنگجو تھا جس نے اس زمانے میں جب بھارت کا طوطی بولتا تھا کوئی بھی ،اس
ملک پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتاتھا ،لیکن سکندر اعظم نے
فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ان ایام میں ،بھارت کے داخلی دروازوں تک رسائی ناممکن تھی،
اس کے باوجوداس کی شاہی تلوار کی نوک نےانہیں چیر کر رکھ دیا تھا۔آج ان
دروازوں کی سمت تبدیل ہو گئی ہے۔ان کا رخ بدل گیا ہے۔وہ زیادہ وسیع اوراونچے ہو
گئے ہیں؛اب کوئی بھی ان سمتوں پر اعتراض نہیں کرتا۔ بڑے بڑے وکلاء عدالت
میں ' ڈاکٹر بُسفے لس ' کی قانون دانی میں مہارت دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے
کہ وہ اس دور کا قانون کا سکند اعظم جلد ہی بن جانے والا
تھا۔وہ اس کی صلاحیتوں سے جلنے لگے۔بہت سے لوگ تیغ زنی کرتے ہ ں، جن کا مقصد صرف
یہ ہوتا ہے کہ انہیں وحشیانہ اورجنگلی سمجھا
جائے جو عوام الناس میں خوف وہراس پیدا کرکے اپنی دھاک بٹھاتے ہیں، اور
وہ آنکھیں جو ان کا تعاقب کررہی ہوتی ہیں ،ان کی حرکات سے پریشان ہوتی ہیں
۔لیکن ' ڈاکٹر بُسفے لس ' کی کامیابی کا راستہ علم کی پیاس ہے اور
وہ اسے دن رات محنت کرکے بجھانا چاہتا ہے ۔ اس لئے ' ڈاکٹر بُسفے لس
' نے خود کو کتب میں گم کردیا ہے ، اسے جلد ہی معلوم ہوگیا
کہ اصول و ضوابط اور قوانین جو دستور میں ہوتے ہیں اور ان
کے اطلاق میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اداراتی نظام اور نوکر
شاہی کی بے جا مداخلت ظاہر ہونے لگی۔
چراغ کی لو میں خاموشی
، سکندراعظم کی میدان جنگ میں گھن گرج سے دور ،
بازو گھڑسوار کی پشت پرگرفت کے بغیر ، ڈاکٹر بُسفے لس '
نے قول وفعل سے یہ ثابت کیا کہ تاریخ
کےقدیم علمی خزانوں سے مستفید ہوکر اداروں کو مضبوط کیا
جائے۔
تجزیہ
فرانز کافکا کی کتاب ' اے کنٹری
ڈاکٹر ' کا پہلا مختصر افسانہ 'ایک نیا وکیل ' (اے نیو لائر) ہے
جس کا نام ڈاکٹر بُسفے لس 'ہے۔وہ بلند حوصلہ اور عالی ہمت ہے
۔۔۔وہ اس معاشرے میں رہتا ہے جس کے اصول و ضوابط ، قوانین اور کردار
ابہام کا شکار ہیں۔اسے حال ہی میں وکالت کا لائسنس
ملا ہے ۔ وہ جوش سے عدالتی نظام میں شامل ہوگیا ہے۔وہ آئین کے مطابق
کام کرنا چاہتا ہےلیکن اسے اس دوران معلوم ہوا کہ دستور کا تعلق زیادہ
تر کتب تک محدود ہے اور اسے اپنی مرضی سے توڑا موڑا جا سکتا ہے۔وہاں
مقدمات کا فیصلہ رسوم و رواج ، اثرورسوخ ، ذاتی تعلقات اور تھوڑے بہت
دلائل سے کیا جاتا ہے۔کوئی حتمی اصول نہیں پایا جاتا۔قوانین یا تو تعزیرات کا مکمل
احاطہ نہیں کرتے یا ان کی تشریح میں کمی بیشی پائی جاتی ہے۔ کچھ رسوم و
روایات تو بالکل بیہودہ ہیں۔ ڈاکٹر بُسفے لس 'ہےعدالت کے روبرو ہوتا ہے تو
اسے قانونی پیچیدگیوں کا علم ہوتا ہے۔ وہ اس کی توقعات کے برعکس ہوتا ہے۔ اسے
قانون اور دستور کے مطابق ادا کرنے کی بجائے خلل ڈالا جاتا
ہے۔اس طرح عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ڈاکٹر
بُسفے لس 'کو غیر متوقع صورت حال کا علم حاصل
ہوتاہے۔عدالتی کاروائی میں اس کے دلائل غیر
اہم اور آشفتہ قرار دے دیئے جاتے ہیں جس وہ پریشان ہو جاتا
ہے۔
اس افسانے میں ڈاکٹر
بُسفے لس 'اداراتی ناانصافیوں ،روکھا پن ، خشک مزاجی اور
سخت نوکر شاہی سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی وکالت کا
سفراسے طاقت فراہم نہیں کرتا ، بلکہ اس کی حیثیت خاموشی سے قبولیت اوررد افسوں اور
فریب نظر کی ہے۔اسے معلوم ہو جاتاہے کہ قانونی نظام کم و
بیش من مانا ہے اور منصف اپنی خواہش یا مرضی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔اس
میں اس شخص کی فتح ہوتی ہے جو بااثر ہو۔اس کے پردے میں ایسی قوتیں
خاموشی سے کام کرتی ہیں جو مفاد پرست ہوں۔
اس
افسانے میں ڈاکٹر بُسفے لس ' کا واسطہ سرد
مہر ،دھندلے، غیرشفاف نوکر شاہی نظام سے
پڑاہے۔کافکا ادارہ جات جیسے کہ قانون ،جس کے انصاف کا مقرر
ہ ڈھانچے کی نقش کشی پر زور دیا ہے۔ ڈاکٹر بُسفے لس 'اپنے فرائض کی ادائیگی
میں الجھنوں کا شکار ہوتا رہتاہے جہاں صوابدیدی اختیارات ، سفارش ،
رشوت اور دھونس کی آڑ میں من مانی طریقے سے
ناانصافی کی جاتی ہے ۔
ڈاکٹر بُسفے لس
'ہے میں ایک اوراہم موضوع بیگانگی ہے؛ اس میں وکیل کی
تنہائی جدید نظاموں میں انسانی
حالت کی عکاسی گئی ہے، جس میں ہر
شخص کی انفرادیت اداراتی بوجھ میں دب جاتی ہے۔یہ کہانی وجود
کا غیر یقینی پن بھی ظاہر کرتی ہےجو کافکا کے ادب کی مثال
ہے اور اس کے فلسفے کا نشان تصدیق ہے۔۔۔اس میں وجودی غیر یقینی پن کچھ
بھی واضح نہیں، اور ہی مستقل معانی ہوتے ہیں اور تمام معاملات کو اپنے حق میں بدل
دیا جاتا ہے۔جہاں منفرد حیثیت کو اداراتی اصولوں میں الجھا کے رکھ دیا
جاتا ہے۔یہ انسانی نظریات، اصول و ضوابط اور میکانیت میں تنازعات کی
شکل میں ظاہر ہوتاہے۔
کافکا کا
بیان ایک سطحی کہانی ہےلیکن یہ ایک ادھورا عکس ہے
جہاں معاون ( نیا وکیل) پیچیدہ اور بھول بھلیوں والے قانونی نظام کو سمجھنے اور اس
معمے کو حل کرنے کی وشش کرتا ہے۔یہ نظام عوامی وسیع سماجی ڈھانچے
کا آئینہ ہے جسے کافکا نے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے:جس میں ایک تو بغیر چہرے کے من
مانی اصول و ضوابط ہیں، اور دوسرا کبھی چھٹکارہ نہ پائی
جانے والی اجنبیت ہے ۔معاون ابہام ، حدود اور خاموشی سے اطاعت کا ذکر
کرتا ہے جو جدید دور میں بقا کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔اور وہ ناقابل
فہم قوتوں کے سامنے مفید ثابت نہیں ہوتے۔
کافکا کے طرز تحریر کا جائزہ لیا
جائے تو اس میں براہ راست پھیلی ہوئی زمین کے نیچے گہرائی
والی لاشعوریت ملتی ہے جو فرد میں بے سکونی اور انتقالیت پیدا کردیتی
ہیں۔اس کا وکیل کا نظام کو ناکام تصور کرناانسانی تجربات کے غیر جانبدارانہ
نظام سے مماثلت رکھتا ہے،جو خواہ قانونی، سیاسی ، یا
سماجی ہو ۔۔۔میں انفرادی انصاف کو معیار بنایا جاتا ہے۔اس داستان میں
جان بوجھ کر وضاحت پیدا نہیں کی گئی جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نظاموں
کے اندر ، وضاحت ، اور بندش دونوں فریب پر ہیں۔ وہ بڑی خاموشی سے اس نظام کو 'جیسے
ہے ' کی بنا پر قبول کرلینے کی صورت کا ذکر کرتا ہے ہے، جہاں بلند
حوصلے کو ان دیدی قوتوں کا ڈھانچہ دم گھونٹ دیتا ہے۔اور اسےتلاش و تجسس کی مشین سے
باہر پھینک دیتا ہے۔
اس افسانے کے عنوان سے ظاہر ہے کہ
یہ ایک ایسے شخص سے متعلق ہے جو نیانیا وکیل بناہے۔اس کے پاس نہ تو
اتناتجربہ ہوتا ہےکہ عدالتی نظام کی حقیقت کیاہے۔ دستوری ، آئینی اور ادارہ جاتی
اصول وضوابط ، قوانین اور ان کے اطلاق میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ایک نیا
وکیل ایسی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ سائلین اس کے پاس اپنے
مقدمات کی قانونی چارہ جوئی کے لئے آئیں۔ اگر اسے مقدمات مل بھی جائیں
تو بھی اس کی عدالت میں پیشیاں محدود ہوتی ہیں ، اور ان کی بنا پر کافکا نے
عمومی نتائج لاگو کر دیئے ہیں جس سے اس کہانی کے جواز کو ٹھیس پہنچتی
ہے۔
یہ افسانہ پاکستانی معاشرت اور
قانونی نظام سے مماثلت رکھتا ہے، جہاں نوکرشاہی اور مقتدر قوتیں انفرادی ترقی کا
گلا گھونٹ دیتی ہیں۔پاکستان کے بہت سے وکیل اس نظام کی بری کارکردگی، رشوت اور
خاموشی سے بری طرح متاثر ہیں۔جس طرح پاکستانی شہری نظام عدل میں غیر
ضروری طوالت،بے جا رکاوٹیں ،سفارشیں،رشوت اور اداروں کی من مانی طاقت پاکستان میں
پوری طرح غیر آئینی اور غیر قانونی طریقوں سے بدمعاشی کے
ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔
…………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………..
2 Book 5 A
Country doctor
ایک دیہی معالج
A
Country Doctor
فرانز کافکا
Franz
Kafka (Nobel Laureate)
میں اس وقت شدید مخصمے میں تھا:
مجھے فوری ایک اہم سفر پر روانہ ہونا تھا؛ لیکن
ایک مریض جس کے بارے میں خیال تھا کہ کسی موذی بیماری
کا شکارتھا، گاؤں سے دس میل دور زندگی اور موت کی
بازی کھیل رہاتھا، میرا انتظار کررہا تھا۔ موسم بہت خراب تھا۔ برفباد نے تمام رستے
مسدود کر دیئے تھے؛ میرے پاس ایک گھوڑا گاڑی ( ویگن)
تھی جو، زیادہ مضبوط تو نہیں
تھی لیکن اس گاؤں کے لئے مناسب خیال کئے جاتے تھے
کیونکہ اس کے پہیے بڑے تھے ۔میں نے سموری کوٹ پہنا،
اپنی ایمرجنسی کٹ تھامی، جانے کے لئےصحن میں جا کھڑا ہوا؛لیکن گھوڑا غائب تھا۔
ویگن کا میرا ذاتی گھوڑا تھا جو شدید برفانی
موسم میں ضرورت سے زیادہ استعمال کئے جانے پر پچھلی
رات مرگیا تھا۔میری نوجوان نوکرانی پورے گاؤں
میں ماری ماری پھر رہی تھی، تاکہ کسی سے گھوڑا مستعار لے تاکہ میں مریض
دیکھنے جا سکوں ، لیکن اسے ہر طرف سے مایوسی ہو رہی تھی۔ برفباری میں مسلسل اضافہ
ہورہاتھا اور برف کے پہاڑ بن رہے تھے جس سےنقل و حرکت مفقود ہوتی جارہی تھی، اور
میں اپنے گھر میں تن تنہا کھڑا تھا۔
نوکرانی دروازے پرلالٹین
لہراتی دکھائی دی۔قدرتی طور پر :اس بگڑے موسم میں خراب ترین
رستوں کے لئے کوئی اپنے گھوڑے کی جان کا
خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔میں لمبے ڈگ بھرتا
عقبی صحن میں چلا گیا؛ میرے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہ تھا۔مجھ پر بے بسی کی
کیفیت طاری ہو گئی۔ میں نے وہاں کے ایک کمزور اور شکستہ دروازے کو جسے
سالہا سال سے استعمال نہیں کیا گیا تھا،ٹھوکر ماری۔ وہ کھل
گیا اور اس کے پٹ اس کے قبضوں سے ہلنے لگے۔اندر سے اس طرح کی گرمی اور
بساند آتی محسوس ہوئی جو گھوڑوں کی موجودگی میں پائی جاتی ہے۔یہ
کسی شخص کاایک نیم تاریک اصطبل لگتا تھا جس میں ایک رسی پر
لالٹین لٹکی ہوئی نظر آئی جہاں ایک نوجوان ،ٹھنڈک سے بے حال پڑا تھا۔
'کیا میں گھوڑے پر زین کس دوں؟'اس نےچاروں ہاتھ پاؤں پر
رینگتے ہوئے پو چھا۔میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا اسلئے میں آگے بڑھا تاکہ دیکھوں
باڑے میں اور کیا کیا پڑا ہے۔نوکرانی میرے ساتھ تھی۔' یہ
عجیب بات ہےکہ لوگوں کوپتہ نہیں چلتا کہ ان کے گھروں کے آس پاس کیا کچھ
ہے۔'نوکرانی نے کہا۔اس کی بات پر ہم دونوں ہنس پڑے۔
'او بھائی ،او بہن !'نوجوان نےاونچی آواز
میں کہا، ' میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔' ڈاکٹر یہ دیکھ کرحیران رہ گیا
کہ وہاں بڑی شاندار میان دار جھالر کے دو گھوڑے موجود
تھے۔ان کےکسرتی جسم ، مضبوط ٹانگیں ،
اونٹوں کی طرح جھکے ہوئے سر،ایک دوسرے کے پیچھے پاؤں رگڑکر
ردھم کے ساتھ چلنے والے ،اور دروازے سےپیٹھ کے آخری حصے کواینٹھ کر چلنے والے
گھوڑے تھے۔ان کی
تعداد دو
تھی۔، وہ مکمل طور پربھرے جسم کے مالک تھے/،لیکن فوری طور پراپنے مضبوط
دخانی لمبی ٹانگوں پر اکڑ کر کھڑے ہو ئےتھے۔
'گھوڑا جوتنے میں اس کی مدد کرو روزا۔' میں نے
نوکرانی کو کہا، تو وہ جوں ہی اس کے قریب پہنچی
تو اس شخص نے اسے پکڑا اور اپنا سر زور سے اس کے
چہرے پر مار دیا۔نوکرانی نے چیخ ماری اور میری طرف پلٹ
آئی۔؛اور اس کے بائیں گال پردو قطاروں میں سرخ نشان پڑگئے۔
'سور کے بچے،' میں غصے سے چلایا، 'کیا
تم چاہتے ہو کہ تمہیں کوڑوں کی سزا دی جائے؟'لیکن مجھے فوری احساس ہوا کہ میں نے
اسے اس علاقے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ ایک اجنبی تھا، اور میں نہیں جانتا
تھا کہ وہ کہاں سے وہاں آگیاتھا اور اس جگہ کوئی
اصطبل تھا،کا بھی اسے اسی وقت ہی معلوم ہواتھا۔لیکن چونکہ اس
نے مدد کی پیشکش اس وقت کی تھی
جب مجھے ہر طرف سے انکار ملاتھا،چونکہ مجھے مریض دیکھنے
ضروری جاناتھا اور دوسرا یہ کہ وہ مضبوط جسم کا
مالک تھااس لئے میں نے سوچاکہ اس معاملے کو بعد میں دیکھ لوں گا۔
میرے خیالات کو بھانپ کر اس نے
میری دھمکی کا کوئی جواب نہ دیا؛ اور گھوڑوں کو جوتنے اور
ویگن تیار کرنےمیں مصروف رہا۔اس نے میری طرف صرف ایک بار مڑکردیکھا اور
کہا،'آجاؤ۔'اور میں نے دیکھا کہ ہر شئے تیار تھی۔میں نے اپنی زندگی میں اتنے خوبصورت
گھوڑے کبھی نہیں دیکھے تھےاور میں بڑی خوشی سے ویگن میں بیٹھ گیااور گھوڑوں کی
باگیں تھام لیں اور اصطبل والے لڑکے کوکہا:
'اسے میں چلاؤں گا،تم رستہ نہیں جانتے۔'میں نے ویگن پر سوار
ہوکر گھوڑوں کی باگیں سنبھالتے ہوئے کہا۔
'یقیناً! میں تمہارے ساتھ نہیں جارہا۔میں روزا کے ساتھ یہاں
ہی رہوں گا۔'اس نے کہا۔
'نہیں'،روزا نے چیخ ماری اورناگزیر بدسلوکی کے
خدشات سے خوفزدہ ہوکر گھر کی طرف بھاگی۔میں
نے سنا کہ اس نے تلملا کر دروازے کی کنڈی لگا دی۔؛ میں نے اسے ہال اور
کمروں میں بدحواس بھاگتے، اور گھر کےتمام لیمپ
بجھاتے دیکھا تاکہ کسی کو علم نہ ہو کہ وہ کہاں چھپی ہے۔
'میرا جانا جتنا بھی ضروری ہو،تم میرے ساتھ چلوگے ۔میں اکیلا
نہیں جاؤں گا۔میں تمہیں اس لڑکی کو نقصان نہیں پہنچنے دوں گا'میں نے
اسے کہا۔
'ٹھیک ہے، تم فکر نہ کرو ،میں اس کا خیال رکھوں گا!'اس نے
لاپرواہی سےتالی بجاتے ہوئے کہا۔' اس کے بعدگھوڑوں کو ایک خاص انداز میں ہانکا
۔وہ خراب راستے کے باوجود میرے قابو
سے باہر سرپٹ بھاگے اور ویگن ایسے چلنے لگی جیسے کسی لکڑی کو پانی
کےتیز بہاؤ میں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ میں اپنے گھر کی لکڑی کی کھیچیوں کو
اصطبل کے ملازم کے حملوں کی زد میں زور زور سے بجاتے دیکھتا
ہوں ،اور پھرمجھے چنگھاڑ سنائی دیتی ہے جو میری آنکھوں ، کانوں اور
دیگرتمام حواس کو ایک ہی طرح ماؤف کردیتی ہےلیکن گھوڑے میرے
قابو نہیں آتے اور میں مریض کے فارم ہاؤس پہنچ جاتاہوں۔
گھوڑے خاموشی سے وہاں رک جاتے ہیں؛ برفباری بند ہو چکی ہوتی
ہے؛اور ہر طرف چاندنی پھیل رہی ہوتی ہے۔میرے مریض کے والدین اپنے
فارم ہاؤس سے باہر آجاتے ہیں۔مریض کی بہن بھی وہاں آتی ہے۔وہ سب مل کر
ویگن سےاٹھا کر عملی طور پر باہر مجھے ویگن سے باہر نکالتے ہیں۔وہ آپس
میں بات چیت کر رہے ہیں لیکن وہ مبہم ہوتی ہے جسے میں سمجھ
نہیں پاتا ۔ مجھے گھر میں لے جاکراس کمرے میں لے جایا جاتا ہے جہاں مریض ہے ؛اس
کمرے کی فضا میں اتنی گھٹن ہوتی ہے کہ سانس لینا دوبھر ہوتا ہے؛ کمرے کا
آتشدان بجھ گیا ہوتا ہے لیکن اس میں سے اب بھی دھواں اٹھ رہا
ہوتا ہے۔میں کمرے کی کھڑکی کھولنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں مریض
کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں جوایک لڑکا ہے ۔میں اس کا بخار چیک کرتا ہوں تو اسے
ٹمپریچر نہیں ہے۔ اس کی نبض دیکھتا ہوں، وہ نارمل ہے۔اس کا چہرہ ویران اور دہشت
زدہ ہے ، خالی آنکھیں ، چھاتی سے ننگا، پروں والےگرم بستر
پر لیٹا ہے۔وہ مجھے دیکھتاہے اور میری گردن سے لپٹ کر
میرےکان میں سرگوشی کرتا ہے ،'ڈاکٹر، مجھے مر جانے دو۔'اس کے والدین گونگے بن کر ،
جھکے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور لڑکے کا معائنہ کرتے دیکھ رہے ہیں ؛ اس کی
بہن میرے دوائیوں کے بیگ کو ایک کرسی پررکھ دیتی
ہے۔میں کھولتا ہوں اور تشخیص کا ضروری سامان
نکالتاہوں ۔لڑکا بار بار ملتجی آنکھوں سے
یاد دہانی کرا رہاہے۔میں طبی آلات کو موم بتی کی روشنی میں
جانچتاہوں اور ضروری معائنہ کرنے لگ جاتا ہوں۔
اس وقت میرے ذہن میں میری جوان
نوکرانی روزا کا خیال آتاہے ۔میں اب کیا کروں، میں اسے کیسے بچا سکتا ہوں، میں
اصطبل کے لڑکے کے چنگل سے اسے کیسے بچاسکتا ہوں، جو اس وقت مجھ سے دس میل دور تھا
۔ ہوں لیکن میرے ذہن میں روزا اور میرا مرا ہوا گھوڑا آرہا ہے۔جب
گھوڑوں وہ ہانک رہاہوتاہے تو اس کی یہ بات یاد آتی ہے جب 'ٹھیک ہے۔ میں اس کا خیال
رکھوں گا' ۔ میں اگرچہ ملحد ہوں لیکن اس وقت میں صدق دل
سے خدا سے دعا مانگتاہوں کہ وہ اس کی مدد
کرے ۔میں بے بس ہوں اور اس سلسلے میں کچھ
کرنا بھی چاہوں تو کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔
اور ویگن میں دو سرکش
گھوڑے بندھے ہیں۔ان گھوڑوں کی باگیں اس وقت ڈھیلی کردی گئیں ہیں
۔میں کھڑکی کھول دیتاہوں۔ خاندان کا ہر فرد کھڑکی سے اپنا
سر باہر نکالتا ہے اور چیخ مار کرمریض کے پاس آجاتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کھڑکی
کے باہر کیا ہورہاہے ۔میں گھبرا جاتاہوں۔
'میں ویگن پر اپنے گھر واپس جاؤں
گا لیکن ابھی میں نے مریض کا مکمل معائنہ کرنا ہے' میں
سوچتاہوں کہ گھوڑے شائد ایسا چاہ رہے ہیں ۔
لیکن مریض کی بہن کو یقین ہے کہ میں موسم کی وجہ سےحواس
باختہ ہو گیا ہوں ۔وہ سمجھتی ہے کہ سموری کوٹ بہت گرم ہے اس لئے مجھے گرمی لگ رہی
ہے ۔ میں وہ کوٹ اتار دیتا ہوں۔مشروب مغرب مجھے
دیا جاتا ہےاس سے مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ لڑکا صحت مند ہے۔ لیکن اس کے نظام تنفس
میں خرابی ہے کیونکہ اس کی فکرمندوالدہ نےسردی کی شدت کی وجہ سے اسے
کافی بہت زیادہ پلادی ہے، لیکن اصل میں وہ صحت مند ہے اور اسے بستر سے
اٹھا دینا بالکل مناسب رہے گا۔میں فلاح کار نہیں اور اسے بغیر اس کی
بیماری کے اسے خواہ مخواہ لیٹنے نہیں دینے چاہتا ۔ میرے اب تک کے
معائنے کے بعد مجھے تشویش کی کوئی بات نظر نہیں آتی، لیکن مزید
تفتیش کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر سکوں گا۔مجھے ضلعی انتظامیہ نے بھرتی کیا ہوا ہے ۔
میں پورے ضلعے میں ایک ہی ڈاکٹر ہوں اور پورے ضلعے کے مریضوں کا ساتوں دن اور پورا
سال چوبیس گھنٹے علاج کرتا ہوں۔اور اپنے فرا ئض بڑی دیانتداری سے نبھا
تا ہوں ۔خدمت خلق کے جذبے کے تحت اپنی ڈیوٹی بغیر کسی مالی
مفاد کے کررہا ہوں ۔اگرچہ میری تنخواہ کم ہے ،میں اپنی استطاعت کے
مطابق فیاض ہوں ، غریبوں کا خیال رکھتا ہوں ۔مجھے اپنی
نوجوان نوکرانی روزا کا بھی خیال رکھناپڑتا ہے۔میرا گھوڑا کل مر گیا
تھااورخراب موسم میں آدھی رات ایمرجنسی میں مریض کو دس میل
دور گاؤں دیکھنے کے لئے کسی نے بھی مجھے گھوڑا ادھار نہ دیا
ہے۔مجھے کسی کےباڑے سے لینا پڑا ہے؛ اگر وہاں گھوڑے موجود
نہ ہوتے،تو مجھے خچروں پر نکلنا پڑنا تھا۔ یہاں ایسے ہی کام چلایا جاتا
ہے
میں نے ابھی مریض کا معائنہ مکمل
نہیں کیا۔میں فیملی کی تسلی کے لئے سر ہلاتا ہوں۔ لیکن آج روزا جو ایک
پیاری لڑکی ہے ،کو تنہا چھوڑ دینا مجھے افسردہ کررہاہے۔کوشش کے باوجود گھوڑے میرے
قابو سے باہر تھے۔۔۔۔روزا میرے گھر میں کئی سالوں سے نوکر
ہے، کی میں نے کبھی پرواہ نہیں کی ہے۔اس کی طرف میں نے کبھی
میلی نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھا ہے۔۔۔
لڑکے کا خاندان ایسا
ظاہر کررہاہے کہ انہیں لڑکے کی بیماری کے بارے میں کچھ علم
نہیں۔اس وقت تک کے معائنے کے مطابق میری تشخیص کے مطابق لڑکا صحت مند ہے۔ اگر میں
انہیں سچ بتادیتا، تووہ میری بات پریقین نہ کرتے۔مرض کے نسخے لکھنا آسان ہوتا ہے،
لیکن لوگوں سے ابلاغ کرنا مشکل کام ہے۔میرے ضلعے کے لوگ چوبیس گھنٹے
پورے ہفتے مجھے کسی وقت بھی بلاسکتے ہیں مجھے لواحقین کو دلیل کے ساتھ مطمئن
کرنا اور عارضی متبادل حل نکالنا ہوتاہے کہ وہ خاندان دکھی
نہ ہو۔میں لڑکے کے پشت کا معائنہ کرنے لگتاہوں تو میرے سامنے خوفناک
انکشاف ہوتا ہے
خاندان کے اراکین اکٹھے کھڑے ہیں،
۔ لڑکے کا والد معمر ہے۔اس کا رویہ میریر طرف معاندانہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ
سمجھ رہا ہے کہ میں اس کا ذاتی ملازم ہوں ۔ خراب موسم میں رات کے تیسرے
پہر جو مریض دیکھ رہاہوں ، اس کے نزدیک یہ خدمت مجھے
لازماً کرنا ہے بصورت دیگر وہ مجھے اس کی سزا دے گا۔وہ میری
پشت پر تھپکی دیتا ہے۔۔۔وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کی مجھ سے مانوسیت ہے۔میں
اپنا سر ہلاتا ہوں۔میں اس گھٹے ماحول میں اس بزرگ کے رویے سے کراہت محسوس
کررہا ہوں اس لئے میں مشروب پینے سے انکار
کر دیتا ہوں۔مریض کی والدہ اس کے بستر کے پاس کھڑی ہے، مجھے احکامات دے رہی ہوتی
ہے، میں اطاعت کرتا ہوں۔ اس وقت گھوڑے چھت کی طرف منہ کرکے
ہنہناتے ہیں۔میں اپنا سر مریض کی چھاتی پر رکھتا ہوںاور وہ میری بھیگی داڑھی کے
نیچے کانپتا ہے۔ مریض کے باپ اپنے ہاتھ میں مشروب مغرب پکڑکر ناک
میں مجھے نالائق، بیکار اور برا بھلا کہنا شروع کر دیتا ہے، اس
کی والدہ مجھ سے مایوس ہوچکی ہوتی ہےاور روتے
ہوئے اپنے ہونٹ کاٹ رہی ہوتی ہے، اور اس کی بہن خون سے بھرا تولیہ ہاتھ
میں لئے آتی ہے۔میں لڑکے کہ پشت دیکھتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وہاں
ایک گہرا زخم ہے جو گل چکاہے اور اس میں کیڑے پڑ چکے ہیں اور کینسر کی خطرناک سٹیج
پر ہے جو لاعلاج ہے۔ اس کو علاج کے لئے بڑے ہسپتال جانا
چاہیئے تھا جہاں جراحی اور ہر قسم کی ادویات ہوتی ہیں ۔یہ مرض فیملی ڈاکٹر کے بس
کا نہیں تھا۔مریض مجھے دیکھ کر ایسے مسکراتاہے جیسے میں
اسے سوپ دینے لگا ہوں۔۔۔آہ،اب دونوں گھوڑے ہنہنانا شروع ہو گئے
تھے:شائد کوئی طاقتور ہستی مجبور کر رہی تھی کہ وہ ایسا کریں۔ اب
مجھےمعلوم ہوا کہ لڑکا واقعی بہت زیادہ بیمار ہے۔اس کے دائیں طرف اس کی
پیٹھ کے قریب ہاتھ کے حجم جتنا ایک گول زخم تھا۔ باہر سے
گلابی تھا لیکن گہرائی میں سیاہ تھا۔کناروں سے
ہلکا ، نرم دانے دار ، اورخون کے لوتھڑے تھےاور اس کی
سطح ایک کان کی طرح تھی۔وہ زخم دور سے ایسا
تھا۔اسے قریب سے دیکھا تووہ بہت بگڑا ہوا تھا۔اس قسم کے زخم کی
سنگینی سطحی معائنے سے تو معلوم نہیں کی جا سکتی تھی۔میری چھنگلی
انگلی جتنے موٹے کیڑے چل رہے تھے،اور خون رس رہا تھا، اس کے اندر زخم
تھا۔ جس میں بہت چھوٹے سفید رنگ کے دانے جو ہر طرف پھیلے
ہوئے تھےاور بل کھاتے ہوئے دور دور تک پھیل گئے تھے۔بیچارہ بچہ!اس کی مدد نہیں کی
جا سکتی تھی۔میں نے اسے کہا کہ میں نے تمہارا زخم دیکھ لیا ہے، یہ بہت
بڑا ہے۔تمہارے جسم کے ایک طرف بہت پھیلا ہوا ہے۔تمہارا خاندان اس بات
پر خوش ہے کہ میں کوشش کررہا ہوں کہ وہ ٹھیک ہو جائے۔؛ تمہاری بہن بھی
تمہاری والدہ سے یہی بول رہی ہے، تمہاری والدہ تمہارے والد سے بھی یہی کہہ رہی ہے،
تمہارا والد بہت سے مہمانوں سے یہ کہہ رہا ہے، جو ہاتھ پھیلا
کر چاندنی میں اپنا توازن قائم کئے ہوئے ہیں۔
'کیا تم مجھے بچالوگے؟'لڑکا سسکیاں لیتے ہوئے
سرگوشی کرتا ہے جو اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہے۔میرے علاقے لوگوں کا
رویہ ایسا ہی ہوتا ہے جو ڈاکٹر سے ایسی توقعات پیدا کرلیتے ہیں جو کہ
ناممکن ہوتی ہیں۔ان میں وہ اعتقاد جو زمانہ قدیم میں ہوتا تھا، ختم ہو گیا ہے؛
پادری اب سہل ہوگیا ہے اور گھر میں بیٹھا رہتا
ہے۔دینی جبہ پہن کرعبادات سے
متعلق لیکچر دیتا رہتا ہے۔لیکن ڈاکٹر کو ہر قسم کے مریضوں
کاعلاج اپنے جراحی والے نرم و نازک ہاتھوں سے کرنا پڑتا ہے۔اچھا، جو
کچھ بھی ہو: میں نے ان کو جھوٹی تسلی نہیں دی کہ وہ ٹھیک ہو
جائے گا۔اس سے زیادہ میں کیا کرسکتا ہوں؟میں دیہات کا پرانا ڈاکٹر ہوں۔اپنی
نوکرانی کی خدمات کا
شکرگزار ! لڑکے کے خاندان
کے افراد مجھ پر بگڑنے لگتے ہیں ، میرے کپڑے اتروا دیتےہیں ۔ خاندان ، گاؤں کے بزرگ
آکے مجھے بے عزت کرتے ہیں۔ ایسا پیغام سکول
میں دیاجاتا ہے ،بچے استاد سے ہم نوا ہوکر سادہ
ترین ُسر میں یہ گاتے ہیں:
اس کی پٹی اتارو ، وہ صحیح ہو
جائے گا
اگر وہ صحت یاب نہیں ہوتا، اسے
مار دو
وہ صرف ایک ڈاکٹر ہے، صرف ایک
ڈاکٹر
میرے کپڑے اتار دیئے گئےہیں ،
میری انگلیاںمیری داڑھی میں ہیں،میرا سر جھکا ہوا ہے،میں خاموشی سے
لوگوں کو دیکھتا ہوں۔ میں اپنے ہوش وحواس میں ہوں اور ان سب سے اعلیٰ و ارفع ہوں
اور ایسا ہی رہوں گا، وہ مجھے میرے سر اور پاؤں سے پکڑکر
اٹھاتے ہیں اور مریض کے کے ساتھ اس کے بستر پر ننگا لٹادیتے ہیں ۔وہ مجھے دیوار کے
پاس کرکے کمرہ چھوڑ دیتے ہیں۔؛کمرہ بند ہو جاتا ہے؛ چاند کو
گہرے بادل گھیر لیتے ہیں، میرا بستر گرم ہےاورمریض میرے ارد گرد لپٹا
پڑا ہوتا ہے، اور کھڑکی کے باہر گھوڑوں کے سروں کے سائے نظر آتے ہیں۔
'تم جانتے ہو،'کوئی میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے،'مجھے تم پر
بالکل بھروسہ نہیں ہے۔ تم یہاں کانپ رہے ہو، تم یہاں اپنے پیروں پر چل کر نہیں
آئے۔میری مدد کرنے کی بجائے،تم نے میرے بستر پر قبضہ کرلیا ہے۔میں تمہاری آنکھیں
نو چ لوں گا۔'
'صحیح'، میں کہتا ہوں' یہ بات شرمناک ہے۔
لیکن آخر کار میں ڈاکٹر ہوں۔مجھے کیا کرنا چاہیئے؟ مجھ پر یقین کرو، یہ
میرے لئے اتنا آسان نہیں ہے۔'
اس پر لڑکا کہتا
ہے'کیا مجھے تمہاری معذرت قبول کر لینی چاہیئے؟اوہ، مجھے
ایسا کر لینا چاہیئے۔میں ہمیشہ قناعت پسند رہا ہوں۔میں دنیا میں
اس پیارےگہرے زخم کے ساتھ آیا ہوں ؛ یہی میرا عطیہ ہے۔'
' نوجوان دوست'۔ میں کہتا ہوں، 'تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تمہاری
اشیاء پر کوئی گرفت نہیں۔میں نے اپنی تمام عمر مریضوں کے
علاج میں گزاری ہے، کم و بیش اکثر، تمہیں کہتا ہوں کہ تمہارا زخم اتنا
برا نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ تیز دھار کلہاڑی کی کاری ضرب سے ہوا ہے۔ بہت سے
لوگ جنگل میں کلہاڑی کی آواز شاذو نادر ہی سنتے ہیں'۔
'کیا حقیقت میں ایسا ہےیا تم مجھے دھوکہ دے رہے ہو؟'لڑکے نے
پوچھا۔
'حقیقت میں ایسا ہے۔۔۔ایک ضلعی ڈاکٹر کا یہ حلف ہے۔'
اس نے یہ سنا اور چپ ہو گیا۔
اب وقت آگیا تھا کہ میں اپنی جان
بچانے کا سوچوں۔،گھوڑے اب بھی وفاداری کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔میرے
کپڑے، سمور ،اوربیگ جو سب مجھ سے چھین لئے گئے، میں
نےاکٹھےکئے؛ اور لباس پہننے میں دیر نہ کی۔اگر گھوڑے اتنی ہی تیزی سے
گھر واپس جاتے جتنی تیزی سے وہ یہاں آئے تھے تومیں جلد ہی
اپنے گھر پہنچ کر بستر پر لیٹ سکتا تھا۔ اس وقت ایک گھوڑا
کھڑکی سے پرے ہٹ گیا۔ میں نے اپنا سامان ویگن میں پھینکا؛میرا سموری
کوٹ تپ رہا تھا۔ اسے ایک آستین کے ذریعے کھونٹی سے لٹکا دیا۔ اتنا ہی
کافی تھامیں گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ باگیں پیچھے آرہی تھیں،ایک گھوڑا
دوسرے سے بمشکل بندھا ہوا تھا ،اور ویگن اس کے پیچھے لڑھکتی آرہی تھی۔برف میں
سموری کوٹ سب سے پیچھے تھا۔
'جان چھوٹی ! میں نے کہالیکن
وہ آواز جاندار نہیں تھی،ایک بوڑھے آدمی کی طرح، آہستہ
گھوڑے اور میں اس بنجر زمین سے گزرے ۔ خیالوں میں میرے
کانوں میں بچوں کی بے سری آواز میں اس گانے کی آواز سنائی دینے لگی:
شاباش ، تمہارے تمام مریض،
ڈاکٹر کو اب تیرے بستر پر لٹا دیا
گیا ہے!
میں اتنی تیز رفتاری سے کبھی اپنے
گھر نہیں آیا؛ میری ڈاکٹری کی پریکٹس کی وجہ سے میرے خیال میں جو
احترام ملا تھا آج کے واقعے نے برباد کر دیا۔، میرے پیشے کا
کوئی فائدہ نہ ہوا، کیونکہ وہ مجھے نعزت نہ دلا سکاا۔گھٹیااصطبل کا ملازم میرے گھر
میں دھاڑیں مارتا رہا؛ روزا اس کی دہشت کا شکار ہوگئی؛
میں اس کی ابتر حالت اپنے ذہن میں نہ لاسکا۔وہ ایک خراب جگہ
پر ، برف کے ڈھیر ،مٹی کے گھوڑوں کے ساتھ ننگی مردہ
پڑی تھی۔میں محو حیرت سے یہ سب دیکھ رہا
تھا۔میرا سموری کوٹ ویگن کے عقب میں لٹک رہا تھا، لیکن میرا
ہاتھ اس تک نہ پہنچ سکا، اور نہ میرے چاک و چوبند مریضوں
میں کوئی
وہاں پہنچ سکتا تھا۔جب تمہارے گھر میں کو کوئی گھنٹی بجا کر
مددمانگے تو ۔۔۔اسے کبھی بھی اچھا قرار نہیں دیا جا سکتا۔وہ ہمیشہ براشگون ہوتا
ہے۔
تجزیہ
'ایک دیہی معالج ' (اے کنٹری ڈاکٹر) )
فرانز کافکا کی فرضی لیکن ہولناک کہانی ہے جس
میں اٹھارہویں صدی کا ایک قصباتی ڈاکٹر جو
ضلعی انتظامیہ کی طرف نے عوام کی 24/7 خدمت کے لئے
تعینات کیاہے، کوآدھی رات ایک بیمار لڑکے کے علاج کے لئے
ایمرجنسی میں بلایا گیا ، کی دکھ بھری داستان ہے۔اس رات ڈاکٹر کو مریض
تک پہنچنے میں مشکلات کا سامناتھا کیونکہ ڈھیروں برف پڑ چکی تھی اور
تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دوسرا یہ اس کی ویگن کھینچنے والا
گھوڑا پچھلی رات مر گیا تھا اور ایک نوجوان نےپراسرار جادوئی
گھوڑے فراہم کرکے مریض تک پہنچنے کاانتظام کر دیاتھا جس نے بعد میں
ڈاکٹر کی نوجوان نوکرانی کی آبروریزی کرکے اسے قتل کردیا۔بے
بس ڈاکٹر کو مجبوراًمریض کے گھر بادل نخواستہ جانا پڑتا ہے۔وہاں وہ جس
مریض کے علاج کے لئے بلایا گیا ہے،وہ ایک لڑکا ہے جو ابتدائی تفتیش
میں تندرست لگتا ہے لیکن موذی بیماری کا ڈھونگ رچا رہا ہوتا ہےلیکن
بعدمیں اسے پتہ چلتا ہے کہ اسے جسم کی ایک
طرف بڑا ناقابل علاج زخم ہے جوبہت گہرا ہے۔اس میں
مہلک کیڑے مکوڑے پڑے ہوئے ہیں اور مریض کا بچنا ناممکن ہے اور یہ کہ اس
کا خاندان بھی یہ جانتا ہےاور پھر بھی اسے بلا بھیجا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اسے
جال میں پھنسا یا گیا ہے اور اسے ایک مسیحا کی بجائے اس کی تضحیک کرنا مقصود
تھا۔وہ ڈاکٹر کے کپڑے اتار کر پھینک دیتے ہیں، اس کی بےعزتی کرتےہیں اور مریض کے
ساتھ بستر پر لیٹنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس کی پیشے کو برابھلا کہتے
ہیں۔آخر میں ڈاکٹر کو گھر واپس پہنچنے میں ناکامی ہوتی ہے اور وہ ادھر ادھر بھٹکتا
رہتا ہے جس سے اس کی جذباتی اور وجودیاتی انتقالیت پیدا ہو جاتی ہے۔
کافکا نے اس افسانے میں جو بیانیہ
گھڑا ہے وہ بیہودگی ، احساس جرم ،بے بسی ،اور نوکرشاہی کے دباؤپر مبنی
ہے، جس میں اس بات کی شکائت کی گئی ہے کہ وہ ایک ایسے نظام میں جکڑدیا
گیا ہے جس سے چھٹکارا ناممکن ہے۔اٹھارویں صدی کا یہ ڈاکٹر اپنے
فرض، لوگوں کی توقعات اور ذاتی بے وقعتی کی علامت بن جاتا ہے جس میں
جسمانی کوفت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اذیت بھی پیش کی گئی ہے۔
اس افسانے کا مرکزی
موضوع بیگانگی ، اپنے فرائض کی ادائیگی میں لاچاری،، اور نامیدی
ہے۔کافکا اس داستان میں پیشہ ورانہ خدمات کا نفسیاتی
مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے جس میں فرد کی
حیثیت کارکن کی ہے۔اٹھارویں صدی کے لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ہر ایک کا ذاتی نوکر ہے اور اس کی
ڈیوٹی ہے کہ وہ ضرورت اور بلاضرورت کسی بھی وقت ، دن اور موسم
میں ہر صورت ان کے گھرجائے، اور ڈاکٹر کو حقیقی وجوہات کے
باوجود جس میں ان کا گھر سے نکلنا مشکل ہو، منع کرنے کا اختیار نہیں۔
اس کا ایک اور اہم
موضوع فرد کی آزادی اور خود مختاری پر کنٹرول کھونا
ہے۔ڈاکٹر اپنی اوقات کار اور
حالات کارکردگی کو معقول سطح پر لانے میں ناکام
ہے۔ ۔۔وہ اس بلاوے میں جادوئی گھوڑوں کی مدد حاصل
کرتا ہے، وہ اپنے سامنے اپنی نوجوان نوکرانی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے دیکھتا رہتا
ہے اور کچھ نہیں کرپاتا۔اور جب وہ اپنا پیشہ ورانہ فرض نبھا رہا ہوتا ہے تو اسے
دھمکیاں دی جاتی ہیں اور بے عزت کیا جاتا ہے۔
اس افسانے میں ایسےمن
گھڑت واقعات ترتیب دیئے گئے ہیں جس میں ہولناک غلط
منطق پیش کی گئی ہے جو کافکا کے ادب کا وطیرہ ہے۔اس کے
افسانوں کے کردار نامعلوم قوتوں کے رحم و کرم پر پیش کئے
گئے ہیں۔
اس افسانے میں مریضوں کے علاج
معالجے کو انسانیت کی خدمت کے پیشے کو حقارت کی نظر سے بیان کیاگیا
ہے۔دیہاتی ڈاکٹر کے مشکور ہونے کی بجائے کہ وہ خراب ترین موسم اور آدھی رات
کونامساعد حالات میں پہنچا ہےاسے ذاتی ملازم سمجھ کر سزا دی جاتی ہے۔علاوہ
ازیں اس میں افسانے میں احساس گناہ ، تصور
ذات ، علم وبصیرت اور تجربے پرشکوک پیدا کئے
گئے ہیں ، اور وہ اس کا اظہار خود کلامی کے ذریعے کرتا ہے۔مدد نہ
کرسکنے والے حالات کے باوجود ، وہ ان حالات میں خود الزامی کرتا ہے جو
اخلاقی بحران کا باعث بنتے ہیں۔
کافکا اس افسانے
میں خوابوں کے واقعات کی طرح کے بیہودہ منظر کشی
کرتا ہےاور ثابت کرتا ہے کہ نظام کس طرح فرد کی متانت اور تصور ذات سے
کھیلتا ہےاور اسے جسمانی اور وجودیاتی بحران میں مبتلا کرتا ہے۔وہ مصنوعی واقعات،اضطراب
اوراپنے محصور ہونے کے خوف (کلاسٹروفک) جیسے ماحول میں مبتلا دکھائی
دیا گیا ہے۔، جہاں خلائی اور زمانی منطق ختم ہو جاتی
ہے۔اس معاملے میں مریض ایک لڑکا ہے جس کے جسم کے ایک حصے پر گہرے
اور مہلک زخم آئے ہیں جن کی شدت انتہاتک پہنچ گئی ہےاور زخم ناسور بن گیاہے۔اس میں
پیپ پڑگئی ہےاورسونڈیاں بننے لگی ہیں جو لاعلاج ہے۔۔۔یہ
بیماری معاشرتی یا نفسیاتی عوارض کی ایسی
علامات ظاہر کرتی ہیں جو لاعلاج ہیں۔یہ بیماریاں ثقافت اور روایات کی جڑوں تک
پھیل گئی ہیں۔ایسے موذی مریض کا علاج خصوصی ہسپتال میں
کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے خاندان نے عام ڈاکٹر کو رسمی طور پر
بلالیاتھاجو نامناسب تھا اور ان کا مقصد فیملی معالج کو
تشخیص کے بعد کہ اس کا وہ علاج نہیں کرسکتا تو اصل مقصداس کی بے عزتی کرنا تھا
حالانکہ اس مریض کا خاندان جانتا تھا کہ وہ عام ڈاکٹر کے بس کا روگ نہیں ۔۔
یہ افسانہ اپنی ذات
میں اجنبیت پیش کرتا ہے۔۔۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈاکٹر کو اس کے باعزت پیشے سے گراکر
اسے اخلاقی گراوٹ کا احساس دلا ئے ۔وہ اپنے افسانے میں مستقبل میں آنے والے
واقعات کی پیش بندی کرتاہے کہ آنےوالے دور میں وجودی مسائل
پیدا ہوسکتے ہیں۔اس کی پیشین گوئی سچ نکلی اور بیسویں صد عیسوی
میں وجودیت کا فلسفہ پیش کیا گیا۔
اگر کہانی کا انجام دیکھا جائے
تووہ اس میں کوئی حل پیش نہیں کیا گیا بلکہ جذباتی سچ پیش کیا گیاہے:جس میں وہ بنی
نوع انسان کو ایسے نظام میں گرفتار پاتاہے جن سے باہرآنا ناممکن ہے۔یہ افسانہ
پاکستانی معاشرت کے عین مطابق ہے۔یہاں کا نظام اپاہج زدہ ہے۔ دیہی ڈاکٹر وں سے غیر
حقیقی توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں ۔اس کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے،
اور نظام کی ناکامیوں کے باوجود انہیں ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔کافکا کے خیر خواہ
کے مطابق اس کہانی میں اخلاقی بحران
۔معاشرتی دباؤ، اور طبعی رکاوٹیں پائی جاتی
ہیں جہاں پاکستانی ادارے فرد کی احتیاجات پورا کرنے میں بری طرح ناکام
رہے ہیں،انہوں نے عوام کو بے طاقت بنا دیا ہے، ایک دوسرے اور خود سے بیگانہ کردیا
ہے،اور اخلاقی تضادات کا شکارکردیا ہے۔ ایسے نظام سے صحت، تعلیم
، نظام عدل ،نوکرشاہی ، پولیس اور انتظامیہ کو بے حد نقصان
پہنچایا ہے
……………………………………………………………………………………………………………………………
3 book
5 Up in the Gall
گیلری میں
Up in
the Gallery
فرانز کافکا
Franz
Kafka ( Nobel Laureate)
ایک ناپائیدار مدقوق
گھڑ سوار خاتون اپنا فن سرکس کے دائرے( رنگ) کی ریلنگ میں ان
تھک تماشائیوں کے سامنے آئی۔ میں راوی کی حیثیت سے
گیلری میں کرتب دیکھ رہاتھا۔ اس گھڑ سوار کوچابک سے سدھانے
والے سرکس کے تماشے کے سربراہ رنگ ماسٹر نے کئی ماہ تک اسے گھوڑوں کی پشت
پر مسلسل بلا رکاوٹ ہلتے بے رحم تربیت دی تھی۔ وہ
ہوائی بوسوں کی برسات کرتی ، کمر ہلاتی اپنے کرتب کا مظاہرہ
کرنے دائرے میں آگئی تو جوشیلی دھنیں بجا کر اور عوام وخواص تماشائیوں نےتالیاں
بجا کر کیا۔ تماشائیوں میں جوش پیدا کرنے کے کئے آرکسٹرا مسلسل
جوشیلی دھنیں بجاتا رہا۔یہ اس خاتون کا کسی سرکس میں پہلاشو تھا ۔وہ اپنا پورا زور
لگا کر خود کو کامیاب ظاہر کرنا چاہ رہی تھی کیونکہ اگر وہ اس میں
ناکام ہوگئی تو اس کامستقبل افسوسناک حد تک بورنگ اور تاریک
ہوجاناتھا۔اچھی کرتب بازی اس کے لئے اس شو میں لازم تھی ، لیکن بدقسمتی سے اس
نےتماشائیوں پر مثبت اثرات مرتب نہیں کئے۔ مگر
میں تالیاں بجاتے ہوئے ان کے کرتب کو سراہ رہا تھا۔اتنے
میں میں نے ایک زور دار آواز سنی ۔جس
میں حکم جاری کیا تھا 'روک دو' ۔ اس کی
آواز آرکسٹرا کی آواز سے بلند تھی ۔یہ آواز رنگ ماسٹر کی
تھی جو گھڑسوار کا کرتب دیکھ کر بولا تھا۔وہ رنگ ماسٹر اس سرکس کے سیاہ
و سفید کا مالک تھا اور کوئی بات اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی
۔خاتون نے لال اور سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے،ایک اہم شخص
پردے کے پیچھے سے اونچی گیلری سےنکلا
تو یونیفارم پہنے اہلکار نے اس کے لئے راستہ بنایا، و
ہ گھڑسوار کو بڑی تنقیدی نظروں سے دیکھ رہاتھا۔یہ اور کوئی نہیں بلکہ
میں تھا۔مجھے سرمئی دھبوں والی
رقص کرتی کرتے مادہ گھوڑے پر پڑی تو وہ مجھے اتنی پیاری لگی
جیسے کہ وہ میری پیاری نواسی ہوجو گھوڑے پر خطرناک مہم سر کررہی
ہو۔ لیکن ایسا لگ رہاتھا کہ رنگ ماسٹر کو اس کے کرتب پسند نہیں آرہے تھے۔وہ اس برا
بھلا کہنے لگا اس نے سدھائے گھوڑے کی اچھل کودکو
بڑےغورسے دیکھا جو گھڑسوار کے لئے خطرناک بھی ہو سکتی تھی، اس کےدل میں
متضاد خیالات آرہے تھے ، وہ سوچ رہاتھا کہ اسے سزا دے یا چھوڑ
دے ۔۔۔ لیکن اس نےان دونوں چیزوں کو نہ چنا اور
خود کو پیچھے کر لیااور بڑی عقلمندی سے وہاں سے ہٹ گیا۔وہ اس کا حوصلہ
بڑھانے کے لئے انگریزی میں بڑے جارحانہ انداز میں سرکس
کے ان ملازموں کو انتباہ کرنے لگاجنہوں نےاس کے کرتب
کے حصے کے طور پر اپنے ہاتھ میں پھندے پکڑے ہوئے تھےجو گھڑ سوار نے اپنے کھیل کے
دوران اپنا ہاتھ بلند کرنے کے بعد کرنے تھے کو اس نے ڈانٹ کر بھگا دیا۔
آرکسٹرا اونچی اونچی دھنیں بجا رہا تھا جس سے گھوڑا بدک
رہاتھااس لئے اس لئے رنگ
ماسٹر نے آرکسٹرا کو غصے سے مخاطب کرکے ان کی
بدتعریفی کرکے بند کروادیا۔اس نےگھڑ سوار کو
اتارا تو اسے اس پر پیار آگیا اور جسے پہلے وہ برابھلاکہہ
رہاتھا، کی دونوںالوں پر بوسہ کیا ۔ تماشائیوں نے اس عمل
کو پسند نہیں کیا اور آوازے کسے۔ گھڑ سوار
خاتون اترتے ہی اپنی ایڑیوں پر، تیزی سےمٹی کی
دھول میں چکر کھانے لگی۔اس نے اپنے بازو
، پھیلاکراپناسر پیچھے کی طرف جھٹک دیا ۔ اس کی اس دلفریب
ادا نے تماشائیوں کے من موہ لیئے اور انہوں نے جی بھر کرداد وصول کی ۔گیلری میں
بیٹھے تماشائیوں نے اپنے چہرے ریلنگ پر رکھ لئے ۔شو کی
اختتامی پریڈپروہ فرط جذبات مسرت سے رو دیاکہ سرکس کا شو
بہتر طریقے سے ختم ہوا۔
تجزیہ
فرانز کافکا کے افسانے' گیلری میں'(اپ ان دا گیلری ) وہ
سرکس میں اداکاروں کے کرتب کا
جائزہ وہ ایک عام تماشائی بن کر لیتا ہے ۔ اس میں پہلے تو وہ سرکس کے
پنڈال ، سٹیج اور گول دائرے میں کئے جانے والے کمالات دیکھتا ہےجس میں اس کا رویہ
منفعل ہوتا ہے۔وہ دھیان سے اس منظر سے لطف اندوز ہوتا ہے جس میں ایک نوجوان لڑکی
کی گھڑ سواری کے کرتب اپنے رنگ ماسٹر کی سخت
نگرانی میں دکھا رہی ہوتی ہے۔وہ جن خطرات کا سامنا کررہی
ہوتی ہے، وہ سب ناظرین کے سامنے عیاں ہوتے ہیں۔ اس کے کرتب میں کوئی
مداخلت نہیں کرتا اور خاموشی سے دیکھے جاتے ہیں۔ رنگ ماسٹراس سرکس کا مالک ہے اور
ہر کھلاڑی ، اہل کاروں اور سازوسامان پر پورا اختیار رکھتاہے اورجائز
ناجائز دھونس جماتا رہتا ہے۔ وہ اس خاتون کے کرتب کا جائزہ لینا شروع
کردیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ معیاری نہیں ۔اسے غصہ آتاہے کہ اتنی زیادہ محنت کے
بعد بھی وہ مہارت نہ دکھا سکی۔ وہ اسے سزا دینے یا نہ دینے کا سوچتاہےلیکن کوئی
فیصلہ نہیں کرپاتا۔
سرکس دیکھتے وقت ایک
فرضیاتی نظارہ بھی پایا جاتا ہے۔وہ یہ کہ تماشائیوں میں یہ احساس بھی
اجاگر کیا جانا ہوتا ہے کہ کرتب پیش کرنے والا/والی کن خطرات کا سامنا
کررہا/ رہی ہے۔اس لئے ان سے متعلق تماشائیوں میں جذبہ ترحم پیدا کیاجاتا ہےاور
تماشائی من ہی من میں ا حتجاج کرنے لگ جاتا
ہے۔تاہم ایسی سرکشی اور جرات مندانہ
مداخلت صرف تخیلات کی حد تک ہوتی ہے جس
میں تماشائی حقیقی دنیا میں بے عمل ہوتے ہیں۔
کافکا کہانی کی مختلف سطحات اور
تہیں بناتا ہے۔ ایک تہہ ناانصافی کا
مشاہدہ کرنااور دوسری تہہ اس کا سد باب کرنا ہے۔ اس طرح سے
وہ حقیقت اور تخیل میں تمیز کرتا ہے، جس سے انفعالیت اور سازش کے گٹھ
جوڑ کو ظلم کے زاویے سے دیکھا جانے لگتا ہے، جس کی
بولت دنیا بھر پور تماشے
میں اخلاقی تعقیب اور ضبط کا سہارا لینے لگتی ہے۔
اس افسانے میں مرکزی
نکتہ انصاف کے حصول میں خاموشی سے قبول کرنا یا اس کے خلاف آواز اٹھانا
ہے۔کافکا اس میں دونوں رخ رکھتا ہے ۔ایک میں ایک شخص ظلم و ستم کو سہواً و کرہاً
قبول کرلیتا ہےاور ضبط لاکر بیٹھ جاتا ہےاور دوسرے میں فرضی طور پراحتجاج کرتا ہے
۔یہ قربت اس بات کو نمایاں کرتی ہے کہ یہ تما شائی کو متاثر کرتی ہے۔
اس کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اپنے غیر سرگرم
کردار کی عقلی توجیہ پیش کرتے ہیں، اور حقائق کو تروڑ مروڑ کر ایسے
مصنوعی مناظر پیش کرتے ہیں کہ ان کا اس وقت کا رویہ مناسب لگے۔
اس کہانی میں عہدے کی
طاقت یا ناجائز ذرائع کے حصول سے براہ راست یا بلاواسطہ قوت کی حرکیات
بھی بیان کی گئی ہے، جس میں رنگ ماسٹرکو گھوڑ سوار پر عمل داری
اور حاکمیت حاصل ہےاور گھڑ سوار کی حیثیت محکوم اور ابتر دکھائی گئی ہے۔ کافکا کی
تماشائیوں کی کھوج میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ
حقیقی تکالیف سے دور رہے، جس سے ظالمانہ رویہ کو تفریحی بنادیا جاتا
ہے۔علاوہ ازیں ،یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ فرد کوطاقتور کے
زور کی مزاحمت ' کرنے اور تاثیر میں لانے کی ضرورت سے زیادہ
مورچہ بندی کرنا پڑتی ہے۔یہ کہانی قاری کو اس شئے پر غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی
ہے کہ جارحیت اور ظلم کے خلاف ذاتی اور سماجی سطح پر اٹھ کھڑا ہوا
جائے۔
اس داستان میں کافکا کسی
تنظیم انسانی شعور اور سماجی ساز باز کرکے طاقت
کاحصول قرار دیتا ہے۔اس کا بیانیہ جس میں وہ دو بالکل مختلف متضاد
مناظر استعمال کرتاہے ۔۔۔ ظلم اور ناانصافی میں وہ تخیلاتی
خاموشی ، عدم سرگرمی اور سرگرمی یعنی احتجاج۔۔۔میں انسانی نسل کی
نفسیات کو تقسیم کردیتا ہے۔ گیلری کو وہ تماشائیوں کی علمیت کے طورپر
لیتا ہے، جس میں وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ گیلری والے تماشائیوں اور عمومی کلاس
میں بیٹھنے والے تماشائیوں کی حیثیت میں فرق ہے۔ سماج میں دیکھا گیا ہے
کہ ایک گروہ بورژوا ئی طاقت کا منبع ہے جبکہ دوسرا گروہ ان
کی غلامی کے لئے پیدا کیا گیا ہےاور مصائب برداشت کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ کافکا
کا فرضی احتجاج انسانی صلاحیتوں کے اخلاقی
حوصلے کی وسعت میں گہری مایوسی کااظہار کرتا ہےاور وہ یہ
ظاہر کرتا ہےکہ مزاحمت ہمیشہ آرام دہ صورت منتخب کرتی ہےاور سرگرم رہنا
منتخب نہیں کرتی۔اس کہانی کے کم ترین سٹائل ، اس کا اختصار ، اور اس کا مبہم
بیان قاری کو چیلنج کرتا ہے کہ اپنے اپنے کرداروں کا بطور
تماشائی جائزہ لیں ۔ گھڑسوار رنگ ماسٹر کے جبر کا شکار ہے، وہ ایک
مظلوم ہےاور اپنے آقا کی منشا کے مطابق کام کرتی ہے جبکہ رنگ
ماسٹر منظم کنٹرول کی علاما تی حرکیات کے وسیع
کردار پر زور دیتا ہے ۔۔۔یہ کنڑول سیاسی،سماجی یا نجی
ہوسکتا ہے ۔ اس کہانی میں مطالعہ باطن کی ضرورت پر
زور دیا گیا ہے۔ یہ سوالات اٹھاتا ہے: کیا ہم واقعتاًطاقت سے محروم ہیں ، یا ہم
خاموشی اور آرام کوعمل سے برتر گردانتے ہیں؟کافکا نے اس سوال کا
جواب قاری پر چھوڑ دیا ہے ۔
یہ کہانی پاکستانی حالات سے
مطابقت رکھتی ہے جہاں اداروں کو رشوت ستانی سے کمزور کردیا گیا ہے۔عوام مہنگائی،
بد امنی ، ناانصافی، ظلم و ستم اور ناجائز مقدمات کی وجہ سے بے حس ہو گئے ہیں اور
سڑکوں پر احتجاج کرنے کے قابل نہیں سمجھے کیونکہ گھنٹوں لائنوں میں لگ کر آٹا ،
چینی وغیرہ لیتے ہیں ۔اگر وہ سڑکوں پر آگئے تو ان کے گھروں میں فاقے پڑ
جائیں گے۔ان پر مقدمات قائم کردئیے جائیں ۔چاردیواری کی عزت خاک میں ملادی جائے
گی۔اس لئے وہ بے قوت ہو گئے ہیں۔
…………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
4 Book 5 An
Ancient Manuscript
ایک قدیم قلمی نسخہ
An
Ancient Manuscript
فرانز کافکا( نوبل انعام یافتہ)
Franz
Kafka (Nobel Laureate)
س وقت ہمارے شہر میں
ایسی انہونی بات تھی جیسے کہ ہمارے والد کے
وطن کا دفاع کمزور ہوگیا ہواوراسے غیرملکیوں نے فتح کرلیا
ہو۔ دوسرے شہروں میں ایسی باتوں پر ہم پہلے کوئی پروا ہ نہیں کرتے تھےاور اپنےزوز
مرہ کاموں پر چلے جاتے تھے؛ تاہم،حالیہ واقعات نے ہمیں ایسے معاملات پر
سوچنے پر مجبور کردیا۔
امپیریل پیلس کے سامنے
میری جوتوں کی دکان تھی۔جب پو پھٹنے پر اسے کھولاتو میں نے دیکھا کہ وہ تمام
راستےجو اس سکوائر کی طرف جاتے تھے، بند کردیئے گئے تھے۔ہر
داخلی راستے پر مسلح افراد کھڑے تھے۔یہ ہمارے فوجی نہیں تھے۔شکل وصورت سے لگتا
تھاکہ وہ شمالی علاقے کےخانہ بدوش تھے۔میں نے غائر نظروں سے پرکھا تو میں یہ نہ
جان سکا کہ وہ دارالخلافہ میں کیسے گھس
آئےحالانکہ ہماری سرحد ان کے علاقوں سے بہت دور تھی۔کچھ بھی ہو،وہ یہاں
موجود تھے؛اورہر صبح ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہررہاتھا۔
جس طرح کہ ان خانہ بدوشوں کی فطرت
میں داخل ہے،کہ وہ گھر ہونے کے باوجود کھلے خیموں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
ہمارے شہر پر قبضہ کرکےوہ اپنی تلواریں سان پر لگائے رکھتے ، تیروں اور
نیزوں کی دھار تیز کرتے رہتےاور گھوڑ سواری کی مشق کرتے رہتے۔
یہ سکوائر پرامن
تھاجو خانہ بدوشوں کی آمد سے پہلےہمیشہ محتاط انداز میں پوری طرح صاف
رکھا جاتا تھالیکن اس وقت غلیظ اصطبل میں منتقل کردیا تھا۔ہم کبھی
کبھار اس گندگی سے تنگ آجاتے اور کم از کم اپنی اپنی دکانوں کے ملحقہ
حصوں کی غلاظت دور کردیتے تھے، لیکن ہماری یہ کاوشیں ناکام
ثابت ہو رہی تھیں کیونکہ اگلے روزاس سے زیادہ کوڑا کرکٹ پڑا ہوتا
تھا، اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ ہماری یہ عادت کم ہوتی گئی۔
اس کے علاوہ ہمیں جنگلی گھوڑوں کا ان مقامات کو روندنےیا چابکوں سے زخمی ہونے کا
خدشہ رہنے لگا تھا۔ صفائی نہ کرنے میں یہ وجوہات
بھی شامل تھیں۔وہ ہماری زبان سے نابلد تھے۔۔۔اور شائد ان کی اپنی بھی
کوئی منظم زبان بھی نہیں تھی ۔وہ یورپی کوے جس کا سر
چھوٹا اور سفید ہوتا ہےکی طرح ٹائیں ٹائیں کرتے رہتے تھے ۔ وہ نہ تو گفتگو سمجھتے
تھے اور نہ ہی ہماری طرز زندگی اور ہمارے
اداروں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ہم ان کے ٹر ٹر سنتے رہتے تھے۔ان کے لئے گونگوں کی علاماتی اشاروں کی زبان ناقابل
صراحت تھی۔وہ نہ اسے سمجھ اور نہ ہی بول سکتے تھے ۔وہ بلاوجہ کسی کا
بھی جبڑا توڑ سکتے اور جھٹکے سے ہاتھ کی
کلائیوں کے جوڑ توڑ سکتے تھے، لیکن وہ نہ تو ہمیں سمجھ پائے اور
نہ ہی ان کی خواہش تھی کہ سمجھ پائیں۔وہ نک چڑھے
تھے۔منہ چڑھا کر بات کرتے تھے: بات کرتے وقت ان کی آنکھوں
کی سفیدی اوپر چڑھ جاتی اور ان کے منہ سے جھاگ نکلتی تھی؛ اس کے باوجود
وہ نہ تو کوئی بات کرنے کی کوشش کرتے اور نہ کسی کو خوفزدہ
کرتے؛ لیکن گفتگو کرتے وقت عادتاً منہ چڑاتے
رہتے تھے ۔انہیں جس شئے کی ضرورت ہوتی ، چھین لیتے ۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ
تشدد کرتے تھے۔جب وہ ہمارے پاس آکر کسی شئے کا تقاضا کرتے ، ہم ایک طرف
ہوجاتے اور انہیں وہ چیز یں لینے دیتے۔
انہوں نے میری دکان سے بھی ایک دو
قیمتی اشیاء لی تھیں۔لیکن جب میں گردونواح کی دکانوں اورسڑک کے اس پار
قصاب کا حشر دیکھتاتھا، تو میں چپ رہا۔قصاب کے پاس جب بھی گوشت آتا تو وہ چیلوں کی طرح اس
پر جھپٹ پڑتےاور اس کی دکان صاف کرکے ہٹ جاتے۔ان کی طرح ان کے گھوڑے
بھی گوشت کھاتے تھے،ہر گھوڑے پر ہمیشہ سوار ہوتا تھا۔گھوڑا اور وہ
دونوں ہی کچےگوشت کے ٹکڑے مل کرکھاتے تھے۔گھوڑا گوشت کے ٹکڑے کوایک طرف سے اور
خانہ بدوش اسی ٹکڑے کو دوسرے سرے سےکھانا شروع
کرتا تھا۔قصاب ان سےبے حد خوفزدہ تھا اور اس میں اتنی
جرات نہیں تھی کہ گوشت کی سپلائی روک
سکے۔سب دکاندار اس قصاب کی مدد کرتے رہتے تھے۔ہم اس کی مجبوری سمجھتے
تھے اس لئے ہم سب اس کاکام چلاتے رہتے تھے، کیونکہ اگر ان خانہ بدوشوں کو گوشت نہ
ملاتو جانے وہ کیا کیا ظلم ڈھائیں گے، سوچ کر ہم پرلرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ان کو
گوشت دینے کے بعد بھی ہمیں خدشہ رہتا تھا کہ نہ جانے وہ کیا کر گزریں۔
قصاب نے اپنے من گناہ بے لذت کو ختم
کرنے کا سوچا۔ اس نے میں ذبح کرنے کی بیگار سے جان
چھڑانے کا پروگرام بنایا۔اگلی وہ صبح ایک کلہاڑا لے آیاتاکہ
چوپاؤں کو کلہاڑے سے ماردیاجائے اور خانہ
بدوش اسے کھالیں ۔اس طرح اسے وہ بیل کی کھال
اتارنے ، گوشت کی صفائی اور ٹکڑے کرنے سے بچ جائے۔
۔۔لیکن اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔خانہ بدوشوں نے جب یہ دیکھا تو
انہوں نے قصاب کے سارے کپڑے اتار دئیے اور اسے ننگا کرکے فرش پر لٹا دیا۔ بیل کو
کس کر باندھا اور اپنے ناخنوں سے زندہ بیل کی کھال پر دانت گاڑ دیئےجس
سے اس کے جسم سے خون کی دھاریں پھوٹ پڑیں۔ وہ اس کا خون پینے اور اس کےجسم کے
مختلف حصوں سے گرم گوشت کے ٹکڑے اپنے
دانتوں سے کاٹ کاٹ کرمزے سے کھانے لگے۔ بیل اذیت سے ڈکرا رہاتھا۔ انہوں
نے آس پاس کی دکانوں سے چادریں، تکئے ، کمبل ،روئی وغیرہ اکٹھی کی اور قصاب کے
کانوں میں ٹھونس دی اور اس کے اوپر ڈھیر لگا دیاتاکہ بیل کے
دہشت زدہ ڈکرانے کی آواز اس تک نہ پہنچے۔تمام سکوائر خوفزدہ ہو کر خاموشی سے وہ
ہولناک منظر دیکھتا رہا۔ جب خانہ بدوش زندہ بیل کو ہڑپ کر گئے تو انہوں نے شراب کی
دکانوں کا محاصرہ کرلیااور ُلوٹ کر شراب پینے لگے۔کچھ وحشی بیل کا بچاکھچا گوشت چٹ
کرنے لگے۔
یہ وہ وقت تھا جب میں نے بادشاہ
کو اپنے محل کی کھڑکی میں دیکھا؛ عام طور پر وہ محل کے
بیرونی کمروں میں نہیں آیاکرتا تھا؛ اور سب سے اندرونی
باغ تک محدود رہتا تھا۔لیکن وہ کھڑکی کے پاس، یا میں جو
سمجھا ، وہ اس وقت کھلی کھڑکی میں سے خوفدہ چہرے سے اپنا سر
باہر نکال کر وہ ہیبتناک منظر دیکھ رہاتھا۔
اس بحران کا خاتمہ
کیسے ہوگا؟ ' ہم سب بے خبر تھے۔ہم یہ تشدد اور بے عزتی کب تک برداشت کریں گے، ہم
کب تک ان کا بوجھ برداشت کریں گے؟ معلوم نہیں تھا۔اس علاقے میں بادشاہ کا محل تھا
جو انہیں لبھاتا تھا۔کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ خانہ بدوشوں کو کیسے باہر نکالا
جائے۔محل کے دروازے ہر وقت بند رکھے جاتے تھے۔وہ محافظ جو محل کے باہر
رسمی طریقے سےمارچ کررہے ہوتے تھے اب محل کی چاردیواری کے اندر گھسے
ہوئے تھے۔اس لئے اب وطن کو بچانے کی ذمہ دار ی ہم
دکانداروں اور دستکاروں پر آن پڑی تھی، اورہم
سب اس کے اہل نہ تھے اور نہ ہی ہم نے شیخی بگھار کر دعویٰ کیا تھا کہ
ہم ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔یہ ایک غلط فہمی تھی جو ہمیں برباد کررہی تھی۔
تجزیہ
فرانز کافکا کا افسانہ جس کا عنوان ' ایک قدیم قلمی نسخہ '( اینشنٹ مینوسکرپٹ) ہے
،میں راوی ایک ایسے واقعے کی منظر کشی کرتا ہےجس میں ایک قدیم شہر
کو ایسے لوگوں سے جو تہذیب و تمدن سے بہت دور تھے ،سے جان و
مال کو خطرہ لاحق ہو گیا۔یہ لوگ جارح اور تشدد پسندےھے۔انہوں نے شہر کے
محل اور سب سے بڑے پلازا پر حملہ کردیا تھا۔کہانی میں ان وحشیوں کو
خانہ بدوش کہا گیا جوگنوار اور جانور نما تھے۔انہوں نے شہر کے سب سے
خوبصورت ، صاف ستھرے وسیع پلازا پر قبضہ کر لیا تھااور بادشاہ کے لئے خطرے کا
باعث بن گئے تھے۔ان کی بربریت کے سامنے عوام الناس بے بس تھے۔
اس قصے کا
قلمکار ایک لکھاری ہے جو واقع کا مشاہدہ کرکے اسے جوں کاتوں
بیان کرتا ہے۔وہ ان کی جارحیت کا عینی شاہد ہے۔وہ ایک تماشائی کی طرح
ناانصافیوں کو دیکھ رہا ہے لیکن بگاڑ پن کو سدھارنے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ وہ
دیکھتا ہے کہ اس شہر کے باسیوں کو جنگلیوں کی زیادتیوں کو بادل نخواستہ برداشت
کرنا پڑ رہا ہے۔وہ وحشی اب محل میں بھی بلاروک ٹوک آنے جانے لگے ہیں، اور وہاں کے
باسیوں سے بے عزتی سے پیش آتے ہیں اور اشیاء کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔یہ کہانی اس
نتیجے پر ختم ہوتی ہےجس میں عوام میں آشوب اور لرزہ طاری
ہوجاتا ہے۔قصہ گوکے سامنے تہذیب و تمدن کی تراش خراش پوری طرح مجروح ہو
رہی ہوتی ہے لیکن وہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
اس افسانے میں' جس کی لاٹھی اس کی
بھینس' کااصول کارفرما ہے۔اس میں پورے شہر میں افراتفری کا سماں ظاہر کیا گیا ہے ۔
کافکا اس کہانی میں اشاروں کنایوں میں ثابت کرتا ہے کہ
ہماریِ ریت، روایات ، رسم و رواج سب کھوکھلے ہیں ۔جب کوئی حقیقی خطرہ
ہوتا ہے اور کوئی جارحیت یا افراتفری کا ارتکاب کرتا ہے تو ہم بھیگی
بلی بن جاتے ہیں۔شہر کے عوام حملہ آوروں کے غیر مہذب
سلوک کو منفعل طریقے سے قبول کر لیتے ہیں جو اس بات کی
علامت ہے کہ دھمکیاں اور پیچیدہ حالات ان پر جمود
طاری کردیتے ہیں۔
اس افسانے میں
راوی بتاتاہے کہ جب عوام پر ایسی قوتیں حاوی ہو جائیں جن پر قابو نہ
پایا جا سکتا ہو تو ان میں احساس بیگانگی اور احساس بے
بسی پیدا ہوجاتا ہے۔کافکا یہاں نوکر شاہی کا کردار بھی بیان کرتا
ہےجو مؤثر نظام قائم نہیں ہونے دیتے اور انہیں پنپنے میں رکاوٹیں ڈالتے
ہیں۔اس کہانی میں ان کا کردار غیر مؤثر اور مجرمانہ ہےجبکہ عوام
الناس مجبور،بےدم اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔قلمی
نسخہ کھوئی ہوئی اقدار کی علامت بن جاتا ہے۔ثقافتی
معلومات مدھم سے مدھم ہو تی جاتی ہیں۔ اور سنہری تاریخ کے
تحریری ریکارڈ معاشرے کی آہستہ آہستہ بگڑتے ماحول پر بند نہیں باندھتے
جو دلائل ، منطق اور نظام حکمرانی کے تنزل کا باعث بنتے ہیں۔
اس افسانے کے عنوان کا
تعلق تاریخی یا مفکرانہ سوچ پر مبنی ہے۔مؤرخوں
نے بھولی بسری یادوں کےشوہد قلمبند کئے تھے، جو انہیں
ماضی سے منسلک رکھتی ہے۔حالات واقعات نے معاشرے کو کس طرح اور کیسے مسخ کیا ہے ،کا
اشارہ فراہم کرتی ہے۔ اس کہانی کا عنوان 'قلمی نسخہ' رسمی اور تاریخی
محافظت دونوں کا احاطہ کرتاہے۔۔۔جس میں راوی کا
کردار زماں۔ مکاں۔ تاریخ ، دن اور لوگوں کے تہذیب و تمدن سے
متعلق معروضی طورپر بیان کرنا ہے۔وہ واقعات کی روشنی
میں ان کے عروج و زوال پر بحث کرتا ہے۔اس میں کنایوں میں بیان کرتا ہے
کہ تعمیر و تخریب ایک مسلسل عمل ہے۔ثقافتی ورثہ قیمتی ہے اور اسے محفوظ کرنے کی
ضرورت پر زور دیتا ہے۔علم، دانشمندی یا روایات کسی بھی قوم
کا قیمتی یادیں ہوتی ہیں جن پر ضبط نہ لایا جائے ورثہ
ضائع ہوجاتاہے۔
اس کہانی میں تہذیب
وتمدن کی عمارت کا دھڑام سے گرنا دکھایا گیا ہے۔یہ قاری کواحساس دلاتا
ہے کہ سماجی ڈھانچہ ، ثقافتی ورثہ،،اور انداز حکمرانی کس طرح وحشیانہ
اور نامعقول طریقوں سے عمدہ ترین چیزوں کو بگاڑدیتی ہیں۔کافکا حملہ
آوروں کو تخریب کار قرار دیتا ہے جو لوگوں کا چین و سکون خراب کرتے ہیں۔ان کا
تجاوز سیاسی، نفسیاتی ، یا وجودی بحران کا باعث بنتا ہے جو عظیم شہر کو عبرتناک
بنا دیتا ہے۔اس میں اہم موضوع لوگوں کی بے حسی ہے۔افراتفری میں وہ
منفعل طریقے سے زیادتیاں برداشت کرتے رہتے ہیں۔اور راوی بھی اس
سے مبریٰ نہیں ہے۔
یہ افسانہ ایک دل گداز
پراثر تمثیلی بیان ہےجس میں کافکا نے انتہائی کمزور جراحت
پذیری اورلوگوں کا کوصبر بیان کیا ہے۔راوی کی سادگی کو
قلمکار تفصیلی انداز میں ریکارڈ کرتا ہے اور بتاتاہے کہ شہر کاانتظام و
انصرام کس طرح تنزل کا شکار ہوا۔۔۔ غیر مہذب حملہ آور وں
کی جان بوجھ کر مبہم رکھی
گئی ہے تاکہ قارین اپنی من مرضی سے اس خلا کو پر کر لیں۔۔۔غیر ملکی
حملہ آور ، خوفزدگی ، یا باطنی زوال پذیری بیان کی گئی
ہے۔راوی کا کہانی میں منفعول کردار رہاہے اور عوام کونفسیاتی طور پر مفلوج دکھایا
گیا ہے ۔ اس کے ادب میں خواص عام ہیں ۔یہ افسانہ کافکا کے دیگر افسانوں کی طرح
انسانی واسطے اورنمائندگی کی کمزوری پیش کرتا ہے: اس میں مزاحمت سبک اور بے
زاری ہی نہیں دکھائی گئی بلکہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیئے
گئے ہیں اور روک ٹوک کا سرے سے وجود ہی نہیں۔
کافکا نے اس قصے میں
سماجی اور نجی ناکامیوں کا ریکارڈ پیش کیاہے۔اس کی لطیف نثر میں جس طرح
دہشت کی نوعیت بیان کی گئی
ہے، اس سے دنیا کے سامنے یہ نکتہ
آتا ہے کہ جہاں دلائل کمزور ہوں، وہاں فرد
عمل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
یہ افسانہ پاکستان کے حالات سے
مناسبت رکھتا ہےجہاں سیاسی عدم استحکام ،رشوت بازاری، اور معاشرتی انحطاط پایا
جاتا ہے۔یہ قصہ مقتدر طبقے کی غیر مؤثر حکمرانی کی تصویر پیش کرتا
ہے(اس کی مثال اس قصے میں بادشاہ ہے)اور بے بس عوام ہیں جو پاکستان کی
سیا سی اور فوجی قیادت دونوں میں ہی برابر مظلوم رہے ہیں۔عدالتی
، اقتصادی، یا سماجی مسائل نے اداروں کو چیلنج کیا ہے۔
اس قصے میں شہری عوام کی طرح
پاکستانی عوام بھی نااہل قیادت کی وجہ سے ناکام ہو گئے ہیں۔اس میں کاتب
نے بیگانگی اور بے حسی کا تصور بھی پیش کیا ہے جو پاکستانی معاشرے پر
پوری طرح لاگو ہوتا ہے۔اس میں کافکا اقوام عالم کو تنبیہ کرتا ہے کہ
اگر ظلمت کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے تو اس سے ریاستی نظام مفلوج ہو کر ………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………..
5 Book 5 Before the Law
قانون کے روبرو
Before
the Law
فرانز کافکا
Franz
Kafka ( Nobel Laureate)
دالت کے روبرو' (بفور دا لاء) فرانز کافکا
کی فرضی کہانی ہےجس میں ایک دیہاتی انصاف کے حصول کے کے لئے
عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔
عدالت کا نگہبان حاضر تھا۔اس کی
شکائت ایک دیہی نے کی تھی اور اس کو درخواست کی کہ اسے اپنی شکائت لے
کر عدالت جانا ہے اس لئے دروازہ کھول کرعدالت تک رسائی کی اجازت دی
جائے۔جس کی اس نے اجازت نہ دی ،،اور کہا کہ وہ اس وقت اسے اندر جانے کی
اجازت نہیں دے سکتا ۔جس پر دیہاتی نے استسفسار کیا کہ کیا وہ بعد میں اسے اندر
جانے کی اجازت دے گا۔ ۔۔' ممکن ہے،'اس نے کہا۔'لیکن فی الحال نہیں۔'
وہ شخص گیٹ پر جھکتا ہےاور اندر کے ماحول کا جائزہ لیتا
ہے۔جب نگہبان یہ دیکھتا ہے ، تو وہ قہقہہ لگاکر کہتا ہے'اگر
یہ تمہیں اتنا زیادہ پسند ہے اور اندر جانے کی ترغیب دے رہا ہے اور میری اجازت کے
بغیر اندر داخل ہو گئےتو یاد رکھو:میں طاقت ور ہوں،اگرچہ میں سب سے کمزور ہوں
لیکن اس ہال کا گیٹ کھولنے یا بند کرنے کا مجاز
ہوں۔اور ہر ہال کے سامنے میرے جیسے نگہبان متعین ہیں۔ہر گیٹ کا
نگہبان پچھلے سے زیادہ طاقتور ہے۔اور میں بھی یہاں سے تیسرے
نگہبان کے سامنے زور آزمائی میں ٹک نہیں سکتا۔'
دیہی شخص کو پتہ نہیں تھا کہ اندر
جانے میں اتنی مشکلات پیش آئیں گی؛ بہر حال ، وہ سمجھتا ہے ،کہ قانون
تک ہر ایک کی رسائی ہونی چاہیئے۔لیکن جب اب وہ اس
نگہبان جس نے سموری کوٹ پہنا ہوتا ہے ، کو غور سے دیکھتا ہے ، تو اس کا
لمبا نوکدار ناک ، طویل سیاہ تاتار ی داڑھی دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا ہے
اور فیصلہ کرتا ہے کہ دروازہ کھلنے کی اجازت کا انتظاراس کے لئے بہتر
رہے گا۔نگہبان اسے سٹول پیش کرتا ہے اور اسے دروازے کے ایک طرف بیٹھنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔
وہ اس دروازے پردنوں اور سالوں
بیٹھا رہتا ہے ۔اس دوران وہ مسلسل درخواست کرتا رہتا ہے کہ اسے اندر
جانے کی اجازت دی جائے۔نگہبان تھوڑے بہت سوالات کرتا ہے ، اس سے گھر
بار ، گاؤں وغیرہ کے بارے میں پوچھتا ہے؛ لیکن ان سوالوں کا کوئی مقصد نہیں
ہوتا ، اورآخر میں وہ فیصلہ سناتا ہے کہ ابھی
وہ اندر نہیں جا سکتا۔سائل جو دروازے کے اندر جانے کے لئے پوری طرح
تیار ہو کر آیا ہوتا ہے،ہر تدبیر اپناتا ہے، یہاں تک کہ قیمتی
تحائف اور رشوت تک بھی دیتا رہتا ہے، چوکیدار
انہیں یہ کہہ کر انہیں قبول کرتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ اسے
نظرانداز کر رہا ہے۔
اس طرح کئی سال بیت جاتے ہیں۔اس
عرصے میں سائل اپنی نظریں تمام وقت اس پر جمائے رکھتا ہے۔ وہ باقی
تمام نگہبانوں کو بھول جاتا ہےاور سوچتا ہے کہ اس کی مشکلات کا باعث
یہی نگہبان ہے اور وہ اپنی قسمت کو کوستا رہتا ہے۔۔۔ اور پہلے چند سال
تو اونچی آواز میں شقاوت اور سختی سے خود الزامی کرتا رہتا
ہے اور بعد میں ، جب اس کی عمر ڈھلنے لگتی ہےتو وہ اپنے آپ پرغصہ کرنے
لگتا ہے اور بچہ بن جاتا ہے۔ اس تمام عرصے میں اب اسے یہ پتہ چلتا ہے
کہ اس کے سموری کوٹ کے کالر میں بھڑ کی کھال لگی ہے۔وہ بھیڑ کو بھی درخواست کرتا
ہے کہ نگہبان سے سفارش کرےلیکن لاحاصل۔
اب اس کی آنکھوں کی بینائی کمزور
ہونا شروع ہو گئی ہے، اور اسے یہ علم نہیں کہ اس کے ارد گرد کا ماحول تاریک ہو
رہاہے یا اس کی آنکھیں جواب دے رہی تھیں۔تاہم ، تاریکی میں وہ چمکدار
شئے کو پہنچان سکتا اور قانون کے دروازے سےکبھی نہ بجھنے والی دمک دیکھ
سکتا ہے۔اب اس کے پاس مزید وقت نہیں بچتااور اس کی زندگی کا چراغ گل ہونے کو ہے۔
مرنے سے پہلے اس کےذہن میں صرف
ایک سوال آرہا ہےجو اس نے چوکیدار سے کبھی نہیں پوچھاتھا۔وہ
چونکہ اب اتنا نحیف و نزار ہو چکا ہےکہ اپنا بدن نہیں ہلا سکتا اس لئےوہ اشارے
سے نگہبان کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے جو سائل کی
بات سننے کے لئے اس کی طرف جھکتا ہے کیونکہ اب ان کا جسمانی تفاوت کافی زیادہ ہو
گیا ہے۔' تم میں نہ بجھنے والی پیاس پائی جاتی ہے۔تمہارے سوالات
کبھی ختم نہیں ہوتے، بتاؤ، تم اب مجھ سے اور کیاپوچھناا چاہتے ہو؟'
'تمام لوگ انصاف پانے کے لئے یہ دروازہ کھٹکھٹاتے
ہیں۔اس تمام عرصے میں میرے علاوہ اور سائل نہیں آیااور
دروازہ کھولنے کی خواہش کیوں نہیں کی؟'
نگہبان کو یقین ہوگیا کہ
سائل اب آخری سانسوں پر ہے، اور اس کی قوت سماع ختم ہورہی
ہے ،اس نے چلاتے ہوئے کہا:' کیونکہ اس دروازے سےتمہارے علاوہ کسی اور
کو اس سے داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔یہ دروازہ صرف تمہارے لئے مختص
کیا گیا تھا،اور تمہاری رخصتی کے بعد یہ مستقل طور پر بند ہو جائے گا'۔
تجزیہ
'قانون کے روبرو '( بیفور دا لا)افسانے میں ،فرانز کافکا
نوکرشاہی ، اشرافیہ ، مقتدر ہ اور انسانی حالات کی نظیر پیش
کرتا ہے جس میں قاری کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عوام کی مشکلات کی نوعیت کیا ہے،
اس کی راہ میں لا محدود رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں کہ اس کی تمام عمر بھول بھلیوں
میں گزر جاتی ہے۔
اس افسانے میں اس بات کی نشان دہی
کی گئی ہے کہ نظام عدل عوام الناس کے لئے مفقود ہے۔انہیں قدم قدم پر یہ احساس
دلایا جاتا ہے کہ وہ بے کارہستیاں ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ان کے
کوئی حقوق نہیں ۔اس میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ بلا چون وچراں اطاعت اور داخلی
حاکمیت انسان کو مفلوج کر دیتی ہے۔کافکا سوال کرتا ہے کہ لوگ کیسے اپنی
رضارغبت سے پابندیاں قبول کر لیتے ہیں اور وہ کیسے مزاحمتوں کے آگے ڈھیر ہو جاتے
ہیں ۔
کافکا کہتا ہے کہ
مشکلات کا شکار افراددجودی انکار اور صبر وشکر کر لیتے ہیں ۔ دیہی
سائل کا عشروں تک انتظاراس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کسی شئے کو پانے کی
امید کی آس پر تمام عمر گنوادی جاتی ہے ۔وہ انسانی فطرت پر تبصرہ کرتا ہے، جس می
کافکاں اپنے ادب میں باقی افسانوں کی طرح بیگانگی اور اجنبی پن پایا
جاتا ہے۔وہ راوی کواس بات کا شعور بخشتا ہے کہ حکمرانوں سے انصاف مانگیں اور اگر
کوئی رکاوٹ ڈالے تو احتجاج کریں۔
'قانون کے روبرو' کافکا کے ادب کی عظیم تخلیق ہے۔
نگہبان کا کردار مہمل ،بے معنی اور بے سرو پا ہے: وہ دیہی شخص کے لئے
دروازہ کھولنے کو سیدھا سادھا منع تونہیں کرتالیکن اسے حیلے
بہانوں سے لٹکاتا رہتا ہے ،جو نظام کی ایسی خود
مختاری ظاہر کرتا ہے جس میں انچارج کے پاس من
مانی کرنےکے اختیارات ہوتے ہیں اور وہ بلا وجہ سائل کو فائلوں کے چکر
میں الجھاتا رہتا ہے اور مسائل کے حل کی بجائے لٹکاتا رہتاہے۔چونکہ ان کے اعمال کی
پوچھ گچھ نہیں ہوتی اس لئے نظام عدل اور سماجی نظام عام لوگوں کی دسترس
سے باہر ہوجاتاہے۔ادارے ، قوانین اور عدالتی نظام بنائے تو
عوامی فلاح و بہبود کے لئے گئے ہیں،وہ ان کی بدخواہی تو نہیں چاہتے مگراس کو چلانے
والے ہر قانون سے بالا تر ہیں ،ان کی بازپرس نہیں ہوتی اس لئے وہ
سائلین کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اس کہانی میں سائل کی
عدالت تک رسائی میں نگہبان کے
مسلسل انکار پر اعتراض نہ کرنا اور خاموشی سے بیٹھ جانابھی
اتنا ہی جواب طلب ہے جتناکہ انچارج کا؛ وہ مناسب وقت کے
انتظار میں اپنی عمر گنوادیتا ہے۔اپنے حقوق حاصل نہیں کرتا اور بہانوں پر حجت نہیں
کرتا۔اس لئے جب اس کو ناقدانہ طور پر دیکھا جائے گا تواس کی تشریح پیچیدہ ہے:
قانون عوام کی فلاح کے لئے بنا ہے۔سائلین کی داد رسی اور سچائی کاحصول اس کا مقصد
ہے۔یہ حقدار کو اس کا حق دلاتا ہے، مظالموں کو سزا دیتاہے،مظلوموں کی اشک شوئی
کرتا ہے لیکن اختیارات کے ناجائز استعمال کی بازپرس نہیں کرتاجس سے عوام میں بے
چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔آخر میں جب سائل کے سامنے یہ بھید کھلتا ہے کہ اس عدالت
تک رسائی کا صرف اس کا حق تھا جو اس نے
گنوادیا ، اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ انچارج سائل کے
حقوق سلب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا
، جوسائل کے المیے میں اضافہ کردیتا ہے، جس سے مایوسی اور نظام سے نفرت
پیدا ہوتی ہے
یہ کہانی دنیا بھر کے
انسانوں کی طرح پاکستانی عوام کے لئے بھی اتنی ہی سچ ہے ۔عوام میں لال فیتے ،نوکر
شاہی کی چیرہ دستیوں،قانون تک نارسائی اور عوام کی بے بسی پائی جاتی
ہے۔یہاں طریقہ کار سست، بے لگام اور انصاف کے حصول میں رکاوٹیں پیدا کرتے
ہیں۔انہیں کبھی نہ ختم ہونے والی راہداری سے گزرنا پڑتا ہے۔یہاں اداروں
کی اصلاح کی ضرورت ہےجس میں شفافیت اور پرسش ہو۔
……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
6 B
ook 5 Jackals and Arabs
سیّار اور عرب
Jackals and
Arabs
فرانز کافکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz
Kafka (Nobel Laureate)
عرب گائیڈ اور میں اوسیسس کے مقام پر کیمپنگ کررہے تھے۔میرے
ہمراہی سوئے ہوئے تھے۔اور ایک طول قد سفید رنگ
عرب،میرے پاس سے گزرا؛وہ اونٹ باندھ کر سونے آیاتھا۔
مجھے نیند نہیں آرہی تھی
میں گھاس پر ادھر ادھرچلا ؛ میں نے سونے کی
کوشش کی؛لیکن بے سود۔۔۔دور سے ایک گیدڑ (سیار) کی دردناک آواز سنائی دی۔؛میں یہ سن
کر بیٹھ گیا؛اور وہ آوازجو بہت دور سے آرہی تھی ، اچانک بالکل نزدیک آگئی۔گیدڑوں (
سیاروں )کا ایک جھنڈ میرے ارد گرد جمع ہو گیا؛ان کی آنکھیں جو تانبے کی طرح
تھیں،سنہری رنگ میں کھل بند ہورہی تھیں؛ان کے جسم لچکدار تھے لیکن کمزور تھے،
جو مسلسل ایسے ہل رہے تھے جیسے کہ چابک کھانے کے بعد کوئی چیز ہلتی ہے۔
ایک سیار گیدڑوں کی
بھیڑ سے نکل کر میرے بازو میں ایسے گھس گیاجیسے کہ اسے میرے جسم کی گرمی چاہیئے؛اس
کے بعد وہ میرے سامنے آگیا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کرکہا:' میں گیدڑوں کی برادری کا ہر لحاظ سے سب سے بڑا گیدڑ
ہوں ۔ تمہیں یہاں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔میں نے
تقریباًاپنی ہمت چھوڑ دی تھی، کیونکہ ہم تمہارے یہاں آنےکا مدت سے انتظار کر رہے
تھے۔ یقین کرو میری والدہ ،والدہ کی والدہ اور اس کی والدہ کی والدہ اور آخری
والدہ بھی تمہارا انتظار کر تے کرتے مرگئے!'
'مجھے یہ سن کر بےحدحیرت ہوئی ہے، ' سردی تھی لیکن میں
لکڑیوں کے ڈھیر کو آگ لگانا بھول گیا تھا ،ایسا کرنے سے ایک توصحا کی
رات کی سردی سے محفوظ رہا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کا
دھواں گیدڑوں کو دور رکھتا تھا۔
' میں تمہاری یہ باتیں سن کر ششدر رہ گیا ہوں۔یہ اتفاق ہے کہ
میں بہت دور شمال سے سیر سپاٹے کے لئے یہاں آیا ہوں۔دوستو ،
میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں؟'میں نے کہا۔انہوں نے بہت
زیادہ نرم لہجے میں مجھے بات کرتے سنا تومیرے اور نزدیک آگئے اور میرے
گرد گھیرا ڈال لیا؛ وہ سب الجھے ہوئے ہانپ رہے تھے۔
'ہم جانتے ہیں،'معمر بولنا شروع ہوا،'تم شمال سے آئے ہو، اسی
لئے ہم نے اپنی تمام امیدیں تجھ پر باندھ لی ہیں۔شمال میں یورپ ہے۔وہاں
کےلوگ ذہین ہیں جو عربوں میں نہیں پائی جاتی۔عربوں میں عقل ودانش رتی
بھر بھی نہیں۔ان میں تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔وہ جانوروں کو قتل کرتے ہیں تاکہ
انہیں کھائیں اورمردہ جانوروں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔
'اتنی اونچی آواز میں مت بولو'، میں نے کہا،'یہاں پاس ہی عرب
سوئے پڑے ہیں۔'میں نے اسے خبردار کہتے ہوئے کہا۔
'تم مکمل طور پر غیر ملکی ہو،'گیدڑ نے کہا'، تاریخ عالم گواہ
ہے کہ کوئی گیدڑ آج تک کسی عرب سے خوفزدہ نہیں ہوا۔ کیا
ایسا ہوا ہے؟ہم ؟ کیا ہم ایسے لوگوں سے دور نہیں رہ سکتےتھے؟'
'ہوسکتا تھا۔۔۔ ہوسکتا تھا'، میں نے کہا، ' میں ان چیزوں کے
بارے میں نہیں سوچتا جو میری زندگی میں نہ آئی ہوں اور دور ہوں؛ تمہارا اور عربوں
کا کوئی قدیم زمانے سے چلاہوا تنازعہ لگتا ہے جس پر تم بات کررہے ہو؛ یہ نسل در
نسل تنازعہ ہے؛ اور قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ اگلی نسل میں
بھی منتقل ہو جائے گا۔'
'تم بہت ہوشیار ہو،'بوڑھے گیدڑ نے کہا۔؛ اس کے
ساتھی سکون سے کھڑے تھے لیکن یہ بات سن کر
وہ ہانپنے لگے ، ان کادل زور سے دھڑکنے لگااور ان کا سانس تیزی سے اوپر
نیچے ہونے لگا۔؛ جانوروں کی مخصوص بوجنہیں کبھی کبھا رمیں دانت پیستے ہوئے برداشت
کرلیا کرتا تھا۔کسی پیٹ بھرے ہوئے جبڑے جو باس آتی ہے، مجھے اس سے آتی محسوس ہوئی
۔' تم بہت ہوشیار ہو اور تم بات چیت بالکل ویسے کررہے ہوجیسے ہماری قدیم تعلیمات
میں ملتی ہیں۔اس لئے جب تک ہم عربوں کا خون نہیں پی لیں گے،ان
سے ہماری لڑائی ختم نہیں ہو گی۔'
'اوہ!'میں نے زیادہ پرلہجے میں کہا۔'عرب تم
سے اپنے آپ کو خود ہی بچا لیں گے؛وہ بندوقیں اٹھائیں گے اور تمہیں بھون
ڈالیں گے۔'میں نے کہا۔
'تم ہماری بات نہیں سمجھے،'اس نے کہا۔ '
انسانوں کانظام ، جو بظاہر ، تمہارے شمال
میں رائج ہے، ہم یہاں وہ لاگو کرنا چاہ رہے ہیں ۔ ہم انہیں یقیناً قتل
نہیں کرنے جارہے،کیونکہ دریائے نیل کاپانی ان کے مردہ جسم صاف کرنے کے
لئے ناکافی ہوگا۔۔۔ میں اب تک حیران ہوں کہ ہم تمام گیدڑ کیوں،عربوں کے جاندار
اجسام دیکھ کر دم دبا کر ،صحرا کی تازہ ہوا میں بھاگ جاتے
ہیں جو ہر لحاظ سے ہماری جائے سکونت ہے۔'
اس دوران تمام گیدڑ جن
میں کچھ اور بھی تھے،دور سے آکرشامل ہوگئے ۔انہوں نے سر جھکائے اور اپنی
ٹانگوں میں دھنس لئےاور اپنے پنجوں سےچمکانے لگے، ان کا مقصد شائد یہ
رہا ہوکہ وہ شدید بدبو کو جو مجھ میں کراہت پیدا کررہی تھی،اور میں اس بچنے کے لئے
وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا ، چھپانا چاہ رہے تھے۔
'عربوں کے ساتھ مسئلے کے سلجھاؤکے لئے تمہارے پاس کیاحل
ہے؟'میں سوال کرکے اٹھنے لگا تو دو جوان وحشی گیدڑوں نے
میری جیکٹ اور قمیص کے پیچھے اپنے دانت گاڑ دیئے، اس لئے مجھے پھر بیٹھنا پڑ گیا۔
'ہماری برادری کے گیدڑوں نے تمہاری ریل گاڑی کو
روک رکھا ہے،' بوڑھے گیدڑ نے کہا، ' یہ عزت افزائی کی علامت ہے۔'
'ریل گاڑی مت روکو،اسے جانے دو'۔ میں نے
جوان اور بوڑھے گیدڑوں کے درمیان آگے پیچھے چلتے ہوئے کہا۔
'' 'اگر یہ تمہاری خوہش ہے تو یقیناً ایسا ہی کریں
گے، ' بوڑھے گیدڑ نے کہا۔'لیکن اس میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔لیکن اس وقت رسم و رواج
کے مطابق انہوں نے اس میں یٹھے عربوں کوبہت گہرا کاٹا
ہے، وہ ان کے جسموں سے اپنے دانت آہستہ
آہستہ نکالیں گے۔اس دوران تم ہماری درخواست سنو۔'
'تمہاری اس بات نےمجھے زیادہ متاثر نہیں کیا۔' میں نے کہا۔
'ہماری بد سلیقی اور اناڑے پن کی ہمیں سزا نہ
دو،'بوڑھے گیدڑ نے اپنی فطری آواز میں ملائمت پیدا کرتے ہوئے کہا، ہم غریب جانور
ہیں۔ کسی شئے کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس صرف دانت ہی تو ہیں۔'
' کہو، میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟' میں نےانہیں تسلی
دینے والی آواز میں کہا۔
'جناب ِ والا!' اس
نے چلا کر کہا تو تمام گیدڑاس کے ساتھ ہی شور مچانے لگے ، جس کا تاثر ناگوار تھا
۔۔۔'جناب والا! ہماری
دلی خواہش ہے کہعربوں اور ہمارے درمیان زمانہ قدیم سے جو جنگ چل
رہی ہے اور ہم میں پھوٹ ڈالی ہوئی ہے ،کا خاتمہ کیا
جائے۔تمہارے وصائف اور گفتگو بالکل ویسی ہے جو ہمارے آباؤاجداد نے بیان کی تھی اور
ہم ان کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ہمیں عربوں سے نجات چاہیئے۔ ہم ان سے امن معاہدہ
کرنا چاہتے ہیں؛ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی سکھ کا سانس لیں؛ ہماری ان
کے ظلم کے بارے میں رائے روز روشن کی طرح
واضح ہے۔عربوں کا بھیڑوں اور دیگر چوپالوں کو ذبح کرتے وقت چیخوں سے
رلانابہت ظا لمانہ فعل ہے۔ وہ انہیں خاموشی سے کسی کی مداخلت
کے بغیر قتل کر کر کے ان کی نسلیں بھی مٹا دیں گے؛ ہم ان
کی ہڈیاں اور آخری بوٹی تک کھا
کر صاف کرتی رہیں گی۔ہم پاکیزگی چاہتی ہیں ۔۔۔ صرف پاکیزگی' ۔۔۔ اوراب
سب گیدڑ سسکیوں سے رونے لگے۔۔۔'تم خود ہی بتاؤ کہ کوئی اس ظلم کو کب تک
برداشت کرسکتا ہے، تم باضمیر ہو اور تمہارا من صاف ہے۔عریوں کے دل میلے ہیں۔ان میں
بغض اور کینہ بھرا ہے۔ان کی داڑھیاں وحشت پیدا کرتی ہیں۔ان کی آنکھیں
دیکھتے ہی ان پر تھوکنے کا دل کرتا ہے؛ اور جب وہ ایک ہاتھ اوپر اٹھاتے ہیں، ان کی
بغلوں سے جہنم کے بھبھوکے اٹھتے ہیں۔اس لئے، جناب والا،اپنے طاقتور بازوؤں کے ساتھ
قینچی سے ان کی گردنیں کاٹ دیجئے!'اور اپنے ہاتھ کو جھٹکا دے کرایک گیدڑ آگے
بڑھا۔اور سلائی والی مشین کی قینچی جو زنگ آلود تھی مجھے دی۔
' آخر کار اس قینچی سے عربوں کے برے وجود کا خاتمہ ہو جائے گا' ہمارا عرب گائیڈ نے قہقہہ مار کر چیختے ہوئے کہا؛ و ہ اپنے بہت
بڑے کوڑے کوہوا کے مخالف رخ ماررہاتھا۔اسے دیکھ کر تمام
گیدڑ وہاں سے جانے لگے؛ چند قدم چلنے کے بعد وہ رک گئے، ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو
گئے جتنے ہو سکتے تھے۔
'اچھا! جناب ، تم
نے تماشہ دیکھ اور سن لیا'، عرب نے اپنے انداز
میں کہا۔۔۔'تو تم اب جان گئے کہ گیدڑوں کی تمہارے بارے میں کیا رائے
اوروہ کیا چاہتے ہیں، ' میں نے کہا۔
'یہ فطری بات ہے جناب!' عرب نے جواب دیا۔
'کیوں؟ ان کی یہ سوچ کیوں کر
بنی؟میں نے اس سے پوچھا۔
جہاں تک عرب یہاں رہیں
گے ، یہ قینچی صحرا میں گھوتی رہی ہے اور گھومتی ر ہے گی، یہاں تک کہ دنیا کا
خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ قینچی ہر یورپی باشندے کو پیش کی گئی ہےجو صحرا میں آیا
ہے۔انہیں پتہ ہے کہ اس کے علاقے میں قوانین ہیں اور ان کی پاسداری کرتے ہیں۔ ان
میں شخصی آزادی ہے،وہ ان سے امید باندھ لیتے ہیں کہ وہ گیدڑوں کو ہم سے
آزادی دلائیں گے۔یہ وحشی ، احمق ،بیہودہ اور واہیات ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں پسند کرتے ہیں؛ وہ ہمارے کتے ہیں؛ لیکن وہ تمہارے کتوں سے
زیادہ خوبصورت ہیں ۔ ایک اونٹ رات کو مرگیا تھا ، میں اسے یہاں لے کر آگیا ہوں'
چار لوگ مردہ اونٹ کو گھسیٹے ہوئے
لانے لگے۔اسے دیکھ کر گیدڑوں نے اپنی آوازیں بلند کرنا شروع کر دیں۔جوں
ہی اسے کھینچا گیا، ہرایک گیدڑبغیر کسی ہچکچاہٹ کے، اونٹ گھسیٹے وقت رسے جو حرکت کر رہے
تھے کے ساتھ ساتھ اپنا بدن گھسیٹ کر چلنے لگے۔ان کی نظریں
مردار اونٹ پر تھیں اور وہ اسے بڑی للچائی نظروں سے دیکھ رہے
تھے۔وہ بھول گئے تھےکہ عرب ان کے دشمن تھے۔وہ ان پر بے تحاشا ظلم کرتے
تھے، ان سے نفرت جاتی رہی تھی، اس مردہ اونٹ نے ان پر جادو کردیا تھا۔ان میں سے
ایک گیدڑ نے تواونٹ کی شہہ رگ پر
دانت گاڑ دیئے تھے۔ اور تمام گیدڑ اس لاش پر پل پڑےاور اسے نوچنے لگے۔
اب عرب نے اپنا کوڑا اٹھایا اور
ان پر بے تحاشا برسانے لگا۔گیدڑوں نے اپنےسر اٹھائے اور عرب کو کوڑے کی
برسات کرتے دیکھا۔' کسی نے اس کی پرواہ نہ کی اور اونٹ کا گوشت کھانے میں بڑی رغبت
سے کھانے میں مصروف رہے۔ کوڑے کی ضرب سے وہ ایک لمحے کےگوشت کھانا
بند کرتے اور پھر رغبت سے کھانا شروع کر دیتے ۔اونٹ کا خون پانی کے
گڑھوں میں تھا؛اوپر کی طرف دھواں اٹھ رہا تھا،اور اس کے جسم کے کئی حصوں میں ٹکڑے
کئے ہوئے تھے۔گیدڑ ادھردوبارہ جانے سے خود کو روک نہ سکے؛
'وہ ہماری شکائت بھی کرتے ہیں اور رہتے بھی ہماری فراہم کردہ
خوراک پر ہیں۔اگر ہم انہیں گوشت نہ دیں تو ان کی نسل ناپید ہوجائے گی، اور عرب نے
کوڑے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ پھر اٹھایا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔
'تم سچ کہتے ہو ، جناب ۔'عرب نےاپنی بات جاری رکھتے
ہوئے کہا، 'ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں گے؛اس کے
علاوہ اب وقت آگیا ہے کہ خیمہ اکھاڑ یں اور سفر پر نکل پڑیں۔لیکن ہم نے
انہیں دیکھا ہے گیدڑ شاندار جانور ہیں، کیا ایسا نہیں؟اور وہ ہم سے
نفرت کیسے کرسکتے ہیں!'
تجزیہ
فرانز کافکا کا افسانہ 'سیار اور
عرب' ( جیکالز اینڈ عربز)کا راوی ایک یورپی سیاح ہے جوچند عربوں کی
رہنمائی میں دشت نوردی کررہا ہے،ایک رات، جب سیاح آرام کے
لئے لیٹتا ہے ، تو سیاروں ( گیدڑوں )کی ایک جماعت اس کے پاس آتی ہے اور
بڑی عزت و تکریم سے مخاطب ہو کراس سے مدد کی درخواست کرتی ہے۔وہ عربوں
سے شدید نفرت کا اظہار اس بنا پر کرتی ہے کہ عرب غلیظ،
وحشی اور ظالم ہیں۔وہ انہیں بے دردی سے پیٹتے ہیں ۔وہ راوی
کو ایک قینچی پیش کرتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ اس سے وہ
عربوں کو قتل کردے تاکہ انہیں ان کے طویل ظلم و ستم سے رہائی مل جائے۔ گیدڑ
اس سے اس خواہش کا اظہار اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ یورپی
باشندہ ہے جو مغربی دنیا کی نمائندگی کرتا ہے جس کے پاس عسکری طاقت بھی
ہے اور رعب و دبدبہ بھی ، وہ اپنے مخالفین کو نیست و نابود
کر سکتا ہے۔ان کی بات سن کر وہ پریشان ہو جاتا ہےاور ان کی درخواست رد کردیتا
ہے۔اس دوران عرب گائیڈ جاگ جاتے ہیں اور گیدڑوں کے مطالبے پر ہنسنے
لگتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ گیدڑوں کے ذہن میں یہ خرافات پرانے
زمانے سے ہی موجود ہیں جبکہ عرب انہیں مردہ خور جانور کہتے
ہیں جن کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وہ ان کے آگے گوشت ڈالتے رہتے ہیں
جنہیں وہ بڑے شوق سے کھاتے ہیں، اس لئے ان کے خلاف انتقام کی آگ دبی
رہتی ہے ، وہ ان کے محتاج ہیں اور عربوں کا ان
پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔اس کہانی کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے کہ
سیاح ظالم اور مظلوم کے مابین ان کے تعلقات کی
نوعیت پر غور و فکر کرتا ہے ۔
کافکا کا بیانیہ طنز
اورمثال دونوں کو باہمی ملا کریہ سوال کرتا ہے طاقت ، نو آبادیات ،اور
ثقافتی غلط فہمیوں کی حرکیات کیا ہیں ۔ یہ بین الذاتی
تعلقات کی غالب اورحاشیائی گروہوں کے مابین
پیچیدگیاں معلوم کرتا ہے، اور عربوں کو کہتا ہے کہ ان پر کوڑے برسانا بند کردیں
لیکن عرب کی رائے مختلف ہوتی ہے۔
اس افسانے کےموضوعات میں
نوآبادیات، طاقت کی حرکیات ، ظلم و ستم ،اوراسے کیسے ختم کیا جائے ، ہے۔کافکا
مظلوم گیدڑوں جو پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ،اور عرب جو ظالموں کی نمائندگی کرتے
ہیں کے مابین امتیاز کرتا ہے۔ یہ کہانی اس خیال کوکہ خارجی عوامل ، جو
اس کہانی میں بظاہر برتر قوت ہے،یورپی سیاح اس تاریخی تنازعے کوختم کر
سکتا تھا ۔یہ کسی کی مدد کرکے اس کو ظالموں سے بچانےاور انہیں محتاجی
سے بچانےکے لئے ظالموں کو قائل کرنے پر زور دیتا ہے ، جو کم وبیش اکثر غلط فہمیاں
پیدا کرتے ہیں۔گیدڑ وں کی زبردست ناامیدی کی درخواست اس کی بےوقعتی کو
نمایاں کرتی ہےجبکہ سیاح کا انکار یورپی اقوام کا اس مسئلے کی اہمیت سے انکار کرنا
ہے۔علاوہ ازیں ، یہ کہانی تشدد اور اطاعت گزاری کے پورے چکر کو، جیسے
کہ گیدڑ وں کی ظاہری بغاوت اس وقت ختم کردیت ہے جب وہ اس کے سامنے ہڈی پھینکتے ہیں
جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ ان کااحتجاج کتنا سطحی ہے۔ان کے ایسے رویے سے تو ان
کوعربوں سے آزادی نہیں مل سکتی۔کافکا یہاں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا
ایک جگہ آزادی اور خودمختاری مل سکتی ہے جہاں دونوں ایک دوسرے پر
انحصار کررہے ہوں۔
یہ کہانی نوآبادیاتی
نظام میں حاکموں اور محکوموںمیں باہمی کشمکش پر ہے۔حاکم ہرصورت سے اپنا
قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔اس کے لئے وہ ان پر ہر قسم کے ظلم ڈھاتے ہیں۔گیدڑ
ایک طرف تو عربوں سے نفرت کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی خوراک کے محتاج
ہیں۔ایسی صورت میں عرب انہیں آزادی کیسے دے سکتے ہیں کیونکہ عرب اگر انہیں خوراک
نہ دیں تو وہ ایک دن بھی زندہ نہیں رہ
سکتے۔گیدڑوں کا ہاتھ بھیک مانگنے والاہے۔وہ حاجت
مند ہیں لیکن کسی تیسری طاقتور پارٹی کودرمیان میں لاکر خودمختاری حاصل کرنا چاہتے
ہیں۔یہی حال انسانوں کا بھی ہے ۔نوآبادیاتی نظام میں محکوم قومیں بے بس ہوتی
ہیں ۔وہ قابضین کی محتاج ہوتی ہیں۔ان میں دوجذبیت پائی جاتی ہے۔ان میں
آپس میں کئی معاملات پر مفاہمت اوربعض میں مخاصمت پائی جاتی ہےاس لئے
محکوم قومیں کسی تیسری قوت کا آسرا ڈھونڈتی ہیں کہ انہیں مراعات دلا سکے۔
کافکا کے ناقداس بات پر اعتراض
کرتے ہیں کہ تیسری پارٹی نے حاکموں اور محکوموں کے تنازعے میں کوئی حل
نہیں بتایا جس سے کہانی میں مسئلہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کا حل
نہیں۔ظالم اسی طرح ظلم کرتے رہتے ہیں اور مظلوم اسی طرح کڑھتے ہوئے تابعداری کرتے ہیں۔دونوں اطراف پاک
صاف نہیں ۔ دونوں ہی قصور وار ہیں ۔
پاکستان میں بھی جنگل کا قانون
نافذہے۔وہ بھی برطانیہ کا نوآبادیاتی نظام رہا ہےاور عوام
کو کچل کررکھ دیا گیاہے۔آج بھی حکمران طبقے نے اسی رویے کو اپنا رکھا
ہے۔صاحب اقتدار نے قوت بازو پر عوام کو دبا دیا ہے ،عدالتوں کو کنٹرول کردیا گیا
ہےاور عوام تیسری قوت کے سامنے ناروا سلوک کا رونا روتے ہیں تو شنوائی نہیں ہوتی۔
…………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………..
7 Book
5 A visit to Mine
اپنے آپ سے ملاقات
A Visit
to Mine
فرانز کا فکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz
Kafka ( Nobel Laureate)
آج ہماری کان میں چیف انجینئر آیا ہواتھا۔انتظامیہ نے
حکم صادر کیا تھا کہ نئی سرنگیں بنائی جائیں، اس لئے
انجینئر وہاں آئے تھے تاکہ ابتدائی سروے کر سکیں۔یہ
آدمی نوجوان تھے اورمتنوع قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ان کی پرورش اپنی اپنی قوم میں
آزادانہ ہوئی تھی، اور ان کی شخصیتیں مختلف تھیں،جو ان کی گفتگو سے نظرآرہی تھیں۔
ایک شخص جس کے سیاہ بال تھے،ہنس
مکھ تھا، کی آنکھیں ایسی تھیں جوہر شئے میں کھب جاتی تھیں'۔دوسرےشخص کے
ہاتھ میں ایک ڈائری تھی،جو چلتے چلتے رک جاتا ،ادھر ادھر دیکھتا، موازنہ کرتا اور
اہم نکات لکھ لیتا۔تیسرےشخص کے ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھے، وہ
بھی جوان تھا لیکن مغرور تھا۔ وہ اکڑ کر چل رہاتھا، اپنے آپ میں تھا،
کسی سے گھل مل نہ رہا تھا؛ اپنے ہونٹ چبارہاتھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ پریشان
تھا، اور اس کی اس ٹیم میں اس سے اہم حیثیت تھی۔چوتھا شخص تیسرےکو
تفصیلات بیان کر رہا تھا۔ کچھ نہ بھی پوچھ رہاہوتا،تواسے کچھ نہ کچھ کہتا رہتا
تھا؛اس کا قد اس سے چھوٹا تھا، اس کے آگے پیچھے ہورہاتھااور چالباز لگ
رہاتھا،اس کی انگشت شہادت ہمیشہ کھڑی رہتی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ اس مقام پر
جواشیاء دکھائی دے رہی تھیں، کی تفصیلات بتارہاتھا۔پانچواں، شائد اس
ٹیم میں سب سے بڑے عہدے پر فائز تھا،اکیلا تھا؛
وہ اب سب سے آگے تھا؛تمام ٹیم اس کی
پوزیشن کے مطابق خود کو ہم آہنگ کر رہی تھی؛ اس کا رنگ زرد تھااور نحیف
تھا؛جب وہ کسی شئے کو غور سےدیکھ رہاہوتا تو اپنے ماتھےپر اپنے ہاتھ رکھ لیتا
تھا۔چھٹا اور ساتواں شخص قدرے جھک کر چل رہے تھے، ان کے سر ایک دوسرے کے قریب تھے،
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے، اور ایسے گفتگو کررہے تھے جیسے ان میں گہری دوستی
ہو؛ یہ ہماری کان کنی سے نہ تومتعلق تھےاور نہ
ہی ان کاتعلق سرنگ سازی سے تھا۔ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ وہ گرجا گھر سے تعلق
رکھتے تھے۔وہ دبلے پتلے تھے اور ان کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں۔ان میں سے ایک تو
عموماً بلی کی طرح خرخراہٹ کرکے اپنے آپ میں مسکرا پڑتا
تھا؛ جبکہ دوسرا بات کرتے وقت مسکراتا رہتا تھا۔ وہ
دونوں اگرچہ نوجوان تھے مگر قرائن بتا رہے تھے
کہ انہیں اپنے عہدے کے لحاظ سے اپنے کام پر ضرور مطمئن ہونا چاہیئے تھا۔اس اہم
ترین معائنے میں اگر انہیں کان کنی کے شعبے میں نوکری دی
جاتی تو ان سے کیا کام لیا جا سکتا تھا، معلوم نہیں تھا۔وہ ٹیم کے سربراہ کی
موجودگی میں اس کے عین سامنے اس کے عہدے کا احساس کئے بغیر مستقل طور پر ایک دوسرے
تک ہی محدود رہے۔ان کی موجودہ پراجیکٹ میں شرکت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی
تھی۔اور یہ بھی ہوسکتا تھا،کہ ان کی ہنسی مذاق اور ٹیم کی موجودگی کو نظر انداز
کرکے ایسی کیا ڈیوٹی تھی جو اس ٹیم سے الگ تھلگ تھی ۔کیا ایسا تو نہیں تھا کہ وہ
اس لاپرواہی میں ہر چیز کو غور سے دیکھ رہے ہوں جو کہ پراجیکٹ کے لئے ضروری تھی
وہاں کس حیثیت میں وہاں آئے تھے، کے بارے کوئی گمان نہ تھا۔ بہرحال یہ نوکر شاہی
تھی ۔ انتظامیہ نے کوئی نہ کوئی پیچیدگی توپیدا کرنی تھی۔اس ٹیم میں آٹھواں شخص
پراجیکٹ میں باقی تمام ٹیم سے زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔وہ ہر مرحلے پر
متعلقہ جگہ کی صحیح پیمائش کرکے ایک چھوٹا ہتھوڑا جیب سے
نکالتااور کیل ٹھونک دیتا،اور پھر جیب میں ڈال لیتا۔کبھی کبھار ،اپنے باوقار
لباس میں گرد آلود زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتااور جگہ فیتے سے
ماپتا؛ پھر دوبارہ، لیکن صرف چلنے کے دوران ،دیوارو ں،یا اپنے سر کے
اوپر کی چھت کے نیچے جھک جاتا۔ایک بار تو ایسا ہوا کہ وہ زمین پر لیٹ
گیا اور ہاتھ پاؤں پورے پھیلا دیئے اور وہاں خاموشی سے لیٹا رہا۔ ہم نے سمجھاکہ
اسے کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آگیا ہو۔ لیکن پھر وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا، اور ورزش
کرنے کے انداز میں اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور اپنا لچکیلا جسم جھکایا۔اس کے بعد وہ
پھر سے اپنی پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں لگ گیا۔ہمیں یقین ہے کہ ہمیں اپنی
کان کے تمام شعبہ جات سے واقفیت ہے،لیکن جس طرح سے وہ انجینئر اپنا فرض ادا
کررہاتھا، کا تعلق ہماری نظر میں کسی بھی شعبے سے نہ تھا۔وہ یہاں کیا کررہاتھا، پر
ہم حیران تھے۔اس نے ایک بار پھر کایک جگہ پیمائش شروع کردی۔اس کی تقرری اور فریضہ
تو انتظامیہ ہی جانتی تھی لیکن ہم تو یہ سمجھے تھے کہ وہ عام ملازمین کو زیادہ
خوار کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔نویں شخص نے ایک بچہ گاڑی پکڑی ہوئی تھی اور
اس میں کان کنی سے متعلق آلات تھےاور اسے گھسیٹ کر سب سے پیچھے چل رہا تھا۔وہ آلات
بہت قیمتی تھے، جنہیں نرم روئی میں لپیٹا گیا تھا۔عام حالات میں اس بچہ گاڑی کو
کلرک چلاتا تھا لیکن چونکہ یہ آلات خصوصی اور مہنگے ترین تھے ، اس
لئے اس کی جگہ جونیئر انجینئر کی ڈیوٹی لگا دی گئی،ہم نے دیکھا
کہ وہ اسے بڑی خوشی خوشی نبھا رہاتھا۔وہ شائد اس ٹیم میں سب
سے کم عمر تھا، شائد اسے ان اوزار کی نوعیت اور ان کاا ستعمال کیوں کیا جاتا
ہے ، کا علم نہیں تھا۔لیکن وہ بارباران اوزاروں کو دیکھ رہا تھاجس سے
کبھی کبھاربچہ گاڑی کو جھٹکے لگتے اور وہ دیوار سے ٹکرا جاتی۔تاہم،وہاں دسواں
انجینئر بھی تھا ۔جو بچہ گاڑی کے آگے آگے چل راتھا۔ اس کا فرض تھا کہ بچہ گاڑی کو
اچھلنے سے بچائے۔ایسا لگتا تھا کہ اس کو تمام آلات کی نوعیت کا علم تھا اور وہ
اچھی طرح جانتا تھاکہ انہیں کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔وہ ان آلات کا
حقیقی محافظ تھا ۔ بعض اوقات وہ چلتے چلتے ہی بچہ گاڑی سے کوئی اوزار
یا اس کا پرزہ اٹھاتا، اسے غور سے دیکھتا ،ہلاتا،اپنے کان سے لگاتااور کچھ سننے کی
کوشش کرتا، پیچ سے کھولتا یا کستا اور واپس گاڑی میں رکھ دیتا۔وہ پرزہ اتنا چھوٹا
ہوتا تھا کہ دور سے نظر نہیں آتا تھا۔یہ انجینئر گاڑی کھینچے والے
انجینئر سے صرف گاڑی کھینچے کی حد تک زیادہ بہتر
تھا۔اس عمل کے وقت گاڑی کھینچے والا اسے روک دیتا۔ اس گاڑی سے دس قدم آگے، ہمیں
کہاگیا کہ ہمیں انگلی کے اشارے سےخواہ وہاں جگہ ہوتی یا نہ ہوتی ہمیں ایک طرف
ہوجانا تھا ۔
ان دو اشخاص کے پیچھے
گیارہواں شخص ایک کلرک تھا۔ جوبغیر کہے ، اپنی انتظامیہ کی
شکایات لگا رہا تھاکہ اسے ذاتی ناپسندیدگی کی وجہ سےاسے ترقی نہیں دی گئی تھی۔اس
کا ایک ہاتھ کمر کے پیچھے تھا، اور دوسرا آگے تھا جس سے وہ اپنی
یونیفارم والی جیکٹ کےچمکدار بٹنوں کو چھو رہا تھا۔وہ کبھی کبھار اپنے
چہرے پر مسکراہٹ لاکر سر جھکاکرجنبش دیتا جیسے کہ وہ کسی کو ہائے کہہ رہاہوں ،یا
ہائے کا جواب دے رہا ہو، یا اپنے دراز قد کی وجہ سےپہلےاسے نہ دیکھا
ہوتو اب اسے ہائے کہہ دیا ہو۔ فطری طور پر ہم اس کلرک کو ہائے نہیں
کرتے تھے،لیکن جب کوئی اسے دیکھتا تو ایسا لگتا جیسےوہ یہ سمجھا ہو کہ کان کنی کی
انتظامیہ میں کلرک کی حیثیت کوئی بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے
کہ ہم اس کے پیچھے ہنسا کرتے تھے، لیکن اس کی کسی حرکت سے شائبہ تک
نہیں ہوتا تھا کہ اس کے خلاف کوئی بات کی گئی ہو۔شائد وہ ایسے سلوک کا عادی تھا۔
اس پر آوازے کسنے پر وہ کبھی مجبور نہیں ہوا تھاکہ وہ مڑکر پیچھے دیکھے
۔وہ ہمارے لئے ہمیشہ معمہ ہی رہا۔
آج معمول سے کام کچھ زیادہ
تھا؛اگر پروگرام درمیان میں چھوڑدیا جاتا توخرچ کا تہمینہ بہت زیادہ ہو جاتا؛ ایسے
معائنوں میں بہت سے ادارے شامل ہوتے ہیں اور اپنے اپنے شعبے کا پروگرام بنا کر
اپنی رائے دیتےہیں۔تمام اداروں کے پروگرام اکٹھےکرکے بڑاپراجیکٹ بنایا جاتاہےاور
پھر ضروری دستاویزات اور مطلوبہ اوزاروں کو اکٹھا کرکے ایک مجموعی
پروگرام بنایا جاتا ہےاور پھر ٹیم تشکیل دی جاتی ہےاور ان کا سربراہ مقرر کیا
جاتاہےاور معائنہ کیا جاتا ہے۔رات کے وقت ٹیم کے اراکین پر نظر رکھنا مشکل ہو جاتا
ہےکیونکہ وہ پہلے سے موجود سرنگ میں داخل ہوجاتے ہیں اور ان کا نظر آنا بند ہو
جاتا ہے۔اس دوران ہماری شفٹ تقریباً مکمل ہو چکی ہوتی تھی،اورہم اس ٹیم کو پھر
نہیں دیکھ پائے۔ہر چھوٹے بڑے پراجیکٹ کے ہر انتظامیہ چاہے سرکاری ، نیم
سرکاری ، کاپوریشن وغیرہ ہو ، پیچیدہ نظام قائم کرتی ہیں تاکہ عوام
انہیں سمجھنے میں اپنا وقت ضائع کریں اور پریشان ہوں ۔
تجزیہ
'اپنے
آپ سے ملاقات' (اے وزٹ ٹو مائن) افسانے
کا راوی فرانز کافکا خود یا پھر اس کا نمائندہ ہے
لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ خود ہی ہے،ایک زمین دوز کان کنی میں شامل رہا ہے۔وہ ایک
کان میں نوکری کرتا ہے جہاں قیمتی دھاتیں نکالنے کے لئے
ایک وسیع ، جامع اور پیچیدہ نظام نصب کیا گیا ہے۔ہر کان
کن نہائت درستگی کے ساتھ مخصوص کام سر انجام دیتا ہے ، جن
میں دھاتوں کا سروے ،معائنہ کرنے، اور اس سے اپنے متعلق ، جس کے
کام کی نوعیت غیر واضح ہے ،جایا کرتا ہے۔ کتابوں میں تو
کافکا میکانکی کارگزاری کاحساب کتاب رکھنا اور رپورٹ
دینا ہےلیکن حقیقت میں وہ اور اس کا شعبہ ایسا کوئی کام نہیں کرتا۔ کتابوں
میں ہمارے شعبے کی رپورٹ کے مطابق کان کنی کے تمام شعبے حد
تک اپنے اہداف پورے کر رہے ہیں۔ ایسی رپورٹ کن بنیادوں پر دی جاتی ہے ،
معلوم نہیں ۔ہمارے شعبے کی بات چھوڑیں ، ہر شعبے کا یہی حال ہے
اراکین کی فرائض پوری طرح واضح نہیں تھے۔ اس کے فرائض کی
نوعیت اوراہمیت کاتعین نہیں کیا گیا تھاکیونکہ مختلف محکموں کا
کام متجاوز تھا۔
اس افسانے میں کافکا نوکر شاہی
اور اشرافیہ کے پیچیدہ نظام کا جائزہ لیتا ہے ،کہ
وہ اصول و ضوابط کوبہانہ بنا کر کس طرح انسانی
کوششوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے
ہیں۔اس افسانے میں اس کے دیگر افسانوں کی طرح اس نے نظام کی
خرابیوں کو اجاگر کیا ہےکہ وہ کس طرح انسان کواپنے آپ سے دور کر دیتا ہے ۔ کافکا
اس الجھاؤ دار نظام کے ڈھانچے پر تنقید کرتا ہے جس میں ہر رکن احکامات
وصول کرتا اور ان کی تعمیل کرتا ہے لیکن اس بات سے قاصر ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت
اوروسیع طور پر اس کی اہمیت کیا ہے۔اس میں وہ یہ
نکتہ اٹھاتا ہے کہ انسانی محنت و مشقت عموماً بیکار ہے اور اس کی ذاتی
نمو کے لئے غیر اہم اور بے معنی ہیں۔
اس کہانی میں کمپنی کے نظام
مراتب کے بیان میں اس نے واضح کیا ہے کہ یہ
انسان کی عزت و تکریم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس میں انسان
مشین کا پرزہ بن کے رہ جاتا ہے۔اس میں کارکن مسلسل
اضطراب کا شکار رہتا ہے۔ اس کے سرکاری فرائض اوراحکامات میں غیر تسلسل
اور ابہام پایا جاتا ہےجو اس کی پریشانی میں اضافہ کردیتی ہےجس کا نتیجہ یہ نکلتا
ہے کہ وہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔دن رات انتظامیہ کے احکامات اس کے ذہن
میں انتشار پیدا کرتے رہتے ہیں اور اپنے اور لواحقین سے
روابط بتدریج کم ہوتے جاتے ہیں۔
کافکا کان
کنی کے عمل کو سیاہ ، پوشیدہ کام کہتا ہے جس میں
انسان کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ اس کا اعتمادکم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتاہے، غیر یقینی
صورت حال پیدا ہوجا تی ہے، اس کی مطابقت کے نظام میں انحطاط پیدا ہوتا ہےاور یہ
احساس پیدا ہوتا ہے کہ انسانی محنت شاقہ کا تعلق پراسرار
اشیاء سے ہے جس میں نہ تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کی وسیع پیمانے پراہمیت کیا ہے۔
اس کہانی میں کافکا
نے نے ارضی فرائض کو فرد کے لاشعور کو مجروح کرنے کا
نکتہ بیان کیا اور کہا ہے شعور، تحت الشعور اور لاشعور کی ساخت کی صراحت کیاہے۔اس
کے فلسفے سے بیسویں صدی کی ادبی تحریک شروع ہوئی جس میں لاشعور کی اہمیت پر زور دیا
گیا،اس میں واضح کیا گیا کہ مشینی زندگی میں انسان خود بھی میکانکی ہو جاتا ہےاور
اپنے جذبات و احساسات میں لطافت ختم ہوجاتی ہے، یہاں تک اس کا دماغ اس حد تک ماؤف
ہوجاتا ہے کہ اسے اپنا آپ بھی بھول جاتا ہے۔اس طرح انسان عزلت
ترسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اسے بند جگہوں ، بلند مقامات یا
مجمع سے بے جا خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔جذبات میں
میکانکی پن آجاتا ہے۔وہ تمام افعال لاشعور کے زیر اثر کرتا ہے جو انسانی دماغ کا
زمین دوز حصہ ہے۔
اس میں مفسر کا کردار مبہم ہےجس
میں جدید زندگی اور اس نظام پر کی گئی ہے جس میں نمائندوں کی بجائے
ریاستی حکام کے پاس ہوتے ہیں۔ہر کارکن کے فرائض کا تعین کیا جاتا ہے
اور اس کی سختی سے پابندی کروائی جاتی ہےاور جا بے جا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔اس طرح
سےانسان الگ الگ اور ممیز حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہےاور اس کی ذات ختم ہو کر
رہ گئی ہے۔ اس نے زبان کم و کاست اورمحدود رکھی ہے۔ لوگ
منظم طور پر اصول و ضوابط میں جکڑ دیئے گئے ہیں اور ان کے لطیف جذبات
دب گئے ہیں۔
کافکا کا اس کہانی میں ،میں اور
میرا'کا لفظ صرف ادبی لحاظ سے استعمال نہیں کیا بلکہ اسے
عمومی شکل دے کر عام انسان کی میکانکی حیثیت کا ذکر
کیا ہے۔ وہ فرض کیوں ادا کرنا ہے،اس سے کیا حاصل ہوگا،اور راوی کاکام اور اہمیت
کیا ہے کارپوریٹ، وغیرہ جیسے سوالات اضطرابی کیفیات پیدا کردیتے ہیں۔وہ واضح کرتا
ہے کہ مسلط کردہ انتظامیہ کارکنوں کا استحصال کرتی رہتی ہیں۔کارکن بد دلی سے فرائض
سرانجام دیتے ہیں۔اپنی ذات کو اجنبی سمجھنے لگتے ہیں۔
پاکستان اس نظام میں پوری طرح
دھنسا ہوا ہے۔حکومتی، کارپوریشن اور نجی ادارے سب اسے لاگو کئے ہوئے ہیں جو
کارکنوں کی آزادی مسلوب کردیتے ہیں۔رشوت بازاری،نااہلی اور سخت نظام
مراتب فرد کی شخصیت کو مسخ کر دیتے ہیں۔عدم مساوات،، جدت پسندی
اور آمرانہ نظام نے عوامالناس کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔
………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
8 Book
5 The Next Village
اگلا
گاؤں
The
Next Village
فرانز کافکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz
Kafka (Nobel Laureate)
میرا دادا کہا کرتا تھا' زندگی شاندار حد تک مختصر ہے،
اور یہ بات میرے حافظے میں پوری اتر چکی ہے ۔کسی کو کیابھروسہ کہ ایک
نوجوان پڑوس گاؤں اس یقین کے ساتھ بلا خوف
و خطر جائےکہ وہ کسی حادثے کا شکار نہیں ہوگایا زندہ پہنچ جائے گا اور
روح اور جسم کی ڈور کے ساتھ واپس آئے گا۔نارمل، خوشگوار زندگی کا وقت
اپنے قلیل سفر سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ میں نے اس کا سنہرا قول پوری طرح
اپنے پلے باندھ لیا ہے۔
تجزیہ
کافکا کی کہانی 'اگلا گاؤں( نیکسٹ
ولیج ) میں اپنے دادا جو معمر تھا کی زندگی کا نچوڑ بیان کرتا ہے۔اس کا ماننا ہے
کہ زندگی وقت کے ماتحت ہےجو ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔اس کا کوئی اعتبار
نہیں کہ اگلے لمحے کیا فیصلہ سنا دےکوئی شخص دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اگلے لمحے کیا
ہونے والا ہے۔ وہی پل اہم ہے جو تم گزار رہے ہو،اسے جی بھر کر جی لو۔وہ اپنے دا دا
کا قول بیان کرتا ہے کہ زندگی اتنی مختصر ہوتی ہے
، وہ اتنی مہلت بھی نہیں دیتی کہ اس یقین سے
کہ ساتھ والے گاؤں تک خیریت سے زندہ پہنچ سکیں یا وہاں سے
واپس آ سکیں۔
قاری جب پڑھتاہےکہ کوئی شخص بھی اپنی
زندگی کا گارنٹی نہیں دے سکتا اور بہت تھوڑاسفر بھی اعتماد اور بھروسے
کے ساتھ بخریت گزار سکتا ہے۔سانس کی ڈوری کسی
لمحے بھی ٹوٹ سکتی ہےاور سفر ادھورا رہ جاتاہے اور مقصد ناقابل تکمیل رہ
سکتا ہے۔
کہانی اس سے زیادہ نہیں بتاتی لیکن دادا کی
سوچ انتہائی گہری ہے ۔وہ وقت کا فلسفیانہ نظریہ پیش کرتا ہے
کہ وقت پنکھ لگا کر اڑ جاتا ہے۔کافکا اس کی وضاحت کے لئے ایک سادہ سی مثال پیش
کرتا ہے،وہ یہاں پڑوسی گاؤں کے سفر کی بات کرتاہےکہ انسان فانی ہے۔وہ اپنی مرضی سے
نہ جی سکتا ہے اور نہ مر سکتا ہےاور اس کی ہستی کی
نوعیت فانی ہے۔جو پل ہیں اسے جی بھر کے جی
لیناچاہیئے۔کہانی اختصارکے باوجود ، قاری کو کمک پیغام دیتی
ہے کہ وقت متغیر ہے۔ہر لمحہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ دنیا
ایک پڑاؤ ہے۔وقت جذبات و احساسات کی کانٹ چھانٹ تسلسل
سے کرتا رہتا ہے ،پتہ ہی نہیں چلتا۔ کسی شخص کے خواب وخیال میں نہیں آتا کہ اگلی
سانس نہیں آسکتی۔اگلا گاؤں ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔انسان کے
تمام منصوبے اور خواب دھرے کے دھرے رہ جاسکتے ہیں۔
کافکا اس کہانی میں 'اگلے گاؤں '
کا عنوان بین الاقوامی انسانوں کی فنا پذیری سے متعلق
ہے۔وہ سفر جو بظاہر سادہ ہے ،کے پیچھے گہرا فلسفہ
ہے۔منصوبہ طویل سالوں کا کیا جاتا ہے لیکن خبر نہیں ہوتی کہ اگلے
پل کیا ہوجائے۔۔۔یہاں تک کہ اعتدال پسند مقاصد بھی کبھی نہ رکنے والے
وقت سے بیچ میں رہ جاتے ہیں۔گاؤں کو دنیا سے تشبیہ دے
دی جائےتو ہ مقولہ دنیا کے ہر شخص پر لاگو ہو جاتاہے۔اس کہانی کی خصوصیت یہ ہے کہ
عمومیت کا عکس ہستی کی پرچھائیں میں نظر آتاہے۔اس کہانی کا اختصار آئینے میں دیکھا
جا سکتا ہے جس سے اس کی منطق گہرے طورپر اثر انداز ہوتی ہے۔راوی کے ذہن
میں عارضی پن اور دنیاسے کوچ کرجانے کا تصور پیدا ہوتا ہےاور اس کے
ساتھ ساتھ یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ اس کی تمام خواہشات کبھی پوری نہیں ہو
سکتیں۔
اس کہانی کا اہم موضو
ع زندگی کی ناپائیداری ہونا اور حیات میں وقت کا
محدود ہونا ہے۔ انسانوں کی امنگیں ، آرزوئیں اور مقاصدپورے ہوں یا نہ ہوں ،علم
نہیں ہوتا۔تاہم اگر زندگی مختصر بھی ہو توعین ممکن ہے کہ اس
کی آرزوئیں اور منصوبے پورے بھی ہو جائیں۔اس کے باوجود یہ بات طے ہے کہ
اس کا قیام تھوڑے عرصے کے لئے ہے۔ اس میں عبث اور
ناپائیداری پائی جاتی ہے جو ہمارے منصوبوں پر اثر
انداز ہوتی ہیں۔کسی مہم کی کامیابی کتنی ہی قریب کیوں نہ ہو، وقت چاہے تو مکمل
نہیں ہونے دیتا۔
کافکا چبھتا ہوا
بیانیہ اس کے نظریہ وجودیت کی تائید کرتا ہےاگرچہ یہ
کہانی انتہائی مختصر ہےلیکن اس کا اثر بہت گہرا ہے اوروہ سیدھا دل کو جا لگتی
ہے۔انسان کی ابتری اور عارضی پن کا ذکر کرتی ہے۔اس کے دادا کا بیان جو اس نے پڑوسی
گاؤں کے سفر کے بارے دیا ہے،بتایا کہ زندگی دھوکہ دیتی ہے۔وقت
کائنات کی تلخ حقیقت ہےاسے جب چاہے دنیا سے اٹھا لے۔وقت ہی
اسے مہلت دیتاہے اور وہی اس کا سانس لے اڑتا ہے۔
کہانی قاری کو دعوت دیتی ہے کہ وہ
اپنی اپنی زندگیوں پر نظر ڈالیں ۔۔۔اپنے منصوبے دیکھیں، کتنے کامیاب ہوئے ، کتنے
ناکام ہوئے اور کتنے درمیان میں رہے ۔یہ سب وقت کے مرہون منت ہیں۔ہر شخص کے پاس
محدود وقت ہے۔ایک طرح سے وہ اس مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے اس مقولے
پر پورا اترتی ہے 'بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔'
پاکستان میں یہ
مقہلہ پوری طرح لاگو ہے۔یہاں بھی اجتماعی طور پر اپنی خواہشات کی عدم
تکمیل یا تکمیل پائی جاتی ہے۔ان کی خواہشات کسی بھی شعبے سے : تعلیم،
تجارت ، ہجرت یا ذاتی نمو وغیرہ ، وقت کے دائرے میں آتے ہیں ۔یہ طے ہے
کہ دنیا کی تمام اشیاء کی طرح پاکستانی عوام نے بھی مرجاناہے۔ان کاتعلق سماجی،
سیاسی عدم استحکام پر ہے، یا کہا جائے تو وقت کی اجازت پر ہے۔یہ اشاروں کنایوں میں
بیان کرتا ہے کہ پڑوس گاؤں کا سفران پر لاگو ہوتا ہےجو
اپنی اعدادی حدود اورمنظم خطرات کو عبور نہیں
کرتا۔کافکا کا نکتہ وقت کی حد اس شئے کی عکاسی کرتاہے کہ افراد اپنی
زندگی میں جو تگ و دو کرتے ہیں کی کامیابی اور ناکامی یا ادھورے میں چھوڑ دئیے
جانے کا تعلق وقت کے ساتھ ہے۔پاکستان بھی اس عمل سے مستثنیٰ نہیں ،لیکن
وقت کا کنٹرول خدائے عزوبرتر کوہے۔
……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
9 Book
5 An Imperial Message
Book 5
Story 9
سلطانی پیغام
An
Imperial Message
فرانز کافکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz
Kafka (Nobel Laureate)
کہا جاتا ہے کہ ایک سلطان نے بستر
مرگ پرعام لوگوں ایک اہم شخص کو پیغام بھیجا، صرف ایک پیام،جو ایک بے
مصرف موضوع پر تھا،اس میں اس نے ایک غیر اہم اور حقیر
پرچھائیں کا ذکر کیا ، جو شہنشاہ کی سلطنت چھوڑ کر دوردراز مقام، پر منتقل ہو گئی تھی ۔اس نے پیغام
بر کو حکم دیا کہ وہ اس کے بستر پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کو وہ پیغام اس
کے کانوں میں آہستہ سے سنے ۔ بادشاہ نے یہ پیغام اس کے کان میں سرگوشی
کر کے دیا۔بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کا پیغام پوری ھرح سمجھ آگیا ہے تو
پیام بر نے ہاں میں سر ہلایا ۔یہ پیغام اتنا اہم تھا کہ اسے آگے
پہنچانے میں غلطی نہ ہو'کے لئے بادشاہ نے اسے کہا کہ وہ
پیغام من و عن اس کے کان میں سرگوشی میں بیان کرے، تو اس نے بادشاہ کے
کان میں سرگوشی کرکے دہرایا۔بادشاہ نے اپنا سر ہاں میں ہلا کر اس پیغام
کی صحت کی تصدیق کی۔
اب اس نے بادشاہ کے پیغام کو تیزی
سے اس شخص کے پاس پہنچانے کے لئے نکلا تو رستے
میں اس کی پرسی کے لئے ایک بہت بڑا اجتماع کھڑا تھا جس میں میں عہدوں
کے مطابق بادشاہ کے پرستار کھڑے تھے۔ ان سےنکلنے کے لئے قواعد کو ملحوظ خاطر رکھنا
پڑتا تھا۔۔۔نظام نےآگے بڑھنے میں دیواریں کھڑی کی ہوئی
تھیں۔ جاہ و جلال والے وزیر باتدبیر،اعلیٰ عہدے دار اور
درباری ایک اونچی بل کھاتی کشادہ سیڑھی پر کھڑےتھےگزرنے کے لئے رسمی
آداب ادا کرنا ضروی تھے۔ ایلچی سخت جان اور محنت کش
تھا۔وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے ادھرادھر کرتا ہوا
وہاں سے نکلنے لگالیکن قدم قدم پر حفظ مراتب آڑے آرہے
تھے۔۔، وہ اپنی چھاتی کی طرف اشارہ کرتا، جو بادشاہ کی طرف سے اجازت
نامے کی علامت تھی ۔وہ یہ اشارہ سمجھ کر اسے رستہ دے
دیتےاور وہ اتنی تیزی سے بھیڑ میں سے نکلنے لگا کہ کوئی دوسرا ایسا
نہیں کرسکتا تھا ۔لیکن وہ اکٹھ اتنا بڑا تھا؛ کہ ان کے مسکن لاتعداد
تھے۔جس سے مراد یہ تھی کہ ان کے قواعد کی پابندی لازم تھی۔اگر وہ ایک
کھلے میدان تک پہنچاہوتا تو کتنی آسانی سےتیزفتاری کرسکتاتھا لیکن محل
کی روائیتوں کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا۔اس
کی کوششیں رنگ نہ لائیں اور اتنی سرعت نہ دکھا
سکا اور اب بھی محل کے اندرونی ترین پرپیچ راستوں میں بھٹک
رہا تھا۔ اس سطح پر نظام مزید سخت ہو گیا تھا۔ اس میں خدشہ پیدا ہوا کہ وہ کبھی
وہاں سے نہ نکل پائے گا؛اور اگر کبھی کامیاب ہو گیاتو بھی وہ اپنا پیغام وقت پر
پہنچا نہیں پائے گا : اسے باہر جانے کے لئےمزید کوششیں کرنی ہوں گی اور
دالان عبور کرنا ہوگا۔اس کے بعد بادشاہ کے اصل محل سے جڑواں
ایک اور وسیع و عریض دالان تھا ،اس کے آگے پھر سیڑھیاں اور دالان (
یعنی ادارے ) تھے جو ہزاروں سالوں سے قائم تھے اور جن سے
ہوکر گزرنا تھا۔۔۔۔اور اگر کسی طور آخری دروازے سے خروج کر نے میں کامیاب ہو
جاتاجو اس کے لئے ناممکن تھا،۔۔۔توسلطنت کا پورا دارالخلافہ،جو دنیا کے مرکز میں
آتا تھا، آجانا تھا لیکن وہ مقام ابھی بھی اس کی رسائی سے دور تھا جس
نے اس کی تکلیف میں اضافے کا باعث بننا تھا۔اس کی ہمت تھی کہ بمشکل سے وہ ان
تنظیمی اداروں تک پہنچ چکا تھالیکن اس سے آگے وہ جاسکا اور اس کے پر جل گئے۔مرنے
والا دنیا سے رخصت ہوگیا۔ انچارج نے کہا، تم اپنی کھڑکی پر بیٹھ کرخواب دیکھتےر ہو
کہ شام ہو گی تو اسے پیغام پہنچا دینا۔۔۔۔۔
تجزیہ
سلطانی پیغام (این امپیریل میسیج
)فرانز کافکا کی فرضی کہانی ہے جس میں وہ ایک پیامبر کاذکر کرتا ہے جسے بادشاہ نے
دیا جو آخری دموں پرتھا۔بادشاہ اس وقت محل کے آرام دہ بستر پر پڑا تھا،
جو اس وقت تیمارداری کرنے والوں سے ُپر تھا۔وہ
پیغام رساں وہاں سے فوراً نکلنا چاہتا ہے لیکن اسے وزراء،
درباری، اعلیٰ حکام اور اعلیٰ
انتظامیہ میں سے گزر کر جانا ہوتاہے ۔ملکی قواعدو ضوابط
پورے کئے جانے پر ہی وہ وہاں سے نکل سکتا ہے ۔تاہم، اس محل
کی پیچیدہ ساخت میں بیٹھی
کثیر انتظامیہ اسے منزل مقصود پرپہنچ
ناممکن بنا دیتی ہے۔وہ ہمت نہیں ہارتا اور اپنی کوششیں جاری رکھتا ہے۔ وہ اداراتی
پابندیاں دور کرنے کی کوششیں جاری رکھتا ہے
اور وہ رکاوٹیں دور کر لیتا ہےلیکن اس میں وقت بہت لگتا ہے، آگے نئی
مصیبتیں پیش آجاتی ہیں۔ لیکن وہ محل کی بےشمار دیواروں،اور
دالانوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے جہاں نئے نئے اداروں
کے لوگ اپنے مطالبات لئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ شخص جو
بادشاہ کے پیغام کا انتظار کررہا ہوتا ہے، تک کبھی نہیں پہنچتا۔ یہ
کہانی ناامیدی پر ختم ہوتی ہے،جو اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس پیغام کو محل کے
اندر سے ہی تانے بانے بن کر دبادیا گیا ہے۔اور وہ شخص جس تک پیغام پہنچا ہوتا ہے ،
انتظار کرتا ہی رہ جاتا ہے۔
اس کہانی کا اہم موضوع ابلاغ میں
ناکامی اور انسانی کاوشوں کی نااہلی ہے۔
بادشاہ طاقت کل ، کامل ہستی اور اعلیٰ ترین انسان ہےجو ایک
عام شخص کو اہم پیغام رسانی کے لئے چنتا ہے۔وہ محل کے درودیوار اور
دالانوں میں گم ہوجاتاہے جو افسر شاہی کی علامت ہے جس کے نظام میں لال
فیتہ ایک بنیادی جزو ہے۔وہ اس کے فرائض کی راہ میں طرح طرح کی
پیچیدگیاں پیدا کرکے اسے اپنےمراتبی نظام سے نکلنے کا موقعہ ہی
فراہم نہیں کرتے۔یہ پیغام اہم ہےاور اسے فوری پہنچاناہے لیکن مجلسی
آداب اور طورطریقےاس کا قیمتی وقت برباد کردیتے ہیں۔پیغامبر پورے خلوص
کے ساتھ وقت پرمتعلقہ شخص کے پاس پہنچنا چاہتا ہے ،اس کی سامنے طرح طرح کی دیواریں
، دالان ،چھت وغیرہ جن میں حکومتی اداروں کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، حائل ہو جاتے ہیں
کیونکہ اسے نظام مراتب کے لوازمات پورے کر کے اگلے درجے پرپہنچنا
ہوتا ہے۔ اس نوکر شاہی کا بنیادی ڈھانچہ اسے مجبور کرتا ہے کہ اصول
وضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے اگلا مرحلہ طے کرے۔جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر
مرحلے پر کوئی کوئی غلطی نکل آتی ہے یا نکال دی جاتی ہےاور دیر ہو جاتی ہے۔اس لئے
اس میں کافکا نے اس میں انسانی رہنمائی اور معاونت کی ضرورت پر زور دیا
ہےتاکہ وہ کم سے کم غلطیاں کرکے تاخیر سے بچا جا سکے۔
کافکا اپنی کہانی
میں انسان پر معاشرے کی طرف سے جواداراتی پابندیاں عائد کی
جاتی ہیں ، میں زیادہ تر کو ناجائز قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کی وجہ سے
معاملات بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور ناحق
وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔اس کہانی میں اس نےمحل کو حکمرانی کے انداز سے
تشبیہ دی ہے اور تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے جو پابندیاں عوام پر نافذ کررکھی
ہیں مسائل حل کرنے میں تاخیر کا باعث بنتی ہیں۔اسی وجہ سے ابلاغ میں تاخیر ہوئی ہے
۔ایسی ناجائز رکاوٹیں بلاواسطہ انسانی ذہن پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں
جو ذہنی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔
بادشاہ کا پیغام اہم تھا
لیکن پہنچایا نہ جا سکا نظام کی ناکامی ہے: جو غلط فہمی یا قوتی
استعمال کی بدولت واقع ہوئی ہے۔قاری اسے پڑھنے کے بعد سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ
کیا اہمیت کے لحاظ سے پیغام زیادہ اہم تھا یا افسر شاہی کا نظام جس نے وہ پیغام آگے نہ لے جانے دیا۔
کافکا کا تجرد ،ُ سستی، غیر
معیاری کارکردگی ، اور ملتوی کردہ معانی تشریحات کا تقاضا ،
بیگانگی ، بے یقینی ،نااہلی جو ذاتی اور سماجی سطح پر ہوتی ہے، کا
احاطہ کرتی ہے ۔یہ اطلاق پاکستانی عوام پر بھی ہوتا ہے۔یہاں بھی حکمرانی
کا کڑا نظام ہے۔ قوانین جو عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے بنائے
گئے ہیں ، وہ انہیں راحت دینے کی بجائے اذیت دینے کے لئے استعمال کئے جاتے
ہیں۔نظام پیچیدگیوں کو بڑھاتا ہے۔آمرانہ سنسرشپ عائد ہے۔ابلاغ پر پابندیاں عائد کی
گئی ہیں جس کی وجہ سے افواہیں جنم لیتی ہیں جس سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہوتا
ہےاور اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا
ہے ۔حکومت خوشحالی اور امداد کا جو وعدہ کرتی ہے ،ناقص
اطلاق سے فائدہ ان تک نہیں پہنچتا۔یہ کہانی اس بات پر زور دیتی ہے کہ
نظام میں بامعنی تبدیلی لائی جائےتاکہ عوام سے جو وعدے کئے گئے ہیں بہ خوبی احسن
پورے کئے جا سکیں اور عوام میں پائی جانے والی یاس و نراش کی کیفیت کم ہو۔
……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
10 Book 5 The
Anxiety of the Head of Family
سربربراہِ
خانہ کی تشویش سربراہ ِ
The
Anxiety of the Head of Family
Franz kafka
( Nobel Prize)
فراننز کافکا ( نوبل انعام یافتہ) :
سی نے لفظ ' اوڈراڈک' 'کہا۔وہ سلاوی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ
اس قوم کے رسوم ورواج کے مطابق اس کی
پرورش ہوئی تھی۔جبکہ دیگر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جرمن تھالیکن سلاوی قوم نے اس
کی تعلیم و تربیت کی تھی۔اب ان دونوں کی تشریح غیر یقینی تھی اور اس کی
صحت معلوم نہیں تھی اس لئے ہمارے مطابق دو دونوں صحیح نہیں تھے کیونکہ
وہ صحیح صورت حال بتانے میں ناکام تھے۔
یہ فطری بات تھی کہ اس قسم
کے لوگوں میں کوئی بھی دلچسپی نہیں لیتا۔پہلی نظر میں اوڈراڈک' ناکارہ شخص لگتا
ہے لیکن اصل میں وہ منتشر شدہ مختلف
رنگوں کے دھاگوں کے پھندے کا امتزاج ہے ۔ وہ ایک سوتی
دھاگوں کی چرخی کی مانند نہیں ہے: ایک چھوٹی بیضوی چھڑی جو
بائیں طرف سے عمودی شکل میں ستارے کے وسط سےجڑی ہوئی
تھی اورایک دوسری چھڑی میں پیوست تھی
جس کی مدد سےایک لمبی چھڑی بن جاتی تھی جو ایک
طرف سےسیدھی اور دوسری طرف سے ستارے کا نقطہ بن جاتی تھی ۔اس طرح کی
ترتیب ٹانگوں کی طرح بالکل عمودی لگتی تھیں۔
اس کی تشریح کچھ لوگ ایسے کرتے
تھےکہ وہ ڈھانچہ مخصوص قسم کا ہواکرتا
تھا ، جو اب
ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن حقیقت میں :کم از کم اس قسم کی کوئی علامت نہیں ملی
تھی۔ہمیں اوڈراڈک'
کے جسم پر
بھی توڑ پھوڑنظر نہیں آتی تھی جو اس بات کو اجاگر کرتی کہ اس کے ساتھ
کوئی حادثہ پیش آیا تھایا بیماری سے ایسی شکل اختیار کر لی تھی؛ ایسی
خیالات کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ اوڈراڈک'کے بارے میں مزید تفصیل
نہیں تھی، اتفاقاً ،کوئی بھی ایسی شئے نہیں تھی جسے
مخصوص نکتہ بنایا جا سکتا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا ، جن میں میں بھی
شامل تھا کہاوڈراڈک' بہت
چالاک تھا اور پکڑا نہیں جاتا تھا۔
شہ
خانےکی سیڑھی ، دالان ، دہلیز پر وہ باری باری پر لٹکتارہا۔بعض اوقات وہ دنوں اور
مہینوں تک غائب بھی رہا؛ لگتا کہ وہ ضرورکسی دوسرے گھر میں منتقل
ہو گیا ہوگا؛ لیکن پھر وہ ہمارے گھر لازماً پلٹ آتا۔کبھی کبھار ،میں گھر آکرر دروازہ کھولتا
تواسے زینے کے کٹہرے پر لٹکتے پاتا، اورمیں اس کے ساتھ گفتگو کرنا
چاہتا۔ظاہر ہے کہ کوئی اس سے کوئی مشکل سوال نہ کرسکتا تھااور بچے کی
طرح چھوٹے چھوٹے بہلانے پھسلانے والے سوالات کئے جاتے جیسے:
'تمہارا نام کیا ہے؟' تو جواب میں کہتا 'اوڈراڈک'۔۔۔'تم کہاں
رہتے ہو؟'۔۔۔'کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں۔'وہ ہنستے ہوئے کہتا، لیکن اس کا قہقہہ واجبی
سا ہوتا جو پھیپھڑوں سے نہیں نکلتا تھا جس کی آواز موسم
خزاں میں پتوں کے جھڑنے کی ہوتی تھی۔اس کے بعد گفتگو اختتام کو پہنچتی۔
اتفاقاً اس کے جوابات دلچسپی سے نہیں دئیے جاتے تھے اور اوپر اوپر
سے پیچھا چھڑانے کے لئے دیئے جاتے تھے۔ کافی عرصے تک وہ لکڑی کی طرح
سیدھا اور گونگا بن کر کھڑارہتاتھا۔
میں اس کے بارے
میں بیکار باتیں سوچتا رہتا تھاکہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ کیا وہ اسی طرح بھٹک
بھٹک کر مرجائے گا۔جب کبھی کوئی زندہ رہتا اور مرتاہے تو اس کی کچھ تو
خواہشات ہوتی ہوں گی ، کچھ تو مقاصد ہوں گے، کچھ تو کرتا ہوگالیکن اوڈراڈک کے ساتھ
ایسی کوئی بات نہ تھی۔ہوسکتا ہے کہ وہ کبھی سیڑھیوں سے لڑھک کر ، اپنے دھاگوں کو
کھینچتا ہوا میرےبچوں ، یا بچوں کے بچوں کے سامنے
مرجائے۔یہ سچ ہے کہ اس نے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا تھا لیکن اس
کی وجہ سے میں بچ پاؤں گا ، کہنا مشکل تھا۔
تجزیہ
فرانز کافکا کے افسانے' سربراہ خانہ کی پریشانی'
( 'دی اینگزائٹی آف دی ہیڈ آف فیملی') میں ایک عجیب وغریب
مخلوق جو ہموار،سوت لپیٹنے کی چرخی کے ستارے کی طرح
جس کے ٹوٹے ہوئےڈنڈے کے کچھ دھاگے ٹوٹ گئےتھے، کی طرح کا
شخص ہے۔وہ اپنا نام 'اوڈریڈک ' بتاتا ہے ۔اس کی شخصیت معمے کی
طرح ہے ۔ میرے گھر کے کونوں کھدروں میں گھات
لگائے رہتا ہے۔وہ کہاں سے ، اورکیوں یہاں آ ٹپکا ہے ، معلوم نہیں۔یہ قصہ میرے گرد
گھومتا ہے، میں ایک گھر کا سربراہ ہوں۔ اوڈراڈک' کی اپنے گھر میں اور آس پاس کے گھروں میں منڈلانےسے پریشان
رہتا ہوں کیونکہ اس کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ وہ اگرچہ
میرے ، میرے بچوں اور میرے خاندان کے لئے غیر اہم اور بے
ضررہے لیکن اس کے باوجود وہ میری تشویش کا باعث بنتا ہےکیونکہ مجھے
شک ہے کہ وہ میرے بچوں، بڑوں پر کہیں اثرانداز ہونا شروع نہ کر
دے۔میں اس سے اس حد تک خائف ہوں اور سچ میں سمجھتا ہوں کہ
خالق نے اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا؟اس کا وہاں پایا جانا ہی میرے لئے بے سکونی کا
باعث ہے۔
مجھے خدشہ ہےکہ میری موت کے بعد
بھی وہ شخص اس علاقے میں پایا جائے گا اور میرے گھر میں
یا آس پاس بے مقصد موجود رہے گااور میری فناپذیری کے بعد
بھی ان کے مغز پر سوار رہے گا۔اس قسم کاتصور جس میں انسانی فہم و ادراک
سے بالا تر سیاق وسباق پایا جاتا ہے ،وہ فرانز کافکا کےادب
کا قنوطی اور بیہودہ عقدہ ہے۔
اس قصے کا اہم موضوع تشویش ہےجو
سربراہ خانہ کو لاحق ہوتی ہےجس میں وہ اپنی زندگی کو بے مقصد سمجھتا ہے۔
اوڈراڈک' معاشرتی منوال کی پیروی نہیں
کرتااوراس کی منطق ناقابل فہم اور مستقل ہے۔کافکا
منظم زندگی اور ابتری کے مابین تناؤمحسوس کرتا ہے ۔کس طرح
اتنا معصوم اور بے حس شخص ایک معقول
سربراہ خانہ کے معاملات پر اثر انداز ہو سکتا ہے،اس بات کی
دلالت ہے کہ انسان میں دوسرے پر کنٹرول کرنے اور دنیا کو سمجھنےکی
خواہش پائی جاتی ہے۔
اس قصے میں ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے اپنے خاندان اور دنیا چھوڑنے کا خوف بھی پایا جاتا ہے، اور راوی کو
یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ بےکار شخص اس کی محنت و مشقت کو مات
دے دے گا۔اس سے وہ اخذ کرتا ہے کہ انسانی کاوشوں کو معانی یا دنیاوی مقاصد
اور استقلال عائد کئے جائیں جس میں لوگ
موجود تو رہتے ہیں،؛ ان کی بقا بھی ہوتی ہے اور لیکن ان کی موجودگی ادنیٰ،
حقیر اور لغو ہوتی ہے۔۔کافکا کا یہ قصہ وجود اور بےمعنی زندگی دریافت
کے حصول پر مبنی ہے ، ایک عجیب و غریب اورناقابل تشریح
وجود کو، نامعقول قوتوں کے ساتھ جوانسانی کاوشوں کوعقل
پرستی کے ساتھ ملاتی ہے ،کا ذکر کرتا ہے ۔ کافکا نے جس طرح اوڈراڈک' کی وضاحت کی
ہے ، بے مقصد لگتی ہے۔۔۔جو قاری کو ترغیب دیتی ہے کہ وجود کے
بارے میں جو لغویات پائی جاتی ہیں کو دور کیا جائے۔راوی کا اوہام اور
وسوسوں کی تشویش انسانی کاوشوں کوسمجھنے اور نادیدہ قوتوں پر عبور حاصل
کرنے کا درس دیتاہے جس میں فناپذیری اور میراث پائی جاتی ہے۔اس کا
اوڈراڈک' کا اس پر سبقت لے جانے کا خوف ، اور اس
کی تشویش کو مزید بڑھاتی ہے۔بے جا اضطراری کیفیات
کی بدولت وہ سمجھتا ہے کہ اس کی اپنی ذات بھی اس
مخلوق سے کم اہم ہے،جو اس بات کی علامت ہے کہ کافکا نے بے طاقتی اور
انسانی حالات میں سمجھوتہ کر لیا ہے۔
اس افسانے میں
ناقدین نےکافکا کہ وجہ فکر اور بے جا خوف کی
وجوہات اخذ کی جاسکتی ہیں ، پیدائشی ہیں جو اس کی پیدائش کے وقت
اس کے جینیات میں منتقل ہوئی ہیں۔ وہ ایک ابلہ شخص جیسی خصوصیات
کاحامل دکھایا گیا ہےلیکن اس سے راوی کی بے سکونی میں اضافے کا باعث
بنتا ہے۔لیکن راوی نے اس کے نفسیاتی عوام کا ذکر تک نہیں کیا جس
نے اس کے معاونوں کو بے بسی میں مبتلا کردیا ہے، جس میں
قاری کو ان تمام سوالات کے جوابات نہیں ملتے۔
اوڈراڈک'کی غیرواضح شخصیت کی مختلف انداز میں تشریح کی جا سکتی ہے۔۔۔یہ ارثی بوجھ
، غیر حل شدہ تاریخ، ، یا بے معنی روایات جو ان تمام
کاوشوں کے باوجود کہ انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھا جائے ،کے
منطق کےبوجھ میں اضافہ کرتی ہیں۔اس لئے یہ قصہ مکمل طور پر حل کے بغیر
رہتا ہے اور حتمی فیصلے پر نہیں پہنچتا کہ اس کے اپنے دجود کے ہونے ،کیوں آیا، اس
کی زندگی کےکیا مقاصد تھےاور فناپذیری کے معاملات کا مقابلہ کرنے سے انکار کرتا
ہے۔
کافکا کی یہ
کہانی پاکستانی معاشرے سے مطابقت رکھتی ہےجہاں بہت سے
لوگ غیر مفصل یا ارثی پریشانیوں ۔۔۔خواہ وہ سیاسی عدم استحکام ہو،
سماجی منوال ہوں، یا نسلی تفاوت ہو،شامل ہیں ۔
اوڈراڈک، بیکار اور لغو شخص تصور کرتا ہے ہر وقت اس علاقے
میں موجود ہوتاہے کا تعلق ان مسائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جوتصفیہ طلب
ہیں ،جیسے رشوت ، عدم مساوات،یا ترک کردہ قدیم روایات۔۔۔جو نسل در نسل منتقل ہوتی
رہتی ہیں اور مستقل بے چینی اوربے سکونی کا باعث بنتی ہیں۔
کافکا کی کہانی اشاروں کنایوں میں اس بات کی دلالت کرتی ہے
کہ کتنے پاکستانی منظم چیلنجوں کا سامنا اوڈراڈک کی طرح
ا:سدا موجود، ناقابل تشریح، اور ذاتی کاوشوں سے لاتعلق رہ کر کرتے ہیں ۔
……………………………………………………………………………………………………………………
11 Book
5 Eleven Sons
گیارہ پسران
Eleven
Sons
فرانز کافکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz
Kafka (Nobel Prize )
میرے گیارہ بیٹے ہیں:
میرا پہلا بیٹاشکل و صورت
سے غیر پر کشش ہے، لیکن اس میں لگن ،شوق اور ہوشیاری پائی
جاتی ہے، تاہم ، میں اسے اپنے دوسرے بیٹوں کی طرح پیار کرتا ہوں۔ مجھے اس سے زیادہ
توقعات نہیں ہیں۔میرے نزدیک وہ بہت سادہ ہے۔وہ ادھر ادھر نہیں دیکھتااور نہ ہی دور
دیکھتا ہے بلکہ وہ چھوٹے دائرے میں بھاگتا رہتا ہے۔
دوسرا خوبصورت ہے، دبلا پتلا
،کسرتی جسم؛اور اسے ہمیشہ چوکنا پاکر مجھے خوشی ہوتی ہے۔وہ چالاک ہونے کے ساتھ
ساتھ نفیس عادات کا مالک ہے؛ وہ میرے آس پاس ہی رہتا ہے،یہی وجہ ہےکہ اسے
ہمارےمادر وطن سے مانوس ہے ،وہ سیر سپاٹ کا
شوقین ہے،اس لئے وہ ایسے بچوں کے جوہمیشہ گھر پر رہنا پسند کرتے ہیں ،سے زیادہ گھوتا رہتا ہے۔اس کی یہ خوبی
صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ لازمی سیروسیاحت ہی ہو؛ بلکہ
اسےتیراکی کا بچپن سے ہی شوق ہے۔ ہر تیراک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ میرے اس
بیٹے کی طرح بلند جگہ سے پانی میں چھلانگ لگائے یا پھر لمبے لمبے غوطے لگائے ۔ اس
کے حریف تیراکی کےاونچے تختے کے آخری سرے پراس کے
حوصلے ، مہارت اور جوش کی نقالی کی کوشش کرتے ہیں لیکن جوں ہی وہ تختے پر پہنچتے
ہیں تو بہت زیادہ بلندی چھلانگ لگانے کی بجائے بیٹھ جاتے ہیں اور کان
کو ہاتھ لگاکر معافی مانگتے ہیں کہ انہوں نے چیلنج کیا۔ان تمام باتوں کے
باوجود(کیا کہا جاسکتا ہے کہ میں اس سے خوش اور نہال ہوں،
کہا نہیں جاسکتا) ،میرےاس کے ساتھ ذاتی تعلق نہیں رہے۔اس کی
بائیں آنکھ دائیں آنکھ سے قدرے چھوٹی ہےاور وہ اکثر جھپکتی رہتی
ہے۔۔۔اس میں ہلکا سا داغ ہے جس سے عام تاثر ابھرتا ہے کہ وہ
بلا شک و شبہ ضدی اور گستاخ ہے، اگر داغ کی ساخت ایسی نہ
ہوتی تو وہ ایسا نہ لگتا۔،اور،اس کی بائیں آنکھ کے
متواتر جھپکنے کی وجہ سے اس کوگوشہ نشین اور عزلت میں
رہنا پڑتا ہے۔میں ،اس کے والد کو ، فطری طور پر اس کی بائیں آنکھ پر
ننھے داغ کے نقص پرکوئی مسئلہ نہیں لیکن اس سے اس کی نفسیات پر اثر پڑا
ہے، جو اس طرح کی ہوگئی ہے جو اس کے نقص سے مطابقت رکھتی ہے، جس نے اس کے پورے بدن
میں زہر پھیلا کر ضدی بنا دیا ہے،اور اس میں اس کی خوبیوں کو گہنا کر رکھ دیا
ہےلیکن اس کی قدرو قیمت میں جانتا ہوں کہ وہ چاہے تو ہر محاذ پر آگے نکل سکتا
ہے۔اس کے علاوہ ایک بات جو اسے میرا اصل بیٹا بناتی ہے،وہ
یہ ہے کہ اس کی آنکھ کی یہ خرابی ہمارے پورےخاندان میں ہے
اوروہ اکیلا ہے جس میں وہ منتقل ہوئی ہے۔
تیسرا بیٹا اس کی طرح خوبصورت ہے،
لیکن اتنا نہیں کہ وہ مجھے متاثر کرے۔اسے موسیقی سے محبت ہے،
موسیقی اس کا جذبہ ہے: اس کے بل کھاتے ہونٹ، خوابناک آنکھیں،وہ دماغ
جسے مؤثر کرنے کے لئے اپنے خیالات کو ڈھکے پردوں سے نکالنا پڑتا ہےتاکہ لوگ اس کی
آواز سے مسحور ہوں،غیرمحدود بڑھتی چھاتی، جلدی سے حیران ہونا اورفوراً اپنے ہاتھوں
کو چھپالینا،اور کمزور ٹانگوں سے آہستہ آہستہ چلنا کیونکہ ان میں تیز
چلنے کی سکت نہیں پائی جاتی، ایسی خصوصیات ہیں جو دوسروں سے مختلف ہیں۔۔اور اس کے
علاوہ،وہ اونچے ُسروں میں لے لگانے سے قاصر ہے، جو تمہیں دھوکہ دیتی
ہیں،اور کانوں میں گھولتے رس کو دبا دیتی ہیں۔، لیکن اس کے بعد وہ سانس لیتا ہے تو
آواز کا پورا اثر جاتا رہتا ہے۔تاہم،ہر شئے عمومی طور پر مجھے اکساتی ہے کہ میں اس
کے اس فن پر رائے دوں لیکن ،میں اس کا اظہار نہیں کرتا اور اس کی ستائش اپنے تک
محدود رکھتا ہوں۔۔۔اوروہ خود بھی اس معاملے میں خاموش ہی رہتا ہے۔۔۔اس
کی وجہ یہ نہیں کہ اسے اپنی کمزوریوں کا علم ہے بلکہ وہ ایسا اپنی
معصومیت کی وجہ سے کرتا ہے۔وہ خاندان سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے اور ایسا رویہ
رکھتا ہے کہ جیسے وہ ہمارے خاندان کا فرد نہیں، اور اگر وہ افسردہو جائے تو کوئی
اسے اس سے باہر نہیں لاسکتااور اسے کوئی اسے ہنسا نہیں سکتا۔
چوتھا بیٹا حسن سلوک
میں بہترین تھااور اس کے ساتھ دکھ سکھ کئے جا سکتے تھے۔وہ
اپنے دور کاسب سے اچھا بچہ تھا، اس کو ہر کوئی سمجھتا تھا۔اس کا نقطہ نظر وہی ہوتا
تھا جو سب کا ہوتا تھااور ہر شخص اس کی تعریف کرتا تھا۔شائد اس کی ہر
دلعزیزی تھی کہ اس کی بات سب آسانی سے سمجھ جاتے
تھے، وہ اپنی حرکات و سکنات میں آزاد و خودمختار تھا، کسی حد تک خوش
مزاج تھا اور اپنے فیصلے کرسکتا تھا۔لوگ اس کی کچھ باتیں مقولے کے طور
پر دہراتے تھے۔۔۔صرف کچھ باتیں، یقیناً، لیکن مجموعی طور پر اس کی باتوں میں
گہرائی نہیں ہوتی تھی اور وہ بہت تیز بولتا تھا۔وہ اپنی تعریف پر اونچا
اڑنے لگتا تھا ، سانس لیتے وقت وہ اپنے اندر ہوا ایسے گزارتا جیسے کہ
وہ اسے نگل رہا ہو اور پھر یک لخت اڑتی گرد کی طرح چھوڑ
دیتا جاتا۔گفتگو کے درمیان وہ ایسا تاثر دیتا تھاکہ اس نے
خیالات تبدیل کر لئے ہیں لیکن حقیقت میں اس کا رویہ تبدیل
نہیں ہوتا تھا۔اس کا یہ رویہ اس کی شخصیت کو
منفی بنا دیتا تھا۔
پانچواں بیٹا پیارا اور عمدہ
تھا؛وہ ہمیشہ ایسے وعدے کرتا تھا جنہیں وہ نبھا سکے؛ وہ خود کو اتنا غیر نمایاں
رکھتا کہ اس کا ہمراہی خود کو تنہا سمجھتالیکن پھر بھی اس نے کچھ نہ کچھ عزت کمائی
ہوئی تھی۔اگر کوئی پوچھتا کہ اس کی شخصیت ایسی کیوں کر بنی تو میرے پاس اس کا کوئی
جواب نہ تھا۔ دنیا ،
شائد،کسی کی معصومیت پر بڑی
آسانی سے اپنا غصہ نکال سکتی ہے،۔۔۔ اور وہ معصوم
تھا۔شائد ضرورت سے زیادہ معصوم۔وہ ہر ایک کا دوست تھا۔، بلکہ یوں کہو
،کہ کچھ زیادہ ہی دوست تھا۔مجھے اعتراف ہے:جب کوئی اس کی یا اس جیسے کسی شخص
کی تعریف میرے سامنے کرتا تھا تو نہ جانے کیوں میں کراہت محسوس کرتا
تھا۔
میرا چھٹا بیٹا، پہلی نظر میں، سب
سے متحمل لگتا تھا۔وہ کھویا کھویارہتا تھا لیکن جب بولنے پر آتا توبے
تکان بولتا تھا۔اگر وہ ہار جاتا تو اس پر شدید افسردگی طاری ہو جاتی تھی، اور اگر
جیت جاتا تو وہ اپنی شیخی جاری رکھتا، اس لئے اس کے ساتھ گھلنا ملنا آسان نہیں
تھا۔لیکن میں اس بات سے انکار نہیں کروں گا کہ وہ تیزی سے بھول جاتا تھا؛ دن کی
روشنی میں وہ اپنے افکار یاد کرنے کے لئے ایسے کوشش کرتا جیسےکہ وہ کوئی خواب دیکھ
رہا ہو۔بیمار ہوئے بغیر۔۔۔دراصل ، اس کی صحت بہت اچھی تھی۔۔۔وہ کبھی
کبھار لڑکھڑاتا،، خصوصاً چاند کی روشنی میں، لیکن وہ کبھی نہ گرتا،اسے
کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کی جسمانی نموتھی، کیونکہ
اس کا قد اپنی عمر کے لحاظ سے بہت لمبا تھا،اس لئے متوازن
جسم نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے ڈھنگا لگتاتھا۔ اس کا
چہرہ ایسا تاثر دیتا تھا کہ وہ بد صورت ہے حالانکہ اس
کے نین نقش الگ الگ دیکھے جائیں تو وہ پرکشش تھے لیکن مجموعی طور
پر وہ خوبصورت نہیں لگتا تھا۔مثال کے طور پراس کے ہاتھوں اور
پاؤں بدصورت تھے۔اتفاقیہ طور پر اس کے ماتھے میں بھی کشش نہیں تھی؛ اس
کی وجہ یہ تھی کہ اس کی جلد اور اس کی ہڈیوں کی نمو میں کمی
رہ گئی تھی۔
ساتواں بیٹامجھے سب سے
اچھا لگتا تھا۔لوگ اس کی تعریف نہ کرتے تھے؛اس کی
اعلیٰ مزاح حس لوگوں کو سمجھ نہیں آتی تھی۔کوئی
اس پر ذرا سے کھل کر ملتا تو حد سے بڑھ جاتا تھا اس لئے
میں اسے ضرورت سے زیادہ سر پر نہیں چڑھاتا تھا؛میں جانتا تھا کہ وہ ایک
عام سا لڑکا تھا؛اگر اس میں جسمانی نقص نہ ہوتاتواسے غلطیوں سے پاک
سمجھا جاتااوردنیا اس کی تعریف کرتی۔خاندان میں میں اس کی شمولیت پسند
کرتا تھا۔وہ روایات کی حمائت اور مخلالفت دونوں کرتا تھا، کم از کم میں اس کا یہ
رویہ مناسب سمجھتا تھا۔تاہم ، وہ خود بھی نہیں جانتا تھاکہ وہ حق یا
مخالفت میں کیوں گیاتھا ،۔۔۔شائد رو میں بہہ کر بول دیتا تھا؛ اس کے رویے سے لگتا
تھا کہ اس کے ہاتھ خوش قسمتی کا پہیہ نہیں آئے
گا؛ میں چاہتا تھا کہ اس کے اپنے بچے ہوں،اور باری آنے پر ان کے بچوں کے بھی بچے
ہوں۔بدقسمتی سے میری خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی۔اپنی خوش اخلاقی سےجسے
نہ تو میں سمجھ سکتا ہوں اور نہ ہی اس کی خواہش کر سکتا ہوں، لیکن جن کے وہ درمیان ہوتا ، اس کا
رویہ عجیب ہوتا اورلوگوں سے متضاد ہوتا، جو اسے
تنہا کردیتا، وہ حیران ہوتا کہ لوگ اسے کیوں چھوڑ جاتے تھے۔ اسے لڑکیوں
میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ، اس لئےاس کے موڈ میں اتار چڑھاؤ یک دم نہیں آتا تھا۔
میرا آٹھواں بچہ ایک
مشکل بچہ ہے،جسے اچھے برے کی تمیز نہیں اور کوئی نہ
کوئی مسئلہ کھڑا کرتا رہتا ہے۔اور ایسا کیوں بنا ہے ،میری سمجھ میں
نہیں آئی۔وہ مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھتا ہےلیکن پھر بھی میں اسے
پدرانہ ُانس سے دیکھتا ہوں۔وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ وہ ایسا بنا ہے؛اور اس کے بارے میں برے برے خیالات آنے
پر اپنے کندھے جھٹک دیتا ہو ں۔وہ اپنی من مانی کرتا رہتا ہے،مجھ سے
تمام رشتے منقطع کر چکا ہے؛ اس کی کھوپڑی میں یہ گھس گیا ہے کہ وہ
اعلیٰ کھلاڑی ہے ، اس لئے اپنی کمزور ٹانگوں کے باوجود اتھلیٹ بننے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔میں
اس کا حال احوال اکثر پوچھتا رہتا ہوں، اور اس سے جاننا چاہتا ہوں کہ وہ مجھ سے
کھنچا کھنچا کیوں رہتا ہے، اور وہ کیا کرنا چاہ رہا ہے، وہ اس حد تک
پہنچ گیا ہے۔اس مرحلے تک پہنچنے کے لئےاسے ایک مدت لگی ہے،اس کا کچھ نہیں
ہو سکتا، اسے اپنے آپ پر چھوڑ دینا چاہیئے۔میرا صرف وہ بیٹا ایسا ہےجس نے پوری
داڑھی رکی ہوئی ہے اور اتنے کوتاہ قد پر بالکل اچھی نہیں لگتی۔
میرا نواں بیٹا باوقار ہےاور لڑکیوں کی طرف مائل ہےاور ان کی طرف
ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا ہےاورانہیں رام کرلیتا ہے ۔اس کی نظروں میں اتنی کشش
ہے کہ وہ مجھے بھی کبھی کبھار متاثر کرلیتا ہےاور مجھے معلوم ہے کہ اس کی مستی پل
بھر میں دور ہو جاتی ہے، لیکن اس لڑکے میں یہ عجیب بات ہے کہ اس کا لڑکیوں کو اپنی
طرف راغب کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا۔وہ تمام عمر صوفے پر چھت کی طرف
ٹکٹکی باندھ کر گزار سکتا ہے ۔اگر وہ اس موڈ میں ہو کہ وہ منہ کھولے اور بات
کرے تو اس دوران گفتگو کرنا پسند کرتا ہے، اور
اس وقت وہ اچھی اچھی باتیں کرتا ہے؛ وہ تیز اور درشت زبان استعمال کرتا ہے؛ لیکن
صرف محدود سطح پر؛لیکن اگر وہ اس سے آگے بڑھے ، تو لوگ اسے تنگ نظر سمجھتے ہیں
۔اگر انجمن میں یہ احساس پیدا ہو جائے ،تووہ سطحی باتیں کرنے لگتا
ہے، اس کی گفتگو کھوکھلی ہو جاتی ہے۔اس وقت اگر اس کی مخمور
آنکھیں تم پر آکر رک جائیں تو تم اسے یہ کہہ دو کہ بولنا بند کر دو تو اس وقت اس
کی ذہنی کیفیت کے تحت وہ بات چیت بند کر دے گا۔
میرا دسواں بیٹا خود غرض ہے۔میں ا
س کی یہ عادت مکمل طور پرنظرانداز نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جب تم
اسے اتنی متانت سےجو اس کی عمر سے بڑھ کر ہے،بٹنوں والے کوٹ میں، ایک
پرانا سیاہ ہیٹ پہنےجسے برش سے اچھی طرح صاف کرکے پہن رکھا
ہو، سنجیدہ چہرہ لئے، اپنی کسی حد تک ابھری ہوئی تھوڑی کے
ساتھ، بھاری پپوٹوں میں ، اپنی اٹھی ہوئی دو انگلیوں کے ساتھ دیکھو تو
تمہارے کے ذہن میں یہ تاثر ابھرے گا کہ: یہ
شخص پورامکار ہے، اور جب وہ گفتگو کرے
تو!وہ معقول ؛ سوچی سمجھی ؛فصیح و بلیغ ؛ ظالمانہ شوخی سے
لیت و لعل والی؛ خود بخود واضح ہونے والےدلائل سےبھرپور، خوش باش طریقے
سے ادا کی گئی ؛ سر کو فخر اور غرورسے اونچا اور گردن اکڑاکر ہم
آہنگی سے کی جائے، تو تمہاری سوچ تبدیل ہو جائے گی، تم اس کے سحر میں
بتلا ہوجاؤگے؛ خود کو بڑا عقلمند سمجھنے اور یہ یقین کرنے کے باوجود کہ وہ دھوکے
باز ہے، تم اس کے جال میں پھنس جاؤ گے۔۔۔ اس کی انکارکرتی ہوئی نگاہیں
سختی سے اس کی باتوں میں بھی نظر آئیں گی۔اس کے علاوہ کچھ
لوگ ایسے بھی ہیں جواس کی ایسی نظروں اور گفتگو کو نظرانداز کر نے میں
کامیاب ہو بھی جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔میں ، بطوروالد،
ایسی خواہش نہیں رکھتاکہ اس کے بارے کوئی فیصلہ کروں، لیکن مجھے یہ بات ضرور تسلیم
کرنی چاہیئے کہ پہلے والوں کی نسبت بعد میں آنے والے ناقد اسے
زیادہ سنجیدگی سے لیں گے۔
میرا گیارہواں بیٹا نرم و نازک
ہے، جو شائد تمام بیٹوں سے کمزور ہے؛ لیکن اس کی یہ کمزوری دھوکہ دیتی
ہے: تمہیں وہ کبھی کبھار بہت مضبوط اعصاب کا مالک اورثابت
قدم لگتاہے؛ لیکن اس وقت وہ اندر سے وہ ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔
اس کی یہ کمزوری ایسی نہیں جس پر شرمندگی پیدا ہو۔ اصل میں
وہ کمزوری نہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ اسے
کمزوری سمجھتے ہیں۔کیا ہر وقت اڑان کرنے کے لئے تیار رہنا ؛
تذبذب ، اضطراب اور غیر استقلال پن کمزوری ہے! میرا بیٹاکوئی
انہونی بات یا ایسی حرکت کرتا ہے جو معاشرتی طو رپر قابل قبول نہ
ہو یا ایسا کام کرتاہے جو اس کی استطاعت سے مطابقت نہ رکھتا ہو، تو وہ مجھے
بطور باپ پسند نہیں آئے گا؛ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ جان بوجھ کر
میرے خاندان کو نقصان پہنچانا چاہ رہا ہے۔ بعض اوقات وہ میری طرف ایسے
دیکھتا ہے جیسے وہ کہہ رہا ہو،'میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گابابا۔'یہ وہ لمحہ
ہوتا ہے، میں سوچتا ہوں،'تم آخری شخص ہو گے جس پر میں اعتبار کروں گا۔'اور اس کی
آنکھیں مجھے یہ پیغام دیتا دکھائی دیتی ہیں:'میرا بھلا اتبار نہ کرو،کم از
کم مجھے اپنا ہی سمجھ لو۔'
یہ میرے گیارہ بیٹے
ہیں۔
تجزیہ
'گیارہ بیٹے (الیون سنز) فرانز کا
فکا کی وہ کہانی ہے جس میں ایک فکر مند والد
اپنے گیارہ بیٹوں کے بارے میں خود کلامی کرتا رہتا
ہے۔وہ ان کا انوکھے انداز میں تعارف کراتا ہے۔
وہ اپنی تمام اولاد سے شدید محبت کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ
ساتھ بعض معاملات میں ان سے مایوسی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ان میں کئی بیٹے
فرمانبردار اور لگن سے کام کرتے ہیں اور کئی سست اور سرکش ہیں۔ہر بیٹے
میں خوبیاں اور خامیاں ہیں، جن کی نوعیت مختلف ہے۔ والد میں پسندیدگی
اور فخر کے ساتھ ساتھ غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔وہ بعض اوقات محسوس کرتا
ہےکہ انہیں بالکل پیدا ہی نہ کرنا چاہیے تھا۔بیٹے اصل میں ، اس کی اپنی
شخصیت کا پرتو ہوتے ہیں ۔کسی نے اس کی شخصیت کا ایک پہلو اپنایا ہوتا ہے اور کسی
نے دوسرا۔کسی کی میراث میں اس کی خواہشات یا
خوف آئے ہوتے ہیں۔ اس کی منتشر لیکن مانوس تصویر
کشی سے کافکا، شناخت ، تخلیق،اور تصور ذات کے موضوعات شامل
کرتا ہے۔والد کی کشمکش والے احساسات ، انسانی روابط میں پیچیدگیاں خواہ
ادبی ہوں یا علامتی ، نمایاں کرتا ہے۔قاری بیٹوں اور والد کی شخصیت کی
ماہیئت کے بارے میں سوچتا رہ جاتا ہے۔
اس افسانے کا اہم
موضوع شخصیات اور ان
کی ذاتیات ہیں۔کافکا گیارہ بیٹوں کے بارے میں وصائف کا ذکر کرتا ہے ، وہ دراصل والد کی اپنی
شخصیت کو اشاروں کنایوں میں ، پیش کرتا ہے۔اس
کہانی میں والد کی اپنی اولاد سے چاہت، دوجذبی جس میں پسندیدگی کے ساتھ بعض
معاملات میں نا پسندیدگی پائی جاتی ہے، کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں ایک اور
اہم پہلو اپنی تخلیق کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہے۔۔۔اس میں بیٹوں کی جس قسم کی
شخصیات ہیں ، وہ کافکا نے علاماتی انداز میں اپنی ذاتی بیان کی ہیں ۔اپنے ادب کا
ذکر کیا ہے جو کسی بیٹے میں پیش کیا گیا ہےجس میں سے کچھ پر وہ مطمئن ہوتا ہے اور
کچھ پر دل شکن اور مایوس ۔
یہ کہانی انسانی
خصوصیات کے مختلف پہلو اجاگر کرتی ہے جس وہ اس نظریے کی تائید کرتا ہے
کہانسان مکمل طور پر فرشتہ نہیں ہوتا بلکہ ہرایک میں خامیاں
بھی پائی جاتی ہیں اور اسے اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا چاہیئے۔اس نکتے
کے علاوہ وہ اپنے بیٹوں میں اجنبیت اور مانوسیت دونوں کو شامل کرتا
ہے۔ضبط نفس، خودمختاری ،، محبت اور ناراضگی لازمی اجزا ہیں جو انسان
میں پائے جاتے ہیں اور ہم عمر بھر ان کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔
اس کہانی میں کافکا انائیت
پرستی،اور تخلیق میں گہرا تعلق بیان کرتا ہے، جو والد کی سوچ اور
اندیشوں میں مسخ شدہ حالت میں پائی جاتی ہیں۔گیارہ بیٹوں کے بارے جو باتیں کی گئی
ہیں ،ان میں تضادات ہیں جو یا تو کافکا کے اپنے ادبی سفر سے متعلق ہیں
جن میں کچھ کو وہ شاندار اور کچھ کو غیر معیاری کہتا
ہے یا پھر اسے بیٹوں کے والد کی اپنے فخر،محبت،اور مایوسی کے آئینے میں دیکھ
کرپیچیدہ احساسات پیدا کرنے والے گردانتا ہے۔خواد وہ بچے ہوں،فن ہو،یا
افکا ر ہوں۔یہ بیان کہ اس نے اپنے بیٹوں کو تخلیق نہیں کیا ہوتا، تجویز
کرتی ہے کہ وجودپر سوالات کرنے کی ذمہ داری اور خود
مختاری پر ضبط کر لیا جاتاہے۔ ہم جو چیز تخلیق
کرتے ہیں ، یا وہ اپنی جانیں لیتے ہیں؟ نفسیاتی وزن لئے ہوتی ہے۔اس کا
ہر بیٹا نہ صرف اصول اول (آرکی ٹائپ) بلکہ بیان بنانے والے کا شعور ،
اورنمونہ جومختلف اقوام کی ثقافت کو جمع کرکے بنایا جاتا ہے والی شناخت بنائی جاتی
ہے۔یہ کہانی کی تکمیل کا نہ ہونااور عدم
اطمینان بیان کرتی ہے ۔ کافکا اپنے ادب میں
تحفظات کا اظہار کرتا ہےاور اپنے قارئین کوروابط کے
ابہام کو قدرتی قرار دیتا ہےجو داخلی اور
خارجی سطح دونوں کے ہوسکتے ہیں۔گیارہ بیٹےکی کہانی قاری
میں غورو فکرپیدا کرتی ہے کہ ہر شخص منفرد ہے ۔اس میں کس
طرح سوجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے،اور کس طرح وہ دنیا کی حیاتیاتی اور
اشاراتی کنایاتی اقدار پیدا ہوتی ہیں۔
پاکستان میں نسلوں
شناختوں کے متنازعہ روابط پائے جاتے ہیں۔کافکا کی
کہانی گیارہ بیٹے پاکستان کے متنوع سماجی اداروں کی
نمائندگی کرتی ہے جن میں ثقافتی،سیاسی، مذہبی پہلو شامل ہیں۔۔۔ہر ایک
کے مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی۔ والد کی اپنے بیٹوں سے دو
جذبیت یعنی محبت اور نفرت کی طرح کے جذبات عام
لوگوں میں اپنے ملک کے بارے میں بھی پائے جاتے ہیں:محبت کرنے والے اپنے ملک کی
پالیسیوں سے نالاں ہیں ۔یہ کہانی جدید اور روایات میں توازن پیدا کرنے
کے چیلنچ کو پاٹنے کی کوشش کرتی ہے۔
…………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
12 Book 5 A
Fratricide
برادر
کشی
A Fratricide
فرانز کافکا (نوبل انعام یافتہ)
Franz Kafka
( Nobel Laureate)
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قتل مندرجہ ذیل
طریقے سے کیا گیا:
یہ قتل شیمار نے کیا ۔وہ وقوعہ کی رات نو
بجے کی چاندنی میں چھپ کر
ایک کونے میں کھڑا تھا جہاں سے مقتول ویئس نے گزرنا
تھا۔وہ اس کے دفتر کی گلی میں جو اس کی رہائش کے نزدیک تھا، دھاک لگائے
تھا۔
رات سرد تھی اور لوگ ٹھٹھرکر اپنے اپنے
گھروں میں بند تھے۔شیمار نے نیلا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا؛ علاوہ ازیں ،
اس نےکوٹ کے بٹن بندنہیں کئے ہوئے تھے۔اسے سردی
محسوس نہیں ہورہی تھی، اور وہ ایک جگہ پر ساکت نہیں تھا بلکہ مسلسل ادھر ادھر چکر
کھا رہا تھا۔اس نے آلہ واردات پر اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی تھی، اس کے پاس
چھری،باورچی خانے کا چاقو تھے جو پوری طرح نظر آ رہے تھے۔اس نےچاندنی
میں چاقو کا جائزہ لیا تو اس کا پھل چمکا؛لیکن وہ اس سے مطمئن نہ ہوا؛اس نے اسے
سڑک کی اینٹوں کے فرش پر مارا،اس سے شعلے لپکے لیکن اس سے کوئی
اینٹ نہ ٹوٹی،اسے افسوس ہوا کہ اس کی دھار بہت زیادہ تیز نہ تھی، اس لئےوہ ایک
ٹانگ پر کھڑے ہو دوسری اٹھی ہوئی ٹانگ کے چمڑے پر جھک کر بڑے جوتوں پر
وائلن بجانے کی طرح ادھر ادھر رگڑ کراسے تیز کرنے لگااور اس کی آواز سے اندازہ
لگانے لگا کہ کیا وہ نوکیلا اور دھار دار ہوگیا
تھا۔اس کے ساتھ اس کی تیز نظریں گلی پر نظر رکھے ہوئی تھیں۔
ایک شہری پالاس ،اس
وقت شیمار کے قریب تھا'اپنی دوسری منزل کی کھڑکی
سےاس کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا تھا۔ اس کو شک ہوا کہ کسی بڑی واردات کی تیاری کی
جارہی تھی ۔وہ چاہتا تو اسے روک سکتا تھالیکن اس نے ایسا نہ کیا اورپورا واقعہ
دیکھنے کا پلان بنایا۔اس نے یہ سب کیوں کیا، سمجھ سے باہر ہے۔اس نے
اپنے کالر کو کھڑا کیا، سر ہلاتے ہوئے اپنے جُبے کوپٹی سے اپنی کمر سے باندھا اور
کھڑکی سے نیچے دیکھا۔
اور اس سے پانچ
گھرمزید آگے،ڈھلوان تھی، کے کونے میں، مسز
ویئس اپنے خاوند کا انتظار کر رہی تھی جو اپنے دفتر سے جو نزدیک ہی
تھا، اور اس کے دفتر کی آوازیں اس کے گھر تک پہنچتی تھی، پہنچنے والا تھا۔
آخر کار ویئس کے
دفتر کی چھٹی کی گھنٹی بجی۔اس کی آواز دور دور تک ،یہاں تک
کہ آسمان تک پہنچتی تھی۔ مسز ویئس نے گھنٹی کی آواز صاف سن
لی اور سوچا کہ وہ چند منٹوں میں ہی گھر پہنچ جائے گا۔ ویئس کو رات کی
ڈیوٹی پسند تھی۔وہ چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی ہراول کے طور پر
فوراً نکل آیا کرتا تھالیکن آج اسے چند منٹوں کی دیر ہو گئی
تھی۔۔۔اچانک گلی میں اس کے پاؤں کی چاپ سنائی دینے لگی۔
پالاس اس وقت کھڑکی پر مزید
جھکا،وہ اس رات کا پورا منظر دیکھنا چاہتا تھا۔مسز
ویئس کو جب یقین ہوگیا کہ چھٹی کی گھنٹی بج چکی ہے تو اس نے اپنی کھڑکی
بند کر دی۔لیکن شیمار جھکا؛ اس کے پاس چھری اور چاقو کے
علاوہ اور کچھ نہیں تھا،اس لئے اس نے انہیں نہ چھپایااور اپنا چہرہ اور
ہاتھ سر دیوار کے پتھر سے جو اتنی یخ تھی کہ کوئی اور ہوتا
توجم جاتا، لگا کر کھڑا ہو گیا۔اس کا جسم اس وقت آگ کی طرح
گرم تھا۔
وئیس اس مقام پر جہاں گلی دوحصوں
میں تقسیم ہوجاتی تھی ، پر ایک لمحے رکا۔وہ اس گلی میں اپنی بید
کی چھڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔نیلے آسمان کی تاریک اور
سنہری چاندنی اسے لبھا رہی تھی۔بغیر جانے بوجھے اس نے ادھر دیکھا
اور اپنا ہیٹ اٹھا کر ہاتھ اپنے سر پر پھیرا۔آسمان صاف تھا
اور برفباری یا خراب موسم کی پیش گوئی نہیں تھی؛ہر ایک شئے معمول کے مطابق اپنی
اپنی جگہ پر قائم تھی۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہونا چاہیئے تھااوروئیس
روزانہ کی طرح پیدل چل کر خیریت سے صحیح سلامت پہنچ جانا
تھا،لیکن اسے اپنے نام پکارنے کی آواز آئی۔
ویئس نے چیخ کر 'شیمار' کہا، جو
اس وقت اپنے پنجوں پر کھڑا تھا۔اس نے اپنا چھرااپنے بازو کی آستین سے نکالا، اور
اس کے پیٹ میں یہ کہتے ہوئے مارا ،' وئیس جولیا گھر میں بے کار تمہارا انتظار
کررہی ہے۔!'اور شیمار نے اس کو دائیں طرف سے اس کے گلے پر
وار کیا۔اس کے بعد چھراوہاں سے نکال کر بائیں نرخرے میں مارا اور تیسرا وار اس کے
پیٹ پر کیا، اس کی انتڑیاں پھٹ کر باہر آگئیں۔
'ختم شد! شیمار نے کہا۔اس نے چھرا زور سے باہر نکالا تو وہ
خون سے لت پت تھا۔خون کے فوارے پھوٹ رہے تھےجس کی دھاریں نزدیکی گھر کے دروازے پر
پڑرہی تھیں۔ شیمار نے کہا، ' سرورآگیا!راحت، دوسرے کے بہتے خون کا نشہ کتنا دلکش تھا ویئس ! پچھلی رات
کا گہرا ساتھی،بھائیوں سے پیارادوست، ، ہم نوالہ و ہم پیالہ۔۔۔تم اب ایک تاریک اینٹوں
کی ٹھنڈی سڑک پر پڑے ہو۔تمہارا پیٹ اگر خون سے بھرا ہوتا تو میں اس پر
بیٹھ کر جشن مناسکتا تھااور تم بالکل غائب ہو جاتے۔ہر شئے سچ نہیں ہوتی۔ہر ِ کھلتی شئے پر پھل نہیں لگتے،تمہاری بھاری لاش
یہاں پڑ ی ہے، جو پہلے ہی غیر اثر پذیر ہو چکی ہےاور اسے ٹھوکریں ماری جا سکتی
ہیں۔اور تم بیکار سوالات کیوں کررہے تھے؟''
پالاس، کا خوفناک منظر دیکھ کر دم
گھٹنے لگااور اپنے دو پٹ والے دروازے پر جو پورا کھل جاتا تھا، کھڑا رہا۔وہ
'شیمار! شیمار!چلانے لگا۔ہر ایک شئے اس کے سامنے ہوئی تھی، کوئی چیز ایسی نہیں تھی
جو وہ دیکھ نہ سکا ہو۔شیمار اور ویئس ایک دوسرے کے قریبی دوست تھے۔شیمار
نے وئیس کوقتل کیوں کیا؟ وہ عینی شاہد کیوں نہ بنا؟اسے ماؤف
کر رہے تھے۔
مسز ویئس ،ہجوم میں گھری،
دہشت زدہ چہرے سے زرد ہو رہی تھی۔اس کے خاوند کے
جسم سے اس کا سموری کوٹ اتارا گیاتو وہ ویئس پر دھڑام سے گر گئی؛ اس کے نائٹ
گاؤن کا وارث وہی تھا۔وہ اس سے ایسے لپٹ گئی جیسے گھاس زمین سے لپٹتی
ہے۔وہ ایسے لیٹی تھی جیسے قبر کے اوپرسر سبز لان بچھا ہو۔
شیمار،کا گلا متلی سے گھٹ رہا
تھا، نے اپنا منہ پولیس افسر کے کندھے پر رکھا، جو اسے گرفتار کر کے لے گیا۔
تجزیہ
'برادر کشی ( فریٹرے سائڈ)'فرانز کافکا اپنے اس
افسانے میں ایک قتل کا ذکر کرتا ہے جو ایک اندھیرے میں شہر کے ایسے ماحول میں ہوا
جہاں جارخانہ واقعات عام تھے۔راوی قاتل کا ذکر'
شیمار' کہہ کرکرتا ہے ۔اس جرم کو ہوتے ہوئے ایک پڑوسی نے دیکھا تھا جس کا نام
پالاس تھا۔اس نے دیکھا کہ ایک شخص جسے وہ اچھی طرح جانتا تھاایک گلی میں چاندنی
رات میں اسلحہ لے ساتھ گلی میں گھوم پھر رہاتھا۔ وہ کسی واردات کے چکر میں تھا۔ وہ
تمام واقعہ اپنی نظروں سے دیکھنا چاہتا تھا اس لئے وہ خاموش رہا۔۔وہ اس
وقت اپنے شکار جس کا نام ''ویئس' تھا، کا ایک سنسان سڑک پر انتظارکر رہا تھا۔جب
وئیس اپنی بیوی کے پاس پیدل آرہا تھا تو شیمار اس پر اچانک ٹوٹ پڑا اور
چھرے کے متواتر وار مار کر اسےقتل کردیا ۔
پالاس اس جرم کا عینی گواہ تھا جس
نے اپنے گھر کی کھڑکی سےپوری واردات دیکھی، لیکن واردات نہ
روکی۔اس نے ایک تماشائی کی طرح پر تشدد واقعے کو دیکھا۔قتل کے بعد ملزم موقعہ
واردات وہیں کھڑا رہا۔اس کہانی کا خاتمہ ایسے ہوتا ہے کہ ویس کی نعش گلی
میں پڑی ہوتی ہے ،اور اس کی بیوی اس کا انتظار حادثے سے بے خبراپنے گھر میں کررہی
ہوتی ہے۔ اور پولیس شیمار کو گرفتار کر کے لے گئی۔
کافکا نے سنگین قتل کو
بے حسی سے بیان کیا ہے۔اس میں کسی قسم کی ہیجانیت طاری نہیں کی گئی اور نہ ہی تشدد
کو سنسنی اور تماشائیوں کی ہمدردی کے جذبات کےبغیر بیان کیا ہے۔اس کا مختصر
مگرپرزور بیانیہ قاری میں شدید خوف کی لہر ایسے دوڑا دیتا ہے جس
میں نہ صرف واقعے کی سنگینی بلکہ معاشرے کی سرد مہری بھی
شامل ہے۔اس کہانی میں جرم کا محرک بیان نہیں کیا گیا بلکہ جدید دور
میں اس واردات کی سنگینی اور لوگوں کی
لاتعلقی دکھائی گئی ہے۔
اس افسانے کا اہم موضوع ایک ایسا
قتل ہے جس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی۔وہ اس جیسے بیہودہ
تشدد کو عوام کے سامنے لاتا ہے۔اس میں عوام کا اخلاقی دیوالیہ پن پیش
کیا گیا ہے۔۔۔عینی گواہ پالاس نے پوری وارادات کو دیکھا لیکن اسے روکنے
میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں
کو سماجی فالج ہو گیا ہے اور وہ سنگین ترین جرم پربھی بے حس رہتے ہیں اور دوسروں
کی تکالیف کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کافکا اس کہانی میں یہ نکتہ بیان
کرتا ہے کہ جرم کا ارتکاب صرف شیمار جیسے مجرموں سےہی نہیں
کرتے بلکہ اس میں خاموش عینی گواہ جیسے
لوگ بھی مکمل طور پر شامل ہوتے ہیں۔پالاس چاہتا تو واردات روک سکتا تھا۔کافکا اس
کہانی میں جدید زمانے کے انسانیت سوز سلوک کا ذکر کیاہےجہاں
سنگین مجرموں کی سرکوبی کی بجائے ان سے انسانیت کے نام سے ہمدردی
دکھائی گئی ہے۔اس طرح وہ ثابت کرتا ہے کہ معاشرہ انحطاط کا شکار ہے۔
اس کا عنوان کافکا نے
انجیل مقدس اور اقوام عالم کے تصور کے طور پر پیش کیا ہےجس میں ایک
بھائی دوسرے کو قتل کردیتا ہے جس کی حیثیت صرف علامتی نہیں ہےبلکہ اس
میں معاشرتی اداروں کی بے حسی بھی دکھائی گئی ہےجو تشد د انگیز واقعات پر آواز
نہیں اٹھاتے۔وہ معاشرے کی بےوفائی اور بیگانگی پر آواز اٹھاتا ہے،جبکہ خونی رشتوں
(ادبی یا حقیقی)اس وحشیانہ پن کی نذر ہو جاتے ہیں۔
اس کہانی میں کافکا نے ٹھوس اور
سخت انداز میں لگی لپٹی بغیرنثر بیان کی ہےجس میں اکسائے بغیر تشدد کا وحشیانہ قدم
بیان کیا ہے۔محرک کی موجودگی کے بغیر شیمار کا یہ گھناؤنا فعل بےترتیبانہ اور تشدد
کی لغویات نمایاں کرتا ہےاور اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایسی
وارداتیں غیر مہذب معاشرے میں ہوتی ہیں ۔اس میں عینی گواہ پالاس کا
کرداربڑا فیصلہ کن ہےجو ترقی یافتہ معاشرے کی تضحیک ہے: جو اس دہشت
گردی پر مجرمانہ خاموشی دکھاتی ہے جس سے مجرموں کو شہہ ملتی ہے کہ وہ مزید جرائم
کریں کیونکہ ان کی گوشمالی نہیں ہوتی۔اس کے ساتھ ساتھ اجتماعی ذمہ داری
کی کوتاہی بھی ظاہر ہوتی ہے۔
کافکا کا شہر میں کی گئی
واردات یہ پیغام دیتیہے کہ جدید معاشرے میں انسانیت سوز سلوک اور
بیگانگی کے موضوعات اس کے ادب میں کثرت سے ملتے ہیں۔اس نے تصریحات
اورعزم کا اظہار کرنے سے پہلو تہی کی ہےحالانکہ ایسی وارداتیں دنیا بھر
میں ہو رہی ہیں جو معاشرے میں پیچیدگیاں بڑھا رہی ہیں۔
یہ کہانی موجودہ پاکستان پر پوری
طرح لاگو ہوتی ہے، جہاں دہشت گردی ، سیاسی قتل ،دن دہاڑے بھرے بازار میں ہوتے
ہیں۔تماشائی اپنی آئینی اور سماجی ذمے داریاں خوف ، رشوت
ستانی ، سفارش ،ناقص عدالتی نظام اور احتساب کے نظام نہ ہونے کے لئے
پورا نہیں کرتے۔اس طرح سے یہ کہانی ہمیشہ کے لئے انسانی حالات پر جو
تمام ثقافتوں اورپس منظر کا احاطہ کرتی ہے۔
……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
13 Book 5 A Dream
ایک خواب
A Dream
فرانز کا فکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz kafla
( Nobel Laureate)
'جوزف کے 'خواب دیکھ رہا تھا:
یہ خوشگوار دن تھا اور' جوزف کے
'سیر پر جانا چاہتا تھا۔ابھی وہ چند قدم ہی چلا ہوگاکہ قبرستان آگیا۔اس
کے راستے بالکل مصنوعی ،غیرافادی اور پر پیچ تھے،اس کے باوجود وہ خاموشی سےان
غضبناک پانی کی طرح کی راہوں کے بہاؤ میں معلق بہتا رہا۔
کہیں بہت دور سے،اسے تدفین کے لئے کھدی ہوئی
قبر کا ملبہ نظر آیا، یہ اس کی منزل ِ مقصود تھی۔یہاں اس نے پہنچنا
تھا۔دفنانے والی مٹی کے تودے نےاس پرسحر انگیز اثر ڈالا، اور اسے احساس ہوا کہ
وہ وہاں اتنی جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ بسا اوقات ، تاہم، وہ ڈھیر اس
کی نگاہوں میں مشکل سے آرہا تھا، وہ جھنڈے سختی سے ایک دوسرے کے
ارد گردمڑ مڑا تے ایسے لپٹے ہوئے تھے جیسے پھڑپھڑاہٹ سے اڑ جانا چاہتے
ہوں؛ جھنڈے اٹھانے والےنہیں دیکھے جا سکتے تھے۔ لیکن آوازیں ایسی آرہی
تھیں کہ لگتا تھا جیسے جشن کا سماں ہو۔
اس کی آنکھیں اس دور
کے مقام پررپٹ (کیل کے ذریعے باہم پیوست کی گئی تھیں)کی طرح گڑی ہوئی
تھیں، اسے اس رستے کے آگے دفنانے والی مٹی کا ٹیلہ( ٹبہ) نظر آیا۔۔۔جو
یقیناً تقریباًاس وقت وہ اس کے عقب میں تھا۔وہ تیزی سے کودا
تو گھاس اس کے قدموں تلے آگئی۔ چونکہ اب اس رستے پرگھاس تھی ،اس
لئے وہ اسےپیروں سے روندتے ہوئے آگے بڑھنے لگا، وہاں پہنچا تو لڑکھڑایا
اورگھٹنوں کے بل مٹی کے تودے کے سامنےگر پڑا۔دو آدمی قبر کے
سرہانے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں کتبہ پکڑا ہوا تھا؛ اس لمحے جب 'کے'وہاں
پہنچا،تو انہوں نے وہ کتبہ زمین میں گاڑ دیااور سیمنٹ سے بھر کر مضبوط
کردیا۔اس کے بعد تیسرا شخص جھاڑیوں کے پیچھے سے نمودار ہوااور'
جوزف کے' نے اسے فوری پہنچان لیا کیونکہ وہ آرٹسٹ تھا۔ اس
نے پتلون پہنی ہوئی تھی اور اس کی قمیص کے بٹن بند نہیں
تھے؛اپنے سر پر مخملی ٹوپی پہن رکھی تھی؛ اس کے ہاتھوں میں عام پنسل تھی اور قبر
کے نزدیک آنے سے پہلے اس سے ہوا میں ڈیزائن بنا رہاتھا۔
اب اس نے کھڑا ہوکر
(اسے کمان کی طرح خمدار نہیں ہوناپڑا کیونکہ کتبہ کا فی
اونچا تھا)، لیکن وہ کھودی مٹی کے ڈھیر پر
کھڑا نہیں ہونا چاہتا تھا جس نے اسے پتھر سے الگ کیا ہوا تھا، اس لئےکتبے کی
مناسبت سے اسے ہلکا سا جھک کر اپنے پنجوں پر کھڑا ہونا پڑا
تاکہ پتھر کے کتبے کے بالائی حصے کو توازن رکھ
کر چھو سکےاور نقش گیری کرسکے۔اس نے اپنے ہاتھ
کو پرندے کے پر کی طرح اٹھا کر اپنے جسم کو زمین پر مضبوطی سے قدم جمانے کے لئےخود
کو ترتیب دیا اور کتبے پرایک عام پنسل سے سنہری الفاظ لکھنے میں کامیاب
ہو گیا؛یہاں ۔۔۔ہر حرف صاف اور خوبصورت تھا جو گہرا نقش شدہ
اور بریدہ تھااور خالص سنہری رنگ کا تھا۔ یہ لکھنے کے بعد، اس نے 'کے' کو
دوبارہ دیکھا، جو بڑے تجسس سے اسےدیکھ رہا تھا کہ اس خطاط نے آگے کیا
لکھنا تھا،اس نے پتھر کی طرف غور سے دیکھا، اور لوگوں پر توجہ نہ دی؛ وہ آگے کچھ
لکھنا چاہتا تھا لیکن لکھ نہ پارہا تھا، کوئی شئے اس میں رکاوٹ ڈال رہی
تھی'، اس نے اپنی پنسل نیچے کی اور ایک بار پھر 'کے' کی طرف مڑا۔اس بار'کے'نے بھی
فنکار کی طرف دیکھا، تو اس نے محسوس کیا کہ فنکارپریشان تھا۔'کے'اس کی پریشانی کا
سبب نہ جان سکا۔اس نے دیکھا کہ اس کے نتیجے میں مصور کا سابقہ جوش و
ولولہ ختم ہو گیاتھا'کے' بھی اس کی طرح پریشان ہو گیا؛ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ
کر بے بسی ظاہر کی؛ان میں شدیداختلاف محسوس ہو رہا تھاجسے وہ دور نہ کر
پارہے تھے۔معاملات اس وقت زیادہ بگڑے جب گھنٹیوں کی ہلکی آوازبے وقت
گرجا گھر کے گنبد سے آنا شروع ہو گئیں ،لیکن مصور نے اپنا ہاتھ زور زور سے ہلایا،
اور گھنٹیاں بجنا بند ہو گئیں۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد ، گھنٹیاں دوبارہ بجنا شروع
ہو گئیں؛ اس وقت ان کی آواز نرم تھی اورجلد ہی رک گئیں،اس
بار مصور نے خاص سرزنش نہ کی؛ اس دفعہ ایسا لگ رہا تھاکہ
وہ اپنی ہی آواز چیک کر رہا تھا۔'کے'مصور کی بھول بھلیوں پر دلبرداشتہ
ہوگیا اور رونا شروع کردیا، اور اپنے ہاتھوں کو پیالی کی شکل دے کر
ڈھانپ لیا اور کافی دیر تک روتا رہا۔مصور اس کا خاموش ہونے کا انتظار
کرنے لگا ، اور جب کچھ اور نہ بن پایا،تو اس نے فیصلہ کیا کہ کتبے پردوبارہ وہی
عبار ت لکھنا شروع کردے۔اس نے پہلا حرف جو قلم زد کیاوہ 'کے' کی راہ
نجات تھی؛ لیکن ظاہری طور پر مصور نےاپنے منصوبے پرجھجھکتے
ہوئے عمل کرنا شروع کردیا؛ اس کے علاوہ اس وقت جو وہ لکھ رہاتھا، زیادہ
خوش خط نہیں تھی، اس کی پنسل کا ہر حرف کا رنگ سنہری کی بجائے
زرد پڑ رہا تھااور لفظ بھی بہت بڑے اورآڑے ترچھے پڑ رہے
تھے۔اس نے (J) 'جے'حرف تقریباً مکمل کر لیا تھا؛ کہ اس نے اپنا ایک پاؤں غصے سے دفن کرنے والی
مٹی کے ڈھیر پر مارا جس سے اس کی کالی مٹی اڑ کر ہرطرف گر
گئی۔آخر کار، 'کے' کو اس کی بات سمجھ آگئی، کیونکہ اسے اب سمجھ آگیا تھا کہ وہ اس
کانام ْجوزف کے' اس تختی پر کندہ کرنا چاہتا تھا یعنی اس کی قبر تھی۔ اس کے پاس
معذرت کرنے کے لئے مزید وقت نہیں بچا تھا؛اس نے اپنی سب انگلیاں زمین پر گاڑ دیں،
جس پراسے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا؛ ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ پہلے
سے ہی طے ہو چکا تھا؛زمین کا ہلکا سا چھلکا دکھانے کےلئے ترتیب سے رکھا ہوا تھا؛
اس کے بالکل نیچے ایک بڑا سا سوراخ جس کی صرف اطراف کھلی
ہوئی تھیں،اس کے پیچھےایک ہلکی سی دھار ( کرنٹ) سے الٹ رہی تھیں۔ لیکن اس کا سر اس
کی گردن پر ابھی بھی تناہواتھا، وہ نیچے آیا تو ناقابل گزر گہرائی نے اس کا
استقبال کیا، اس کا پورا نام، شاندار سجاوٹ کے
ساتھ اس کتبے پر لکھا تھا۔
وہ خواب کے جال میں جکڑا ہوا
تھا، کھڑاک ہوا اور اس کی آنکھ کھل گئی۔
تجزیہ
'ایک خواب' (اے ڈریم) میں فرانز کافکا ایک مختصرلیکن پیچیدہ
بیانیہ پیش کرتا ہے جس میں وہ خواب اور سچ میں ایک حد قائم کرتا ہے۔اس میں ایک
شخص' جوزف کے' (یہ نام اس نے اپنے کئی افسانوں میں استعمال کیا ہے جس میں' دا
ٹرائل 'ناول ایک ہے)ایک قبرستان میں خود کو چلتے پاتا ہے۔جوں جوں وہ آگے بڑھتا ہے،
توں توں اسے قبروں پر پتھروں کے کتبے نظر آتے ہیں، جن میں ایک پر اس کا نام کندہ
ہوتا ہے۔ایک پتھر کندہ کرنے والا اس کانام پتھر کے کتبے پر گھڑ رہا ہوتا ہے جسے
دیکھ کر اس پر خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔اس کا یہ تجربہ غیر حقیقی لگتا
ہے کیونکہ' جوزف کے'، نہ صرف اپنی موت کی شناخت کرلیتا ہے بلکہ اپنی زندگی میں بھی
مشاہدہ کرلیتا ہےکہ اس کا ادبی سفراس کی آنکھوں کے سامنے ایک پتھر بن چکا ہے۔اس کے
سامنے اس منظر کی تفصیل سامنے آتی ہے تومداخلت کی بے
وقعتی کا تعلق سامنے آتا ہے۔آخر کار وہ بیدار ہو جاتا ہے، لیکن اس میں
بے بسی کے تحسسات اور دل دکھانے والے حقائق کہ وہ فانی ہے، اس کے ذہن پر چھا جاتے
ہیں۔
کافکا کا یہ افسانہ جاگنے اور
خواب؛ زندگی اور موت کی کیفیات کا موازنہ کرتا ہے جو اس کے
ادبی نظریات کی تائید کرتے ہیں ۔ اس میں بیگانگی، کاٹ کھا جانے والی
تنہائی، فناپذیری اور قسمت کو تقدیر سے علیحدہ نہ کرنا اہم موضوعات
ہیں۔اس افسانے میں خواب نما خصوصیت اس کے فلسفیانہ نکتے کو ابھارتی
ہےجہاں حقیقت اور تخیل میں تفرق پایا جاتا ہے۔
اس افسانے کا مرکزی نکتہ شعور اور
لاشعور میں پایا جانے والا اضطراب اور فنا ہو جانا ہے۔اس
میں فرد کے لاشعور میں موت جو ناگزیر عمل ہےاور اس کے خلاف
مرنے اور تقدیر کی مزاحمت کے لئے وہ جوکوششیں کرتا ہے، کا
ذکر کیا گیا ہے۔جورف کے اپنی قبر پر نصب ہونے والے کندے پر غصے کا اظہار کرتا ہے
جس سے مراد اس کی ذاتی تفہیم ، موت سے چھٹکارا نہ پانا، اور اپنی ذات
کی نابودگی ہے۔
اس افسانے میں اس کے عام افسانوں
کی طرح احساس اجنبیت اور بے بسی کی کیفیت بیان کی گئی ہے ، جس سے اس کا
مداح اس کی علاماتی خواب کے منظر کا ہمسفر بن جاتا ہےجس میں وہ
اور اس کے معاون دونوں شامل ہو جاتے ہیں۔اسے اپنے فانی ہونے اور مٹ جانے کا خیال
آتا ہےاور ہمارا وجود جسے ہم قیمتی سمجھتے ہیں۔۔۔کی دائمی حیثیت پتھر کے کتبے کی
رہ جاتی ہے۔کافکا بڑی مہارت سےکھونے ، کھو کر بھول جانے ؛اوراس کے بعد
سکوت کی کیفیت طاری ہو جانےکے احساسات بیان کرتا ہے۔اس میں وہ
اپنے احساسات کو ذاتی اور بین الاقوامی کہتا ہے
کافکا کا ادب اس
کہانی میں نثری انداز بیان سے لاتعلق نظر آتا ہے جس سے خواب
جیسے وصائف پیدا ہو جاتے ہیں جو حقیقت اور تخیلات میں تمیزکرنا مشکل
بنا دیتے ہیں۔اس کہانی میں اس کے ادب کی انفرادیت پیش کی گئی ہےجس میں ان مقاصد کو
اجاگر کیا گیا ہے جن میں اجنیت،وجود ی لغویات ،اور تقدیر کا اٹل پن شامل ہے۔جوزف
لے کا کردار اس کے افسانوں میں اشرافیہ کے رکن کے طور پر استعمال ہوتا ہےجو حاکموں
اور غاصبوں کی علامت ہے،اس کے ساتھ وہ اضطراب ،سراسیمگی اور موت جیسے
موضوعات کو اپنے فلسفے کاحصہ بناتاہے۔گورکن کا میکانکی انداز میں پتھر کے کتبے پر
اس کا نام کندہ کرناموت کے بعد انسان ہونے کے درجے کی تنزلی ہے جس میں اس کی ذاتی
شناخت الفاظ تک ہی محدود ہو جاتی ہےجو صرف کتبے تک ہی محدود رہ جاتی ہے۔
کافکا کا اپنے پیغام کو خواب کی
حد تک رکھنااس بات کی علامت ہے کہ اسےاپنی جیتی جاگتی میں مر جانے کا خوف اتنا
زیادہ ہے کہ وہ اسےشعوری سطح پر دبا دیتا ہے اور وہ تحت الشعور میں چلے جاتاہے جو
بعد ازاں ذہن کے تاریک حصے لاشعور میں مستقل ٹھکانہ کر لیتے ہیں اور جیتے جاگتے
یاد نہیں آتے لیکن اپنا اظہار اس وقت کرتے ہیں جب اس کا ضمیر جو ایسے پراگندہ
خیالات کا محتسب ہے، کا کنٹرول کم یا ختم کردیتا ہے تو یاد
آجاتا ہے۔یہ کنٹرول خوابوں اور منشیات کے بعد بری طرح متاثر
ہوجاتاہے۔اس طرح سے اس نے قارئین کو اہم پیغام دیاہے کہ انسان کی اصل
حقیقت اس کی موت کے بعد چند تعریفی
کلمات تک محدود ہے۔اس میں جوزف کے موت کے آگے خاموشی سے
ہتھیار ڈال دیتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔اس کے علاوہ وہ
اس کافکا معاشرے کا کردار بھی واضح کرتا ہےجو زندگی
کی موروثی اہمیت کو ختم کردیتی ہے۔
یہ افسانہ پاکستانی معاشرت کے عین
مطابق ہے۔اس میں پیچیدہ سماجی اور سیاسی فضا پائی جاتی ہے، جس میں
وجودی اضطراب غیر یقینی صورت حال کی بدولت ذاتی اور قومی شناخت ختم ہو
جاتی ہے۔اس افسانے کے موضوعات بے بسی اور بیگانگی پن مسلسل چیلنج پیدا کررہے
ہیں۔سماجی۔ سیاسی عدم استحکام مشکل اقتصادیات کا سبب بن رہا ہے۔ آفاقی فناپذیری کے
احساس کے ساتھ ساتھ تشدد ، رشوت بازاری ،اور کھو جانے کے
واقعات بھلا دیئے جاتے ہیں اور جوزف کے کی پتھر کے کتبے کی طرح قبول
کرکے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
……………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
14 Book
5 A Report for an Academy
سپاس نامہ اکادمی
A Report
for an Academy
فرانز کافکا ( نوبل انعام یافتہ)
Franz
Kafka (Nobel Laureate)
:معززرحاضرین
کہنے کو میں چمپینزی ہوں جس نے پچھلے کئی
سالوں کی محنت سے
انسانی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں۔میں
آپ لوگوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ
نے مجھے میری سابقہ بوزنا والی زندگی
کی اکادمی کاسپاس نامہ پڑھنے کا موقعہ بخشا۔'، میں
کیلنڈر کے مطابق لگ بھگ پانچ سال اپنی برادری سے دور
رہا۔۔۔ میں اگر اپنی نسل کے ساتھ ، اپنے بچپن کے ماضی کی
یادوں کے ساتھ چمٹا رہتا اور اپنی سوچ تبدیل نہ کرتا تو یہ کامیابی
ممکن نہ تھی۔یقیناً، سب کچھ چھوڑنے کی ضدسب سے زیادہ احکامات جو میں نے
خود پر نافذ کئے ہوئے تھے، آزادی کے حصول کے لئےچھوڑنے
پڑے؛میں، جنگل میں ،اس جوت میں جکڑا ہواتھا۔میری شخصیت اب وہ نہیں جو
پانچ سال پہلے تھی۔اس دوران میرے ساتھ جو حقائق پیش آئے کے
نتیجے میں،میری سابقہ یادیں زیادہ سے زیادہ ختم ہوتی گئیں۔جبکہ بنیادی
طور پرمیرے پاس اختیار تھا کہ میں اپنی مرضی سے، جو اکادمی مجھ سے
چاہتی تھی ، کروں یا نہ کروں۔ میں قید خانے کے پھاٹک سے
آزادانہ واپس آنے کے لئے جوآلائشیں آسمان نے مجھ پر زمین میں ڈالیں ،
پر میں اپنی اصل ہستی سے بھی زیادہ
نچلااور تنگ ہوتا گیا: میں تمام
صعوبتیں برداشت کرتا رہا ،
اپنی جنگلی ضد پر جب تک اڑا رہا، حالات روز بروز
بگڑتے گئے۔، تومیں نے خود کوانسانی دنیا میں زیادہ آرام
دہ اور ان میں شامل ہونے کا آرام محسوس کیا۔؛اس کے بعد مجھ پر ظلمتوں
کے جو طوفان ٹوٹ رہےتھے ،وہ تھم گئے؛ میں اس وقت اتنا چھوٹا ہو گیا
تھاکہ اگر مجھ میں کافی قوت اور خواہش بھی ہوتی کہ اتنا پیچھے دوڑ
سکوں، جیسا کہ میں برباد ہونے سے پہلے تھا تو سوچ کر مجھ میں رقت طاری ہو جاتی
ہے۔میں نے صاف دلی سے ان کے تمثال اپنے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی تو میری وہ
خصوصیات جو بن مانس پن میں تھی
،مجھے پریشان کرتی ہیں۔اس کے باوجود ہر کوئی جو اس دنیا میں آتا ہےتو اپنی نسل کے
مطابق کام کرتاہے لیکن اکادمی کی تربیت نے ایک چھوٹے سے
چیمپانزی میں ایسی ہمت پیدا کردی کہ اس نے عظیم ا یچلز کی
طرح ٹروجن کو شکست دے دی ۔
،
تاہم،میں تمہارے سخت ترین سوالات پراگر میں ان کاوشوں سے پردہ اٹھاتا
بھی ہوں ،تو میں اس میں پوری خوشی محسوس کروں گا۔میری یہ کامیابیاں مرحلہ وار
آہستہ آہستہ پیدا ہوئیں۔
سب سے پہلی شئے: یہ
تھی جو میں نے سیکھی: وہ ہاتھ ملانا تھی؛ہاتھ ملانا صاف دلی ظاہر کرتا
ہے؛اور آج میں اگرچہ اپنے کیریر کے عروج پر ہوں؛میرا وہ پہلا ہاتھ ملانا
میری صاف دلی سے کی ہوئی تقریرمیں شامل ہو گئی ہے۔میں اس
اکادمی کے تمام معاملات کو بیان کرنے سے قاصر
ہوں کیونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہےلیکن اس سوالات کو جو مجھ سے پوچھے گئے ہیں ،
تک محدود رہوں ۔اس دوران میں اپنی گفتگو تربیت اور رہنمائی
پر روشنی ڈالوں ۔۔۔ ایک سابقہ بن مانس کو جو اسے اس دوران
معلوم ہوئے جب وہ انسانوں کی دنیا سے تال میل کررہا تھااور اپنی پوزیشن
یہاں مستحکم کررہا تھا، بیان کروں۔میں یہاں واضح طور پروہ غیر اہم معلومات جو اب
بیان کرنے جا رہاہوں جس کے بارے میں مجھے خود بھی یقین نہیں تھا کہ وہ
مستقبل میں میرے لئے کتنے اہم ہوسکتے ہیں ۔اس سے میری پوزیشن مستحکم
بھی ہوسکتی تھا اور غیر مستحکم بھی ۔ اگر میں اس وقت مہذب دنیا کے
تمام ہفت رنگے تماشے کے مراحل سےنہ گزرا ہوتا تو میں آج آپ کے سامنے
سپاس نامہ پیش نہ کررہاہوتا:
میں سنہری ساحل سے آیا ہوں۔ اس
سلسلے میں کہ مجھے کیسے پکڑا گیا،اس سلسلے میں ان رپورٹوں پر انحصار کرتا
ہوں جو دوسروں نے اس پر دی ہیں۔ایک شام ،میں اپنے وطن
افریقہ کے جنگلوں میں اتفاقاً میں اس
وقت تک لال شراب کی بہت سی بوتلوں کا ڈکار مار چکاتھا، ایک چھوٹی سی جھاڑی میں
لوگوں کی نظروں سےایک بڑے سوراخ کے پاس پانی کے بہاؤ کے پاس چھپ کر
بیٹھا تھاکہ میں بن مانسوں کی بھیڑ میں جو کنارے پر تھی پر شکاریوں نے
گولیاں چلائیں جو صرف مجھے لگی؛ جن سے مجھے دو زخم لگے۔
ایک زخم گال پر جو معمولی تھالیکن
اس سے بڑا صاف نظر آنے والا بڑا نشان پڑ گیا، جس سے میری شکل
کراہت زدہ ہو گئی، جس کا غیر موزوں نام دیا گیا۔۔۔جو کسی
ایک بن مانس کے حصے میں آسکتا تھا۔۔۔جو'ریڈ پیٹر'تھا، میرے چہرے کے اس سرخ دھبے نے مجھے
اس چمپانزی پر جو انتظامیہ نے مقامی تربیت
یافتہ بن مانس جس کا نام پیٹر تھا پال رکھا تھا ، جو اب مر
چکا ہے، پر فوقیت دی۔( میں اس کاذکرآگے جا کر کروں گا)۔
دوسری گولی میری پیٹھ پر لگی جس
کازخم بہت گہرا تھاجس کی وجہ سے میں آج بھی تھوڑا بہت لنگڑا کر چلتا ہوں،
جس کے بارے میں یہ رپورٹ ہے کہ مجھ میں ابھی بھی معمولی سی
بن مانس والی خصوصیات باقی ہیں۔اب تک مجھ پر دس ہزار سے زائدخبریں چھپ چکی ہیں جس
میں یہ بیان کیا گیا ہےکہ مجھ میں بن مانس کی خصوصیات مکمل طورپر ختم
نہیں کی جاسکیں؛ اس کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ جب میں کسی کے ساتھ ہوتا ہوں، تو
میں اپنی پتلون نیچے کرکے اپنی پیٹھ ننگی کرکے سب کو دکھاتاہوں کہ مجھے گولی کہاں
لگی تھی۔اس حرامی نے اپنے لکھنے والے ہاتھ سے اپنی ہر انگلی نےایک ایک
کرکےمجھ پر دھماکے دار انکشافات کئے ہوں گے!میں ۔۔۔میں ۔۔۔مجھے یہ آزادی ہے کہ
میں اپنی پتلون جس کے سامنے چاہوں نیچا کروں۔مجھے کسی کی
کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی کیا سوچتا اور کہتا ہے؛ لوگ وہاں زیادہ سے زیادہ وہاں کیا
دیکھ لیں گے، جانور کے گھنے بال اور ان کے نیچے گولی کا نشان، کسی قسم کی غلط فہمی
دور کرنے کے لئےآؤ ہم کسی مخصوص مقصد کے
لئے مخصوص لفظ کا انتخاب کریں۔اس گولی نے گہرا نشان چھوڑا
تھا۔ہر شئے کھلی کتاب کی طرح واضح ہے، مجھے کسی چیز کو چھپانے کی ضرورت نہیں ؛ جب
سچائی بیان کرنے کی نوبت آتی ہے ، توعظیم دماغ اسے بڑےنفیس انداز میں بیان کرتے
ہیں۔اس کے برعکس،اگر وہ لکھاری اسے دوسروں کے سامنے کرے تو اس وقت وہ اس کی وضاحت
دوسرے طریقے سے کرے گا، اور میں اس خیال کو اچھا سمجھو ں
گااگر وہ ایسا کرنے سے پرہیز کرے۔لیکن اسی علامت کے تحت میں یہ بھی
توقع کروں گا کہ اپنے نرم جذبات کے اظہار میں میرے بالوں سے دور رہے
اور اس کاذکر نہ کریں!
ان گولیوں کے لگنے کے بعد، جب میں
جاگا۔۔۔تو یہ وہ وقت ہے جہاں سے میری خوشگوار یادداشتیں آہستہ
آہستہ شروع ہوتی ہیں۔۔۔ہیگن بیک سٹیمرکےپتوار کےایک پنجرے
میں جس کی تین اطراف تھیں اور چوتھی سمت نہیں تھی ،ایک
کھوکھے سے جڑا ہوا تھاجو چوتھی دیوار کے طور پر استعمال ہورہا تھا۔وہ
ڈھانچہ اتنا کم اونچا تھا کہ اس میں سیدھا کھڑا نہیں ہوا جا سکتا
تھااور اتنا تنگ تھا کہ بیٹھا بھی نہیں جاسکتا تھا۔مجھے اس وقت گھٹنوں کے
بل جو اس وقت مسلسل کانپ رہے تھے ، حرکت کرنا پڑرہی تھی۔اس وقت میں کسی
کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا اور اندھیرے میں ہی پڑارہنا چاہتا
تھا۔میرا منہ کھوکھے کی طرف تھا اور سٹیل کی سلاخیں میرے جسم کے گوشت
پر چبھ رہی تھیں ۔ وہ لوگ وحشی جانوروں کوان کی ابتدائی قید کے
دوران ایسی حالت میں رکھناپسند کرتے تھےکیونکہ ایسا وہ اپنے حق میں
بہتر سمجھتے تھے، اور آج،میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پریہ کہہ سکتاہوں کہ ان کا
پہلے پہل ان کے ساتھ یہ سلوک جائز ہے۔
لیکن ماضی میں اس طرح کا خیال
میرے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا۔ اپنی زندگی میں پہلی بار، میں ایک تنگ جگہ پر
محصور تھا ۔میں کہیں آجا نہیں سکتا تھا؛میں آگے حرکت نہیں کرسکتا تھا؛ میرے بالکل
سامنے کھوکھا تھا، جو تختے کے ساتھ مضبوطی سےجڑا ہواتھا، ان تختوں کے
درمیان یقیناً، وہاں ایک مسلسل خلا تھا،یقیناً، جسے جب میں نے
دریافت کرلیا، تواس شئے کو پسند کیااور اسے نعمت شمار
کیاتاہم وہ اتنا کھلا بھی نہیں تھا کہ میں اپنے ناخن اس میں سے گزار سکتا اور وہ
اتنا مضبوط تھا کہ میں اپنی بن مانس والی قوت کے ساتھ بھی توڑ یا موڑ نہیں سکتا
تھا ۔
فرض کیا، جیسا کہ مجھے بعد میں
بتایا گیا، میں غیر معمولی طور پر کم شور کیا کرتا تھا،
جس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہواتھا کہ یاتومیں جلد ہی
مرجاؤں گا،یا اگر میں ابتدائی تکلیف برداشت کر گیا تومجھے ان کی اعلیٰ
تربت فراہم کی جا سکے گی۔میں بچ گیادھیرے دھیرے سسکیاں مارتا رہا،زخموں پر مکھیاں
بیٹھنے کی تکالیف برداشت کرتا رہا، ناریل کو مسلسل چاٹتے چاٹتے اور دیواروں سے سر
پٹختا پٹختا، اپنی زبان پنجرے کے کھوکھے ، یا وہ جس سے بھی ٹکراتی،
مارتا مارتا تنگ آگیا۔۔۔ نئی زندگی میں یہ میری پہلی پہلی سرگرمیاں تھیں ۔ لیکن ان
تمام سرگرمیوں میں میں نے یہ محسوس کیاکہ:میرا وہاں سے فرار ناممکن تھا۔آج ، فطری
طور پرمیں اپنی بن مانس والے جنگلی احساسات کی جگہ
انسانی مہذب انداز استعمال کررہا ہوں،اس لئے
کہاجاسکتا ہے کہ میری زبان اب مسخ شدہ ہو گئی ہے؛ لیکن ہوسکتا ہے کہ چونکہ
میں ان تمام حالات سے براہ راست گزرا ہوں ، اس لئے
میں اس قابل ہوں کہ سابقہ جنگلی بن مانس کے خیالات و احساسات بیان کر
سکوں۔
گرفتاری سے پہلے، میرے
پاس انسانوں سے فرار ہونے کے کئی مواقع تھے،لیکن اب ایک بھی نہیں۔میں
ایک جگہ اٹک کر رہ گیاتھا ۔میری آزادی کو مزید مسدود نہیں کیا جا سکتا تھا، کئی
دفعہ ایسا کیا بھی لیکن موقعہ واردات پر ہی پکڑا گیا۔۔۔ مجھے باہر جانے
کا کوئی رستہ ضرور نکالنا تھاکیونکہ یہ میری فطرت میں تھا، یا پھر ہمیشہ کھوکھے کی
دیوار کے ساتھ ایسی حالت میں میں نےلازماًمیں مرجانا تھا۔میں بڑی
سنجیدگی سےاپنے پیٹ میں سوچتا رہتا تھا (کیونکہ بن مانسوں کی سوچ کی قوت دماغ کی
بجائے پیٹ میں ہوتی ہے)۔تاہم ہیگن بیک چڑیا گھر کی کمپنی کے نزدیک بن
مانسوں کا مقام کھوکھے ہی تھے۔میں یہ سمجھ گیا اور ضد چھوڑ دی اوراپنی رہائی کے
لئےبن مانسوں والارویہ اپنانا بند کردیا۔میں اس وقت اپنی گفتگومیں
جوالفاظ ادا کررہاہوں وہ وسیع حیثیت میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ میں یہاں
آزادی کا لفظ جان بو جھ کر استعمال نہیں کررہا: میں ہر قسم کی آزادی کا ذکر نہیں
کررہا بلکہ وہ آزادی ب یان کررہاہوں جوبن مانسوں کو دی
جاسکتی ہے اور محدود ہوتی ہے۔ایک بن مانس کی حیثیت سے،میں اس سے مانوس
ہوں،اور میں نے انسان دیکھے ہیں جو مکمل آزادی کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔لیکن جہاں
تک میرا تعلق ہے ، مجھے ایسی آزادی نہ اس وقت چاہیئے تھی اور نہ ہی اب چاہیئے ۔یہ
حقیقت ہے کہ :انسان خود کو آزادی کے نام پر دھوکہ دیتا ہے،اور
آزادی رفیع سمجھی جاتی ہے، لیکن اس کےساتھ جو اس
فریب سے منسلک ہے وہ بھی اعلیٰ ہے۔اکثر، جب زندگی میں بہتر
کارکردگی کرنے کا سوچا جاتا ہے، مجھے اس وقت چند شعبدہ باز کا سامنا کرنا پڑتا ہے
جنہیں زندہ رہنے اور پھل پھولنے کے لئے غیر مرکب آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ طمنچے
سےچھت کے نیچےورزشی جھولالیتے ہیں۔وہ لٹکتے ، جھومتے، چھلانگیں لگاتے،
اور اور ایک دوسرے کی باہوں میں تیرتے ہیں، ایک نے دوسرے کے بالوں کواپنے دانتوں
سے پکڑا ہوتا ہے۔'یہ بھی انسانی آزادی ہے۔'میں نے
سوچا،'یہ ظالمانہ حرکت ہے!'تم فطرت کا مذاق اڑاتے ہو۔کوئی تھیٹر بھی بن
مانس کے قہقہے کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔
نہیں، میں اس قسم کی
آزادی میں نہیں چاہتا تھا۔میں وہ آزادی چاہتا تھا کہ میں پنجرے سے باہر آسکوں۔اس
کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہیئے تھا۔میری یہ خواہش ایک خبط کی صورت ہو
سکتی ہے۔۔۔میرا مطالبہ معمولی تھا، اور خبط اتنا محنت طلب نہ تھا۔میں آگے بڑھنا
چاہتا تھا، ہا ں ،میں آگے بڑھنا چاہتا تھا!ہاتھ باندھ کر خاموش نہیں
کھڑا رہنا چاہتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ مجھے دیوار سے لگا دیا جائے!
آج میں واضح طور پر دیکھ سکتا
ہوں:میں نے اپنی از حد اندرونی خاموشی سے کبھی چھٹکارا نہیں
پایا تھا۔پہلے چند دن جب تک میں بحری جہاز میں رہا ، ہر
ممکن کوشش کی کہ خاموش رہوں۔ا نہوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیااور میں ان کے بہتر
حسن سلوک کو واپس کرنا چاہتا تھا۔
سب کچھ ہونے کے باوجود
جو انہوں نے میرے ساتھ کیا، وہ اچھے لوگ تھے۔میں تمام تر خواہش اور کوششوں کے بعد
میں وہاں سے فرار حاصل نہ کرسکا۔آج بھی میں ان کے بھاری قدموں کی چاپ شوق سے سن
سکتا ہوں،جو میرے کانوں میں اس وقت گونجتے تھے جب میں اونگھ رہا ہوتا تھا۔اکادمی
کے ہر شخص کو ہلکا سا ٹھونکنا مارنے کی عادت تھی۔اس
دوران اگر کوئی اپنی آنکھ ملنا چاہتا، تو وہ اپنا ہاتھ لٹکے ہوئے انداز میں اٹھا
کرکرتا۔ان کے مذاق بھدے تھے مگر پر لطف تھے۔لیکن بعض اوقار وہ مجھے بھونکنے کی
طرح خطرناک لگتے تھے، لیکن غیر اہم تھے۔ان کے منہ
ہمیشہ بھرے رہتے اور اگلنے کے لئے کچھ نہ کچھ ہوتا تھا۔، اور جہاں چاہے تھوکتے
تھے، انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔جب میرے زخم سے مکھیاں اڑ کر ان پر
بیٹھتیں تو وہ سٹپٹاتے تھے، لیکن وہ مجھ پر سنجیدگی سے کبھی غصہ نہیں
ہوتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ مکھیاں میرے زخم اور بالوں میں بیٹھی ہوتی تھیں اور ان
کو اڑانے یا نہ اڑانے میں میں بے بس تھا۔اپنے فارغ اوقات میں وہ میرے ارد گرد آکر
کھڑے نیم دائرے میں تقریباً خاموش کھڑے ہوکر ایک
دوسرے کی طرف دیکھ کر ہلکی ہلکی آواز نکالتے رہتے۔وہ اپنی ٹانگیں
کھوکھے پر کھولتے پھیلاتے رہتےاور اپنے سگار پیتے رہتے۔اگر ان کی ٹانگیں ُسن ہو
جاتیں تو اپنے گھٹنوں پر تھپڑ مارتے رہتے۔؛اور اکثر اوقات ان میں سے
ایک شخص چھڑی سے مجھ سے اٹھکیلیاں کرتا رہتا۔اگر وہ اس وقت مجھے پوچھتے کہ کیا
مجھے بحری جہاز کا سفر پسند ہے تو میں یقیناً کہتا کہ نہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ
میری گرفتاری کے دوران میری تمام یادیں بری ہی تھیں۔
اہم ترین بات یہ تھی، کہ اس عرصے میں میں تنہا رہنا چاہتا
تھااور جو میرے آرام میں خلل ڈالتا تھا ، مجھے برا لگتا تھا۔ ماضی کی یادوں میں
میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے پوری
کوشش کی کہ اس ماحول سے نکل کر آزاد ہوجاؤں اور خوشی سے پھر سے رہنے لگوں لیکن پھر
میں نے سوچا کہ اس طرح کی رہائی سے مجھے حقیقی آزادی حاصل نہیں ہو پائے
گی۔ علاوہ ازیں مجھے فرار کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ
کبھی نہ کبھی ایسی صورت نکل سکتی تھی ۔میرے دانتوں کی اس وقت جو حالت ہے ،
ان کو بڑے احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔معمولی سے معمولی کام جیسے
اخروٹ توڑنا بھی مشکل لگتا تھا لیکن بعد میں میں فولاد کی سلاخوں پر
بھی پنجہ آزمائی کرتا تھا۔اور اگر میں سلاخیں توڑنے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو اس
سے مجھے کیا حاصل ہوتا۔اگر میں کسی طرح بھاگ بھی جاتا تو وہ مجھے پھر پکڑ لاتےاور
مجھے اس سے بھی سخت پنجرے میں بند کر دیتے۔؛ یا، اگر وہ اس کا نوٹس نہ لیتےتو میں
دوسرے جانوروں میں شامل ہو جاتا۔ان میں بڑے بڑے اژدہے بھی ہوتے تھےاور ان کی گرفت
میں آکر دم توڑ دیتا، اور یہ بھی ممکن تھا کہ میں عرشے تک کسی نہ کسی طرح پہنچ کر تختے
سے چھلانگ لگا دیتااور سمندر میں گر جاتا اور اس کی لہروں کے اتارچڑھاؤ کے رحم پر
کچھ عرصہ پانی کے اوپر رہتا اور پھر ڈوب جاتا۔یہ تمام طریقے بیکار تھے۔ان حالات
میں اس قسم کی حرکات بے فائدہ تھیں۔اس لئے میں نے سوچا کہ میں انسانوں
کے سامنے ہتھیا ر ڈال دوں اور جو وہ چاہتے ہیں، کروں۔
میں حساب رکھنے لگا، لیکن ان کی سرگرمیوں کو شغل کے طور پر
دیکھنے لگا۔میں ان لوگوں کو ادھر ادھر جاتے دیکھتا رہا؛ ہمیشہ وہی چہرے ہوتے تھے؛
ان کی حرکات پرانی ہی ہوتی تھیں،اور مجھے اکثر یہ محسوس ہواکہ وہ ایک ہی شخص ہوتا
تھااور یہ ایک آدمی یا زیادہ آدمی بنا روک ٹوک کام کرتے تھے۔وہ کسی بڑے
پراجیکٹ پر کام کررہے تھے۔ مجھے یہ کہا گیاتھاکہ اگر میں ان کی ہدایات پر عمل کروں
گا تو میرا پنجرہ کھول دیا جائے گا۔اس قسم کے وعدوں پر یقین
کرنا ناممکنات لگتی تھی، اور اگر کوئی اس ناممکن کام کو ممکن
بنانے میں کامیاب ہو جاتا، تب وہ وعدے بعد ازاں ،کہا جاتا ہے کہ ہر کسی کو حاصل
نہ تھے۔ ان لوگوں کے بارے میں اب میں نے سوچنا چھوڑ دیا تھا۔میں اپنی
آزادی کے اس تصور پر قائم تھااور فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ جو چاہیں گے، وہ کروں
گا۔میں سمندر میں چھلانگ لگانے پر ترجیح دیتا اگرمیں نے یہ
من نہ بنایا ہوتا۔لیکن حتمی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے میں بہت غور سے ان
کی سرگرمیاں دیکھتا رہا۔۔۔در اصل ، یہ میرے مشاہدات کا مجموعہ تھا جس
نے مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی۔ان لوگوں کی نقل کرنا مجھے بہت آسان لگا۔میں نے
پہلےہی دن ان کی تقلید میں زمین پر تھوکنا سیکھ لیا۔ ہم ایک دوسرے کے
چہروں پر تھوکتے؛ ان میں اور مجھ میں فرق یہ تھا کہ تھوکنے کے بعد میں
اپنے چہرے پر لگی تھوک چاٹنے لگتا او وہ ایسا نہیں کرتے تھے؛
پھر جلد ہی ان کی طرح پائپ سلگانااور پینا سیکھ لیا؛اور جب میں
نے انجانے میں اپنی انگلی سلگتے پائپ میں ڈالی، تو پوراگروہ خوشی سے اچھل پڑا۔ میں
کافی عر صے تک اس بات سے بےخبر رہا کہ کبھی پائپ میں تمباکو ہوتا تھا اور کبھی وہ
خالی ہوتا تھا۔
مجھے سب سے زیادہ مشکل اس وقت پیش
آئی جب مجھے شراب کی بوتل دی گئی۔اس کی بدبو میرے لئے ناقبل
برداشت تھی،لیکن میں نے میں نے پورا جبر کر کےپی لی لیکن اس کی بو سے
مجھے کئی ہفتوں تک کراہت آتی رہی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ عملے کو
میرے جذبات و احساسات سے سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ میں جس طرح کی کوشش کرتا ،وہ
مشاہدہ کرکے قلمبند کرتے جاتے۔ میں ان اشخاص کو
اپنی یادداشتوں سے الگ نہیں کر سکتالیکن ان میں سے ایک ایسا شخص تھا جو
میرے پاس اکیلا یا اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی صبح، کبھی
دوپہر اور کبھی شام یا کسی بھی وقت بار بار آتا
تھا؛ وہ میرے سامنے بیٹھ جاتا اور مجھے بار بار کوئی کام کرنے کو کہتا
رہتا۔ میں اس کی باتیں نہیں سمجھ سکتا تھا، لیکن میں جس طرح
اس کی باتوں پررد عمل دیتا ،وہ نوٹ کرتا جاتا تھا۔وہ بڑی آہستگی سے شراب
کی بوتل کا ڈھکنا کھولتااور پھر میری طرف دیکھتا کہ کیا میں اسے دیکھ رہا ہوں اور
اس کی بات سمجھ رہاہوں؛میں اس کے سامنے اعتراف کرتا کہ میں اسے دیکھ رہاہوں،
جنگلیوں کی طرح، جلد ہوشیاری سے ، کسی انسان کو ایسا عمدہ انسانی طالب
علم دنیا بھر میں نہیں ملا ہوگا۔بوتل کا ڈھکنا اتارنے کے بعد، وہ اسے
اپنے منہ کی طرف لے جاتا؛ میں اس بوتل کو اس کے منہ کی طرف جاتے ہوئے دیکھتا؛وہ
میرے جواب سے مطمئن ہو کر اپنا ہاں میں سر ہلاتا؛اور پھر بوتل اپنے منہ
کےپاس لے جاتا؛ میں اپنے کمزور علم کی بنا پر آہستہ آہستہ اس کی نقل کرتا،چوہے کی
آواز نکالتااور اپنے جسم کو آگے پیچھے کرکے توازن قائم
کرتا، جہاں کہیں؛ وہ خوش اور مطمئن ہوتا، میں اس کی نقل
کرتا رہتا ؛ پھر وہ بوتل کو ہونٹوں کے پاس لے جاکراپنا منہ کھولتا اور بوتل سے
گھونٹ بھر کر نگل لیتا؛مجھے اس پررشک آر ہا ہوتا ۔ میں اس کی تقلید کرتا تو پنجرہ
گیلا ہوجاتا۔وہ میری کوششوں پر بہت خوش ہوتا؛اب بوتل کو دور سے
پکڑلیتااور نئے انداز میں پیچھے کی طرف جھکتے ہوئے، وہ مجھے جتنی زیادہ واضح
ہدایات دیتا اپنے منہ کی طرف لاتا؛ اس کے بعد
اگلا مرحلہ شروع ہوا اور اس نے بوتل کو منہ لگا کربڑے گھونٹ
لینا شروع کردیئے۔اس کے اسباق سے میری قوت برداشت میں کمی واقع ہونا
شروع ہوگئی تھی، اور میں نے اس کی ہدایات پر عمل کرنا بند کر دیااور پنجرے سے لٹکا
رہنے لگا جبکہ وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ پھرتا رہتا۔یہاں تک وہ اشارے کرتے تھے
اور میں انہیں دہراتا تھا۔
اس کے بعد میری عملی تربیت شروع
ہو گئی۔کیامیں اس نظریے سے تنگ آچکا تھا؟ ہی سچ ہے کہ
میں اس کے اشاروں کی زبان سے تنگ آچکا تھا۔وہ میری قسمت میں
لکھا تھا۔ میں کانپتے ہوئے اس بوتل کے پاس جتنی تیزی سے
جاسکتا تھا، پہنچاکرتا، اس کا کاک اتارتا؛ ہر کامیابی کے
ساتھ مجھ میں مزید توانائی آتی گئی اور میں اشاروں سے انہیں حقیقی طور
پر کرنے لگا۔ایک تجربے میں میں نے بوتل اٹھائی ، اسے اپنے ہونٹوں کے پاس لے گیا ،
اس میں سے بو آرہی تھی۔ میں نے اسے ناگواری سے اپنے منہ سے لگا لیا۔
بوتل خالی تھی اور اس میں سے بو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے۔،اور میں نے کراہت سے اسے
زمین پر پھینک دیا۔میرا استاد میرے اس فعل سے مایوس ہو گیا جس سے
میں افسردہ ہو گیا۔میں نے اسے منانے کے لئے یااپنے حافظے
میں لاتے ہوئے، اس بوتل کوزمین پر پھینکنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ پیٹ پر ہاتھ پھیرنا
تھا، جو میں نے دانت پیستے ہوئے کیا۔
مجھےاس طرح کے
لاتعداد اسباق دئیے گئے۔لیکن ان سب کی نیک نامی
اس کے حصے میں آئی۔وہ مجھ پر کبھی بھی غصے نہیں ہوا؛ لیکن اس کے بعد کے تجربے
میں اس نے اپنےپائپ میں آگ خود لگا ئی اور پھر
بجھائی۔اس کے بعد اس نے وہ پائپ زمین پرپھینک دیا۔ میں اس سلگتے ہوئے پائپ کے پاس
مشکل سے پہنچا؛ لیکن اس نےاسے خود اٹھا لیا اور اسے مکمل طور پر بجھا دیا۔وہ
مجھ پر کبھی خفا نہ ہوا۔ہم دونوں میں کبھی اختلاف نہ ہوا اور ہم ایک ہی
طرح سے سوچتے رہے، جو بن مانس والی عادات چھڑانااور ان کی جگہ انسانوں والی عادات
ڈالنا تھا۔ہم دونوں یہی چاہتے تھے، لیکن میرا کام ا س سے سخت تھا۔
اس کے بعد ایک بہت بڑی دعوت کا
اہتمام کیا گیا جس میں شوخ دھنیں بج رہی تھیں۔ اس میں بہت سے مہمان
شرکت کر رہے تھے، ان کے مابین ایک افسر ان کے درمیان چہل قدمی کررہا تھا۔۔۔جب اس
شام ،ایک دیکھے جانے والے لمحے میں میں نے بے سوچے سمجھے وہ بوتل جو
میرے پنجرے کے پاس پڑی تھی، اٹھائی ، اس کا ڈھکن کھولا، اور تمام لوگوں کے سامنے ،
جیسے مجھے سکھایا گیا تھا، اسے اپنے منہ میں انڈیل دیا، اور ، بلا جھجک ، اپنے
ہونٹوں کو موڑے بغیر،ایک ماہر مے خوار کی طرح، آنکھیں گھماتے ہوئےچھپ چھپ کرتےپی
گیا۔ میں نے حقیقی طور پر وہ بوتل پوری خالی کردی اور اسے پسی ہوئی
مخلوق کی نسبت سے نہیں بلکہ آرٹسٹ کی طرح دور پھینک دیا ۔
میں اس کے بعد اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنا بھول گیا، لیکن اس کی بجائے،
کیونکہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور صورت نہیں تھی، کیونکہ انہوں نے میری بہترین
کارگزاری دیکھ لی تھی، اور چونکہ میرے حواس میرے قابو میں نہ تھے، میں
نے مختصر طو پر تفصیل بیان کی ، 'یا!انسانی آواز ،انسانی انجمن میں چیختے ہوئے
کہااور اس آواز کی گونج دور دور تک پھیل گئی۔وہ آواز یہ تھی،'سنو!وہ بول رہا ہے!'
میں دہرایا:وہ یہ نہیں سوچ سکتے
تھے کہ میں ان کی بات دہرا سکتا ہوں،۔ میں اس کی بات دہرا رہا تھا کیونکہ میں
پنجرے سے باہر آنا چاہتا تھا ،اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں تھی۔اس کے علاوہ اس
فتح سے کوئی اور چیز حاصل نہیں کی جاسکتی تھی۔ میری آواز فوراً ناکام ہو گئی۔مجھے
اب اس مقام پر واپس آنے میں کئی مہینے لگ گئے۔اور میری شراب کی بوتل سے
کراہت میں مزید اضافہ ہو گیا۔میری سمت، اگرچہ ایک بار پھرمنظم ہوگئی۔جب
مجھے ہیمبرگ میں ایک ٹرینر کے پاس بھیجا گیا تو اس وقت دو
ممکنات میرے لئے کھلے تھے۔ حیاتیاتی باغات یا تفریح کے
لئے رکھا جائے ۔میں نے کہا کہ مجھے تفریح کے لئے رکھ لو۔تم
جو چاہو فیصلہ کرو۔پنجرے سے باہر نکلنے کا یہی راستہ تھا کیونکہ اگر میں
حیاتیاتی شعبے میں جاتا تو وہاں مجھے بڑے سے پنجرے میں رکھا
جاتا اور وافر مقدار میں کھانے پینے کو دیا جاتا اور پنجرے میں گھومنے پھرنے کی
آزادی ہوتی۔اب ایک باروہاں گئے تو پوری زندگی وہاں کٹ جائے گی ۔اگر اس نے پنجرے سے
باہر آنے کی پختہ خواہش ہو حضرات ! تو ہر ایک کو سیکھنا چاہیئے اور
میں نے یہی کیا اور سیکھ لیا۔جیسے ایک شخص خود کی نگرانی
کوڑے سےکرتا ہے؛ دوسرا سخت گیری کی بجائےسہل پسندی دکھاتا ہے۔ میرے بن
مانس کی فطرت یہ تھی کہ وہ اپنی ایڑیوں پر گھوم کر، میرے اندر سے فوراً
نکلا اور دور چلا گیا، اس طرح میرا پہلا استاد تقریباً اس عمل میں خود ہی بن مانس
جیسا بن گیا، نے جلد ہی ٹیوشن چھوڑ دی اور اسے دماغی ہسپتال پہنچادیا گیا، اور اسے
جلد ہی وہاں سے چھٹی مل گئی۔
لیکن مجھے ہمیشہ کئی اساتذہ
پڑھاتے رہے۔۔۔یہاں تک کہ ایک وقت کئی کئی اساتذہ آتے تھے۔جب مجھے اپنی
صلاحیتوں پر اعتبار ہو گیا، عوامی حمائت نے میری حوصلہ افزائی کی، تو
میرا مستقبل درخشاں نظر آنے لگا۔اس کے بعد میں نے استاد کواز خود اپنی مرضی سے
مائل کرنا شروع کردیا،اور انہیں متواتر پانچ مختلف کمروں میں مصروف
رکھااورکود کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے کود کر خوشی سے جاتا رہا اور سبق سیکھتا
رہا، یہاں تک یہ میرا استاد خود بھی بن مانس کی طرح کام کرنے لگا۔
وہ ترقی! علم کی یلغار سےمیرے
دماغ میں ارتعاش پیدا ہوا! میں یہاں اس بات سے انکار نہیں کروں گا کہ مجھے اس سے
ذاتی خوشی ملنے لگی۔میں یہ ذکر بھی کردوں کہ میں نے اپنی ترقی کو حقیقی
سطح تک ہی رکھا، بڑھا چڑھا کر بیان نہ کیا، اور سیکھی گئی مہارتوں کونہ
بھلایا،اورمحنت شاقہ سےجواس دنیا میں کبھی دہرائی نہیں گئی، میں نے یورپی تعلیم
حاصل کرلی تھی۔یہ اپنے آپ میں کچھ نہ بھی ہولیکن یہ بات طے ہے کہ
انہوں نے مجھے پنجرے سے باہر نکال دیاہے، انسانوں کی غلامی
سے رہائی کا یہی طریقہ ہے کہ ان کی بات مانی جائے۔ جرمنی زبان کاایک
مقولہ ہے 'جھاڑیوں میں دبک کرنکل جانا' سے مراد ،' اس کے اندر کا مقصد
سمجھنا'ہے،اور یہی کام تھا جو میں نے کیا۔میں جھاڑی میں دبک گیا، آزادی حاصل کرنے
کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کا رنہیں تھا۔
میں نے اس عرصے میں کیا ترقی کی،
کا جائزہ لیا جائے ، تو میں کہہ سکتا ہوں کہ نہ میں نے کبھی شکائت کی ہے اور نہ ہی
کم سیکھنے کی رفتار پر مطمئن ہوا ہوں۔اپنے ہاتھ اپنی پتلون کی جیب میں، میز
پر شراب کی بوتل لئے، میں آگے پیچھے ہونے والی آرام دہ کرسی پر نیم
خوابیدہ بیٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھتارہتاہوں۔اگر کوئی
ملاقاتی آتا ہے تو میں اس کا خوشدلی سے استقبال کرتا ہوں۔ میرا ذاتی
منیجر دروازے کی دہلیز پر بیٹھا ہوتاہے؛ اگر میں گھنٹی بجاتا ہوں ، وہ
آجاتا ہے اور میری بات غور سے سنتااور عمل کرتاہے۔ میرا شو اب ہر رات
لوگوں کو دکھایا جاتا ہے اور میری بہترین کارکردگی کو سراہا جاتاہے،
اور جب میں سائنسی انجمنوں سے رات گئے واپس آتاہوں ، تو ایک
نیم تربیت یافتہ مادہ چمپانزی میرا انتظار کر رہی ہوتی ہے اور میں بن مانس کے انداز میں لطف اندوز ہوتاہوں ،
لیکن دن میں اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا
،کیونکہ اس کی آنکھوں میں ایسی سراسیمگی پائی جاتی ہے جو نئے نئے چیمپانزی جو مہذب
دنیا کے طور طریقوں کے سیکھنے پر ہوتی ہے، سے مجھے خوف آتا ہے۔میں ایسی کیفیات سے
خود گزرا تھااور اسے اس بری حالت میں برداشت نہیں کر سکتا ۔
کسی بھی صورت میں، میں نےہم جہت
ہو کروہ تمام چیزیں سیکھیں جو میں چاہتا تھا۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ
میں نے جو سیکھا تھا، کی قدرو قیمت نہیں تھی اور وہ اہم نہیں تھا، علاوہ ازیں
میں انسانی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کا مشتاق نہیں ہوں؛میرا
بنیادی مقصد علم کی روشنی ہر جگہ پھیلاناہے۔؛ میرے اور سب کے لئے ،معزز حاضرین،یہ
میرا سپاس نامہ ہے۔ اکادمی کے بارے میں
تجزیہ
'اکادمی کا ایک سپاس نامہ' (اے رپورٹ فار این اکیڈمی)فرانز
کافکا کی ایک ایسی داستان ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ
ایسے جنگلی جانور جو انسان کے قریب ہے اور اس میں ذہانت پائی جاتی ہے،کو مشروطیت
کے ذریعے جنگلی عادتیں چھڑواکر انسانی عادات کیسے سکھائی گئییں ۔یہ فرضی جانور ایک چیمپیزی ہے جسے ایک
شکاری نے اسے افریقی جنگلوں سے پکڑا اوراسے پنجرے میں بند کرکے یورپ لے آیا۔ اس
چیمپیزی کا نام اس نے'ریڈ پیٹر' رکھا۔اس کو تربیت سے کچھ
انسانی اعمال سکھا کر اسے ایک کانفرنس میں پیش کیااور اس پر
کئے گئے تجربات اور اس سے حاصل کردہ نتائج کی رپورٹ پیش کی کہ اس نے کس
طرح اسے جانور وں والی عادات چھڑوا کر مہذب معاشرے کی عادات سکھائیں ۔ریڈ پیٹر کو
اس کانفرنس میں دعوت دی گئی کہ وہ بتائے کہ محنت و
مشقت سے اس کی سوچ میں کیسے تبدیلی آئی۔وہ اس کانفرنس میں تقریر
کر کے خود پر ہونے والے سلوک کا بتاتا ہے کہ کس طرح اس کی
سوچ میں تبدیلی آئی۔
ریڈ پیٹر نے بتایا کہ اسے ایک
شکار میں پکڑ کر پنجرے میں بند کردیااور بحری جہاز پریورپ لے آئے۔اس نے رہائی کی
بہت کوششیں کیں جو بے سود ہوگئیں۔اس نے سوچا کہ اس نے رہائی تو کسی نہ
کسی طرح حاصل کرنی ہے، کیوں نہ انسانوں کی باتیں مان کر دیکھا جائے کہ
کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
اس نے ہر وقت اپنے ارد گرد لوگوں
کا مجمع دیکھا۔وہ اسے کچھ نہیں کہتے تھےاور اس کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔ وہ ان کا
جنگلی انداز میں تمسخر اڑاتا تھا۔وہ اس سے اچھا سلوک کرنے لگے تو وہ ان کی منشا کے
مطابق ان کا کہا ماننے لگا۔سب سے پہلے تو انہوں نے اسے جانوروں کی طرح چار پاؤں
پرچلنے کی بجائے،انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر کھڑا ہوکر چلنا سکھایا۔یہ عمل بہت
مشکل تھا لیکن وہ متواتر مشق اور محنت سے سیکھ گیا۔اس نے انسانوں کی
طرح شراب پینا شروع کردیا، اور اس کے علاوہ بہت سی مزید
انسانی عادات سیکھیں۔اس نے بتایا کہ اس کا کبھی یہ مقصد یہ نہیں رہا کہ
وہ انسان بنے اوران کی سی حرکات کرےبلکہ اس میں یہ امید پیدا ہو
گئی تھی کہ اگر وہ انسانوں کی توقعات کے مطابق سیکھ لے گا
تووہ خوش ہو کر اسے رہا کر دیں گے۔اس کانفرنس میں اس بات کا جشن منایا جا رہا تھا
کہ ریڈپیٹر نے بہت سے انسانی اعمال سیکھ لئے تھے اور اس نے بتانا تھا کہ یہ سب
کیسے ہوا۔اس کہانی میں شناخت،آزادی اور 'اسیمی لیشن 'کا بیان دیا گیا ہےجس میں اس نے اپنی جسمانی
مشقتوں اورنفسیاتی تبدیلیوں کی تفصیل بتائی۔
اس کہانی کے بنیادی
موضوعات اسیمی لیشن ، اڈیپٹنشن اور شناخت ہیں۔کافکا ریڈ پیٹر چیمپانزی سے انسان
نما فرد بنا کر قربانیوں کی مضبوط مثال بنا دیا ہے جس میں وہ دہشتناک
ماحول میں وہ اس قسم کا کردار ادا کرتا ہے کہ وہ قبولیت حاصل کر سکے۔اپنے جنگلی
کردار اور اپنے اس کردار میں مطابقت پیدا کرسکے جس میں اس کی سختیاں کم ہوں اسے
سراہا جائے۔ریڈ پیٹر کے سفر میں اپنی بقا کے لئے اس کا تصور ذات ختم ہو
جاتا ہے ۔ کافکاانسانی ترقی اور تہذیب و تمدن کے تصورات پرکڑی تنقید کرتا ہےاور
کہتا ہے کہ جسے وہ تہذیب وتمدن کا نام دیتے ہیں وہ در اصل وہ
خصوصیات ہوتی ہیں جو وہ معاشرے سے سیکھتا ہے۔ ان کے اثرات
گہرے نہیں ہوتے بلکہ سطحی ہوتے ہیں۔قصہ کوتاہ یہ کہانی فطرت ، ثقافت ،
آزادی ، قید ، حکمرانی اور مصالحت پر مبنی ہے۔
یہ کہانی خوفناک صورت
حال میں ایک ماحول سے دوسرے ماحول، ایک نسل کے خیالات
سے دوسری نسل کے خیالات اور کردار کی انتقالیت سے متعلق ہے۔ریڈ پیٹر کے
سپاس نامے سے کافکا حیوانی اور انسانی تہذیب اوروحشیانہ پن
کی زندگی کا طنزیہ انداز میں موازنہ کرتا ہے۔ریڈ پیٹر کی سکھلائی اس کا خوہش اور
آرزو کی بدولت نہیں ہے بلکہ یہ ضرورت کے تحت ہے۔وہ
انسانوں کا کہا اس لئے نہیں مانتا کہ اس کا مقصدنئے
نئے ہنر سیکھنا تھا بلکہ پنجرے سے رہائی حاصل کرنا تھا۔ تاہم،یہ آزادی
ادبی اور کنایوں کی بھی ہو سکتی تھی۔ کافکا نے یہ کہانی چمپانزی کے منہ
سے ایسے نکلوائی ہے کہ اس میں اس نے انسانوں والی زبان استعمال کی ہے جس میں اس نے
اپنی جنگی زندگی اور شہری زندگی کے ڈھانچے کا موازنہ کیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ
سماجی ڈھانچےفرد کو کس طرح مجبور کرتے ہیں کہ اپنی اصل شناخت بھول
جائے۔یہ کہانی نوآبادی نظام اور آبائی اصلی ثقافت کے ترک ہونے پر بھی
بات کرتی ہے۔اس کہانی میں حکمرانی میں کمی اور خاتمے میں خدشات پر بھی
بحث کی گئی ہےجو قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حقیقی آزادی کیا
ہوتی ہے اور اس کے لئے اسےکیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
یہ کہانی پاکستان
کےقدیم نوآبادیاتی اور نئے نوآبادیاتی نظام پرہے
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں لوگ کس طرح مطابقت اختیار کرتے ہیں، اس
کے منوال سیکھنے کے لئے کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ مغربی ثقافت کا
تحفظ،اور معاشرتی مطابقت کی گونج اس کہانی کے اہم نکات
ہیں۔ریڈ پیٹر کی کہانی کی مثال ایسے لی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو اقوام
عالم میں جدید اور روایات میں مطابقت کیسےپیدا کی جائےتاکہ اس کی عزت
ہو۔
………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
15 Book 5 In
the Penal Colony
تعزیری کالونی میں
In the
Penal Colony
فرانزنکافکا ( نوبل
انعام یافتہ)
Franz
Kafka(Nobel Laureate)
'قانون کے تحت مجرموں کو سزا دینے کے لئے ڈیزائن
کیا گیا یہ واحدآلہ ہےجو یہاں استعمال کیا جاتا ہے 'عدالتی افسر نے اپنی ستائشی نظریں ایک
آلے پرڈالتے ہوئے ایک راہی سے جو سرکاری سطح پر اس کے
عدالتی نظام کا مطالعہ کرنے آیاتھا،کہا، ۔' یہ
آلہ ایک اعلیٰ قسم کی مشین ہے جس میں پرزے میکانکی
انداز میں کام کرتے ہیں۔اسے دیکھو'۔ شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئےراہی
نے اس کی دعوت قبول کر لی اور آلے کو دیکھنے لگا۔عدالتی افسر نے بتایا
کہ وہ اس وقت ایک مجرم کو اس مشین کے ذریعے اس کے سامنے سزائے موت دینے
جارہاتھا۔اس نے اپنے سرکاری افسر کے حکم کی سنگین خلاف ورزی کی تھی جس پرعدالت نےاسے
سزائے موت سنائی گئی تھی ، کمانڈر نے اسے سزاپر عملدرآمد کرنے کوکہاتھا۔اس قسم کے
احکامات اس جزیرے میں عام تھے اس لئےایسے فیصلے
پر اس کالونی کے باسیوں کو حیرت نہ ہوئی اور نہ اس مقدمے میں
زیادہ دلچسپی لی گئی۔
وہ کالونی ایک جزیرے میں تھی جو
دور دراز ریتلی وادی میں واقع تھی اور چاروں طرف سنگلاخ ڈھلوان والی
چٹانوں سے ڈھانپی ہوئی تھی۔عدالتی افسر اس وقت وہاں اس مجرم کوسزا دینے کے لئے
آیاتھا۔اس جگہ پر اس وقت صرف چار افراد موجود تھے۔افسر؛ راہی، ایک فوجی اورگستاخ جسےمجرم قرار
دیا گیا تھا۔ گستاخ کے منہ کا دہانہ سائز میں
بڑاتھااور اس سر کےبال چھدرےاور چہرہ بھداتھا۔۔۔
ایک فوجی اہل کار نےاس کے ہاتھوں میں وزنی ہتھکڑی لگائی
ہوئی تھی اور اس کے گھٹنوں،کلائیوں اور گردن کو پا بہ زنجیر کیا ہوا تھا۔کسی بھی
طرح ، وہ مجرم ایک کتے کی طرح اتنا بےبس اور کج دار ہوگیاتھا جتناکہ وہ ہو سکتا
تھا، اس میں کوئی شک نہیں تھاکہ اس قصور وار شخص کو اس حالت میں ان ڈھلوان چٹانوں
پر کھلا چھوڑدیا جاتاتو وہ کہیں دور نہیں جاسکتاتھا اور ایک سیٹی بجا نے پر واپس لایاجاسکتاتھا۔
راہی کوبظاہر
اس قصور وارشخص میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ
اس کا مقصد یہ تھا کہ معلوم کرے کہ اس جزیرے میں سزا اور جزا کاعمل کیسے ادا کیا
جاتا ہے۔افسر سزا دینے والی مشین کے کل پرزے ٹھوک بجا کرچیک کر رہاتھا
۔مشین زمین میں گڑی ہوئی تھی ،وہ سیڑھی سے اس مشین کے
نچلے اور اوپر والےپلڑوں کا
معائنہ کررہاتھا۔اس نے دیکھا تو وہ صحیح تھے۔یہ کام دراصل
مکینک کے ہوتے ہیں لیکن اس نے اسے نہیں بلایا تھااور یہ کام از خود کرنا چاہتا تھا۔
وہ اس مشین کا بڑا مداح تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ سزائے موت کے لئے یہ
مشین بہترین تھی ۔اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات تھیں جو اس کی ذاتی تھیں
اور اس نے کسی کو نہیں بتائی تھیں۔
'مشین کا یہ حصہ بالکل صحیح ہے!'اس نے کہا اور سیڑھی سے نیچے
اتر آیا۔اس کے چہرے پر تکان نظر آرہی تھی۔ وہ ہانپ رہا تھا
اور پورا منہ کھول کرسانس لے رہا تھااور اس نے دو زنانہ
رومال اپنے یونیفارم کی قمیص کے کالر میں ٹھونس رکھے تھے۔'یہ یونیفارم
گرمیوں کے موسم کے لئے بہت بھاری ہے۔ '
راہی نے آلات کے پرزوں کے بارے میں بات کرنے کی
بجائے غیر متوقع طور پر کہا۔
'کافی زیادہ۔'افسر نے اپنے گریس سے لتھڑے تیل کو
پانی سے (جو پہلے سے موجود تھا)، دھوتے ہوئے کہا۔'لیکن یہ وردی
ہمارے جزیرے کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ ہمارا مادر وطن ہے
اورہم اس زمین سے کبھی ہاتھ دھونا نہیں چاہیں گے۔آؤ اب اس مشین کے صحیح پیمائش کے
قبالہ آلات دیکھو۔'اس نے اپنے ہاتھ تولئے سے خشک کرتے ہوئے اوزار
کی طرف جاتے ہوئے جلدی سے کہا۔'اس مشین پر اب تک،تو ہاتھ کا
کام تھا،لیکن اب اس کےمیکانکی انداز میں کام کرنے والے پرزوں کی چیکنگ
کرناہوگی۔'یہ کہہ کر وہ مشین کے دوسرے حصے کی طرف چلا گیا۔
راہی نے ہاں میں سر ہلایا اور اس
کے پیچھے ہو لیا۔افسر نے ان دیکھے مسئلے سے نپٹنے کے لئےحفظ ماتقدم کے طور پر کہا۔
'معاملات میں اتفاقی گڑ بڑ کے مواقع ہوتے رہتے ہیں لیکن مجھے توقع ہے
کہ آج ایسا کوئی حادثہ پیش نہیں آئے گا۔اس پر کل ایک مجرم کو
سزا دی جا چکی ہے اور مسلسل پچھلے بارہ گھنٹوں سے استعمال ہورہی
ہے۔اگر معمولی نوعیت کی ہو ئی تو اسے فوراً درست کر لیا جائے گا، گھبرانے کی ضرورت
نہیں۔ویسے میرا خیال ہے کہ کوئی پرزہ گڑ بڑ نہیں کرے گا۔'
؛کیا تم بیٹھو
گے نہیں !'افسر نے کرسیوں کے ڈھیر سے ایک کرسی کھینچتے ہوئے راہی کے آگے کر دی اور کھڈے ( کھائی) کے کنارے بیٹھ
گیا جہاں افسر کام کر رہاتھا۔وہ اس کے
اندر دیکھتا رہا۔ یہ کھائی زیادہ گہری نہیں تھی۔اس کے ایک
طرف ،کھودی گئی مٹی کا ڈھیر لگا ہوا تھا جو اس کے کھونے کی وجہ سے جمع
ہوئی تھی ۔اس کھائی کی دوسری
طرف مشین نصب تھی جسے قبالہ مشین کہا جا سکتا
تھا ۔ اس میں طرح طرح کے پرزے جڑے ہوئے تھے اور افسر نے ہر پرزے کا
جائزہ لینا تھاکیونکہ اگر ذرا سی بھی گڑ بڑ ہوئی تو سزا صحیح طریقے سے
نہ دی جا سکتی تھی۔
'میں نہیں جانتا۔'افسر نے کہا،کہ کمانڈر نے تمہیں اس مشین کی
تفصیلات سے آگاہ کیا ہے یا نہیں۔' اس پر راہی نے گول مول جوب دیا؛اور
افسر اس سے اس وقت اس سے بہتر سوال نہیں پوچھ سکتا تھا۔ راہی کے
جواب پر اس نے از خود اس مشین کے بارے میں بتانے کا ارادہ
کرلیا ،'یہ مشین( قبالہ آلہ )،'اس نے ہینڈ ل اپنی طرف موڑتے
ہوئے اس کے اوپر جھکتے ہوئے پوچھا،'ا یہ درست ٹھکائی
لگانے والا اوزار ہے جسے ہمارے سابقہ کمانڈر نے ایجاد
کیاتھا۔میں نے بھی ہر مرحلے میں سوائے اس وقت کے کہ جب وہ
بالکل ٹھیک انداز میں کام کرنے لگ گئی تھی، میں اس کی پوری
معاونت کی تھی ۔تاہم میں اپنےپرانے کمانڈراکیلے کو اس ایجاد کا
مستحق سمجھتا ہوں۔'
'کیا تم نے ہمارے سابقہ کمانڈر کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اب
کہاں ہے؟' افسر نے پوچھا۔۔۔'نہیں؟ راہی نے جواب دیا
۔۔۔'لیکن میں کسی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہااگر میں کہوں کہ اس
تمام تعزیری بستی کے مکمل انتظام و انصرام کا ذمہ دار سابقہ کمانڈر
ہے۔اس وقت تک وہ سیاہ و سفید کا مالک رہا جب تک کہ وہ فوت
نہ ہوا۔۔۔اس نے اس وادی کا عدالتی نظام متعارف کروایا،
سزااور جزا کے اصول وضع کئے۔ اپنے جانثاروں کو اس بستی کی تنظیم کے بارے
میں مہارت دی۔اس نے اس تعزیری بستی کوڈیزائن کرکےایسی تنظیم تشکیل دی
تھی کہ اس کے جانشین جن کے ذہن میں خواہ ہزار
منصوبے اس کے برعکس بھی ہوں ، اسے تبدیل کرنا چاہیں بھی تو اس کے لئے
کئی سال درکار تھے۔ہمارا خیال درست نکلا اور نیا کمانڈر اپنی تمام تر
خواہشات کے باوجود ابھی تک اسے نہیں بدل
سکا!' ۔۔۔ افسر بات کرتے کرتے رک گیا،' میں طوطے کی طرح ٹر ٹر کررہاہوں اور خود ہی
بولے جا رہا ہوں، اور سابقہ کمانڈر کی مشین اس وقت ہمارے
سامنے کھڑی ہے۔تم دیکھ سکتے ہو کہ اس کے تین حصے ہیں: نچلا؛
درمیانی؛اور بالائی ۔اس کے نچلے حصے کو' بنیاد یا تختہ ' (
بیڈ)؛ درمیانے حصے کو جو ادھر ادھر لہرا رہا ہے ' سپول'(
ہیر رو) ؛اور بالائی حصے کو ڈرافٹس مین کہتے ہیں۔
' ڈرافتس مین؟'راہی نے عدم دلچسپی دکھاتے ہوئے کہا۔
اس ریتلی وادی میں سورج اپنی تمازت دکھا رہا تھا،اس لئے
باتوں پر توجہ دینا مشکل ہورہا تھا۔ افسر اپنی یونیفارم میں جس
میں تنگ لمبی قمیص ،کاندھوں پر لگی جھالر اور اس
پرلگی ڈوری میں، جچ رہا تھا، اپنے موضوع کو بڑے جوش اور ولولے سےبیان
کر رہا تھا،اور اپنی گفتگو کے درمیان ایک پیچ کوبے دھیانی
سےکس رہا تھا۔فوجی اہلکار کی سوچ بھی راہی کی مطابقت کر رہی
تھی ۔قصور وار ہتھکڑی اور بیڑیوں میں جکڑا تھا ۔اس کی کلائیاں زنجیروں
سے زخمی ہو گئی تھیں۔ اس کا سر گردن پرڈھلکا ہواتھا، اور وہ بے بس تھا۔
فوجی اہلکار اور قصور وار کو افسر اور راہی کی گفتگو سمجھ
نہیں آ رہی تھی کیونکہ وہ ان کی زبان سمجھ نہیں
سکتے تھے۔ وہ فرانسیسی میں گفتگو کررہے تھے۔قصور وار کی مخمور آنکھوں سے اسے اس
بات کا اندازہ ہورہاتھا کہ افسر راہی کو کیا دکھانا چاہ رہا تھا۔
راہی نے افسر سے فرانسیسی میں کوئی سوال کیا، تو قصوروار نے افسر اورراہی کی طرف متجسس نظروں
سے دیکھا۔
'ہاں، سپول ( ہیررو)۔۔۔ دندانے دار پرزہ!'،افسر نے جواب دیا۔
'اس پر یہ نام ٹھیک بیٹھتا ہے۔اس میں سوئیاں اس انداز میں ترتیب دی گئی
ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی طور کر مل کر کام سر انجام دیں۔ ان میں ربط ہے۔اگر ایک پرزہ
بھی کام نہ کرے تو پورا نظام صحیح کام نہیں کرتا۔وہ سپول کی سخت جانچ کررہاتھا۔قصوروارکو اس
وقت مشین کے نچلے حصے (بیڈ) پر لٹادیا گیا تھا۔۔۔' میں
تمہیں اس مشین کی تفصیل بتانا چاہتا ہوں اور اس کے بعد اس کے چلانے کا طریقہ بتاؤں
گاتو تمہیں اس کی کارکردگی کا علم ہو جائے گا۔اس
کے علاوہ اس کے بالائی حصے ڈرافٹس مین والے حصے میں دندانے اور سوئیاں لگی ہیں۔جب یہ مشین چلائی جاتی ہے تو یہ بہت شور
کرتی ہے۔اس کی چنگھاڑ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی
اور باہمی گفتگو نہیں کی جا سکتی، اگر اس کا کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو بدقسمتی سے
سپیر پارٹ نہیں ملتا۔ادھر اس کا زیریں حصہ ہے جسے بیڈ کہتے
ہیں جو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔اس پراچھی طرح روئی کی تہہ لگادی گئی
ہے؛ ایسا کیوں کیا گیا ہے ، بعد میں بتاؤں گا۔اس روئی پر قصور وار
کو بالکل ننگا کرکے پیٹ کے بل لٹا دیا جائے گا۔پٹیوں سے اس کی دونوں
کلائیاں ، گردن اور دونوں ٹانگیں اچھی طرح سےجکڑ دی جائیں
گی۔اس کے منہ میں تہہ بہ تہہ بھگویا ہوا کپڑے کا نمدہ ،جسے اپنی مرضی
سے کسی بھی جگہ رکھا جا سکتا ہے، اس کے منہ میں اچھی طرح ٹھونس دیا جاتا ہے۔اس کا
مقصدقصوروار کو چیخنے چلانے اوراس کی زبان دانتوں میں آنے
سے بچانا ہے۔نمدہ یہ کام بخوبی کر لیتا ہے، ورنہ اس شدید
درد سے اس کا منکا ٹوٹ جائے گا۔'
'کیایہ نمدہ روئی سے بناہے؟'مسافر نے
آگے جھکتے ہوئے پوچھا۔
'ہاں، یقیناً،'افسر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔'تم
خود اسے محسوس کرکے دیکھ لو'۔اس نے راہی کا ہاتھ پکڑا
اورمشین کے بیڈ پرپھرایا۔' یہ ایک خاص قسم کی روئی ہے اس
لئے اس کی شکل غیر معمولی ہے؛ اس کے اصل مقصد پر بعد میں آؤں گا۔'
تھوڑی بہت تفصیل جاننے کے بعد
راہی کو اس مشین میں تھوڑی دلچسپی محسوس ہونے
لگی۔سورج کی روشنی سے بچنے کے لئےاس نے اپنی ایک آنکھ ہاتھ سےبند کی
اور ایک طرف ہو کےاس مشین کےبہت بڑے ڈھانچے کو دیکھنے لگا۔بالائی حصے
ڈرافٹس مین اورسب سے زیریں حصے حجم میں برابر
تھےاور دو سیاہ صندوقوں کی مانندلگ رہے تھے۔ڈرافٹس مین والا حصہ بیڈ سے تقریباً
سات فٹ اونچا تھا؛ ان کے کونے چار جست کی موٹی سلاخوں سے جوڑے گئے تھے
جو سورج کی روشنی میں خوب چمک رہے تھے۔ڈرافٹس مین اور بیڈ کے
درمیان ،سپول (ہیررو) تھا جس میں فولاد ی پرزےکے
ساتھ ادھر ادھر چکر لگانے والا بند تھا۔
افسر نے راہی کی مشین
میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کوبھانپ لیا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ اس نے
تفصیلات کو درمیان میں چھوڑ دیا۔۔۔اور راہی
کو کسی مداخلت کے بغیراس مشین کا اچھی طرح
سےمعائنہ کرنے کا وقت دیا۔قصور وار شخص نے بھی مسافر کی تقلیدمیں
اوپر دیکھا لیکن چونکہ وہ اپنی آنکھوں کواپنے ہاتھوں
سے ڈھانپ نہیں سکتا تھااس لئے سورج کی روشنی
سے وہ سکڑ گئی تھیں۔
'فرض کرلیتے ہیں کہ وہاں قصور وار وہاں بیڈ پر
لیٹا ہوا ہے،' راہی نے اپنی کرسی پر جھکتے ہوئےاپنی ایک ٹانگ دوسری پر
چڑھاتے ہوئے کہا۔
'ہاں، 'افسر نے گرمی سے تپے ہوئے منہ پر ہاتھ پھیرکر
اپنی ٹوپی ذرا سی پیچھے کرتے ہوئے کہا۔'ا
سنو! مشین کے سب سے نچلے حصے بیڈ اور سب سے اوپر
والےحصےڈرافٹس مین میں بجلی سے چلنے والی ایک بیٹری
لگی ہوتی ہے ؛ بیڈ کو الگ سے بیٹری کی ضرورت ہوتی ہے، او
درمیانے حصے سپول ( ہیررو)کو بھی بیٹری چاہیئے ہوتی ہے۔جب قصوروار کو
اچھی طرح جکڑ دیا جاتا ہے،تو بیڈ کا سوئچ آن کردیا جاتا ہے
اورمشین ہلکے ہلکے جھٹکے کھانے لگتی ہے، پھریہ
جھٹکے اوپر نیچے، دونوں اطراف سےتیز ہو جاتے ہیں۔تم نے اس
طرح کی مشینیں ٹی، بی کے ہسپتالوں میں دیکھی ہوں گی؛ اس میں صرف اتنا
فرق ہوتا ہےکہ ہماری مشین کے بیڈ پر جو جھٹکے لگائے جاتے ہیں، وہ اپریٹر کے پورے
کنٹرول میں ہوتے ہیں،وہ انہیں اپنی مرضی سے کم یا زیادہ کرسکتا ہےاور اس کی حرکت
کی رفتار کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاتاہے۔اسے سپول کی
رفتار کے عین مطابق رکھنا پڑتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مشین کے درمیانی حصے
سپول کا کام مشین کی رفتار کا تعین کرنا ہے۔'
'رفتار کے تعین سے کیا مراد ہے؟'راہی نے پوچھا۔
'تم یہ بھی نہیں جانتے؟' افسر نے حیرانی سےاپنا نچلا ہونٹ
دانتوں میں دباتے ہوئے پوچھا۔' اگر میری تفصیلات کے بیان میں اونچ نیچ
ہو جائے تو براہ کرم در گزر کر دینا؛میں اس پر تہہ دل سے معافی چاہوں گا۔تم جانتے
ہو کہ سابقہ کمانڈر جو اس مشین کا خالق تھا، تفصیلات بتایا کرتا
تھا؛لیکن نئے کمانڈر نے اس اعزازی فرض سے کنارہ کشی کر لی
ہےاگرچہ ایک اہم ترین شخص کے سامنے اس مشین کی تفصیل نہ بتاناعجیب بات
ہے۔ تمام محکمے میں صرف میں ہی ایسا ہوں جو اس مشین
کے بارے میں پوری طرح جانتا ہے۔' اس نے اپنی چھاتی کی جیب کو ٹھوکا۔۔۔' یاد رہے
،سابقہ کمانڈر نے اپنے ہاتھوں سے اس مشین کا ڈیزائن بنایا تھا۔'
'اس مشین کے ڈیزائن پرانے کمانڈر نے اپنے ہاتھوں سے بنائے
تھے !'راہی نے پوچھا۔'کیا وہ تمام وقت حفاظتی ہیٹ پہنے رکھتا تھا؟ کیا وہ سپہ
سالار ، منصف، انجینئر، کیمیا دان،اور ڈرافٹس مین سب کچھ
تھا؟'
'ہاں۔ یقیناً۔'افسر نے چمکدار نظروں سے دیکھتے ہوئےفکر آمیز
لہجے میں کہا۔پھر اس نے اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھتے ہوئےکہا
:'وہ اپنے ہاتھوں کو میلا اور گندا سمجھتا تھا اس لئےمشین
کی ڈرائنگ کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا،اس لئے وہ اپنے ہاتھ بار
بار دھوتا۔اس کے بعد وہ چمڑے کا چھوٹا سا بیگ اٹھاکر
کہتا'ہماری ایجاد قصور والوں کی سزا کے لئے زیادہ سخت نہیں
ہے۔وہ احکامات جنہیں قصور وار نے ماننے سے انکار کیا ، کی مکمل تحریر
اس کے جسم پر لکھ دی جاتی ہے'،افسر نے قصور وارکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
' اس قیدی کے جسم پر یہ تحریر کیا جائے گا، 'اپنےافسروں کی
اطاعت کرو۔' اس پر راہی نے اس کی طرف سرسری طور
پر دیکھا۔ قصور وار نے اپنا سر جھکایا ہو ا تھالیکن اس کے
کان اس کی طرف پوری طرح متوجہ تھے، اور اس کی باتیں جو
اجنبی زبان میں تھیں ، کے انداز تکلم کو سمجھ کرکسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش
کررہاتھا،لیکن اس کے بھنچے ہوئےہونٹ اس بات کی غمازی کررہے تھےکہ
وہ بات سمجھ نہ سکا تھا۔راہی قصور وار سے کچھ سوال پوچھنا
چاہتا تھا لیکن نہ پوچھ سکا ۔اس کی بجائے اس نے افسر
سے پوچھا'کیا قصور وارکو اپنی تقدیر کا علم ہے؟'
'نہیں'،افسر نے جواب دیا اور اپنی گفتگو جاری
رکھی لیکن راہی حیران ہوااور بیچ
میں بول پڑا:'اسے اس بات کا علم نہیں کہ اس کےساتھ کیا ہونے جارہاہے؟'
اس پر افسر نہیں بول کر رک گیا کیونکہ اس کاخیال تھا کہ وہ اس بارے میں
مزید سوال کرے گا۔پھر بولا'اسے بتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔اسے بہرطوراپنے جسم پر اس
اذیت کو جھیلنا ہوگا۔'
راہی کا دل چاہ رہاتھا کہ
وہ رو پڑےلیکن قصوروار اس کی طرف ایسی
نظروں سے دیکھ رہاتھا کہ وہ چاہ رہا ہو کہ
وہ افسر سے اس عمل کی مزید تفصیل پوچھے۔یہی وجہ تھی کہ
راہی،جو کرسی کی پشت پیچھے کرکےبیٹھا تھا،اب آگے کی طرف جھکااور
پوچھا؛'لیکن وہ یہ تو جانتا ہے کہ اس سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے اور وہ کتنا سنگین
ہے؟'
'نہیں،'افسرنے اس کی طرف ایسے مسکرا کر دیکھاجیسے
کہ راہی اس بارے میں مزید اوٹ پٹانگ سوالات کرے گا۔۔۔
'نہیں'،راہی نےاپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔'تو اس کا
مطلب یہ ہوا کہ قصور وار کو ابھی تک یہ علم نہیں کہ اس پر الزام کیاتھا
اور اس نے اپنی صفائی میں جو کچھ کہا تھااس کا نتیجہ کیا نکلا؟'
'اسےاس کے جرم کے بارے میں نہ تو بتایا گیا اور نہ ہی اسے
اپنے دفاع میں بولنے کی اجازت دی گئی۔'افسر نے کہا کہ قصور
وار کو اس کے جرم کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں
تھی کیونکہ اس کی شکائت اس کے باس نے کی تھی ۔'
'اسے اپنی صفائی کا موقعہ تو دیا جانا چاہیئے تھا'راہی
نےپریشانی سےکرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔' ڈسپلن برقراررکھنے کے لئے ایسا
کیا جاتاہے۔'افسر نے جواب دیا۔
اسے محسوس ہوا کہ وہ مشین کی
تفصیل بیان کرنے میں تساہل سے کام لے رہا تھااور موضوع کسی اور طرف جارہاتھا، اس
لئے وہ اس کے پاس چلا گیا،اسے بازو سے پکڑا،اور قصوروار کی
طرف بڑھا جو افسر اور راہی کی نظروں کا مرکز
تھا۔اس نے خود کو زور لگا کر اوپر کھینچا،اور سپاہی جس نے ہتھکڑی اور بیڑی پکڑی
ہوئی تھی،کو جھٹکا لگا۔
ٌیہاں معاملات ایسے ہی چلتے
ہیں۔مجھے کم عمری کے باوجود میری صلاحیتوں کی بناپرسابقہ کمانڈر کےاس
شعبے کا جو جرائم کی تفتیش کرتا تھا، کا اسسٹنٹ بنا دیا
گیاتھا۔میں ہر مرحلے پر اس کا معاون رہا، اس لئے مجھے سزا
دینے والی اس مشین پر قدرت حاصل ہے
۔ مجھے سابقہ کمانڈر نے جج بھی بنادیاتھا۔اس طرح سے
میں تجربے اور اس نظام سے محبت کی بناپراس
کالونی کا تعزیری جج بنا دیا گیا تھا۔
اس طرح اب میں انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ
مقدمات کا فیصلہ کرکے اور سزا کا اطلاق میرے
ذمہ ہے۔میری عدالت کااصول یہ ہے کہ جس پر
اس کے باس کی طرف سے کوئی بھی الزام لگا یا جاتا ہے،میں اس بالکل
صحیح سمجھتا ہوں اورملزم ہمیشہ مجرم ہی تصور کرتاہوں۔اس کی
وجہ ایک تو یہ ہے کہ افسر کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور دوسرا یہ کہ فوج
میں ڈسپلن قائم کرنے کے لئے ماتحتوں کو کڑی سزائیں دینا ضروری ہیں۔۔۔یہ اور بات ہے
کہ یہاں کی دوسری عدالتیں میرے اصول پر عمل نہیں
کرتیں،کیونکہ ان عدالتوں میں ایک سے زیادہ منصف ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے اوپر
بھی اعلیٰ عدالتیں ہوتی ہیں جو ان کے فیصلوں کی پڑتال کرتی رہتی ہیں۔لیکن اس قیدی
کے معاملے میں ایسا نہیں۔اس مقدمے میں میں ہی پرچہ درج کرنے والا، وکیل
، منصف اور سزا کااطلاق کرنے والا ہوں۔سابقہ کمانڈر کے دور میں یہی
طریقہ تھا اورمیں نے بھی انصاف فراہم کرنے کا وہی طریقہ اپنایاہوا ہے۔میرے اوپر
کوئی عدالت نہیں۔میرے نئے کمانڈر نے اگرچہ کوشش کی ہے کہ میرے معاملات میں رخنہ
اندازی کرے؛ لیکن تاحال میں نے اس کی دال نہیں گلنے دی اور میں اس کی مزاحمت کرتا
رہوں گا۔'یہ کہہ کر وہ چپ ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد بولا:
'تم اس مقدمے کی تفصیل جاننا چاہتے تھے؛دوسرے مقدمات کی طرح
یہ بھی سیدھا سادا مقدمہ ہے۔اس شخص کو ایک کپتان کا اردلی بنایا گیا تھااور
وہ اس کےدروازے کے باہر سو رہاتھا؛اور کپتان نے اس کی شکائت
لگائی کہ وہ ڈیوٹی کے درمیان سو رہا تھا۔تم جانتے ہو،کہ انہیں یہ حکم دیاگیا ہے
کہ گھڑیال کی گھنٹے کی سوئی بجنے پروہ کپتان کے دروازے
پر اکڑ کر کھڑا ہو جایاکرے، جو یقیناً کوئی مشکل کام نہیں ، لیکن اہم
تھا، چاک و چوبند ہونا اوراردلی کی حیثیت سے اٹینشن ہونا
اس کافرض تھا۔ کپتان نے چیک کرنے کے لئے کہ وہ اپنی
ڈیوٹی صحیح طریقے سے ادا کررہاتھا ، رات کے دو بجے اس نے اپنا دروازہ کھولا تو
اردلی سکڑ کر سو رہا تھا۔اس نےاپنے بید کی چھڑی سے اس پر تابڑتوڑ حملے
کئے جس کا وہ مستحق تھا۔بجائے اس کے کہ وہ اردلی اپنی غلطی تسلیم کرتا
اور معافی مانگتا،وہ اپنے باس کی ٹانگوں سے چمٹ گیا،
اور 'اپنی چھڑی پھینک دو ورنہ میں تمہیں زندہ کھا جاؤں گا۔ کی دھمکی دی
'۔اس مقدمے کی تفصیل ہے۔وہ کپتان میرے پاس اس
کی شکائت لے کرآیا؛میں نے اس کا بیان لکھااور اس رپورٹ پر اپنا فیصلہ
صادر کردیا۔اس کے فوراً بعد میں نے اسے بیڑیاں پہنا دیں۔یہ مقدمہ بہت سادہ ہے۔اگر
میں اس اردلی کو سمن بھیجتا اور اس کا بیان لیتاتو اس سے ابہام کے علاوہ کچھ حاصل
نہیں ہونا تھا۔اس نے جھوٹ ہی بولنا تھا، اور جب میں نے اس کے جھوٹ کا پردہ چاک
کرنا تھاتو اس نے مزید جھوٹ بول دینے تھے۔اس لئے مجھ پر واضح ہو گیا کہ کپتان کی
شکائت صحیح تھی۔؟'یہ کہہ کر وہ خوشدلی سے راہی کی طرف مڑا،اور مشین کے
درمیانی حصے سپول ( میررو) کو چیک کرنے کے
لئے کہ اس کے پرزے صحیح کام کررہے ہیں ،کوچلانے کا
ارادہ کیا ۔
راہی نے جب قصور وار کا مقدمہ اور
تفصیل سنی تووہ خوفزدہ ہو گیا۔ جس انداز سے اردلی پر مقدمہ بنایا گیا اور اس کو
سزا سنائی گئی تھی ، وہ قانونی تقاضے پورے نہیں کرتی تھی ، وہ اس پر مطمئن نہیں
تھا۔علاوہ ازیں اس نے خود کو یہ یاددہانی بھی کرانی تھی کہ اسے اس
کالونی کے نظام عدل کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر شکایات ملی تھی کہ
وہاں غیر معمولی اقدامات کئے جاتے تھےاور اسے اس کے بارے میں رپورٹ
دیناتھی کہ ان شکایات میں کس قدر صداقت تھی۔
افسر نے اپنے
نظام عدل کا جواز یہ پیش کیا کہ
فوج کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے سخت ترین
فوجی قوانین کی ضرورت تھی جو سابقہ کمانڈر نے لاگو کئے تھے ۔نئے کمانڈر
کے آنے کے بعد اس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فوج کا مورال روز بروز انحطاط
پذیرہو رہا تھا۔ نئے کمانڈر کی خواہش تھی کہ اس کے جزیرے کا
نظام عدل انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ سازی کرے ۔اس
لئے اس نے بتدریج انصاف پسند طریقہ متعارف کروانے کا ارادہ کرلیا تھاجس
میں افسر ان کے لامحدود اختیارات قانون اور قاعدے کے تحت لائے جائیں۔۔۔ راہی نے
افسر سے پوچھا،'کیا اس کا کمانڈر بھی اس قصور وار کی سزا میں شریک
ہوگا؟'
وہ اچانک ایسے
سوال پر حیران رہ گیا۔اس سوال پر اس کی سٹی گم
ہوگئی۔پھر کہا 'کچھ کہا نہیں جا سکتا،اس سے پہلے کہ میں اپنے اس عمل کی وضاحت پیش
کرتا پھروں اور میری بازپرسی کی جائے، اس قیدی کو جلد از جلد سزا دینا
ہوگی ۔' یہ کہہ کر وہ رک گیااور بات جاری رکھتے ہوئے بولا،۔۔۔'لیکن آج کی سزا کے
بعد اس مشین کو صاف کرلیا جائے گا تو کسی قسم کی باز پرسی نہیں
ہوگی اور معاملات نارمل ہو جائیں گے ۔ بہر حال آج ابھہ اسے
صاف کرناہے کیونکہ یہ اس وقت تک صحیح کارکردگی نہیں دکھاتی جب تک پوری
طرح صاف نہ ہو، میں قیدی کو سزا دینے کے بعد پھر سےاس کی اچھی طرح صفائی کرلوں
گا۔'اس نے بات کرتے ہوئے وقفہ لیا ، پھر بولا،جب قیدی بیڈ پر لیٹ جائے گا،اور مشین
کا نچلاحصہ بیڈ کانپنا شروع کردے گاتو اس کا درمیانہ حصہ
سپول ( ہیررو) نیچے آنا شروع ہو گا جس میں نوکدار کیلین
، کلائیں ، گردن، ٹانگوں وغیرہ کو باندھنے اور اس کے جسم کو
میکانکی طریقے سے مضبوطی سے اس طرح جکڑ نے کے چھوٹے بڑے آلات
ہوتے ہیں جو مجرم کی ننگی جلد سے چمٹ جاتے ہیں۔جب وہ صحیح
مقام پر پہنچے گاتو یہ فولادی تار فوری طور پرسخت ہوکر بند باندھ دے گی
جس سے وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس انتظام کے بعد مشین اصل
کارکردگی دکھانے کے لئے تیارہو جاتی ہے۔عام شخص کو خارجی طورپر ایسی پر
تشدد سزا اور عام سزا میں فرق کا پتہ نہیں چل سکتا۔ درمیانے حصے
سپول کی کارکردگی بھی دوسرے پرزوں
کی طرح ہوتی ہے۔جب اس میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے،تو اس پرزے کی نوکیں اس کے جسم
میں کھب جاتی ہیں جس سے بیڈ بھی تھرکنے لگتا ہے۔اس ے بعد مشین کے تینوں
حصے ( بیڈ ، سپول اور ڈرافٹس مین ) مربوط اندازمیں کام کرنے لگتے ہیں ۔ ہر پرزہ اپنا
اپنا کام کرنا شروع کر دیتا ہے،ہر حصے کی کارکردگی چیک کرنے کے لئے درمیانے
حصےسپول کو صاف شفاف شیشے سے بنایا گیا ہے تاکہ پورے عمل کوواضح طورپر
دیکھا جا سکے۔اس کے ساتھ سوئیاں لگا دی جاتی ہیں لیکن انہیں ان کے ساتھ نتھی کرنے
میں کبھی کبھار تکنیکی مشکلات بھی پیش آجاتی تھیں ، لیکن ہم
نے بار بار مشقیں کرکے سعی و خطا کے ذریعے اس پر قابو پالیا ہے۔ہم نے
اس پر پوری محنت کی ہے۔اب ہر ایک مجرم کے جسم پر ہونے والی نقش
کاری کو شفاف شیشے میں براہ راست دیکھ ا جاسکتا ہے۔ کیا تم نزدیک آکر
سپول میں لگی ان موٹی سوئیوں کو نہیں دیکھو گے؟'
راہی آہستہ سے اٹھا، اور چلتا
ہواسپول کے پاس پہنچااور جھک کر اسے دیکھنے لگا۔'شیشے کا خول ہونے کی
وجہ سے تم ہر پرزہ اچھی طرح دیکھ سکتے ہو' ، افسر نے کہا۔'اس میں دو
طرح کی موٹی سوئیاں ہیں جن کے نمونے متنوع ہیں۔ہر لمبی موٹی سوئی کے ساتھ ایک
چھوٹی سوئی منسلک ہے۔لمبی سوئیاں اس کے بدن کا جائزہ لیتی ہیں اور طے
کرتی ہیں کہ جسم کے کس کس حصے کوچھیدنا ہے اور چھوٹی سوئیاں
پانی چھوڑتی ہیں تا کہ مجرم کا خون دھل جائےاور چھیدے گئے
حصے ساتھ ساتھ صاف ہوتے رہیں۔اس کے بعد خون اور پانی کا ملاپ چھوٹی
نالی میں گرتاہے جہاں سے وہ بہتا ہوا بڑےگندے نالے میں جا گرتا ہے جس سے ہوتا ہوا
وہ ندی کے پانی سے جا ملتا ہے۔افسر نے
راہی کو سزا دینے کاپورا روٹ دکھا دیا۔جب اس نے اپنے منصوبے
کوپورا واضح کر دیا، تو اس نے ظاہری طور پر اپنی دونوں
مٹھیوں میں نکاس والی نالی کے منہ سے چلو بھر سیال
بھرا۔راہی نے مشین کا جائزہ لینا شروع کیا ۔درمیانے حصے سپول کے
شیشے کے خول سےاس نے شروع کیا۔اس نے اونگھتے ہوئے سپاہی کو زنجیر کھینچ
کر جگایا تاکہ وہ اس جگہ کو صاف
دیکھنے دے جو اس نے ڈھانپی ہوئی تھی ورسپول ( میررو) کے قریب ہوکر پرزوں کی
ترتیب غور سے دیکھنے لگا۔جب اس نے ان پرزوں کی ترتیب گہرائی
میں دیکھی تواس کی آنکھوں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگئی
لیکن اس وقت اس کی پوری وضاحت نہ سمجھ سکالیکن اسے اتنا پتہ
چل گیا تھا کہ وہ بے حد خطرناک انتظام تھاوہ ان کی وضاحت نہ
سمجھ سکا کیونکہ جس زبان میں وہ گفتگو کررہے تھے، وہ قیدی کے لئے اجنبی تھی۔وہ ہر
طرح سے مشین کے نزدیک کھسکنے لگا۔اس کی نگاہیں سپول کے صاف شفاف
شیشے کے ہر پرزے پر پڑرہی تھیں۔ اصل میں افسردل تو یہ چاہ
رہاتھا کہ وہ سپول نہ دیکھے، کیونکہ اسے پتہ تھا کہ وہ جو کچھ
بھی کررہاتھا،وہ غیر قانونی تھا اور اس پر اسے سزا ہو جانی تھی ۔ادھر
سپاہی اور قصور واراونگھ رہے تھے۔افسر نے ایک ہاتھ سے راہی کو روک رکھا
تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے مٹی کے ڈھیر سے ایک ڈلی اٹھاکر سپاہی پر
پھینکی جوسپاہی کے سر پر لگی؛ اس پر اس نے قیدی کو چلاتے ہوئے زور سے
اپنی طرف کھینچاتو وہ فوری زمین پر گر پڑا؛پھر سپاہی قیدی کو بیڑیوں
میں جکڑا تڑپتا اور کراہتا دیکھتا رہا۔
'اسے اس کی ایڑیوں پر کھڑا کرو' ،افسر نے چیخ کر کہاکیونکہ
اس نے نوٹس کرلیا تھا کہ راہی قیدی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے
سے کافی پریشان ہو گیا تھا۔مسافر سہاگے پر جھک گیا ۔اس نے افسر اور
سپاہی کو نظرانداز کیااور اپنی پوری توجہ قیدی پر مرکوز کر لی کہ اس کے
ساتھ وہ کیا کررہے تھے۔'اس کی بڑی چوکسی
اور احتیاط سے نگرانی کرو' ،افسر نے سپاہی کو چلا کر حکم دیا۔وہ تیزی
سے مشین کے پا س آیا، قیدی کو اس کے کندھوں کے نیچے سے پکڑا، اور سپاہی کی مدد سے ،
اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا، جو، پھر بھی ان کے ہاتھوں سے پھسلتا رہا۔'اب میں
سب کچھ جان گیا ہوں' راہی نے افسر سےاس وقت کہا جب وہ اس کے
پاس پہنچا۔
'ماسوائے سب سے اہم حصے کے،'افسر
نے راہی کا بازو پکڑا اور آگے کی طرف اشارہ کیا۔'اوپر
دیکھو جہاں بیڈ سے سات فٹ اونچے مشین کے سب سے
اونچے حصے ڈرافٹس مین کی گراری کا
بڑا یونٹ ہے ۔یہ مشین کے درمیانے حصے سپول (میررو) کی حرکات
کو کنٹرول کرتا ہے؛ اس حصے کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جس طرح اس کا
اپریٹر کنٹرول کرتا ہے ، کے مطابق عمل کرتا ہے۔میں اب بھی اپنے سابقہ
کمانڈر کی بنائی ہوئی ڈرائنگ استعمال کرتا ہوں۔دیکھو ،یہ وہ ڈرائنگ
ہے۔۔۔'اس نے چمڑے کے بیگ سے مشین کی ڈرائنگ نکالیں۔'بدقسمتی سے، میں ان
ڈرائنگ کو تمہارے سپرد نہیں کرسکتا، یہ میری سب سے قیمتی دستاویزات ہیں۔بیٹھ
جاؤمیں انہیں تمہیں ایسے دکھاؤں گا کہ وہ میرے ہاتھوں میں
ہی رہیں: اس کے بعد ہر شئے تم پر مکمل طور پر واضح ہو جائے
گی۔'
اس نے اسے پہلا صفحہ دکھایا۔مسافر
نے اس صفحے کو پسند کیااور اس کی تعریف کی لیکن اس پر آڑی ترچھی سطور
لگی ہوئی تھیں جو پورے صفحے پر ایسے لگی تھیں کہ بھول بھلیاں لگ رہی تھیں اور صفحہ
کا کوئی خانہ خالی نہ تھا۔
'انہیں پڑھو'، افسر نے کہا
'میں نہیں پڑھ سکتا'، راہی نے کہا۔
' لیکن یہ بالکل صاف لکھی ہیں اور پڑھی جا سکتی ہیں،'افسر نے
کہا۔
'یہ بہت پیچیدہ ہیں،یہ چکرا دینے والی ہیں، میں
ان کی تشریح نہیں کرسکتا۔'راہی بولا۔
'ہاں۔' افسر ہنس کر بولا اور صندوق ایک طرف رکھ
دیا۔' یہ سکول کے بچوں کے لئے کوئی قلم کاری اور
خطاطی نہیں۔اسے سمجھنے کے
لئے عرصے تک غور سے پڑھنا پڑتا ہے۔پھر تم
اس قابل ہو سکتے ہو کہ اسے سمجھ سکو۔ یقیناً یہ ایک سادہ مسودہ نہیں ہے ،اسے فوری
طور پر جانچا نہیں جا سکتا، اس کااوسط مطالعہ کم از کم بارہ گھنٹے تک
کیا جائے توکچھ پلے پڑ جاتا ہے؛ چھ گھنٹے مطالعے کے بعد اس نقشے کو پڑھنے کا مزہ
آنے لگتا ہے، اصل مسودے تک پہنچنے کے لئے اسے بہت ہی زیادہ کھنگالنا
پڑتا ہے۔مسودہ بذات خود پورے متن کا ایک محدود سا نکتہ ہے، جب کہ باقی
سب تفصیل اصل مقصد کی سجاوٹ میں اضافہ کرتی ہیں۔کیا
تم اب سپول ( ہیررو) اور پوری مشین کی تکنیک کو سراہتے
ہو۔؟اب دیکھو!' وہ سیڑھی کے ایک پیر پر چڑھا، بٹن دبایا، پہیے کو گھمایا تو وہ
چلنے لگا،'احتیاط کرو اور ایک طرف ہوجاؤ' کہتے ہوئے نیچے اتر آیا۔مشین کے تمام
پرزے حرکت میں آگئے۔اگرسوئیوں کے دندانے تھرکتے تویہ کام بہترین
ہوتا۔'، افسر نےاپنا ہاتھ راہی کی طرف لہرایااور تیزی سےچاروں ہاتھوں
پاؤں سے چڑھائی اترنے لگاتاکہ وہ مشین کے نیچے والے
حصے کی کارگزاری دیکھ سکے۔وہاں اسے کچھ خرابی نظر آئی جس کا علم
اسے اکیلے ہی ہوا۔اس کے بعد وہ دوبارہ اوپر چڑ ھااور اپنے دونوں ہاتھ
ڈرافٹس مین کے حصے میں گھسا دیئے،ڈرافٹس مین کی
گراریاں بہت شور کررہی تھیں ۔ وہ سیڑھی استعمال کرنے کی
بجائے بڑی تیزی سے ڈنڈے سے نیچےپھسلا
اور راہی کے کان میں پھیپھڑوں کا پورا زورلگا کر
بولا تاکہ اسے اس کی آواز مشین کےشور میں سنائی
دے:'کیا تمہیں اس مشین کا طریقہ کار سمجھ آیا؟سپول ( ہیررو) نے دھمک پیدا کرنا
شروع کر دی ہے۔پہلے راؤنڈ میں اس کی سوئیاں قیدی کی پشت تک
پہنچتی ہیں ، تو روئی کی تہہ بڑی آہستگی سے اس کی ایک
طرف چڑھ جائے گی جس سے سہاگے کے لئے کافی جگہ پیدا ہو جائے گی۔اس
دوران اس کے جسم کے کچے اور ان گھڑے زخمی
حصے آہستہ سے اس روئی میں چلے جائیں گے،
جو خصوصی سلوک کی بدولت فوری طور
پراس کےبہتے ہوئے خون کو پکا کردے گی اور اس کے جسم کو
زیادہ گہرا گھاؤلگانے کے لئے تیار کردے گی۔یہاں، جب اس کا جسم چکر کھا کر پھر وہاں
سے گزرے گا تو، سہاگے کے دندانوں کے تیز کونے ، دور گڑھے میں پھینک
دیں گے، اور سپول (میررو)کو مزید کام کرنا پڑے گا۔اس طرح وہ مزید بارہ
گھنٹوں تک گہرے زخم بناتارہے گا۔پہلے چھ گھنٹوں
میں قیدی تقریباً پہلے کی طرح زندہ رہتا ہے،
اس دوران وہ اذیتیں برداشت کرتا رہتا ہے۔روئی کا نمدادو
گھنٹوں کے بعد ہٹالیا جاتا ہے،اس دوران اس شخص میں درد کی شدت کا اظہار
کرنے کی بھی سکت نہیں رہتی۔یہاں اس کے سرے پر،بجلی سے چلنے
والےگرم بیسن میں چاولوں کی کھیر ڈال دی جاتی ہے، اور اگر
افسر چاہےتو اپنے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کرزبان سے اپنی
مرضی سے جو چاہے قیدی کے منہ میں ڈال سکتا ہے۔اس موقعے سے ہر کوئی
فائدہ اٹھاتا ہے۔میں نے ایسا نہیں دیکھا جس نے ایسا نہ کیا ہو،اور میرا اس میں بڑا
تجربہ ہے۔وہ چھٹے گھنٹے تک اسے چاٹ کر لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔اس کے بعد اپریٹر جو
میں ہوتا ہوں عموماً گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا ہوں اور اس مظہر کا جائزہ
لیتا ہوں۔ان میں سے کسی نے شائد ہی آخری نوالہ نگلا
ہو، وہ صرف اپنے منہ میں زبان کو گھمارہا ہوتا ہےاور اسے گڑھے میں تھوکتا جاتا ہے۔
اس کے بعد ، اپریٹر کو دبک کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے ورنہ
وہ فولادی پرزہ اس کے چہرے سے ٹکرا جائے گا۔اور چھٹے گھنٹے کے بعد وہ
شخص بالکل خاموش ہو جاتا ہے!اس وقت تک اس کے چہرے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے
جسم کی حالت اس قدر خوفناک ہو جاتی ہے کہ دنیا کا بیوقوف
ترین شخص بھی دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔اس کا اظہار اس کی آنکھوں سے ہوتا ہے،وہاں سے وہ
جسم کے دیگر حصوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اس وقت تم اسے
سپول (ہیررو)کے نیچے ہلتے ہوئے دیکھو تو تمہیں
مزا آئے گا۔ اس کے بعد مزید کچھ نہیں ہوتا،وہ شخص صرف پرزوں کو کھلتے
ہوئے دیکھتا ہے؛ وہ اپنے ہونٹوں کو ایسے بند کرتا ہے جیسے کہ وہ کوئی اہم
بات سن رہاہو۔تم دیکھ چکے ہو کہ مسودے کو اپنی آنکھوں
سےکھولنا آسان نہیں ہوتا؛لیکن یہ کافی کٹھن کام ہوتا ہے،اور یہ عمل یقیناً بارہ
گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے۔اس کے بعد سپول (ہیررو)قیدی کا تمام جسم ٹکڑے
ٹکڑے کر کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے، جہاں وہ روئی اور
پانی آلود خون کے اوپر گرتاہے۔ یہاں آکر انصاف کی تکمیل ہو
جاتی ہے۔،اور وہ ہم یعنی ۔۔۔میں اور سپاہی۔۔۔اسے فوری دفن
کر دیتے ہیں۔'
راہی مشین کے شور
میں ہاتھ سے اپنا کان افسر کے قریب لاتا ہے،جو اپنے ہاتھ کوٹ کی جیب
میں ڈالے مشین کو چلتے دیکھ رہا تھا۔قیدی بھی اس وقت مشین کودیکھ
رہاتھا، لیکن سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیا ہو رہا تھا۔افسر ہلکا سا آگے جھکا،
اور سپول پر پھرتی سوئیوں کی حرکت نوٹ کرتا رہا، جب کہ
سپاہی نے اپنے افسر کے اشارے پرچاقو نکالا اور قیدی کی قمیص اور پتلون
پیچھے سےکاٹ دی، جس سے وہ زمین پر گر پڑے۔قیدی نے خود کو مکمل طور پر
ننگا ہونے سے بچانے کے لئے اپنے کپڑے اٹھانے چاہےلیکن سپاہی نے اسے کندھوں سے پکڑ
کر اٹھایا اور باقی کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے۔انہوں نے اسے مشین کے نچلے بیڈ پر
لٹادیا،اس کی زنجیروں کو ڈھیلا کرکےاس کی جگہ پٹیاں کس کر باندھ دی گئیں؛اس لمحے
ایسا محسوس ہوا کہ بیڑیاں ہٹنے سے قیدی کو کچھ راحت محسوس ہوئی۔اس کے بعد اس کے
جسم میں مطابقت کے لئےسپول ( ہیررو) میں توازن پیدا کرنے کے
لئے ذرا سا نیچے کیا۔ وہ دبلا پتلا شخص تھا ،جب سوئیوں کے تیز کونوں
نے اس کے جسم کو چھولیا،تو اس کے تمام جسم پر جھرجھری طاری ہو گئی
؛جبکہ افسر اس کےدائیں ہاتھ پر پٹیاں باندھ کر پوری طرح کسنے میں مصروف رہا، اس کے
بعد اس نے اس کا دایاں ہاتھ پکڑکرپھیلا دیا جس کی سمت اس طرف تھی جہاں راہی کھڑا
تھا۔افسر چور نگاہوں سے ایک طرف کھڑے راہی کو دیکھ کر اس کے تاثرات نوٹ
کرتا رہا۔
کستے ہوئے بائیں
کلائی پٹی پھٹ گئی؛کیونکہ سپاہی نے اسے بہت زیادہ کس کر باندھا
تھا۔اس لئے افسرکی مدد کی ضرورت پڑی۔ سپاہی نے اسے پھٹی ہوئی پٹی دکھائی ۔اس نے
راہی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ مشین بہت پیچیدہ اور مشکل ہے، اس کا
کوئی نہ کوئی پرزہ خراب ہوتا رہتا ہے؛لیکن اس سے اس کی کارکردگی پر کوئی حرف نہیں
آتا؛ تاہم وہ پٹی فوراً بدل دی جائے گی۔آج چونکہ ہمارے پاس اضافی پٹی
نہیں اس لئے نعم البدل کے طور پر زنجیر استعمال کروں گا، اس میں شک
نہیں کہ یہ دائیں ہاتھ کی تھرتھراہٹ اور ارتعاش
میں رکاوٹ ڈالے گی۔سابقہ کمانڈر نےمشین کی مرمت کے لئے بے پناہ اخراجات
مختص کئے ہوئے تھے جسے موجودہ کمانڈر نے بہت کم کردیا ہے۔پاس ہی ہمارا
ایک گودام ہے،جو ہمیں سپلائی مہیا کرتا ہے ۔مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں
کہ میں مشین پر ضرورت کے بغیر بھی فضول
خرچ کرتا رہتا تھا ۔۔۔میرا کہنے کا مطلب ،پہلے بہت خرچیلا تھا، اب
نہیں، نیا کمانڈر کنجوس ہے، وہ حجت کرتا رہتا ہے۔وہ اس مشین کے اخراجات
پر کڑی نظر رکھتا ہے،اور اگر میں نئی پٹی کا مطالبہ کروں گا تووہ پرانی پٹی واپس
لے لے گا اور اس کی جگہ کمتر پٹی دلوائے گا؛ اور کسی کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں
کہ اس چھوٹی چیز کی خرابی سے مشین کی کارکردگی کتنی کم ہو جائے گی۔اس
کے علاوہ نئی پٹی آنے تک دس دن لگ جائیں گے لیکن اس کی کوالٹی بہت کم
ہو گی، اور میں اس مشین کو کیسے چلا پاؤں گا۔
راہی نے اپنے
تئیں سوچا؛کہ دوسروں کےمعاملے میں ٹانگ اڑانےمیں خطرہ ہوتا ہے۔وہ نہ
تو اس تعزیری کالونی اور نہ ہی اس ملک کا باشندہ تھا۔اگر وہ
اس کے عمل پر اعتراض کرے یا رکاوٹ ڈالے ، تو اسے یہ کہاجاسکتا تھا:تم
ایک غیر ملکی ہو،اور خاموش رہو۔وہ اسے جواب نہیں دے سکتا تھا، وہاس معاملے
میں خود پر حیران ہوسکتا تھاکیونکہ اس کا مقصد دوسرے ممالک کے نظام
انصاف کا جائزہ لے کر رپورٹ کرناتھا نہ کہ اس میں مداخلت کرنا۔لیکن یہاں اس وقت
صورت حال کافی خراب تھی۔ انصاف کا نظام اور انسانیت اس علاقے میں بلا
شک و شبہ مفقود تھی ۔کوئی بھی اس راہی کی غیر جانبداری پر سوالات نہیں
اٹھا سکتا تھا،کیونکہ وہ قیدی اس کے لئے ایک اجنبی تھا،اوراسے کسی سے
ہمدردی نہیں تھی۔اسے بین الاقوامی قوانین پرمہارت حاصل تھی۔اسے بے شمار
ممالک کی انتظامیہ اسناد فضیلت ملی ہوئی تھیں،اور اس ملک میں بھی اس
کاپرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔اور اس سے کہاجارہاتھاکہ وہ اس ملک کے نظام انصاف کو
بہتر کرنے کا مشورہ دے۔اور یہ زیادہ امکان تھا کہ موجودہ کمانڈر،جیساکہ
افسر نے کہا تھا مروجہ نظام عدل سے مطمئن نہیں تھا۔
جلد ہی راہی نے افسر
کے غصے کی چنگھاڑ سنی۔اس نے پٹی قیدی کے منہ میں طاقت لگائے بغیراس وقت ٹھونس دی
تھی جب اس قیدی نےمتلی سے بچنے کے لئے ابکائی لی
تھی لیکن اس نے اس وقت الٹی کردی تھی ۔افسر نے
سرعت سے پٹی سے اسے اوپر کھینچااور اس کا منہ زبردستی گڑھے
کی طرف کرنے لگا،تو اس کی الٹی مشین میں گرگئی ۔اب مشین کی کارگزاری
پراس وقت تک بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جب تک کہ وہ الٹی کا گند صاف
نہ کیا جائے۔ 'یہ سب کمانڈر کا قصور ہے' ،افسر نے غصے سے کہا اور جست کےپرزے ہلانے
لگا۔ْمیری مشین اصطبل کی طرح بھیگ گئی ہے!' اس نے کانپتے
ہوئے راہی کو کہا۔' میں نے کمانڈر کو کہا تھا کہ قیدیوں کو سزا
دینے سے پہلےپورا دن کھانا نہ دیا جائےلیکن وہ نہ مانا اور اس بارے میں
نرم پالیسی اپنائی۔کمانڈر کے سٹاف کی خواتین نے اس قیدی کے پیٹ کو
ٹافیوں سے بھر دیاتھا۔عمر بھر قیدی نے مچھلی کے علاوہ کچھ نہ کھایا تھا
اور اب اسے چاکلیٹ دے دئے گئے تھے!اب بھی یہ ممکن ہے، کہ میں اس پر اعتراض نہ
کرتا۔۔۔لیکن اس نے نئی پیٹی خریدنے پر اعتراض کیوں کیا جس کو خریدنے کے لئے میں
پچھلے تین ماہ سے کوشش کررہاتھا؟ایک پیٹی جو سو سے زیادہ لوگوں کے منہ میں ان کے مرنے
سے پہلے جا چکی ہو ،اسے مزید کے منہ میں ڈالنے سے الٹی تو آئے گی۔'
قیدی نے اپنا سر نیچے کرلیاتھا
اور الٹی کے بعد سکون محسوس کررہاتھا۔؛ سپاہی قیدی کی
قمیص سے مشین کی صفائی میں لگا ہوا تھا۔ افسر راہی کے پاس گیا،
جو کسی مبہم خطرے کے تحت ایک قدم
پیچھے ہوا؛لیکن افسر نے اس کاہاتھ پکڑلیااور اسے ایک طرف کھینچ لیا۔'میں تم
سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔'اس نے کہا'کیا میں۔۔۔؟'
'ضرور،' راہی نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
'موجودہ صورت حال میں اس نظام عدل
اور سزا کے نظام کو جو قابل تحسین ہے، کوعام لوگ پسند نہیں کرتے اور اس
کالونی میں کوئی اس نظام کی تائید نہیں کررہا۔ صرف میں ہی اس نظام کے حق میں ہوں
اور موجودہ کمانڈر بھی میرے خلاف ہے۔پورے محکمے میں میں ہی ایسا ہوں جو اسے برقرار
رکھنا چاہتا ہےاور میں سابقہ کمانڈر کی میراث برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔میں اکیلا پورالگا
بھی لوں تو اس نظام کو منوا نہیں سکتا ،اسے وسعت نہیں دے سکتا اور
برقرار نہیں رکھ سکتا ۔جب سابقہ کمانڈر زندہ تھاتوکالونی میں اس کی بہت
زیادہ حمائت تھی؛ لیکن اس دور میں صرف میں ہی وہ شخص ہوں جو
اس کا پیروکار ہوں لیکن میرے پاس اتنی طاقت نہیں جتنی اس کے پاس تھی۔ اگرکسی کو اس
مشین کے ذریعے سزا دی جارہی ہو، تم کسی قحبے خانے میں جاؤ، اور اپنے کان کھلے
رکھو،تو تمہیں مبہم قسم کے تبصرے سنائی دیں گے،وہ میرے نظام کے معاون
ہیں لیکن موجودہ کمانڈر اور انتظامیہ کے خوف سےعام لوگوں کی امداد میرے
لئے مکمل طور پر ناممکن ہے۔اور اب میں تم سے پوچھتا ہوں ۔۔۔کہ کیا اس
قسم کے مخالفانہ حالات میں میں اپنا فرض ادا کر سکتا ہوں'؟۔۔۔
پھر اس نے مشین کی طرف اشارہ کیا۔۔۔'نئے کمانڈر اور اس کی ٹیم کی وجہ سے اس مشین
کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ایک شخص خواہ وہ غیر ملکی کیوں نہ ہوجو ہمارے جزیرے پر خواہ
چند روز کے لئے سیرو سیاحت کے لئےآیا ہو، وہ اس قدر کیسے اہم ہو سکتا
ہے کہ اس کی بات مانی جائے؟اب میرے پاس کھونے کے لئے مزید کوئی وقت
نہیں، کیونکہ وہ جلد ہی اس نظام عدل پر کاری ضرب ہونے جارہی ہے۔موجودہ
کمانڈر کے ہیڈ کوارٹر میں ایسے اجلاس منعقد ہورہے ہیں جس
میں کسی غیر متعلقہ شخص کوشرکت کی اجازت نہیں ۔'
'تمہاری اس موقعہ پر موجودگی میرے لئے اہم ہے،تم سب کچھ دیکھ
چکے ہو۔وہ سب بزدل ہیں،اس لئے انہوں نے سزاکے طریقے کی جانچ کے لئے
تمہیں یہاں بھیجاتاکہ دیکھیں کہ یہاں سزا کیوں
اور کیسے دی جاتی ہے۔سابقہ کمانڈر کے دور میں ایک سزا
کو سب کے سامنے دکھایا گیا۔ وادی کے عوام کی دن بھر بھیڑ لگی رہی؛
تمام لوگ سزا دیکھنے کے لئے آئے۔اس روز کمانڈر اپنے عملے کی
خواتین سٹاف کے ساتھ صبح صبح آگیاتھا؛ تماشائیوں نے میلہ سجایا؛ میں نے بتایا کہ سب
کچھ تیار تھا؛ کمپنی کے تمام ملازم حاضرتھے( کسی میں اتنی جرات نہ تھی کہ غیر حاضر
ہو)،وہ سب اس مشین کے ارد گرد جمع ہوگئے؛بید کی
کرسیاں بچھادی گئیں ۔مشین صاف کی گئی
، پالش کرکے اچھی طرح چمکادی گئی۔ہر سزا کوانجام تک پہنچانے
کے لئے میں تقریباً ہر بار نئے اہم پرزے ڈالتا تھا۔
سینکڑوں آنکھوں کے سامنے۔۔۔سب لوگ
ایڑیاں اٹھااٹھا کر،ٹیلوں اور پہاڑیوں پر چڑھ کروہ سزا دیکھ
رہےتھے۔کمانڈر نے بذات خود مجرم کو بیڈ پر لٹایا اور سپول ( ہیررو) کی
سوئیاں فٹ کیں اور پٹیاں کس کر باندھیں ۔وہ فرض جو آج یہ فوجی
اہلکار نبھارہاہے،وہ اس روز میں ادا کررہا تھا، میں
اس روز عدلیہ کا جج تھا اور میرے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔اس کے بعد سزاپر عمل
شروع ہوا!عوام میں کوئی جھرجھراہٹ پیدا نہ ہوئی،کوئی تکرار نہ ہوئی ، مشین چلتی
رہی اور سزا کاعمل عام طریقے سے چلتا رہا۔کچھ لوگوں نے اسے
دیکھنا مکمل طورپربندکردیا؛وہ ریت پر لیٹ گئےاور اپنی آنکھیں بند کر
لیں۔لیکن ہر ایک کو پتہ چل گیا کہ مکمل انصاف فراہم کردیاگیاتھا۔ سب کی زبان بند
تھی۔ہرسوچپ لگ گئی تھی۔فضا میں مجرم کی سسکیاں، گھٹی ہوئی
چیخیں سنائی دے رہی تھیں ۔آج کی مشین کی تھرتھراہٹ کا شور ہی اتناہے کہ
مجرم کی کلبلاہٹ سنائی ہی نہیں دیتی۔اس کی چیخیں چلتی مشین میں ہی دب
جاتی ہے، لیکن ماضی میں موٹی سوئیاں خون میں پانی ڈال کر بہاتی
تھیں؛ جسے آج سراہا نہیں جاتا۔۔اس کے بعد ،چھٹا گھنٹہ شروع ہوجاتا!اس وقت کسی کو
بھی اجازت نہیں تھی کہ مشین کے نزدیک پھٹک کر نظارہ کرے،اور سابقہ کمانڈر عقلمند
تھا جس نے وہاں بچوں کاداخلہ منع کیا ہوا تھا۔میں ،تاہم ،اپنے پیشے کی وجہ سے مجھے
ہمیشہ مشین کے قریب رہنا پڑتاتھا۔یہاں تک کہ میں ہاتھ میں
اکثر ایک ایک بچے کو لے کرچوکڑی مارکر بیٹھ جاتا تھا۔ہم اس مشین میں پس
رہے مجرم کے بے بس بگڑتے چہرے کو دیکھا کرتے تھے اور مرتے شخص کا اذیت
ناک چہرہ دیکھ کرہمارے چہرے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔وہ کتناعظیم
دور تھا، میرے دوست!'
افسر یہ بات بھول گیاتھا کہ وہ کس
سے دکھ سکھ کررہاتھا؛اس نے اپنا ہاتھ راہی کی کمر میں ڈالا اور اپنا سر
اسکے کندھے پررکھ دیا۔اس پر راہی
کوحیرانی ہوئی؛اس نے گھبراکر افسر
کےسر کی طرف دیکھا۔اس وقت تک سپاہی مشین صاف کرچکاتھااور ایک ڈبے سے کھیر
وغیرہ بیسن میں انڈیل رہاتھا۔اس وقت قیدی
بھی کچھ سنبھل چکاتھا، وہ کھیر دیکھ کر اپنا رخ
اس کی طرف کرنے لگا لیکن سپاہی اسے پیچھے دھکیلنے لگا تاکہ اس کامنہ
کھیر تک نہ پہنچے ،پروگرام کے
مطابق کھیراس وقت دی جانا ےھی جب اس
کی سزا دو سے چھ گھنٹے مکمل ہو جاتی۔ابھی تو اس کی سزا شروع بھی نہیں
ہوئی تھی؛لیکن سپاہی کے لئے بھی وہ وقت اتنا ہی معیوب تھاکیونکہ
اس کے ہاتھ گندے اور الٹی سے لتھڑے ہوئے تھےاور وہ اپنے گندے ہاتھوں
سےندیدوں کی طرح کھیر نہیں کھا سکتا تھا۔
افسر نے جلدی سے خود کو سنبھالا'
میرا مقصد تمہیں چھونا نہیں تھا'اس نے راہی سے معذرت کی۔' یہ مشین
اب چل جائے گی اور معمول کے مطابق کام کرے گی۔اگر اس کے پاس
کوئی نہ ہواتو بھی یہ معمول کے مطابق کام کرتی رہے گی۔اور بارہ
گھنٹوں بعدسزا کے آخر میں،اس کی لاش ، ایک ہلکے جھٹکے سے،اب بھی گڑھے میں گر جائے
گی خواہ اس کے ارد گرد سینکڑوں اشخاص مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے ہوں۔ ہم نے گڑھے
کے گرد ایک مضبوط جنگلا بنایا ہواہے۔'
راہی ، جو اپنا چہرہ افسر سے دور
کرناچاہتا تھا، نےادھر ادھر بے مقصد دیکھا۔افسر نے یہ سمجھا کہ وہ وادی کی ویرانی
کا جائزہ لے رہاتھا؛اس نے مسافر کا ہاتھ پکڑا ،اس سے بغل گیر ہوا اور اس کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر کہا'کیا تم بےعزتی سے واقف ہو؟جب تم صورت حال کھول کر بتاؤگے تو
جانتے ہو میرے ساتھ کیا ہوگا؟'۔۔۔
لیکن مسافر نے اپنے دانتوں میں
اپنی زبان دبالی۔افسر نے اسے ایک لمحے کے لئے چھوڑا؛اس کی ٹانگیں کھلی ہوئی
تھیں،ہاتھ اپنی پیٹھ پر تھے،وہ خاموش کھڑا ہوگیااور زمین کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر
اس نے حوصلہ افزا آواز میں ہنستے ہوئے اسے کہا:'میں تمہارے
قریب تھاجب کل کمانڈر نے تمہیں بلایا تھامیں نے اسے
تمہیں نظام عدل کے جائزہ کی
درخواست دیتے
ہوئے سن لیاتھا۔
میں کمانڈر کو اچھی طرح جانتا ہوں،مجھے اس کے اصل مقصد کا علم ہے۔اگرچہ اس کے پاس
اتنی طاقت ہے کہ میرے خلاف کوئی کاروائی کر سکے، اس نے ابھی تک ایسی جرات نہیں کی
؛لیکن تمہاری رپورٹ کے بعد اسے اعتماد حاصل ہوجائے گا کہ اسے میرےخلاف
استعمال کرے۔کیونکہ تم نظام عدل کےایک بین
الاقوامی مبصر ہو،معزز غیر ملکی شہری ہواس لئے تمہاری گواہی
میرے خلاف چاہتا ہے۔وہ اپنی منصوبہ بندی میں کمال رکھتا ہے۔؛اس جزیرے پر تمہارا
دوسرا دن ہے،تم سابقہ کمانڈر کے خیالات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔تم یورپی نظام
انصاف کو جانتے ہو، شائد تم سزائے موت کے حق میں نہیں اورخصوصی
طورپر میکانکی عمل کے ذریعےمارنے کے سراسر خلاف ہو۔ علاوہ ازیں
،تم آج کی سزا کے عمل میں عوام کی شرکت کے
بغیر قیدی کی موت کے چشم دید گواہ بن جاؤگے
کیونکہ اس عمل میں تم، میں اور فوجی اہلکار شامل ہیں ۔ قصور
وار تو اپنی سزا بھگت چکاہوگا۔میں اور فوجی تو خراب رپورٹ
نہیں دیں گے ،اور اگر تم ان نظام سے مطمئن نہیں ہوگے تو تم بتاؤ گے کہ
یہ نظام صحیح نہیں اور یورپی نظام صحیح ہے۔ صرف تم ہی ہو جو
کہہ سکتے ہو کہ عدل موزوں طریقے سے فراہم
نہیں کیاگیا( کمانڈر بھی تم سے اتفاق کرے گا۔)؟اس میں شک نہیں کہ تم
کسی ملک کے نظام عدل کا مطالعہ کرتے وقت وہاں کا ماحول اور ثقافت کو بھی مدنظر
رکھتے ہو،اس لئے یہ توقع کی جاتی ہے کہ تم مکمل طور اس نظام عدل کے خلاف نہیں جاؤ
گےاور یہاں کا موازنہ اپنے یورپی ملک کے ساتھ نہیں کروگے۔تمہارا معمولی سا
مخالف فقرہ بھی وہ میرے خلاف استعمال کرے گااور وہ تم سے بڑے پر فریب
انداز میں سوال کرے گا۔۔۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔اس کی سٹاف کی خواتین ایک دائرے
میں بیٹھ جائیں گی اور تمہاری گفتگو کا ایک ایک لفظ غور سے سنیں گی،تم کہو گے کہ
تمہارے ملک کا نظام عدل مختلف ہے۔، یامیرے ملک میں مدعا علیہ کا
فیصلہ سنانے سے پہلے تفتیش کی جاتی ہے ، پھر ملزم کو فیصلہ
پڑھ کر سنایا جاتا ہےاور یہ کہ میرے ملک میں سزائے موت کے علاوہ بھی سزائیں ہیں یا
یہ کہ ایسی سزائیں زمانہ وسطیٰ میں پائی جاتی تھیں۔تمہاری یہ سب باتیں درست
ہیں اور تمہارے نزدیک یہ صحیح ہیں۔لیکن ہمارا کمانڈر اس
رپورٹ کو کیسے لے گا؟ میں خوب جانتا ہوں، عمدہ کمانڈر ، اپنی کرسی کو فوری طور پر
کھینچ کر رخ بالکونی کی طرف کر لےگا۔اس کی سٹاف کی خواتین بھی اس کی پیروی کریں
گی، مجھے اپنے خیالوں میں اس کی آواز سنائی دے رہی تھی ، ( خواتین اسے گرج دار
آواز کہتی تھیں ) اور وہ کہہ رہاہےیورپی ملک کے ایک عظیم مبصر کو جس نے
زیادہ تر دنیا کے نظام عدل پر کام کیاہے، کوہمارے نظام عدل کا مطالعہ
کرنے کے لئے تعینات کیا گیاتھا نے مجھے ابھی رپورٹ دی ہے کہ
ہمارا نظام عدل فرسودہ ہے اور وسطیٰ زمانے کا ہےاور غیر انسانی ہے۔۔۔جو
کہ مہذب دنیا کے برعکس ہے،اس لئے اپنے جزیرے کے موجودہ نظام کوجاری رکھنا
ظلم ہوگا۔ اس کے اس اعلان کے بعدمیرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں سابقہ
نظام کو مزید برداشت کر سکوں۔ جہاں تک آج کا سوال ہے، میں حکم دیتا
ہوں۔۔۔وغیرہ،۔۔۔میرا خیال ہے کہ اس وقت تمہیں اسے درمیان میں ٹوکنے کی
کوشش کرنی چاہیئے: تمہیں یہ نہیں بتانا چاہیئےکہ وہ کیا
اعلان کرے ، اس کے برعکس : تمہیں میرے سزا دینے کے طریقے کوانسانیت سوز نہیں کہنا
چاہیئے، تمہیں اس مشینری کی تعریف بھی کرنی چاہیئے'، تمہاا مشاہدہ جیسا
بھی ہو، تمہارے میرے نظام عدل کے بارے میں خیالات جیسے بھی ہوں ، اگر میں تمہاری
جگہ ہوتا تو کہتا کہ ہمارا سلوک بالکل انسانی ہے۔۔۔
اس مرحلے تک آتے آتے بہت دیر ہو جائے
گی: تم بالکونی پر بھی نہیں جاسکو گے، جہاں پہلے ہی خواتین کا
جمگھٹا لگا ہواہوگا ؛ تمہیں اس وقت ان کی توجہ
اپنی طرف مبذول کروانا چاہیے ۔۔۔ ورنہ تم جانتے ہو کہ میری اور میرے نظام عدل کی
کتنی بے عزتی ہوگی۔'
افسر کی باتیں سن کر
مسافر کو اپنی مسکراہٹ چھپانی پڑی ؛وہ کام جواسے بہت مشکل لگ رہاتھا ،اس کے لئے
آسان ہو گیا تھا۔اس نےجھجھکتے ہوئے کہا' تم نےمیرے اثرو
رسوخ کے بارے میں خواہ مخواہ مبالغہ آرائی کر لی ہے۔کمانڈر نے میری
یہاں کے نظام عدل کے مطالعے کی درخواست کی ہے ۔اسے پتہ ہے
کہ میں قانون دان نہیں۔مجھے عدالتی کاروائی کا کوئی علم نہیں۔اگر مجھے اپنی رائے
دینا ہے تو وہ اپنی نجی حیثیت میں دی جائے گی اور اس کی حیثیت
سرکاری نہیں ہوگی جس کی اہمیت اتنی ہی ہو گی جو کسی عام شخص کی ہوتی ہے
،اور میری رائے کمانڈر کی رائے کے مقابلے میں غیراہم ہوگی جس کی
اہمیت تمہارے نظام عدل میں بہت زیادہ ہوگی ۔اگر موجودہ
کمانڈر نے تمہارے خلاف کوئی منصوبہ بنا لیا ہے جیسا کہ تمہاری باتوں سے
ظاہرہے تو مجھے خدشہ ہے کہ وہ تمہارے نظام کو بند کر دے گاخواہ میری
رائے کچھ بھی ہو۔اس لئے میری مدد لینا بیکار ہے'۔ اس نے قیدی اور سپاہی
پر اچٹتی نگاہ ڈالی۔، دونوں اس وقت چاول کھارہے تھے ،اس کی
نگاہ اپنے اوپر پڑتے ہی رک گئے ۔
افسر چلتے ہوئے مسافر کے
بہت قریب چلا گیا، اپنی جیکٹ
میں دیکھااور پہلے سے بھی نرمی سے
کہا ،'تم
کمانڈر کو نہیں جانتے، پلیز!اپنے تاثرات '' بھول
جاؤ '۔۔۔اس کے سامنے معصومانہ
انداز میں پھربولا۔۔تمہارے اثرورسوخ، میرا یقین کرو، کی کمانڈر
پر اہمیت زیادہ ہوگی۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب مجھے پتہ چلا کہ اس سزا میں میرے
ساتھ تم اکیلے ہوگے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔کمانڈر کی طرف سے یہ حکم در اصل مجھ
پر کنٹرول کے لئے تھااور تمہاری گواہی میں اپنے حق میں
استعمال کروں گا۔غلط طلب یکسوئی اور حقارت بھری نظریں اس
عمل پر اس وقت آتیں اگرسزا
دیکھنے والے تماشائی بہت زیادہ ہوتے۔۔۔تم میری دلیل سن ہی چکے ہو،تفصیل جان چکے
ہو، مشین کا جائزہ لے چکے ہو، اور اب قیدی کے مرنے کا نظارہ
کرنے لگوگے۔تم نے میرے نظام عدل کے بارے میں اب تک پہلے ہی
فیصلہ کرلیا ہوگا؛اگر تم میں اب بھی تھوڑا بہت غیر یقینی پن رہ گیا
ہےتو اس ہلاکت کے بعد دور ہو جائے گا۔اور اب میں تم سے درخواست
کرتا ہوں کہ تم کمانڈر سے کہوگے!'
مسافر نے اسے اپنی بات جاری نہ
رکھنے دی۔'میں کیسے کرسکتا ہوں۔ میں تمہاری بات کیسے مان سکتا
ہوں؟یہ تقریباً ناممکن ہے۔ میں نہ تو تیری مدد کرسکتاہوں اور نہ ہی
نقصان پہنچا سکتا ہوں۔'
'تم کرسکتے ہو،'افسر یہ کہتے ہوئے اپنی مٹھیاں بھینچنے لگاتو
مسافر خوفزدہ ہو گیا۔'تم کر سکتے ہو،'افسر نے جلدی سے کہا،'میرا ایک منصوبہ ہےجو
یقیناً سود مند رہے گا۔مجھے یقین ہے کہ تم اس پر پورا اترو گےبلکہ اس سے یہ بھی
پتہ چل جائے گا کہ تم سچے ہو: اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس نظام
کی مدد کے لئےہر شئے آزمائی جائے، وہ شئے
ناکافی ہوتو بھی اس نظام کو بچایا جا سکتا ہے۔میرا پروگرام سنو۔میرے
فائدے کے لئے یہ لازم ہے کہ تم سزا دینے کے عمل کو جتنازیادہ چھپا سکتے
ہو، چھپالو۔اگر وہ تم سے اس عمل کی تفصیل پوچھیں؛ توتم اس کے جواب میں خاموش رہنا،
یااور تمہارا بیان ،مختصراور غیر واضح ہونا چاہیئے۔ لوگوں کو ایسا محسوس ہونا
چاہیئے کہ تم میرے نظام عدل کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکےاور وثوق سے
نہیں کہہ سکتے کہ تمہارے لئے اس پربات کرناناگوار ہے،اور اکر تم کھل کر بات کرو
گےتو تمہارے لئے اذیت ناک ہوگا۔میں تمہیں یہ نہیں کہہ رہا کہ تم جھوٹ بولو۔ایسا
کبھی نہیں کہوں گا لیکن تم اپنے جوابات مختصر رکھنا:ہاں، میں نے ہر قسم کی وضاحتیں
سنی ہیں۔جیسے یہ کہنا کہ میں نےپورانظام عدل دیکھا ہے۔اس سے زیادہ کچھ
نہ کہنا، یا، ہاں، میں نے تمام تفصیلات سنی ہیں۔۔۔بس اس قسم کی باتیں کرنا،اس سے
زیادہ نہیں کہنا۔تمہارا یہ کہنا کافی رہے گا اور کمانڈر جس طرح سوچتا ہے،اسے
نظرانداز کردینا۔تمہاری ناگواری لوگ محسوس کرلیں گے۔تمہاری اس طرح کی باتوں سے
کمانڈرشکو ک و شباہت کا شکار ہو جائے گا۔ تمہارا ایسا رویہ میرے لئے
کار آمد رہے گا۔کل کمانڈر جزیرے کے تمام انتظامی سربراہان کوجمع کرکے وسیع پیمانے
پر اجلس منعقد کرے گا۔کمانڈر جانتا ہے کہ عوام کی رائے کیسے ہموار کی جاتی ہے۔اس
مقصد کے لئےتماشائیوں کے لئے ایک وسیع گیلری بنائی گئی ہےاورجلسے میں وہ ہمیشہ تماشائیوں
سے پر ہوتی ہے۔ مجھے لازماً ایسے اجلاس میں شرکت کرنا پڑتی ہےلیکن مجھے کوفت ہوتی
ہے۔مجھے ان سے نفرت ہے۔اور اب تم کواس اجلاس میں شرکت کے لئے کہا جائے
گا۔؛اگر تم نے میرے منصوبے پر عمل کیا توہمارے نظام کے لئے اچھا رہے گااور اگر کسی
وجہ سے تمہیں مدعو نہیں کیاجاتا،تو تم اجلاس میں شرکت کی درخواست کرنا؛جو تمہیں
،کوئی شک نہیں،ضروراجازت مل جائے گی۔ اس طرح کل تم کمانڈر کے ساتھ اس
کی خاتون سٹاف کے ساتھ ان کے باکس میں بیٹھے ہو گے۔وہ تمہاری طرف بار
بار دیکھتا رہے گا یہ یقین کرنے کے لئے کہ تم آج کی سزا دینے کے عمل میں
وہاں تمام وقت موجود رہے تھے۔اس کے بعد وہعوامی جلسے کا ایجنڈا پیش کرے
گا جس میں عوام الناس کی فلاح وبہبود کے مضحکہ خیز منصوبے ہوتے
ہیں جن میں بندرگاہ کے تعمیراتی کام سر فہرست ہوتے ہیں ،
انہیں نپٹانے کے بعدنظام عدل کا ایجنڈا شامل کیا جائے گا ۔اسے کمانڈر خود پیش
نہیں کرے گا بلکہ اس کی کابینہ کی کوئی خاتون رکن پیش کرے
گی، اوریہ فوری طورپر نہیں پیش کیا جائے گا ،لیکن وہ پیش ضرور کیا جائے
گا۔میں کھڑا ہوکر آج کی سزا کی تفصیل بیان کروں گالیکن یہ رپورٹ مختصر
ہوگی۔اس قسم کی رپورٹ معمول کا حصہ نہیں ہوتی لیکن میں ہر صورت اسے
پیش کروں گا۔اس پر کمانڈر ہمیشہ کی طرح دوستانہ مسکراہٹ کے
ساتھ میراشکریہ ادا کرے گا۔اس موقعے کا وہ ضرور فائدہ اٹھائے گااور مجھے ہر طرح سے
آڑے ہاتھ لینے کی کوشش کرے گا۔وہ کہے گا کہ معزز ایوان کے
سامنےہمارے نظام عدل کی رپورٹ افسر کے منہ سے آپ نے سن لی ہےاورایک غیر
ملکی مہمان جونظام عدل کے بین الاقومی شہرت یافتہ مبصر
ہیں اور دنیا بھر کے نظاموں کا مطالعہ کر چکے
ہیں جس کی رائے صائب مانی جاتی ہے،ہماری درخواست پر
ہمارے نظام عدل کا جائزہ لینے آئے ہیں ۔ ہمارے لئے یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ وہ آج
کے اجلا س میں شریک ہیں ۔وہ زمانہ قدیم و جدید کے نظام عدل
پر عبور رکھتے ہیں ، ہماراخیال ہے کہ انہیں اپنے خیالا
ت کے اظہار کی دعوت دی جائے۔ کیا یہ صحیح رہے گا؟اس پر تمام
سامعین پرجوش ہوکر تالیاں بجائیں گے ۔اس پر کمانڈر کھڑاہوکر بڑے مؤدبانہ
انداز میں تم سے مخاطب ہو کرکہے گا۔۔۔جناب والا! میں
اپنی اور حاضرین کی طرف سے دست بستہ درخواست کرتا
ہوں کہ ہمارے نظام عدل کے بارے میں آپ نے جو دیکھا
ہے اس پراظہار خیال کریں ۔اس کا تالیوں کی گونج
میں استقبال کریں۔ورنہ خواتین تمہیں پکڑلیں گی اور تم سے
ناراض ہوجائیں گی۔اب تم روسٹرم پر آجاؤ گے۔میں نہیں جانتا کہ میں اتنا عرصہ خود کو
کیسے سنبھال پاؤں گا۔تم اپنی تقریر فوراً ہی شروع کردینا لیکن انتہائی
اختصار سے روانی سےاعتماد کے ساتھ بولنا۔ رائے پورے یقین کے
ساتھ دینا۔ کمانڈر کی طرف منہ کرکےایسا ظاہر کرنا کہ تم نہائت سچائی سے بول رہے
ہو۔سامعین کا رویہ تمہارے آزاد معاشرے سے مختلف ہو سکتا ہے ،کو برداشت
کرنا۔ان معاشروں کی مثالیں دینا لیکن ہمارے معاشرے کے نظام پرمختصر اورگول مول
گفتگو کرنا اور اس وقت سرگوشیوں میں سٹیج پر بیٹھے لوگوں
سے بات کرنا،اور درمیان میں ہلکے پھلکے چٹکلے سناتے رہنا، اتنا کافی
رہے گا۔۔۔تم مشین کے میکانکی عمل کی تفصیل پر نہ جانا، اس کے شور کرنے والے گیئر ،
پھٹی ہوئی پٹی ، مجرم کے جسم کے چیتھڑے اڑنے ، اس کی چیخوں کا ذکر نہ
کرنا اور ایسی باتیں حذف کردینا جو سامعین میں جذبہ ترحم ابھاریں ۔اس طرح کی تقریر
کریں گےتو ماحول سابقہ کمانڈر کے حق میں ہو جائے گااور نئے کمانڈرکو اپنے گھٹنوں
پر جھکنا پڑے گا۔۔۔یہ میرا منصوبہ ہے؛کیا تم ایسا کرکے میری مدد کروگے؟لیکن شائد
تمہیں اس سے بڑھ کر بھی کرنا پڑے۔'اس کے بعد اس نے مسافر کا بازو پکڑلیا اور اس کے
سامنےہم چشم ہوکر، تیزی سے چڑھے سانس سے کہا۔اس نےآخری الفاظ اتنی
اونچی الفاظ میں ادا کئے تھےکہ سپاہی اور قیدی نے بھی سن لئے تھے؛یہ اور بات ہے کہ
ان کے پلے کچھ نہیں پڑاتھا،وہ کھیر کھاتے منہ چلارہے تھےاور ان کی طرف دیکھ رہے
تھے۔
آغاز سے ہی، مبصر راہی
نے کسی شک و شبہہ کے بغیر یہ طے کر لیاتھا کہ اس نے کیا
رپورٹ دینی ہے؛اس نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ تجربہ کر لیا
تھا کوئی اپیل یا
دھمکی اس کی شرافت اورمضبوط
اخلاقیات کو متزلزل نہیں کرسکتی تھیں؛وہ بنیادی طور
پرایک ایماندار اور نڈر شخص تھا ، تاہم،سپاہی اور
قیدی کی نظروں کے سامنے اس کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہوگئی اور اس میں
ہچکچاہٹ پیدا ہو گئی۔آخر کار وہ بولا 'نہیں'
افسر نےیہ سناتو اپنی آنکھیں حیرت
سے کئی بار جھپکائیں لیکن نظریں اس پر ہی جمائے رکھیں۔؎'کیا تم اس کی وضاحت سننا
پسند کرو گے؟'مسافر نے افسر سے پوچھا۔افسر نے خاموشی سے ہاں میں سر ہلا
دیا۔'میں اس طریقے کی مخالفت کروں گا،تمہاری اپیل سے پہلے ہی میں نے
فیصلہ کر لیاتھاکہ مجھ پر جواعتماد کیاگیاہے،اسے کبھی بھی ٹھیس نہیں پہنچاؤں
گا۔۔۔اور میں شروع سے ہی سوچ رہاتھا کہ تمہارے نظام عدل میں رکاوٹ
ڈالنے کی کوشش کروں گا خواہ میری گزارشات کا کتنا کم اثر ہی کیوں نہ ہواور مجھے
کامیابی نصیب نہ بھی ہو، میں انسانیت کی بہتری کے لئے سچ بولوں گا۔میں ابتدا سے
واضح تھا کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے کس سے بولوں گا:
یقیناًوہ کمانڈر ہی ہوگا۔تم نے جو وضاحتیں پیش کی ہیں ،اس نے میرے ارادے کواور
پختہ کردیا ہے۔۔۔اس کے برعکس تم جس عزم سے اس پر ڈٹے ہوئے ہو،تمہارے اس
خلوص نے مجھے متاثر کیا ہےلیکن اس نے میرے ارادے کو متزلزل نہیں کیا۔'یہ کہہ کر
مسافر خاموش ہو گیا
افسر نے چپ سادھ لی۔وہ مشین کی
طرف مڑا، جست کی بنی ہوئی ایک سلاخ کوپکڑا،اور، پھر ،ہلکا ساجھکا، ڈرافٹس
مین حصےکو ایسے دیکھا جیسے وہ یہ چیک کررہاتھا کہ کیا سب کچھ ٹھیک ٹھاک
تھا۔ایسا لگتا تھا کہ اس وقت تک سپاہی اور قیدی میں کسی حد تک دوستی ہو گئی تھی؛قیدی
،جو کسی ہوئی پٹی کی وجہ سے سخت مشکل میں تھا،نے
سپاہی کی طرف دیکھ کر درد بھری آہ بھری؛وہ اس کی طرف جھک گیا؛قیدی نےاس کے کان میں
کچھ سرگوشی کی جس پرسپاہی نے سر ہلایا۔
مسافر افسر کے پیچھے گیا اور
کہا'میں نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ میں کیا کرنے
والا ہوں۔ میں کمانڈرسےآج ہی ملوں گا، تمہارے نظام کے بارے
میں سچ بتاؤں گا لیکن خلوت میں،کسی مجلس میں اس کااظہار نہیں کروں گا۔اس کے بعد
میں رکوں گا نہیں اور کسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوں گا؛ میں کل علی
الصبح واپس روانہ ہو جاؤں گا۔۔۔'ایسا لگا کہ افسر نے اس کی بات نہ سنی
ہو۔'تو نظام عدل کے میرے طریقے نے اسے متاثر نہیں کیا'۔افسر نے خود
کلامی کی اور ایسے ہنسا جیسے ایک بوڑھا آدمی بچے کی کسی نادانی پر ہنستا ہےلیکن
اپنی اصل رائے چھپاتاہے۔
'تب ، یہ وہ وقت ہے !' افسر آخر کار بولا،اور اس کی آنکھوں
میں کسی حد تک للکار تھی ، کسی قدر التجا تھی کہ اس سے تعاون کیا
جائے،اور مسافرکو سکون سے کہا۔
'کس کے لئےوقت ؟' مسافر نے بے چینی سے استفسار
کیالیکن اسے جواب نہ ملا۔
'تم آزاد ہو۔'افسر نے قیدی کو اپنی مادری زبان میں کہا۔اسے
اس کی بات پر یقین نہ آیا۔' میں نے کہا ناں کہ تم آزاد ہو'۔ افسر نے دہرایا۔پہلی
بار قیدی کے چہرے پر زندگی کی رونق چھا گئی۔۔۔۔کیا یہ سچ تھا؟کیا یہ افسر کا بدلتا
ہواموڈتھا؟کیا مسافر نے اس کےلئے رحم کی التجاتھی؟قیدی کی نظروں میں اس
طرح کے سوالات تھے۔وجہ جو بھی تھی ، افسر یہ کہہ رہا تھا۔لیکن یہ بات اس کے ذہن
میں زیادہ دیر تک نہ رہی۔یہ سب جو کچھ بھی تھا، اصل میں
ہی وہ یہی چاہتا تھا، ۔۔۔اسے چھوڑ دیاجائے گا ، اسے
حقیقی آزاد کردیا جائے گا ، سن کراس نے بیڈ پر ہلنا شروع کردیا تاکہ اس
کا شکنجہ ڈھیلا پڑ جائے۔
'تم میری پٹیوں کو پھاڑ رہے ہو،' افسر چلایا۔'سیدھا لیٹ
جاؤ!ہم انہیں کھول رہے ہیں۔'اورسپاہی کے ساتھ مل کر کھولنے لگا۔قیدی
اپنے من میں بغیر کوئی کلمہ ادا کئے ہنسا؛وہ اپنا چہرہ بائیں
طرف افسر کو اور دائیں طرف مسافر کو بار
بار دیکھنے لگا۔
'اسے باہر نکالو،'افسر نے سپاہی کو حکم دیا۔اسے نکالتے
وقت سپول ( ہیررو) کی احتیاط کرنا،اسے کسی قسم کانقصان نہیں
پہنچنا چاہیئے۔' قیدی کی مشین کے بیڈ پر بے صبری سے کمر رگڑنے سے
اس پرکچھ خراشیں پڑ گئی تھیں۔
اس کے بعد افسر نے قیدی کی
طرف سے اپنی توجہ ہٹا دی۔وہ مسافر کی طرف مڑا، اپنا چھوٹا چمڑے کا
بیگ کھولا،اس میں دستاویزات کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا،اور اس میں سے
ایک صفحہ چھانٹ کر نکالااور اسے مسافر کو دکھایا۔'اسے پڑھو۔'افسر نے کہا۔
' میں ایسا نہیں کرسکتا،'مسافر نے کہا۔'میں تمہیں پہلے ہی بتا
چکا ہوں کہ میں اسے نہیں پڑھ سکتا۔'
'اس صفحے کو غور سے دیکھو'۔ افسر قدم بڑھاتے ہوئے مسافر کے
پاس آگیا اور اس کے ساتھ مل کر پڑھنے کا ارادہ کیا۔لیکن جب اس سے بھی کوئی فائدہ
نہ ہوا، تب، اس انداز میں کہ اس صفحے کو کسی صورت میں کبھی بھی چھوا نہ
جائے،اس نے اپنی چھنگلی ( چھوٹی انگلی)کھڑی کی اور صفحہ
اونچا کر کے اس پر ایسےپھیرنا شروع کردی کہ صفحے کو نہ چھوئے اورتاکہ مسافر کو
پڑھنے میں آسانی ہو۔مسافر نے بھی افسر کا دل رکھنے کے لئے پڑھنا شروع کردیا،لیکن
اسے سمجھنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ان افسر نے اس نقش کاری کے ہجے کرکے
پڑھنا شروع کردیا۔' یہ یہاں !' یہ وہ کہہ ر ہاہے'، اس نے
کہا ، 'اب تم آگے خود سے پڑھ سکتے ہو۔'
راہی اس صفحے کے اوپر
بہت زیادہ جھک گیا، کہ افسر کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ اس صفحے کوکہیں چھو نہ لے ،اس
لئے اس نے وہ صفحہ پیچھے کرلیا۔ راہی نے اسے کچھ نہ کہا'لیکن ابھی بھی یہ طے تھا
کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔وہ کچھ نہ پڑھ پایا تھا۔' یہاں سے!وہ اس
میں یہ کہتا ہے'، افسر نے دہرایا۔
'ایسا ہوسکتا تھا'، راہی نے کہا۔'میرا خیال ہے کہ اس کا مقصد
یہی رہا ہوگا۔'
'ٹھیک ہے،افسر بولا، جو تھوڑا بہت مطمئن ہو گیا
تھا، اور اس صفحے کے ساتھ سیڑھی پر چڑھ گیا۔اس نے
وہ صفحہ مشین
کے سب سے اونچے حصے ڈرافٹس مین کے پاس پہنچ گیا ،اس
حصے میں کچھ گئیر بہت چھوٹے تھے؛افسر نے گئیر کے ہر یونٹ کو
اتنے غور سے دیکھا کہ بعض اوقات اس کا سر ڈرافٹس مین کے اندر غائب ہو جاتاتھا۔
مسافر اس کی تمام حرکات کو نیچے
کھڑا خاموشی سے دیکھتا رہا؛یہاں تک کہ اس کی گردن اکڑ گئی اور اس کی
آنکھیں سورج کی تیز روشنی میں چندھیا گئیں ۔سپاہی اور اسیر
ایک دونوں میں الجھے ہوئے تھے۔اسیر کی قمیص اورپتلون، پہلے سے ہی گڑھے میں پڑے تھے،
سپاہی نے انہیں اپنی بندوق کے بونٹ سے اٹھا لیا۔اس کی قمیص پوری طرح گندی ہو چکی
تھی،جسے اسیر نے ایک برتن میں پانی ڈال کر دھویا، جب اس نے قمیص اور پتلون پہن لی
تو سپاہی اور اسیر دونوں نے زور دار قہقہہ مارا کیونکہ ان کے پچھلے حصے تار تار
ہوچکے تھے۔اسیر نے سپاہی کو جو زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھا تھا،محظوظ
کرنے کے لئےاس کے سامنے گول دائرے میں ہنستے ہوئے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ مارتے ہوئے
گھومنا شروع کردیالیکن انہوں نے دوسرے معزز افراد کے احترام میں ان کو اس میں شامل
نہ کیا۔
جب افسر ڈرافٹس مین کے حصے پر
اپنا کام مکمل کر چکا تو اس نے ڈرافٹس مین کا ڈھکن بند
کردیا جو ابھی تک کھلا ہوا تھا۔ چونکہ وہ مشین کے ہر ایک حصے کوپہلے
ہی اچھی طرح چیک کرچکا تھاجو صحیح تھےتو وہ نیچے اترآیا،
گڑھے اور اسیر کی طرف دیکھا۔ وہ خوش ہواکہ اس نے اپنے کپڑے
پہن لئے تھے۔اس کے بعد افسر بیسن کی طرف گیا تاکہ پانی سے اپنے ہاتھ دھو سکے،بیسن
میں اسےگندگی نظر آئی جس سے اسے کراہت محسوس ہوئی اور اسے افسوس ہواکہ وہ اپنے
ہاتھ دھو نہ سکا۔ آخر میں اس نے اپنے ہاتھ صاف کرنے کے لئے اپنے ہاتھ
ریت میں ڈال دیئےکیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔اس کے بعد وہ اٹھااور
اپنے کرتے کے بٹن کھولنے لگا ۔ایسا کرنے سے خواتین کے دو رومال جو اس
نے اپنی گردن کے کالر میں اٹکائے ہوئے تھے، اس کے ہاتھوں پر گر پڑے۔اس پر اس نے
کہا'یہ رومال تم رکھ لو۔' اس نے اسیر ک طرف اچھالتے ہوئے کہا، اور
مسافر کو کہا کہ 'یہ اس کے لئے خواتین کی طرف سے تحفہ ہے۔'
اپنے کرتے کے
بٹن جلدی میں کھولنے اور اسے نیچے گرانے کے بعد اس نے لباس
کی ہر آئٹم بڑے پیار سے اتار پھینکی؛ اس نے جان بوجھ کر
اپنے کوٹ کی نقرئی نلی کو اپنی انگلیوں سے بجانا شروع کردیا،اور اس کے
پھندنے کو ہلانے لگا۔تا ہم،اس کی دھن اور اس کے لباس اتارنے میں ہم
آہنگی نہیں تھی اور اس کے تمام کپڑے ایک ایک کرکے
گڑھے میں گرنے لگے۔اس کے جسم پر آخری شئے تلوار اور اس کی
پیٹی رہ گئے تھے۔اس نے اپنی تلوار میان سے نکالی، اسےعمدگی سے زور
سےجنگجویانہ انداز میں لہرایا،اور پھراس سے متعلقہ تمام
اشیاء دوبارہ جمع کر لیں ۔۔۔اس کے جزویات، میان، اور پیٹی زور سے
گڑھے میں پھینک دیئے۔
اب وہ وہاں ننگا کھڑا تھا۔مبصر
راہی اسے دیکھ کر اپنے ہونٹ کاٹتا رہا لیکن کچھ بھی نہ بولا۔وہ جانتا تھا کہ آگے
کیا ہونے والا تھا،لیکن اس کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اسے روکے۔اگر افسر کا
نظام عدل مسافر کی وجہ سے ختم ہونے کے قریب تھاجسے وہ سمجھتا تھا
کہ یہ اس کا فرض تھا کہ اسے ختم ہونا چاہیئے،تو افسر کا یہ عمل وہ صحیح
سمجھ رہاتھااس لئے اس نے کوئی ردعمل نہ دیا۔
پہلے پہل تو سپاہی اور اسیر کو
کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہورہاتھا بلکہ وہ انہیں دیکھ بھی نہیں رہے تھے۔اسیر اس
بات پر خوش تھا کہ اسے خواتین کے رومال مل گئے تھے، لیکن وہ انہیں زیادہ دیر تک
اپنے پاس نہ رکھ سکاکیونکہ سپاہی نے اچانک جھپٹا مارکر اس سے چھین کراپنی گردن
کے پیچھے کرلئے اور پھر پتلون کی پیٹی میں اڑس لئے ۔اب اسیر نے انہیں اس سے واپس
لینے کی کوشش کی لیکن سپاہی چاک و چوبند تھا۔وہ مستی میں
کھیل رہے تھے۔جب افسر بالکل ننگا ہوگیا تو ان کی نظر اس پر پڑ گئی۔اسیر بدلتا منظر
دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ جو کچھ اس کے ساتھ پہلے ہواتھا اب افسر کے ساتھ
ایسا ہورہاتھا۔شائدآگے اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے والا تھا جواسیر کے
ساتھ ہواتھا۔اس نے سمجھا کہ شائد غیرملکی نے افسر کوحکم دیاتھا کہ ایسا کرے۔شائد
وہ افسر سے بدلہ لے رہاتھا۔آخر تک کی اذیتوں تک پہنچنے سے پہلےوہ
مکافات کے عمل سے گزر رہا تھا۔افسر کے چہرے سے بے آواز غراہٹ نکلی اور اس کا چہرہ
بگڑگیا جو ویسا ہی رہا۔
وہ افسر،اس کے بعد مشین کی طرف
مڑا لیکن اب وہ مشین کو چلانے کی ہمت نہیں پارہا تھااور وہ
مشین چلانے میں تامل برت رہاتھاتاہم، اس کا ہاتھ مشین کے
درمیانے حصےسپول (ہیررو) تک پہنچا، اور بٹن دبایا ،اس نے حرکت کی اور بیڈپر جا کر
لیٹ گیا اور کئی بار نیچے گرا تاکہ مطلوبہ حالت پر آجائے اور صحیح پوزیشن پر آگیا
تاکہ وہ اس کےجسم کو سمو سکے؛ افسر نے بیڈکے کنارے کو چھواجو مشین چالو ہونے کے
بعدپہلے ہی تھرتھرا رہا تھا۔روئی کا بند اپنے منہ میں گھسانا چاہتا
تھا، اوراس کی اپنی کوشش سے وہ اس کے منہ میں گھس گیاجس نے اس کا منہ بند کردیا،
اب اس کے منہ سے آواز باہر نہیں آسکتی تھی۔اب ہر شئے تیار تھی، صرف پٹیاں اس
کی کلائیوں سے باندھی جانے والی تھیں جو اطراف میں لٹک رہی تھیں؛
افسر خود سے انہیں اپنی کلائیوں سے
نہ باندھ سکا۔اب اسیر نےان کھلی ہوئی پٹیوں کو دیکھاتو اس کے نزدیک وہ سزا اس وقت
تک نامکمل تھی جب تک کہ پٹیاں باندھی نہ جائیں۔اس نے بے چینی سے سپاہی کو دیکھاتو
وہ دونوں اس کی طرف پٹیاں باندھنے کے لئے بھاگے ۔ اس نے ایک
پیر پہلے ہی باہر نکالا ہوا تھا کہ کرینک کو ٹھوکر مارےجس سےسب سے اوپر
والا حصہ جو بیڈ سے سات فٹ اونچا تھا( ڈرافٹس مین) آن ہوکر نیچے آنا شروع ہوجاتا
اور درمیانی حصے سپول ( میررو) کی سوئیوں کو بیڈ پر لاکے اس کے جسم میں چھید کرکے
گھمانا شروع کر دیتا ۔افسر نے دیکھاکہ دونوں آدمی اس کے قریب پہنچ چکے
تھے،انہوں نے اس کی کلائیوں پر کس کر پٹیاں باندھ دیں۔ اب اس کا پاؤں مشین چلانے
کے لئے کرینک تک نہیں پہنچ سکتا تھا؛ مسافر نے پکاارادہ کیا ہوا تھا کہ
اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا اور تمام کاروائی کو خاموشی سے دیکھے گا۔جب اس کی کلائیوں
پر پٹی باندھ دی گئی تو مشین چل پڑی؛بیڈ تھرتھرانا شروع ہوگیا،موٹی سوئیاں ناچتے
ہوئے اس کی جلد ادھیڑنے لگیں ،سپول (ہیررو) اوپر نیچے ہونے لگا۔ مسافر
اس عمل کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا کہ اسے ڈرافٹس مین کی گڑگڑاتی
آواز سنائی دی۔فضا میں اس کی ہی آوازہی تھی، باقی چار سو خاموشی تھی۔
اس سکوت کی وجہ سے مشین نے افسر
کا شور اپنی گڑگڑاہٹ میں دبا لیا تھا۔مسافر نے سپاہی اور اسیر کی طرف
دیکھا۔اسیر کی حالت سپاہی سے بہتر تھی۔اس مشین کی ہر حرکت کو وہ دلچسپی
سے دیکھنے لگا: وہ جھک کر یا ہاتھ کس کریا پھیلا کر ، مستقل طور پر
اپنی انگشت شہادت اوپر کرکے سپاہی کوتفصیلات بتاتا رہا۔ مبصر مسافر
مشین کا پورا عمل دیکھنا چاہتا تھالیکن اس میں اب اتنی ہمت نہیں بچی
تھی کہ آخر تک دیکھ سکے۔'گھر چلے جاؤ' ،اس نے سپاہی اور قصور وار شخص
کو کہا۔سپاہی تو واپس جانےپر رضامند تھا لیکن اسیرپوری کی پوری سزا دیکھنا چاہتا
تھا۔اس نے اپنے ہاتھ باندھ کر التجا کی کہ اسے مشین کا عمل پورا دیکھنے دیا
جائے،اور جب مسافر نے سر ہلا کراسے منع کیاتو اسیر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھک
کر منت ترلے کرنے لگا۔اس پر مسافر کو احساس ہوگیا کہ اس کا حکم بےکار ۔پھر اس نے
اوپر سے ایک آواز سنی جو ڈرافٹس مین حصے سے آئی تھی۔ اس نے
اوپردیکھا۔کیا یہ اس حصے کی گراری تھی جو یہ گڑبڑ کررہی تھی؟ لیکن یہ
کوئی دوسری شئے تھی۔آہستہ سے ڈرافٹس مین کا ڈھکنا ادھر ادھر ہلا اور
پوراکھل گیا۔ گیئر کی گراریاں ایک سطح پر آگئیں اور اوپر اٹھیں، جلد ہی
پورا گیئرباہر نکل آیا؛ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ کوئی بہت
زیادہ قوت ڈرافٹس مین کوزور سے دبا رہی تھی، رولر پھیلی ہوئی ریت
سے اوپر اٹھا اور پھر ہموار سطح پر رک گیا۔عین اس وقت ایک اور
گیئر پہلے ہی اٹھناشروع ہو گیا تھا، اس کے ساتھ کئی اور گیئر بھی تھے،
جو لمبے ، چھوٹے،اور طرح طرح کے تھے جو اس نے پہلے نہیں دیکھے تھے ۔ان
کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔ جب کوئی باہر سے دیکھنے والے (راہگیر)یہ
سمجھتے کہ ڈرافٹس مین اب خالی ہوگیا ہوگا،تواس لمحے گراریوں کا ایک نیا
گروہ آجاتا، اوپر اٹھتا،تو سیسے اور دھات کے جڑے ہوئے ٹکڑے پوری ریت پر رولر کے
ذریعے ہموار کر دیتے۔ اس عمل کے دوران ، اسیر شخص، مسافر کا حکم بھول گیا،وہ
گیئروں کے کھیل میں کھو گیا؛اور کسی ایک گیئر کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا،اور ساتھ
ہی سپاہی کو کہتا رہا کہ گئیر پکڑنے میں اس کی مدد کرےلیکن جس ایک گئیر
کے بعد دوسرے گئیر تواتر میں آتے تو وہ ڈر کراپنے ہاتھ
پیچھے کرلیتا۔
مسافر نے دیکھا
کہ مشین اب جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کررہی تھی؛
مشین کاپرسکون عمل فریب آلودتھا۔اس نے سوچا کہ
سزا میں افسر کی حالت دیکھنی چاہیئے، لیکن
جب قلابازی کھاتی ہوئی گراریوں نے اپنی طرف توجہ مبذول کروائی ،تو وہ
اس کے بعد کی مشین کی کارکردگی دیکھنا بھول گیا۔اب ،تاہم ،جب آخری گیئر
نے ڈرافٹس مین چھوڑا، تووہ سپول (ہیررو) پر جھک گیا،اسے مزید بڑی
حیرانی کا سامنا کرنا پڑا'وہ یہ کی سپول ( ہیررو) نے ڈھکنا بند
کردیاتھا،وہ صرف چھیدکررہاتھا، چھوٹی سوئیاں سوراخ کر رہی تھیں
جس سے بیڈ جسم کو دائرے میں لڑھکا نہیں پا رہا تھا، بلکہ صرف اٹھا رہا تھا،اور
سوئیوں کے سامنے
تھرکا رہاتھا۔مسافر
اس کا حل نکالنا چاہتا تھا، شائد مشین بند کرنا چاہتا تھا: اس سزا میں
اتنا تشدد نہیں تھا جتناکہ افسر نے اسے بتایا تھابلکہ یہ صاف صاف
قتل تھا۔مسافر نے اپنے بازو پھیلائے لیکن اس کا جسم جسے
بارہویں گھنٹے میں ہونا چاہیئے تھا، پہلے ہی ایک طرف ہورہاتھا، ۔خون کی
سینکڑوں ندیاں بہہ رہی تھیں جن میں پانی شامل نہیں ہورہاتھا۔ ۔۔جوایک
دوسرے میں ملاپ نہیں کررہی تھیں۔ پانی کی پتلی نالیاں اس وقت اپنے کام
میں ناکام ہو گئی تھیں۔اور اب مشین اپنے سب سے آخری
عنصرمیں بھی ناکام ہوگئی تھی : جسم لمبی سوئیوں سے علیحدہ نہیں ہوا
تھا؛وہ خون تو نکال رہی تھیں لیکن اسے گڑھے میں نہیں گرا رہی تھیں۔ پروگرام کے
مطابق سپول ( ہیررو) نے اب اصلی پوزیشن میں چلےجانا تھالیکن ابھی تک اس
نےجسم کا بوجھ ابھی ختم نہیں کیا تھا، اور یہ گڑھے کے اوپر تھا۔
'کچھ کیا جائے!' مسافر نےخود کلامی کی۔اس
نے اسیر اور فوجی دونوں کو پکارااور افسر کے پاؤں خود سے تھام لئے۔وہ اس کے پاؤں
کے خلاف قوت صرف کررہا تھااور باقی دونوں اس کے سر کومختلف سمت میں
کھینچ رہےتھےتاکہ اس کے جسم کو سپول کی سوئیوں
سے آزادی دلائی جا سکے۔لیکن وہ دونوں ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے؛ یہاں
تک کہ اسیر مڑ گیا۔ مسافر کو پھر وہاں جانا پڑااور بڑی قوت سے اسے افسر کے سر کی
طرف دھکیل دیا۔ایسا کرنے سے،اس نے جھجھکتے ہوئے لاش کا چہرہ دیکھا۔ایسا لگ رہاتھا
کہ وہ زندہ تھا؛اس میں کسی قسم کی اذیت کے نشان نہیں تھے۔افسر کے ہونٹ
سختی سے بند تھے،اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور زندہ انسانوں والا تاثر دے
رہی تھیں۔ اس کا گھورنا پرسکون اور متاثر کن تھا۔، اس کے ماتھے کو کسی
سخت کی تیز نوک چیر گئی تھی۔
مسافر ، سپاہی اور اسیر کام
ختم ہونے کے بعد اپنے ساتھ کالونی کی طرف ہو لئے ۔وہ کالونی
کےپہلے گھروں کے پاس پہنچے، تو سپاہی نے ایک گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ قہوہ
خانہ ہے۔اس گھر کی نچلی منزل کے فرش پرایک گہرا، گھٹا ہوا ، اندھیرا کمرہ تھا جس
کی دیواریں اور چھت دھوئیں سے بھری ہوئی تھی۔وہ چوڑی گلی
میں کھلتا تھا۔اگرچہ اس کی بناوٹ کالونی کے دوسرے گھروں سے مختلف تھی، ماسوائے
کمانڈر کے ہیڈ کوارٹر کےعظیم قصری ہیڈ کوارٹر کے، سب شکستہ تھے۔، لیکن
قحبہ خانہ مسافر کو ایک تاریخی عمارت لگی، جو کسی زمانے میں مقتدر کا
مسکن رہا ہوگا ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس میز پر جا بیٹھا
جو گلی کے سامنے تھااور ٹھنڈی سانس لی تاکہ اندر کی نمدار ہوا سے
چھٹکارا پایا جا سکے '
'وہ بوڑھا آدمی یہاں دفن ہے۔'فوجی اہلکار نے کہا۔پادری نے
اسے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔کافی دیر تک یہ فیصلہ نہ
کیاجاسکاکہ اسے کہاں دفنانا ہے۔ آخر کاراسے یہاں دفنانے کا فیصلہ کیا گیا۔افسر نے
شائد تمہیں اس بارے میں نہیں بتایا۔اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ اس پر شرمندہ تھا۔کئی
بار اس نے رات کو قبر کھود کراسے یہاں سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ہر بار اسے پکڑ
لیا گیا۔
'اس کی قبر کہاں ہے؟ مسافر نےاس کی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے
پوچھا۔اچانک سپاہی اور اسیر اس کے پاس سے اٹھے اور اپنے ہاتھ پھیلا کر قبر کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے بھاگنے لگے۔وہ اسے عقبی دیوار کی طرف لے گئے جہاں کئی گاہک مختلف
میزوں پر بیٹھے تھے۔وہ شائد عرشے پر کام کرنے والے مزدور تھے۔وہ مضبوط جسم کے مالک
تھے۔ان کی چمکدار سیاہ داڑھیاں تھیں۔ان میں سے کسی نے بھی جیکٹ نہیں
پہنی ہوئی تھی ۔ان کی قمیصیں پھٹی ہوئی تھیں۔وہ غریب غرباتھے۔وہ اس علاقے کے اچھوت
اور حقیر مخلوق تھی۔جب وہ مسافر وہاں پہنچا،تو ان میں سے کچھ
تعظیم میں کھڑے ہو گئے۔،اس کے دونوں ساتھیوں سے بغل گیر ہوئےاورراہی کو
غور سے دیکھنے لگے۔
'وہ ایک غیر ملکی مبصرہے،' کسی نے سرگوشی کی۔'وہ
قبر دیکھنا چاہتا ہے۔' وہ سب میز کے ایک طرف ہو گئے۔اس میز کے نیچےقبر کا سادہ سا
پتھر تھا۔اس پر چھوٹے چھوٹے الفاظ میں ایک نام کندہ تھا؛مسافرگھٹنوں کے
بل جھکا اور اس پر کندہ تحریر پڑھنے لگا جو مضحکہ خیز تھی،اس پر لکھا
تھا' یہاں سابقہ کمانڈر لیٹا ہوا ہے۔اس کے پیروکار ، گمنام ہو چکے ہیں
، میں سے ایک نے اس کی قبر کھودی اور نشان کے طور پر اس کے نام کی تختی
لگائی۔' اس کے بہی خواہوں کی پیشین گوئی ہے کہ کہ وہ کچھ سالوں کے
بعد کمانڈرپھر سے زندہ ہوگااور اپنے پیروکاروں کی قیادت کرتے ہوئے اس
کالونی کو پھر سے فتح کر لےگا۔اس پر اعتقادرکھو اور اس کی اطاعت کرو۔!'
یہ پڑھ کر وہ کھڑا ہوگیا، اور اس
نے اپنے ارد گرد لوگوں کا جمگھٹا دیکھا۔وہ سب مسکرارہے تھے ۔لگتا ہے کہ انہوں نے
بھی اس کے ساتھ وہ مسودہ پڑھاتھااور اسے مزاحیہ پایا تھااور اس سے پوچھ رہے تھے کہ
اس پر اپنی رائے دے۔مسافر نے کوشش کی کہ اس کا نوٹس نہ لے۔ اس نے مزدوروں میں کچھ
پیسے بانٹے اور اس وقت تک انتظار کیا جب تک کہ میز قبر کے اوپر پھر نہ
کردیاگیا۔اس کے بعد اس نے قحبہ خانہ چھوڑ دیااور بندرگاہ کی طرف روانہ ہوگیا۔
قحبہ خانے میں سپاہی اور اسیر کو
واقف کار مل گئے،انہوں نے انہیں روک لیا۔ ا ن کی باتوں نے لوگوں کو حیران کردیا۔
مسافر ابھی بندرگاہ پر اپنے سٹیمر میں بیٹھا ہی تھا ،کہ
قحبہ خانے کے مزدوروں نے دوڑتے ہوئے اسے آن لیا۔وہ شائد مبصر راہی کو مجبور کرنا
چاہتے تھے کہ اسے آخری منزل تک چھوڑ آئیں۔ مسافر اس وقت سٹیمر پر سوار ہو چکا
تھااور اس کا ڈرائیور اور مسافروں کو بٹھا رہاتھا۔ اس وقت فوجی اور
قصور وار شخص کےدو ساتھی بندرگاہ کی سیڑھیوں سے اتر کر،
زبانیں اپنے منہ میں دبائے وہاں پہنچے اور کشتی میں سوار ہوناچاہتے تھے لیکن مسافر
نے فرش سے وزنی گانٹھ والی رسی اٹھائی اور اس سے انہیں مارنے کی دھمکی
دی جس سے وہ سٹیمر میں کودنے سے باز رہےاور مسافر اپنی منزل کی اور چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16 Book
5 Metamorphosis
ہیئت میں تبدیلی
The
Metamorphosis
Franz
Kafka - (1883 - 1924)
Czechoslovakia (Nobel Laureate
(2001)
سامسا (Samsa) کا
خاندان ایک دس منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں سالہا سال
سے مقیم تھا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی فرینکلن(Franklin) جو
ان بیٹا گریگر (Gregor) اور
سترہ سالہ بیٹی گریٹس (Grates) رہتی
تھیں۔سامسا اور فرینکلن کئی سال پہلے ریٹائر ہو چکے تھے۔ بڑھاپے اور
بیماری کی وجہ سے کوئی با قاعدہ نوکری اور گھر کا کام کرنے سے
قاصر تھے اس لئے ان کو مجبوراً ایک جز وقتی ملازمہ ر
کھنا پڑی۔ سامسانے ماضی میں چند سال فوج کی نوکری کی
تھی۔ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی وردی ابھی تک اس کے پاس تھی۔ گھر کے حالات کے
باعث اسے بنک میں جز وقتی ڈاک تقسیم کرنے کے لئے بلا لیا جاتا تھا۔اس کی ڈیوٹی ہو
یا نہ ہو، وہ دن کو ہمیشہ اُس وردی میں جس پرجگہ جگہ چکنائی کے دھبے پڑے ہوئے
تھے،پہنے رہتا۔
ا س کا جوان بیٹا گریگر ایک دراز قد اور فربہ شخص تھا
جو گھر کے تمام اخراجات برداشت کرتا تھا۔ اُسے اپنے بوڑھے والدین کی
فکر رہتی تھی۔اُسے اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے کتنی محنت سے اسے پالا تھا اس
لئے وہ اسکے بڑھاپے میں ان کی خدمت کرنا چاہتا
تھا۔ اُس کو اپنی بہن گریٹس سے بڑا لگاؤ تھا جسے وائلن
اور پیانو بجانا آتا تھا اور وہ ان میں مزید مہارت حاصل کرنا چاہتی
تھی۔ گریگر کا ارادہ تھا کہ وہ اسے وائلن اور پیانو کالج میں داخل کروائے گا لیکن
اس نے اُس سے اِس بات کا ذکر نہیں کیا تھا۔
گریگر نے جو
نوکری ُ چنی
تھی وہ گردشی تھی جس میں وہ ہر روز ایک نئے شہر یا قصبے جا کر اپنی کمپنی کی اشیاء
بیچتا اور وصولی کرتاتھا۔اس نے یہ نوکری کافی مشکل تھی،کے
لئے اسے صبح چار بجے جاگنا پڑتا تھا کیونکہ دوسرے شہر تک پہنچتے پہنچتے اسے دو تین
گھنٹے لگ جاتے تھے۔وہ پہلی ٹرین پکڑتا تھا جو پانچ بجے چھوٹتی تھی پھر ہر گھنٹے
بعد جاتی تھی۔اس کو اِس نوکری سے جو کہ ایک جگہ بیٹھ کر کرنا پڑتی تھی، سے دوگنی
آمدن ہوتی تھی۔تنخواہ کے ساتھ کمیشن بھی ملتا تھا۔ڈیوٹی کے دوران تمام اخراجات
کمپنی کے ذمہ ہوتےتھے۔وہ ایک فرض شناس بیٹے کی طرح اپنے خاندان کو خوش
دیکھنا چاہتا تھا اِس لئے وہ اُن کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنی طرف سے
سخت محنت کر رہا تھا۔اسے اُس کمپنی میں کام کرتےپانچ سال ہو چکے تھے لیکن مالک کے
نزدیک اُس کی کارکردگی معیاری نہیں تھیں کیونکہ خریدار اُس کی اکثر شکایات کیا
کرتے تھے۔
ہر
روز ڈیوٹی پر جانے سے پہلے کمپنی میں ڈیوٹی پر موجود ڈسپیچ کو اُس روز
کا جدول بتانا پڑتا تھاکہ اُس نے کن علاقوں میں جانا ہے، کون کون سے سامپل لے
کر جانے ہیں، کن دکانداروں سے ملنا ہے، کن سے آرڈر لینے ہیں، کن سے
وصولی کرنی ہے، کن کو سپلائی پہنچانی ہے اور دیگر تفصیلات جو اُس کے دن کے
دورے میں اہم تھیں۔واپسی پر اسے مطلع کرنا ہوتا تھا کہ کون
سے نئے آرڈر ملے ہیں، کن کو سپلائی پہنچ گئی ہے،کتنی وصولی ہوئی ہے اور کس اکاوئنٹ
میں رقم جمع کروائی گئی ہے وغیر ہ۔ ہر مہینے اسے زیادہ تر گھر سے باہر
ہی رہنا پڑتاتھا تھا لیکن پوری کوشش کرتا تھا کہ ہفتے میں دو دن وہ گھر پر ہی
گزارے۔
وہ جب کام سے واپس آتا تو اس کا والد، والدہ اور بہن
اسے دیکھ کر خوش ہوتے اور خوش آمدید کہا کرتے۔ وہ اسے اہتمام سے کھانا
کھلاتےاور سونے سے پہلے اُسکے ساتھ رات گئے تک باتیں کرتے رہتے۔پھر اگلے دن
وہ علی الصبح اٹھتا اوراپنی ڈیوٹی پرنکل جاتا۔ہر دو ہفتوں بعد جو چیک اسے ملتا وہ
اپنے باپ کے حوالے کر دیتا۔صبح جاگتے وقت کبھی کبھار اُسے تھکاوٹ کا احساس ہونے
لگتا اور پھر کچھ وقت کے بعد اس کے ساتھ درد بھی محسوس ہونے لگالیکن جب وہ نہا دھو
کر ناشتہ کرتا تو وہ علامات ختم ہو جاتی تھیں۔اس کے کمرے کی کھڑکی سے گھر کے باہر
کا منظر صاف نظر آتابشمول ہسپتا ل جوگلی کی نکڑ پر تھا، بازار اور رہائشی بلڈنگ جن
کی آمد و رفت وہ دیکھ سکتا تھا۔
چند ہفتوں بعد اسے پھر وہی علامات ظاہر ہوئیں تو اُس نے
آرام کے لئے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی۔بیماری کے سبب اسے کمپنی کا حساب کتاب دینا
بھی یاد نہیں رہا۔چھٹی ختم ہونے پراُس روز اسے ہر صورت کام پر جانا تھا۔کمپنی کا
مالک گا ہے بہ گاہے اسے اور اس کے باپ کو اسکی ناقص
کارکردگی کے بارے میں آگاہ کر تا رہتا تھاجبکہ گریگر کا خیال تھا کہ وہ
ایک بہترین ملازم تھا۔اس کے اپنے انداز ے کے مطابق وہ کمپنی کے لئے قیمتی
اثاثہ تھا۔جب بھی اسے اس کی کوتاہی کے بارے میں بتایا جاتا تو وہ
سمجھتا کہ لوگ اس سے جلتے ہیں۔ روز بروز کے سفر سے وہ اکتا بھی
جاتا لیکن خانگی ذمہ داریوں کی خاطر اسے کام کرنا پڑتا۔نوکری سے اسے جو بھی رقم
حاصل ہوتی وہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی کہ اس کے خاندان کا مکمل گزارہ ہو سکے۔اس
کے والد نے بھی ریٹائرمنٹ سے قبل کچھ رقم بچا کر بچت سکیموں میں لگائی ہوئی تھی جس
سے اسے معمولی سا ماہانہ سود ملتا تھا اور جب کبھی گریگر کو بونس ملتا تو وہ بھی
بچت سکیموں میں لگا دیتا تھا۔اس طرح مل جل کر خرچہ پورا ہو ہی جاتا تھا۔
گاڑی پکڑنے کے لئے اُس روز وہ صبح اٹھا تو اس نے محسوس
کیا کہ وہ ایک حقیر کیڑے کی مانند ہو گیا تھا۔اس کی کمر اکڑ چکی تھی، پیٹ میں جیسے
فولاد بھر دیا گیا تھا، سر اٹھایا تو اس نےمحسوس کیا کہ اس کی محراب نما توند بے
حد سخت ہو چکی تھی جو کئی حصوں میں بٹ چکی تھی۔رضائی جو اس نے سردی سے بچاؤکے لئے
لی ہوئی تھی وہ اس کے پیٹ پر ٹک نہیں رہی تھی کیونکہ وہ اس کی توند کے لحاظ سے
چھوٹی تھی۔ اُسے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے سوچا۔ وہ
یقینا خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔وہ اپنے بیڈ روم میں بستر پر لیٹا ہوا
تھا۔ کمرہ اند ر سے بند تھا۔ اس کی کمپنی کی مصنوعات کے کچھ
نمونے جواس نے خریداروں کو دکھانے تھے، میز پر پڑے ہوئے تھے۔اس نے باہر
دیکھا تو بارش ہو رہی تھی اوراسکے قطرے کھڑکی پر پڑ رہے تھے۔اس پر اسے خیال آیا
کہ کیوں نہ و ہ اُ س موسم سے لطف اندوز ہو کر کچھ دیر مزید سو
جائے۔ دائیں سمت کروٹ لینے کی کوشش کی تو وہ حرکت نہ کر پایا۔جب
کبھی کروٹ لینے کی کوشش کرتا تو اس کی کمر میں شدید درد ٹیس اٹھتی۔اس تگ و دو میں
ساڑھے چھ بج گئے یعنی وہ ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہو چکا تھا۔اگلی ٹرین نے سات بجے جانا
تھا۔ اس نے سوچا، اگر تیزی سے تیار ہو جائے تو وہ اب بھی ٹرین پکڑ سکتا
تھالیکن اس کے لئے پہلے توسامنے میز، کرسی پر پڑے کمپنی کے نمونہ جات کو ترتیب وار
کرکے پیک کرنا تھا۔ نہا کر
ناشتہ کرنا تھا جو وقت طلب تھااور اتنے کم عرصے میں وہ یہ سب نہیں کر سکتا
تھا۔اگروہ یہ کر بھی لیتا تو بھی مالک نے مطمئن نہیں ہونا تھا اور اسکی
سرزنش تو کرنی ہی تھی۔اس نے سوچا کہ اسکا ساتھی پورے پانچ بجے سٹیشن پر پہنچ چکا
ہو گا اور اسکی غیر حاضری کی اطلاع دفتر کو دے دی ہو گی۔ڈسپیچ نے منیجر کو اور
منیجرنے مالک کو شکایت کر دی ہو گی جواسکے والد کو بڑھا چڑھا کراسکی برائی کرے
گااور کہے گا کہ بارہا تنبیہ کے باوجود اُس نے اپنا رویہ صحیح نہیں کیا اس لئے
تادیبی کاروائی کر کے اسے نوکری سے نکال دیاتاکہ کمپنی کو اُسے ملازموں والے
فوائد نہ دینے پڑیں۔اتنے میں دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔اسےآواز جیسی
کوئی چیز سنائی دی۔
'کیا
آج ٹرین نہیں پکڑنی؟'کسی نے ایسا کہا۔
'ہا
ں! ہاں! شکریہ۔۔ میں اٹھ ہی رہا تھا،'گریگر نے جواب دیا۔
باہر کھڑے شخص نے اس کی آواز سن لی ہو گی۔یہ بات تو طے
تھی کہ اس آواز کے بعد تمام لوگوں کو پتہ چل گیا ہو گا کہ وہ آج ابھی تک کام پر
نہیں گیا۔اس دوران اس کے باپ نے اونچی آواز میں پکارا، 'گریگر باہر نکلو'۔۔ساتھ ہی
بہن بولی، 'بھائی تمہاری طبیعت ٹھیک تو ہے؟ تالا اتارو
اوراب درواز ہ کھول بھی دو۔' گریگر نے فوراً ایسا نہیں کیا کیونکہ
اسکا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ کوئی اس کے کمرے میں تیزی سے آئے اور چبھتی
نظروں سے کمرے کی سکریننگ کرے ۔اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اس وقت اس
کی آواز معمول سے ہٹ کر تھی جس کا اس نے یہ جواز پیش کیا کہ
آواز اس لئے بدل گئی ہو گی کیونکہ شدید ترین موسموں میں اپنے
فرائض نبھاتاہے۔اس کے لئے اسے گھنٹوں کھڑے رہنے پڑتاتھا۔پھر اچانک اس
نے ہمت باندھی اور سوچا ، بھلا رضائی چھوڑنا اور بستر سے اٹھنا بھی
کوئی کام ہے؟ اب اسے اٹھ جانا چاہئے۔ اُس نے گہرے
سانس لئےاس نے ارادہ کیاکہ اگر جسم کا اوپروالادھڑ اٹھا کر نچلے دھڑ کو
گھسیٹے تو وہ اٹھ کربیٹھ سکتاتھااور پھر آسانی سے کھڑاہوسکتاتھا۔لیکن مشکل یہ تھی
کہ وہ کسی وجہ سے اس سے ہلایا نہیں جا رہا تھا۔ بار بار کوشش کے باوجود
وہ اپنے جسم کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا۔اس کی ٹانگیں حرکت
نہیں کر رہی تھیں۔رضائی ڈھلک تو چکی تھی لیکن اس کے جسم سے مکمل طور پر اتر نہیں
رہی تھی۔اُس کو جھنجھلاہٹ پیدا ہونے لگی لیکن اس نے اپنے ان خیالات پر قابو پا
لیا۔
اس عمل میں ناکامی کے بعد اس نے سوچا کہ اسے بستر سے
اٹھنے کی تدبیر بدلنی چاہئے۔سب سے پہلے اسے نچلا دھڑ اٹھانا چاہئے لیکن اس
کا ایک حصہ رضائی میں چھپا ہوا تھا اس لئے واضح نہیں تھا کہ اس کی پوزیشن کیا ہے
اور وہ اسے کیسے ہلائے گا؟اس نے زور لگا کر اسے ہلانے کی کوشش کی تو وہ اس میں
ناکام رہا۔ مزید کوشش کی تو اس کا نچلا دھڑ بستر کے اوپری حصے کی بجائے بستر
کے نچلے حصے کی طرف سر ک گیا۔اس عمل میں اسے شدید درد محسوس ہوا۔وہ
سمجھا شاید اس کا نچلا حصہ بہت حساس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اسے
معمولی سی تکلیف بھی بہت زیادہ لگ رہی تھی۔
اب اُس نے پہلے اپنے جسم کا بالائی حصہ رضائی سے باہر
کھنچنے کی کوشش کی لیکن اس کا سانس اکھڑ گیا۔اس کا بھاری بھر کم جسم اسکے اٹھنے
میں مداخلت کر رہا تھا پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور آہستہ آہستہ اپنے سر اور جسم
کو ہلانے میں کامیاب ہو گیا۔آخر کار جب وہ اپنے سر کو بستر کے کنارے سے اوپر ا
ٹھانے میں کامیاب ہو گیا تو اس کو ایسا لگا کہ اس سے مزید زور لگانا اس کی تکلیف
میں اضافے کا سبب بنے گا اس لئے اس نے مزید کوشش تر ک کر دی کیونکہ اسے خدشہ تھا
کہ کہیں اس کا سر کسی سخت چیز سے ٹکرا نہ جائے اور وہ زخمی ہو کر بے ہوش نہ ہو
جائے۔اِسی شش و پنج میں وہ کچھ دیر مزید لیٹارہا اور اُس صورت حال سے نپٹنے کے لئے
وہ یہ سوچنے لگا کہ اسے اپنا دماغ ٹھنڈا رکھنا چاہئیے اور حوصلہ نہیں
ہارنا چاہیئے ۔تھوڑا انتظار کرنے کے بعد پھر سے اٹھنے کی کوشش کرنی
چاہئے۔اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ اگر وہ باقاعدہ انداز میں جھولے
کی طرح آ گے پیچھے ہلے تو کھڑاہوسکتاتھا۔اس کو یقین تھا کہ اس طرح سے وہ بستر سے
نکل پائے گا۔ یہ طریقہ اسے دلچسپ لگا کیونکہ یہ کھیل کا کھیل تھا اور
تدبیر کی تدبیر۔ اِس کے زور لگانے سے جسم اوپر کی طرف ہو
جاتا لیکن پھر نیچے کھسک جاتا۔ اس دوران اُس نے سوچا کہ اگر اسے تھوڑی سی
بیرونی مدد مل جائے تو وہ اس پوزیشن سے چھٹکارا حاصل کر سکتا تھا۔اس کا باپ، بہن
یا نوکرانی اِس سلسلے میں اسے سہارا دے کر اٹھاسکتے تھے۔اگر وہ کندھوں میں ہاتھ
ڈال کر اسے قالین پر کھڑا دیتے تو وہ خود سے چل سکتا تھا لیکن اسے یاد آیا کہ وہ
مدد کو نہیں آ سکتے کیونکہ دروازہ تو اندر سے مقفل تھا۔
اس کے کانوں میں گھنٹی کی آوازآئی۔لو جی!ایسا لگتا تھا
کہ اسکی غیر حاضری کاسن کر اس کے دفتر سے اس کی سدھ بدھ
لینے کوئی شخص ہیڈ آفس سے آ
گیا تھا۔اُس وقت اُس نے گھڑی دیکھی تو سات بج چکے تھے۔اِس سے اُس میں پھر جوش پیدا
ہوا اور اس کی ٹانگیں تیزی سے حرکت کرنے لگیں۔اس لمحے اس نے نوکرانی کی چاپ سنی جو
مین دروازہ کھولنے کے لئے جا رہی تھی۔دروازہ کھلنے پر اس نے صبح بخیر کی آواز سنی
جو کمپنی کے مالک کی لگی۔یہ سن کر وہ پریشان ہو گیا۔ کمپنی مالک کو کسی
ملازم کی بات پر یقین نہیں آتا تھا اس لئے حقیقت جاننے کے لئے انکوائری کے لئے خود
آ گیا تھا۔ اِس بار اُس نے کوشش کی تو وہ قالین پر دھڑام سے
گرا اور اس کاسر کسی شئے سے ٹکرایا تو سر میں ٹیس اٹھی۔ اس
نے جائزہ لیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنا سر اونچا کرنا بھو ل گیا تھا س لئے چوکھاٹ
کی ٹکر سے اسے چوٹ آ گئی تھی۔
کمرے
میں کوئی چیز گری ہے،اس نے کمپنی مالک کو کہتے ہوئے سنا۔
اس کی بہن کمپنی کے مالک سے آج کے واقعہ کاذکر تفصیل سے
کر رہی تھی۔گریگر بڑبڑایاکہ وہ یہ جان چکا تھاکہ میں نے ابھی تک
دروازہ بھی نہیں کھولاتھا۔اُس نے یہ بات اونچی آواز میں کمپنی کے مالک
کو اپنی کیفیت سے آگاہ کرناچاہالیکن اس کا گلا اس کا ساتھ نہ دے پایا
اوراُس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔کمپنی کےمالک نے اس کی بہن کی
رپورٹ سن لی تھی ۔اب اس کے باپ کے بولنے کی باری تھی ۔وہ اونچی آواز میں گریگر سے
مخاطب ہوااور کہا کہ ا س کی کمپنی کا مالک جاننا چاہتا ہکہ اس نے صبح کی گاڑی کیوں
نہیں پکڑی؟چونکہ ہمیں وجہ معلوم نہیں ، اسے باہر آ کر بتا دو۔ اگر تمہارے کمرے میں
اشیاء بے ترتیب ہیں یا ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں تو بھی فکر نہ کرو۔ اُس نے کہا ہے
کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہ پوچھے گا۔
' گریگر
بیمار ہے،رات اس کی طبیعت کافی ڈھیلی تھی،'اس کی ماں نے توجیہ پیش کی۔
کمپنی کا مالک بولا،'اسےو علاج کرانا چاہئے
تھا۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے پچھلے ایک ہفتے سے غیر حاضرہےاور ویسے بھی
اسکی کارکردگی پچھلے کئی مہینوں سے روز بروز خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔
تاہم گریگر اس کی بات سے متفق نہیں تھاکیونکہ وہ سمجھتا
تھا کہ تین مہینے پہلے اسے بونس دیا گیا تھا اور اس کی تصویر کمپنی کے
اخبار میں بھی چھپی تھی جو اس نے فریم میں لگا کر دیوار پر لٹکا دی تھی۔وہ بڑی
مشکل سے اٹھا اور اس تصویر کو دیکھنا شروع کیا۔ کھڑا نہ رہ سکا اور قالین پر
لیٹ گیا۔
دروازہ کھولو! ہم اندر آنا چاہتے ہیں۔
دروازہ اندر سے بند ہے اس لئے ہم باہر سے نہیں کھول سکتے۔اگر تم نے دروازہ
نہ کھولا تو ہمیں دروازے کو توڑنا پڑے گا۔ا س دوران گریگرنے اپنی بہن کی سسکیوں کی
آواز سنی۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کمپنی کا مالک اور گھر کے دوسرے لوگ کمرے کے
دائیں طرف اوراسکی بہن بائیں طرف تھی۔ وہ ان سے الگ کیوں دوسری طرف
کھڑی تھی؟اسے خیال آیا کہ شاید وہ ابھی سو کر ہی اٹھی ہو۔ رات والے
کپڑے نہ بدلے ہوں اس لئے ان کے ساتھ نہیں تھی۔ پر وہ رو کیوں رہی تھی؟ شاید
اس لئے کہ وہ وقت پر نہیں جاگا تھا۔
چونکہ کمپنی کا مالک گھر تک آن پہنچا تھا جو
تشویشناک بات تھی اس لئے اب اسے اپنی نوکری سے نکالے جانے
کا خطرہ محسوس ہوا۔اسے یہ بھی خدشہ تھا کہ مالک اس سے اُس قرض کی واپسی کا تقاضا
بھی کرے گا جو اُس نے وقتاً فوقتاً کمپنی سے گھر چلانے کے لئے لیا تھااور اپنی
تنخواہ سے قسط وار ادا کر رہا تھا۔گریگر بہت فکر مند ہو گیا۔ وہ بات اپنی جگہ لیکن
اس وقت گریگر پر جو بیت رہی تھی اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔وہ قالین پر بے
بس پڑا تھا اور اس بے بسی کو کسی کے سامنے پیش نہیں کر سکتا تھا۔
اس بار مالک بذات خود دروازے پر آیا اور زور سے
بولا،' گریگر تم ' ہوں ہاں' میں جواب دے رہے ہو۔ اصل
بات کیوں نہیں بتاتے؟ ہفتہ بھر چھٹیوں کے بعد بھی تم کام پر نہیں
آئے۔آج کی تمہاری غیر حاضری بھی نظر انداز کر دوں گا اگر تم مجھے اس کی کوئی معقول
وجہ دے سکے۔ میں تمہیں ذمہ دار، قابل بھروسہ اور سنجیدہ شخص سمجھتا تھا
لیکن اس نامعقول اور بیہودہ رویے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ میں یہاں اس
نیت سے آیا تھا کہ سرگوشی سے تمہیں تنبیہ کر دوں گا کہ غیر
ذمہ دار رویہ پھر کبھی نہ کرنا ورنہ نوکری سےنکال دوں گا لیکن تمہارے
رویے سے لگتا ہے کہ تم نوکری کرنا ہی نہیں چاہتے۔
'لیکن
سر! ' گریگر نے کمپنی کے مالک کی بات سن کر اپنے جذبات پر قابو پاتے
ہوئے کہا ۔اس کے ساتھ
وہ دروازہکھولنے
کے لئے آگے سرکا ا لیکن سر چکرانے سے وہ دروازہ
کھول نہیں پا رہا تھا۔تاہم وہ اب کچھ بہتر محسوس کر رہا تھا۔اُس نے ڈاکٹر سے
دوا لی
تو تھی، آرام بھی کیا تھا اور پچھلی رات تک وہ بالکل ٹھیک محسوس کر رہا تھا۔ رات
نیند بھی خوب آئی تھی لیکن صبح کے وقت نجانے کیا ہو گیا تھا؟اس کی یہ
حالت ابھی ٹھیک ہو جائے گی اور وہ کام پر چلا جائے گا۔ وہ جو کچھ
بول رہا تھا،اُس کو خودبھی پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھااور نہ ہی اُس کی
باتیں باہر والوں کی سمجھ آ رہی تھیں۔ اس نے جھولنے والی جوتکنیک استعمال کی
تھی ، اس کی بدولت کمرے کی الماری کی دراز تک رسائی ہو گئی تھی۔اب وہ دروازے کے
قریب جا کر اس کی کنڈی کھولنا چاہتا تھا جو اُس نے اندر سے لگائی ہوئی تھی۔کوشش
کرکے وہ کھڑا ہو گیا لیکن پھر اپنا وزن نہ سنبھال سکا اور قالین پر گر
پڑا۔ کچھ دیر بعد اس نے کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی کرسی کا سہارا لیا، اٹھا،
آہستہ آہستہ چلتا ہوا دروازے کے پاس گیا اور پھر گر پڑا۔اس میں اب اٹھنے کی مزید
ہمت نہ رہی ۔اس نے باہر ہونے والی گفتگوسنی تو مالک کہہ رہا تھا ،' مجھے سو فیصد
یقین ہے کہ گریگرکسی سنگین مسئلے سے دوچار ہوگیا ہے اور وہ ہم سب کو بے
وقوف نہیں بنا رہا۔اس کی دروازہ نہ کھولنے کی وجہ کچھ اور
ہی ہے جسے ہم نے معلوم کرناہے۔
'شاید
وہ بیمار ہے'، اس کی ماں نے دوبارہ کہا۔
'ہاں
ماں یقیناً، ' بہن نے دوسری سمت سے کہا۔
ایسا لگتا تھا کہ ماں اور بہن دروازے کے دونوں طرف کھڑی
تھیں۔اس دوران مالک نے انہیں آہستہ سے کہا کہ گریگر کی آواز جو وہ سن رہے تھے،وہ
کوئی انسانی آواز نہیں لگتی تھی اور انہیں لاک سمتھ اور ڈاکٹر کو بلا لینا
چاہئے۔
اس کاباپ تالیاں بجا بجا کر اس کی ماں کو
اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ وہ اسے بتا رہا تھا کہ مین دروازے کو
چوپٹ کھول دے۔ایسا کام صرف اسی وقت ہوتا تھا جب گھر پر ایمر جنسی ہو۔اس وقت باہر
کا دروازہ کھلا ہی رکھا
جاتا تھا۔
گریگر کو یکدم محسوس ہوا کہ اس کی طبیعت سنبھلنے
لگی اور آواز میں بہتری آ نے لگی تھی۔ اسے لگا کہ وہ اب ٹھہر ٹھہر
کر صاف آواز میں بول سکتا تھا۔ نہ جانے باہر کے لوگ اس کی باتیں کیوں نہیں
سمجھ پا رہے تھے؟ تاہم یہ جان کر اسے تسلی ہوئی کہ سب لوگ اس کی صحت کے
بارے میں پریشان تھے۔ ان کے اضطراب سے ظاہر ہوتا تھا
کہ وہ اسے بے حد پیار کرتے تھے۔ اسے مزید فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں
تھی کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر اورلاک سمتھ کو بیک وقت بلا لیاتھاجس سے وہ باہر نکل
پائے گا۔ اس کے چاہنے والے اب سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے جو وہ سن
نہیں پایا۔
اُس نے کرسی کو اپنے کمرے کے دروازے کے ساتھ لگا دیا
اور اسے پکڑ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ اس کے پاؤں قالین سے چپک رہے تھے۔اس
نے کرسی کو پکڑ کر توازن قائم کیا پھر اس نے کمرے کی چاپی کو اپنے منہ میں پکڑا
اور اسے تالے کے سوراخ میں ڈالا اور اسے کھولنے کے لئے گھمایا لیکن کامیاب نہ ہو
سکا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے دانت کا سائز ایک تو چھوٹا تھا اور دوسرا اس کے منہ
میں دانتوں کی تعداد بھی کم تھی۔اس کوشش سے اس کے ہونٹ اور
دانت زخمی ہو گئے اور ان سے خون رسنے لگا۔اس کی اس کوشش کا باہر والوں کو بھی کچھ
اندازہ ہوا۔تالہ میں چابی ڈالنے اور اسے کھولنے کی آواز انہوں نے پہچان لی اور چہ
مہ گوئیاں ہونے لگیں کہ ایسا لگتا تھا کہ اب اس نے چابی تالے میں ڈال کر گھمائی
تھی۔ گریگر یہ بات سن کر خوش ہوا کہ لوگ اس کی طرف پوری طرح متوجہ تھے اور اس
کی معمولی سے معمولی حرکت کو بھی محسوس کرکے تبصرہ کر رہے تھے۔اس نے
کمپنی کے مالک کو یہ کہتے سنا کہ وہ کوشش کر رہا ہے ،وہ جلد
ہی تالے کو کھول دےگا۔یہ بات گریگرکے لئے خوش کن تھی کہ
وہ اس کے بارے میں اب حوصلہ افزا کلمات ادا کر رہے تھے۔اب باہر سے
آوازیں آناشروع ہوگئیں۔' صحیح۔۔بالکل صحیح کوشش کرو۔ تم دروازہ
کھول سکتے ہو۔ چابی کو پکڑو۔' اس پر گریگر نے اپنے جبڑے کو زور سے
چابی کے ساتھ لگا کر تالے میں گھمایا۔ اس سے اس کا جبڑہ زخمی ہو گیا لیکن اس نے
ہمت نہ ہاری اور جبڑے، منہ اور چہرے کے دباؤ سے چابی تالے میں گھمانے میں کامیاب
ہو گیا اورتالہ کھل گیا۔ وہ اس سے خوش ہوا اور دل میں کہا کہ اب تالہ
کھولنے والے کو بلانے کی ضرورت نہیں رہی۔اس نے اپنے سر کی مدد سے ہینڈل گھما
دیا۔دراوزے کے دوپٹ تھے۔ایک پٹ کی اوٹ میں ہو کر دوسرا پٹ آہستہ آہستہ کھولنے کی
کوشش کرنے لگا تا کہ وہ گر نہ جائے۔ جوں ہی دروزہ کھلا تو باہر کھڑے
کمپنی کامالک زور سے ’اوہ‘ کہہ کر ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے
لگا اور پھر پریشانی میں انہیں اپنے منہ پر رکھ لیا۔ ماں نے
اپنے بیٹے کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور فرش پر گر پڑی۔ بہن نے چیخ
ماری اور والد نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ لیں اور اس کے چہرے پر درد ناک
تاثرات ابھرے۔ایسا لگتا تھا کہ وہ گریگر کو دوبارہ کمرے میں دھکیلنا چاہ رہا
ہو۔ والد نے اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ادھر ادھر دوڑنے
لگا۔
گریگر نے گردن باہر نکالی، دیکھا کہ میز پراس کے لئے پر
تکلف ناشتہ چنا ہواتھاکیونکہ گھر والے اسے اہم شمار کرتے تھے۔اس نے سوچا کہ نہا
دھو کر ناشتہ کرکے ابھی ڈیوٹی پر چلا جائے گا کیونکہ اس نے اپنی خانگی ذمہ داریاں
بھی تو پوری کرناتھیں، ان کے نان نفقہ کا بندوبست بھی کرنا تھا۔اسے یقین تھا کہ اس
کی مصیبتیں عارضی تھیں اور وہ اس سے جلد ہی چھٹکارا حاصل کر لے گاجبکہ مالک کی سوچ
اس سے مختلف تھی کیونکہ اس کا ہاتھ دینے والا تھااور اس کا لینے
والا۔ مالک اس پر بلا شبہ شک کرتا تھا۔اس کی کارکردگی کو سراہتا
نہیں تھا۔جب اسکی شکایت آتی اور مالک اُس سے باز پرس کرتا تو اسے تو یاد بھی نہیں
ہوتا تھا کہ کس بات کی جواب طلبی کی جا رہی ہوتی تھی۔ اُس نے تو ہر روز نئی
جگہ جانا ہوتا تھا سو جس واقعے کی جواب دہی کی جاتی تو وہ مہینہ بھر پہلے کا
ہوتااور وہ اسےبھول بھی چکا ہوتا تھا۔اندازوں سے بات ہی کر سکتا تھا جسے مالک رد
کر دیتا۔بہر حال اُس نے سوچا کہ اب اِس طرح سے کام نہیں چلے گااور
اب اسےکھل کر اپنے معاملات مالک کے سامنے بیان کرنا ہو ں گے۔
گریگر
نے جوں ہی گفتگو کا آغاز کیا، اُس کے بے معنی اور بے ہنگم طور پر ادا
کئے گئے پہلے ہی لفظ پر مالک کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔وہ اُس کی طرف ایسے گھور
رہا تھا جیسے کہ گریگر بھوت ہو۔وہ آہستہ آہستہ اس سے پیچھے ہٹنے لگا اور ہال کے
دروازے کی طرف سرکنے لگا۔ اُس نے اپنی نظریں گریگر سے نہ ہٹائیں اور ہال کے
دروزے پر جا کر بھاگ کر باہر نکل گیا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔ گریگر نے
سوچا کہ اسے ہر صورت اپنی مشکلات کو مالک کے سامنے بیان کردینا چاہئے ورنہ اس پر
پڑا ہوا برا اثر زائل نہیں ہو پائے گا اس لئے وہ کمرے سے باہر آیااور
احمقانہ انداز میں تیزی سے مالک کی طرف بڑھا اور بولنے کی کوشش کی۔جوں ہی اس نے
قدم اٹھایا وہ فرش پر اس طرح گرا کہ اس کی ٹانگیں ہوا میں معلق ہو گئیں۔اسے بے حد
درد محسوس ہوا۔اس کی ماں نے ’یا خدا رحم کر' کہا۔ تکلیف سے گریگر اپنی
ٹانگیں ہوا میں سائیکل چلانے کی طرح تیز تیز ہلا رہا تھا۔ان لمحات میں اس کے ذہن
سے مالک کا خیال نکل گیا۔مالک جو سیڑھیوں میں تھا،نے مڑ کر دیکھا اور نیچے اتر
گیا۔
اس دوران باپ تمام واقعہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔اس نے
کوئی مداخلت نہ کی۔ مالک اوور کوٹ، ہیٹ اور اپنی چھتری وہیں بھول گیا تھا۔اس
نے اپنے دائیں ہاتھ میں چھڑی پکڑی اور اسے لہرا کر گریگر کو کمرے میں جانے کو
کہا۔ گریگر نےخلوص سے جو طریقہ اپنا نقطہ نظر
بیان کرنے کے لئے اختیار کیا وہ ناکام رہا۔ اس کے باپ
نے چھڑی سے اسے جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے اُس کے کمرے میں دھکیل دیا۔باہر سے
کمرہ بند کر دیا اورا ب وہ تن تنہا کمرے میں رہ گیا۔رفتہ رفتہ اسے نیند آ گئی۔جب
وہ جاگا تو اس نے اخذ کر لیا کہ وہ اب پہلے کی طرح صحیح ہو گیا ہے لیکن جب اس نے
بیٹھنے کی کوشش کی تو اس کی ٹانگ کے زخم اور دیگر جسم میں شدید درد کی لہر
اٹھی۔اسے میز پر کھانے کی خوشبو نے مست کر دیا۔ دودھ اور ڈبل روٹی اس کا
مرغوب ناشتہ تھا۔اس نے اِس بات پر فخر محسوس کیا کہ وہ کتنا ذمہ دار بیٹا تھا کہ
اس کی بدولت اس کا خاندان ایک بہترین اپارٹمنٹ میں آرام دہ زندگی گزار رہا تھا۔اسے
شدید بھوک لگی تھی لیکن وہ بے بس تھااور خود سے اسے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔وہ
دروزے کھلنے اور بند ہونے اور قدموں کی چاپ سن رہا تھا لیکن کوئی اس کے کمرے میں
نہیں آ رہا تھا۔خیر کوئی بات نہیں، اس کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ اپنے معاملات کے
بارے میں سوچ سکے۔ وہ نیم بے ہوش تھا۔اس نے سوچا کہ اگر وہ صوفے کے نیچے جا
کر آرام کرے تو وہ زیادہ بہتر انداز میں سوچ سکتا تھا۔وہ اپنی تکلیف کی پرواہ کئے
بغیر صوفے کے نیچے گھس گیا لیکن موٹا ہونے کی وجہ سے پورے کا پورا صوفے کے نیچے
نہیں جا سکا اوررات بھر وہیں پڑا رہا۔
صبح کے وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کی بہن نے اس کے کمرے
کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ پہلے تو گریگر اسے نظر نہ آیا۔ ادھر
ادھر نظریں گھمانے پر اس نے صوفے کے نیچے گھسے ہوئے دھڑ کو دیکھا تو اس کی آنکھیں
حیرت سے پھیل گئیں اور وہ دراوزہ
بند کرکے واپس چلی گئی۔ گریگر نے سوچا کہ کیا اسے پتہ نہیں تھا کہ وہ بھوکا
تھا۔وہ اس کے کھانے کے لئے کچھ نہیں لائی تھی۔اس کا یہ خدشہ دور ہو گیا جب تھوڑی
دیر بعد وہ اخبار کے اوپر رکھ کر اس کی پسندیدہ خوراک لے آئی۔وہ بچی ہوئی سبزیاں،
ران پر چٹنی، کچھ بادام، کشمش، پنیر اور ڈبل روٹی پر مکھن لگا کرلائی
تھی۔ اس کی بہن نے اسے کھانا دکھایا، کہا کہ وہ اسے میزپر رکھ رہی ہے، آ کر
کھا لے اور وہ چلی گئی۔اس نے سوچا ہو گا کہ وہ ان کی موجودگی میں کھانا نہیں کھائے
گا۔وہ تکلیف کے باوجود آہستہ آہستہ اپنا جسم گھسیٹتا کھانے کے پاس لے
گیا۔سب سے پہلے وہ پنیر پھر سبزیوں، چٹنی اور پھر دوسری چیزوں پرٹوٹ پڑا۔وہ چیزیں
جو اس کی بہن نے تازہ بنائی تھیں اسے اچھی نہیں لگیں۔ کھانے کے بعد وہ واپس
پھر سے صوفے کے نیچے گھس گیا لیکن اب اسے راحت محسوس نہیں ہو رہی تھی کیونکہ کھانے
سے اس کا پیٹ پھول گیا تھا۔ اتنے میں اس نے قدموں کی چاپ سنی، دروازہ کھلا،
اس کی بہن جھاڑو لے کر آئی، اس کی طرف بغیر دیکھے کمرے کی صفائی شروع کر دی اور
گندگی سمیٹ کر چلی گئی۔
اب اس کی بہن خاندان کے دیگر اراکین کی طرح اسے
ناشتہ اور دیگر خوراک مہیا کرنے لگی۔ فرق یہ تھا کہ پہلے دیگر افراد
کھاتے اوربعد میں اسے کھانا دیا جاتا۔وہ دوسروں کے سامنے کھانا
نہیں کھا سکتا تھا شاید اس لئے ایسا کیا جاتا تھا۔ روزانہ اس کی بہن صبح کے
وقت کمرہ کھولتی۔اسے دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتی۔اس کے لئے دعا کرتی اور صفائی کرکے
چلی جاتی۔باہر جا کر تبصرہ کرتی کہ وہ کس حالت میں تھا۔ کیا اس نے پورا کھانا
ختم کر لیا تھا یا کھانا کم کر دیا تھا۔ وہ دروازے سے کان لگا کر خاندان کی
گفتگو سنتا۔ پہلے کچھ دن تو اس کی بگڑی ہوئی حالت کے بارے میں کوئی گفتگو نہ
کی گئی پھر اس کی بیماری سے متعلق باتیں ہونے لگیں کہ اُس کا کیا کیا
جائے؟ اس حالت میں گھر میں اسے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ کم از کم
اس کے علاوہ ایک شخص ضرور گھر میں رہنے لگا۔اس کی بہن خادمہ کے ساتھ مل کر کھانا
پکاتی تھی۔رفتہ رفتہ گریگر نے محسوس کیا کہ کھانے کی مقدار اور لوازمات روز بروز
کم ہوتے جا رہے تھے۔اسے گورنمنٹ کی طرف سے اس کی مدد کے لئے کھانے کے
لئے چند دنوں کے ٹوکن دیئے گئے جو ختم ہو گئے تھے اس کے بعد اس نے ہاتھ کھینچ
کیا۔ان کے پاس وسائل نہیں تھے کہ خوراک حاصل کرسکیں۔ ان کو
کھانے کے لالے پڑ گئے تھے۔
دوسری
طرف گریگر کو یہ یقین تھا کہ اس کی بیماری عارضی ہے۔وہ جلد ہی تند رست ہو کر اپنی
بہن کو اس کی موسیقی کا شوق پورا کرنے میں پوراخرچ کرے گا۔مہنگائی کے
باوجود اسے پرفارمنگ آرٹس کے سکول میں ضرور پیشہ ورانہ تعلیم دلوائے گا جو کہ
حقیقت کے بر عکس تھا۔وہ دروازے سے کان لگا کر تمام باتیں سنتا۔ بعض دفعہ ایسا
ہوتا کہ دیر تک کان لگانے سے اس کا سر دروازے سے ٹکرا جاتا تو اس کا باپ کہتا کہ
اب یہ کیا کر رہا تھا؟ اس کا باپ حالات سے شدید پریشان ہو چکا تھاکیونکہ اسکی
مالی حالت نہایت مخدوش ہو گئی تھی جو گھر کا خرچہ
چلانے کے لئے قطعی نا کافی تھی۔اس کی بوڑھی ماں بھی کام کرنے سے قاصر
تھی۔ایک تو ریٹائرڈ اور دوسرا اسے دمے کی شکایت تھی اورچند قدم چلنے کے
بعد اس کا سانس پھول جاتا تھا۔والد نے بھی پچھلے پانچ سال سے کوئی باقاعدہ کام
نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے اس کی سترہ سالہ بہن نے مجبوراً گھریلو ذمہ
داری سنبھال لی تھی۔
گریگر کم و بیش رات بھر لیٹا رہتا۔نیند اس کی آنکھوں سے
غائب ہو گئی تھی۔ وہ صوفے کے چمڑے کو انگلیوں سے کھرچتا
رہتا یا پھر کرسی گھسیٹ کر کھڑکی کے قریب لاتا اور باہر دیکھنے لگتا۔اس کی بصارت
روز برو ز کمزور ہونا شروع ہو گئی تھی۔اب وہ باہر دیکھتا تھا تو اس کو اشیاء
دھندلی نظر آتی تھیں۔اس کی بہن دن میں دوبار اس کا جائزہ لیتی تھی۔ایک صبح صفائی
کے وقت ناشتہ رکھ کر جاتی اور دوسرا رات کو کمرے کی چیزیں درست کرتی اور کھانا رکھ
کے چلی جاتی۔ کرسی کھڑکی کے پاس نہ دیکھتی تو وہ اسے دوبارہ کھڑکی کے پاس رکھ
دیتی اور کھڑکی کے پٹ کھلے رہنے دیتی۔جب بھی وہ کمرے میں آتی تو ایسا لگتا جیسے اس
کا دم گھٹ رہا ہولیکن وہ اس سے کوئی بات نہ کرتی تھی۔
اس کیفیت کے ایک ماہ بعد اسکی بیماری مزید بگڑ گئی۔اس
کی بہن نے جب اسے دیکھا تو اس کی دگرگوں حالت دیکھ کر چیخ مار کر واپس بھاگ
گئی۔گریگر کو اس کا خوف پسند نہ آیا تو اس نے سوچا کہ وہ اپنی ظاہری حالت تبدیل کر
لے تو وہ ڈرنا چھوڑ دے گی۔اس لئے گریگر نے کوشش سے صوفے کی چادر کو اتارا اور اپنے
اوپر اوڑھ لی تا کہ اس کا جسم اور گندے کپڑے اس کی بہن کو نظر نہ آئیں اور اس کی
بہن اس سے کراہت محسوس نہ کرے۔اس کی بہن رات کو جب کمرے میں آئی تو اس کو چادر
اوڑھے دیکھا۔اس نے آہستہ سے اس کے چہرے سے چادر ہٹائی اور جب اسے محسوس ہوا کہ
خطرے کی کوئی بات نہیں تو پھر سے چادر اس کے منہ پر ڈال دی اور واپس چلی گئی۔
اب
خاندان کا رویہ یہ ہو گیا تھا کہ وہ گریگر کے بارے میں یہ باتیں کرتے کہ اس نے کیا
کھایا پیا، کیا چھوڑا،وہ کمرے میں کہا ں تھا، پہلے سے بہتر یا
خراب حالت تھی۔اور اس روزاس کی ہیئت میں کوئی خاص تبدیلی
رونما ہوئی ہے۔ماں چاہتی تھی کہ وہ کمرے میں آ کراسکی حالت دیکھتے لیکن ناگفتہ بہ
حالت کے تحت باپ اور بہن اسے منع کر دیتے تھے ۔وہ اسکے بارے میں سوچ کر روتی رہتی
تھی۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد انہوں نے والدہ کو اسے دیکھنے کی اجازت دے دی۔ گریگر کی
بھوک کم ہو گئی تھی اور وہ ہر وقت چھت پر لگے جالوں کو دیکھتا رہتا تھا۔اس کو کمرے
میں حرکت کرنے میں دشواری ہونے لگی۔اس کی بہن نے سوچا کہ اس کے کمرے سے ایسی تمام
چیزیں ہٹا دیں جو رکاوٹ پیدا کرتی تھیں تو اسکے لئے سہولت ہو جائے گی
۔اسکی بہن ماں کا ہاتھ پکڑ کر اس کے کمرے میں لائی۔اس کی ماں جوش و ولولہ اور خوشی
سے اس کے کمرے میں آئی لیکن گریگر کی حالت دیکھ کر اس کا جوش ٹھنڈا پڑ
گیا۔ گریگر نے اپنی ماں کو دیکھ کر کوئی ردِ عمل پیش نہ کیا لیکن وہ اندر سے
اس بات پر خوش تھا کہ بالآخر اس کی ماں اسے دیکھنے کے لئے آ گئی تھی ۔ میز رستے
میں حائل تھا اس لئے اس کی بہن، ان کی نوکرانی اور ماں نے مل کر اسے باہر نکالنے
کی کوشش کی۔اس نے میز گھسیٹتے ہوئے سنا اور اس کی بہن اس میں زیادہ زور لگا رہی
تھی۔وہ اپنی ماں کے کڑھنے وغیرہ پر دھیان نہیں دے رہی تھی کیونکہ وہ اس بات سے
خائف تھی کہ کہیں اسے کھینچنے سے اس کے پٹھے اکڑ نہ جائیں۔ وہ کہہ رہی تھی کہ
میز بہت بھاری ہے، اس کو وہیں پڑا رہنے دیا جائے جہاں پہلے تھا اور ہلایا نہ جائے
ورنہ گریگر کا راستہ رکے گا۔ یہ میز ایسے ہی رہنا دیا جائے اور والد کے آنے
پر اس کی مدد سے ہی کمرے سے باہر نکالا جا ئے۔وہ یہ دلیل دے رہی تھی کہ اگر
کمرہ بالکل خالی ہو جائے گا تو دیواریں گریگر کو کاٹ کھائیں گی۔ وہ اس کمرے
میں مدت سے رہ رہا تھا اور اس میں موجود ہر شئے سے مانوس تھا۔ کمرے کی ہیئت
میں تبدیلی سے وہ مطابقت نہیں کر پائے گا اور اس کی طبیعت مزیدبگڑ جائے گی۔اگرچہ
وہ یہ تمام باتیں سرگوشی میں کر رہی تھیں تا کہ گریگر کو معلوم نہ ہو کہ کیا باتیں
ہو رہی ہیں لیکن وہ یہ باتیں سن سکتا تھا۔ ماں کہہ رہی تھی کہ یہ بھی ہو سکتا
ہےکہ گریگر یہ دیکھ کر مایوس ہو کہ اس کے عزیز و اقارب اس کی صحتیابی سے مایوس
ہوچکے تھے اور اس کی بیماری کو لاعلاج سمجھ رہے تھے اس لئے کمرے کی ترتیب نہ بدلی
جائے اس لئے میز کو وہیں پڑے رہنے دیا جائے جہاں وہ پہلے تھی تو وہ اسے اصلی حالت
میں دیکھ کر مطمئن رہے گا۔
گریگر
اس حالت میں پچھلے دو مہینوں سے تھا۔اس کی زندگی یکسانیت کا شکار ہو گئی
تھی۔ اس کا خاندان کے ساتھ بہت کم تعلق رہا تھا۔ کسی کے ساتھ کوئی گفتگو
نہیں تھی اورکسی سے کوئی ملاقات نہیں تھی۔دراصل اس وقت وہ یہ چاہ رہا تھا کہ اگر
کمرے کو خالی کر دیا جائے تو اسے زیادہ خوشی ملے گی کیونکہ وہ اس
طرح زیادہ آسانی سے حرکت کر سکتا تھا اور جس سمت میں بھی چاہے، وہ
آزادانہ رینگ سکتا تھا۔اس کے علاوہ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ سامان نکالنے سے اس کے
ساتھ جو یادیں وابستہ تھیں وہ ختم ہو جائینگی اور وہ ماضی بالکل بھول جائے
گا۔اگرچہ وہ کافی کچھ بھول چکا تھا لیکن آج جب اس نے اپنی ماں کی آواز سنی تو اسے
اپنی ماں پر بڑا پیار آیا جسکی آوازاس نے دو ماہ بعد سنی
تھی۔ اس کی بہن کا خیال اپنی ماں سے مختلف تھا چونکہ پچھلے دو ماہ سے
گریگر کی خوراک وغیرہ کا خیال صرف وہی رکھ رہی تھی، وہ اس بات کو تمام خاندان سے
بہتر طریقے سے جانتی تھی اور گریگر کی مشکلات سمجھنے میں ماہر تھی اس لئے وہ چاہتی
تھی کہ اس کے مشورے کو دیگر لوگوں پر فوقیت دینی چاہئے۔اِس پر اُس نے فیصلہ کیا کہ
صوفہ اورکرسی کے علاوہ باقی تمام فرنیچر اس کے کمرے سے نکال دیا جائے تاکہ اس کے
رینگنے کے لئے زیادہ جگہ مل سکے۔وہ دیوار کے ساتھ پڑی الماری کو گھسیٹ کر باہر
نکالنے لگیں تو انہوں نے گریگر کو صوفے کے نیچے پڑے ہوئے
دیکھا۔ کئی مہینوں کی غلاظت اور بیماری سے اس کی شکل کافی خراب ہوگئی تھی جس
کو دیکھ کر وحشت طاری ہو جاتی تھی۔ اس کی ماں نے بیماری سے لے کر اب
تک جب اس نے گریگر کی بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو وہ ڈر گئی لیکن پھر بھی
اسے دیکھتی رہی۔اس کے چہرے پر رحم کے آثار پیدا ہو گئے اور وہ اپنی بیٹی کی طرف
چلی گئی اور کمرے کا باقی سامان باہر نکال دیا۔
گریگر
خالی کمرے کو دیکھ کر خوش بھی ہوا اور غمگین بھی۔خوش اس لئے کہ اسے احساس ہو ا کہ
ماں اور بہن اس سے محبت کرتے تھےاور انہوں نے گریگر کی بہتری کی خاطر کمرہ خالی
کرکے اس کے لئے وافر جگہ مہیا کر دی تا کہ وہ ہر طرف آسانی سے آجا سکے۔غمگین اس
لئے کہ اسکا اپنے خاندان سے اس طرح فاصلہ مزید بڑھ جائے گا اور وہ اس سے اب کبھی
کبھار ہی رابطہ کریں گے۔اسے اس بات کا غم بھی ہوا کہ اس کی تمام اشیاء دھیرے دھیرے
اس سے چھینی جا رہی تھیں۔اب اس کے کمرے میں صوفہ رہ گیا تھا یا دیوار پر تصاویر
لٹکی ہوئی تھیں جن میں ایک تصویر وہ بھی تھی جو اسکی بہترین کاکردگی پر کھینچی گئی
تھی۔وہ صوفے پر کھڑے ہو کر اس تصویر کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی ماں اور بہن جب
کمرے میں آئیں اور اسے صوفے پر کھڑے دیکھا تو ڈر گئیں کہ کہیں وہ ان پر چھلانگ نہ
لگا دے، اس لئے وہ باہر بھاگ گئیں۔تیزی سے بھاگنے کی وجہ سے اس کی ماں کو
کہیں دمے کا دورہ نہ پڑ جائے تو اس کی بہن میز پر پڑی ہوئی شیشیوں میں سے موزوں
دوا ڈھونڈنے لگی تا کہ اسے فوری طور پردے کر اس کی سانس اکھڑ نے سے بچا سکے۔گریگر
دھیرے دھیرے رینگتا ہوا اس کی طرف بڑھنے لگا تا کہ اس کو مشورہ دے سکے کہ کون سی
دوائی مؤثر ہو سکتی تھی لیکن جب اس کی بہن نے اسے اپنی طرف تیزی سے آتے ہوئے دیکھا
تو ڈر کر بھاگ گئی۔اس دوران دوائی کی شیشیاں زمین پر گر گئیں اور ایک ٹوٹ گئی جسکے
چھینٹے گریگر کے چہر ے پر پڑے۔
اس
کی بہن نے تمام شیشیاں فرش سے اٹھائیں اور اپنی ماں کے پاس لے گئی۔اپنے پاؤں سے
گریگر کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا جس سے اس کا اور اس کی ماں کا رابطہ منقطع ہو
گیالیکن اس کی بہن ایسی سراسیمگی میں بھاگی تھی کہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں وہ خوف سے
مر نہ جائے۔اپنی بہن کے اِس رویہ سے اسے اپنی بہن پر افسوس ہوا کہ اس نے ضرورت سے
زیادہ رد عمل دکھایا تھا۔وہ اتنا برا تو نہیں تھا جتنا اس کی بہن نے سمجھا
تھا۔اسکی اس بات نے اس میں پریشانی پیدا کر دی اور وہ اضطرابی حالت کم کرنے کے لئے
تمام کمرے میں ہرطرف رینگنے لگا۔اسے ایسا لگا کہ دیوار،صوفہ، کرسی اور کمرے کا
قالین تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔جب وہ تھک گیا تو وہ صوفے کے پاس جا کر گر پڑا اور
سکتے میں آ گیا۔ چند لمحے گزر گئےوہ اپنی نقاہت میں لیٹا رہا۔اس میں اٹھنے
اور حرکت کرنے کی بھی سکت باقی نہ رہی تھی کہ گھر کی گھنٹی بجی۔اس کی بہن نے
دروازہ کھولا تو باہر اس کا باپ تھا۔بہن نے باپ سے دھیمے اور خوفزدہ لہجے میں
بتایا کہ گریگر اس پر اور ماں پر حملہ کرکے انہیں زخمی کرنےلگا تھااور انہوں نے
بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ ماں تقریباً بے ہوش تھی لیکن رفتہ رفتہ صحیح
ہو رہی تھی۔
باپ بولا، وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔
اپنے والد اور بہن کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے گریگربے
تاب ہو گیا اور چاہاکہ وہ باپ کو حقیقت سے آگاہ کرے کہ ایسا کچھ نہیں تھااس لئے
اُس نے تمام تر توجہ اپنے کمرے کے دروازے کی طرف کر دی تا کہ جوں ہی اس کا باپ اس
کے کمرے میں آئے، وہ فوراً اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے توضیح پیش کرے۔اسے یقین
تھا کہ اس کا باپ اس کے پاس ضرور آ کر اس سے وجہ جاننے کی کوشش کرے
گالیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ بیٹی کی شکایت سن کر وہ شدید طیش میں آ گیا
اور گریگر کو چھڑی سے مارنے کے لئے لپکا۔اپنے باپ کے تیور دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔اس
نے سوچا کہ یہ وہ باپ نہیں ہے جو اسے پیار کیا کرتا تھا اوراسے دیکھ کر خوش ہوتا
تھا۔شام کو واپس آنے پر لمبا ڈریسنگ گاؤن پہنے آرام دہ کر سی پر بیٹھ کر خوش آمدید
کہا کرتا اور دیر تک اُس سے باتیں کیا کرتا تھا۔یہ وہ باپ نہیں تھا جو تفریح کے
لئے جب اس کے ساتھ جایا کرتا تھا تو اپنی چلنے والی چھڑی کے
ساتھ آہستہ آہستہ گریگر، بہن اور اس کی والدہ کے درمیان تھا۔اوور کوٹ پر
اپنی گردن کے ارد گرد سردی سے بچنے کے لئے مفلر لپیٹا ہوتا تھا۔ جب
کوئی بات کرنا ہوتی تو بالکل ساکن ہو کر بات کرتا تھااور بات ختم ہونے کے بعد پھر
چل پڑتا تھا۔
آج
وہ بہن کی باتیں سن کر شدید غصے میں آ گیا تھااس لئے اس نے گریگر کو اپنی چھڑی سے
مارنے کی کوشش کی تووہ اٹھا اور وار بچا گیا۔ اس کے بعد
والد نے میز پر پڑے ہوئے سیب اٹھائے اوور کوٹ کی جیبیں اس سے بھر لیں اور ایک ایک
کرکے اسے مارنے لگا۔ وہ ان کے وار سے بچنے کے لئے آگے کی طرف بھاگنے
لگا۔جب والد بھاگتا تو گریگر بھی بھاگتا، جب والد رکتا تو وہ بھی رک جاتا اور
خوفزدہ ہو کر باپ کی طرف دیکھتا۔نہ تو ضعیف والد میں بھاگنے کی ہمت تھی
اور نہ ہی گریگر میں۔ دونوں تھک کر چور ہو چکے تھے۔ گریگر تیز تیز
سانسیں لینے لگا اور لڑکھڑا کر چلنے لگا۔اس کی آنکھیں نقاہت سے تقریباً بند ہو
گئیں تھیں لیکن مار سے بچنے کے لئے اسے ہر صورت حرکت کرنی تھی۔ وہ یہ
بھول چکا تھا کہ اس کے کمرے کی تکونی دیواریں تھیں، میں چھپ کر
اس کی بچت ہو سکتی تھی۔ایک گول گول سی چیز اس کے پاس آ کر گری۔اس کا باپ اب نشانہ
باندھ کر کھڑا رہ کر ہی اس پر سیب پھینک رہا تھا۔اس نے
دیکھا کہ اس کے فوراً بعد دوسرا سیب بھی آیا۔ گریگر کو اب زیادہ خطرہ
محسوس ہوا اور وہ رک گیا۔اب بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اس کے باپ نے اب
ضد پکڑلی تھی کہ اسے سزا دینا ہی تھی۔اس کا باپ ایک ایک کرکے سیب پھینک رہا تھا۔اس
کا نشانہ اچھا نہیں تھا اس لئے سیب ادھر ادھر گر رہے تھے۔ گریگر پیچھے مڑ کر
بلا مقصد دیکھتا۔ایک بار اس کے باپ نے سیب پھینکا تو وہ عین اس جگہ پر لگا جو پہلے
ہی بہت زیادہ زخمی تھی۔ایک اور سیب دوسرے زخم پر لگا۔اس سے وہ چلنے پھرنے کے قابل
نہ رہا اور زمین پر پیٹ کے بل گر پڑا۔عین اسی وقت اس کی ماں چیختی ہوئی کمرے میں
داخل ہوئی۔بھاگ کر اپنے خاوند کے گلے لگ گئی اور اسے کہا کہ اس پریہ
تشدد بند کر دے۔اس کے بیٹے پر مزید ظلم نہ کرے۔
گریگر
کے زخم جو کہ اس کے باپ نے سیب مار مار کر زیادہ گہرے کر دیئے تھے، نے اس کی
بیماری میں اضافہ کر دیا اور اس کی حالت مزید خراب ہو گئی۔اب وہ کھڑکی تک بھی نہیں
جا سکتا تھا۔لیکن اس کے والدین نے اتنا رحم کیا کہ اس کے کمرے کا دروزہ کھول دیا
گیا۔ وہ اپنے تاریک کمرے میں میز پر بیٹھے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا۔
یہ حقیقت تھی کہ ان کے مابین گفتگو میں ماضی والا جوش
نہیں تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ براہ راست رابطہ تھا۔وہ اس نئے دور کو بڑے صدمے سے
یا د کیا کرتا تھا۔اسے ماضی کی تمام باتیں اچھی طرح یاد تھیں کہ ماضی میں اس گھر
میں اس کی کس قدر اہمیت تھی لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔پہلے کی طرح اس کا والد اب
بھی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اونگھتا تھا۔ماں اور بہن اس کے پاس بیٹھی کروشیے سے
کام کر رہی ہوتی تھیں۔بہن کمپیوٹر اور فرانسیسی زبان میں عبور حاصل کر رہی تھی تا
کہ اسے معقول ملازمت مل سکے۔آج کل وہ سیلز پرسن کی نوکری کررہی تھی۔اونگھتے
اونگھتے اس کا والد بیدار ہوتا اور خواتین کو کہتا کہ وہ کیا کر رہی ہیں؟ وقت
ضائع کر رہی ہیں لیکن ان کا جواب سنے بغیر پھر اونگھنے لگتا۔ وہ ایک
دوسرے کی طرف دیکھ کر پھیکی مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتیں اور پھر ہنسنے لگتیں'والد
اب بھی یونیفارم میں ہوتا تھا۔اس کا ڈریسنگ گاؤن کھونٹی پر لٹکا رہتا تھا۔اس کے
یونیفارم پر جگہ جگہ چکنائی کے نشانات پڑے ہوئے تھے لیکن جیکٹ کے سنہرے بٹن ہمیشہ
چمک رہے ہوتے تھے۔جب رات کے دس بجتے تو وہ اسے زبردستی اٹھا کر سونے کے لئے اس کے
کمرے میں لے جاتی تھیں۔وہ اٹھتے ہوئے ہمیشہ یہ فقرہ کہتا کہ یہ کیا زندگی
ہے؟ وہ کمرے میں جا کر سو جاتا۔خواتین کام بند کرکے اپنے اپنے کمرے میں چلی
جاتی تھیں۔مصیبت کے اِس دور میں گریگر پر اتنی ہی توجہ دی جاسکتی تھی جتنی اس کے
لئے بہت ضروری ہوتی تھی۔ مالی حالات دگر گوں ہونے کی وجہ سے جزوی نوکرانی کا
خرچہ برداشت سے باہر تھاچنانچہ اسے نکال دیا گیا اور اس کی جگہ ایک بوڑھی عورت کو
رکھ لیا گیا جو پہلی سے آدھی تنخواہ پر کام کرنے کوتیار تھی۔اس نوکرانی کی تنخواہ
ادا کرنے کے لئے ماں اور بہن نے وہ زیورات بیچ دیئے جو انہوں نے مختلف تقریبات پر
پہننے کے لئے خریدے ہوئے تھے۔ اِس بات کا اندازہ گریگر کو اس وقت ہوا
جب وہڈائننگ روم میں وہ زیورات خریدنے کی قیمت اور بیچنے کی قیمت کا موازنہ
کر رہی تھیں۔ وہ اپارٹمنٹ کو خالی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ گریگر کی بیماری کی
وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے تھے۔گریگر کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جانا ان کے
لئے ناممکن تھا۔اس معاملے پر خاندان نے بحث بھی کی تھی لیکن اس کی بہن اس بات سے
ڈر رہی تھی کہ منتقلی میں اس کی موت بھی واقع ہو سکتی تھی جبکہ گریگر ایسا نہیں
سمجھتا تھا۔وہ اپنی بہن کو رائے دینا چاہتا تھا جیسے وہ اپنی بیماری سے پہلے دیا
کرتا تھا کہ ایک بڑے سے صندوق میں اسے بند کرکے، صندوق میں سانس لینے کے لئے دائیں
بائیں سوراخ کردیئے جائیں اور اس کو لے جایا جائے تو وہ آسانی سے منتقل کیا جا
سکتا تھا۔
اب اس کے باپ نے بنک کے جزو وقتی ڈاکئے کی نوکری کے
ساتھ شام کوضعیف و نادار لوگوں کو کھانا تقسیم کرنے کی نوکری بھی کر لی
تھی۔ماں نے سویٹر اور انڈروئیر بننے شروع کر دیے تھے۔اس سے بھی آمدن میں معمولی سا
اضافہ ہو گیا تھا جبکہ اس کی بہن سیلز گرل بن گئی تھی جو گھر گھر جا کر گاہکوں کو
اشیاء بیچتی تھی۔ماں باپ بے حد لاغر تھے، ان میں اتنی توانائی نہیں تھی کہ وہ
زیادہ کام کر سکیں۔ گریگر کے زخم مندمل نہیں ہو پارہے تھے بلکہ بگڑ رہے
تھے۔باپ کو سلانے کے بعد ماں اور بہن ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے لگ جاتی تھیں۔
گریگر
کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ دن رات پریشانی سے سو نہیں پاتا تھا۔یہ الگ بات
ہے کہ اسے اب بھی یہ امید تھی کہ اگلی صبح وہ اٹھے گا تووہ پہلے کی طرح چاک و
چوبندہو گا اور خاندان کے تمام مالی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔اسے اپنی
کمپنی کے ملازم، گاہک اور تجارت سے
متعلق لوگ یاد آتے تھے۔اس دوران اس کو اپنے دفتر
میں کام کرنے والی لڑکیاں بھی یاد آنے لگیں۔خاس طور پر وہ خوبصورت لڑکی جو خزانچی
تھی۔وہ اسے دیکھ کر مسکرایاکرتی تھی ۔ وہ اسے بے حد پسند کرتا تھا لیکن
وہ کبھی ہمت نہ کر پایا کہ اپنے جذبات اس کے سامنے رکھ دے۔وہ لوگ بھی اسے یاد آنے
لگے جو کہ اجنبی تھے۔ان سے نہ کبھی زیادہ باتیں کی تھیں اور نہ ہی انہیں اہمیت دی
تھی۔عام واقعات اسے یاد آنے لگے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا، یہ صرف خیالات تک ہی
محدود رہ سکتے تھے۔وہ انہیں بے حد قیمتی یادوں کے روپ میں لے رہا تھا جبکہ حقیقت
اس کے برعکس تھی۔ اب اس کے خاندان نے اسے یکسر نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھااور
اس کی خوراک پر توجہ دینا بند کر دیا تھا۔جو کچھ بچا کھچا ہوتا بہن کام
پر جانے سے پہلے جلدی جلدی اس کے سامنے پھینک
دیتی تھی۔شام کو واپس آنے کے بعد بچے ہوئے کھانے کو اٹھا کر
جھاڑو سے صفائی کرکے چلی جاتی تھی۔بچی ہوئی خوراک کو اگلی صبح پھر اس کے سامنے رکھ
دیا جاتا تھا۔دیواریں رو ز بہروز گندی ہو رہی تھیں اور چھتوں پر جالے بننے لگے
تھے۔پہلے پہل کمرے کی گندگی کا احساس دلانے کے لئے گریگر اس جگہ بیٹھ جاتا جہاں
زیادہ گندگی ہوتی، وہ ہفتوں تک اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتا رہتا کہ اس
گندگی کو صاف کیا جائے لیکن اس کی تمام کاوشیں بے کار جاتیں۔
اس
کے گھر والوں کو اب یہ احساس ہونے لگا تھا کہ گریگر کی بیماری اور گندگی کی وجہ سے
تمام گھر میں جراثیم پھیل گئے تھے اور تمام گھر بیمار ہو رہا تھا۔اس کی بہن کا
خیال تھا کہ اس گھر میں صرف وہی ہے جو گریگر کا خیال رکھتی تھی۔اس کے کمرے کی
گندگی سے تنگ آ کر اس کی والدہ نے سوچا کہ اس کے کمرے کی اچھی طرح صفائی کی
جائے۔اس نے کمرہ دھویا۔اس کے کمرے میں کئی بالٹیاں پانی کی پھینکیں لیکن گندگی
اتنی زیادہ تھی کہ اس کے کمرے میں سیلن بہت ہو گئی جو گھر والوں کے لئے عموماً
لیکن گریگر کے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ تھی۔ وہ احتجاجاً بے حس و حرکت، بے جان
لیٹ گیا اور اپنی ٹانگیں ہوا میں پھیلا دیں۔اس کی بہن نے اپنی ماں اور گریگر پر
شدید غصہ دکھایااور کہا کہ ماں نے اس کا کام اور بڑھا دیا ہے۔وہ غصے
میں بولی کہ وہ سارا دن کام کرکے تھک جاتی تھی اور گریگر کا خیال رکھنے کی تمام تر
ذمہ داری صرف اس پر تھی اور کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اس کی مدد کرے
بلکہ وہ اس کا کام بڑھا دیتے تھے۔اس کی ماں اپنی بیٹی کا رونا دھونا سن کر پریشان
ہو گئی اور اسے دلاسے دینے لگی۔اس کے باپ کو پتہ چلا کہ گریگر کے کمرے میں پانی
ڈال کر اس کی بیوی نے مزید ابتری پیدا کر دی تھی تو اس نے اپنی بیوی کو ڈانٹا اور
کہا کہ بیٹی ہی کیوں گریگر کی خدمت کرتی رہے۔دوسروں کو بھی ذمہ داری نبھانی
چاہئے۔اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ بوڑھی نوکرانی صبح شام اس کے کمرے میں جا کر اس کا
خیال رکھے گی۔جب یہ واقعہ ہوا تو اس کے کمرے کا دروازہ کھلا ہو ا
تھا اس لئے اس نے تمام باتیں سن لیں۔ وہ سمجھا کہ یہ باتیں اسے
جان بوجھ کر سنائی گئی تھیں اور یہ باتیں اسے بے عزت کرنے کے لئے کہی گئی تھیں۔
اب
بڑھیا روز صبح شام اس کے کمرے کا چکر لگاتی۔پہلے پہل اس نے گفتگو کرنے کی کوشش
کی۔جب گریگر کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو اس نے اس سے باتیں کرنا بند کر دیا۔ایک
دفعہ اس نے گریگر سے دوستانہ رویہ اپنایا تو وہ جوش سے اس کی طرف رینگنے لگاجسے
دیکھ کر نوکرانی نے سمجھا کہ وہ اس پر حملہ کرنے آ رہا تھا۔وہ تن کر کھڑی
ہو گئی، پاس پڑی کرسی اٹھائی اور بولی کہ اگر اس نے
حملہ کرنے کی کوشش کی تو وہ کرسی اس کے سر پر مار دے گی۔یہ سن کر گریگر ایک طرف مڑ
گیا اور اس نے کرسی واپس رکھ دی۔
ایک دن اس نے محسوس کیا کہ نوکرانی نے اس کے کمرے میں
تمام گھر کا ٹوٹا پھوٹا سامان رکھنا شروع کر دیاہے۔اس کا کمرہ تمام بے کار اشیاء
سے بھر دیاگیا۔اس نے سنا کہ گھر کا ایک کمرہ تین آدمیوں کو کرایے پر دے
دیا گیا تھا۔ وہ لوگ اپنا فرنیچر لے کر آئے تھے اس لئے فالتو فرنیچر اس کے
کمرے میں ڈال دیا گیا تھا۔اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لے کھانا پینا
تقریباً بند کر دیا۔منہ میں ایک نوالہ ڈالتا تقریباً ایک گھنٹہ تک منہ میں رکھتا
اور پھر تھوک دیتا۔
گھر کا خرچہ پوراکرنے کے لئے والد نے تین
کرایہ دار رکھ لئے تھے۔اس نے ایک دن اتفاقیہ تین اجنبی اپنے گھر میں دیکھے۔نوکرانی
کا یہ معمول تھا کہ وہ اس کا کمرہ صبح بند کر دیتی اور رات کو کھول دیتی۔اس کی وجہ
یہ تھی کہ نئے کرایہ دار ناشتہ اور دوپہر کا کھانا گھر آ کر کھاتے تھے۔ڈائننگ روم
اس کے کمرے سے ملحق تھا اس لئے اسے بند رکھنا پڑتا تھا۔ایک دن نوکرانی اس کا کمرہ
بند کرنا بھول گئی۔دوپہر کے وقت تینوں کرایہ دار جنہوں نے داڑھیاں رکھی ہوئی تھیں،
چاک و چوبند اور مضبوط جسم کے مالک تھے، کھانا کھانے کے لئے ڈائننگ روم میں آئے
اور تینوں نے اپنے اپنے ٹفن کھولے۔ماں تازہ بھنا ہوا گوشت اور بہن گرم آلو لے
آئی۔ان کی ڈشوں سے اشتہا انگیز خوشبو اس کے نتھنوں میں گھس کر اس کی
بھوک بھڑکا رہی تھی۔ ان میں اسے ایک شخص جو اُن کا باس
لگتا تھا، ماں کی ڈش سے گوشت کو فورک سے کاٹ کر دیکھا کہ کیا وہ واقعی کھانے کے
قابل تھا، جب اسے تسلی ہوئی تو اس نے دوسروں کو کہا کہ کھانا شروع کر دیں۔انہوں نے
جی بھر کر کھانا کھایا اور باتیں کرنے لگے۔ ا س نے دیکھا کہ وہ تینوں ان
کرسیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے جن میں کبھی اس کا والد، والدہ اور وہ بیٹھ
کر کھایا کرتے تھے۔وقت وقت کی بات ہے اس نے سوچا۔
گریگر کا کمرہ سامان سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔اس کے
رینگنے کے لئے ذرا سی بھی جگہ نہیں بچی تھی۔جب کبھی اس نے حرکت کرنا ہوتی وہ راستے
میں آنے والی شے کو دھکیل دیتا لیکن اس مشق میں اس میں اتنی نقاہت ہو جاتی کہ بعد
میں اسکو گھنٹوں آرام کرنا پڑتا۔اس کی بیماری کی تمام مدت اس نے کبھی اپنی بہن کو
وائلن اور پیانوپر پریکٹس کرتے ہوئے نہ دیکھا اور نہ ہی سنا تھا۔اس دن جب کمرہ
کھلا رہ گیا تھا اور کرایہ دار کھانا کھا کر باتیں کر رہے تھے تو انہوں نے وائلن
کی آواز سنی۔وہ فوراً اس طرف متوجہ ہو گئے۔باپ نے سمجھا شاید وہ آواز ان کی آزادی
میں خلل ڈال رہی تھی اس لئے اس نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کیاوہ اسے بند
کروا دے تو انہوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ نہیں۔ وہ گیت سننا
چاہتے تھے۔ کیا وہ اس موسیقار کو درخواست کر سکتے تھے کہ
وہ ڈائننگ روم میں آ کر وائلن بجائے۔سامسا نے کہا یقینا۔ وہ
کچن میں گیا اور اپنی بیٹی کو کہا کہ ڈائننگ روم میں جا کر وائلن بجائے۔اس نے
وائلن کا سٹینڈ تھاما۔اس کی بیوی نے میوزک چارٹ پکڑا اور بیٹی وائلن لے کر ڈائننگ
روم میں آ گئی۔ اُس نے موسیقی سیٹ کی اور خاموشی سے بجانے لگی۔اس دوران اس کا
والد دروازے کی اوٹ میں اپنے کوٹ کا چمکتا بٹن پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔تینوں کرایہ
داروں نے اسکی ماں کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ کرسی کھینچ کر ڈائننگ روم
کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔
اس
کی بہن وائلن بجانے لگی اور اُس کے والدین اس کی وائلن پر حرکت کرتی
ہوئی انگلیوں کو غور سے دیکھنے لگے۔گریگر بھی اس کے وائلن بجانے سے بہت متاثر ہور
ہا تھا۔وہ دروازے کی اوٹ میں تھا۔اس نے داد دینے کے لئے اپنا سر باہر نکال لیا ا
ور توقع کرنے لگا کہ جب بھی وہ اس کی طرف دیکھے گی وہ اسے شاباش دےگا۔ اس کے
کمرے میں بدبو کا تعفن پھیلا ہوا تھا کیونکہ اسکی بیماری کے بعد نہ تو وہ کبھی
نہایا تھا اور نہ ہی کپڑے تبدیل کئے تھے۔ کمرہ بھی جالوں اور گندگی سے بھرا
تھا۔یہ بات یقینی تھی کہ ڈائننگ روم میں موجود تمام لوگ اس کی موجودگی سے لاعلم
تھے۔تینوں کرایہ دار اس کی بہن کی موسیقی غور سے سن رہے تھے۔ایسا لگا کہ ان لوگوں
نے محسوس کیا کہ وہ غلط دھنیں بجا رہی تھی۔موسیقی چارٹ کے مطابق دھنیں نہیں نکل
رہی تھیں اس لئے وہ تینوں اٹھے، سگار سلگائے اور میوزک چارٹ کو پڑھنے لگے۔اس کا
والد یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا لیکن اس کی بہن دھن بجاتی رہی۔ گریگر نے اپنا
منہ مزید باہر نکالا تا کہ اس سے نظریں ملا کر اس کے گانے کی تعریف کر ے۔ وہ
اس دھن کو بہت پسند کر رہا تھا ۔ اس کی خواہش تھی کہ ہر کوئی اس کی دھن پسند کرے،
اسے وہ بے حد دلکش لگ رہی تھی۔اس کی تمنا تھی کہ وہ وائلن اس کے کمرے میں آ کر
بجائے اور اس وقت تک بجاتی رہے جب تک اس کا دل چاہے۔اگر کوئی اس میں مداخلت کرے گا
تو وہ ایسے شخص کی بے عزتی کر دے گا۔درمیانی کرایہ دار نے یکدم اونچی آواز میں اس
کے باپ کی توجہ گریگر کی طرف دلائی جو اس وقت رینگ رینگ
کر ڈائننگ روم میں داخل ہو رہا تھا۔اس کی بہن نے گریگر کو دیکھ کر وائلن بجانا بند
کر دیا۔وہ کرایہ دار جوان کے درمیان تھا،نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا، سر ہلا کر
مسکرا دیا اور پھر گریگر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے والد نے گریگر کو اندر
دھکیلنے کی بجائے کرایہ داروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جبکہ کرایہ دار گریگر کی
موجودگی پر نہ تو غصے میں آئے اور نہ ہی نفرت ظاہر کی بلکہ
وہ اس کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی عجوبہ تھا جو وائلن سننے سے
زیادہ دلچسپ اور لطف انگیز تھا۔اس کا باپ ہاتھ پھیلائے ان کی طرف بڑھا اور انہیں
واپس اپنی اپنی جگہ پر جانے کا اشارہ کرنے لگا اور گریگر کو ڈھانپ لیا تا کہ وہ
اسے نہ دیکھ سکیں ۔اس پر تینوں نے غصہ کیا اوروہ اپنی جگہ پر واپس
چلے گئے۔ان کا غصہ اس کے والد کے تحقیر آمیز رویہ سے بے عزتی محسوس کرنے کی وجہ سے
بھی ہو سکتا تھااور اس وجہ سے بھی کہ ان کو اس عجیب و غریب اجنبی شخص کی موجودگی
سے بے خبر رکھا گیا تھا۔انہوں نے والد کی طرف دیکھ کر اس کی طرح ہاتھ ہلاتے ہوئے
اور اپنی داڑھیوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے گریگرکی موجودگی کی وضاحت چاہی۔اس کی
بہن نے جب اپنی پرفارمنس میں خلل پڑتے دیکھا تو وہ حیران ہو کر کھڑی ہوئی اورپھر
تعظیم کے انداز میں جھکی اور پروگرام ختم کر دیا۔اپنا وائلن ماں کی گود میں پھینکا
جو اس وقت اپنے دمہ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔اور کرایہ داروں کے کمرے کی
طرف چل دی جو اب اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ وہ ان کے کمرے میں
پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچی،وہاں ان کے بستر اور کپڑے جو اِدھر اُدھر بکھرے پڑے
تھے،کو سلیقے سے تہہ کیا اور ان کے کمرے میں پہنچنے سے پہلے واپس آ گئی۔
بوڑھے
باپ کو ایک بار مزید اس بات پر اپنی بے توقیری کا احساس ہونے لگا جو اس پر کرایہ
دار ظاہر کر رہے تھے۔وہ ان کے پیچھے چلتا رہا۔ وہ تینوں کرایہ دار انتہائی
اونچی آواز میں اس کے باپ کے جواب کو رد کر رہے تھے۔درمیانی کرایہ دار نے
زور سے اپنے پاؤں فرش پر پٹخے اور اسکے والدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ
قابل نفرت ماحول، گندگی اورغیرمناسب لوگوں کے گھر میں موجودگی کی وجہ سے اس
گھر کو چھوڑنے کا نوٹس دیتا ہے۔ وہ جتنا عرصہ بھی اس گھر میں رہا ہے، ایک پائی بھی
ادا نہیں کرے گا۔اس کے علاوہ وہ وعدہ خلافی، بے عزتی کی تلافی کے لئے مقدمہ بھی
کرے گا اور اسے یہ بات ثابت کرنا مشکل نہیں ہو گا۔اس کے بعد اس کے دونوں دوستوں نے
بھی یہی نوٹس دے دیا اور دھڑاک سے دروازہ بند کرکے اپنے کمرے میں چلے گئے۔یہ باتیں
سن کر اس کا باپ دھڑام سے آرام دہ کرسی پر گر گیا۔بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ
معمول کی طرح اس پر سو رہا تھا لیکن اس بار وہ اپنا سر زور زور سے جھٹک رہا تھا جو
اس کے قابو سے باہر تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنی بے عزتی کو بری طرح محسوس
کیا تھا ۔ گریگر تمام وقت یہ تماشا بالکل خاموشی سے دیکھتا رہا۔اس کے منصوبے کی
ناکامی اور شدید بھوک کی وجہ سے اس میں اتنی نقاہت طاری ہو گئی تھی کہ وہ حرکت
نہیں کر سکتا تھا۔اسے اس وقت یہ اندیشہ ہوا کہ اس صورت حال میں اس پر شدید اضطرابی
کیفیت کا حملہ ہو جائے گا اور وہ اس حملے کا انتظار کرتا رہا۔اس نے اس آواز پر بھی
توجہ نہ دی جو اس کی ماں کی گود سے وائلن فرش پر گرنے سے پیدا ہوئی تھی۔
بہن
کھڑی ہو گئی اور میز پر زور سے مکہ مارتے ہوئے ماں باپ سے کہا،اب ایسا نہیں چلے
گا۔شاید تمہیں اس کی شدت کا احساس تک نہیں لیکن مجھے ہے۔میں اس مخلوق کی موجودگی
میں اس کا نام تک نہیں لوں گی۔ہمیں اس سے ہر حال میں چھٹکارا حاصل کرنا ہی ہو
گا۔ہم نے اس کی مقدور بھر دیکھ بھال کی اورجتنی خدمت ایک انسان کے بس میں
ہوسکتی تھی،کر لی ہے۔اب اگر اسے ہم نکال بھی دیں تو کوئی بھی ہمیں قصور وار نہیں
ٹھہرائے گا۔
اس کے باپ نے اپنی بیٹی کی ہاں میں ہاں ملائی ۔اس کی
والدہ جو ابھی تک دمہ کی بدولت آکسیجن میں کمی کی وجہ سے کھانس رہی تھی، مزید
اونچی آواز میں کھانسنے لگی اور اس کی آنکھوں میں ایک وحشیانہ چمک پیدا ہو گئی۔اس
کی بہن جلدی سے اپنی ماں کی طرف گئی اور اس کا ماتھا پکڑ لیا۔اس کا والد اونگھ سے
بیدار ہو کر آرام دہ کرسی پر سیدھا بیٹھ گیا اور اپنے ہیٹ پر انگلیاں پھیرنے
لگا۔اس کے سامنے بچا ہوا کھانا اور وہ پلیٹیں پڑی تھیں جو کرایہ داروں نے کھانا
کھانے کے بعد چھوڑی تھیں۔وہ کبھی کبھار خاموشی سے گریگر کو بھی دیکھتا تھا۔
ہمیں اب اس مخلوق کو کسی بھی صورت میں علیحدہ کر دینا
چاہئے،بیٹی نے باپ سے کہالیکن اس کی یہ بات ماں کی شدید کھانسی کی وجہ سے اسے
سنائی نہ دی۔ یہ ہم سب کی موت کا باعث بنے گا۔ہم سب کو اچھی طرح
معلوم ہے کہ کتنی مشکل سے ہم نے خود کو زندہ رکھا ہوا ہے، مزید اذیت اور حزیمت
برداشت نہیں کر سکتے۔ کم از کم میں یہ سب اور برداشت کرنے کی پوزیشن میں
نہیں۔یہ کہتے کہتے وہ رونے لگی اور اس کے آنسو اس کی ماں کے ہاتھوں پر پڑے جسے اس
نے میکانکی طور پر پونچھ دیا۔
باپ نے متفق ہوتے ہوئے ہمدردانہ آواز میں کہا کہ ہم کیا
کر سکتے تھے؟اس کی بیٹی نے اپنے کندھے جھٹک کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔اس کے
رونے سے اس کا من کچھ ہلکا ہوگیا تھا اور اس کا وہ رویہ کہ اس سے فوری نجات حاصل
کی جائے، ذرا کم جارحانہ ہو گیا۔اس کے باپ نے کہا کہ یہ بہت اچھا ہو جائے گا اگر
وہ ہماری بات سمجھ سکے۔ماں،جو ابھی تک ہچکیاں لے رہی تھی، نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ان
کے مشورے سے انحراف کا اظہارکیا۔
اس کے والد نے اس کی والدہ کی مخالفت کے باوجود ایک بار
پھر کہا کہ ہمیں اس کے ساتھ بات چیت کرنا چاہئے تو باہمی رضا مندی سے کسی نتیجے پر
پہنچ پائیں گے۔اگر وہ ہماری بات مان لے تو اسے جانا ہو گا۔اس کی بیٹی نے پر عزم ہو
کر جواب دیاکہ اسے اب ہر صورت پہجنا ہی
ہو گا۔اس تصور کو ذہن سے نکال پھینکو کہ یہ مخلوق اس گھر میں رہے گی۔یہ درست ہے کہ
ہماری تمام تر مصیبتوں کی جڑ ہی وہ ہے۔اگر وہ بیمار ہونے سے پہلے والا گریگر ہوتا
تو بہت پہلے وہ خود سے سوچ لیتا کہ اسے ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہئے اور وہ خود سے
ہی ہمیں چھوڑ کر جا چکا ہوتا۔ وہ یہ سمجھ لیتی
کہ اس کا کوئی بھائی ہی نہیں ہے اوروہ اس کی اچھی یادوں میں
مگن رہتی۔وہ ہمیں ہر وقت اذیت میں مبتلا نہ کرتا ا ور ہمارے کرایہ داروں کو نہ
بھگاتا۔وہ تمام اپارٹمنٹ پر خود ہی قبضہ جمانا چاہتاہے اور ہم سب کو گٹر میں
پھینکنا چاہتا ہے۔ابو دیکھو۔۔ ۔ وہ اب پھر آ گیا ہے۔ گریگر کو دیکھتے ہی وہ
گھبراہٹ میں اپنی ماں کو دھکیلتی ہوئی بھاگی۔ گریگر کو اس بات کی سمجھ نہ آئی
کہ اس پر گھبراہٹ کیوں طاری ہوئی تھی؟اس کا باپ اپنی بیٹی کے احتجاج کی وجہ سے
کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنی بیٹی کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے تا کہ وہ اس کو اپنی
حفاظت میں لے سکے۔
گریگر
کے من میں دور دور تک کبھی بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کو یا اپنی بہن کو
خوف زدہ کرے۔اس نے اپنے خاندان کی نفرت بھانپتے ہوئے اپنے کمرے میں واپس جانا
چاہا۔وہ نحیف تھا اور تیزی سے کمرے میں نہیں جا سکتا تھا اس لئے وہ بڑی آہستگی
اورمشکل سے گرد ن کوتھوڑا سا گھماتا اور تھوڑا سا موڑ لیتا، پھر گردن کو آہستہ سے
موڑتا اور تھوڑا اور گھوم جاتا۔یہ منظر بڑا دل خراش تھا، اُس نے ایک بار مڑکے اپنے
خاندان کی طرف دیکھا۔اسے محسوس ہوا کہ شاید اب ان کے دل میں اس کے بارے میں کوئی
رحم پیدا ہو گیا ہو اور وہ اس پر ترس کھالیں۔اس کی اچھی نیت کا انہیں شاید اب پتہ
چل چکا ہو اور اس کے بارے میں جوخوف پیدا ہوا تھا، وہ وقتی ہو اور اب ٹل گیا ہو۔
دوسر
ی طرف اب تمام خاندان غمزدہ ہو کر خاموشی سے اسے دیکھ رہاتھا۔اس کی ماں پر تھکن
طاری تھی۔اس کی ٹانگیں سخت ہو کر ایک دوسرے پر چڑھی ہوئی تھیں۔اس کی آنکھیں نقاہت
سے بند ہو رہی تھیں جب کہ اس کا باپ اور بہن دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔اس کی بہن
کا ہاتھ اس کے باپ کی گردن میں تھا۔ اپنی ہیئت کی تنزلی پر وہ اس سے اس حد تک
متنفر ہو جائیں گے، یہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔وہ اپنی نظروں میں گرگیا۔
اب
اسے اپنے کمرے کے اندر جانا چاہئے اس لئے اس نے پھر حرکت کرنے کی کوشش شروع کر
دی۔یہ اس کے لئے بہت مشقت تھی۔وہ تھوڑا سا حرکت کرتا، تھک جاتا اور تھوڑی دیر سستا
نے کے بعد پھر رینگنا شروع کر دیتا۔اسے کوئی بھی ہراساں نہیں کر رہا تھا۔وہ تن
تنہا اکیلا ہی اپنے حالات کا سامنا کر رہا تھا۔جب وہ اس قابل ہو گیا کہ پوری طرح
مڑ کر اس کا رخ کمرے کی طرف ہو ا تو اس نے آہستہ آہستہ کمرے کی سمت رینگنا شروع کر
دیا۔وہ اپنی اس ہمت پر حیران تھا کہ انتہائی نقاہت کے باوجود وہ کس طرح اتنا فاصلہ
طے کر کے رینگتا ہوا اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔اس دوران اس کے خاندان کے کسی
فرد نے ایک لفظ یا طنز یا نفرت کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی سے اس کی حرکات
کو سب دیکھتے رہے۔۔جب وہ کمرے میں داخل ہو رہا تھا تو اس نے گردن موڑ کر
اپنے خاندان کی طرف آخری بار دیکھا، گردن زخمی ہونے اور کمردرد کی وجہ سے وہ اپنی
گردن پوری تو نہ گھما سکا لیکن ان کو دیکھ لیا۔اس کے خاندان کا رویہ جوں کا توں
تھا،سوائے اس کے کہ اس کی بہن باپ کی گردن سے بازو نکال کر اب کھڑی ہو گئی تھی۔اس
نے نگاہ اپنی ماں پر ڈالی تو وہ ابھی بھی کھانسی سے آزاد نہیں ہو ئی تھی۔
گریگر
بمشکل اپنے کمرے میں گھسا ہی ہو گا جب دروازہ زور سے بند کر دیا گیا، اس کی کنڈی
لگا کر باہر سے تالا لگا دیا گیا۔ اس زور دار آواز سے وہ اتنا زیادہ خوفزدہ
ہو گیا کہ اس کی ٹانگیں اس کے دھڑ کے نیچے دب گئیں۔یہ اس کی بہن تھی جس نے یہ جلد
ی دکھائی تھی۔وہ اسی انتظار میں تھی کہ گریگر جوں ہی اپنے کمرے میں داخل ہو وہ
اپنی سرگرمی دکھائے۔اس نے اپنی بہن کو اپنی طرف آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔جب اس نے
دروازہ بند کرکے تالہ لگاتے ہوئے والدین کو کہا،بالآخر!
گریگر
حیران تھا کہ صحت کی خرابی یا بے روزگاری کے ساتھ رشتے کیسے بدل جاتے ہیں۔
اب
کیا ہوگا؟گریگر نے اندھیرے میں دیکھتے ہوئے خود کلامی کی۔جلد ہی اسے اس بات کا
احساس ہوگیا کہ وہ اپنی ٹانگ نہیں ہلا سکتا۔اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کی
ٹانگیں بے حد نحیف ہیں، ان میں اتنی قوت نہیں کہ وہ چل سکیں یا حرکت کر سکیں۔یہ
بات سچ تھی کہ اس کا تمام انگ انگ درد سے ٹوٹ رہا تھا لیکن اس کی شدت آہستہ آہستہ
کم ہو رہی تھی جو اسے امید تھی کہ بالآخر ختم ہو جائے گی۔اس کی گردن کے زخم اور
کمرکے دردجس پر سیب سے ضرب لگی تھی والا حصہ اور دوسرا حصہ جہاں جلن تھی، دھوڑ سے
اٹا پڑا تھا۔اسے اس وقت پہلے سے کم تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔وہ ان دردوں کا عادی ہو
چکا تھا۔وہ اپنے خاندان کو بڑے پیار عقیدت اور خلوص سے یاد کر رہا تھا۔اس
نے خود کلامی کی کہ ان کی خواہش کے مطابق اسے اب ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے ان سے دور ہو جانا چاہیے۔اسکے مرجانے کا ارادہ اپنی بہن سے بھی زیادہ مضبوط ہو
گیا۔اگر ایسا ہو جائے تو کتنا اچھا ہو۔اس کے ذہن میں یہ خیال چھایا رہا۔یہ بات
سوچتے سوچتے گھڑی نے صبح کے تین بجا دئیے۔اس نے اندھیرا چھٹکتا دیکھا۔اس نے بے بسی
سے اجالا ہوتے ہوئے دیکھا اور اپنی گردن فرش پر ٹکا کرلمبی ٹھنڈی سانس لی اور سو
گیا۔
بوڑھی
بیوہ نوکرانی صبح کے وقت اپنے کام پر آئی اور حسب معمول گھر کے دروازے دھڑاکے سے
کھولنے اور بند کرنے لگی۔خاندان کے تمام اراکین نے اس سے کئی بار تنبیہ کی تھی کہ
دروازے آہستہ کھولا اور بند کیا کرے لیکن اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔اس
کے آنے کے بعد کوئی شخص بلند آوازوں کی وجہ سے سو نہیں سکتا تھا۔وہ آئی تو اس گھر
میں اسے سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا۔جب گریگر کے کمرے کا دروازہ کھول کر اس
نے اندر اچٹتی نگاہ ڈالی تو اسے سویا ہوا پایا۔اس نے سمجھا کہ وہ جان بوجھ کر بے
سدھ ہو کر پڑا تھا یا اسے خاندان پر غصہ تھا اور وہ غصے کے اظہار کے لئے ایکٹنگ کر
رہا تھا۔اس نے اپنے ذہن میں یہ سوچا کہ گریگر کتنا ذہین تھاجو غیر محسوس طریقے سے
اپنی خفگی بیان کر رہا تھا۔وہ اس کے کمرے کی صفائی کے لئے آئی تھی۔اس کے ہاتھ میں
جھاڑو تھا۔اس نے لمبے ہینڈ ل والے جھاڑو سے اسے ہلکا سا ٹھوکا دیا تا کہ وہ ایک
طرف ہو کردروازے سے ذرا سا ہٹ جائے۔ جب اس پر اس کے ہلکےا دباؤ کام نہ کیا تو
اس نے جھاڑو سے زور کا ٹھوکا لگایا۔اس پر بھی جب اس نے کوئی رد عمل نہ دکھایا اور
کوئی مزاحمت نہ کی تو وہ چونکی۔وہ فوراًگھرکے مالک سامسا کے کمرے کی طرف دوڑی اور
اندھیرے کمرے میں چلائی۔
یہاں
دیکھو! وہ مر گیا ہے۔وہ وہاں مرا پڑا ہے۔قصہ تمام ہوا۔
میاں بیوی اپنے ڈبل بیڈ پر سوئے ہوئے تھے۔انہوں نے جب
نوکرانی کی آواز سنی تو وہ اٹھ بیٹھے اور ان پر صدمے کی کیفیت طاری ہو گئی۔دونوں
اپنی اپنی طرف کے بستر سے نیچے اترے۔باپ نے اپنے کندھوں پر کمبل اوڑھا جبکہ ماں
سونے کے لباس میں تھی۔وہ جلد ی سے گریگر کے کمرے کی طرف چل پڑے۔اس دوران اس کے
کمرے سے ملحقہ کمرہ بھی کھول دیا گیا۔بیٹی گریٹس عام لباس میں ڈائننگ روم میں سوئی
تھی۔جب سے کرایہ دار آئے تھے، اسے ڈائننگ روم میں سونا پڑتا تھا۔نوکرانی اس
کے زرد چہرہ کو دیکھتے ہوئے بولی کہ ہاں وہ مر چکا ہے۔اس کی ماں نے بھی اس کی تصدیق
کر دی۔باپ مسٹر سامسا نے بالآخر کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ وہ اب نہیں رہا۔اس نے
چھاتی پر کراس کا نشان بنایا اور دیگر خواتین نے بھی اس کی تائید کی۔اس کی بیٹی نے
لاش کو دیکھنا بند نہ کیا اور غور سے دیکھتے ہوئے بولی کہ دیکھو وہ کتنا کمزور ہو
گیا تھا۔طویل عرصے سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔وہ جو چیز منہ میں ڈالتا،گھنٹوںمنہ
میں رکھ کر باہر پھینک دیتا تھا۔یقینا گریگر کا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔اس
کا پیٹ بالکل ساتھ لگا ہوا تھا۔اس کا جسم بالکل خشک تھا جس میں گوشت اور پانی نہیں
رہ گیا تھا۔اس کی ٹانگیں سو کھ چکی تھیں جس سے اسے ہلکی سی جنبش کرنے میں بھی
مشکلات در پیش آتی تھیں۔
اس
کی ماں نے اپنی بیٹی گریٹس سے کہا کہ آؤ چلیں۔وہ اس کے پیچھے ہولی۔انہوں نے اپنے
گھر کی تمام کھڑکیاں کھول دیں تاکہ تازہ ہوا کے جھونکے اندر آنے لگیں۔آخرکار موسم
بدل چکا تھا۔مارچ کے آخری دن تھے اور بہار کی آمد آمد تھی، صبح ہو چکی
تھی۔ کام پر جانے سے پہلے تینوں کرایہ دار ڈائننگ روم میں آ ئے اور یہ دیکھ
کر پریشان ہو گئے کہ میز پر کوئی ناشتہ نہ تھا۔انہوں نے پوچھا ناشتہ کہاں ہے؟ناشتہ
کیوں نہیں بنایا گیا؟ نوکرانی نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ان کو خاموش
رہنے کو کہا اور گریگر کے کمرے کی طرف اشارہ کرکے انہیں اس طرف چلنے کو کہا۔وہ
ادھر گئے،انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے بڑے بڑے کوٹوں کی جیبوں میں ٹھونس رکھے
تھے۔ لاش کے پاس وہ چپ چاپ کھڑے ہو گئے۔گریگر کا کمرہ اب پورا روشن کر دیا
گیا تھا۔اتنے میں اس کا باپ اپنی پوری یونیفارم زیب تن کئے باہر آیا۔اس کے ایک طرف
ماں اور دوسری طرف بہن اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر باہر نکلیں۔بہن نے اپنا منہ
اپنے باپ کے بازو میں چھپایا ہوا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کمرے میں رو رہے تھے۔
والد
نے تینوں کرایہ داروں کو مخاطب ہو کر کہا میرا گھر فوری طور پر خالی کر
دو۔۔۔۔۔درمیان والا کرایہ دار حیران ہو کر بولا، کیوں؟یہ کیا کہہ رہے ہو؟اس کے
چہرے پر خفت آمیز مسکراہٹ تھی۔باقی دونوں کرایہ داروں نے اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف
باندھے جو انہیں گرم کرنے کے لئے آپس میں مل رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ
انہیں یقین تھا کہ ان کی ہی جیت ہو گی اور وہ اس گھر میں ہی رہیں گے۔
مسٹر
سامسا پھر بولا،میرے گھر سے فوراً نکل جاؤ۔میں اس بارے میں سنجیدہ ہوں۔ اور انہیں
گھر سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ان تینوں نے فرش پر نظر جما دیں اور کچھ دیر سوچتے
رہے۔ پھر انہیں یقین ہو گیا کہ انہیں وہ گھر چھوڑنا ہی پڑے گا۔انہوں نے مسٹر
سامساکی طرف ایک بار التجا آمیز نظروں سے دیکھا کہ شاید وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرے
لیکن وہ اسی طرح سنجیدہ کھڑا رہا۔اس نے دو تین بار اشاروں سے انہیں
باہر جانے کو کہا۔درمیانی شخص بادل نخواستہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہال سے نکل گیا۔اس کے
دوسرے ساتھی جو اپنے ہاتھ پیچھے باندھے کھڑے تھے، نے اس کی پیروی کی۔انہوں نے
ہینگرز سے اپنے اپنے ہیٹ، چھتریوں کے سٹینڈ سے اپنی چھتریاں لیں۔تعظیم کے لئے جھکے
اور چلے گئے۔اس کا باپ، ماں اور بہن ان تینوں کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔وہ ایک منزل
کے بعد دوسری منزل کی سیڑھیاں اترنے لگے، کبھی نظر آتے، کبھی غائب ہو جاتے اور وہ
گلی میں داخل ہو گئے۔رستے میں انہیں محلے کا قصاب ملا۔انہوں نے اس سے کچھ باتیں
کیں اور اپنی راہ لی۔خاندان یہ دیکھ کر کہ وہ چلے گئے تھے، واپس اپنے اپارٹمنٹ میں
آ گئے۔
وہ
ایک طویل اذیت سے گزرے تھے۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ غم غلط کرنے کے لئے انہیں آرام
کی ضرورت تھی۔سکون ان کے نزدیک اس وقت صرف سیر و تفریح سے ہی حاصل کیا جا سکتا
تھا۔ان تینوں نے الگ الگ خط لکھے۔مسز سامسا نے بلڈنگ کے سپرنٹنڈ نٹ کو خط لکھا جس
میں اس نے اپنا اپارٹمنٹ خالی کرنے کا نوٹس دیا۔اُس نے اپنے بنک
اورخوراک مہیا کرنے والی کمپنی کو جس میں وہ خوراک ڈھوتا تھا، خطوط لکھے اورنوکری
چھوڑنے کا نوٹس دیا تھا جبکہ گریٹس نے بھی سٹور کے منیجر کو اپنا استعفیٰ بھجوایا
دیا۔
گریگر
کو دفنانے کے بعد وہ سب آزاد تھے۔انہوں نے لمبی لمبی سانسیں لیں۔تینوں اپنے ہاتھوں
میں ہاتھ ڈال کر گھر سے نکلے۔ٹرین پکڑی اور دور دراز کے ایک چھوٹے سے گمنا م گاؤں
کی طرف چل دیئے جہاں ہر وقت تازہ ہوا رہتی تھی۔پرندے چہچہاتے رہتے
تھے۔ گھر کا کرایہ نہ ہونے کے برابر تھا۔نوکریاں دستیاب تھیں اور وہ کم
پیسوں میں معیاری زندگی گزار سکتے تھے۔عمدہ آب و ہوا اور بہترین خوراک گریٹس کی
صحت پر بھی اچھا اثر ڈالے گی۔اس کے مرجھائے ہوئے پیلے گال سرخ سیب اور گلاب کی طرح
کھل اٹھیں گے اوروہ کوئی اچھا بر تلاش کر کے باقی زندگی آرام سے گزار لے گی۔گریگر
کی ہیئت کا زوال اس کی موت پر منتج ہوا جس نے ثابت کر دیا کہ بدلتے حالات کس طرح
رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اگر کوئی کامیاب ہے تو تمام لوگوں کے تعلقات کی نوعیت
اور ہوتی ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ معذوری، بے روز گاری اور مصیبت میں مبتلا ہو
جائے تو عزیز ترین اور قریبی رشتے دار بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔
Malcolm parsley
|