**** Book 4 Story 32 'Pigs Can't fly (Shyam Selvandurai ) ناممکنات
Pigs Can't Fly
By
Shyam Selvandurai (1965-)
Sri Lanka
کولمبو
(سری لنکا) میں ہمارا خاندان متمول خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ ہمارے دادا
دادی وسیع خاندان کے سربراہ تھے۔ ان کے بیٹے بیٹیوں کے بچوں کی تعداد اس وقت پندرہ
تھی۔ وہ اس بات پر خوش تھے کہ نہ صرف ان کے اپنے بچے بلکہ ان کی اولادیں بھی ان سے
محبت اور خدمت کرتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا وسیع خاندان بھی مل جل
کر محبت سے رہے اور تقریبات اکٹھے منایاکریں۔ خاندان میں مستقل رابطہ قائم کرنے
اوراپنی اولادکے بچوں میں تعلقات گہرا کرنے کے لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیاکہ وہ ہر
مہینے کی ایک اتوار ان کے گھر گزاراکریں۔ ا ن کے والدین اپنے اپنے بچوں کو ان کے
گھرچھوڑ کر چلے جایا کریں اور پھر شام کو آکر واپس لے جایا کریں۔ بچے بھی اس بات
پر خوش تھے کہ اس دن بچہ پارٹی اپنے والدین کی ڈانٹ سے نہ صرف بچے رہتے بلکہ ا پنے
کزنوں سے بھی روابط بڑھانے کے مواقع ملتے۔ ایسا دن ان کے لئے کسی طرح بھی
کرسمس سے کم نہیں ہوتا تھا۔ تمام دن دھماچوکڑی کرتے، خوب کھاتے پیتے اور کسی بالغ
کی مسلسل نگرانی کے بغیر اپنی مرضی کے کھیل کھیلتے تھے۔ اس لئے بچہ پارٹی اس دن کا
شدت سے انتظار کرتی تھی۔ اس دن ہم سکول جانے کے وقت سے پہلے ہی جاگ جاتے اور اپنے
والدین کودادا دادی کے گھرجانے کے لئے جلدی نکلنے پر زور دیتے۔اپنے گھر سے ناشتہ
کرکے ہمارے والدین ہمیں وہاں لے جاتے۔ دادا کے گھر بڑے مین گیٹ پر پڑی چٹائی کے
ساتھ اپنے جوتے اچھی طرح صاف کرکے داخل ہوجاتے تھے۔ آگے راہداری شروع
ہو جاتی تھی جس کے ایک طرف رہائشی کمرے تھے۔ اسکے دوسری طرف ڈرائنگ
روم، باورچی خانہ ا ور نوکرانی "جنا نکی" کا کمرہ تھا۔وہ
کمرہ ہمارے لئے اہم تھا کیونکہ اس میں ایک قد آور آئینہ اور کئی خانوں والی بڑی سی
الماری تھی جنہیں ہم اپنے کھیل میں استعمال کرتے تھے۔ اسکے آگے جاکر پچھلاصحن
آجاتاتھا۔
جب ہمارے والدین
ہمیں دادا کے گھر لاتے تو خود بھی ہمارے ساتھ دادا دادی کو ملنے کے لئے اندر داخل ہوتے۔ دادا دادی
کے پاؤں چھوتے اور دعائیں لیتے۔ دادا اور دادی ڈرائنگ روم میں آرام دہ کرسیوں میں
بیٹھ کر سب سے مل رہے ہوتے تھے۔ تمام بچوں کو ایک ایک کر کے دادا دادی کے پاس نہ
چاہنے کے باوجود جانا پڑتاتھا۔ بچے ان کے پاس جانے سے اسلئے کتراتے تھے کیونکہ ان
کے جسموں سے ایسی بساند آتی تھی جیسے گندے اور میلے کپڑوں سے آتی ہے۔دادی ہر
بچے کو اپنے گیلے موٹے موٹے ہونٹوں سے دونوں گالوں کو چومتی اور دعائیں
دیتی تھی۔ اس کے بعد بچہ لوگ اپنے والدین کو الوداع کہنے کے لئے بیرونی دروازے تک
آتے اور زور زور سے ہاتھ ہلا کر واپس بھیج دیتے۔ اس کے بعد سارا دن ان کا
ہوتا تھا۔
ہم بچوں
کو ہدایت کی گئی تھی کہ مل جل کر کھیلیں۔ نہ آپس میں لڑائی کریں، نہ کسی قسم
کا تشدد اور نقصان نہ کریں اور دادی اماں کے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت کھیلیں۔
سب بچے دوپہر کاکھانا اور چائے ان کے ساتھ پئیں اگر کوئی حکم عدولی کرتاتو اس
کے لئے دادی اماں نے ایک لمبی پتلی بید کی چھڑی رکھی ہوتی تھی جو اسکی الماری کے
پاس پڑی ہوتی تھی۔ نافرمان کو اپنے بازو پوری طرح پیچھے کر کے پورے زور سے مارتی
تھی جو جسم پر نیل ڈال دیتی تھی لیکن ایسی نوبت شاذونادر ہی پیش آئی تھی۔ بچوں
والی تمام شکایات اورعمومی نگرانی اس نے جنکانکی کے سپرد کی ہوئی تھی جو گھر کی
قابل اعتبار پرانی خادمہ تھی۔ ہماری آمد پر وہ جھنجھلائی ہوئی ہوتی تھی اور بہت
مصر وف ہوتی تھی کیونکہ اس کے کام میں اس دن بے حد اضافہ ہو جاتا تھا۔زیادہ کھانا،
چائے بنا کر زیادہ برتن دھونے پڑتے تھے۔ اس لئے اسکے پاس ہماری نگرانی کے لئے وقت
ہی نہیں ہوتا تھا۔ بچہ لوگوں نے اپنے تئیں یہ طے کر لیا تھا کہ آپسی معاملات خود
ہی نپٹا لیا کریں گے۔
بچہ پارٹی نے
اپنے طور پر دادا کے گھر کو دو حصوں میں تقسیم کرلیاتھا۔ بالائی اور زیریں۔ بالائی میں
گھر کا اگلا حصہ آتا تھا جس میں سڑک،بیرونی دیوار، اگلا لان، پورچ
اور مین گیٹ جبکہ زیریں حصے میں پائیں لان، پچھلا صحن،
باورچی خانہ اور جنانکی کا کمرہ شامل تھا۔ ہم نے کھیلوں کے لئے دو گروپ تشکیل دئیے
ہوئےتھے۔ ایک گروپ لڑکو ں کا او دوسرا لڑکیوں کا۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ
لڑکوں کی انچارج لڑکی اور لڑکیوں کا انچارج لڑکا ہو
گا۔ لڑکوں نے "مینالی" جس کو"مینا "کہا جاتاتھا
اور لڑکیوں نے مجھے (سات سالہ "ارجی") کو اپنا لیڈرچن
لیاتھا۔ مینا کو بعد میں "ڈگی" بھی کہاجانے لگا۔ ڈگی اور لڑکوں نے
دن گزارنے کے لیئے کرکٹ کا انتخاب کیا۔ لڑکوں کاگروپ اس کھیل کا دیوانہ
تھا۔شدید مو سم بھی ان کے آڑے نہ آتا۔تپتی دھوپ میں بہتے پسینے کے ساتھ وہ
گروہ ایسے جوش میں ہوتا جیسے جنگ عظیم ہو رہی ہو۔ ہار
جیت کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا جاتا تھا۔میں حیران ہوتا تھا کہ ان کو اس
میں کیا مزا ملتا تھا۔ مجھے ایسے پروگرام پسند تھے جن میں ڈراما ئی پن، لطیف جذبات
و احساسات اور تخیلات استعمال ہوں۔
مجھے
لوک کہانیاں اچھی لگتی تھیں جیسے سنڈریلا، تاملی ملکہ مہنالی، گیتا،
بھونیکا، جولیٹ وغیرہ۔ میں ان کہا نیوں میں نئے رنگ بھرتا۔ بعض دفعہ میں کئی
کہانیوں کو اکٹھا کر کے نئی کہانی گھڑلیتا تھا۔ میری تخلیقی صلاحیتوں کی تمام
لڑکیاں معترف تھیں۔ اس لئے ڈرامے میں ہمیشہ مجھے سب
سے اہم کردار ادا کرنے کا کہا جاتا تھا۔ میری ٹیم کاسب سے
پسندیدہ ڈرامہ" دلہن۔دلہن" تھا۔ حقیقت میں اس کا
دورانیہ بہت کم وقت کا تھا لیکن میں نے اسے پورے دن پر پھیلا دیا تھا۔ اس میں ہر
ہفتے تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی کرتا رہتا تھا۔ میری ٹیم مجھ سے بہت خوش
تھی۔ اس ڈرامے میں ہر کردار کے لئے مختلف لوازمات درکار تھے۔ میں نے
اپنی ٹیم کو کہا تھا کہ اپنے اپنے کردار کے مطابق استعمال کی جانے والی اشیاء ،جو ڈرامے میں انکے رول کی نسبت سے استعمال کی
جا سکتی ہوں، گھر کے کباڑ خانے سے ڈھونڈ نکالیں۔ ایسا ہی
کیا گیا اوراس طرح بستر کی چادریں، تکیوں کے غلاف، دھوتیاں، پتلون،
جیکٹ وغیرہ جمع کرلی گئیں۔میں نے دادی اماں کی ایک ساڑھی جو
سینکڑوں برس پہلے شاید سفید رنگ کی رہی ہو گی اب پیلی نما
تھی،ڈھونڈ کر قابو کر لی تھی جس کو پہن کر میں دلہن بنا کرتا تھا۔ میں اس ساڑھی کو
اپنے بیگ میں رکھا کرتا تھا۔ واپسی پر میں اپنے بیگ میں ڈال کراسے گھرلے جایا کرتا
تھا۔ ساڑھی کو جنانکی کے کمرے کے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر پہناکرتاتھا۔
دلہن کی تیاری میں میری ٹیم کی لڑکیاں پلو سیدھے کرتیں،سرخی پاؤڈر، آنکھوں میں کا
جل لگاتیں اور مجھے بطور دلہن تیارکیا کرتی تھیں۔ اس دوران اس کردار میں اتنا کھو
جاتا کہ میں حقیقت میں خود کو دلہن سمجھنے لگتا اور زیادہ سے زیادہ سگھڑپن
کا مظاہرہ کیاکرتا تھا۔ آج میں سوچتا ہوں تو ان دنوں کواپنی زندگی کے سنہرے ترین
دن شمار کرتا ہوں۔ آج بھی وہ دن یاد آتے ہیں تو دل میں اِک ہوک سی اٹھتی ہے۔ سری
لنکا میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے ہمیں ملک بدر کر دیا گیا اور ہم اپنے نئے
وطن کینیڈا آ کے بس گئے۔
یہ سلسلہ
تقریباً دو سالوں سے کامیابی سے چل رہاتھاکہ کسی کی نظرِبد لگ گئی۔ ایک آنٹی
امریکہ سے آن ٹپکی۔ ایک دن میری ماں مقررہ اتوار ہمیں لے کر دادا دادی کے گھر
چھوڑنے کیلئے گئی تو ہمیں ابو کی بہن" کانتھی" اور اس کی موٹی
بیٹی جس کا نام "تنوجا" تھا اپنی ماں کے گھٹنوں سے لگی نظر
آئی۔ وہ اس عرصے میں پہلی دفعہ دکھائی دی تھیں۔ پتہ چلا کہ وہ ملک سے
باہر تھیں۔ وہ میرے ابا کی بہن تھی۔خاندان میں دادا دادی کے بعدبہن بھائیوں میں
ابو سب سے بڑے تھے، پھر انکل "روی"، پھر آنٹی
"مالا"، پھر آنٹی" کانتھی"، پھر انکل "بابو"، پھر
انکل "سیلن" اورآخری نمبر پر آنٹی "رادھا" تھیں جو اس وقت
امریکہ میں پڑھ رہی تھیں۔ ابو کے بہن بھائیوں میں آنٹی کانتھی سب سے زیادہ
غصیلی،سخت گیر اور حاسد تھیں۔میری بہن نے بتایا تھا کہ شاید اس کی وجہ یہ تھی
کہ انہیں امریکہ سے غیر قانونی ہونے کی بنا پر بے عزت کر کے نکال دیا گیا تھا
اور جتنا عرصہ بھی وہاں رہیں، لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اور برتن مانجھ کر اپنا
پیٹ پالتی تھیں۔ اب موٹی تنوجا ہم بچوں میں نئی انٹری تھی۔آنٹی کی آمد کے
بعد اپنی ناکامی کی خفت کابدلہ وہ ہم بچوں
کو ڈانٹ کر لیتی تھیں۔اس کی موٹی بیٹی ہمارے کھیل میں گڑبڑ کرتی تھی اس لئے اسکی
اور میری آپس میں نہیں بنتی تھی۔ وہ موٹی میری اتھارٹی کوچیلنج
کرتی رہتی تھی۔ اس بات پر اصرار کرتی رہتی کہ اسے ڈرامہ میں دلہن کا
کردار دیا جائے۔ میں پوچھتا، کیوں؟ تو وہ جواب دیتی کیونکہ دلہن لڑکی ہوتی ہے۔
اسکا جواب تو معقول تھا لیکن میری ٹیم نے کبھی اس کی بات نہ مانی اور کہا کہ میں
بہت اچھا کردار ادا کر رہا ہوں۔ یہ کردار میں ہی ادا کروں گا۔ علاوہ ازیں میں بھی
مرکزی کردار کسی اور کو نہیں دینا چاہتا تھا۔
اگلی دفعہ جب ہم
دادا کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ تنوجا زیریں لان میں درمیان میں اور
تمام لڑکیاں گول دائرے میں بیٹھی تھیں۔تنوجا کے ہاتھ میں دو خوبصورت باربی ڈول
تھیں اور تمام لڑکیاں بڑی للچائی ہوئی نظروں سے ان گڑیوں
کودیکھ رہی تھیں۔ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ انہیں نزدیک سے دیکھے۔ وہ
تنوجاکی منتیں کر رہی تھیں کہ گڑیوں کو ان کے ہاتھ میں دیا جائے۔ ان دنوں سری لنکا
میں درآمدات پر مکمل پابندی تھی اسلئے غیرملکی کھلونے شازونادر ہی
دیکھنے کو ملتے تھے۔ تمام ٹیم اسکی طرف متوجہ تھی اوروہ انکی خواہش کو ہوا دے رہی
تھی۔ میں اسکی چالاکی سمجھ گیا تھا۔ وہ غیرملکی کھلونوں کی آڑ میں ان سب کو اپنی
طرف مائل کر کے ڈرامے میں خود دلہن کا کردار ادا کرنا چاہ رہی تھی۔ کچھ لڑکیوں نے
میری طرف دیکھا بھی لیکن اس وقت انہیں وہغیر
ملکی کھلونے زیادہ پر کشش لگے اور انہوں نے مجھے نظرانداز کر دیا۔ اسکا
مطلب تھا کہ تنوجا اپنی چال میں میں کامیاب ہو گئی تھی۔
مجھے
یقین تھا کہ یہ دلچسپی عارضی ہو گی کیونکہ تمام دن وہ ان کھلونوں سے
نہیں کھیل سکیں گی۔ میں خاموشی سے تماشا دیکھ رہا تھا۔تنوجا نے لڑکیوں
کے پر زور اصرار پر وہ کھلونے انہیں ہاتھ میں
پکڑنے کے کی اجازت دے دی۔ اس نے کہا کہ دائرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے پر بیٹھی
لڑکی ایک ایک منٹ تک اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دیکھ سکتی ہے، اس کے بعد وہ
اگلی لڑکی کو منتقل کردے گی۔ایسا ہی کیا گیا۔ایک لڑکی ان کو اپنے ہاتھ
میں پکڑتی، الٹ پلٹ کر دیکھتی اور پاس بیٹھی لڑکی کو دے دیتی۔ لڑکی جب کھلونوں کو
اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر دیکھ چکتی تو اس کی دلچسپی ان کھلونوں میں ختم ہو جاتی۔ جب
تمام لڑکیوں نے وہ کھلونے دیکھ لئے تو تنوجا نے وہ واپس لے
لئے۔ اب ٹیم کی توجہ ان کھلونوں سے ہٹ گئی۔ ا ن کا ان کھلونوں کو قریب سے دیکھنے
کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ ان کا تجسس ختم ہو چکاتھا۔ا ب باقی
دن دلچسپ طریقے سے گزارنے کا مسئلہ تھا۔ کھلونے تنوجا کو واپس کرنے کے
بعد وہ سب میرے ارد گرد جمع ہو گئیں۔ فرمائش کرنے لگیں کہ کہ
"دلہن-دلہن" ڈرامہ شروع کیا جائے۔ یہ دیکھ کر تنوجا ہاتھ ملتی رہ گئی
اور بازی میرے ہاتھ میں آگئی اورتنوجا کو بھی حسب سابق نوکرانی کا کردار نبھانا
پڑا۔
دادی کی
سالگرہ تھی۔ اس بار دادا دادی نے پورے خاندان کو مدعو کیا ہوا تھا۔ ہم
سب کے والدین ڈرائنگ روم میں خوش گپیاں کرنے لگے اور بچہ
پارٹی اپنے پروگرام کے مطا بق اپنے کھیل کی تیاری میں مشغول تھے۔ سب
اپنے اپنے کرداروں کے مطابق تیار ہو گئے۔ تنوجا نے مجھے آج
پھر دھونس دی کہ وہ دلہن ہی کا کردار ادا کرے گی اور نوکرانی والا نہیں، لیکن جب
وہ ناکام ہوئی تو وہ غصے میں آگئی۔ چونکہ اس دن اس کی ماں بھی گھر میں موجود تھی
اسلئے وہ اسے شکایت لگانے ڈرائنگ روم چلی گئی۔ ہم نے اس کے جانے کی کوئی پرواہ نہ
کی۔ اتنے میں ہم نے ڈرائنگ روم میں موجودلوگوں کے شور اورقہقہوں کی آواز سنی۔
پھر قہقہے وقفے وقفے سے آ نے لگے، مجھے ڈرائنگ روم میں بلایا گیا۔ میں اس وقت
دلہن کے روپ میں تھا اور تنوجا نوکرانی کے روپ میں۔ مجھے دیکھ کر مزید
قہقہے بلند ہوئے۔ ابا اور اماں نے میری حالت دیکھی
لیکن انہوں نے قہقہہ نہ لگایا اور ناگواری سے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر مجھے کہا
کہ یہاں سے چلے
جاؤ۔
اگلی صبح
میں نے ابا کو سنا کہ وہ اماں کو ڈانٹ رہے تھے۔' تم نے اسے بگاڑکے رکھ دیا ہے۔ یہ
تضحیک صرف اس وجہ سے ہوئی کہ تم بچوں پر توجہ نہیں دیتی اور اپنے میک اپ پر ہی
دھیان رہتا ہے۔ '
' تمہارا
خیال ہے کہ میں ان پر نگاہ نہیں رکھتی؟ ' کیا میں ان کے سر پر ہمیشہ
سوار رہوں؟ تم ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں؟' ماں نے پوچھا۔
' اگر
تمام کولمبو کا وہ مذاق بن گیا تو اس کی ذمہ دار تم ہو گی۔ میں تم کو آگاہ کر رہا
ہوں،'ابا نے اماں کوتنبیہ کی۔
اماں ابا کے بیڈ
روم میں صرف میں ہی جا سکتا تھا۔ ماں مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ بھی مجھ سے
بہت محبت کرتی تھی۔ وہ دنیا کی تمام خواتین سے حسین تھی۔ جب بھی وہ کسی
تقریب میں شرکت کے لئے تیا ر ہوتی تو میں دروازے کے پاس ہی
بیٹھا رہتا۔ جب وہ پیٹی کوٹ اور بلاؤز پہن لیتی تو نوکرانی سے کہا کر تی تھی
کہ استری شدہ ساڑھی لے آئے۔ وہ نوکرانی کے ساڑھی لے کر آنے اور
میرا اسکے کمرے میں اندر داخل ہونے تک دروازہ کھولے رکھتی لیکن آج
معاملہ مختلف تھا۔ اماں نے ساڑھی لیتے ہی دروازہ بند کر دیا۔ میں حیران رہ گیا۔
میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ ابھی تک اس نے پیٹی کوٹ اور بلا ؤز نہ پہنا ہو۔
کچھ دیر بعد میں نے ہلکی سی دستک دی، کوئی جواب نہ آیا۔ کچھ دیر تک مزید
انتظار کیا، کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے اور انتظار کیا، پھر زور سے دروازہ
کھٹکھٹایا تو ماں کی غصے بھری آوازآئی،' چلے جاؤ!
میں تیار ہو رہی ہوں۔'
میں ماں
کو تیار ہوتے اس لئے دیکھا کرتا تھاکیونکہ ایک تو اس کے پرفیوم کی خوشبو مجھے بہت
اچھی لگتی تھی اور دوسرا اسلئے کہ جب اماں ساڑھی باندھنے لگتی تو پلو باندھنے
کیلئے ہاتھ پھیلا کر کپڑا سیدھا کرتی، پلو بناتی اور تہہ بنا کر پیٹی
کوٹ میں ڈالتی، تہہ سنوارتی اور تہیں بنا بنا کر سیدھا کرتی جاتی پھر
اس کو بکسوئے سے ٹانک دیتی تھی۔ اس وقت اس کا ایک ایک عمل مجھے بڑا اچھا لگتا
تھا۔میں اس کی طرف بڑے پیار سے دیکھتا تھا۔ 'میں اسے پیار سے کہتا،
ماں! تمہیں فلموں کی ہیروئن ہونا چائیے، تو وہ میرے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر
کہتی۔کیا تم مجھے اتنی گھٹیا سمجھتے ہو؟'..............مگر آج اسکا رویہ ہلاکو خاں
والا ظالمانہ تھا۔ میں حیران تھا کہ مجھ سے کیا قصور ہوا ہے؟ مجھے اماں
ابا کی تکرا ریاد آگئی۔ میں صبر شکر کر کے بیٹھ گیا۔ آج مجھے ایسا لگا کہ ماں
کا میرے ساتھ ترجیہی تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا تھا۔ میں
بد دل ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ماں تیار ہو کر کمرے سے نکلی اور نوکرانی کو
گھریلو کام سے متعلق ہدایات دے کر چلی گئی اور میری طرف دیکھنا بھی گواراہ نہ
کیا۔
اگلے دن
سے ماں کا رویہ میرے ساتھ بے اعتنائی والا ہو گیا۔ میں بھی منہ لٹکا کر بیٹھا
رہتا۔ دن ایسے گزرتے رہے۔ کرتے کرتے دادا دادی کے گھر جانے والا دن
آگیا تو میں اس دن خوشی خوشی حسب معمول وقت سے پہلے جاگا، تیار ہوا اور
ساڑھی تہہ کرنے لگا تو ماں نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے ڈرتے ہوئے ساڑھی
اپنے بیگ میں واپس رکھ دی۔ اس نے میرا بیگ پکڑا، اس کے اندر جھانکا اور
اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے چلنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں بڑا
بھائی اور بڑی بہن ماں کے کمرے کے باہر کھڑے تھے۔ ابا اس وقت گولف کھیلنے
کے لیے چلے گئے تھے۔ اماں نے ہمیں چھوڑنے کے بعد واپسی پر ابا کو لے کر گھر
واپس آناتھا۔ ماں نے شیشے میں دیکھ کر بڑے بھائی "وارونا" کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا، 'اوکے مسٹر ........ میں تمہیں ہدایت کر رہی ہوں کہ تم اپنے
چھوٹے بھائی ارجی کو اپنی ٹیم میں شامل کر لو۔ یہ میرا حکم ہے۔' بھائی اور میں یہ
سن کر حیران ہو گئے۔
'اوہ!
ماں یہ کیا کہہ رہی ہو؟ میں نے اس کی ٹیم میں شامل نہیں ہونا۔مجھے کرکٹ نہیں
کھیلنی! مجھے اس کھیل سے سخت نفرت ہے،' میں نے احتجاج کیا۔
' مجھے اس
بات سے کوئی غرض نہیں کہ تم کیا چاہتے ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ تیرے لئے بہتر ہے،'
ماں نے حتمی فیصلہ سنایا۔
'ماں! اگر
یہ ہماری ٹیم میں شامل ہو گیا تو ہم کبھی بھی نہ جیت پائیں گے،وارونا نے احتجاجاً
کہا۔ یہ تو بالکل بیکار ہے۔ اسے تو بیٹ پکڑنا بھی نہیں آتا۔'
'میں لڑکوں کے
ساتھ کیوں کھیلوں؟' میں نے اعتراض کیا۔
کیوں؟ ماں
نے دہرایا۔ ۔۔۔'اس لئے کہ آسمان بہت اونچا ہے اور سؤراڑ نہیں سکتا۔'
'پلیز !
..............ماں پلیز!'.........میں نے روہانسی آواز میں کہا۔ اپنے
ہاتھ جوڑ کرالتجا کی۔
ماں نے اپنا پرس
اٹھایا اور بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگی'، اگر کوئی غلط کام کرے تو قصور وار ہمیشہ ماں
کو ہی گردانا جاتا ہے، باپ کو نہیں۔'
میں اپنا سر پکڑ
کر بیٹھ گیا اور رونے لگا.....'....اماں
!......... پلیز.....۔! '
میں نے
اپنے ہاتھ ماں کی طرف بڑی امید سے بڑھائے......'.پلیز !'
ماں کھڑکی
کے پاس کھڑی ہوکر سڑک پار دیکھنے لگی۔ اور میں بے بسی سے بستر پر گر پڑا اور
سسکیاں لینے لگا۔ مجھے توقع تھی کہ ماں میرے پاس آ کر مجھے اپنے گلے لگا لے گی
لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور میں ہچکیاں لیتے لیتے چپ ہو گیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد
کہا،' گھبراؤ نہیں۔۔۔ تمہارا وقت اچھا گزرے گا۔ بس صحیح وقت کا انتظار
کرو۔'
'میں لڑکیوں کے
ساتھ کیوں نہیں کھیل سکتا؟ ' میں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
تم لڑکیوں
کے ساتھ نہیں کھیل سکتے۔ یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔سات سال کے ہونے کے باوجود تم
مضحکہ خیز باتیں کرتے ہو.. جو ہو چکا سو ہو چکا.......اب یہ سلسلہ
ختم.......
'یہ احمقانہ
فیصلہ ہے'، میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
' ایسی
کوئی بات نہیں!اس قسم کی بیوقوفانہ باتوں سے دنیا بھری پڑی ہے اور ہمیں ان باتوں
کو ماننا ہی پڑتا ہے'، ماں نے بے رخی سے کہا۔
'نہیں! نہیں! 'میں
نے باغیانہ ا نداز میں کہا۔' میں لڑکوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔'
ماں تیزی
سے میری طرف آئی اور میرے کندھے پکڑ کر جھنجھوڑا اور غصے پر قابو پا کر واپس مڑ
گئی پھر اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔
میں نے پھر کہا،
'نہیں! میں نہیں!'
ماں نے سنی ان
سنی کرتے ہوئے کہا'،کار پانچ منٹ میں چلی جائے گی۔ اگر تم نہ بیٹھے تو تمہیں چھوڑ
کر ہم نکل پڑیں گے۔'
میں بے بس
ہو کربستر پر لیٹ گیا۔ کتنے دکھ کی بات تھی کہ میرا ایک بہترین دن ضائع ہونے جا
رہا تھا۔ مجھے سارا دن دھوپ میں سڑنا تھا۔ "دلہن-دلہن ڈرامہ
نہ کھیل پاؤں گا۔ 'اس ہفتے میں نے اس ڈرامے میں کئی تبدیلیوں کا سوچا
تھا۔ میری جگہ موٹی تنوجا کو منتخب کر لیا جانا تھا۔ وہ جنانکی کے کمرے میں قد آدم
آئینے کے سامنے ساڑھی باندھے گی، میک اپ کرے گی، پروگرام ترتیب دے گی۔ ساڑھی سے
مجھے یاد آ یا کہ دلہن کی ساڑھی تو میرے تھیلے میں تھی جواس وقت ماں کے کمرے میں
تھا۔ ماں گاڑی سٹارٹ کرنے گئی تھی۔ سونالی اور وارونا ماں کے ساتھ چلے
گئے۔ میں فوراً ماں کے کمرے میں گیا، ساڑھی نکالی اور تھیلے کو پھلا کر رکھ دیا۔
پھر میں اپنی بہن سونالی کے کمرے میں پردے کے پیچھے جا کے چھپ گیا۔ ماں نے جب یہ
دیکھا کہ میں نہیں آیا تو وہ گاڑی سے اتر کر میرے کمرے میں جانے لگی۔ اس وقت میں
نے ساڑھی کو اپنے سینے کے آگے کیا اور بھاگ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
ساڑھی میں نے اپنی بہن کے بیگ میں ڈال دی۔ اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا لیکن
کچھ نہ بولی جبکہ وارونا اپنے پاؤں ڈیش بورڈ کے نیچے مارتا
رہا جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ پریشان تھا۔ اب مجھے فکر ہوئی کہ کرکٹ
کھیلنے سے کیسے بچا جائے۔ ماں کی موجودگی میں میں نے سونالی سے کہا کہ' میں آج
"دلہن۔دلہن" نہیں کھیل سکوں گا کیونکہ ماں نے منع کر دیا ہے۔'
اس نے پریشان ہو
کر ماں سے پوچھا،' ارجی آج "دلہن-دلہن" کیوں نہیں کھیل سکتا؟ '
' کیونکہ
آسماں بہت اونچا ہے اور سؤر اڑ نہیں سکتا۔۔۔ یہ نا ممکن ہے، م'اں نے
جواب دیا۔
دادادادی کے گھر
پہنچے تو موٹی تنوجا اپنی ماں کے گھٹنے سے لگی کھڑی تھی۔ میری طرف بڑے فاتحانہ
انداز سے دیکھ رہی تھی۔ باہر مینا (ڈگی) اپنی ٹیم کے ساتھ دیوار پر بیٹھی
تھی۔ کچھ لڑکے اس کے دا ئیں طرف بیٹھے تھے اور کچھ بائیں طرف۔ میں نے سونالی کو
راز دارانہ انداز میں کہا کہ ساڑھی کا کسی کو نہ بتائے۔ واپس جاتے وقت
ماں نے تاکیدکی کہ اس کو کسی قسم کی شکایت نہ ملے اور چلی گئی۔ کرکٹ کا میدان
سج چکا تھا۔ وکٹیں گاڑ دی گئی تھیں۔ "مورگا" اور دوسرے لڑکے امرود کے
درخت کے نیچے بیٹھے اس دن کا پروگرام طے کر رہے تھے۔ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہوں
نے باتیں بند کر دیں۔ مورگا نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ 'ارجی
یہاں کیا کر رہاہے ؟ '
' وہ ہمارے
ساتھ آج سے کھیلا کرے گا'۔ میرا بھائی جو اپنی ٹیم کا کپتان تھا،نے کہا۔
تمام لڑکے زور
سے چیخے، 'یہ لڑکی نما لڑکا ہمارے ساتھ کھیلے گا..؟ بالکل
نہیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ 'انہوں نے میرے بھائی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہ
وہ پاگل ہو۔
'وہ ہمارے ساتھ
ہر گز نہیں کھیلے گا،' بھائی کی ٹیم کے بہترین کھلاڑی مورگا نے کہا۔ وہ ہماری ٹیم
میں شامل نہیں ہو سکتا۔
'وہ اچھا کھیل
لے گا، 'میرے بھائی نے اسے یقین دلایا۔
'یہ
زنخا ارجی ہمارے ساتھ نہیں کھیلے گا۔ اگر تم نے اسے اپنی ٹیم میں
رکھا تو میں تمہاری ٹیم چھوڑ کے مخالف ٹیم میں چلا جاؤں گا، 'مورگا نے دھمکی دی۔
پھر وارونا
نے جب اپنی ٹیم کو کہا کہ آؤ کھیل شروع کریں تو پوری ٹیم نے
کھیلنے سے انکار کر دیا۔ جس پر وارونا نے مینا کو تجویز پیش کی کہ ؛تم
"سنجے" مجھے دے دو اور ارجی کو اپنی ٹیم میں شامل کر لو۔ '
' تم نے
مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے؟' مینا نے جواب دیا۔
' ہم پورا
ہفتہ پریکٹس کرتے رہے ہیں،' وارونا نے کہا۔
'اگر تم نے اسے
تیار کر ہی لیا ہے تو اسے اپنی ٹیم میں ہی کیوں نہیں شامل کر لیتے؟' مینا نے کہا۔'
شاید تم جیت ہی جاؤ۔ تم اس لڑکی نما لڑکے کو اپنی ٹیم میں ہی رکھو۔'
مجھے اپنی بار
بار کی تضحیک پر بےحد غصہ تو آیا لیکن میں اس بے عزتی کو پی گیا۔ مگر اس کے ساتھ
ساتھ مجھے اس بات کی شرمندگی بھی محسوس ہوئی کہ میں اتنا نالائق ہوں کہ مجھے کوئی
بھی قبول کرنے کوتیار نہیں۔
اس تمام قضئیے
میں میرے لئے ایک مثبت پہلو بھی نکلا کہ لڑکوں کی دونوں ٹیموں نے مجھے
اپنی اپنی ٹیم میں شامل کرنے سے منع کر کے میری دلی تمنا توپوری کر دی لیکن ماں کے
ڈر سے میرے بھائی وارونا کو مجھے ٹیم میں شامل تو کرنا ہی پڑنا تھا اسلئے اس نے
مجھے اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔
میچ شروع کرنے
سے کپتان اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ پہلے کون باؤلنگ یا بیٹنگ کرے گا، کے لئے
ٹاس کیا جاتا تھا اور ٹاس جیتنے والا یہ فیصلہ کرتا تھا کہ اس نے پہلے بیٹنگ کرنی
ہے یا باؤلنگ؟ مینا نے ٹاس جیت کر فیصلہ کیا کہ اس کی ٹیم
پہلے با ؤلنگ کرائے گی۔ اس کا مطلب تھا کہ وارونا کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرنا تھی۔
کس نمبر پرکھلاڑی بیٹنگ کرے گا،کے لئے ٹیموں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ
غیر جانبداری سے قرعہ اندازی کے ذریعے کھلاڑی بیٹنگ کے لئے جائے گا۔ اس کا طریقہ
یہ ہوتا تھا کہ تمام ٹیم کو کہا جاتا تھا کہ دوسری طرف منہ کر کے کھڑی ہو جائے۔
کپتان ایک لائن ڈال دیتا تھا۔ اس پر ڈوجنگ
انداز میں نمبر لگا دیتا اور اس پر بیٹ رکھ کر دوسری طرف ہر نمبر کے سامنے
ایک نشان لگا دیا جاتا۔ اس کے بعد کھلاڑیوں کو بلا کر کہا جاتا کہ کوئی
نشان چن لیں۔ نشان پر جو نمبر نکلتا اسے اسی نمبر پر بیٹنگ کرنا پڑتی
تھی۔ تا ہم کھلاڑی باہمی رضامندی سے اپنی باری کو ایک دوسرے سے بدل سکتے تھے۔ اگر
کوئی ادلا بدلی پر نہ مانتا تو اسے قرعہ اندازی والی باری پر ہی کھیلنا پڑتا تھا۔
جب قرعہ اندازی ہوئی تو سوئے اتفاق میرا بیٹنگ کا پہلا نمبر
اور ٹیم کے بہترین کھلاڑی مورگا کا آخری نمبر نکلا۔ مورگا نے ایک تو معمول کی
طرح ٹیم کا سب سے اچھا کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے اور میرے
اناڑی پن کی وجہ سےاز خودیہ فیصلہ کر لیا کہ وہ میری جگہ اوپننگ کرے گا اور میں
اسکی جگہ سب سے آخر میں کھیلوں گا۔چنانچہ اس نے بیٹنگ کیلئے پیڈباندھ لئے جبکہ میں
کسی ایسے ہی موقعے کی تلاش میں تھا۔ میں نے فیصلہ سنایا کہ' میں اپنے نمبر پر اوپن
ہی کروں گا'۔سب سمجھے کہ میں مذاق کر رہا ہوں لیکن میں سنجیدہ تھا۔ اس پر انہو ں
نے یہی سمجھا کہ چونکہ انہوں نے مجھے زنخا کہا تھا اور میری بے عزتی کی تھی اس لئے
میں ان سے بدلہ لے رہا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے معافی مانگی لیکن میں نہ مانا۔ وارونا
نے مورگا کو منانے کی کوشش کی تو اس نے پیڈ اتار کر پھینک دئیے اور کہا کہ' وہ
اپنی ٹیم تبدیل کر رہا ہے۔'
اوہ نہیں!
تم ایسا نہیں کر سکتے'، وارونا نے سٹپٹاتے ہوئے کہا۔
'مورگا اپنی
ٹیم چھوڑ کرمینا کی ٹیم کی طرف چل پڑا۔ یہ دیکھ کر وارونا دانت
پیستا ہوا میری طرف لپکا، مجھ سے بیٹ
چھین لیا اور کہا کہ' چلے جاؤ!میں تمہیں اپنی ٹیم میں شامل نہیں کرتا۔ ہمیں تمہاری
ضرورت نہیں' اور مورگا کو واپس لانے کے لئے مڑا۔
میں نے
چیختے ہوئے کہا،' تم دھوکے باز ہو.... دھوکے باز ہو ، کوا
کھانے والے! میری پہلی باری ہے اس لئے میں اپنے نمبر پر ہی کھیلوں گا۔
میں نے پہلے نمبر پر کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں گیم کے اصول کے مطابق اپنی باری
ہی لوں گا۔'
میں حد سے
بڑھ گیا تھا۔ وارونا نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور میرے چہرے کے تا ئثرات دیکھ
کرمیرے حقیقی ارادہ بھانپ گیا کہ میں اس پر الزام لگا کر کرکٹ کھیلنے سے بچنے کا
ناٹک کر رہا ہوں۔ وہ میری طرف بلا لے کر لپکا۔ میں بھاگ کر گھر میں داخل ہو گیا
اور کنڈی چڑھا دی۔ اس نے دروازے کی جالی سے منہ لگا کر غصے سے کہا کہ اگر تم
کبھی میدان کے قریب بھی نظر آئے تو پچھتاؤ گے۔
'فکر نہ
کرو، میں کبھی بھی نہیں آؤں گا۔ مجھے اس کھیل کی کوئی پرواہ نہیں، 'میں
نے منہ چڑاتے ہوئے کہا۔ اپنی اس تدبیر سے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے سے تو فارغ
ہوا۔ چلو ایک مسئلہ تو حل ہوا۔
راہداری عبور
کرتے ہوئے میں اب لڑکیوں کی ٹیم کی جانب بڑھ گیا۔اس وقت لڑکیوں کی ٹیم میں شادی کی
تیاری ہو رہی تھی۔ شادی کا کیک تیار کیا جا رہا تھا۔ اس میں گیلی مٹی سے تین منزلہ
تہیں بنا دی گئی تھیں۔ انہیں ناریل کے خول سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ اس کے اوپر بھی
ایک پتلی سی مٹی کی تہہ بنا دی گئی تھی۔ موٹی کزن تنوجا نے آج میری جگہ سنبھال لی
تھی۔ وہ انہیں ہدایات دے رہی تھی اور تمام لڑکیاں اس کی
ہدایات پر عمل کر رہی تھیں۔ میں کچھ دیر دیکھتا رہا۔ سب سے پہلے سونالی کی نظر مجھ
پر پڑی اور مسکرا کر میرا نام پکا را۔ ارجی!اس پر لکشمی اور دوسری لڑکیوں نے
مجھے مدعو کیا کہ شادی کی رسوم میں شرکت کروں ۔ تنوجا
نے میری طرف دیکھا اور غصے سے کہا ۔' تم کیا چاہتے ہو؟' میں تھوڑا سا
آگے ہوا تو وہ اپنے تیز قدموں سے میری طرف آئی اور سانپ کی طرح پھنکارتے ہوہے کہا
۔
'یہاں لڑکوں کو
آنے کی اجازت نہیں۔'
میں نے اس کے
تلخ لہجے کو نظرانداز کرتے ہوئے ذرا سا آگے بڑھا تو اس نے
دھاڑتے ہوئے کہا، چلے جاؤ ورنہ میں دادی ماں سے شکایت کر دوں گی۔
میں نے ایک لمحے
کے لئے اسے دیکھا اور فوراً نظریں نیچی کر لیں تا کہ وہ میری نفرت نہ دیکھ
سکے۔
'میں بھی
"دلہن۔ دلہن" کھیل میں شرکت کرنا چاہتا ہوں، 'میں نے ملتجی ہو کر کہا۔
"دلہن۔
دلہن"؟ اس نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
' ہاں، 'میں
نے شرماتے ہوئے کہا۔
سونالی نے تنوجا
کو کہا کہ' وہ بھلا "دلہن۔دلہن" کیوں نہیں کھیل سکتا؟وہ
کھیلتا رہا ہے اور بہت عمدہ کردار نبھاتا ہے۔ 'ٹیم کے باقی اراکین نے بھی اس کی
تائید کی۔
' میرے پاس
وہ ہے جس کے بغیر یہ کھیل تمہارے لئے غیر دلچسپ ہو جائے گا۔ میرے پاس وہ ہے جو
تمہارے پاس نہیں، 'میں نے اسے آگاہ کیا۔
' وہ
کیا ہے جس کے بغیر میرے لئے کھیل دلچسپ نہ رہے گا؟' تنوجا
نے نفرت انگیز لہجے میں پوچھا۔
'ساڑھی! 'میں نے
کہا۔
اس کے
چہرے پر شرمندگی کے آثار پیدا ہوئے۔' وہ ساڑھی کدھر ہے؟' اس نے جاننا چاہا۔
'وہ ایک
راز ہے، 'میں نے جواب دیا۔
'اچھا تو یہ بات
ہے! ' اس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔' سب کردار بانٹے جا چکے
ہیں۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔'
' میں کسی
قسم کا کردار بھی ادا کرنے کے لئے تیار ہوں، 'میں نے عاجزی سے کہا۔' قائد کرداروں
میں رد و بدل کر سکتا ہے۔'
'کوئی سا بھی
کردار؟ 'اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔
'ہاں۔ کوئی سا
بھی!' میں نے حلیم لہجے میں کہا۔ تمام ٹولی نے حمایت کر دی۔
'تم جانتے ہوکہ'.......وہ
یہ کہہ کر سوچ میں پڑ گئی، پھر اس کے ذہن میں یکایک کوئی خیال آیا۔' تمہیں دولہے
کا کردار دیا جا سکتا ہے۔ '
' مجھے
منظور ہے'، میں نے فوراً ہاں کر دی۔ یہ وہ کردار تھا جو سب سے کم اہمیت کا تھا۔
میں اس بات سے مطمئن تھا کہ شکر ہے کہ میری انٹری تو ہوئی۔
'او۔کے،' تنوجا
نے کہا۔ اس پر تمام "دلہن-دلہن"ٹولی خوش ہو گئی۔
سونالی نے مجھے
بلا کر کہا کہ' آؤ اور ٹیم کا ہاتھ بٹاؤ۔'
اس وقت ٹیم
کھانا پکا رہی تھی۔ میں اس میں شامل ہونے کے لئے آگے بڑھا تو تنوجا نے یہ کہہ کر
منع کر دیا کہ دولہے کھانا نہیں بناتے۔
'میں نے
احتجاجاً کہا، 'کیوں نہیں؟ '
' کیونکہ
دولہے کھانا بنانے میں مدد نہیں کرتے،
'تنوجا نے کہا۔
' تووہ
کیاکرتے ہیں؟'میں نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
' کیا
تم نے سنا ہے کہ دولہا کبھی کھانا بناتا ہو؟ ' تنوجا نے پوچھا۔
' تو وہ
کرتا کیا ہے؟ 'میں نے تنگ آکر پوچھا۔
'وہ دفتر جاتا
ہے'، اس نے جواب دیا۔
' دفتر!؟ '
میں نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔
''ہاں! اس
نے پاس پڑے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے رویے سے پتہ چل گیا
تھا کہ وہ اس موضوع پر مزید کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتی۔
'میں دفتر نہیں
جا سکتا۔ اتوار کو چھٹی ہوتی ہے؟' میں نے پوچھا۔
ہم یہ فرض کر
رہے ہیں کہ آج سوموار ہے، اس نے کہا۔
میں نے اس کی
طرف گھور کر دیکھا۔ مجھے سبکی محسوس ہو رہی تھی وہ میرے رول کو غیر اہم سے مزید
غیر اہم بنا رہی تھی۔
میں نے کچھ سوچا
پھر میزکی طرف گیا۔ ایک پتھر نزدیک پڑا تھا، میں نے اٹھایا اور اس سے میز بجانے
لگا۔ سونالی کو اپنے پاس بلایا اور کہا' لڑکے! یہ خط منیجر کو دے آؤ۔'
وہ ایسی اداکاری سے میرے پاس آئی جیسے ابا کے دفتر کا
چپڑاسی سہما ہوا آتا ہے۔ تمام ٹیم اب میری طرف دلچسپی سے دیکھنے لگی۔ میں نے"
لکشمی" کو بلایا اور پتھر سے میز بجا تے ہوئے کہا کہ ؛'لڑکے ادھر
آؤ! بہت سی ڈاک بھیجنی ہے۔آؤ! ڈکٹیشن لے لو'۔ وہ مٹکتی ہوئی میرے پاس
آنے لگی۔' جی جناب! جی جناب! آرہا ہوں، آ رہا ہوں'۔ وہ ٹھمکے لگا لگا کر مضحکہ خیز
انداز میں بڑھی تو پوری ٹیم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگی۔ اس کے ساتھ ہی ہر ایک نے
ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہا کہ 'میں بھی..... میں بھی! مجھے بھی بلاؤ۔'
اس سے پہلے کہ
میں کسی اور کو بلاؤں تنوجا آگے بڑھی اور کہا' ختم کرو، ختم کرو۔ تم میرے کام میں
مداخلت کر رہے ہو۔ '
'نہیں! '.....
لیکن پوری ٹیم اس وقت میرے ساتھ تھی۔
'اگر تم رویہ
درست نہیں کرسکتے تو نکل جاؤ، 'تنوجا نے کہا۔
اور ساڑھی؟ میں
نے اسے یاد دلایا۔ اگر میں یہاں سے چلا جاؤں گا تو ساڑھی تمہیں
کون دے گا؟ '
'ساڑھی! کون سی
ساڑھی؟ 'کچھ دیر وہ کھڑی ہو کر سوچتی رہی پھر کہا کہ میں تمہارے ساتھ شرط لگا سکتی
ہوں کہ تمہارے پاس کوئی ساڑھی نہیں ہے۔
'ہاں!میرے پاس
ساڑھی ہے،'میں نے اعتماد سے کہا۔
'کہاں ہے؟' اس
نے پوچھا۔
' ایک راز
ہے'، میں نے کہا۔
' مجھے دکھاؤ
پھر،اس نے کہا۔تمہارے پاس کچھ نہیں ہے۔ تم بلف کر رہے ہو۔ میں
جانکی کے پاس تمہاری شکایت کرنے جا رہی ہوں کہ تم ہمیں کھیلنے نہیں دے رہے۔ '
وہ دھمکی دیتے
ہوئے تیزی سے چلتی ہوئی جنانکی کے پاس چلی گئی۔ میں
نے کوئی رد عمل نہ دیا۔ جب تھوڑی دیر ہو گئی اور وہ نہ آئی تو
میں باہر نکل کر دیکھنے لگا۔ اسی وقت وہ جنانکی کے کمرے سے نکل کر واپس آ
رہی تھی۔
تنوجا نے مجھے
دیکھ کر کہا، 'میں نے کوئی
شکایت نہیں لگائی اب تو ساڑھی دے دو۔'
میں نے
سونالی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا،ساڑھی کہاں ہے۔ اس نے جنانکی کے کمرے
کی طرف اشارہ کیا۔ میں جنانکی کے کمر ے میں چلا گیا تو سونالی کا تھیلا
بستر پر پڑا تھا۔ میں نے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور ساڑھی نکالنا چاہی تو میرے ہاتھ
سونالی کی کتاب اور قمیص آ ئی۔ اس میں ساڑھی نہ تھی۔ میں واپس
سونالی کے پاس گیا اور اسے اشارے سے بتایا کہ ساڑھی تو وہاں نہیں تھی۔
سونالی کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ اس نے اشارہ کیا کہ اس نے ساڑھی تھیلے میں ہی
رکھی تھی۔
'جھوٹا......جھوٹا.....دیوار
پر بھی لکھا ہے کہ تم دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے ہو'، تنوجا نے کہا۔
میں دوبارہ
جنانکی کے کمرے میں گیا ۔ کہیں وہ بستر کے نیچے نہ گر گئی ہو۔ میٹریس اٹھا کر
دیکھا تو وہاں بھی نہیں تھی۔ میں واپس گیا توتنوجا کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ تھی۔
میں اس کی چالاکی سمجھ گیا۔ اس نے وہ ساڑھی پار کر دی تھی۔ میں نے سوچا کہ وہ
ساڑھی کہاں چھپا سکتی تھی۔ ہمارے کھیلنے کے حصے میں صرف جناکی کا کمرہ ہی ایسی تھا
جہاں وہ ایسا کر سکتی تھی، اور اس میں اس کی کپڑوں کی الماری ہی موزوں ترین جگہ
تھی۔ میں جنانکی کے کمرے میں گیا اور الماری کھول کر دیکھنے ہی لگا تھا کہ تنوجا
جلدی سے کمرے میں آئی۔ جھپٹ کر کپڑوں کے ڈھیر سے ساڑھی نکالی اور بھاگ گئی۔میں نے
الماری کھلی ہی رہنے دی اور اسکے پیچھے بھاگا۔ وہ کھیل والی جگہ جا رہی تھی۔ جب اس
نے مجھے آتے ہوے دیکھا تو اس نے اپنا رخ ڈرائینگ روم کی طرف کر لیا جہاں دادا دادی
تھیں۔ رستے میں کچن تھا جہاں جنانکی کھانا بنانے میں مصروف تھی۔تنوجانے ساڑھی
چھاتی سے لگا رکھی تھی۔ میں نے سوچا کہ اسے ہر صورت وہاں پہنچنے نہ دیا جائے۔ میں
نے اس کا بازو پکڑ لیا، اس نے مجھے دھکا دیا اور اپنا بازو چھڑا لیا لیکن اس دوران
ساڑھی کا ایک سرا میرے ہاتھ میں آ گیا۔ میں نے ساڑھی اس کی گرفت سے
آزاد کروانے کے لئے زور لگایا تو چررررررر کی آواز آئی۔ ساڑھی پہلے ہی مخدوش حالت
میں تھی اور اس کا ایک حصہ میرے ہاتھ میں آ گیا۔ یہ دیکھ کر میرا غصہ طیش میں بدل
گیا۔ میں نے وحشیانہ طریقے سے اس کے بال پکڑ لئے۔ اس نے بھی چیخ ماری اور مجھے زور
زور سے پیٹنے لگی۔ میں نے اس کے بالوں کو اتنی طاقت سے کھینچا کہ اس کا سر اس کے
کندھے سے لگ گیا۔ وہ تکلیف سے مینڈکی کی طرح ٹرٹر کرنے لگی،پورا زور لگا کر دادا ۔۔۔دادی
پکارنے لگی اور مجھے دولتیاں اور مکے مارنے لگی۔ جس سے میرے ہاتھ سے اس کے
بال چھوٹ گئے اور وہ خوفزدہ ہو کر مدد... مدد....پکارنے لگی۔ میں نے
اسے پکڑنا چاہا تو اس کی آستین میرے ہاتھ آ گئی۔ اس نے زور لگایا تو اس کی قمیص کا
پورا بازو پھٹ کر الگ ہو گیا۔ وہ اور اونچا چیخ چیخ کر کہنے لگی '
مجھے بچاؤ..... دیکھو اس لڑکے نے میرا کیا حال کر دیا ہے۔ مجھے اس وحشی
سے بچاؤ .'... کہہ کربھاگتی رہی۔ اس کی چیخوں سے جنانکی باہر نکلی اور تنوجا بھاگ
کراس کے گلے لگ گئی۔ وہ اسے چپ کرانے لگی اور میں وہاں سے نکل
لیا۔
میں ننگے پاؤں
ساحل پر بیٹھا لہروں کا نظارہ کر رہا تھا۔ متوازن اور ہم آہنگ انداز سے
آ نے والی لہریں میرے اعصاب کو سکون پہنچا رہی تھیں۔ دوپہر کی گرمی کی
وجہ سے ریت آگ بن ہی تھی۔ میں اٹھا اور اپنی چپل پہن کر بھیگی ریت پر چلا
گیا تاکہ گرمی کی حدت کم ہو سکے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں پہلی بار اس جگہ آیا تھا
بلکہ بے شمار دفعہ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آیا ہوا تھا۔ وہ
بھی دن ڈھلے۔ اس وقت گرمی نہیں ہوتی تھی۔ بہت چہل پہل ہوتی تھی، بچے، جوان،
بوڑھے بچہ گاڑیوں (سٹرولوں) کے ساتھ لطف اندوزی کے لئے آتے تھے۔ ان کے
علاوہ بے شمار رہڑیوں والے چٹ پٹی اشیا کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ لیکن
آج معاملہ الٹا تھا۔شکر دوپہر تھی اور میں اکیلا آیا تھا اسلئے معاملہ یکسر مختلف
تھا اور ساحل سنسان تھا۔ لہریں اور ریت کی رنگت ایک ہی جیسی تھی۔جبکہ شام کو ان کا
رنگ فیروزی ہوتا تھا اور دور کھڑی عمارات ایک سراب کی طرح چمک رہی ہوتی
تھیں۔ میں اپنے اندر غیر معمولی تبدیلی محسوس کر رہا تھا لیکن تمام
حواس سن اور دماغ ماؤف ہونے کی وجہ سے حقیقت کا اندازہ نہیں ہو پا رہا
تھا۔ صحیح بات کا پتہ نہیں تھا۔
سمندر کی طویل
لہریں کناروں سے ٹکر ا رہی تھیں۔ جھاگ سانپ کی پھنکار پیدا کر
رہی تھی۔ جلدہی مجھے وہ جگہ چھوڑ کر دادا دادی کے حضور پیش ہونا تھا۔ جہاں دادی
اپنے بید کے ساتھ میرا شدت سے انتظار کر رہی تھیں۔ میری کمر اور رانوں پر پوری قوت
سے اتنے بید پڑنے والے تھے جتنی مجھے گنتی بھی نہیں آتی تھی۔ سزا اور
بھی سوا ہو جانی تھی کیونکہ میں نے نہ تو دوپہر کا
کھانا ان کے ساتھ کھایا تھا او نہ ہی سہ پہر کی چائے ان کے ساتھ پی
تھی۔
میں نے
اجڑی آنکھوں سے پھٹی ہوئی ساڑھی کو دیکھا۔ اسے چٹان سے اٹھایا اور سوچا کہ
میری دنیا ختم ہو گئی ہے۔ اب میں کبھی بھی لڑکیوں سے نہیں کھیل سکوں گا۔ جنانکی کے
قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکوں گا۔ ساڑھی نہیں پہن سکوں گا۔
میک اپ نہیں کر سکوں گا اور.......کبھی بھی "دلہن۔ دلہن" ڈرامے میں حصہ
نہیں لے سکوں گا۔ میں نے ویران آنکھوں سے سمندر کو بڑی حسرت سے
دیکھا اور سوچا کہ شاید میں آخری بار اسے دیکھ رہا ہوں۔ سڑک پر جانے کے
لئے چٹان پر چڑھنے لگا۔ سر چکرایا ،میں گر پڑا اور سر پر
چوٹ سے سدھ بدھ گنوا بیٹھا۔ آنکھ کھلی تو ہسپتال میں تھا اور پورا
خاندان میرے ارد گرد جمع تھا۔